1,109

باب خیبر کا معاملہ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بسالت کا انکار کوئی کافر ہی کر سکتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین قوت بھی عطا فرمائی تھی۔وہ بلاشبہ شیر خدا تھے۔
حقیقی ہیرو کو کسی جھوٹی فضیلت و منقبت کی ضرورت نہیں ہوتی،لیکن ہمیشہ سے لوگوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہ اپنی من پسند شخصیت کے بارے میں جھوٹی باتیں مشہور کر دیتے ہیں، جو اکثر اوقات اس شخصیت کی سیرت کو نکھارنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھاتی ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہکیمتعلق بھی ایک ایسی ہی بات مشہور ہے۔وہ یہ کہ خیبری دروازہ جسے بہت سارے لوگ مل کربھی نہیں اٹھا سکتے تھے، انہوں نے اکیلے ہی اٹھا کر پھینک دیا تھا۔یہ واقعہ غیر ثابت اور غیر معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہکے بارے میںایک مافوق الفطرت مخلوق ہونے کا تصور بھی پیدا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں کل چار روایات آتی ہیں؛تین اہل سنت کی کتب میں اور ایک روافض کی کتب میں۔آئیے اصولِ محدثین کی روشنی میں ان سب کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
روایت نمبر 1 : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ حِینَ بَعَثَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِرَأْیَتِہٖ، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْحِصْنِ؛ خَرَجَ إِلَیْہِ أَہْلُہٗ فَقَاتَلَہُمْ، فَضَرَبَہٗ رَجُلٌ مِّنْ یَّہُودَ، فَطَرَحَ تُرْسَہٗ مِنْ یَّدِہِ، فَتَنَاوَلَ عَلِيٌّ بَابًا کَانَ عِنْدَ الْحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِہٖ نَفْسَہٗ، فَلَمْ یَزَلْ فِي یَدِہٖ وَہُوَ یُقَاتِلُ، حَتّٰی فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْہِ، ثُمَّ أَلْقَاہُ مِنْ یَّدِہٖ حِینَ فَرَغَ، فَلَقَدْ رَأَیْتُنِي فِي نَفَرٍ مَّعِيَ سَبْعَۃٌ؛ أَنَا ثَامِنُہُمْ، نَجْہَدُ عَلٰی أَنْ نَّقْلِبَ ذٰلِکَ الْبَابَ، فَمَا نَقْلِبُہٗ ۔
’’ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہکے ساتھ(خیبر کے قلعہ کی طرف)نکلے،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دے کر بھیجاتھا۔جب ہم قلعہ کے پاس پہنچے،توقلعہ والے لوگ باہر آئے،ان کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی، ایک یہودی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہکی ڈھال ہاتھ سے گر گئی۔انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا۔وہ دروازہ دورانِ قتال مستقل طور پر ان کے ہاتھ میں رہا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرما دی۔جنگ سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں نے، جن کے ساتھ آٹھواں میں تھا،اس دروازے کو ہلانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن ہم اسے ہلا بھی نہیں سکے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد :8/6، دلائل النبوّۃ للبیہقي :212/4، سیرۃ ابن ہشام : 350، 349/6، تاریخ دمشق لابن عساکر : 111/42)
تبصرہ :
یہ سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس میں بَعْضُ أَہْلِہٖ ’’مبہم‘‘ اور ’’مجہول‘‘ لوگ ہیں۔ شریعت ہمیں نامعلوم افراد سے دین اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوَاہُ أَحْمَدُ، وَفِیہِ رَاوٍ لَّمْ یُسَمَّ ۔
’’اسے امام احمد نے روایت کیا ہے، اس میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔‘‘(مجمع الزوائد : 152/6)
دلائل النبوّۃ کی سند میں عبداللہ بن حسن کا واسطہ گر گیا ہے،اسی لئے حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَفِي ہٰذَا الْخَبَرِ جَہَالَۃٌ وَّانْقِطَاعٌ ظَاہِرٌ ۔
’’اس روایت میں جہالت اور واضح انقطاع موجود ہے۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 191/4)
