1,408

عورت گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

عورت گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ، کیونکہ اعتکاف کی شرعی تعریف یہ ہے :      المکث فی المسجد من شخص مخصوص بصفۃ مخصوصۃ ۔ ”کسی مخصوص شخص کا خاص صفت کے ساتھ مسجد میں ٹھہرنے کا نام اعتکاف ہے ۔”(شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١، فتح الباری لابن حجر : ٤/٢٧١، فتاوٰی عالمگیری : ١/٢٢١)
امام ِ بریلویت احمد یار خان بریلوی (١٣٢٤۔١٣٩١)لکھتے ہیں :     ”اعتکاف کا معنیٰ ہیں ، عبادت کی نیت سے مسجد میں ٹھہرنا ۔”(تفسیر نور العرفان : ٤٤، نیز دیکھیں : علم الفقہ از عبد الشکور دیوبندی : ٣/٤٥٩)
حافظ نووی a(٦٣١۔٦٧٦ھ)لکھتے ہیں :      وفی ھذہ الأحادیث أن الاعتکاف لا یصحّ الّا فی المسجد ، لأنّ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم وأزواجہ وأصحابہ انّما اعتکفوا فی المسجد مع المشقّۃ فی ملازمتہ ، فلو جاز فی البیوت لفعلوہ ولو مرّۃ ، لا سیّما النّساء ، لأنّ حاجتھنّ الیہ فی البیوت أکثر ، وھذا الّذی ذکرناہ من اختصاصہ بالمسجد ، وأنّہ لا یصحّ فی غیرہ ، ھو مذھب مالک والشّافعیّ وأحمد وداو،د والجمہور ، سواء الرّجل والمرأۃ ۔
”ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اعتکاف صرف مسجد میں جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم e، آپ کی ازواج اور آپ کے اصحاب y، نے مشقت کے باوجود مسجد میں ہی اعتکاف کیا ، اگر گھر میں جائز ہوتا تو آپ ایک مرتبہ( بیانِ جواز کے لیے )ہی ایسا کرتے ، خصوصا ً جب کہ آپ کی ازواج کے لیے گھر میں اعتکاف کی زیادہ ضرورتھی ، مرد اور عورت دونوں کے لیے صرف مسجد میں اعتکاف کے جواز اور مسجد کے علاوہ عدمِ جواز کا جو مؤقف ہم نے بیان کیا ہے ، یہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل ، داو،د اور جمہور محدثین Sکا ہے ۔”
(شرح مسلم للنووی : ١/٣٧١)
حافظ ابنِ حجر a(٧٧٣۔٨٥٢ھ)آیت ِ مبارکہ (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِدِ)کے تحت لکھتے ہیں :      فعلم من ذکر المساجد أنّ المراد أنّ الاعتکاف لا یکون الّا فیھا ۔”اس آیت میں مسجدوں کے ذکر سے معلوم ہوا کہ مسجد کے علاوہ اعتکاف ہوتا ہی نہیں ۔”(فتح الباری : ٤/٢٧٢)
احناف کے ”ابو حنیفہ ثانی ”ابنِ نجیم حنفی لکھتے ہیں :     انّ کلّ حکم ثبت للرّجال ثبت للنّساء ، لأنّھنّ شقائق الرّجال ، الّا ما نصّ علیہ ۔
”ہر وہ حکم جو مردوں کے لیے ثابت ہو ، وہ عورتوں کے لیے بھی ثابت ہوتا ہے ، کیونکہ عورتیں مردوں کی نظائر ہیں ، سوائے اس حکم کے جس پر (خاص)نص وارد ہوجائے ۔”(البحر الرائق لابن نجیم الحنفی : ١/٤٣)
جناب جسٹس تقی عثمانی دیوبندی کہتے ہیں :     ”عورتیں تمام احکام میں مردوں کے تابع ہوتی ہیں۔”(درس ترمذی از تقی : ٣/٣٢٨)
جب مرد کا اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں جائز نہیں تو عورت کے لیے بغیر دلیل کے جائز کیوں ؟ پھر سب کے نزدیک مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن بھی ہے ۔
