1,022

حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے، شمارہ 38 حافظ ابو یحیی نور پوری حفظہ اللہ

ماہنامہ السنۃ کے مستقل قارئین جانتے ہیں کہ گزشتہ اقساط میں احادیث ِ صحیحہ وصریحہ سے حلال جانوروں کے پیشاب کا پاک ہونا ثابت کیا جا چکا ہے۔ائمہ دین و اسلاف امت کے فہم سے اس کی تائیدات بھی ساتھ مذکور ہیں۔نیز مخالفین کی جانب سے کی گئی پہلی دو احادیث کی بودی تاویلات کا ردّ بھی کر دیا گیا ہے۔اس قسط میں ہم تیسری حدیث کے بارے میں کی گئی تاویلات ِ باردہ کا تجزیہ کریں گے۔ مخالفین خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے کچھ ایسے دلائل بھی پیش کرتے ہیں جن کا حلال جانوروں کے پیشاب سے کوئی تعلق نہیں، یہاں ان کی اصل صورتِ حال بھی واضح کی جائے گی۔

حدیث نمبر3 : ہم صحیح بخاری(٢٤٠)و مسلم(١٧٩٤) کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں سجدے کی حالت میں تھے کہ آپ کے اوپر ایک اونٹ کا گوبر وغیرہ پھینکا گیا لیکن آپ نے اپنی نماز جاری رکھی۔
اگر حلال جانوروں کا گوبر وغیرہ بھی نجس ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً نماز ختم کر دیتے یا کم از کم بعد میں اسے دوہراتے۔اسی سے متعدد ائمہ حدیث و فقہائے کرام نے اس مسئلہ کا استنباط کیا ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب و گوبر پاک ہے۔
تاویل نمبر1 : امام نسائی رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے کا استدلال کیا تھا، اس حوالے سے علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں : وردّ بأنّ الدم نجس ، وکان معہ دم ، کما فی روایۃ ۔
”امام نسائی رحمہ اللہ کے استدلال کا ردّ یوں کیا گیا ہے کہ خون تو نجس ہوتا ہے اور گوبر کے ساتھ خون بھی تھا ، جیسا کہ ایک روایت میں موجود ہے۔”
(حاشیۃ السندي علی سنن النسائي : ١/١٦٢)
تجزیہ : دم مسفوح (ذبح کرتے وقت خارج ہونے والے خون)کے علاوہ حلال جانور کا خون پاک ہوتا ہے۔ اس کی نجاست پر کوئی دلیل نہیں۔ کسی چیز کی نجاست کے ثبوت کے لئے کسی قطعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔جو اس حوالے سے ہر گز موجود نہیں، لہٰذا یہ اعتراض سراسر باطل ہے۔
تاویل نمبر 2 : حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ)لکھتے ہیں :
وأمّا الجواب المرضيّ أنّہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لم یعلم ما وضع علی ظھرہ ، فاستمرّ في سجودہ استصحابا للطّھارۃ ۔
”دل کو لگنے والا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ ہو سکا تھاکہ کمر پر کیا رکھا گیا ہے ، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استصحاباً(اصلی حالت ، یعنی پاکی پر قیاس کر کے)پاک سمجھتے ہوئے سجدے کو برقرار رکھا۔” (شرح مسلم للنووي : ٢/١٠٨)
تجزیہ : اگر حلال جانوروں کا بول و گوبر ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی مطلع کر دیا جاتا جیسا کہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے میں گندگی تھی، علم نہ ہونے کی وجہ سے آپ نے نماز شروع کر دی تو جبریل علیہ السلام نے آ کر آپ کو اطلاع دی۔اس پر آپ نے جوتا اتار دیا۔(سنن أبي داو،د : ٦٥٠، وسندہ، صحیحٌ)
ثابت ہوا کہ حلال جانوروں کا گوبر ناپاک نہ تھا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں نماز مکمل کر لی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نہیں آئی۔
تاویل نمبر 3 : حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وأنّہ ذبیحۃ عبّاد الأصنام ، فھو نجس ، وکذلک اللحم وجمیع أجزاء ھذا الجزور ۔ ”یہ اونٹ بتوں کے پجاریوں کا ذبح شدہ تھا اور وہ نجس ہوتا ہے ، لہٰذا اونٹ کا گوشت اور تمام اجزاء نجس تھے ۔” (شرح مسلم للنووي : ٢/١٠٨)
