959

صف بندی، شمارہ 36 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


صف بندی،ضرورت واہمیت
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نماز کے لیے صفوں کو سیدھا کرنا، صفوں کے درمیان فاصلہ کم رکھنا،صف میں کندھوں کو برابر رکھنا ، ٹخنے سے ٹخنا ملانا اور پاؤں کے ساتھ پاؤں ملانا واجب ہے۔ صحابہ کرام اور ائمہ سلف صالحین ہمیشہ اس کے عامل رہے ہیں۔ احادیث ِ رسول میں صف بندی کے بارے میں احکامات بڑی تاکید سے بیان ہوئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں :
1 سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
فَقَالَ : ’أَلَا تَصُفُّونَ کَمَا تَصُفُّ الْمَلاَئِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا؟‘، فَقُلْنَا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَکَیْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِکَۃُ عِنْدَ رَبِّہَا؟، قَالَ : ’یُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْـأُوَلَ، وَیَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس طرح کیوں صفیں نہیں بناتے جس طرح فرشتے اپنے رب کے ہاں صفیں بناتے ہیں؟ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! فرشتے اپنے رب کے ہاں کیسے صفیں بناتے ہیں ؟ فرمایا : وہ پہلی صفوں کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں ایک دوسرے سے یوں مل کر کھڑے ہوتے ہیںکہ درمیان میں کوئی فاصلہ باقی نہیں رہتا۔‘‘(صحیح مسلم : ۱/۱۸۰،ح : ۴۳۰)
2 سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کاَنَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَمْسَحُ مَنَاکِبَنَا فِي الصَّلَاۃِ، وَیَقُولُ : ’اسْتَوُوا وَلَا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُکُمْ‘، ۔۔۔ قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ : فَأَنْتُمُ الْیَوْمَ أَشَدُّ اخْتِلَافًا ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز (کی صفوں) میں ہمارے کندھوں کو ہاتھوںسے برابر کرتے اور فرماتے : سیدھے ہو جاؤ ، ٹیڑھے نہ ہو جاؤ ، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔۔۔ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آج تم (صفوں کی درستی میں سستی کی بناء پر)سخت اختلاف کا شکار ہو۔‘‘(صحیح مسلم : ۱/۱۸۱، ح : ۴۳۲)
معلوم ہوا کہ صفیں ٹیڑھی ہوں تو اس کی سزا میں دل بھی ٹیڑھے ہو جاتے ہیں ، مودّت و محبت ختم ہو جاتی ہے ، دشمنی اور عداوت گھر کر جاتی ہے ، دلوں کو بغض ، حسد اور عناد جیسی مہلک بیماریاں گھیر لیتی ہیں ، بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے ، دوستی رنجشوں میں بدل جاتی ہے ، دلوں میں ایسی پھوٹ پڑتی ہے کہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنا گوارا نہیں ہوتا۔ آج بھی اختلاف و انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حدیث کو فیصل و حاکم مان کر اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ائمہ مساجد اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں، صفوں کی درستی پر توجہ نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ روز قیامت ضرور پوچھے گا۔امام کو اس وقت تک نماز شروع نہیں کرنی چاہیے،جب تک صفیں درست نہ ہو جائیں۔
3 سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَخَلَّلُ الصَّفَّ مِنْ نَّاحِیَۃٍ إِلٰی نَاحِیَۃٍ، یَمْسَحُ صُدُورَنَا وَمَنَاکِبَنَا، وَیَقُولُ : ’لَا تَخْتَلِفُوا، فَتَخْتَلِفَ قُلُوبُکُمْ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صف میں داخل ہوتے اور ایک جانب سے دوسری جانب تک جاتے۔اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست کرتے اور فرماتے : ٹیڑھے نہ ہوا کرو ، ورنہ تمہارے دل ٹیڑھ کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۴/۲۸۵؛ سنن أبي داوٗد : ۶۶۴؛ سنن النسائي : ۸۱۲؛ سنن ابن ماجہ : ۹۹۷ متختصرا، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن جارود (۳۱۶)، امام ابن خزیمہ(۱۵۵۶) اور امام ابن حبان (۲۱۶۱) رحمہم اللہ نے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۲۲۳۔۳۱۱ھ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
بَابُ التَّغْلِیظِ فِي تَرْکِ تَسْوِیَۃِ الصُّفُوفِ، تَخَوُّفًا لِّمُخَالَفَۃِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ بَیْنَ الْقُلُوبِ ۔
’’صفوں کی درستی میں سستی کے بارے میں سخت وعید کا بیان کہ اللہ رب العزت کی طرف سے دلوں میں دوری ڈال دیے جانے سے ڈرنا چاہیے۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ : ۳/۲۴)
4 سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَوِّي صُفُوفَنَا حَتّٰی کَأَنَّمَا یُسَوِّي بِہَا الْقِدَاحَ، حَتّٰی رَاٰی أَنَّا قَدْ عَقَلْنَا عَنْہُ، ثُمَّ خَرَجَ یَوْمًا، فَقَامَ حَتّٰی کَادَ یُکَبِّرُ، فَرَاٰی رَجُلًا بَادِیًا صَدْرَہٗ مِنَ الصَّفِّ، فَقَالَ : ’عِبَادَ اللّٰہِ، لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَکُمْ أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ وُجُوہِکُمْ‘ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفیں اتنی سیدھی کرتے رہے کہ گویا ان صفوں کے ذریعے تیروں کو سیدھا کرتے ہوں،حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ہم یہ بات سمجھ گئے ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے اور قریب تھا کہ نماز کے لیے تکبیر کہہ دیں۔اچانک آپ کی نظر مبارک ایک ایسے شخص پر پڑی جو صف سے اپنے سینے کو باہر نکالے ہوئے تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو درست کر لو گے ورنہ اللہ تعالیٰ تمارے چہروں میں اختلاف (دشمنی)ڈال دے گا۔‘‘
(صحیح مسلم : ۱/۱۸۲، ۴۳۶)
اس حدیث کی رو سے صفوں کا سیدھا کرنا نہایت ضروری ہے، صفیں کج اور ٹیڑھی نہ ہوں،کیونکہ صفوں کا ٹیڑھا پن باہمی پھوٹ، اختلاف قلوب اور باطنی کدورت کا موجب ہے۔ جب تک صف بندی درست نہ ہو، تب تک نماز شروع نہیں کرنی چاہیے۔
5 سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَکُمْ، أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ وُجُوہِکُمْ‘ ۔
’’تم ضرور اپنی صفوں کو سیدھا کر لو گے،ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت (عداوت) ڈال دے گا۔‘‘(صحیح البخاری : ۷۱۷، صحیح مسلم : ۴۳۶)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (۳۸۴۔۴۵۶ھ) اس وعید کے بارے میں فرماتے ہیں :
ہٰذَا وَعِیدٌ شَدِیدٌ، وَالْوَعِیدُ لَا یَکُونُ إِلَّا فِي کَبِیرَۃٍ مِّنَ الْکَبَائِرِ ۔
’’یہ سخت وعید ہے اور وعید ہمیشہ کسی کبیرہ گناہ کے بارے میں ہوتی ہے۔‘‘
(المحلّٰی لابن حزم : ۲/۵۵، مسئلۃ : ۴۱۵)
6 سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِذَا صَلَّیْتُمْ؛ فَأَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ‘ ۔
’’جب تم (باجماعت)نماز پڑھو تو اپنی صفوں کو درست کیاکرو۔‘‘
(صحیح مسلم : ۱/۱۷۴، ح : ۴۰۴)
