2,095

ضعیف+ضعیف=صحیح، شمارہ 31 حافظ ابویحیی نور پوری حفظہ اللہ

متقدمین اور متاخرین کے منہج کا موازنہ
ہم اُصولِ حدیث میں متقدمین محدثین کے منہج کی ترجیح کے حوالے سے سیر حاصل بحث گذشتہ اقساط میں کر چکے ہیں ، نیز یہ بھی بتا چکے ہیں کہ متقدمین محدثین میں سے کسی ایک سے بھی “ضعیف+ضعیف=حسن” والا اصول ثابت نہیں ، مزید یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ امام ترمذیکی اصطلاحِ “حسن” کو اس ضمن میں پیش کرنا درُست نہیں کیونکہ ان کی اصطلاحِ “حسن” کا یہ معنیٰ خود اُن کے نزدیک بھی نہیں ۔
اس قسط میں ان شاء اللہ ہم اس حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے منہج میں موجود فرق کی نشاندہی کریں گے کہ جن روایات کو متاخرین “ضعیف+ضعیف=حسن” کے اُصول کے تحت “حسن” قرار دیتے ہیں ، متقدمین محدثین ان کی تمام تر “ضعیف”اسانید کے باوجود ان پر “ضعیف” ہی کا حکم لگاتے رہے ہیں ۔ انہوں نے متاخرین کی طرح اُن احادیث کو “حسن” یا قابلِ حجت قرار نہیں دیا ۔
اس سلسلے میں مثالیں پیش کرنے سے قبل ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اُن خود ساختہ شرائط کی طرف بھی اشارہ کرتے جائیں جو بعض احباب نے “ضعیف+ضعیف=حسن” کے لیے بیان کی ہیں ۔ ہمارا دعویٰ ابھی تک اپنی جگہ برقرار ہے کہ متقدمین محدثین میں سے کسی سے “ضعیف+ضعیف=حسن” کی حجیت ثابت نہیں ۔ رہے متاخرین جو “ضعیف+ضعیف= حسن” کی حجیت کے قائل تھے تو اُنہوں نے بھی یہ شرائط ذکر نہیں کیں ۔ بعد میں آنے والے بعض احباب نے جب بہت سی ایسی “ضعیف” روایات جو خود ان کے نزدیک بھی “ضعیف” تھیں ، ان کو بھی اس قاعدے کے تحت “حسن” بنتے دیکھا تو “ضعیف+ ضعیف=حسن” پر وارد ہونے والے اعتراضات سے بچنے کے لیے یہ شرائط وضع کر لی ہیں ۔
حافظ بیہقیسے لے کر حافظ ابنِ حجرتک جن متاخرین علمائے کرام نے “ضعیف+ضعیف=حسن” کو حجت تسلیم کیا ہے ، ان میں سے کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی ایسی شرط ذکر نہیں کی جو بعض احباب اب عائد کر رہے ہیں۔حافظ ابنِ حجر “ضعیف+ضعیف=حسن” کے بارے میں لکھتے ہیں :
وَمَتىٰ تُوبِعَ السَّيِّءُ الحِفْظِ بِمُعْتَبَرٍ ؛ كأَنْ يكونَ فوقَهُ أَو مِثْلَه لَا دُونَه، وَكَذَا المُخْتَلِطُ الَّذِي لَمْ يتَمَيَّزْ وَالمَسْتُورُ وَالْإِسنادُ المُرْسَلُ، وَكَذَا المُدَلَّسُ إِذَا لم يُعْرَفِ الْمَحْذُوفُ مِنْهُ صَارَ حديثُهُم حَسناً ؛ لَا لِذاتِه، بَلْ وَصْفُه بِذٰلِكَ بِاعْتِبَارِ الْمَجْمُوعِ مِنَ الْمُتَابِعِ وَالْمُتَابَعِ ؛ لِأنَّ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمْ احْتِمَالَ أَنْ تَكُوْنَ رِوَايَتُه صَوَاباً أَوْ غيرَ صَوَابٍ عَلىٰ حِدٍّ سَوَاءٍ، فَإِذَا جَاءَتْ مِنَ الْمُعْتَبَرينَ رِوَايَةٌ مُوَافِقَةٌ لِأحدِهِم رُجِّحَ أَحدُ الْجَانِبَيْنِ مِنَ الِاحْتِمَالَیْنِ الْمَذْكُورَينِْ، وَدَلَّ ذٰلِكَ أَنَّ الْحَدِيثَ مَحْفُوظٌ، فَارْتَقىٰ مِنْ دَرَجَةِ التَّوَقُّفِ إِلىٰ دَرَجَةِ الْقُبُولِ، وَمَعَ ارْتِقائِه إِلىٰ دَرَجَةِ الْقُبُولِ فَهُوَ مُنْحَطٌّ عَنْ رُتْبَةِ الْحَسَنِ لِذَاتِه، وَرُبَّمَا تَوَقَّفَ بَعْضُهُمْ عَنْ إِطْلَاقِ اسْمِ الْحَسَنِ عَلَيْهِ .
