887

حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ۔۔۔ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اللہ رب العزت کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے آسان ترین دین کا انتخاب کیا ہے اور ان کو رخصتوں سے نوازا ہے ، حاملہ عورت اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کو یہ رخصت عنائت فرمائی ہے کہ کہ اگر وہ اپنی جسمانی کمزوری یا اپنے بچے کی کمزوری یا دودھ میں نقصان کا خدشہ محسوس کریں تو روزہ نہ رکھے ، بلکہ ہرروزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، اس پر قضاء بھی نہیں ہے ، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک الکعبی  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أغارت علینا خیل رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم فأتیت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فوجدتّہ یتغدّی ، فقال : ادن ، فکل ، فقلت : انّی صائم ، فقال : ادن أحدّثک عن الصّوم أو الصّیام ، انّ اللّٰہ تعالیٰ وضع عن المسافر الصّوم وشطر الصّلاۃ ، وعن الحامل أو المرضع الصّوم أو الصّیام ، واللّٰہ ! لقد قالھما النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم کلتیھما أو احداھما ، فیا لھف نفسی ! أن لا أکون طعمت من طعام النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”ہم پر اللہ کے رسول   صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑے چڑھ آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے ، آپ نے فرمایا ، قریب ہو اور کھا ، میں نے عرض کی ، میں روزے دار ہوں ، فرمایا ، قریب ہو جا کہ میں تجھے روزے یا روزوں کے بارے میں بتاؤں ، یقینا اللہ تعالیٰ نے مسافر کوروزہ اور آدھی نماز معاف کر دی ہے ، نیز حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کو بھی روزہ یا روزے معاف کر دئیے ہیں ، اللہ کی قسم ! نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں کلمات (روزہ یا روزے) کہے یا ان دونوں میں سے ایک کہا ، افسوس کہ میں نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا نہ کھایا !”
(سنن ابی داو،د : ٢٤٠٨، سنن النسائی : ٢٢٧٩، سنن الترمذی : ٧١٥، واللفظ لہ ، سنن ابن ماجہ : ١٦٦٧، حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ نے ”حسن” اور امام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ ن(٢٠٤٤)نے”صحیح” کہا ہے ۔
b سیدنا عبداللہ بن عمر w سے ایسی حاملہ عورت کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہو ، آپ نے فرمایا ، وہ روزہ چھوڑ دے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک ”مد ”(تقریباً نصف کلو گرام)گندم دے دے ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/٢٣٠، وسندہ، صحیح)
b سیدنا عبداللہ بن عمر w سے ایک حاملہ عورت نے روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :         أفطری ، وأطعمی عن کلّ یوم مسکیناً ولا تقضی ۔
”تو روزہ چھوڑ دے اور ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ، پھر قضائی نہ دے ۔”
(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٣، وسندہ، صحیح)
b نافع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر w کی ایک بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھی ، وہ حاملہ تھی ، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ روزہ چھوڑ دے ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے ۔(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٤، وسندہ، صحیح)
b سیدنا عبداللہ بن عباس wفرمانِ باری تعالیٰ ( وعلی الّذین یطیقونہ فدیۃ )(البقرۃ : ١٨٤)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :      أثبتت للحبلٰی والمرضع ۔ ”یہ آیت حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے لیے ثابت (غیر منسوخ) رکھی گئی ہے ۔”(سنن ابی داو،د : ٣٢١٧، وسندہ، صحیح)
b عظیم تابعی سعید بن جبیر  رحمہ اللہ حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو ، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے ۔
(مصنف عبد الرزاق : ٤/٢١٦، ح : ٧٥٥٥، وسندہ، صحیح)
بعض اہل علم کا یہ کہنا کہ یہ دونوں روزے کی قضائی بھی دیں گی ، بے دلیل ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔
الحاصل :     حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، ان پر کوئی قضائی نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.