دیکھیں(الھدایۃ مع البنایۃ : ٣/٤٠٧، ابن عابدین : ٢/٤٤١، بلغۃ السالک : ١/٥٣٨، کشاف القناع : ٢/٣٤٧)
جب اعتکاف مسجد کے ساتھ خاص ہے اور مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا رکن ہے تو پھر بغیر دلیل کے عورت سے یہ ”خصوصیت” اور ”رکنیت ” کیسے ساقط ہو گئی ؟
نبی کریم eکے زمانہ ئ اقدس میں اور آپ eکے بعد آپ کی ازواجِ مطہرات مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، اگر عورت کے لیے گھر میں اعتکاف کرنا صحیح ہوتا تو وہ اپنے گھروں میں اعتکاف کرتیں ، علاوہ ازیں عورت کو گھر میں رہنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے ، مگر اس کے باوجود مسجد میں اعتکاف کرتی تھیں ،کسی صحابی سے اس پر انکار ثابت نہیں ، گو یا کہ عورت کے مسجد میں اعتکاف کے جواز پر صحابہ کرام کا اجماع تھا ۔
ابنِ ہبیرہ (م٥٦٠ھ)لکھتے ہیں :      وأجمعوا علی أنّہ لا یصحّ اعتکاف المرأۃ فی بیتھا ، الّا أبا حنیفۃ قال : یجوز اعتکافھا فی مسجد بیتھا ۔
”اس بات پر (مسلمانوں کا )اجماع و اتفاق ہے کہ عورت کا اعتکاف گھر میں صحیح نہیں ، لیکن ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ اس کے لیے اپنے گھر کی نماز والی جگہ میں اعتکاف جائز ہے ۔”(الافصاح لابن ہبیرۃ : ١/٢٥٦)
اجماع کے شریعت کی معصوم دلیل ہونے پر بھی اجماع ہے ، اس کی مخالفت کرنے والے کون لوگ ہو سکتے ہیں ؟
بر ِ صغیر پاک و ہند کے محقق حنفی عالم علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (١٢٦٤۔١٣٠٤ھ)لکھتے ہیں :
لو اعتکفت فی مسجد جماعۃ فی خباء ضرب لھا فیہ ، لا بأس بہ ، لثبوت ذالک عن أزواج النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم فی عھدہ کما ثبت فی صحیح البخاریّ ۔
”اگر عورت ایسی مسجد میں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو اور اس کے لیے خیمہ لگایا گیا ہو ، اعتکاف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، کیونکہ اس کا ثبوت عہد ِ نبوی میں نبی کریمeکی بیویوں سے ملتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری سے ثابت ہے ۔”(عمدۃ الرعایۃ : ١/٢٥٥)
حافظ ابنِ قدامہ المقدسی a(م٦٢٠ھ)لکھتے ہیں :     ”ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان (وَاَنْتُمْ عَاکِفُونَ فِیْ الْمَسَاجِد)ہے، اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جو نماز کے لیے بنائی گئی ہیں ، عورت کی گھر میں نماز کی جگہ وہ مسجد نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ نماز کے لیے نہیں بنائی گئی ، اگرچہ مجازی طور پر اس کا نام مسجد رکھا گیا ہے ، اس جگہ کے لیے حقیقی مسجد کے احکام ثابت نہیں ہوتے ، جیسا کہ نبی کریم eکا فرمان ((جعلت لی الأرض مسجداً)) (میرے لیے ساری زمین مسجد بنا دی گئی ہے )ہے ، اس لیے نبی کریم eکی ازواجِ مطہرات نے آپ eسے مسجد نبوی میں اعتکاف کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی ، اگر مسجد ان کے لیے اعتکاف کی جگہ نہیں تھی تو آپ نے ان کو اجازت کیوں دی ؟ اگر مسجد کے علاوہ کہیں اور اعتکاف کرنا افضل ہوتا تو آپ ان کو اس جگہ کی طرف رہنمائی دیتے ، لہٰذا (عورت کا گھر میں اعتکاف نہیں ہو سکتا)، چونکہ اعتکاف قربت کا نام ہے ، اس قربت کا حصول مرد کے حق میں مسجد کے ساتھ مشروع کیا گیا ہے ، پس عورت کے حق میں بھی مشروع کر دیا گیا ہے ، جس طرح کہ طواف ہے ۔”(المغنی لابن قدامۃ : ٣/١٩٠)