7 سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’رُصُّوا الصُّفُوفَ، لاَ یَتَخَلَّلُکُمْ مِّثْلُ أَوْلاَدِ الْحَذَفِ‘، قِیلَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، وَمَا أَوْلَادُ الْحَذَفِ؟ قَالَ : ’غَنَمٌ سُودٌ صِغَارٌ، یَکُونُ بِالْیَمَنِ‘ ۔
’’تم صفوں کو اچھی طرح ملایا کرو ، تمہارے درمیان سے حذف کے بچوں کی طرح کی چیزیں نہ گزر سکیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ حذف کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : چھوٹی سی بکری جو کہ یمن میں پائی جاتی ہے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ۱/۳۵۱؛ مسند السراج : ۷۵۸؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ۳/۲۱۷، وسندہٗ صحیحٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بخاری ومسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
8 سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَوِّي یَعْنِي صُفُوفَنَا إِذَا قُمْنَا لِلصَّلَاۃِ، فَإِذَا اسْتَوَیْنَا کَبَّرَ ۔۔
’’جب ہم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو سیدھا کرتے۔ جب ہم سیدھے ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تکبیر کہتے۔‘‘
(سنن أبی داوٗد : ۶۶۵؛ صحیح أبي عوانۃ : ۱۳۸، وسندہٗ حسنٌ)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(خلاصۃ الأحکام للنووي : ۲۴۷۰)
9 سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَقِیمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلَاۃِ، فَإِنَّ إِقَامَۃَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلَاۃِ‘ ۔
’’ تم نماز میں صف کو قائم رکھا کرو کیونکہ صف کو قائم کرنا نمازکا حسن ہے۔‘‘
(صحیح البخاری : ۷۲۲؛ صحیح مسلم : ۴۳۵)
0 سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’سَوُّوا صُفُوفَکُمْ، فَإِنَّ تَسْوِیَۃَ الصَّفِّ مِنْ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ‘ ۔
’’تم صفوں کو درست کیا کرو کیونکہ صفوں کی درستی سے نماز قائم ہوتی ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : ۱/۱۰۰، ح : ۷۲۳؛ صحیح مسلم : ۱/۱۸۱، ح : ۴۳۳)
صف کا برابر اور سیدھا کرنا نماز قائم کرنے میں داخل ہے،صفوں کا ٹیڑھا ہونا نماز میں موجب نقصان ہے۔
! سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَحْسِنُوا إِقَامَۃَ الصُّفُوفِ فِي الصَّلاَۃِ‘ ۔
’’نماز میں صفوں کی درستی اچھی طرح سے کیا کرو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۲/۴۸۵، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (۲۱۷۹)نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
@ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أُقِیمَتِ الصَّلَاۃُ، فَأَقْبَلَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہٖ، فَقَالَ : ’أَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاکُمْ مِّنْ وَّرَائِ ظَھْرِي‘ ۔
’’ایک دن نماز کی اقامت ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُخِ انور ہماری طرف پھیرا اور فرمایا : تم صفوں کو مکمل کرو اور خوب مل کر کھڑے ہوا کرو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔‘‘(صحیح البخاري : ۱/۱۰۰، ح : ۷۱۹)
# ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ، فَإِنِّي أَرَاکُمْ مِّنْ وَّرَائِ ظَہْرِي‘، وَکَانَ أَحَدُنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہٗ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ، وَقَدَمَہٗ بِقَدَمِہٖ ۔
’’تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ پھر ہم میں سے ہر آدمی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکا لیتا تھا۔‘‘
(صحیح البخاري : ۱/۱۰۰، ح : ۷۲۵)
بتائیے کہ جو لوگ صرف انگلی کے ساتھ انگلی ملاتے ہیں ان کا عمل حدیث کے موافق ہے یا مخالف ؟
علامہ،ابوالحسن،عبید اللہ بن عبد السلام،مبارک پوری رحمہ اللہ (م : 1414ھ)فرماتے ہیں :
کُلُّ ذٰلِکَ یَدُلُّ دَلَالَۃً وَّاضِحَۃً عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ بِإِقَامَۃِ الصَّفِّ وَتَسْوِیَتِہٖ؛ إِنَّمَا ہُوَ اعْتِدَالُ الْقَائِمِینَ عَلٰی سَمْتٍ وَّاحِدٍ، وَسَدُّ الْخَلَلِ وَالْفُرُجِ فِي الصَّفِّ بِإِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ وَالْقَدَمِ بِالْقَدَمِ، وَعَلٰی أَنَّ الصَّحَابَۃَ فِي زَمَنِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوا یَفْعَلُونَ ذٰلِکَ، وَأَنَّ الْعَمَلَ بِرَصِّ الصَّفِّ وَإِلْزَاقِ الْقَدَمِ بِالْقَدَمِ وَسَدِّ الْخَلَلِ کَانَ فِي الصَّدْرِ الْـأَوَّلِ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَتَبَعِہِمْ، ثُمَّ تَہَاوَنَ النَّاسُ بِہٖ ۔
’’یہ سارے الفاظ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ صفوں کی درستی سے مراد نمازیوں کا ایک سیدھ میں کھڑا ہونا،نیزکندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملا کر خالی جگہوں کو پُر کرناہے۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صحابہ کرام ایسا کرتے تھے اور صف کو اچھی طرح ملانے اور پاؤں سے پاؤں چمٹانے کا عمل اسلام کے صدر ِاول،یعنی صحابہ وتابعین میں موجود تھا،لیکن بعد میں لوگوں نے اس میں سستی شروع کر دی۔‘‘(مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 5/4)
جناب انور شاہ کشمیری،دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
اَلْمُرَادُ بِإِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ عِنْدَ الْفُقَہَائِ الْـأَرْبَعَۃِ أَنْ لَّا یَتْرُکَ فِي الْبَیْنِ فُرْجَۃً تَسَعُ فِیہَا ثَالِثًا، ۔۔۔، وَلَمْ أَجِدْ عِنْدَ السَّلَفِ فَرْقًا بَیْنَ حَالِ الْجَمَاعَۃِ وَالِانْفِرَادِ فِي حَقِّ الْفَصْلِ بَیْنَ قَدَمَيِ الرَّجُلِ بِأَنَّہُمْ کَانُوا یَفْصِلُونَ بَیْنَ قَدَمَیْہِمْ فِي حَالِ الْجَمَاعَۃِ أَزْیَدَ مِنْ حَالِ الِانْفِرَادِ، وَہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃُ أَوْجَدَہَا غَیْرُ الْمُقَلِّدِینَ فَقَطْ، وَلَیْسَ عِنْدَہُمْ إِلَّا لَفْظُ الْإِلْزَاقِ، وَلَیْتَ شَعْرِي، مَاذَا یَفْہَمُونَ مِنْ قَوْلِہِمْ الْبَائُ لِلِالْتِصَاقِ، ثُمَّ یُمَثِّلُونَہٗ : مَرَرْتُ بِزَیْدٍ، فَہَلْ کَانَ مُرُورُہٗ بِہٖ مُتَّصِلاً بَعْضُہٗ بِبَعْضٍ أَمْ کَیْفَ مَعْنَاہُ، ۔۔۔، وَفِي مَسَائِلِ التَّعَامُلِ لَا یُؤْخَذُ بِالْـأَلْفَاظِ،۔۔۔، لَمَّا لَمْ نَجِدِ الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ یُفَرِّقُونَ فِي قِیَامِہِمْ بَیْنَ الْجَمَاعَۃِ وَالِانْفِرَادِ؛ عَلِمْنَا أَنَّہٗ لَمْ یُرِدْ بِقُوْلِہٖ إِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ إِلَّا التَّرَاصَّ وَتَرْکَ الْفُرْجَۃِ، ثُمَّ فَکِّرْ فِي نَفْسِکَ وَلَا تَعْجَلْ أَنَّہٗ ہَلْ یُمْکِنُ إِلْزَاقُ الْمَنْکِبِ مَعَ إِلْزَاقِ الْقَدَمِ إِلَّا بَعْدَ مُمَارَسَۃٍ شَاقَّۃٍ، وَلَا یُمْکِنُ بَعْدَہٗ أَیْضًا، فَہُوَ إِذَنْ مِنْ مُّخْتَرَعَاتِہِمْ، لَا أَثَرَ لَہٗ فِي السَّلَفِ ۔