جواب : مشرکین کا ذبیحہ حرام ضرور ہوتا ہے ، نجس نہیں ہوتا۔ نجاست کی کوئی دلیل چاہیے۔ حرمت اور نجاست دو الگ چیزیں ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی:(إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ)(بلاشبہ مشرکین نجس ہیں) میں راجح بات یہی ہے کہ مشرکین کے جسم نجس نہیں ہیں،بلکہ ان کی نجاست معنوی ہے۔ اس حوالے سے کئی دلائل موجود ہیں جن کے بیان کا یہ محل متحمل نہیں۔ پھر بالفرض اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نجاست پھینکی گئی ہوتی تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آپ کو اس کی اطلاع کر دیتا تاکہ آپ اسے دور کرکے نماز ادا کر سکیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے میں نجاست پر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اندر بذریعہ وحی اطلاع دی تھی اور آپ نے نماز کے اندر ہی جوتے اتار دیے تھے۔(سنن أبي داو،د : ٦٥٠، وسندہ، صحیحٌ)
تاویل نمبر 4 : محشّی ئبخاری جناب احمد علی سہارنپوری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ حلال جانوروں کے گوبر کی حرمت و نجاست کا حکم آنے سے پہلے کا ہے۔ جیسا کہ شراب حرام ہونے سے پہلے کپڑوں پرلگنے سے نماز کو خراب نہیں کرتی تھی۔
(حاشیۃ صحیح البخاري : ١/٣٨، قدیمی کتب خانہ، آرام باغ، کراچی)
تجزیہ : 1 سہارنپوری صاحب کو کیسے معلوم ہوا کہ پہلے حلال جانوروں کا پیشاب اور گوبر پاک تھا، بعد میں اسے نجس قرار دیا گیا؟ اس بارے میں ان کے پاس کوئی دلیل تھی تو بیان کیوں نہ کی؟لہٰذا یہ دعوی بے دلیل ہونے کہ وجہ سے مردود ہے۔
2 دیوبندی بھائی حلال جانوروں کے پیشاب کی نجاست پر دلیل وہی پیش کرتے ہیں جس سے انسانوں کے پیشاب کی نجاست ثابت ہوتی ہے۔ یعنی ‘اِسْتَنْزِھُوا مِنَ الْبَوْلِ۔۔۔۔’۔ مخالفین کے دلائل میں وضاحت سے اس کا بیان ہو گا۔کیا ان کے مطابق اس واقعہ کے وقت انسانوں کے پیشاب بھی نجس نہیںتھے ؟ اگر اس وقت انسانوں کے پیشاب نجس تھے اور یقینا تھے تو انسانوں اور حلال جانوروں کے پیشاب کا ایک ہی دلیل سے ایک ہی حکم بیان کرنا صحیح نہ ہوا ، بلکہ اس کے لیے کوئی خاص حکم مطلوب ہے۔
3 کسی چیز سے بچنے کا حکم اس بات کی دلیل نہیں کہ پہلے وہ کام جائز تھا، بلکہ بسا اوقات تاکیداً ایسا کیا جاتا ہے ، جیسا کہ نبی ئاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاکہ ڈالنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاري : ٥٥١٦)کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس ممانعت سے پہلے ڈاکہ جرم اور ممنوع نہ تھا ؟ اگر یہ واقعہ پیشاب سے بچنے سے پہلے کا بھی ہو تو اس سے ہی ثابت نہیں ہو جاتا کہ اس وقت حلال جانوروں کا پیشاب نجس نہیں تھا اور اس سے بچنا ضروری نہیں تھا۔اصل بات یہی ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب کسی بھی دور میں نجس نہیں رہا۔اگر اس حوالے سے کسی کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کرے۔
تاویل نمبر 5 : علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
ثمّ لعلّہ أعادھا۔ ”پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو دہرالیا ہو۔”
(حاشیۃ السندي علٰی سنن النسائي : ١/١٦٢)
تجزیہ : صحیح و صریح احادیث کے خلاف ایسے ضعیف احتمالات پر ِکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ صحیح سند تو کجا کسی ضعیف سند سے بھی یہ مروی نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز دہرائی تھی، لہٰذا یہ بالکل باطل اور فاسد تاویل ہے جس کا کوئی اعتبار نہیں۔
پھر احتمال کی بنا پر کوئی حکم ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا۔جو بات حدیث میں واضح طور پر موجود ہے ، اس کو تسلیم نہیں کیا جا رہا جبکہ جو چیز محض احتمالی ہے ، اس پر اعتماد کیا جا رہا ہے!!!
