3,525

مانعین رفع الیدین کے دلائل کا علمی محاسبہ۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

مانعینِ رفع الیدین کے دلائل کا علمی محاسبہ
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین متواتر احادیث سے ثابت ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (م ٧٤٨ھ) نے رفع الیدین کو ”سنت ِ متواترہ” قرار دیا ہے ۔(سیر اعلام النبلاء : ٥/٢٩٣)
علامہ زرکشی (٧٤٥۔٧٩٤ھ) لکھتے ہیں :      وفی دعوٰی أنّ أحادیث الرّفع فیما عدا التّحریم لم تبلغ مبلغ التّواتر نظر ، وکلام البخاریّ فی کتاب رفع الیدین مصرّح ببلوغھا ذلک ۔
”یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین کی احادیث تواتر تک نہیں پہنچیں ، کتاب (جز)رفع الیدین میں امام بخاری کی کلام ان کے تواتر تک پہنچنے کی صراحت کرتی ہے ۔”
(المعتبر فی تخریج احادیث المنھاج والمختصر للزرکشی : ١٣٦)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وفی دعوٰی ابن کثیر أنّ حدیث رفع الیدین فی أوّل الصّلاۃ دون حدیث رفع الیدین عند الرّکوع متواتر نظر ، فانّ کلّ من روٰی الأوّل روی الثّانی الّا الیسیر ۔۔۔     ”حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ محل نظر ہے کہ نماز کے شروع میں رفع الیدین متواتر ہے ، رکوع کے وقت متواتر نہیں ، بلاشبہ سوائے ایک دوراویوں کے ہر وہ راوی جس نے پہلی رفع الیدین بیان کی ہے ، اس نے دوسری رفع الیدین بھی بیان کی ہے ۔”(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر : ١/٤٠٩)
مانعین رفع الیدین کے پاس کوئی مرفوع ، صحیح اور خاص دلیل نہیں ، ان کے عمومی دلائل کا مختصر اور جامع علمی وتحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے :
دلیل نمبر 1 :      سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ رسولِ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیان کرتے ہیں :     أنّہ کان یرفع یدیہ فی أوّل تکبیرۃ ، ثمّ لا یعود ۔
”آپ   صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں رفع الیدین فرماتے تھے ، پھر دوبارہ نہ کرتے ۔”
(مسند الامام احمد : ١/٣٨٨ ، ٤٤١، سنن ابی داو،د : ٧٤٨، سنن النسائی : ١٠٢٧، سنن الترمذی : ٢٥٧)
تبصرہ :      1 یہ روایت ”ضعیف” ہے ، اس میں امام سفیان ثوری ہیں ، جو کہ بالاجماع ”مدلس” ہیں ، ساری کی ساری سندوں میں ”عن” سے روایت کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ۔
مسلّم اصول ہے کہ جب” ثقہ مدلس” بخاری ومسلم کے علاوہ ”عن” یا ”قال” کے الفاظ کے ساتھ حدیث بیان کرے تو وہ ”ضعیف” ہوتی ہے ۔
اس حدیث کے راوی امام عبداللہ بن مبارک  رحمہ اللہ (م ١٨١ھ)نے امام ہشیم بن بشیر  رحمہ اللہ (م ١٨٣ھ) سے پوچھا ، آپ ”تدلیس” کیوں کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا :      انّ کبیریک قد دلّسا ، الأعمش وسفیان ۔     ”آپ کے دو بڑوں امام اعمش اور امام سفیان ;نے بھی تدلیس کی ہے ۔”
(الکامل لابن عدی : ١/٩٥، ٧/١٣٥، وسندہ، صحیحٌ)
امام عینی حنفی لکھتے ہیں :      سفیان من المدلّسین ، والمدلّس لا یحتجّ بعنعنتہ الّا أن یثبت سماعہ من طریق آخر ۔     ”سفیان مدلس راویوں میں سے ہیں اور مدلس راوی کے عنعنہ سے حجت نہیں لی جاتی ، الا یہ کہ دوسری سند میں اس کا سماع ثابت ہو جائے ۔”(عمدۃ القاری : ٣/١١٢)
2    یہ ”ضعیف” روایت عام ہے ، جبکہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے متعلق احادیث خاص ہیں ، خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے ، لہٰذا یہ حدیث عدمِ رفع الیدین کے ثبوت پر دلیل نہیں بن سکتی ۔
3    مانعینِ رفع الیدین یہ بتائیں کہ وہ اس حدیث کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے خود وتروں اور عیدین میں پہلی تکبیر کے علاوہ کیوں رفع الیدین کرتے ہیں ؟
حدیث ِ ابن مسعود  رضی اللہ عنہ محدثین کرام کی نظر میں
1    امام عبداللہ بن مبارک  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     لم یثبت عندی حدیث ابن مسعود ۔
”میرے نزدیک حدیث ِ ابنِ مسعود ثابت نہیں ۔”(سنن الترمذی : تحت حدیث ٢٥٦، سنن الدارقطنی : ١/٣٩٣، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٧٩، وسندہ، صحیحٌ)
2    امام ابوداؤد  رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ولیس ھو بصحیح علی ھذا اللفظ ۔        ” یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ۔”