روایت نمبر 2 : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے :
إِنَّ عَلِیًّا حَمَلَ الْبَابَ یَوْمَ خَیْبَرَ، حَتّٰی صَعِدَ الْمُسْلِمُونَ فَفَتَحُوہَا، وَإِنَّہٗ جُرِّبَ، فَلَمْ یَحْمِلْہُ؛ إِلَّا أَرْبَعُونَ رَجُلًا ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خیبر کے دن قلعے کے دروازے کو اٹھالیا،حتی کہ مسلمانوں نے چڑھائی کر کے اسے فتح کر لیا۔تجربہ کیا گیا ، تو معلوم ہوا کہ اس دروازے کو چالیس طاقتور افراد ہی اٹھا سکتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 84/12، تاریخ بغداد للخطیب : 324/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 111/42)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے،کیونکہ اس میں لیث بن ابی سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘خراب حافظے والا موجود ہے۔
b حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’جمہور محدثین کرام نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(المغني عن حمل الأسفار : 187/2، تخریج أحادیث الإحیاء للحداد : 1648)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ ۔
’’اکثر محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 178/2)
b حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ضَعِیفٌ عِنْدَ الْجُمْہُورُ ۔
’’یہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔‘‘
(البدر المنیر : 104/2، 227/7، تحفۃ المحتاج : 48/2)
b حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فَضَعَّفَہُ الْجَمَاہِیرُ ۔
’’جمہور محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(شرح مقدّمۃ صحیح مسلم : 4، وفي نسخۃ : 52)
b حافظ بوصیری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’جمہور محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔‘‘(زوائد ابن ماجۃ : 54)
b علامہ سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وَفِي الزَّوَائِدِ لَیْثُ بْنُ أَبِي سُلَیْمٍ، ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’زوائد میں ہے کہ اس میں لیث بن ابی سلیم ہے، اور اس کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(حاشیۃ السندي علی ابن ماجۃ : 1891)
b حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَإِنَّ لَیْثَ بْنَ أَبِي سُلَیْمٍ مُّتَّفَقٌ عَلٰی ضَعْفِہٖ ۔
’’لیث بن ابی سلیم کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔‘‘
(الحاوي للفتاوی : 7/3۔8)
b اسے امام یحییٰ بن معین، امام احمد بن حنبل، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام عمرو بن علی فلاس، امام دارقطنی، امام نسائی، امام ابن عدی، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام بزار، امام ابن سعد رحمہم اللہ اور جمہور محدثین کرام نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
b حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اِتَّفَقَ الْعُلَمَائُ عَلٰی ضَعْفِہٖ، وَاضْطِرَابِ حَدِیثِہٖ، وَاخْتِلَالِ ضَبْطِہٖ ۔
’’علمائے کرام کا اس کے ضعیف ہونے،اس کی حدیث کے مضطرب ہونے اور اس کے حافظے کے خراب ہونے پر اتفاق ہے۔ ‘‘
(تہذیب الأسماء واللغات : 597/1)
b امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے متابعت میں روایت لی ہے، نہ کہ اصول میں۔ لہٰذا اس کے ’’ضعیف‘‘ اور ’’مختلط‘‘ہونے کی وجہ سے صحیح مسلم پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مَا عَلِمْتُ أَحَدًا صَرَّحَ بِأَنَّہٗ ثِقَۃٌ ۔
’’میرے علم کے مطابق کسی نے اس کے ثقہ ہونے کی صراحت نہیں کی۔‘‘
(زوائد مسند البزّار : 403/2)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’’منکر ‘‘قراردیا ہے۔
(میزان الاعتدال : 113/3)
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وِفِیہِ ضُعْفٌ أَیْضًا ۔
’’اس میںبھی کمزوری ہے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 191/4)