گھر کی مسجد نہ حقیقی مسجد ہوتی ہے ، نہ ہی حکمی ، کیونکہ مسجد میں خرید وفروخت حرام ہوتی ہے ، گھر کی مسجد میں خرید وفروخت ہو سکتی ہے ، گھر کی مسجد کو تبدیل کیا جاسکتاہے ، جب کہ حقیقی مسجد کو بلا ضرورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا ، مسجد میں جنبی انسان یا حائضہ عورت کا سونا منع ہے ، جبکہ گھر کی مسجد میں سویا جا سکتا ہے ، مسجد میں شور وغل اور کھیل کود منع ہے ، جبکہ گھر کی مسجد میں کوئی حرج نہیں ۔
صحیح بخاری سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم eنے اپنی بیویوں کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت دی ، ایک دوسری روایت میں آپ eسے انکار بھی ثابت ہے ، وہ کسی عارضہ کے پیشِ نظر تھا ، ہو سکتاہے کہ ازواجِ مطہرات کے کثرت سے مسجد میں خیمے لگانے سے مسجد تنگ ہو جانے کا خدشہ ہو ۔
جب آپ eنے انکار کیا تب بھی آپ نے ان کو گھر میں اعتکاف کرنے کا حکم نہیں دیا ، اگر عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں تو قبل ازیں عورتوں کو اجازت کیوں دی تھی ؟ جبکہ آپ eکے دور کے بعد بھی عورتیں مسجد میں ہی اعتکاف کیا کرتی تھیں ، لہٰذا ثابت ہوا کہ عورت قطعی طور پر گھر میں اعتکاف نہیں کر سکتی ۔
علاوہ ازیں گھر کی مسجد میں عورت کے اعتکاف کو اس کی نماز پر قیاس کرنا کہ جس طرح عورت کی نماز گھر میں افضل ہے ، اسی طرح اعتکاف بھی افضل ہے ، یہ قیاس باطل ہے ، کیونکہ ازواجِ مطہرات کا مسجد میں اعتکاف کرنا نص سے ثابت ہے ، نص کے مقابلے میں قیاس غیر مقبول اور باطل ہوتا ہے ۔(الہدایۃ مع البنایۃ : ٣/٤٠٨ ، عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری : ٦/١٦٤،٢٣٣،٢٣٤،١٢/١٣ ، السعایۃ از عبد الحی الکنوی الحنفی : ١/٢٠٩ ، الافاضات الیومیۃ از اشرف علی تھانوی دیوبندی : ١/٣٠٥ ، خزائن السنن از سرفراز خان صفدر دیوبندی حیاتی : ١/١٩٨ ، روحوں کی دنیا از احمد رضا خان بریلوی : ٢٨٨ وغیرھم)
امام ِ بریلویت احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں :      ”نص کے مقابل قیاس کرنا شیطان کا کام ہے ، باعث ِ لعنت اور گمراہی ہے ۔”(تفسیر نور العرفان از نعیمی : ٢٣٤ ،٢٤٠ ،٣٣٨ ،٧٣٠ ،٨٤١)
مزید لکھتے ہیں :     ”نص کے مقابلے میں قیاس دوڑانا جائز نہیں ۔”(”جاء الحق” : ٢/٢٣٠)
امام عینی حنفی ایک دوسری جگہ عجیب بات لکھتے ہیں : اذا تعارض القیاسان وجب المصیر الی النّصّ۔
”جب دو قیاس متعارض ہو جائیں تو اس وقت نص کی طرف جانا واجب ہوجاتا ہے ۔”(البنایۃ : ٤/٩١)