“اور جب خراب حافظے والے روای کی کسی ایسے راوی سے متابعت آجائے جو اس سے اچھی حالت والا ہو یا اس جیسا ہو ، اسی طرح وہ مختلط راوی جس کی روایات کی (قبل الاختلاط اور بعد الاختلاط ہونے کے حوالے سے) تمیز نہ ہو سکے نیز مستور راوی ، مرسل سند اور ایسی تدلیس والی روایت جس میں گرے ہوئے راوی کی پہچان نہ ہو سکے ۔ ان سب کی حدیث حسن ہو جاتی ہے ۔ خود نہیں بلکہ اس کی یہ حالت مُتَابِعْ اور مُتَابَعْ دونوں کے جمع ہونے کی وجہ سے ہوتی ہےکیونکہ ان میں سے ہر ایک کے بارے میں برابر امکان ہے کہ اس کی روایت درُست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ۔جب کسی ایسے راوی جس کی روایت متابعات وشواہد میں قبول کی جاتی ہے ، سے ان میں سے کسی سے موافق روایت آ جائے تو مذکورہ دونوں احتمالات میں سے ایک جانب (درُستی ) کو ترجیح حاصل ہو جائے گی اور معلوم ہو جائے گا کہ یہ حدیث محفوظ ہے ۔ یوں یہ توقف کے درجے سے بلند ہو کر قبولیت کے درجے تک پہنچ جائے گی ۔ ہاں قبولیت کے درجے تک پہنچنے کے باوجود یہ حدیث حسن لذاتہٖ کے مرتبے سے کم رہے گی ۔ بسا اوقات بعض محدثین نے اسے حسن کا نام دینے سے توقف بھی کیا ہے ۔ ”
(نزھۃ النظر في توضیح نخبة الفکر لابن حجر : ص 130131)
قارئین کرام حافظ ابنِ حجرکی طرف سے“ضعیف+ضعیف=حسن” کے حوالے سے بیان کی گئی باتیں ملحوظ رکھیں اور بعض احباب کی طرف سے موجودہ دَور میں بیان کی گئی نئی شرائط بھی ملاحظہ فرمائیں ، ایک بھائی لکھتے ہیں :
“بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہیں ، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے، حسن لغیرہ کی عدمِ حجت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں ………عدم تقویت کے اسباب : ایسی حدیث کے حسن لغیرہ نہ ہونے میں پہلا سبب یہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاہد حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ہے، لہٰذا غلط متابع یا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہیں کر سکتے ………… دوسرا سبب: حدیث میں فرضیت یا حرمت ہو:ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت (جس کا تارک گناہ گار ہو) یا حرمت (جس کا مرتکب گناہ گار ہو) ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو محدثین حسن لغیرہ قرار دینے میں تأمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک یہ دونوں چیزیں یا ایک چیزی صحیح سند (صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ)سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ نے فرمایا:مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:میرا بھی یہی موقف ہے۔ (المراسیل لابن أبی حاتم : ص 7)
ضعیف راوی کا تفرد: جس ضعیف حدیث کو بیان کرنے میں راوی اپنے شیخ سے منفرد ہو تو محدثین ایسے تفرد کو قابلِ تقویت نہیں سمجھتے، مثلاً وہ کسی مشہور سند سے کوئی ایسی منفرد حدیث بیان کرتا ہے جو اس شیخ کے مشہور شاگرد بیان نہیں کرتے ۔۔۔