روایت نمبر 3 : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ہی سے منسوب ہے :
إِنَّ عَلِیًّا لَمَّا انْتَہٰی إِلَی الْحِصْنِ؛ اجْتَبَذَ أَحَدَ أَبْوَابِہٖ، فَأَلْقَاہُ بِالْـأَرْضِ، فَاجْتَمَعَ عَلَیْہِ بَعْدَہٗ مِنَّا سَبْعُونَ رَجُلًا، فَکَانَ جُہْدُہُمْ أَنْ أَعَادُوا الْبَابَ ۔
’’جب سیدنا علی رضی اللہ عنہقلعہ کے پاس پہنچے، تو انہوں نے قلعہ کے ایک دروازے کو اکھیڑ کر زمین پر پھینک دیا۔اس کے بعدہم میں سے ستر آدمیوں نے بڑی کوشش کرکے اس کو واپس اپنی جگہ پر رکھا۔‘‘
(دلائل النبوّۃ للبیہقي : 212/4، المقاصد الحسنۃ للسخاوي : 313)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی حرام بن عثمان سخت ترین ’’ضعیف‘‘اور مجروح ہے۔
b اسے امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام دارقطنی، امام ابن حبان، امام ابن سعد، امام یحییٰ بن معین اور علامہ جوزجانی رحمہم اللہ نے ’’ضعیف ‘‘ کہا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
مَتْرُوکٌ بِاتِّفَاقٍ، مُبْتَدِعٌ ۔
’’یہ بالاتفاق متروک اور بدعتی راوی ہے۔‘‘(دیوان الضعفاء : 859)
b خود امام بیہقی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
b مورخ اسلام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ : 191/4)
نوٹ : دلائل النبوۃ بیہقی میں ستر کی بجائے چالیس مردوں کا ذکر ہے۔
روایت نمبر 4 : امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے منسوب ہے،وہ اپنے آبا سے بیان کرتے ہیں کہ امیر المومنین، سیدنا علی رضی اللہ عنہنے سہل بن حنیف کو خط لکھا :
وَاللّٰہِ، مَا قَلَعْتُ بَابَ خَیْبَرَ، وَرَمَیْتُ بِہٖ خَلْفَ ظَہْرِي أَرْبَعِینَ ذِرَاعًا بِقُوَّۃٍ جَسَدِیَّۃٍ وَّلَا حَرَکَۃٍ غَذَائِیَّۃٍ، لٰکِنِّي أُبْدِتُّ بِقُوَّۃٍ مَّلَکُوتِیَّۃٍ نُفِّسَ بِنُورِ رَبِّہَا مُضِیَّۃٍ، وَأَنَا مِنْ أَحْمَدَ کَالضَّوْئِ مِنَ الضَّوْئِ ۔
’’اللہ کی قسم!میں نے جو خیبر کے دروازے کو اکھیڑا اور اپنے پیچھے کی طرف چالیس گز کے فاصلے پر پھینک دیا، یہ نہ جسمانی قوت تھی اور نہ خوراک کی طاقت ، بلکہ یہ ایک ملکوتی و نورانی قوت تھی،جو میرے رب نے مجھے عطا کی تھی۔میری احمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی نسبت ہے ،جو روشنی کو روشنی سے ہوتی ہے۔ ‘‘
(بحار الأنوار للمجلسي الرافضي : 26/21)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلندہ ہے،کیونکہ :
1 امام جعفر کے آبا نا معلوم و ’’مجہول‘‘ہیں۔
2 محمد بن محصن اسدی عکاشی باتفاق محدثین غیر ثقہ، ’’منکر الحدیث‘‘، ’’متروک‘‘ ، کذاب اور’’وضاع‘‘ ہے۔
3 یونس بن ظبیان کے اہل سنت کی کتب سے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔اور کتب ِرجالِ شیعہ میں بھی اس پر جرح موجود ہے۔
4 علی بن احمد بن موسیٰ بن عمران دقاق کی اہل سنت اور شیعہ کتب ِرجال میں کہیں بھی توثیق نہیں مل سکی۔
5 محمد بن ہارون مدنی بھی ’’مجہول‘‘ ہے۔
6 ابو بکر عبیداللہ بن موسیٰ خباز حبال طبری کی اہل سنت اور شیعہ کتب رجال میں توثیق مذکور نہیں ،لہٰذا یہ ’’مجہول‘‘ہے۔
b مؤرّخِ دیار مصر ،علامہ مقریزی رحمہ اللہ (م : 845ھ)لکھتے ہیں :
وَزَعَمَ بَعْضُہُمْ أَنَّ حَمْلَ بَابِ خَیْبَرَ لَا أَصْلَ لَہٗ ۔
’’بعض محدثین تو کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہکے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھانے کے واقعہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں۔‘‘(إمتاع الأسماع : 310/1)
b علامہ سخاوی رحمہ اللہ (831۔902ھ)لکھتے ہیں :
بَلْ کُلَّہَا وَاہِیَۃٌ، وَلِذَا أَنْکَرَہٗ بَعْضُ الْعُلَمَائِ ۔
’’اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں اس لئے بعض علما نے اس واقعے کو منکر قرار دیا ہے۔ ‘‘(المقاصد الحسنۃ : 313)
الحاصل : یہ واقعہ معتبر سندوں سے ثابت نہیں، فضیلت وہی

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.