1,047

حلال جانوروں کا پیشاب پاک، شمارہ 37 حافظ ابویحیی نور پوری

حدیثی دلائل کی دور از کار تاویلات کا تجزیہ :
قارئین کرام اس مضمون کی پہلی قسط میں اس حوالے سے حدیثی دلائل ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ حلال جانوروں کا پیشاب شریعت ِ اسلامیہ کی رو سے پاک ہے۔ محدثین کرام نے ہماری ذکر کردہ احادیث سے صاف طور پر یہ مسئلہ ثابت کیا ہے۔ مخالفین کے پاس اس واضح موقف کے خلاف کوئی ایسی دلیل نہیں جس سے وہ یہ ثابت کر سکیں کہ جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ، ان کا پیشاب ان جانوروں کے پیشاب کی طرح ناپاک اور نجس و پلید ہے جن کا گوشت کھانا حرام ہے۔ کوئی دلیل نہ رکھنے کے باوجود بعض لوگ صحیح احادیث پر ایمان نہیں لاتے بلکہ ان میں طرح طرح کی تاویلات کا دروازہ کھول لیتے ہیں۔ ایک حدیث کے بارے میں کی گئی تاویلات کا جائزہ تو ہم قسط 1میںلے چکے ہیں۔ آئیے اس قسط میں دوسری صحیح حدیث کے بارے میں کی گئی تاویلات کا جائزہ لیتے ہیں:
بکریوں کے باڑوں میں نماز والی حدیث :
ہم بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا فرماتے تھے ۔ (صحیح البخاری : ٢٣٤ ، صحیح مسلم : ٥٢٤)
ہم پہلی قسط میں بقولِ فقہائے امت یہ بیان کر چکے ہیں کہ اس حدیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کا پاک ہونا ثابت ہوتا ہے۔اب ملاحظہ فرمائیں مخالفین کی تاویلات اور ان کا منصفانہ تجزیہ !
تاویل نمبر 1 :
دیوبندیوں کے ”قاسم ثانی” جناب شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منسوخ ہے اس لئے کہ یہ واقعہ مسجد بننے سے پہلے کا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہجرت کے بعد بالکل ابتداء کا واقعہ ہے۔
(فضل الباری شرح اردو صحیح بخاری از عثمانی : ٢/٤٠٣)
تجزیہ : مقلدین کی یہ عادتِ شنیعہ ہے کہ صحیح و صریح احادیث سے جان چھڑانے کے لئے ان میں ایسی تاویلیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جن کو خود بھی درست نہیں سمجھتے۔ آگے چل کر خو د عثمانی صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وہ عبارت نقل کی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وأمّا ادّعاء من النسخ یقتضی الجواز ثمّ المنع ، وفیہ نظر لأنّ إذنہ فی الصلاۃ فی مرابض الغنم ثابت عند مسلم من حدیث جابر بن سمرۃ ۔
”رہی بات دعوی نسخ کی تو اس کا تقاضا ہے کہ پہلے یہ کام جائز ہو پھر منع ہوا ہو لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکریوں کے باڑوں میں نمازکی اجازت دینا صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے (اور وہ آخری دور میں اسلام لانے والے صحابی ہیں)۔” (فتح الباری : ١/٣٤٢)
اگر عثمانی صاحب جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کو ہی پڑھ لیتے تو اس حدیث کے بارے میں ابن حزم رحمہ اللہ سے دعویئ نسخ نقل نہ کرتے۔ کشمیری صاحب لکھتے ہیں :
ولا أدری ما حملہ علی النسخ إلّا أن یکون اختار نجاسۃ الأزبال والأبوال ۔
”میں نہیں جانتا کہ ابن حزم کو کس چیز نے اکسایا ہے کہ وہ اسے منسوخ کہیں، سوائے اس کے کہ ان کے نزدیک یہ پیشاب و گوبر نا پاک تھے۔” (فیض الباری : ١/٣٣٠)
یعنی بقولِ کشمیری صاحب ابن حزم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو منسوخ صرف اس لیے کہا ہے کہ ان کا موقف حلال جانوروں کے پیشاب کے ناپاک ہونے کا تھا ، ورنہ کوئی دلیل ان کے پاس نہیں تھی۔لہٰذا یہ دعوی بلا دلیل ہونے کی وجہ سے مردودہے۔
تاویل نمبر 2 : جناب عثمانی صاحب مزید لکھتے ہیں :
”ابنِ حزم کے جواب کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کے اس استدلال کے اور بھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں۔ ایک جواب تو یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہاں کوئی چیز بچھا کر نماز پڑھی ہو ۔” (فضل الباری اردو از عثمانی : ١/٤٠٣)
تجزیہ : جناب عثمانی صاحب کے اپنے الفاظ ”ہو سکتا ہے” بتا رہے ہیں کہ یہ بات ان کے ہاں بھی یقینی نہیں۔ صرف ایک تقلیدی احتمال ہے اور احتمال آ جانے پر استدلال درست نہیں رہتا۔ جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب نے کئی مقامات پر یہ اصول بیان کر رکھا ہے۔ ایک مقام ملاحظہ فرما لیں۔ وہ لکھتے ہیں :
إذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔ ”جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے ۔”(دیکھیں اعلاء السنن از تھانوی : ١/٤٤٠، ٤٤١)
عثمانی صاحب کی مزید سعی لاحاصل ملاحظہ فرمائیں :
”اور واضح جواب صحیحین کی حضرت انس سے مروی وہ حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں بورئیے پر نماز پڑھی اور حضرت عائشہ سے بھی مروی ہے کہ آپ چٹائی پر نماز پڑھا کرتے تھے۔”(فضل الباری : ٢/٤٠٣)
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ بات بکریوں کے باڑوں کی ہو رہی ہے اور دیوبندی صاحب نے دلیل میں انس رضی اللہ عنہ کے گھر والی روایت پیش کی ہے۔اس سے کیا فائدہ؟بات تو تب بنے گی جب باڑے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چٹائی پر ثابت ہو گی۔
حدیث میں تاویل اور نجاست پر نماز!!!
یاد رہے کہ اگر بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کے باڑے میں چٹائی بچھا کر نماز پڑھی تھی تو بات پھر بھی نہ بنے گی کیونکہ اگر باڑوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چٹائی پر ثابت ہو جائے تو دیوبندی اور حنفی بھائیوں کو کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ کیا یہ تاویل کرنے والوںکے نزدیک نجاست پر مصلّٰی یا چٹائی بچھا کر نماز پڑھنا جائز ہے؟ کتنی جرأت ہے تقلید میں کہ مقلدین اپنی ”فقہ” کو بچانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو نجاست والی جگہ پر ثابت کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہیں کرتے۔دیوبندی بھائی بتائیں کہ کیا آدمی کے پیشاب یا پاخانہ کے اوپر چٹائی بچھا کر نماز کا جواز آپ کی فقہ کی کس کتاب میں موجود ہے ؟ حلال جانوروں کے پیشاب کو آپ نجس قرار دیتے ہیں اور آدمی کا بول و براز بھی نجس ہے۔اگر آپ آدمی کے بول و براز کے اوپر چٹائی بچھا کر نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے تو بکری اور اس جیسے دوسرے حالال جانوروں کے پیشاب کو نجس قرار دے کر رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کیوں کرتے ہیں؟مقلدین اس بات پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو بات سمجھ میں آسکتی ہے۔
تاویل نمبر 3 : جناب شبیر احمد عثمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
”اس کے علاوہ یہ کہ حضرت عائشہ سے روایات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو گھر میں مسجد بنانے ، ان کو صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا۔”
(فضل الباری اردو از عثمانی : ١/٤٠٣)
تجزیہ : دیوبندی صاحب حدیث ِ نبوی أمر ببناء المساجد فی الدور کا مطلب غلط سمجھ بیٹھے ہیں۔یہاں گھروں میں مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیا گیا، کیونکہ عظیم تابعی امام سفیان ثوری رحمہ اللہ جو اس حدیث کے راوی ہیں ، فرماتے ہیں :
قولہ ببناء المساجد فی الدور ، یعنی القبائل ۔
”آپ کا مسجدیں بنانے کا جو حکم ہے اس میں الدُّور سے مراد قبائل ہیں۔
(جامع الترمذی، تحت الحدیث : ٥٩٦)
اوراحناف بھی اس بات کے اقراری ہیں کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں سے بہتر جانتا ہوتا ہے۔(دیکھیں أحسن الکلام از محمد سرفراز خان صفدر : ١/٢٦٨)
اب محلوں میں بنائے جانیوالی مساجد کو خوشبو لگانے اور صاف ستھرا رکھنے سے کون انکار کرتا ہے ؟یہاں اس عبارت کا کیا مطلب ؟ کیا دیوبندی صاحب باڑوں میں بکریوں کی بُو کی وجہ سے نماز کی ممانعت یا نسخ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم نہ تھا؟ اوربقول مقلدین کے ”ہوسکتا ہے ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چٹائی بچھا لی ہو۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا چٹائی بچھانے سے بکریوں کے باڑے کی بُو ختم ہو جاتی ہے؟ ان سب باتوں سے سوائے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے !
حافظ نووی نے بکریوں کے باڑوں میںنما زدرست ہونے پر محدثین کا اتفاق نقل کر رکھا ہے ۔کیا سب محدثین کرام ان باتوں سے غافل تھے جو اب دیوبندی بھائیوں کو سوجھ رہی ہیں؟ دراصل عثمانی صاحب نے یہ اعتراض حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ، لیکن وہ بات کو واضح نہیں کر سکے۔ ہم حافظ ابن حزم سے یہ اعتراض نقل کر کے اس کا جواب عرض کرتے ہیں۔ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
عن عائشۃ قالت : أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ببناء المساجد فی الدور ، وأن تطیّب وتنظّف ۔۔۔۔ فقد صحّ أمرہ علیہ السلام بتنظیف المساجد و تطییبھا ، وھذا یوجب الکنس لھا من کلّ بول و بعر و غیرہ ۔۔۔ فیأمر بالبساط الذی تحتہ فیکنس وینضح ۔۔۔ فھذا أمر منہ علیہ الصلاۃ والسلام بکنس ما یصلّی علیہ ورشّہ بالماء ، فدخل فی ذالک مرابض الغنم وغیرھا ۔
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور ان کو صاف ستھرا اور خوشبو دار رکھنے کا حکم دیا ۔۔۔ لہٰذا آپ کی طرف سے نماز کی جگہوں کو صاف رکھنے کا حکم ثابت ہو گیا۔ اسی حکم کی بنا پر نماز کی جگہوں سے ہر بول و براز وغیرہ کو جھاڑو سے دور کرنا ضروری قرار پاتا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ آپ اپنے نیچے والی چٹائی پر جھاڑو دینے اور پانی کے چھینٹے لگانے کا حکم فرماتے۔یہ آپ کی طرف سے نماز گاہ کو جھاڑو دینے اور چھینٹے لگانے کا حکم ہے۔ایک روایت میں ہے کہ آپ نے چٹائی کے ایک حصے پر جھاڑو دینے اور چھینٹے مارنے کا حکم دیا لہٰذا ایسا کیا گیا ، پھر ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔یہ بھی آپ کی طرف سے نماز گاہ کو جھاڑو دینے اور چھینٹے لگانے کا حکم ہے۔ اسی حکم میں بکریوں کے باڑے اور دوسری جگہیں شامل ہیں ۔”(المحلّٰی لابن حزم : ١/١٧٢، ١٧٣)
تجزیہ : 1 ان تمام احادیث میں پاک و صاف جگہ کو مزید صفائی کے لئے جھاڑو دیا گیا اور گرد و غبار کے پیش نظر پانی کے چھینٹے مارے گئے ، لیکن اس پر ایسی جگہ کو کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے جسے حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس کہنے والے نجاست زدہ قرار دیتے ہیں؟
2 بکریوں کے باڑوں میں نماز کی رخصت کے ساتھ وہاں جھاڑو دینے اور پانی کے چھینٹے مارنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
3 اگر بکریوں کے باڑوں میں بھی جھاڑو دینا اور پانی کے چھینٹے مارنا اسی حکم میں شامل کر لیا جائے تو کیا نجس بول و براز والی زمین صرف جھاڑو دینے اور پانی کے چھینٹوں سے پاک ہو جائے گی؟ ہر گز نہیں کیونکہ صحیح بخاری(٦١٢٨)وغیرہ کی مشہور حدیث کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعرابی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہانے کا حکم دیا تھا،چھینٹے مارنے کا نہیں۔چھینٹے مارنے سے تو نجاست مزید پھیل جائے گی۔
رہا یہ مغالطہ کہ ہمارے ہاں حدیث کے مطابق بچے کے نجس پیشاب پر بھی تو چھینٹے کفایت کر جاتے ہیں۔۔۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں تو نص کی وجہ سے چھینٹے کافی ہوتے ہیں اور وہ حکم صرف بچوں کے پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔ جو لوگ اس حدیث پر عمل نہیں کرتے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا کافی نہیں سمجھتے ، ان کے نزدیک وہ نجاسات محض چھینٹوں سے کیسے پاک ہو جائیں گی جن سے پاک ہونے کے لیے حدیث میں چھینٹوں کی رخصت نہیں دی گئی؟
