2,205

غنیۃ الطالبین اور شیخ عبد القادر جیلانی، حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ


غنیۃ الطالبین اور شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ
غنیۃ الطالبین،شیخ عبد القادر جیلانی بن عبد اللہ بن جنکی دُوست رحمہ اللہ (561-488ھ)کی تصنیف ہے۔اس کی سند شیخ جیلانی رحمہ اللہ تک ’’صحیح‘‘ہے، جیسا کہ :
1 محدثِ عراق عمر بن علی بن عمر قزوینی رحمہ اللہ (750-683ھ)فرماتے ہیں :
وَجَمِیعُ مُؤَلَّفَاتِ الْإِمَامِ الْعَارِفِ مُحْیِي الدِّینِ أَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدِ الْقَادِرِ ابْنِ أَبِي صَالِحِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْجِیلِيِّ، رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، کَکِتَابِ (الْغُنْیَۃِ)، وَغَیْرِہٖ، مَعَ جَمِیعِ مَرْوِیَّاتِہٖ، أَرْوِیہَا عَنْ أَبِي عَبْدِ اللّٰہِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ، وَأَبِي بَکْرِ بْنِ أَبِي السَّعَادَاتِ بْنِ مَنْصُورٍ الْـأَنْبَارِيِّ الْخَطِیبِ، وَالْقَاضِي سُلَیْمَانَ بْن رحمہ اللہ ِ حَمْزَۃَ بْنِ أَحْمَدَ الْمَقْدِسِيِّ وَغَیْرِہِمْ إِجَازَۃً، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ أَحْمَدَ بْنِ یَعْقُوبَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْمَارَسْتَانِيِّ کَذٰلِکَ، عَنِ الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجِیلِيِّ کَذٰلِکَ.ح، وَبِرِوَایَۃِ الْـأَوَّلِ أَیْضًا، عَنْ نَّقِیبِ النُّقَبَائِ مَتِینِ الدِّینِ أَبِي الْقَاسِمِ ہِبَۃِ اللّٰہِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ ابْنِ الْمَنْصُورِ بِاللّٰہِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَغَیْرِہٖ، إِجَازَۃً أَیْضًا، عَنِ الشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ کَذٰلِکَ . ’’شیخ، امام،عارف،محی الدین،ابومحمد،عبدالقادر بن ابوصالح بن عبد اللہ جیلی رحمہ اللہ کی تمام تصانیف،مثلاً غنیۃ الطالبین وغیرہ اور ان کی تمام روایات میں درج ذیل سند سے بیان کرتا ہوں: میں اپنے اساتذہ ابوعبد اللہ محمدبن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم، ابوبکر بن ابوالسعادات بن منصور انباری خطیب،قاضی سلیمان بن حمزہ بن احمد مقدسی وغیرہ سے اجازتاً بیان کرتا ہوں۔وہ سب ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی سے اسی طرح اجازتاً بیان کرتے ہیں اور وہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے اسی طرح۔دوسری سند یوں ہے کہ میرے وہی تینوں اساتذہ امیر المومنین،نقیب النقباء ،متین الدین،ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبدالقادر بن منصور باللہ وغیرہ سے اجازتاً روایت کرتے ہیں اور وہ شیخ عبد القادر رحمہ اللہ سے اسی طرح بیان کرتے ہیں۔‘‘(مشیخۃ القزویني، ص : 535)
اب اس سند کے تمام راویوں کی توثیق ملاحظہ فرمائیں :
(ا) محدثِ عراق علی بن عمر قزوینی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اَلْحَافِظُ الْکَبِیرُ، مُحَدِّثُ الْعِرَاقِ، سِرَاجُ الدِّینِ ۔
’’آپ بہت بڑے حافظ اور عراق کے محدث تھے۔آپ کا لقب سراج الدین تھا۔‘‘
(الدرر الکامنۃ في أعیان المائۃ الثامنۃ : 211/4)