3    امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     ھذا خطأ ۔     ”یہ غلطی ہے۔” (العلل : ١/٩٦)
4    امام دارقطنی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ولیس قول من قال : ثمّ لم یعد محفوظاً ۔
”جس راوی نے دوبارہ رفع الیدین نہ کرنے کے الفاظ کہے ہیں ، اس کی روایت محفوظ نہیں ۔”(العلل : ٥/١٧٣)
5    امام ابن حبان  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ھو فی الحقیقۃ أضعف شیئ یعوّل علیہ ، لأنّ لہ عللاً تبطلہ ۔    ”درحقیقت یہ ضعیف ترین چیز ہے جس پر اعتماد کیا جا تا ہے ، کیونکہ اس میں کئی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں ۔”(التلخیص الحبیر لابن حجر : ١/٢٢٢)
تنبیہ :     اگر کوئی کہے کہ امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن” کہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہے :
”ابنِ دحیہ نے اپنی کتاب ”العلم المشہور” میں کہا ہے کہ امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کتنی ہی موضوع (من گھڑت)اور ”ضعیف” سند وں والی احادیث کو ”حسن” کہہ دیا ہے ۔”(نصب الرایۃ للزیلعی : ٢/٢١٧، البنایۃ للعینی : ٢/٨٦٩، مقالات الکوثری : ٣١١، صفائح اللجین از احمد رضا خان بریلوی : ٢٩)
اہل علم جانتے ہیں کہ امام ترمذی  رحمہ اللہ کا تساہل معروف ہے ، وہ کتنی ”ضعیف” احادیث کو ”حسن” کہہ دیتے ہیں ،خود حنفی بھائی جرابوں کے مسح والی حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ کے ”حسن” کے ساتھ ساتھ ”صحیح” کہنے کے باوجودبھی ”حسن” تسلیم نہیں کرتے ۔
دلیل نمبر 2 :      سیدنا جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں :
خرج علینا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : ما لی أراکم رافعی أیدیکم کأنّھا أذناب خیل شمس ؟ اسکنوا فی الصّلاۃ !         ”رسولِ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا ، مجھے کیا ہے کہ میں تمہیں شریر گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھائے ہوئے دیکھ رہا ہوں ، نماز میں سکون کیا کرو! ” (صحیح مسلم : ١/١٨١، ح : ٤٣٠)
تبصرہ :     1 اس ”صحیح” حدیث میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی نہیں ہے ، بلکہ محدثین کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس کا تعلق تشہد اور سلام کے ساتھ ہے ، نہ کہ قیام کے ساتھ ، تمیم بن طرفہ کی یہی روایت اختصار کے ساتھ مسند الامام احمد (٥/٩٣)میں موجود ہے ، جس میں وھم قعود (آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان اس حال میں جاری فرمایا کہ صحابہ کرام تشہد میں بیٹھے ہوئے تھے)کے الفاظ ہیں ، اس کی وضاحت و تائید دوسری روایت میں سیدنا جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے :
کنّا اذا صلّینا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قلنا : السّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ ، السّلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ ، وأشار بیدہ الی الجانبین ، فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : علام تؤمون بأیدیکم کأنّھا أذناب خیل شمس ؟ انّما یکفی أحدکم أن یضع یدہ علی فخذہ ، ثمّ یسلّم علی أخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔     ”ہم جب رسولِ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت)نماز پڑھتے تھے تو السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہتے ، انہوں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کیا ، اس پر رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ یوں اشارہ کیوں کرتے ہو، جیسے وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہوں ؟ تم میں سے کسی کو یہ کافی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کو اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے بھائی (ساتھ نماز پڑھنے والے)پر دائیں اور بائیں سلام کہے ۔”(صحیح مسلم : ١/١٨١، ح : ٤٣١)
اس روایت نے بھی اوپر والی روایت کا مطلب واضح کر دیا ہے ، اس پر مستزاد محدثین کا فہم سونے پر سہاگہ ہے ، لہٰذا اس حدیث سے رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرنا اہل حق کو زیبا نہیں ، کسی محدث نے اس حدیث کو عدم ِ رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کیا ، ایک مؤمن کا ایمان اس بات کو کیسے تسلیم کر لے کہ جو کام نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خود کرتے تھے ، وہی کام اپنے صحابہ کو کرتے دیکھا تو اس کو سرکش گھوڑوں کی دُموں کی حرکت سے تشبیہ دے دی ؟