یہ تو الٹا احناف پر ہی اعتراض بنے گا کہ وہاں حدیث کی موجودگی میں بھی چھینٹوں کو کافی نہیں سمجھتے اوریہاں عام نجاسات کو بھی چھینٹوں سے پاک کر رہے ہیں۔ کیا آدمی کے پیشاب پر صرف چھینٹے مارنے سے جگہ پاک ہو جائے گی؟ اگر نہیں تو یہاں حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس سمجھتے ہوئے بھی یہ لوگ ان پر چھینٹے کافی کیوں سمجھتے ہیں ؟
ثابت ہوا کہ یہ تاویل بھی باطل و فاسد ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔
تاویل نمبر 4 : حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
أمّا قولکم : إنّھا لا تخلوا من أبوالھا ولا من أبعارھا ، فقد یبول الراعی أیضا بینھا ، ولیس ذلک دلیلا علی طھارۃ بول الإنسان ۔
”تم جو یہ کہتے ہو کہ بکریوں کے باڑے ان کے پیشاب اور مینگنیوںسے خالی نہیں ہوتے، لہٰذا وہاں نماز کی اجازت سے ان کی طہارت ثابت ہوتی ہے۔۔۔ تو کبھی چرواہا بھی تو باڑوں میں پیشاب کر دیتا ہے اور یہ انسان کے بول کے پاک ہونے کی دلیل نہیں ہے۔”(المحلّٰی لابن حزم : ١/١٧٢)
جواب : یہ بات قطعاًکسی حدیث سے ثابت نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس باڑے میں نماز پڑھی تھی وہاں انسان کا پیشاب موجود تھا یا جس صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہاں نماز کے بارے میں سوال کیا تھا ، وہ رخصت ملنے کے بعد وہاں پیشاب کرتا ہو۔ کیونکہ جن صحابہ کو باڑوں میں نماز کی رخصت معلوم تھی۔ ان کو انسانی پیشاب کی نجاست بھی معلوم تھی۔ لہٰذا ان کی طرف ایسی نسبت کرنا یا اسے فرض کر لینا محض تاویل فاسد ہے۔اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔قارئین کرام خود انصاف فرمائیں کہ ایسے احتمالات صحیح و صریح احادیث کے مقابلے میں بھلا کیاحیثیت رکھتے ہیں؟
تاویل نمبر 5 : حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فلو کان أمرہ علیہ السلام بالصلاۃ فی مرابض الغنم دلیلا علی طھارۃ أبوالھا وأبعارھا کان نھیہ علیہ السلام عن الصلاۃ فی أعطان الإبل دلیلا علی نجاستہ أبوالھا وأبعارھا ۔۔۔۔
”اگر آپ علیہ السلام کا بکریوں کے باڑوں میں نماز کا حکم دینا ان کے بول اور مینگنیوں کے پاک ہونے کی دلیل ہے تو پھرآپ کا اونٹوں کے باڑوں میں نماز سے منع کرنا ان کے پیشاب اور مینگنیوں کی نجاست کی دلیل ہو گا۔” (المحلّٰی لابن حزم : ١/١٧٤)
تجزیہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکریوں کے باڑوں میں نماز کا حکم ان کے بول و بعر(لید) کی طہارت پر دلیل ہے ، یہ بات تو ہم امام بخاری رحمہ اللہ سمیت کئی محدثین کرام کی صراحت و توضیح کے ذریعے ثابت کر آئے ہیں ، جبکہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز سے ممانعت ان کے بول و بعر کی نجاست کی وجہ سے ہے ، یہ بات امت ِ مسلمہ کے کسی محدث و فقیہ نے نہیں کہی بلکہ اس کی وجہ اور بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ ان میں شیطانی خصلت ہوتی ہے۔ بسااوقات یہ وحشی ہو جاتے ہیں اور انسان کو نقصان پہنچا دیتے ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بات ثابت ہے۔
ایک دفعہ ایک اونٹ بھاگ گیا۔ لوگ اس کے پیچھے دوڑے ، لیکن وہ کسی کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ ایک شخص نے اس کو تیر مارا اور وہ زخمی ہو کر رک گیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إنّ لہذہ البہائم أوابد کأوابد الوحش ، فما غلبکم منہا فاصنعوا بہ ہکذا ))
”ان مویشیوں میں بھی جنگلی جانوروں کی طرح کی عادات ہوتی ہیں۔ جو مویشی اس طرح کرے ، تم اس کے ساتھ یہی سلوک کرو۔”
امام نسائی رحمہ اللہ نے اونٹوں کے باڑے میں نماز کی ممانعت کو نہی تنزیہی شمار کیا ہے۔ اسی لئے دوسری حدیث لا کر اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی رخصت بھی ثابت کی ہے۔یعنی اگر آدمی کے پاس اس حوالے سے پورا بندوبست ہو تو وہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کر سکتا ہے۔ اگر ممانعت کا سبب نجاست ہوتی تو کبھی بھی رخصت نہ ہوتی۔
علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (م ١١٣٨ھ)لکھتے ہیں :
قالوا : لیس علّۃ المنع نجاسۃ المکان ، إذ لا فرق حینئذ بین أعطان الإبل وبین مرابض الغنم ، مع أنّ الفرق بینھما قد جاء فی الأحادیث ، وإنّما العلّۃ شدّۃ نفار الإبل ، فقد یودّی ذلک إلی بطلان للصلاۃ أو قطع الخشوع وغیر ذالک ۔
”علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت کا سبب جگہ کی نجاست نہیں کیونکہ پھر تو بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں میں کچھ فرق نہ رہا ، حالانکہ دونوں کا فرق احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے اونٹوں میں سخت بِدکاہٹ پائی جاتی ہے جس سے بسا اوقات نماز ٹوٹ جاتی ہے یا خشوع ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دوسری علتیں بھی ہیں۔” (حاشیۃ السندی علی النسائی : ٢/٥٦)
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) اس حوالے سے لکھتے ہیں :
والنھی عن مبارک الإبل ، وھی أعطانھا ، نھی تنزیہ ، وسبب الکراھۃ ما یخاف من نفارھا و تھویشھا علی المصلّی ۔
”اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت نہی تنزیہی ہے اور کراہت کا سبب ان کی بدکاہٹ اور نمازی کو پریشان کرنا ہے۔” (شرح مسلم للنووی : ١/١٥٨)
حافظ ابو سلیمان حمد بن محمد ابن الخطاب بستی ، المعروف بہ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨ھ) اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت کا سبب لکھتے ہوئے کہتے ہیں :
وذلک لأنّ الإبل قد یسرع إلیھا النفار ، فالمصلّی فی أعطانھا وبالقرب منھا علی وجل أن تفسد صلاتہ ، وھذا المعنی مأمون علی الغنم ، فلذالک لم تکرہ الصلاۃ فی مرابضھا ۔
”اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت اس لئے ہے کہ اونٹوں میں بدکاہٹ جلد آ جاتی ہے ، چنانچہ ان کے باڑوں میں اور ان کے قریب نماز پڑھنے والا ڈرتا رہتا ہے کہ وہ اس کی نماز خراب نہ کر دیں۔یہ وجہ بکریوں میں نہیں پائی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے باڑوں میں نماز مکروہ نہیں ہے۔” (غریب الحدیث للخطابی : ٢/٢٨٥۔ ٢٨٦)
حافظ بغوی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب شرح معاني السنّۃ میں یہی بات لکھی ہے۔
(دیکھیں شرح السنۃ للبغوی : ٢/٤٠٢۔ ٤٠٥)
ثابت ہوا کہ اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت سے مخالفین کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔
نوٹ : جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی صاحب نے حلال جانوروں کے پیشاب کو پاک سمجھنے والوں کے دلائل میں یہ حدیث ذکر نہیں کی۔ اس حوالے سے ہماری دیگر دلائل بھی انہوں نے بیان نہیں کیے،بلکہ دار قطنی کی دو ضعیف روایات جو کہ ہم پیش ہی نہیں کرتے ، ذکر کر کے ان کے ردّ پر پورا زور صرف کر دیا ہے۔ جبکہ جناب تقی عثمانی دیوبندی صاحب نے یہ احادیث پیش تو کی ہیں لیکن اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایسا شاید اس لیے ہے کہ دیوبندی حضرات اس حدیث کے بارے میں اپنے اکابر کی تلاویلات پر مطمئن نہیں ، ورنہ وہ انہیں نقل ضرور کر دیتے۔
باقی دلائل پر جو اعتراضات کیے گئے ہیں اور ان کی جو تاویلات باطلہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان کا تجزیہ اگلی قسط میں ہو گا۔ إن شاء اللّٰہ !
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو سمجھنے اور اسی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ! جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.