جب ایک سے زائد سبب ضعف ہوں: جب حدیث کی کسی سند میں ایک سے زائد ضعف ہوں مثلاً روایت میں انقطاع بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راویان ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ دیگر اسبابِ ضعف: بعض ایسے ضعف کے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور یہ اسباب متعدد ہیں جن کا شمار مشکل ہے، تاہم ذیل میں چند اسباب بیان کیے جاتے ہیں: 1 اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔ 2 سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟ 3 اس میں متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات بھی داخل ہیں۔ 4 جب ضعیف راوی کسی حدیث کو مرسل بیان کر دے ………………۔”
ان اسباب و شرائط پر گفتگو کافی طوالت طلب ہے ، لہٰذا ہم آیندہ کسی قسط میں ان تمام پر سیر حاصل تبصرہ کریں گے۔سر دست ہم صرف مذکورہ دوسرے اسباب کی طرف قارئین کی توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں ، وہ دوبارہ پڑھ لیجیے : “دوسرا سبب : حدیث میں فرضیت یا حرمت ہو،ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت (جس کا تارک گناہ گار ہو) یا حرمت (جس کا مرتکب گناہ گار ہو) ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو محدثین حسن لغیرہ قرار دینے میں تأمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک یہ دونوں چیزیں یا ایک چیزی صحیح سند (صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ) سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ نے فرمایا: مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں:میرا بھی یہی موقف ہے۔ (المراسیل لابن أبی حاتم : ص 7)”
یعنی اگر کوئی حدیث “ضعیف+ضعیف=حسن” کے اُصول کے مطابق ہو اور ان احباب کی لگائی ہوئی شرائط پر بھی پُوری اُترتی ہو لیکن اس میں فرضیت یا حرمت کا ذکر آ جائے تو یہ احباب “ضعیف+ضعیف=حسن”کے اُصول کو بائی پاس کرتے ہوئے اسے “ضعیف ” ہی سمجھتے تھے۔
عرض ہے کہ اگر “ضعیف+ضعیف=حسن” کے اُصول سے حدیث قابلِ حجت ہو جاتی ہے اور رسول اللہسے ثابت ہو جاتی ہے تو پھر فرضیت یا حرمت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے رسول اللہ سے ثابت چیز کو کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اور اگر “ضعیف+ضعیف=حسن”کے اُصول سے حدیث رسول اللہسے ثابت نہیں ہوتی تو پھر اس کی حجیت کا ڈھنڈورا پیٹنا کس طرح صحیح ہوا ؟اگر یہ احباب “ضعیف+ضعیف=حسن” حدیث کے بارے میں نبیٔ اکرم سے ثبوت کا یقین رکھتے ہیں تو ان کا فرضیت یا حرمت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ایسی حدیث کو چھوڑنا بالکل غلط ہےاور سنتوں کو ٹھکرانے والی بات ہے!!!