’’فقہاے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازیوں کے درمیان اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے کہ کوئی تیسرا وہاں کھڑا ہو سکے۔ مجھے سلف کے ہاں ایسا کوئی فرق نہیں ملا جو آدمی اپنے دونوں پاؤں کا درمیانی فاصلہ اکیلے نماز پڑھتے ہوئے اور جماعت میں کھڑا ہوتے ہوئے ملحوظ رکھے۔ سلف صالحین جماعت کی صورت میں اپنے دونوں پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ نہیں رکھتے تھے۔یہ مسئلہ صرف غیر مقلدین نے ایجاد کیا ہے۔ ان کے پاس اس سلسلے میں صرف لفظ ِالزاق(جو کہ احادیث میں وارد ہوا ہے اور اس کا معنیٰ ایک نمازی کا دوسرے نمازی سے پاؤں اور کندھا چمٹانا)ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ غیر مقلدین یہ کہہ کر کیا مراد لیتے ہیں کہ باء الصاق (ملاپ کے معنیٰ)کے لیے ہوتی ہے۔ پھر وہ الصاق کی مثال یہ دیتے ہیں کہ مَرَرْتُ بِزَیْدٍ (میں زید کے پاس سے گزرا)۔کیا ان گزر اس طرح ہوا کہ ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل گیا یا کیا معنیٰ ہو گا؟تعامل والے مسائل میں الفاظ کو اختیار نہیں کیا جاتا۔ جب ہمیں صحابہ وتابعین جماعت میں قیام انفرادی قیام سے الگ نوعیت کا نہیں کرتے تھے،تو معلوم ہو گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ِالزاق بول کر صرف صف کو اچھی طرح ملانااور خالی جگہ کو پُر کرنا مراد لیا ہے۔پھر آپ جلدی کیے بغیر دل میں غور کریں کہ کندھے سے کندھا ملانا بغیر سخت مشقت کے ممکن نہیں، بل کہ مشقت کے بعد بھی یہ ممکن نہیں۔لہٰذا یہ غیرمقلدین کی گھڑی ہوئی باتوں میں سے ایک ہے۔سلف میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘(فیض الباري : 302/2)
کشمیری دیوبندی صاحب کی عبارت سے یہ باتیں سمجھ میں آتی ہیں :
1 فقہاے اربعہ کے نزدیک کندھے سے کندھا ملانے کا مطلب حقیقی طور پر کندھے سے کندھا ملانا نہیں،بل کہ دو نمازیوں کا باہم قریب ہو کر کھڑا ہونا ہے۔البتہ وہ آپس میں اتنا فاصلہ چھوڑ سکتے ہیںکہ کوئی تیسرا شخص درمیان میں کھڑا نہ ہو سکے۔
لیکن یہ بات ائمہ دین پر جھوٹ ہے۔کسی ایک بھی امام سے ایسا ثابت نہیں۔
2 سلف صالحین میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو جماعت میں اپنے پاؤں کا فاصلہ انفرادی نماز سے زیادہ رکھتا ہو،جب کہ غیرمقلدین ایسا کرنے کو کہتے ہیں۔
یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔اہل حدیث انفرادی اور باجماعت دونوں حالتوں میں اپنے کندھوں کے حساب سے پاؤں کھولنے کا کہتے ہیں اور اسی طرح صف بندی درست ہوتی ہے۔نہ کندھے سے کندھا ملانے کے لیے پاؤں میں زیادہ فاصلہ ضروری ہے،نہ اہل حدیث نے کبھی ایسا کہا اور کیا۔
3 اہل حدیث کے پاس صرف لفظ ِالزاق ہی ہے ،جسے وہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے پر پیش کرتے ہیں۔
یہ بھی سو فیصد غلط بیانی ہے،کیوں کہ لفظ ِالزاق کے ساتھ ساتھ تَرَاصُّوا (باہم چپک جاؤ)اور سُدُّوا الْخَلَل(خالی جگہیں کو پُر کرو)وغیرہ کے الفاظ بھی اسی معنیٰ پر واضح دلالت کرتے ہیں،جن کا اثبات خود کشمیری صاحب نے بھی کر دیا ہے۔
4 کندھے سے کندھا ملانے والی حدیث میں باء الصاق(ملاپ)کے لیے ہے،جس کی مثال مَرَرْتُ بِزَیْدٍ (میں زید کے پاس سے گزرا)ہے۔کیا کوئی کسی کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کا جسم بھی باہم ملتا ہے؟
یہ محض دھوکا دہی ہے۔اہل علم نے الصاق کی مثال صرف یہی ذکر نہیں کی،جو کشمیری صاحب نے بیان کر کے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے۔یہ الصاق مجازی کی مثال ہے،جب کہ الصاق حقیقی کی مثالیں کشمیری صاحب ہڑپ کر گئے ہیں،جیسے بِہٖ دَائٌ (اسے بیماری لگی ہے)۔ کیا بیماری کسی انسان کے جسم سے چمٹی نہیں ہوتی؟حدیث میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملانے کے ذکر میں جو باے الصاق ہے،وہ بھی الصاقِ حقیقی کے لیے ہے۔
5 صف بندی پر امت کا تعامل ہے اور وہ صرف افراد کے باہمی ایک سمت میں کھڑے ہونے پر ہے،لہٰذا حدیث کے الفاظ کی بجائے تعامل ہی معتبر ہے۔
یہ بات بھی دیانت ِعلمی کے خلاف ہے،کیوں کہ صحابہ وتابعین کا عمل تو صحیح احادیث کی روشنی میں یہی تھا کہ وہ باہم پاؤں کے ساتھ پاؤں اور کندھے سے کندھا اچھی طرح ملاتے تھے۔ہر دور میں اہل حق اس پر عمل کرتے آئے ہیں۔اہل حدیث کی مساجد میں آج بھی یہ سنت زندہ ہے۔نہ معلوم کس تعامل کی بات کشمیری صاحب کر رہے ہیں؟
6 کندھے سے کندھا حقیقی طورپر ملانا بہت مشقت والا،بل کہ ناممکن کام ہے۔ یہ غیرمقلدین کی گھڑنت ہے۔
اہل حق اور سنت کے شیدائیوں کے لیے یہ قطعاً مشکل نہیں اور سوفی صد ممکن ہے۔ ہم الحمد للہ اس سنت پر ہمیشہ عمل کرتے ہیں اور بغیر مشقت کے اس پر عمل ممکن ہوتا ہے۔جن کے دل سنت سے تنگ ہوں،ان کو یہ عمل سخت مشکل اور تکلیف دہ محسوس ہوتا ہے۔
ایک پیاری سنت کو ناقابل عمل قرار دینے کی یہ سازش بحمداللہ ناکام ہو گئی ہے۔
علامہ،عبیداللہ بن عبد السلام،مبارک پوری رحمہ اللہ (م : 1414ھ)،کشمیری صاحب کا ردّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
حَمْلُ الْإِلْزَاقِ ہُنَا عَلَی الْمَجَازِ یَحْتَاجُ إِلٰی قَرِینَۃٍ، وَتَفْسِیرُہٗ بِأَنْ لَّا یُتْرَکَ فِي الْبَیْنِ فُرْجَۃٌ تَسَعُ فِیہَا ثَالِثًا؛ لَا أَثَارَۃَ عَلَیْہِ مِنْ دَلِیلٍ، لَا مِنْ مَّنْقُولٍ وَّلَا مِنْ مَّعْقُولٍ، وَلاَ یُوجَدُ ہٰہُنَا أَدْنٰی قَرِینَۃٍ وَّأَضْعَفُ أَثَرٍ یَّدُلُّ عَلٰی ہٰذَا الْمَعْنٰی اَلْبَتَّۃَ، فَہُوَ إِذًا مِّنْ مُّخْتَرَعَاتِ ہٰذَا الْمُقَلَّدِ الَّذِي جَعَلَ السُّنَّۃَ بِدْعَۃً، وَالْبِدْعَۃُ أَي تَرْکُ الْإِلْزَاقِ بِإِبْقَاعِ الْفُرْجَۃِ وَعَدَمِ الْتِضَامِ سُنَّۃٌ، ثُمَّ لَمْ یَکْتَفِ بِذٰلِکَ، بَلْ تَجَاسَرَ، فَنَسَبَ مَا اخْتَرَعَہٗ إِلَی الْفُقَہَائِ الْـأَرْبَعَۃِ، ثُمَّ أَقُولُ : مَا الدَّلِیلُ مِنَ السُّنَّۃِ أَوْ عَمَلِ الصَّحَابِيِّ عَلٰی تَحْدِیدِ الْفَصْلِ بَیْنَ قَدَمَيِ الْمُصَلِّي بِأَنْ یَّکُونَ قَدَرَ أَرْبَعِ أَصَابِعَ أَوْ قَدَرَ شِبْرٍ فِي حَالِ الِانْفِرَادِ وَالْجَمَاعَۃِ کِلْتَیْہِمَا، وَالْحَقُّ أَنَّ الشَّارِعَ لَمْ یُعَیِّنْ قَدَرَ التَّفْرِیجِ بَیْنَ قَدَمَيِ الْمُصَلِّي رَاحَۃً لَّہٗ وَشَفَقَۃً عَلَیْہِ؛ لِأَنَّہٗ یَخْتَلِفُ ذٰلِکَ بِاخْتِلَافِ حَالِ الْمُصَلِّي فِي الْہَزَالِ وَالسَّمَنِ وَالْقُوَّۃِ وَالضُّعْفِ، فَالظَّاہِرُ أَنَّہٗ یَفْصِلُ بَیْنَ قَدَمَیْہِ فِي الْجَمَاعَۃِ قَدَرَ مَا یَسْہَلُ لَہٗ سَدُّ الْفَرَجِ وَالْخَلَلِ، وَإِلْزَاقُ مَنْکِبِہٖ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ وَقَدَمِہٖ بِقَدَمِہٖ مِنْ غَیْرِ تَکَلُّفٍ وَّمَشَقَّۃٍ، ثُمَّ إِنَّہٗ لَیْسَ عِنْدَنَا لَفْظُ الْإِلْزَاقِ فَقَطْ، بَلْ ہُنَا لَفْظُ التَّرَاصِّ، وَسَدِّ الْخَلَلِ، وَالنَّہْيِ عَنْ تَرْکِ الْفُرْجَۃِ لِلشَّیْطَانِ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِّنْ ذٰلِکَ یُؤَکِّدُ حَمْلَ الْإِلْزَاقِ عَلٰی مَعْنَاہُ الْحَقِیقِيِّ، وَمَاذَا کَانَ لَوْکَانَ ہُنَا لَفْظُ الْإِلْزَاقِ فَقَطْ، وَقَدِ اعْتَرَفَ ہُوَ فِي آخِرِ کَلَامِہٖ أَنَّ الْمُرَادَ بِہِ التَّرَاصُّ وَتَرْکُ الْفُرْجَۃِ، وَہٰذَا