(ب) ابوعبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن عمر بن ابوالقاسم بغدادی(707-623ھ)کے بارے میں خود قزوینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلشَّیْخُ، الْعَالِمُ، رَشِیدُ الدِّینِ، الْمُقْرِیُٔ ۔
(مشیخۃ القزویني : 294)
ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْعَالِمُ، الْمُحَدِّثُ، الصَّادِقُ، الْخَیِّرُ، بَقِیَّۃُ السَّلَفِ، رَشِیدُ الدِّینِ، أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ بْنُ أَبِي الْقَاسِمِ، الْبَغْدَادِيُّ، الْمُقْرِیُٔ، الْمُحَدِّثُ، شَیْخُ الْمُسْتَنْصِرِیَّۃِ ۔
(معجم الشیوخ الکبیر : 204/2)
(ج) خطیب ابوبکر انباری(710-628ھ)کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، نَجْمُ الدِّینِ ۔ (العبر في خبر من غبر : 26/4)
حافظ صفدی رحمہ اللہ (764-696ھ)ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
اَلْإِمَامُ، الْفَاضِلُ، نَجْمُ الدِّینِ ۔(الوافي بالوفیّات : 99/17)
(د) اپنے شیخ سلیمان بن حمزہ بن احمد بن عمر قاضی(715-628ھ)کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکَانَ کَیِّسًا، مُتَوَاضِعًا، حَسَنَ الْـأَخْلَاقِ، وَافِرَ الجَلَالَۃِ، ذَا تَعَبُّدٍ، وَتَھَجُّدٍ، وَإِیثَارٍ ۔
’’وہ دانا،متواضع،خوش اخلاق،جلیل القدر،عابد،تہجد گزار اور ایثاروالے تھے۔‘‘
(المعجم المختصّ بالمحدّثین، ص : 105، معجم الشیوخ الکبیر : 268/1)
حافظ صفدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : اَلشَّیْخُ، الْإِمَامُ، الْمُفْتِي الْمَذْہَبِ، مُسْنِدُ الشَامِ ۔ ’’وہ شیخ، امام، اپنے مذہب کے مفتی اور شام کے محدث تھے۔‘‘
(الوافي بالوفیّات : 228/15)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)فرماتے ہیں :
اَلْقَاضِي، الْمُسْنِدُ، الْمُعَمَّرُ، الرُّحْلَۃُ ۔
’’وہ قاضی تھے اور بڑی عمر کے محدث تھے۔انہوں نے طلب ِعلم میں بہت زیادہ سفر کیے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 85/14، طبع دار إحیاء التراث العربي)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں :
مُسْنِدُ الْمِصْرِ، وَکَانَ جَیِّدَ الْإِیرَادِ لِدُرُوسِہٖ ۔
’’مصر کے محدث تھے اور اپنے اسباق بخوبی پڑھاتے تھے۔‘‘(الدرر الکامنۃ : 241/2، وفي نسخۃ : 285/2، الرقم : 1837)
(ھ) ابوالعباس احمد بن یعقوب بن عبد اللہ مارستانی(639-545ھ)کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلشَّیْخُ، الْمُسْنِدُ، وَکَانَ صَالِحًا، خَیِّرًا، مُعَمَّرًا، وَسَمَاعُہٗ صَحِیحٌ، وَکَانَ رَجُلًا صَالِحًا ۔
’’وہ شیخ اور محدث تھے۔بڑی عمر کے نیک اور دین دار شخص تھے۔ان کا سماع صحیح تھا اور وہ پرہیزگار آدمی تھے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 78-77/23)
حافظ ابن نقطہ (629-579ھ)فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ مِنْہُ، وَسَمَاعُہٗ صَحِیحٌ، وَکَانَ رَجُلًا صَالِحًا ۔
’’میں نے اس سے احادیث سنی ہیں۔اس کا سماع صحیح ہے اور یہ نیک شخص تھا۔‘‘
(تاریخ الإسلام للذھبي : 285/14، بتحقیق بشّار)
(و) ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد بن عبد القادر بن منصور کے بارے میں قزوینی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں : نَقِیبُ النُّقَبَائِ، مَتِینُ الدِّینِ ۔ (مشیخۃ القزویني، ص : 535)
یوں یہ ساری سند بالکل صحیح ہے اور اس سند سے غنیۃ الطالبین،شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ سے ثابت ہے۔ والحمدللّٰہ!