ہمارا ان احباب سے سوال ہے کہ کیا فرضیت اور حرمت پر مشتمل ہونے کی صورت میں آپ کی نظر میں اس حدیث کی صحت مشکوک ہو جاتی ہے ؟ کیا اس صورت میں آپ “ضعیف+ضعیف=حسن” کا انکار کر کے سنتوں کو ٹھکرانے کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟ نیز اس صورت میں آپ کا یہ فتویٰ کہاں جائے گا : “حسن لغیرہ کے بارے میں بعض لوگ انتہائی غیر محتاط رویہ اپناتے ہیں، ان کے نزدیک ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہوجائے ……………… حسن لغیرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متاخرین محدثین کی کاوشوں کو رائیگاں قرار دینے کی سعی نامشکور کرتے ہیں اسی طرح متقدمین جہابذۂ فن کے راویان کی طبقہ بندی کی بھی ناقدری کرتے ہیں اور وہ حسبِ خیال فرامین نبوی کی خدمت میں مصروف ہیں۔”
جناب اگر آپ کے بقول “ضعیف+ضعیف=حسن” کو قابلِ حجت نہ سمجھنے والے متاخرین کی کاوشوں کو رائیگاں قرار دینے کی سعیٔ نامشکور کرتے ہیں اور متقدمین جہابذۂ فن کے روایان کی طبقہ بندی کی بھی ناقدری کرتے ہیں ……………… تو فرضیت یا حرمت پر مشتمل ہونے کی صورت میں آپ اسی “ضعیف+ضعیف=حسن” کوچھوڑ کر کیسے متاخرین کے بھی قدردان رہ گئے ہیں اور متقدمین کے بھی خوشہ چین بن گئے ہیں ؟ اپنے اس تضاد کو رفع کرنے کے لیے آپ کو پہلے متقدمین سے “ضعیف+ضعیف=حسن(قابلِ حجت)” کا اُصول ثابت کرنا پڑے گا ، پھر متقدمین و متاخرین دونوں سے اس بات کی صراحت بھی پیش کرنا پڑے گی کہ فرضیت یا حرمت پر مشتمل ہونے کی صورت میں یہی “ضعیف+ضعیف= حسن” قابلِ حجت و قابلِ عمل نہیں رہتی ۔
رہی یہ بات کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ  نے فرمایا: “مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔”امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: “میرا بھی یہی موقف ہے۔” (المراسیل لابن أبی حاتم : ص 7) تو اس بات میں دُور دُور تک کہیں “ضعیف+ضعیف=حسن” کا اشارہ تک نہیں ۔ نہ جانے اس سے بعض احباب نے اپنا مطلب کیسے نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ مذکورہ عام قول کو فرضیت اور حرمت پر مشتمل “ضعیف”کے ساتھ خاص کرنا نہ جانے کس طرح صحیح ہوا ہے ؟ مذکورہ ائمہ کرام کی یہ بات ہر “ضعیف” اور “منقطع” سند کے بارے میں ہے اور یہ تو ہمارے ن ظریے کو حق ثابت کرتی ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی ۔ اسی بات سے “ضعیف+ضعیف=حسن” کا ردّ ہو جاتا ہے کیونکہ اس اُصول کو ماننے سے “ضعیف” سندوں سے حجت پکڑنا لازم آتا ہے ۔
ہم نے گذشتہ قسط میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اس قسط میں متقدمین اور متاخرین کے منہج میں فرق واضح کیا جائے گا ، لہٰذا اس وعدے کی تکمیل ہم کچھ مثالیں عرض کرتے ہیں ۔ لیکن چونکہ بعض احباب کے “ضعیف+ضعیف=حسن”کے لیے بنائے ہوئے اُصولوں پر ہم بحث نہیں کر سکے، اس لیے اس قسط میں صرف ایسی مثالیں ہی ذکر کی جائیں گی جو ان کی مذکورہ تمام شرطوں پر پُوری اُترتی ہیں لیکن پھر بھی متقدمین نے ان کی ساری سندوں کے “ضعیف” ہونے کا حکم لگایا ہے ۔ اس کے برعکس متاخرین نے انہیں “ضعیف+ضعیف= حسن” کے قاعدے کے مطابق “حسن” کہہ دیا ہے ۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے :
نیا چاند دیکھ کر دُعا :
یہ حدیث بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہے اور ہر صحابی سے اس کی کئی کئی سندیں ہیں لیکن ہم بعض احباب کی لگائی ہوئی شرطوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے صرف وہ سندیں پیش کرتے ہیں جو اُن کی شرطوں پر پُورا اُترتی ہوں گی ، پھر بھی پہلے زمانے میں ان سب پر “ضعیف” کا حکم لگایا گیا لیکن بعد والے زمانے میں انہیں “حسن” قرار دے دیا گیا ۔ ملاحظہ فرمائیں :
