1,656

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دورکعتوں سے اٹھ کر رفع الیدین کرتے تھے ، ، اس کا ترک ثابت نہیں ، دلائل ملاحظہ ہوں :
دلیل نمبر 1 :     سیدنا عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :
انّ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان یرفع یدیہ حذو منکبیہ اذا افتتح الصّلاۃ ، واذا کبّر للرّکوع ، واذا رفع رأسہ من الرّکوع رفعھما کذلک أیضا وقال : سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، ربّنا ولک الحمد ، وکان لا یفعل ذلک فی السّجود ۔
”بے شک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے ، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع اللّٰہ لمن حمدہ، ، ربّنا ولک الحمد کہتے ، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”
(صحیح بخاری : ١/١٠٢، ح : ٧٣٥، ٧٣٦، ٧٣٨، صحیح مسلم : ١/١٦٨، ح : ٣٩٠)
راویئ حدیث کا عمل :     سلیمان الشیبانی کہتے ہیں :     رأیت سالم بن عبداللّٰہ اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ ، فلمّا رکع رفع یدیہ ، فلمّا رفع رأسہ رفع یدیہ ، فسألتہ ، فقال : رأیت أبی یفعلہ ، فقال : رأیت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم یفعلہ ۔
”میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر تابعی   رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا ، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ   رحمہ اللہ نے فرمایا ، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما )کو ایسا کرتے دیکھا ہے ، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا ۔”(حدیث السراج : ٢/٣٤۔٣٥، ح : ١١٥، وسندہ، صحیح)
سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے ، راویئ حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما  نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا ، خود بھی رفع الیدین کیا ، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں ، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کر رہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کر رہے ہیں، اگر رفع الیدین منسوخ ہوگیا تھا تو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوی ئ حدیث صحابی ئ رسول سیدنا عبداللہ بن عمر   رضی اللہ عنہما  کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہو گیا ؟
جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں :     ”جو سنت کی محبت سے بلا شر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے ، اس کو برا نہیں جانتا ۔”(تذکرۃ الرشید : ٢/١٧٥)
اے اللہ ! اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں !
دلیل نمبر 2 :     سیدنا مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے ، جب واپس جانے لگے تو نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا :     صلّوا کما رأیتمونی أصلّی ۔
”نماز ایسے پڑھو ، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ۔”(صحیح بخاری : ١/٨٨، ح : ٦٣١)
راویئ حدیث کا عمل :     ابو قلابہ تابعی   رحمہ اللہ سے روایت ہے :
أنّہ رآی مالک بن حویرث اذا صلّٰی کبّر ورفع یدیہ ، واذا أراد أن یرکع رفع یدیہ ، واذا رفع رأسہ من الرّکوع رفع یدیہ ، وحدّث أنّ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم صنع ھکذا ۔
”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔”
(صحیح بخاری : ١/١٠٢، ح : ٧٣٧، صحیح مسلم : ١/١٦٨، ح : ٣٩١)
صحابی ئ رسول سیدنا مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ نبی ئ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا ، ثابت ہوا کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  تاوفات رفع الیدین کرتے رہے ۔
دلیل نمبر 3 :     سیدنا وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، پھر کپڑا لپیٹ لیا ، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا ، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے ، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا ، جب (رکوع کے بعد) سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو رفع الیدین کیا ، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا ۔”(صحیح مسلم : ١/١٧٣، ح : ٤٠١)
واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر  رضی اللہ عنہ  ٩ ہجری میں نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔
(عمدۃ القاری از عینی حنفی : ٥/٢٧٤)
ایک وقت کے بعد موسم ِ سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا ۔(سنن ابی داو،د : ٧٢٧، وسندہ، حسن)
دلیل نمبر 4 :     سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض
نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  قراء ت مکمل کرکے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے سر اٹھا کر بھی رفع الیدین کرتے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے ۔”(سنن ابی داو،د : ٧٤٤، سنن الترمذی : ٣٤٢٣، مسند الامام احمد ١/٩٣، وسندہ، حسن)
اس حدیث کو امام ترمذی   رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح” کہا ہے ، امام ابنِ خزیمہ   رحمہ اللہ (٥٨٤)نے اسے ”صحیح” کہا ہے ۔
راوی ئ حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی   رحمہ اللہ کہتے ہیں :     ھذا عندنا مثل حدیث الزّھری عن سالم عن أبیہ ۔    ”ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمرسے روایت کرتے ہیں ۔”(سنن الترمذی ، تحت حدیث : ٣٤٢٣، وسندہ، صحیح)
اس کے راوی عبدالرحمن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک ”ثقہ” ہیں ، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ لکھتے ہیں:     وھو ثقۃ عند الجمہور ، وتکلّم فیہ بعضھم بما لا یقدح فیہ ۔
”وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب ِ جرح نہیں ۔”
(نتائج الافکار لابن حجر : ٣٠٤)
مدینہ میں اس کی حدیث ”صحیح” اور عراق میں ”مضطرب” تھی ، اس پر جرح اسی صورت پر محمول ہے ، یہ روایت مدنی ہے ۔    والحمد للہ !