2 حافظ ذہبی رحمہ اللہ ،احمدبن مطیع بن مطیع ابوالعباس باجسرائی(م : 621ھ)کے بارے میں لکھتے ہیں : صَحِبَ الشَّیْخَ عَبْدَ الْقَادِرِ، وَقَرَأَ عَلَیْہِ کِتَابَ [الْغُنْیَۃِ] تَصْنِیفَہٗ ۔ ’’وہ شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ کے پاس رہے اور ان پر ان کی تصنیف غنیۃ الطالبین پڑھی۔‘‘(تاریخ الإسلام : 662/13، بتحقیق بشّار، 45/45، بتحقیق التدمري)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ ہی کی تصنیف سمجھتے تھے۔
3 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔(الفتاوی الحمویّۃ : 477، بیان تلبیس الجہمیّۃ : 214/1)
4 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ)لکھتے ہیں : وَقَدْ صَنَّفَ کِتَابَ [الْغُنْیَۃِ]، وَ [فُتُوحِ الْغَیْبِ] ۔ ’’شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین اور فتوح الغیب نامی کتابیں تصنیف کی ہیں۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 313/12، طبع دار إحیاء التراث)
5 حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (795-736ھ)فرماتے ہیں :
وَلَہٗ کِتَابُ [الْغُنْیَۃِ لِطَالِبِي طَرِیقِ الْحَقِّ]، وَھُوَ مَعْرُوفٌ ۔ ’’آپ کی کتاب الغنیۃ لطالبی طریق الحق معروف ہے۔‘‘ (ذیل طبقات الحنابلۃ : 199-198/2)
نیز فرماتے ہیں : وَلِلشَّیْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی کَلَامٌ حَسَنٌ فِي التَّوْحِیدِ، وَالصِّفَاتِ، وَالْقَدَرِ، وَفِي عُلُومِ الْمَعْرِفَۃِ مُوَافِقٌ لِّلسُّنَّۃِ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَکَانَ مُتَمَسِّکًا فِي مَسَائِلِ الصِّفَاتِ، وَالْقَدَرِ، وَنَحْوِہِمَا بِالسُّنُّۃِ، بَالِغًا فِي الرَّدِّ عَلٰی مَنْ خَالَفَہَا، قَالَ فِي کِتَابِہِ [الْغُنْیَۃِ] الْمَشْہُورِ : وَہُوَ بِجِہَۃِ الْعُلُوِّ مُسْتَوٍ عَلَی الْعَرْشِ، مُحْتَوٍ عَلَی الْمُلْکِ مُحِیطٌ عِلْمُہٗ بِالْـاَشْیَائِ : {اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ}(فاطر35 : 10)، {یُدَبِّرُ الْـاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْـاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِيْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ ٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ}(السجدۃ 32 : 5)، وَلَا یَجُوزُ وَصْفُہٗ بِأَنَّہٗ فِي کُلِّ مَکَانٍ، بَلْ یُقَالُ : إِنَّہٗ فِي السَّمَائِ عَلَی الْعَرْشِ، کَمَا قَالَ : {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} (طٰہٰ20: 5)، وَذَکَرَ آیَاتٍ وَّاَحَادِیثَ، إِلٰی أَنْ قَالَ : وَیَنْبَغِي إِطْلَاقُ صِفَۃِ الِاسْتِوَائِ مِنْ غَیْرِ تَاْوِیلٍ، وَأَنَّہُ اسْتِوَائُ الذَّاتِ عَلَی الْعَرْشِ، قَالَ : وَکَوْنُہٗ عَلَی الْعَرْشِ مَذْکُورٌ فِي کُلِّ کِتَابٍ أُنْزِلَ عَلٰی کُلِّ نَبِيٍّ أُرْسِلَ، بِلَا کَیْفٍ، وَذَکَرَ کَلَامًا طَوِیلًا، وَذَکَرَ نَحْوَ ہٰذَا فِي سَائِرِ الصِّفَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ نے توحید ، صفات ِباری تعالیٰ ، قضاء وقدر اور علومِ معرفت کے بارے میںسنت کے موافق گفتگو فرمائی ہے۔آپ رحمہ اللہ صفات ِباری تعالیٰ اور تقدیر وغیرہ کے مسائل میںسنت کولازم پکڑتے تھے اورمخالفینِ سنت کا سختی سے ردّ فرماتے تھے۔ ۔۔