امام ابو جعفر عقیلی  (م : 322) سلیمان بن سفیان المدینی پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : …………… حدّثنا سليمان بن سفيان قال : حدّثني بلال بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن أبيه، عن جده : أنّ النبيّ صلّى الله عليه وسلّم كان إذا رأى الهلال قال : « اللّهم أهله علينا باليمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ربّي وربّك الله »، ولا يتابع عليه إلّا من جهة تقاربه في الضعف، وفي الدعاء لرؤية الهلال أحاديث كأنّ هذا عندي من أصلحها إسنادا، وكلّها ليّنة الأسانيد
“ہمیں سلیمان بن سفیان نے حدیث بیان کی ، کہا : مجھے بلال بن یحییٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا سے حدیث بیان کی کہ نبی ٔ اکرم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو یہ دُعا پڑھتے : «اللّهم أهله علينا باليمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ربّي وربّك الله» لیکن اس (سلیمان بن سفیان کی ) متابعت صرف ان ہی راویوں نے کی ہے جو کمزوری میں اس سے ملتے جلتے ہیں۔ پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر دُعا پڑھنے کے حوالے سے بہت سی احادیث ہیں۔ میرے خیال میں سند کے اعتبار سے یہ اُن سب سےاچھی ہے۔لیکن ان سب احادیث کی سندیں کمزور ہیں۔”

(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 3/340)
قارئین کرام ! دیکھا آپ نے کہ چوتھی صدی کے محدث و ناقد امام عُقَیلی  نے کتنے واضح الفاظ میں یہ بات بتائی ہے کہ پہلی رات کے چاند کو دیکھ کر دُعا پڑھنے کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن وہ سب کی سب سند کے اعتبار سے “ضعیف” ہیں اور ملتے جلتے تھوڑے ضعف والی ضعیف روایات مل کر قابلِ حجت نہیں بنتی ۔ امام صاحب کی تحقیق سے کسی کو سو مرتبہ اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس عبارت سے اُن کی یہ بات بہر حال نمایاں ہو رہی ہے کہ اُن کی لغت میں “ضعیف +ضعیف= حسن ” نام کی کوئی چیز نہیں تھی ورنہ وہ اس حدیث کو اس اُصول کی بنا پر “حسن” قرار دیتے اور اس کی ہر متابعت کے ضعیف ہونے کا خصوصی ذکر نہ فرماتے ۔
متقدمین محدثین کے نزدیک “ضعیف +ضعیف= حسن ”والا اُصول رائج نہیں تھا اور اس حوالے سے متقدمین اور متاخرین کے منہج میں فرق آ گیا ہے ، اس پر یہ دلیل کافی ہے کہ محدث العصر علامہ البانی (م : ھ) امام عُقَیلی کی مذکورہ بالا بات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : لكنّ الحديث حسن لغيره، بل هو صحيح لكثرة شواهده الّتي أشار إليها العقيلي “لیکن یہ حدیث اُن شواہد کی وجہ سے حسن لغیرہ بلکہ صحیح ہے جن کی طرف امام عُقَیلی نے اشارہ فرمایا ہے۔”
(سلسلة الاحادیث الصحیحة للالباني : 4/430)
یادرہے کہ یہاں بحث کسی خاص دُعا کی نہیں ہو رہی بلکہ پہلی رات کا چاند دیکھ کر مطلق دُعا کے بارے میں اما م عُقَیلینے سب سندوں کے “ضعیف ”ہونے کا حکم لگایا ہے جبکہ علامہ البانی نے “ضعیف +ضعیف= حسن ” والے اُصول کے تحت پہلی رات کا چاند دیکھ کر دُعا پڑھنے کو “حسن لغیرہ” بلکہ “صحیح” قرار دیا ہے ۔ آئیے اس حدیث کی ایسی سندوں کا مطالعہ کریں جو بعض احباب کی مقرر کردہ شرائط پر بھی پوری اُترتی ہیں :
1 علامہ البانی فرماتے ہیں : أخرجه ابن السني ( رقم 639 ) عن الوليد بن مسلم، عن عثمان بن أبي العاتكة، عن شيخ من أشياخهم، عن أبي فروة حدير السلمي، وهذا إسناد ضعيف، لجهالة الشيخ الذي لم يسمّ، وبقية رجاله موثقون . “ابن السنّی نے اسے ولید بن مسلم سے ، عثمان بن ابی العاتکہ ، اُن کی شیوخ میں سے کسی شیخ اور ابو فروہ حُدَیر السلمی کے واسطے سے بیان کیا ہے لیکن یہ سند ضعیف ہے کیونکہ وہ شیخ مجہول ہے جس کا سند میں نام نہیں لیا گیا۔باقی سب راوی ثقہ ہیں۔”
(سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة : الرقم : 3504)
2 اس کی ایک اور سند علامہ البانی کی ہی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
وروى الطبرانيّ في “الأوسط” عن عبد الله بن هشام قال : كان أصحاب رسول الله – صلّى الله عليه وسلّم – يتعلّمون هذا الدعاء إذا دخلت السنة أو الشهر : اللّهم! أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان . قال الهيثمي : “وإسناده حسن”، وعلى هامشه ما نصه : “قلت : فيه رشدين بن سعد ، وهو ضعيف . ابن حجر” .
“امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں عبد اللہ بن ہشام سے بیان کیا ہے کہ سال یا مہینے کے آغاز پر رسول اللہ کے صحابہ کرام یہ دُعا سیکھا کرتے تھے : اللّهم! أدخله علينا بالأمن والإيمان، والسلامة والإسلام، ورضوان من الرحمن، وجواز من الشيطان علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے ۔ اس کے حاشیے پر ایک عبارت لکھی ہے جس کا مضمون یہ ہے : میں ابنِ حجر کہتا ہوں کہ اس میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے۔”(سلسلة الاحادیث الضعیفة والموضوعة : الرقم : 3504)
یعنی اس روایت میں وجۂ ضعف صرف صرف رشدین بن سعد راوی ہے جو کہ نیک ہونے کے باوجود حافظے کی کمزوری کی وجہ سے “ضعیف” ہے اور اتفاقی طور پر حافظے کی کمزوری “ضعفِ شدید” شمار نہیں ہوتی ۔
3 ایک تیسری سند اور اس پر علامہ البانی کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں :
أخرجه أبو داود ( 2/ 328) من طريق قتادة : أنّه بلغه : أنّ النبيّ – صلّى الله عليه وسلّم – كان … إلخ، وهذا إسناد مرسل ، ورجاله كلّهم ثقات رجال الشيخين. “اس حدیث کو امام ابو داود  نے قتادہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ نبیٔ اکرم یہ دُعا پڑھا کرتے تھے ۔۔۔ یہ سند مرسل ہے ۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں۔” (السلسلة الضعیفة للالباني : الرقم : 3506)
اس سند میں وجۂ ضعف صرف یہ ہے کہ یہ “مرسل” ہے ، یعنی تابعی ڈائریکٹ رسول اللہ سےبیان کر رہا ہے ، یوں سند “منقطع” ہے ۔
4 اس حدیث کی ایک چوتھی سند بھی پیشِ خدمت ہے :
أخبرنا حامد بن شعيب : حدثنا سريج بن يونس : حدثنا مروان بن معاوية الفزاري : حدثني شيخ، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مطرف قال : كان رسول الله – صلّى الله عليه وسلّم – من أقلّ الناس غفلة، كان إذا رأى … إلخ
اس کے بارے میں علامہ البانی لکھتے ہیں :
أخرجه ابن السني ( 641) : وإسناده ضعيف لجهالة الشيخ الّذي لم يسمّ، وبقيّة رجاله ثقات رجال الشيخين غير حامد بن شعيب ؛ وهو حامد بن محمّد ابن شعيب البلخيّ، وثّقه الدارقطني وغيره “اس حدیث کو ابن السنّی نے بیان کیا ہے ۔ اس کی سند اس شیخ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے جس کا نام سند میں نہیں لیا گیا ۔ اس کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں اور بخاری و مسلم کے راویوں میں سے ہیں سوائے حامد بن شعیب کے اور وہ حامد بن محمد بن شعیب بلخی ہیں ۔ انہیں امام دارقطنی وغیرہ نے ثقہ قرار دیا ہے۔”
یعنی اس سند میں بھی وجۂ ضعیف صرف ایک راوی کا مجہول ہونا ہے ۔
ان سب اور دیگر کئی سندوں کو بیان کرنے کے بعد شیخ البانی فرماتے ہیں :
وبالجملة ؛ فهذه طرق كثيرة يثبت بها أنه عليه السلام كان يدعو إذا رأى الهلال