دلیل نمبر 5 :     ابو الزبیر کہتے ہیں :      انّ جابر بن عبد اللّٰہ کان اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ ، واذا رکع ، واذا رفع رأسہ من الرّکوع فعل مثل ذلک ، ویقول : رأیت رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم فعل مثل ذلک ۔
”سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری  رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے ، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے ۔(سنن ابن ماجہ : ٨٦٨، وسندہ، صحیح)
ابو الزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے ”مسند السراج(٩٢)”میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے ۔
اب غور فرمائیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک تابعی سیدنا جابر صحابی ئ رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابی ئ رسول اسے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہے ہیں ، اگر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کاربند کیوں رہے ؟
دلیل نمبر 6 :      سیدنا ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :
ھل أریکم صلاۃ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟ فکبّر ورفع یدیہ ، ثمّ کبّر ورفع یدیہ للرّکوع ، ثمّ قال : سمع اللّٰہ لمن حمدہ ، ثمّ رفع یدیہ ، ثمّ قال : ھکذا فاصنعوا ، ولا یرفع بین السّجدتین ۔    ”کیا میں تمہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں ، آپ  رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا اور رفع الیدین کیا ، پھر اللہ اکبر کہا اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا ، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور رفع الیدین کیا ، پھر فرمایا ، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔”
(سن الدارقطنی : ١/٢٩٢، ح : ١١١١ ، وسندہ، صحیح)
حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     ورجالہ ثقات ۔    ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔”
(التلخیص الحبیر : ١/٢١٩)
اس حدیث سے ”بعض الناس” کا یہ کہنا کہ ” ٩ مقامات پر رفع الیدین کا اثبات اور ١٨ مقامات پر نفی دکھاؤ” باطل و مردود ٹھہرتا ہے ، کیونکہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں ، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نما زقرار دے رہے ہیں ، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں ، صحابہ کرام ] نے جہاں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا ، وہاں کیا ، جہاں نہیں دیکھا ، وہاں نہیں کیا ۔
دلیل نمبر 7 :      سیدنا ابو حمید الساعدی  رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام    رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں نماز پڑھ کر دکھائی ، نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور دورکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا :
صدقت ، ھکذا کان یصلّی النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔    ”آپ نے سچ کہا ہے ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے؛ ۔”
(مسند الامام احمد : ٥/٤٢٤، سنن ابی داو،د : ٧٣٠، سنن الترمذی : ٣٠٤، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کو امام ترمذی   رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح” کہاہے ، امام ابنِ خزیمہ(٥٨٧) ، امام ابن الجارود(١٩٢) ، امام ابن حبان (١٨٦٥)، اور حافظ خطابی (معالم السنن : ١/١٩٤)Sنے اس حدیث کو ”صحیح” قرار دیا ہے ۔
حافظ نووی   رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”صحیح” کہا ہے ۔(خلاصۃ الاحکام : ١/٣٥٣)
حافظ ابنِ قیّم الجوزیہ   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :         حدیث أبی حمید ھذا حدیث صحیح متلقّی بالقبول ، لا علّۃ لہ ، وقد أعلّہ قوم بما برّأہ اللہ أئمّۃ الحدیث منہ ، ونحن نذکر ما علّلوا بہ ، ثمّ نبیّن فساد تعلیلھم وبطلانہ بعون اللّٰہ ۔۔۔     ”یہ حدیث صحیح ہے ، اسے امت نے صحت و عمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے ، اس میں کوئی علت نہیں ، ہاں ! اسے ایک قوم (احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہا ہے ، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کر دیا ہے ،ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے ، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسد و باطل ہونا بیان کریں گے ۔”(تہذیب السنن لابن القیم : ٢/٤١٦)
امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابو عبداللہ النیسابوری   رحمہ اللہ (م ٢٥٨ھ) فرماتے ہیں :
”جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے ۔”(صحیح ابن خزیمۃ : ١/٢٩٨، وسندہ، صحیح)
دلیل نمبر 8 :      امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی   رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو نعمان محمد بن فضل   رحمہ اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھی ، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا ، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا ، میں نے امام حماد بن زید   رحمہ اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھی ، انہوں نے نما زشروع کرتے وقت ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا ، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا ، میں نے امام ایوب سختیانی   رحمہ اللہ کی اقتدا میں نماز پڑھی ، وہ نما ز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ، میں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا ، میں نے امام عطاء بن ابی رباح کی اقتدا میں نماز پڑھی ، وہ نما ز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح   رحمہ اللہ نے فرمایا ، میں نے (صحابی ئ رسول ) سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نما زپڑھی ، آپ  رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ،امام عطاء بن ابی رباح   رحمہ اللہ کہتے ہیں ، میں نے رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن زبیر  رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا ، میں نے (اپنے نانا )سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نما ز ادا کی ، آپ  رضی اللہ عنہ نما زشروع کرتے ، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفہئ اول)سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا ، میں نے رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نما زشروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے ۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٧٣، وسندہ، صحیح)
خود امام بیہقی   رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      رواتہ ثقات ۔     ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں ۔”
حافظ ذہبی   رحمہ اللہ (المھذب فی اختصار السنن الکبیر : ٢/٤٩)اور حافظ ابنِ حجر   رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : ١/٢١٩) نے اس حدیث کے راویوں کو ”ثقہ” قرار دیا ہے ۔
قارئین کرام ! اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ] اور تابعین عظام نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے ، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے ۔    آمین یا ربّ العالمین !
تنبیہ :     الامام الثقۃ ابو جعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی   رحمہ اللہ (م ٣١٨) بیان کرتے ہیں :     ”میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھے رہے تھے ، میں نے دیکھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے ۔”(سنن الدارقطنی : ١/٢٩٢، ح : ١١١٢، وسندہ، صحیح)
جن لوگوں کے مذہب کی بنیا د بزرگوں کے خوابوں پر ہے ، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صورت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟
الحاصل :     رفع الیدین رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت ِ متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.