آپ نے اپنی مشہور کتاب غنیۃالطالبین میںفرمایا ہے :اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔وہ تمام کائنات پر حاوی ہے اوراس کا علم تمام اشیاء کو محیط ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ}(فاطر35 : 10)، نیز فرمایا :{یُدَبِّرُ الْـاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْـاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِيْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ ٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ}(السجدۃ 32 : 5)۔اللہ تعالیٰ کے ہر جگہ ہونے کا عقیدہ رکھنا حرام ہے،عقیدہ یہ رکھا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ آسمانوںکے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :{اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} (طٰہٰ 20: 5)۔ شیخ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر اور بھی کئی آیات واحادیث ذکر کی ہیں۔پھر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی صفت ِاستواء کو بغیرتاویل کے تسلیم کیا جائے گا۔یہ عرش پر ذاتِ باری تعالیٰ کا استواء ہے۔شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پر ہونا ہر مرسل نبی پر نازل شدہ کتاب میں درج ہے۔اس کی کوئی کیفیت بیان نہیںکی گئی۔ پھر شیخ نے لمبی بحث کی ہے۔ اسی طرح انہوںنے باقی صفات کے بارے میں بھی کتاب و سنت کے مطابق بات کی ہے۔۔۔‘‘(ذیل طبقات الحنابلۃ : 200-199/2)
6،7 علامہ ابن القیم(751-691ھ)(اجتماع الجیوش الإسلامیّۃ : 227/2)اور علامہ مرداوی(م : 885ھ)(الإنصاف في معرفۃ الراجح من الخلاف : 73/3)نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ رحمہ اللہ کی تصنیف تسلیم کیا ہے۔
8 ابن مفلح مقدسی(763-708ھ)لکھتے ہیں : وَقَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ فِي الْغُنْیَۃِ ۔ ’’شیخ عبدالقادر رحمہ اللہ نے غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔‘‘
(الآداب الشرعیّۃ : 107/1)
9 حافظ سیوطی کے استاذ سفیری(956-877ھ)کہتے ہیں :
وَقَدْ قَالَ الْعَارِفُ بِاللّٰہِ الرَّبَّانِيُّ، سَیِّدِي عَبْدُ الْقَادِرِ الْکَیْلَانِيُّ فِي کِتَابِہٖ [الْغُنْیَۃِ] ۔ ’’عارف باللہ ربانی،سیدی عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔‘‘(شرح البخاري : 100/2)
0 محمد بن یوسف صالحی شامی(م : 942ھ)لکھتے ہیں :
وَقَالَ الشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ الْکِیلَانِيُّ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَنَفَعَ بِہٖ، فِي کِتَابِ [الْغُنْیَۃِ] ۔ ’’شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرمایا ہے۔‘‘
(سبل الہدٰی والرشاد في سیرۃ خیر العباد : 282/7)
! علامہ ابن عماد(م : 1089ھ)لکھتے ہیں : وَالشَّیْخُ عَبْدُ الْقَادِرِ الْجِیلِيُّ الزَّاہِدُ، صَاحِبُ [الْغُنْیَۃِ] ۔ ’’شیخ زاہد عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ جنہوں نے غنیۃ الطالبین کتاب تصنیف کی ہے۔‘‘(شذرات الذہب : 45/6)
@ ابن حجر مکی(م : 974ھ)نے بھی غنیۃ الطالبین کو شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف قرار دیا ہے۔(الفتاوی الحدیثیّۃ : 145)
