739

شکریہ ہماری بچیو…!

شکریہ ہماری بچیو

تحریر: محترم یوسف سراج صاحب

مس پیٹریشیا فاسٹرایک اعلیٰ تعلیم یافتہ عیسائی خاتونتھیں۔ وہ نائیجیریا کی وفاقی وزارت میں ایک اہم عہدے پر فائز تھیں ۔ شادی نہ کی تھی سو بوڑھی ہوکر بھی مس کہلاتی تھیں ۔ مس پیٹریشا کی اسی وزارت میں ایک پاکستانی پروفیسر بھی کام کرتے تھے ۔ پروفیسریحیٰ صاحب، جوپنجاب یونیورسٹی میں شعبہ ٔ اسلامیات کے جید سکالر تھے اور ان دنوں ایک معاہدے کے تحت نائجیرین حکومت کے مہمان تھے۔ بعد ازاں آپ نائجیرین یونیورسٹی میں اسلامی شعبہ کے چئیرمین بھی رہے۔ بہرحال وزارت کے انھی دنوں کی بات ہے۔ ایک دن مس پیڑیشیا پروفیسرصاحب سے کہنے لگیں ، مسٹر پروفیسر! کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسلام ایک متشدداور خواتین کے بارے میں سخت رویہ رکھنے والا مذہب ہے؟ دراصل مس پیٹریشیاکی اسلام کے بارے میں معلومات ویسی ہی تھیں، جیسی مستشرقین کی بدولت غیر مسلموں کی ہوا کرتی ہیں۔ سو آج موقع پاکر مس پیٹریشیا اپنے ایک ساتھی مسلمان پروفیسرسے اس کی وضاحت چاہ رہی تھیں۔

پروفیسر صاحب نے مس پیٹریشیا کا الزام تحمل سے سنااوربات کو دلائل سے واضح کرنے کا فیصلہ کیا۔ کہنے لگے، مس! میں جواب ضرور دوں گا مگرکیا میں آپ سے بھی کچھ پوچھ سکتاہوں ؟ کیوں نہیں ؟ پیٹریشیافاسٹر نے دلچسپی سے ہمہ تن گوش ہوتے ہوئے کہا۔ پروفیسر صاحب نے کہنا شروع کیا۔ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں ،خواتین پر مہینے میں طبعی اعتبار سے کچھ خاص ایام آتے ہیں۔ آپ یہ بتائیے کہ ان ایام میں خواتین طبی اور سائنسی اعتبار سے کیسا محسوس کرتی ہیں؟ خاتون نے فی الفور جواب دیا Uneasyness (بے آرامی اوراذیت) ۔ درست ! پروفیسر صاحب نے مزید کہا۔ اب آپ صرف اتنا بتا دیجئے کہ عیسائیت نے عورت کی ا س اذیت کو محسوس کرتے ہوئے اس مشکل وقت میں صنفِ نازک کیلئے کیا ریلیف پیکج آفر کیاہے؟ اس سوال پروہ محترمہ سوچنے لگیں ۔ سوچتی رہیں او ربالآخر سر جھکاتے ہوئے مضمحل لہجے میں بولیں ’’کچھ نہیں !‘‘

اس پر پروفیسر صاحب گویا ہوئے۔ اب آپ اس سلسلے میں اسلام کی سنئے ، پہلی بات تو یہ کہ اسلام نے عورت کے اس درد کو محسوس کرتے ہوئے اس کا اعتراف قرآن مجید میں کیا۔ پھر عین وہی لفظ بولے جو آج کی اس صدی میں ایک غیرمسلم عورت خود اپنے لئے پسند کر رہی ہے ، قرآن مجید نے مرد کو بتایاکہ اس حالت میں عورت کو’اذیٰ‘ یعنی ایک اذیت و تکلیف اور uneasyness کی کیفیت درپیش ہوتی ہے سو ایسے میں یہ عورت عمومی نہیں تمھارے خصوصی سلوک کی مستحق ہوجاتی ہے ۔ یہی نہیں، خو د شریعت بھی عورت کی اس تکلیف کے لئے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی ۔وہی نماز کہ جس کا ترک شریعت میں کفر تھا، وہ اس عورت کی اذیت کے احترام میں ان دنوں اسے معاف کردی گئی ۔ روزے بعد میں کسی وقت رکھنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر یہ بھی خیال فرمایا کہ اس معاملے کی بناپر کوئی اسکی دل آذارى (Hurt) بھی نہ کرے ۔ چنانچہ جب پتا چلا کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے ان ایام میں اپنی بیوی کا بستر کمرے سے باہر لگادیا ہے تورسولِ رحمتؐ نے انھیں بلا کے سمجھایاکہ بیوی سے یہ بے رخی کیوں؟ ایسے میں تو یہ قدرے اور محبت و سلوک کی مستحق ہونی چاہئے ۔ اس سلسلے میں مزید فرمایا، ان حالات میں سوائے خصوصی تعلقات کی استواری کے عورت سے کسی قسم کی دوری اختیار نہ کی جائے وغیرہ وغیرہ۔