ہُوَ الَّذِي نَقُولُہٗ، وَلَا یَحْصُلُ التَّرَاصُّ وَالتَّوَقِّي عَنِ الْفُرْجَۃِ إِلَّا بِأَنْ یُّلْصِقَ الرَّجُلُ مَنْکِبَہٗ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ وَقَدَمِہٖ بَقَدمِہٖ حَقِیقَۃً، وَلَیْتَ شَعْرِي، مَاذَا یَقُولُ ہُوَ فِي مِثَالِ الْإِلْصَاقِ الْحَقِیقِيِّ، وَہُوَ قَوْلُہُمْ : بِہٖ دَائٌ، ثُمَّ مَاذَا یَقُولُ فِي قَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’إِذَا أَلْزَقَ الْخِتَانَ بِالْخِتَانِ؛ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ‘، وَالسُّنَّۃُ الصَّحِیحَۃُ الْمُحْکَمَۃُ حُجَّۃٌ وَّقَاضِیَۃٌ عَلَی التَّعَامُلِ، لَا أَنَّ التَّعَامُلَ قَاضٍ عَلَی السُّنَّۃِ، لَا فَرْقَ عِنْدَنَا فِي ذٰلِکَ بَیْنَ عَمَلِ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ وَبَیْنَ عَمَلِہِمْ وَعَمَلِ غَیْرِہِمْ مِّنَ الْبِلَادِ الْإِسْلَامِیَّۃِ، مَعَ أَنَّ عَمَلَ الْمُسْلِمِینَ فِي الزَّمَنِ النَّبَوِيِّ وَعَمَلَ الْخُلَفَائِ وَسَائِرِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ بَعْدَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عَلَی التَّرَاصِّ وَالْتِضَامِ وَعَدَمِ إِبْقَائِ الْفُرْجَۃِ مُطْلَقًا، وَلَا یُعْتَدُّ بِعَمَلِ النَّاسِ بَعْدَ الصَّدْرِ الْـأَوَّلِ، وَلَا یَکُونُ أَدْنٰی مَشَقَّۃٍ فِي إِلْزَاقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ مَعَ إِلْزَاقِ الْقَدَمِ بِالْقَدَمِ، فَنَحْنُ نَفْعَلُ ذٰلِکَ فِي الْجَمَاعَۃِ عَمَلاً بِالْحَدِیثِ وَاتِّبَاعًا لِلسُّنَّۃِ مِنْ غَیْرِ مُمَارَسَۃٍ وَّکُلْفَۃٍ، وَمِنْ غَیْرِ أَنْ نُّفَرِّجَ بَیْنَ الْقَدَمَیْنِ أَزْیَدَ مِمَّا نُفَرِّجُ فِي حَالِ الِانْفِرَادِ، لٰکِنْ لَّا یَسْہُلُ ذٰلِکَ إِلَّا عَلٰی مَنْ یُّحِبُّ السُّنَّۃَ وَصَاحِبَہَا، وَیَتْرُکُ التَّحَیُّلَ لِتَرْکِ الْعَمَلِ بِہَا، وَأَمَّا الْمُقَلَّدُ الَّذِي عَمَتْ بَصِیرَتُہٗ، فَیَشُقُّ عَلَیْہِ کُلُّ سُنَّۃٍ؛ إِلَّا مَا کَانَ مُوَافِقًا لِّہَوَاہُ، ہَدَی اللّٰہُ تَعَالٰی ہٰؤُلَائِ الْمُقَلِّدِینَ، وَوَفَّقَہُمْ لِلْعَمَلِ بِالسُّنَنِ النَّبَوِیَّۃِ الصَّحِیحَۃِ الثَّابِتَۃِ، وَتَرْکِ التَّأْوِیلِ وَالتَّحْرِیفِ ۔
’’یہاں الزاق کو مجازی معنیٰ پر محمول کرنا قرینے کا محتاج ہے۔اور الزاق کی یہ تفسیر کرنا کہ دو نمازیوں کے درمیان اتنی جگہ نہ چھوڑی جائے کہ کوئی تیسرا کھڑا ہوسکے، اس پر کوئی شرعی و عقلی دلیل نہیں۔یہاں اس معنیٰ پر محمول کرنے کے لیے کوئی ادنیٰ سا قرینہ اور کوئی کمزور ترین شائبہ بھی قطعاً موجود نہیں۔یوں یہ اس مقلد کی گھڑنت ہے جس نے سنت کو بدعت بناچھوڑا ہے۔بدعت یہ کہ باہم خالی جگہ چھوڑنا،آپس میں نہ ملنا اور الزاق پر عمل نہ کرنا اس کے نزدیک سنت ہے۔پھر اسی پر بس نہیں کی،بل کہ جسارت کرتے ہوئے اپنی گھڑی ہوئی کہانی کو ائمہ اربعہ پر تھوپ دیا۔ میں کہتا ہوں کہ سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم یاصحابہ کرام کے عمل سے کون سی دلیل ہے جو انفرادی اور جماعت کی حالت میں نمازی کے دونوں پاؤں کے درمیان چار انگلیوں یا ایک بالشت برابر فاصلے کی حدبندی کرتی ہے؟ حق بات تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت ونرمی کرتے ہوئے نمازی کے پاؤں کے مابین فاصلے کو معین نہیں کیا۔کیوں کہ یہ فاصلہ نمازی کی حالت کے مطابق بدلتا رہتا ہے، جیسا کہ کوئی نمازی پتلا،کوئی موٹا،کوئی مضبوط اور کوئی کمزور ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ نمازی اپنے پاؤں کو جماعت میں اتنا کھولے گا کہ اس کے لیے بغیر تکلف ومشقت کے خالی جگہ کو ختم کرنا اور ساتھ والے کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانا ممکن ہو۔پھر ہمارے پاس صرف الزاق کا لفظ ہی نہیں،بل کہ ’تراص‘،’سدخلل‘ اور شیطان کے لیے خالی جگہ چھوڑنے سے ممانعت جیسے الفاظِ نبوی بھی ہیں،جن میں سے ہر ایک الزاق کو حقیقی معنیٰ پر محمول کرنے کی تاکید کرتا ہے۔اگر صرف لفظ ِ الزاق ہی ہوتا تو پھر بھی کیا ہوجاناتھا؟کیوں کہ خود کشمیری صاحب نے اپنی عبارت کے اختتام پر اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ الزاق سے مراد باہم اچھی طرح مل جانا اور خالی جگہ نہ چھوڑنا ہے۔یہی بات تو ہم کہتے ہیں۔ باہم اچھی طرح ملنا اور خالی جگہوں کے چھوڑنے سے بچنا تب ہی ممکن ہے،جب آدمی اپنے کندھے کو ساتھ والے نمازی کے کندھے کے ساتھ اور پاؤں کو اس کے پاؤں کے ساتھ حقیقی طور پر ملا لے۔نہ جانے کشمیری صاحب الصاقِ حقیقی کی اس مثال کے بارے میں کیا کہیں گے کہ عرب کہتے ہیں : بِہٖ دَائٌ (اسے بیماری چمٹی ہے)، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بارے میں کیا کہیں گے : ’جب کوئی اپنے ختنہ کو مقامِ ختنہ کے ساتھ ملائے،تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا۔‘(کیا یہاں بھی الزاق کا مجازی معنیٰ ہی مراد لیا جائے گا)؟صحیح ومحکم حدیث (بعض الناس کے)تعامل کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرتی ہے،نہ یہ کہ (بعض لوگوں کا) تعامل، حدیث کے قابل عمل یا ناقابل عمل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔اس سلسلے میں ہمارے نزدیک اہل مدینہ کے یا دیگر بلادِ اسلامیہ کے لوگوں کے عمل میں کوئی فرق نہیں۔ باوجود اس کے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام کا عمل،خلفاے راشدین کاعمل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام صحابہ وتابعین کا عمل باہم مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں خالی جگہ بالکل نہ چھوڑنے ہی پر تھا۔صدر ِاول،یعنی صحابہ و تابعین کے مقابلے میں بعد والوں کا عمل ناقابل اعتبار ہے۔مزید یہ کہ کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں ملانے میں ادنیٰ سی مشقت بھی نہیں ہوتی۔ہم حدیث پر عمل کرتے ہوئے اور سنت کے اتباع میں بغیرکسی تکلف و مشقت کے ایسا کرتے ہیں۔ہم جماعت میں اپنے پاؤں کا درمیانی فاصلہ انفرادی حالت سے زیادہ بھی نہیں رکھتے۔لیکن اس سنت پر عمل کرنا صرف انہی لوگوں کے لیے آسان ہے جو سنت اور صاحب ِسنت(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )سے محبت رکھتے ہیں اور سنت پر عمل چھوڑنے کی خاطر حیلے بہانے نہیں تراشتے۔رہا مقلد،جس کی بصیرت جواب دے گئی ہوتی ہے،تو اس کے لیے ہر سنت بوجھ بن جاتی ہے،سوائے اس کے جو اس کی خواہش کے مطابق ہو۔اللہ تعالیٰ ان مقلدین کو ہدایت دے اور انہیں صحیح ثابت احادیث پر عمل کرنے اور تاویل وتحریف کو ترک کرنے کی توفیق بخشے۔‘‘
(مرعاۃ المفاتیح : 6/4)
$ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’سَدِّدُوا وَقَارِبُوا‘ ۔
’’تم سیدھے اور قریب قریب ہو جاؤ۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۵/۲۸۲؛ مسند الدارمي : ۶۶۲، وسندہٗ حسنٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (۱۰۳۷) نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا إِسْنَادٌ مَّوْصُولٌ ۔
’’یہ سند موصول ہے۔‘‘(شعب الإیمان للبیہقي : ۲۴۵۹)