جب نص کی موجودگی میں قیاس جائز ہی نہیں تو پہلے قیاس ، پھر نص کی طرف جانے کا کیا معنیٰ؟
اگر گھر کی مسجد میں عورت کے لیے اعتکاف کرنا جائز ہوتا تو آپ eکی ازواجِ مطہرات ضرور بالضرور گھر میں اعتکاف کرتیں ، پھر اعتکاف کا قیاس نماز کے ساتھ صحیح نہیں ہے ،کیونکہ مرد کی سنتیں اور دوسری نفلی نماز گھر میں افضل ہے ، اعتکاف جو کہ سنت ہے ، وہ اس کے لیے گھر میں جائز نہیں ہے تو عورت کے لیے کیسے جائز ہوگا ؟ اس کے علاوہ حنفی مذہب میں بھی عورت کو مسجد میں اعتکاف کی اجازت ہے ، جیسا کہ رئیسِ احناف ابنِ ہمام حنفی لکھتے ہیں :      ولو اعتکفت فی الجامع أو فی مسجد حیّھا ، وھو أفضل من الجامع فی حقّھا جاز ۔    ”اگر عورت جامع مسجد میں یا اپنے قبیلے کی مسجد میں اعتکاف کرے تو جائز ہے ، ہاں اس کے قبیلہ کی مسجد اس کے حق میں (قریب ہونے کی وجہ سے )جامع مسجد سے زیادہ بہتر ہے ۔”
(فتح القدیر شرح الھدایۃ : ٢/٣٩٤ ، شرح النقایۃ از ملا علی القاری الحنفی : ١/٤٣٥)
امام ابو حنیفہ سے باسند ِ صحیح عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کا جواز ثابت نہیں ، حسن بن زیاد(متّھم بالکذب)نے امام صاحب سے عورت کے لیے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کا جواز نقل کیا ہے ۔
(بدائع الصنائع از کاسانی حنفی : ٢/١١١)
ثابت ہوا کہ ائمہ کے نزدیک عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا جائز نہیں ۔
الحاصل :     اگر عورت سمجھتی ہے کہ وہ مسجد میں محفوظ و مأمون ہے تو خاوند کی اجازت سے مسجد میں اعتکاف کرے ، ورنہ ترک کر دے ۔
سورہئ حج میں دو سجدے ہیں
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
سورہئ حج میں دو سجدے ہیں ، جیسا کہ سیدنا عقبہ بن عامر tکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ eسے عرض کی ، کیا سورہئ حج میں دو سجدے ہیں ؟ آپ eنے فرمایا ، ہاں ، سورہئ حج میں دو سجدے ہیں ، جس نے یہ دو سجدے نہ کیے ، اس نے ان دونوں کو نہیں پڑھا ۔
(سنن ابی داو،د : ١٤٠٢،سنن الترمذی : ٥٧٨، مسند الامام احمد : ٤/١٥١، ١٥٥، وسندہ، حسن)
ثعلبہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب tکے ساتھ نماز پڑھی ، آپ نے سورہئ حج کی قرا ء ت کی ، اس میں دو سجدے کیے ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/١١، شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٣٦٢، وسندہ، صحیح)
عبداللہ بن دینا ر aفرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر wکو دیکھا ، آپ نے سورہئ حج میں دو سجدے کیے۔
(مؤطا امام مالک : ١/٢٠٦، وسندہ، صحیح)
ابو العالیہ aکہتے ہیں کہ سیدنا ابنِ عباس wنے فرمایا ، سورہئ حج میں دو سجدے ہیں ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٣١٨، وسندہ، صحیح)
جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابو الدرداء tنے سورہئ حج میں دو سجدے کیے ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/١١، وسندہ، صحیح)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.