یہ سب سن کر اس خاتون کی آنکھیں کھل گئیں۔ اب مس پیٹریشیا فاسٹرششدر تھی اور ایک مسلم سکالر کے سامنے عیسائیت کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون گنگ تھی۔ گویااسلام کے سامنے آج پوری عیسائیت چپ تھی۔

کیاکوئی ہے جو ہماری ان بچیوں کو مخاطب کرکے کہے کہ اے گل ِبرگ کے روشنی گھرمفہوم کے تعلیمی ادارے میں ایک خاص قسم کے مظاہرے کرتی ہماری بچیو! تم نے یہ کہانی نہیں سنی ہوگی۔ تم نے اس باب میں اسلام کی روشنی بھی نہیں جانی ہوگی۔ عین انھی ایام میں اپنی پیاری بیوی سیدہ عائشہ ؓکی دلجوئی کے لئے روارکھے گئے رسولِ رحمت ؐکے تعلیمی مظاہر بھی تم نے ہر گز نہ جانے ہوں گے۔ مثلاًسیدہ نے بتایا۔ عین انھی ایام میں ،میں مشروب پی کے برتن رسول اللہ ؐ کو دے دیتی ۔ آپ اسی مشروب کو، اس برتن کی ٹھیک اسی جگہ سے نوش فرماتے جہاں سے میرے لبوں نے چھوا ہوتا۔ اور بھی بہت سی باتیں سیدہ بتاتی ہیں۔ تم نے بہرحال نادانی میں یہ مظاہرہ کیا ۔ جو تمھیں بتایا یاسمجھایا گیا اسی کے تناظر میں تم نے جو کیا سو کیا۔ تمھیں
اعتراض ہواکہ دکاندار تمھارے خاص ایام کاسامان خاکی لفافے میں ڈال کے کیوں دیتاہے۔ تم نے کپڑوں پرخون ملا کہ تمھیں اس حالت کے کھلے بیان کی چھٹی کیوں نہیں ملتی؟ یا جو بھی تم نے اس جگہ لکھا، جہاں لکھنے کی تربیت تمھیں کوئی دوسرا تعلیمی ادارہ نہ دیتا۔ دراصل مجھے قصور تمھاراکم لگتاہے۔

تمھیں تو یہ بھی نہیں بتایاگیا ہوگا کہ جس وقت اسلام تمھاری نزاکتوں کے لئے سہولت و محبت کے ایسے پھول چن رہا تھا،ا س لمحے ساری دنیا کس طرح تمھیں چھوت سمجھتی تھی۔جیساکہ ایک لکھنے والی نے ’ہم سب ‘کے استفادے کے لئے کسی میڈیکل کی معتبر کتاب سے ایسی ساری تاریخی روداد لکھ دی ہے۔اس لکھے میں سب لکھا گیا مگرافسوس اسلام کی مہربانی نہیں لکھی گئی۔ بھلاایسی بھی کیاتاریخ دشمنی اورایسی بھی حقائق سے کیابے اعتنائی۔

خلاصہ اس ساری روداد کا یہ کہ دنیا تب تمھیں بس یوں سمجھو کوڑھی سمجھتی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے ،اس حال میں جس چیز کوتم چھولووہ برباد اور جسے تم نظر بھرکے دیکھ لو وہ زہرناک ہوجائے ۔ ایسی حالت میں تمھارا سایہ ذائقے کو تلخ اور زمیں کو بنجر کر دے۔ ارسطو جیساعقلمند بھی کہتاتھااگر اسی حالت میں تم آئینہ دیکھ لو توآئینہ شکنوں سے بھرجائے اور جو کوئی دوسرا تمھارا دیکھا آئینہ دیکھ لے تو اس پر جادو ہوجائے۔

یہودی ایسی حالت میں تمھیں کوڑھی کی طرح فالتوچیزوں میں پھینک مارتے تھے ۔پھر تم ایسی قسمت کی ماری کو اسلام نے انسان سمجھا اور سینے سے لگایا ۔تو احسان کا بدلہ یوں تو نہیں دیا جاتا نا!