مسند امام احمد (۳/۲۸۶،وسندہ صحیح)میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں :
’اِسْتَوُوا، تَرَاصُّوا‘ ۔
’’سیدھے ہو جاؤ اور باہم مل جاؤ۔‘‘
% سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’اِعْتَدِلُوا فِي صُفُوفِکُمْ وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاکُمْ مِّنْ وَّرَائِ ظَہْرِي‘، قَالَ أَنَسٌ : لَقَدْ رَأَیْتُ أَحَدَنَا یُلْزِقُ مَنْکِبَہٗ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ وَقَدَمَہٗ بِقَدَمِہٖ، وَلَوْ ذَہَبْتَ تَفْعَلُ ذٰلِکَ لَتَرٰی أَحَدَہُمْ کَأَنَّہٗ بَغْلٌ شَمُوسٌ ۔
’’تم صفوں میں سیدھے ہو جاؤ اور خوب مل جاؤ ۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر ایک شخص اپنے ساتھ والے کے کندھے سے کندھا اور پاؤں سے پاؤں چپکا لیتا تھا۔ اگر آپ (آج)اس طرح کرنے لگیں تو دیکھیں گے کہ لوگ (اس طرح بِدکیں گے جیسے وہ) سرکش خچر ہوں۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ۱/۳۵۰؛ الفوائد للمخلّص : ۱/۱۰/۲ نقلا عن الصحیحۃ للألباني : ۳۱؛ السنن لسعید بن منصور نقلا عن فتح الباري لابن حجر : ۲/۲۱۱، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔۸۵۲ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وَأَفَادَ ہٰذَا التَّصْرِیحُ أَنَّ الْفِعْلَ الْمَذْکُورَ کَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِہٰذَا یَتِمُّ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی بَیَانِ الْمُرَادِ بِإِقَامَۃِ الصَّفِّ وَتَسْوِیَتِہٖ ۔
’’اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ (صف بندی کا)مذکورہ کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔صفوں کو قائم اور سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں اسی حدیث سے مکمل دلیل ملتی ہے۔‘‘(فتح الباري لابن حجر : ۲/۲۱۱)
صاحب التعلیق المغنی کہتے ہیں :
فَہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ فِیھَا دَلاَلَۃٌ وَّاضِحَۃٌ عَلَی اہْتِمَامِ تَسْوِیَۃِ الصُّفُوفِ، وَأَنَّہَا مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ، وَعَلٰی أَنَّہٗ لَا یَتَأَخَّرُ بَعْضٌ عَلٰی بَعْضٍ، وَلَا یَتَقَدَّمُ بَعْضُہٗ عَلٰی بَعْضٍ، وَعَلٰی أَنَّہٗ یُلْزِقُ مَنْکِبَہٗ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ وَقَدَمَہٗ بِقَدَمِہٖ وَرُکْبَتَہٗ بِرُکْبَتِہٖ، لٰکِنَّ الْیَوْمَ تُرِکَتْ ہٰذِہِ السُّنَّۃُ، وَلَوْ فَعَلْتَ الْیَوْمَ؛ لَنَفَرَ النَّاسُ کَالْحُمُرِ الْوَحْشِیَّۃِ، فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔
’’ان احادیث میں واضح دلالت موجود ہے کہ صفوں کی درستی کا اہتمام کرنا چاہیے ، صف بندی سے نماز کی تکمیل ہوتی ہے۔ صف میں آگے پیچھے کھڑے نہیں ہونا چاہیے ، ایک شخص دوسرے کے کندھے سے کندھا،پاؤں سے پاؤں اور گھٹنے سے گھٹنا چپکا کر کھڑا ہو۔ لیکن آج یہ سنت ترک کر دی گئی ہے۔اگر آپ اس پر عمل کریں تو لوگ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگیں گے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ!‘‘
(عون المعبود : ۲/۲۵۶)
صف بندی کے بارے میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م۱۳۵۳ھ) لکھتے ہیں :
وَہٰکَذَا حَالُ أَکْثَرِ النَّاسِ فِي ہٰذَا الزَّمَانِ، فَإِنَّہٗ لَوْ فَعَلْ بِہِمْ ذٰلِکَ؛ لَنَفَرُوا کَأَنَّہُمْ حُمُرٌ وَحْشٌ، وَصَارَتْ ہٰذِہِ السُّنَّۃُ عِنْدَہُمْ کَأَنَّہَا بِدْعَۃٌ، عِیَاذًا بِاللّٰہِ، فَہَدَاہُمُ اللّٰہُ وَأَذَاقَہُمْ حَلَاوَۃَ السُّنَّۃِ ۔
’’اس دور میںاکثر لوگوں کا یہی حال ہے۔ اگر ان کے ساتھ ایسی صف بندی کی جائے تو وہ جنگلی گدھوں کی طرح بھاگنے لگیں گے۔ اس سنت کو وہ گویا بدعت سمجھنے لگے ہیں(نعوذ باللہ!)۔اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور سنت کی مٹھاس عطا فرمائے۔‘‘
(إبکار المنن في تنقید آثار السنن للمبارکفوري، ص : ۲۴۵)
شیخ رحمہ اللہ نے سچ فرمایا ہے۔ اہل بدعت اور اہل تعصب کی مساجد اس سنت کے نور سے خالی ہیں، ان کے ہاں صف بندی کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ لوگ ایک بالشت بل کہ ایک فٹ کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ بسا اوقات صف میں کھڑے دو انسانوں کے درمیان اتنا خلا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہونے کی گنجائش ہوتی ہے۔اگر کوئی پاؤں سے پاؤں ملانے کی کوشش کرے تو دور بھاگتے ہیں۔ گویا اس سنت سے ان کو شدید نفرت ہے۔ یقینا یہ لوگ اُمت کی بربادی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ سنتوں کے دشمن اور بدعتوں کے شیدائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سنت کی مخالفت پر ان کو ضرور پوچھے گا۔
^ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
إِنَّہٗ قَدِمَ الْمَدِینَۃَ، فَقِیلَ لَہٗ : مَا أَنْکَرْتَ مُنْذُ یَوْمٍ عَہِدْتَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ : مَا أَنْکَرْتُ شَیْئًا إِلَّا أَنَّکُمْ لَا تُقِیمُونَ الصَّفَّ ۔
’’وہ مدینہ منورہ میںتشریف لائے تو ان سے سوال ہوا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے آج تک آپ نے (اہل مدینہ کی)کون سی بات ناپسند کی ہے؟ انہوں نے فرمایا : مجھے (اہل مدینہ) کی کوئی بات ناپسند نہیں سوائے اس کے کہ تم صف بندی کا اہتمام نہیں کرتے۔‘‘(صحیح البخاری : ۱/۱۰۰، ح : ۷۲۴)
اس روایت پر امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴۔۲۵۶ھ) نے یوں تبویب کی ہے :
بَابُ إِثْمِ مَنْ لَّمْ یُتِمِّ الصُّفُوفَ ۔
’’جو لوگ صفیں مکمل نہیں کرتے، ان کے گناہ کا بیان۔‘‘
& سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :
أَقْبَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِوَجْہِہٖ، فَقَالَ : ’أَقِیمُوا صُفُوفَکُمْ‘ ثَلَاثًا، ’لَتُقِیمُنَّ صُفُوفَکُمْ أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ‘، قَالَ : فَرَأَیْتُ الرَّجُلَ یُلْزِقُ مَنْکِبَہٗ بِمَنْکِبِ صَاحِبِہٖ وَرُکْبَتَہٗ بِرُکْبَۃِ صَاحِبِہٖ وَکَعْبَہٗ بِکَعْبِہٖ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف اپنا رُخِ انور پھیرا اور فرمایا : اپنی صفوں کو قائم کیا کرو۔ تین مرتبہ یہی بات دہرائی ، پھر فرمایا : تم ضرور اپنی صفوں کو قائم کر لو گے ، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ (اس فرمانِ نبوی کو سننے کے بعد) ایک شخص دوسرے ساتھی کے کندھے سے کندھا ، گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا چپکاتاتھا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۴/۲۷۶؛ سنن أبي داوٗد : ۶۶۲؛ صحیح البخاري : ۱/۱۰۰ مختصرا معلّقا، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(۱۶۰) اور امام ابن حبان(۲۱۷۶) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔(تغلیق التعلیق : ۲/۳۰۲، ۳۰۳)
حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوَاہُ أَبُو دَاوٗدَ وَغَیْرُہٗ بِأَسَانِیدَ حَسَنَۃٍ ۔
’’اس حدیث کو امام داؤد اور دیگر ائمہ نے حسن سندوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘
(خلاصۃ الأحکام للنووي : ۱/۱۱۶)
زکریا بن ابی زائدہ نے سنن دارقطنی(۱/۲۸۲) اور صحیح ابن خزیمہ وغیرہ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
مسلمان بھائیو اور بہنو! یہ تھی صحابہ کرام کی صف بندی۔۔۔جو رسول اللہ نے سب مسلمانوں پر لازم قرار دی ہے،لیکن آج مسلمان اس طرح فاصلے سے کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے سے چھو گئے تو ناپاک ہو جائیں گے،آج ہمارے اندر پھوٹ اور اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم صف بندی کا اہتمام نہیں کرتے،صحابہ کرام کی طرح خوب مل کر کھڑے ہوں،قدم سے قدم،پنڈلی سے پنڈلی اور کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں،نبی کریم کے حکم کی پیروی پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں گی، باہمی محبت اورالفت پیدا ہو گی۔
ناصر السنۃ علامہ البانی رحمہ اللہ (۱۳۳۲۔۱۴۲۰ھ) حدیث ِ انس اور حدیث نعمان بن بشیر کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَفِي ہٰذَیْنِ الْحَدِیثَیْنِ فَوَائِدُ ہَامَّۃٌ؛ الْـأُولٰی وُجُوبُ إِقَامَۃِ الصُّفُوفِ وَتَسْوِیَتُہَا وَالتَّرَاصُّ فِیہَا، لِلْـأَمْرِ بِذٰلِکَ، وَالْـأَصْلُ فِیہِ الْوُجُوبُ إِلَّا لِقَرِینَۃٍ، کَمَا ہُوَ مُقَرَّرٌ فِي الْـأُصُولِ، وَالْقَرِینَۃُ ہُنَا تُؤَکِّدُ الْوُجُوبَ، وَہُوَ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ‘، فَإِنَّ مِثْلَ ہٰذَا التَّہْدِیدِ لَا یُقَالَ فِیمَا لَیْسَ بِوَاجِبٍ، کَمَا لَا یَخْفٰی، الثَّانِیَۃُ : أَنَّ التَّسْوِیَۃَ الْمَذْکُورَۃَ إِنَّمَا تَکُونُ بِلَصْقِ الْمَنْکِبِ بِالْمَنْکِبِ، وَحَافَۃِ الْقَدَمِ بِالْقَدَمِ، لِأَنَّ ہٰذَا ہُوَ الَّذِي فَعَلَہُ الصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ حِینَ أُمِرُوا بِإِقَامَۃِ الصُّفُوفِ، وَلِہٰذَا قَالَ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ بَعْدَ أَنْ سَاقَ الزِّیَادَۃَ الَّتِي أَوْرَدْتُّہَا فِي الْحَدِیثِ الْـأَوَّلِ مِنْ قَوْلِ أَنَسٍ : وَأَفَادَ ہٰذَا التَّصْرِیحُ أَنَّ الْفِعْلَ الْمَذْکُورَ کَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبِہٰذَا یَتِمُّ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ عَلٰی بَیَانِ الْمُرَادِ بِإِقَامَۃِ الصَّفِّ وَتَسْوِیَتِہٖ، وَمِنَ الْمُؤَسَّفِ أَنَّ ہٰذِہِ السُّنَّۃَ مِنَ التَّسْوِیَۃِ قَدْ تَہَاوَنَ بِہَا الْمُسْلِمُونَ، بَلْ أَضَاعُوہَا إِلَّا الْقَلِیلُ مِنْہُمْ، فَإِنِّي لَمْ أَرَہَا عِنْدَ طَائِفَۃٍ مِّنْہُمْ إِلَّا أَہْلَ الْحَدِیثِ، فَإِنِّي رَأَیْتُہُمْ فِي مَکَّۃَ سَنَۃَ (۱۳۶۸) حَرِیصِینَ عَلَی التَّمَسُّکِ بِہَا کَغَیْرِہَا مِنْ سُنَنِ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِخِلَافِ غَیْرِہِمْ مِّنْ أَتْبَاعِ الْمَذَاہِبِ الْـأَرْبَعَۃِ، لَا أَسْتَثْنِي مِنْہُمْ حَتَّی الْحَنَابِلَۃِ، فَقَدْ صَارَتْ ہٰذِہِ السُّنَّۃُ عِنْدَہُمْ نَسْیًا مَّنْسِیًّا، بَلْ إِنَّہْمْ تَتَابَعُوا عَلٰی ہَجْرِہَا وَالْإِعْرَاضِ عَنْہَا، ذٰلِکَ لأَِنََّ أَکْثَرَ مَذَاہِبِہِمْ نَصَّتْ عَلٰی أَنَّ السُّنَّۃَ فِي الْقِیَامِ التَّفْرِیجُ بَیْنَ الْقَدَمَیْنِ بِقَدَرِ أَرْبَعِ أَصَابِعَ، فَإِنْ زَادَ کُرِہَ، کَمَا جَائَ مُفَصَّلًا فِي الْفِقْہِ عَلَی الْمَذَاہِبِ الْـأَرْبَعَۃِ (۱/۲۰۷)، وَالتَّقْدِیرُ الْمَذْکُورُ لَا أَصْلَ لَہٗ فِي السُّنَّۃِ، وَإِنَّمَا ہُوَ مُجَرَّدُ رَأْيٍ، وَلَوْ صَحَّ لَوَجَبَ تَقْیِیدُہٗ بِالْإِمَامِ وَالْمَنْفَرِدِ حَتّٰی لَا یُعَارَضُ بِہٖ ہٰذِہِ السُّنَّۃُ الصَّحِیحَۃُ، کَمَا تَقْتَضِیہِ الْقَوَاعِدُ الْـأُصُولِیَّۃُ، وَخُلَاصَۃُ الْقَوْلِ : إِنَّنِي أَہِیبُ بِالْمُسْلِمِینَ، وَخَاصَّۃً أَئِمَّۃُ الْمَسَاجِدِ الْحَرِیصِینَ عَلَی اتِّبَاعِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاکْتِسَابِ فَضِیلَۃِ إِحْیَائِ سُنَّتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّعْمَلُوا بِہٰذِہِ السُّنَّۃِ وَیَحْرِصُوا عَلَیْہَا، وَیَدْعُوا النَّاسَ إِلَیْہَا حَتّٰی یَجْتَمِعُوا عَلَیْہَا جَمِیعًا ، وَبِذٰلِکَ یَنْجُونَ مِنْ تَہْدِیدِ : ’أَوْ لَیُخَالِفَنَّ اللّٰہُ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ‘ ۔۔۔
’’ان دونوں حدیثوں میں بہت سے اہم فوائد ہیں۔ پہلا یہ کہ صفوں کو قائم کرنا ، ان کو سیدھا کرنا اور ان کو اچھی طرح ملانا واجب ہے کیونکہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے۔حکم میں اصل وجوب ہی ہوتا ہے سوائے اس صورت کے کہ اس (وجوب کے خلاف) کوئی دلیل آ جائے۔یہ بات اصول کی کتب میں مسلّم طور پر لکھی ہوئی ہے۔ یہاں دلیل وجوب ہی کو مزید پختہ کرتی ہے۔ وہ دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی دھمکی کسی واجب کام کے بارے میں ہی دی جا سکتی ہے۔دوسرا یہ کہ صفوں کو برابر کرنے سے مراد یہی ہے کہ کندھے سے کندھا اور پورے پاؤں کے ساتھ پورا پاؤں اچھی طرح ملا لیا جائے کیونکہ صحابہ کرام کو جب صفوں کو قائم کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے ایسا ہی کیا۔اسی وجہ سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے وہی زائد الفاظ جو میں نے بیان کیے ہیں ، ذکر کرنے کے بعد فرمایا : اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ (صف بندی کا)مذکورہ کام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا۔صفوں کو قائم اور سیدھا کرنے سے کیا مراد ہے ؟ اس بارے میں اسی حدیث سے مکمل دلیل ملتی ہے۔۔۔ افسوس کی بات ہے کہ صفوں کی درستی والی سنت کو اکثر مسلمانوں نے اہمیت نہیں دی بل کہ انہوں نے اسے ضائع کر دیا ہے۔میں نے یہ سنت مسلمانوں کے صرف ایک گروہ اہل حدیث کے پاس دیکھی ہے۔ میں نے انہیں مکہ مکرمہ میں ۱۳۶۸ھ میں دیکھا تھا،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری سنتوں کی طرح اس سنت کے بھی شیدائی تھے۔ان کے علاوہ دوسرے لوگ مثلاً مذاہب ِ اربعہ کے پیروکار حتی کہ میں ان میں سے حنبلی لوگوں کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتا۔ ان لوگوں نے اس سنت کو بالکل بھلا دیا ہے۔ انہوں نے مسلسل اس سنت کوچھوڑا ہوا ہے اور اس سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مذاہب کی اکثر کتابوں میں لکھا ہے کہ دو اشخاص کے پاؤں میں چار انگلیوں کے برابر فاصلہ رکھنا سنت ہے۔ اگر اس سے زیادہ فاصلہ ہوگا تو مکروہ ہو گا، اس کی تفصیل الفقہ علی المذاہب الأربعۃ میں موجود ہے۔اس مقرر کردہ فاصلے کی سنت ِ رسول میں کوئی دلیل موجود نہیں۔ یہ محض اپنی رائے ہے۔ اگر اسے صحیح مانا جائے تو ضروری ہے کہ اسے امام اور منفرد کے لیے خاص کیا جائے(جماعت کی صورت میں مقتدیوں کے درمیان یہ فاصلہ نہ کیا جائے) تاکہ صحیح سنت کے خلاف نہ ہو۔ اصولی قواعد کا یہی تقاضا ہے۔ خلاصہ یہ کہ وہ مسلمان خصوصاً مساجد کے ائمہ کرام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے شیدائی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زندہ کرنے کی فضیلت حاصل کرنا چاہتے ہیں ، میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اس سنت پر خود بھی عمل کریں ، اس کے شیدائی بنیں اور لوگوں کو اس کی دعوت بھی دیں حتی کہ سب لوگ اس پر عمل شروع کر دیں۔ اسی طرح مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید سے محفوظ رہ سکیں گے کہ :(صفوں کو درست کرو) ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت ڈال دے گا۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ للألباني : ۱/۴۰، ۴۱، تحت الحدیث : ۲۳)
* سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَقِیمُوا الصُّفُوفَ وَحَاذُوا بَیْنَ الْمَنَاکِبِ، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، وَلِینُوا بِأَیْدِي إِخْوَانِکُمْ، وَلَا تَذَرُوا مَزَجَاتٌ لِّلشَّیْطَانِ، وَمَنْ وَّصَلَ صَفًّا وَّصَلَہُ اللّٰہُ، وَمَنْ قَطَعَ صَفًّا قَطَعَہُ اللّٰہُ‘ ۔
’’تم صفوں کو درست کرو ، کندھوں کو برابر کرو، خالی جگہ کو پُر کرو ، اپنے بھائیوں (ائمہ مساجد) کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ اور شیطان کے لیے خالی جگہیں نہ چھوڑو۔ جو شخص صف کو ملائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت کے ساتھ)ملائے گا اور جو شخص صف کو کاٹے گا ، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے)کاٹ دے گا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۲/۹۸؛ سنن أبي داوٗد : ۶۶۶؛ سنن النسائي : ۸۲۰ مختصرا، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۴۹)نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۲۱۳)نے اسے امام مسلم کی شرط پر ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ (۸۴۹۔۹۱۱ھ) اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینے کے بعد فرماتے ہیں :
وَمَعْنٰی ’قَطَعَہُ اللّٰہُ‘، أَيْ مِنَ الْخَیْرِ وَالْفَضِیلَۃِ وَالْـأَجْرِ الْجَزِیلِ ۔
’’صف توڑنے والے شخص کو اللہ تعالیٰ کاٹ دے گا ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے بھلائی ، فضیلت اور اجر عظیم سے محروم کر دے گا۔‘‘
(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ۱/۵۲)
محدث البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَالْحَقُّ أَنَّ سَدَّ الْفُرْجَۃِ وَاجِبٌ مَّا أَمْکَنَ ۔
’’حق بات یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو خالی جگہ کو پُر کرنا فرض ہے۔‘‘
(السلسلۃ الضعیفۃ : ۳/۳۲۳)
( سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’رَاصُّوا صُفُوفَکُمْ، وَقَارِبُوا بَیْنَہَا، وَحَاذُوا بِالْـأَعْنَاقِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ، إِنِّي لأََرَی الشَّیَاطِینَ تَدْخُلُ مِنْ خَلَلَ الصَّفِّ کَأَنَّہَا الْخَذَفُ‘ ۔
’’اپنی صفوں کو ایسے ملایا کرو جیسے عمارت کی اینٹیں ملی ہوتی ہیں، ان کو قریب قریب کیا کرو اور اپنی گردنوں کو برابر رکھا کرو۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میں شیطانوں کو صف کی خالی جگہوں میں سے داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں ، جیسے وہ بکری کے بچے ہوں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد : ۶۶۷؛ السنن الکبرٰی للبیہقي : ۳/۱۰۰، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ابن خزیمہ(۱۵۴۵) اور امام ابن حبان(۲۱۶۶) نے اس حدیث کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔ سنن النسائی(۸۱۶) میں قتادہ بن دعامہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
رسول اللہ فداہ ابی وامی وروحی ونفسی صف بندی کے بارے میں کس قدر تاکید فرما رہے ہیں کہ صفوں کے درمیان خلا کو پُر کیا کرو، لیکن اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلانے والے غور ہی نہیں کرتے ! بل کہ احادیث کا مذاق اڑاتے ہیں کہ کیا ٹانگوں کے درمیان سے گزر کر شیطان صف میں نہیں گھس سکتا؟ (العیاذ باللہ!)
اہل اسلام کو چاہئے کہ صف کے شگافوں کو کندھے سے لے کر پائوں تک اچھی طرح بند کیا کریں،قدم سے قدم اورکندھے سے کندھا ملا کر صف میں کھڑے ہواکریں،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر فرمارہے ہیں کہ صف کے درمیان سوراخ اور شگاف سے شیطان گھس آتا ہے،اس سے نماز کا خشوع و خضوع جاتا رہے گا،نمازیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور محبت بھی مفقود ہو جائے گی،نفرتیں اور کدورتیں گھر کر جائیں گی۔
حافظ سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قَالَ الشُّرَّاحُ : الْمُرَادُ بِأَقِیمُوا؛ اعْتَدِلُوا، وَتَرَاصُّوا؛ تَلاَصَقُوا بِلَا خَلَلٍ ۔
’’شارحین کا کہنا ہے کہ صفوں کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سیدھے ہو کر کھڑے ہو جاؤ اور صفوں کا اچھی طرح ملانے سے مراد یہ ہے کہ خلل چھوڑے بغیر مل کر کھڑے ہو جاؤ۔‘‘(الحاوي للفتاوي للسیوطي : ۱/۵۲)
فائدہ :
امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَعْنٰی : ’وَلِینُوا بِأَیْدِي إِخْوَانِکُمْ‘، إِذَا جَائَ رَجُلٌ إِلَی الصَّفِّ، فَذَہَبَ یَدْخُلُ فِیہِ؛ فَیَنْبَغِي أَنْ یُّلَیِّنَ لَہٗ کُلُّ رَجُلٍ مَّنْکِبَیْہِ حَتّٰی یَدْخُلَ فِي الصَّفِّ ۔
’’فرمانِ نبوی کہ اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہو جاؤ،کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص صف کی طرف آئے اور اس میں داخل ہونے لگے تو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے کندھوں کو نرم کر لے تاکہ وہ صف میں داخل ہو جائے۔‘‘
(سنن أبي داوٗد، تحت الحدیث : 666)
) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’فَإِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ؛ فَاعْدِلُوا صُفُوفَکُمْ، وَسُدُّوا الْفُرَجَ‘ ۔
’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو اپنی صفوں کو درست کرو اور خالی جگہوں کو پُر کرو۔‘‘(صحیح ابن حبّان : 402، وسندہٗ صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۱۵۴۸)نے’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمہ اللہ (۱/۱۹۱،۱۹۲) نے ’’امام بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
` سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’فَإِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ؛ فَاعْدِلُوا صُفُوفَکُمْ، وَأَقِیمُوہَا، وَسُدُّوا الْخَلَلَ، فَإِنِّي أَرَاکُمْ مِّنْ وَرَائِ ظَہْرِي‘ ۔
’’جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو اپنی صفوں کو سیدھا و درست کرو اور خالی جگہیں پُر کرو۔میں تمہیں اپنے پیچھے سے (بھی) دیکھتا ہوں۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ : ۱۵۴۸؛ صحیح ابن حبان : ۴۰۱؛ واللفظ لہٗ، وسندہٗ صحیحٌ)
سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم،عظیم فقیہ،علامہ ابنِ باز رحمہ اللہ (۱۳۳۰۔۱۴۲۰ھ) فرماتے ہیں :
وَالْمَشْرُوعُ لِمَنْ رَّاٰی ذٰلِکَ أَنْ یَّنْصَحَ إِخْوَانَہٗ وَیَأْمُرَہُمْ بِسَدِّ الْفُرُجِ، وَعَلَی الْـأَئِمَّۃِ أَنْ یَّأْمُرُوا الْجَمَاعَۃَ بِذٰلِکَ تَأَسِّیًا بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَنْفِیذًا لِّأَمْرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِذٰلِکَ ۔