“الغرض یہ ایسی بہت سی سندیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم جب پہلی رات کے چاند کو دیکھتے تو دُعا پڑھتے تھے۔”( السلسلة الضعیفة للالباني : 8/9)
کتنا واضح فرق ہے متقدمین اور متاخرین میں “ضعیف +ضعیف= حسن ” کے حوالے سے کہ اُسی حدیث کو امام عُقَیلی  سب سندوں سے “ضعیف” قرار دے رہے ہیں جبکہ علامہ البانی اُن کا قول نقل کرنے کے بعد اُن کے برعکس اس پر “ضعیف +ضعیف= حسن ” کے اُصول کے تحت “حسن لغیرہ” بلکہ صحیح تک کا حکم لگا رہے ہیں ۔ ہم نے اس سلسلے میں چار ایسی سندیں پیش کی ہیں جن میں ضعف خفیف ہے ۔ متقدمین تو سرے سے “ضعیف +ضعیف= حسن ” کے قائل نہ تھے اور جن متاخرین نے اس اُصول کو بیان کیا ہے ، ان کے نزدیک بھی اگر دو سندیں ایسی ہوں جن میں کوئی سخت ضعیف راوی نہ ہو تو وہ “حسن” بن جاتی ہیں ۔البتہ بعض احباب نے متاخرین کی اس کاوش پر “بے شمار” اسباب و شرائط کا اضافہ کر دیا ہے۔
اب قارئین کرام دوسری اور تیسری سند کو دوبارہ دیکھ لیں اور غور فرمائیں بعض احباب کی بیان کی ہوئی شرطوں پر ۔ اُن احباب کا کہنا تھا کہ : “بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہیں ، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے، حسن لغیرہ کی عدمِ حجت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں …………متقدمین محدثین بعض احادیث کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ کلّھا ضعیفۃ یا أسانیدھا کلّھا معلولۃ (یعنی ان کی سب کی سب سندیں ضعیف ہیں یا سب سندوں میں کوئی نہ کوئی علت موجود ہے) وغیرہ ،ان سے حسن لغیرہ کو حجت نہ سمجھنے والے بڑی خوشی سے استدلال کرتے ہیں حالانکہ …… ۔” پھر انہوں نے “عدم تقویت کے اسباب” کے عنوان کے تحت “بے شمار”اسباب کا ذکر کیا ہے اور ان میں سے تقریباً آٹھ بیان کر دیے ہیں۔ جو “بے شمار”اسباب انہوں نے بتائے نہیں اُن کا لحاظ تو ہم تب ہی کر سکتے ہیں جب وہ سامنے آئیں ، البتہ جو ذکر کر دیے گئے ہیں ، ان کا پاس ہم اُتنی دیر تک کرتے رہیں گے جب تک ان پر کوئی بھر پور تبصرہ نہ کرد یں ۔ آئیے دیکھیں کہ کیا ان مذکورہ اسباب و شرائط میں سے کوئی سبب یا شرط ہماری ذکر کردہ دوسری اور تیسری سند میں موجود ہے ؟
1 پہلی شرط یہ لگائی گئی تھی کہ“ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاہد حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ۔۔۔اس نے سند یا متن میں غلطی کی ۔۔۔” دوسری اور تیسری سند میں ایسی کوئی بات نہیں نہ ائمہ حدیث میں سے کسی نے کوئی ایسی نشاندہی کی ہے ۔
2 دوسری شرط “حسن لغیرہٖ” کے لیے یہ لگائی گئی تھی کہ حدیث میں کوئی فرضیت یا کوئی حرمت نہ ہو ۔ یقیناً نیا چاند دیکھ کر دُعا پڑھنے کے تذکرے سے کسی فرض یا حرام چیز کا اثبات نہیں ہوتا۔