دیکھو کچھ چیزیں خاص ہوتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب بھلاکیسے کہ وہ باعثِ اذیت یا کمتر بھی ہوتی ہیں؟ وہ بس عام نہیں ہوتیں ۔ہم اپنا جسم ڈھانپ کے رکھتے ہیں تو کیااس لئے کہ یہ ہمارے نزدیک اہمیت نہیں رکھتایا منفی مقام رکھتاہے۔ کیاآپ کو علم نہیں چیز جتنی قیمتی ہوتی ہے ،اتنی ہی وہ پردوں میں ہوتی ہے ۔ ہماری کتنی ہی فطری ضرورتیں ہیں ۔ جو عین فطرت ہیں مگرہم ان کے لیے بازار کے بیچ نہیں بیٹھ جاتے ،واش روم جاتے ہیں۔ ہم ان کی سیلفیاں بھی نہیں بناتے۔ یہ چیزیں اہم شخصیات کو بھی لاحق ہوتی ہیں ۔ مگر وہ بھی ان کی بریکنگ نیوز جاری نہیں کرواتے ۔ دیکھو! کچھ چیزیں بہت خاص ہوتی ہیں ۔ ہم انھیں ذاتیات کہتے ہیں ۔ یہ بری نہیں ہوتیں بس ہماری ذاتی ہوتی ہیں۔ایک بات آپ کو بتاؤں آج کی کوئی بھی عورت عرب عورت جتنی بے باک اور خودی کی پیکر نہیں ہو سکتی ۔ اس نے اپنی ضرورت کی ہر چیز کو بیان بھی کیا او رسنا اور سمجھا بھی اور پھر آگے ہمارے فائدے کے لئے بھی بیان کر دیا۔مگر دیکھئے کچھ شرم ہوتی ہے اورکچھ حیاہوتی ہے۔

شاید آپ کو علم نہ ہو کہ ایک بھارتی وزیرِ اعظم مرار جی ڈیسائی ہوتے تھے ۔یہ کوئی انسانی فریش جوس پیا کرتے تھے ۔کسی سے پوچھنا وہ کیا تھا۔ آپ کو گھن آئے گی ۔ بات یہ ہے کہ شرم کا دامن جب ہاتھ سے چھوٹ جائے تو انسان کی پستی کاکوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔اور دیکھو زندگی ساری نظم کی طرح عیاں نہیں ہوتی ۔یہ کبھی غزل ہوتی ہیں۔ تب یہ تلمیح اور استعارے میں لطف دیتی ہیں۔ وہا ں یہ ننگی ہو جائے تو حسن کھو دیتی ہیں۔ یہ جو لفافے کی آپ نے بات کی, یہ توآپ کوتکریم دی جاتی ہے ۔ ورنہ انسان ہونے کے ناتے کیا خیال ہے دکاندار میں شیطان نہیں آسکتا؟ مغرب مين اب کسی خاتون کوبس میں سیٹ بھی پیش نہیں کی جاتی ۔ وہاں عورت دل کی رانی اور گھرکی مہارانی نہیں رہی ۔ سوچو،وہ مرد بننے نکلی تھی تو کیا بن سکی؟ کتنے بوجھ اس نے خود پر لاد لیے تو کیاوہاں بچے اب مرد جنتا ہے؟ بہرحال تمھارا شکریہ تم نے ہمیں بتایا کہ ہمارے تعلیمی ادارے ، ہمارے نصاب یا ہماری تربیت میں ایسا ضرور ہے جو تمھیں کاغذ پر لکھنے کی باتیں کہیں اور لکھنا سکھا رہاہے۔ یاد آیا ساتویں کی ایک طالبہ نے ایک دن سکول سے گھر آکے اپنی ماں سے پوچھا : مما ابارشن (Abortion – اسقاط حمل) کیا ہوتاہے؟ اور ماں نے اگلے دن بیٹی کا سکول بدل دیا۔ شکریہ کہ تم نے ہمیں بتایاکہ جہاں ہمارے پچھتر سالہ پروفیسر یحی ٰٰصاحب ان مس پیٹریشیا فاسٹرکو اسلام کی روشنی سے نہلا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ہماری مریم و جمیلہ کو اسلا م سے بہکا بھی رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.