اگر یہ احتمال کوئی وقعت رکھتا تھا تو ائمہ دین کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آئی؟امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ جو امام ابو حنیفہ کے استاذ ہیں،ان سے سوال کیا گیا کہ اونٹ کا پیشاب اگر کپڑے کو لگ جائے تو کیا کیا جائے؟ انہوں نے فرمایا : وما علیک لو أصابک ۔
”اگر تجھے اونٹ کا پیشاب لگ جائے تو کوئی حرج نہیں۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١/٢١١، ح : ١٢٣٩، وسندہ، صحیحٌ)
اسی طرح امام ابوحنیفہ کے ایک اور استاذابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے اونٹ کے پیشاب کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر کپڑے کو لگ جائے تو کیا کیا جائے۔انہوں نے فرمایا :
لا بأس ، ألیس یشرب ، ویتداوی بہ ۔
”اس میں کوئی حرج نہیں،کیا یہ پیا نہیںجاتا اور کیا اسے بطور دوائی استعمال نہیں کیا جاتا؟
(مصنف ابن أبي شیبۃ : ١٢٤٠، وسندہ، صحیحٌ)
اس سے معلوم ہوا کہ یہ کہنا کہ حلال جانوروں کا پیشاب پہلے پاک ہوتا تھا ، پھر نجس قرار دیا گیا ، نیز شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز دوہرا لی ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہی نہ ہوا کہ آپ کے اوپر نجاست پھینکی گئی ہے ، ائمہ دین کے نزدیک درست نہیں، بلکہ درست بات یہی ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے ،کسی دور میں بھی یہ ناپاک قرار نہیں دیا گیا۔
قائلین نجاست کے ”دلائل” کا تجزیہ
حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس کہنے والوں کے پاس کوئی بھی صحیح و صریح حدیث موجود نہیں، جس سے ان کا مدّعا ثابت ہوتا ہو،بلکہ کسی ضعیف حدیث میں بھی ایسی بات موجود نہیں، لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور صحیح و صریح احادیث اور فہم محدثین کا انکار کرتے ہیں۔آئیے ان کے مزعومہ دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔
دلیل نمبر 1 : جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی صاحب لکھتے ہیں :
”دارقطنی(١/٤٧) میں حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اِسْتَنْزِھُوا مِنَ الْبَوْلِ، فَإِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْہُ’ (تم پیشاب سے بچو کیونکہ عموماً عذاب ِ قبر کی وجہ یہی ہوتی ہے)اور اختصار کے ساتھ یہ روایت مستدرک (١/١٨٣) میں بھی ہے۔ حاکم اور ذہبی فرماتے ہیں :صحیح علی شرط الشیخین ، سبل السلام (١/١٢٤) میں ہے کہ یہ روایت ”صحیح الاسناد”ہے۔حافظ ابن حجر فتح الباری (١/٢٦٨) میں لکھتے ہیں : صحّحہ ابن خزیمۃ، پھر آگے لکھتے ہیں کہ یہ روایت جمیع ابوال کو شامل ہے ، کیونکہ الفاظ عام ہیں۔”(خزائن السنن از صفدر : ١/١٥٣)
تبصرہ : 1 ہم نے صریح احادیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کا پاک ہونا ثابت کیا ہے،اس کے مقابلے میں اس کی نجاست ثابت کرنے کے لئے کوئی صریح دلیل ہی مطلوب ہے۔ صریح کے مقابلے میں مبہم پیش کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔اس روایت میں حلال جانوروں کے پیشاب کی نجاست کی بات کہاں ہے ؟
2 ہم نے جو دلائل ذکر کئے ہیں ، محدثین و فقہاء کی تصریحات کے بعد ان سے دلیل لی ہے کیونکہ وہی احادیث کو بہتر جانتے ہیں، لیکن مقلدین نے جو روایت پیش کی ہے، اس کو جن محدثین نے روایت کیا ہے ،ان میں سے کسی نے اس سے یہ استدلال نہیں کیا۔چنانچہ یہ روایت درج ذیل پانچ کتب حدیث میں وارد ہوئی ہے : [١] سنن ابن ماجہ ، [٢]مسند احمد ،[٣] مستدرک حاکم ،[٤] سنن دار قطنی اور [٥] صحیح ابن خزیمہ ، لیکن کسی ایک محدث نے بھی اس سے حلال جانوروں کے پیشاب کو نجس ثابت نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس امام حاکم ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
إنّ الماء إذا خالطہ فرث ما یؤکل لحمہ ، لم ینجسہ ۔
”پانی میں جب حلال جانوروں کا گوبر مل جائے تو اس سے پانی نجس نہیں ہوتا۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/١٦٠)
اور امام دار قطنی رحمہ اللہ نے بھی عام پیشاب کو نجس ثابت کیا ہے اور حلال جانوروں کے پیشاب کا حکم اس سے جُدا کرتے ہوئے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے :
باب نجاسۃ البول والأمر بالتنزّہ منہ ، والحکم في بول ما یؤکل لحمہ ۔