’’جو شخص یہ (صف بندی میں سستی) دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں کو نصیحت کرے اور انہیں خالی جگہیں ختم کرنے کا حکم دے۔ائمہ مساجد کا فرض ہے کہ وہ جماعت کو اس کا حکم دے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کریں۔‘‘(مجموع فتاوی ابن باز : ۱۲/۲۰۳)
~ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’إِنَّ اللّٰہَ وَمَلاَئِکَتَہٗ یُصَلُّونَ عَلَی الَّذِینَ یَصِلُونَ الصُّفُوفَ‘ ۔
’’جو لوگ صفوں کو ملاتے ہیں ،بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘
(صحیح ابن خزیمۃ : ۱۵۵۰؛ وسندہٗ حسنٌ، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ۱/۲۱۴؛ وقال : صحیح علی شرط مسلم، ووافقہ الذہبي وأقرّہ المنذري : ۱/۱۷۴)
– صفوں کو ملانے والوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا بھی کی ہے کہ :
’مَنْ وَّصَلَ صَفًّا وَّصَلَہُ اللّٰہُ‘ ۔
’’جوشخص صف کو ملائے گا ، اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت کے ساتھ) جوڑے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۲/۹۸؛ سنن أبي داوٗد : ۶۶۶؛ سنن النسائي : ۸۲۰، وسندہٗ صحیحٌ)
_ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
’اِسْتَوُوا، اسْتَوُوا، اسْتَوُوا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِہٖ، إِنِّي لَـأَرَاکُمْ مِّنْ خَلْفِي، کَمَا أَرَاکُمْ مِّنْ بَیْنِ یَدَيَّ‘ ۔
’’سیدھے ہو جاؤ،سیدھے ہو جاؤ،سیدھے ہو جاؤ۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں (نماز میں)تمہیں اپنے پیچھے اسی طرح دیکھتا ہوں،جیسے اپنے آگے دیکھتا ہوں۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : ۳/۲۶۸، سنن النسائي : ۸۱۳، وسندہٗ صحیحٌ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کا اہتمام :
b سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَوُّوا صُفُوفَکُمْ؛ فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَتَخَلَّلُہَا کَالْخَذَفِ، أَوْ کَأَوْلَادِ الْحَذَفِ ۔
’’صفوں کو درست کیا کرو،کیونکہ شیطان ان میں بکری یا بکری کے بچوں کی طرح داخل ہو جایا کرتا ہے۔‘‘
(المعجم الکبیر للطبراني : ۹/۲۷۵، ح : ۹۳۷۶، وسندہٗ صحیحٌ)
نیز فرماتے ہیں:
لَقَدْ رَأَیْتُنَا، وَمَا تُقَامُ الصَّلاَۃُ حَتّٰی تَکَامَلَ بِنَا الصُّفُوفُ ۔
’’مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک نماز کھڑی نہیں کی جاتی تھی جب تک ہمارے ساتھ صفیں مکمل نہ ہو جاتیں۔‘‘(مسند الإمام أحمد : ۱/۴۱۹، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَرِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ ۔
’’اس روایت کے راوی صحیح بخاری والے راوی ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : ۲/۹۰)
حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے ۔(الحاوي للفتاوي : ۱/۵۳)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ بھی فرمایا کرتے تھے :
سَوُّوا صُفُوفَکُمْ ۔
’’اپنی صفوں کو سیدھا کیا کرو۔‘‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ۱/۳۵۱، وسندہٗ صحیحٌ)
b ابو عثمان نہدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
کُنْتُ فِیمَنْ یُّقِیمُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قُدَّامَہٗ لِإِقَامَۃِ الصَّفِّ ۔
’’میں ان لوگوں میں سے تھا جنہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صفیں سیدھی کرانے کے لیے اپنے آگے کھڑا کرتے تھے۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : ۱/۳۵۱، وسندہٗ صحیحٌ)
b سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے:
لَمْ یَکُنْ یُّکَبِّرُ بِالصَّلَاۃِ لِلنَّاسِ حَتّٰی تَعْدِلَ الصُّفُوفُ، وَیُؤَکِّلُ بِذٰلِکَ رِجَالًا ۔
’’آپ رضی اللہ عنہ اس وقت تک لوگوں کو نماز پڑھانا شروع نہ کرتے جب تک ان کی صفیں درست نہ ہو جاتیں۔ اس کام کے لیے آپ نے کئی آدمیوں کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی۔‘‘(جزء أبي الجہم : ۲۱، وسندہٗ صحیحٌ)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں عمرو بن میمون کہتے ہیں :
وَکَانَ إِذَا مَرَّ بَیْنَ الصَّفَّیْنِ، قَالَ : اسْتَوُوا، حَتّٰی إِذَا لَمْ یَرَ فِیہِنَّ خَلَلًا؛ تَقَدَّمَ، فَکَبَّرَ ۔
’’آپ رضی اللہ عنہ جب صفوں کے درمیان سے گزرتے تو فرماتے : سیدھے ہو جاؤ۔ حتی کہ جب صفوں میں کوئی خلا نہ دیکھتے تو آگے بڑھتے اور اللہ اکبر کہتے۔‘‘
(صحیح البخاري : 3700)
b سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
اِسْتَوُوا، وَحاَذُوا بَیْنَ الْمَنَاکِبِ، فَإِنَّ مِنْ تَمَامِ الصَّلَاۃِ إِقَامَۃَ الصَّفِّ، قَالَ (مَالِکُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ) : وَکَانَ لَا یُکَبِّرُ حَتّٰی یَأْتِیَہٗ رِجَالٌ قَدْ وَکَّلَہُمْ بِإِقَامَۃِ الصُّفُوفِ ۔
’’سیدھے ہو جاؤ،کندھوں کو برابر کر لو کیونکہ صف کو سیدھا کرنے سے نماز مکمل ہو گی۔ مالک بن ابی عامر بیان کرتے ہیں کہ آپ اس وقت تک تکبیر تحریمہ نہ کہتے جب تک وہ لوگ آپ کے پاس نہ آ جاتے جنہیں آپ نے صفوں کو درست کرنے کے لیے مقرر کیا ہوا تھا۔‘‘
(المؤطّأ للإمام مالک : ۱/۱۰۴، مصنّف ابن أبي شیبۃ : ۱/۳۵۱، وسندہٗ صحیحٌ)
b سوید بن غفلہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ بِلَالٌ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ یُسَوِّي مَنَاکِبَنَا، وَیَضْرِبُ أَقْدَامَنَا لِإِقَامَۃِ الصَّفِّ ۔
’’بلال رضی اللہ عنہ ہمارے کندھوں کو برابر کرتے اور صف کو درست کرنے کے لیے ہمارے پاؤں پر مارتے تھے۔‘‘(المطالب العالیۃ لابن حجر : ۴۲۸، وسندہٗ صحیحٌ)
قارئین کرام ! صفوں کو مکمل کرنا ، ان کو سیدھا کرنا ، ان کے درمیان خالی جگہوں کو پُر کرنا اور صفوں میں مل کر کھڑے ہونا ضروری ہے۔ اس بارے میں ہم نے صحیح احادیث کا مجموعہ پیش کر دیا ہے۔ خود اندازہ کریں کہ امت ان احادیث کو کس طرح نظر انداز کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ صف کے درمیان خالی جگہ چھوڑنا انتہائی مکروہ فعل ہے۔ اس پر شدید وعید آئی ہے۔ اس سے جماعت کی فضیلت ضائع ہو جاتی ہے۔ بل کہ اگر صف میں لوگ مل کر کھڑے نہ ہوں اور درمیان میں خالی جگہ ہو تو وہ صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے والے کے حکم میں ہیں۔ یاد رکھیں کہ صف کے پیچھے اکیلے شخص کی نماز نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
فائدہ :
مشہور مفسر امام اسماعیل بن عبد الرحمن سدی رحمہ اللہ فرشتوں کے قول کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ :{وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافُّونَ} (الصافات : ۱۶۵) (بلاشبہ ہم صفیں بنانے والے ہیں)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
لِلصَّلَاۃِ ۔ ’’یعنی ہم نماز کے لیے صفیں بنانے والے ہیں۔‘‘
(تفسیر الطبري : ۲۳/۱۳۵، وسندہٗ حسنٌ)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.