# ملاعلی قاری حنفی ماتریدی(م : 1014ھ)لکھتے ہیں : وَوَقَعَ فِي [الْغُنْیَۃِ] لِلْقُطْبِ الرَّبَّانِيِّ السَّیِّدِ عَبْدِ الْقَادِرِ الْجِیلَانِيِّ أَنَّہٗ لَمَّا ذَکَرَ الْفِرَقَ الضَّالَّۃَ، قَالَ : وَأَمَّا الْحَنَفِیَّۃُ، فَفِرْقَۃٌ مِّنَ الْمُرْجِئَۃِ، وَھُمْ أَصْحَابُ أَبِي حَنِیفَۃَ نُعْمَانَ بْنِ ثَابِتٍ ۔ ’’قطب ربانی سید عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں گمراہ فرقوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ احناف جو کہ ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کے اصحاب ہیں،وہ (گمراہ فرقے)مرجیہ کا ایک گروہ ہیں۔‘‘(شرح مسند أبي حنیفۃ : 454، مرقاۃ المفاتیح في شرح مشکاۃ المصابیح : 1501/4، ح : 2199)
اس کتاب کے کچھ اور نام بھی مذکور ہیں، جیسا کہ علامہ یوسف بن حسن بن احمد بن عبد الہادی دمشقی صالحی(م : 909ھ)(معجم الکتب : 91)،علامہ چلپی(م : 1067ھ)(کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون : 1211/2)،علامہ زرکلی(م : 1396ھ)(الأعلام : 47/4)اور علامہ ابن رجب(ذیل طبقات الحنابلۃ : 199-198/2)نے اسے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی کتابوں میں ذکر کرتے ہوئے اس کا نام ’’الغنیۃ لطالبي طریق الحق‘‘ یا ’’الغنیۃ لطالب طریق الحق‘‘ ذکر کیا ہے۔بعض اہل علم نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ (902-831ھ)کی کتب میں ’’البغیۃ فيتخریج احادیث الغنیۃ‘‘کوبھی ذکر کیا ہے۔
ہم انہی حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔سمجھ دار اور منصف مزاج شخص کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ غنیۃ الطالبین، شیخ عبد القادرجیلانی رحمہ اللہ سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔بعض لوگوں کی طرف سے اس کا انکار کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔
ہمارے علم کے مطابق دنیا میں سب سے پہلے مشہور صوفی عبد الحق بن سیف الدین دہلوی(م : 1052ھ) نے اس کتاب کے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی تصنیف ہونے کا انکار کیا۔ اس کے ردّ میں علامہ عبد الحئی لکھنوی حنفی(1304-1264ھ)نے لکھا :
أَمَّا أَوَّلًا، فَلِأَنَّ نِسْبَتَھَا إِلَیْہِ مَذْکُورَۃٌ فِي کُتُبِ ابْنِ حَجَرٍ وَّغَیْرِہٖ، مِنَ الْـأَکَابِرِ، فَإِنْکَارُ کَوْنِھَا مِنْ تَصَانِیفِھَا غَیْرُ مَقْبُولٍ عِنْدَ الْـأَوَاخِرِ ۔
’’یہ دعویٰ کئی وجہ سے مردود ہے،سب سے پہلے تو اس وجہ سے کہ شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف غنیۃ الطالبین کی نسبت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ جیسے اکابر اہل علم کی کتب میں مذکور ہے،لہٰذا متاخرین کی طرف سے اس کا انکار قابل التفات نہیں۔۔۔‘‘
(الرفع والتکمیل في الجرح والتعدیل، ص : 380)
جناب احمد رضا خان بریلوی(1921-1856ئ)لکھتے ہیں :
’’محدث دہلوی کا تو خیال ہے کہ عبد القادر جیلانی کی تصنیف ہی نہیں،مگر یہ نفی مجرد ہے۔‘‘(فتاویٔ رضویہ : 222/29)
جناب احمدیار خان بدایونی بریلوی (1971-1906ئ)لکھتے ہیں :
’’حضور غوث ِپاک غنیۃ الطالبین جلد دوم ، ص : 48میںفرماتے ہیں۔۔۔‘‘
(تفسیر نعیمی، پارہ سوم، ص : 617، تحت آیت آل عمران 3: 55)

غنیۃ الطالبین اور شیخ عبد القادر جیلانی، حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ” ایک تبصرہ

  1. کتاب کاصحیح سند سے شیخ ؒ تک ثابت ہونا اور اس کتاب میں لکھا ہر لفظ شیخ ؒ سے ثابت ہونا کیا ایک ہی بات ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.