”پیشاب کی نجاست کا بیان اور اس سے بچنے کا حکم ، نیز جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ، ان کے پیشاب کا حکم۔”(سنن الدار قطني : ١/١٣٤)
پھر امام صاحب نے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے پر کئی روایات ذکر کی ہیں۔اس تبویب سے معلوم ہوا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی یہ حدیث حلال جانوروں کے پیشاب کے بارے میں نہیں ہے۔
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی یہ حدیث ذکر کی ہے لیکن اسے حلال جانوروں پر فٹ نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کی روشنی میں فرماتے ہیں : إنّ أبوال ما یؤکل لحمہ لیس بنجس ۔
”جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ، ان کا پیشاب نجس نہیں۔”
(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٦٠)
بقول جناب تقی عثمانی (درس ترمذی : ١/٢٨٩ )اور جناب سرفراز خاں صفدر(خزائن السنن : ١/١٥٣) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی حلال جانوروں کے پیشاب کو پاک سمجھتے تھے۔
پھر خود احناف کے بقول امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد اور فقہ حنفی کے بڑے ستون، محمد بن حسن شیبانی بھی حلال جانوروں کے پیشاب کو پاک سمجھتے تھے۔(الہدایۃ : ١/٣٦، فصل في النفاس، البحر الرائق : ١/١٢٠، بدائع الصنائع : ١/٦١، شرح معاني الآثار للطحاوي : ١/١٠٨۔۔۔)
مقلدین ایک طرف تو تقلید کا ڈھونگ رچانے کے لئے اپنے آپ کو اس قدر غبی ثابت کرتے ہیں کہ وہ خود حدیث کو سمجھنے کے قابل نہیں ، اسی لیے کسی کی تقلید کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف حدیث سے اپنی بات بنانے کے لئے فہم محدثین و فقہاء کو یکسر ٹھکرا کر ایسے استنباط کرنے لگتے ہیں جو محدثین و فقہاء کے یکسر خلاف ہوتے ہیں۔ان سے گزارش ہے کہ اللہ کے لیے غور فرمائیں۔ وہ یا تو باسند صحیح امام ابو حنیفہ سے اس حدیث کا یہی مطلب ثابت کریں ورنہ محدثین و فقہاء کی مخالفت اور ہٹ دھرمی سے باز آئیں۔
3 ہر عموم سے مکمل عمومی حکم مراد لینا غلط ہے ، جس طرح (حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ)(تم پر مردار حرام قرار دیا گیا ہے) کے عموم کے باوجود احناف ہر مردار کو حرام نہیں سمجھتے بلکہ مچھلی کو وہ بھی مردہ حالت میں حلال سمجھتے ہیں۔بالکل اسی طرح پیشاب نجس ہے اور اس کی وجہ سے عذابِ قبر برحق ہے ، لیکن ہر پیشاب نجس نہیں بلکہ حلال جانوروں کا پیشاب احادیث کی روشنی میں پاک ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سے عذاب قبر بھی ہوتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت بھی دیں، اس سے عذاب قبر بھی ہوتا ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لگنے کے باوجود نماز بھی جاری رکھیں اور اس سے عذاب قبر بھی ہوتاہو اور اسلاف ِامت و فقہائے کرام اس میں کوئی حرج بھی محسوس نہ کریں۔
دلیل نمبر 2 : جناب صفدر صاحب مزید لکھتے ہیں :
”دارقطنی(١/٤٧) میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘فَتَنَزَّھُوا مِنَ الْبَوْلِ، فَإِنَّ عَامَّۃَ عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْہُ’ (تم پیشاب سے بچو کیونکہ عموماً عذاب قبر اسی وجہ سے ہوتاہے)امام دار قطنی کہتے ہیں : إسنادہ لا بأس بہ، امام سیوطی الجامع الصغیر (١/٩١) میں لکھتے ہیں: صحیح ، وقال الشوکانيّ في النیل (١/١٠٧) : إسنادہ حسن ۔”(خزائن السنن از صفدر : ١/١٥٣،١٥٤)
تجزیہ : 1 اس کی سند میں ابو یحییٰ القتات راوی ”ضعیف” ہے۔ جمہور محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف کہا ہے۔”(مجمع الزوائد للہیثمي : ١٠/٧٤)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فجرّحہ الأکثرون ۔
”اس پر اکثر محدثین کرام نے جرح کی ہے۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٢/٣٢٥)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ نقاد ائمہ نے اسے ”ضعیف” کہا ہے۔(ہدي الساري : ٣٩٠)
2 پچھلی حدیث کے تحت ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس سے مراد حلال جانوروں کا پیشاب نہیں کیونکہ اس کو احادیث ِ صحیحہ نے خاص کر دیا ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.