3 ہمارے بعض احباب کی تیسری شرط یہ تھی کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں کوئی راوی اپنے استاذ کے مشہور شاگردوں یعنی اپنے سینئر ساتھیوں کی مخالفت نہ کر رہا ہو ۔ ہماری بیان کردہ دوسری اور تیسری سند میں ایسی بھی کوئی بات نہیں ۔
4 چوتھی شرط یہ تھی کہ اس سند میں ایک سے زائد اسباب ِ ضعف نہ ہوں۔غور سے دیکھ لیں کہ ہماری بیان کردہ دوسری اور تیسری سند میں سبب ِ ضعف ایک ایک ہی ہے۔
5 “دیگر اسباب ِ ضعف”کے زیر ِعنوان پانچویں شرط یہ تھی کہ “اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو ایسی روایت متابِع یا شاہد نہیں بن سکتی۔” غور فرما لیں کہ ہماری بیان کردہ دوسری اور تیسری سند میں کوئی ایسا مبہم راوی نہیں جس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں بے احتیاط ہو۔
6 چھٹی شرط یہ تھی کہ سند میں ایسا راوی نہ ہو جس کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری بیان کردہ دوسری اور تیسری سند میں کوئی ایسا راوی نہیں ۔
7 ساتویں شرط یہ تھی کہ متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات مُتَابِع یا شاہِد نہیں بن سکتیں ۔ اس شرط کے مطابق ہماری بیان کردہ اسناد میں کوئی متروک اور انتہائی کمزور راوی نہیں ۔
8 آٹھویں اور آخری شرط یہ بیان کی گئی تھی کہ کسی ضعیف راوی نے حدیث کو مرسل نہ بیان کیا ہو ۔ غور فرمائیں کہ ہماری بیان کردہ سندوں میں سے صرف تیسری سند مرسل ہے ، لیکن اسے کسی ضعیف راوی نے بیان نہیں کیا ۔
اب اِن احباب سے ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ اس حدیث کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ اگر وہ اسے “حسن لغیرہٖ” یا “صحیح ” سمجھتے ہیں تو یہی فرق ہے متاخرین اور متقدمین میں۔ امام عُقَیلی  سے اس کی سب سندوں کے “ضعیف” ہونے کا فیصلہ وہ سُن چکے ۔ پھر متقدمین میں سے کسی امام کا اس حدیث کو “حسن” یا “صحیح” کہنا بھی ثابت نہیں لیکن متقدمین کے برعکس متاخرین میں سے بعض علمائے کرام اور یہ احباب اسے “حسن لغیرہٖ بلکہ صحیح” سمجھنے لگے ہیں ۔ اور اگر اِن احباب کا خیال یہ ہو کہ یہ حدیث “حسن لغیرہٖ ” نہیں تو پھر وہ خود اپنے اُصولوں کی مخالفت کرنے لگے ہیں ، کیونکہ ان کے بیان کردہ اُصولوں کے مطابق یہ حدیث “حسن لغیرہٖ” بن چکی ہے۔
ثابت ہوا کہ متقدمین ائمہ حدیث “ضعیف+ضعیف=حسن” کے قائل نہیں تھے ۔ یہ اُصول اُن کے بعد متاخرین کے زمانے میں متعارف ہوا ۔
دامن ِصفحات اگر تنگ نہ پڑتا تو ہم نگارشات قلم کو وسیع کرتے ہوئے کئی اورمثالوں سے متقدمین اور متاخرین کے منہج میں فرق واضح کرتے ، البتہ متلاشیانِ حق کے لیے ایک ہی دلیل کافی ہوتی ہے ۔ آیندہ قسطوں میں اس کی مزید توضیح کی جائے گی ۔ إن شاء اللّٰہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.