اس حدیث کے بارے میں دیوبندیوں کے ”شیخ الہند” محمود الحسن دیوبندی صاحب کہتے ہیں :
”باقی اذناب ِ خیل کی روایت سے جواب دینا ازروئے انصاف درست نہیں ، کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے ۔” (تقاریر شیخ الھند : ٦٥، مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان)
اس حدیث کے بارے میں جناب محمد تقی عثمانی حیاتی دیوبندی کہتے ہیں :      ” لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے ، کیونکہ ابن القبطیہ کی روایت میں سلام کے وقت کی جو تصریح موجود ہے ، اس کی موجودگی میں ظاہر اور متبادر یہی ہے کہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث رفع عند السلام سے متعلق ہے اور دونوں حدیثوں کو الگ الگ قراردینا جب کہ دونوں کا راوی بھی ایک ہے اور متن بھی قریب قریب ہے ، بُعد سے خالی نہیں ، حقیقت یہی ہے کہ حدیث ایک ہی ہے اور رفع عند السلام سے متعلق ہے، ابن القبطیہ کا طریق مفصل ہے اور دوسرا طریق مختصر و مجمل ، لہٰذا دوسرے طریق کو پہلے طریق پر ہی محمول کرنا چاہیے ، شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت (انور)شاہ صاحب (کشمیری) نور اللہ مرقدہ اس حدیث کو حنفیہ کے دلائل میں ذکر نہیں کیا ۔”(درس ترمذی از تقی : ٢/٣٦)
مشہور حنفی امام ، ابن ابی العز  رحمہ اللہ (م ٧٩٢ھ) اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :      وما استدلّ بہ من حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال : خرج علینا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : ما لی أراکم رافعی أیدیکم کأنّھا أذناب خیل شمس ؟ اسکنوا فی الصّلاۃ ! رواہ مسلم ، وأنّ الأمر بالسّکون فی الصّلاۃ ینافی الرّفع عند الرّکوع والرّفع منہ لا یقوی ، لأنّہ قد جاء فی روایۃ أخری لمسلم عنہ ، قال : صلّینا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فکنّا اذا سلّمنا ، قلنا بأیدینا : السّلام علیکم ، فنظر الینا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : ما لکم تشیرون بأیدیکم کأنّھا أذناب خیل شمس ، اذا سلّم أحدکم فلیلتفت الی صاحبہ ، ولا یؤمی بیدہ ۔
وأیضا فلا نسلّم أنّ الأمر بالسّکون فی الصّلاۃ ینافی الرّفع عند الرّکوع والرّفع منہ ، لأنّ الأمر بالسّکون لیس المراد منہ ترک الحرکۃ فی الصّلاۃ مطلقا ، بل الحرکۃ المنافیۃ للصّلاۃ بدلیل شرع الحرکۃ للرّکوع والسجود ورفع الیدین عند تکبیرۃ الافتتاح وتکبیر القنوت وتکبیرات العیدین ، فان قیل : خرج ذلک بدلیل ، قیل : وکذلک خرج الرّفع عند الرّکوع والرّفع منہ بدلیل ، فعلم أنّ المراد منہ الاشارۃ بالسّلام بالید ۔
”اور جو سیدنا جابر  رضی اللہ عنہ کی صحیح مسلم والی حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکش گھوڑوں کی دُموں کی طرح ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا اور نماز میں سکون کا حکم فرمایا ، نیز یہ کہنا کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے منافی ہے ، کوئی قوی بات نہیں ،کیونکہ جابر  رضی اللہ عنہ  سے ہی مروی صحیح مسلم کی دوسری روایت میں ہے ، ہم (صحابہ) رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (باجماعت) نماز پڑھتے تھے ، جب ہم سلام پھیرتے تو اپنے ہاتھوں کے ساتھ (اشارہ کرکے) السلام علیکم کہتے ، رسولِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا تو فرمایا ، تمہیں کیا ہے کہ تم اپنے ہاتھوں کے ساتھ ایسے اشارہ کرتے ہو ، جیسے وہ شریر گھوڑوں کی دُمیں ہوں ، جب تم میں سے کوئی سلام پھیرے تو اپنے (ساتھ والے )بھائی کی طرف منہ پھیرے ، ہاتھ کے ساتھ اشارہ نہ کرے ۔
اسی طرح ہم اس بات کو بھی تسلیم نہیں کرتے کہ نماز میں سکون کا حکم رکوع کوجاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی کرتا ہے ، کیونکہ سکون کے حکم سے مراد یہ نہیں کہ نماز میں بالکل حرکت ختم چھوڑ دی جائے ، بلکہ اس حرکت کی نفی ہے جو نماز کے منافی ہے ، دلیل یہ ہے کہ رکوع ، سجدہ ، تکبیر تحریمہ ، قنوت کی تکبیر اور عیدین کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین مشروع ہے (وہ بھی تو حرکت ہے)۔
اگر کوئی یہ کہے کہ یہ حرکت دلیل کے ساتھ (ممانعت سے )خارج ہو گئی ہے ، تو اسے بھی یہی جواب دیا جائے گا کہ رکوع کو جاتے اور رکوع سے سراٹھاتے وقت کی رفع الیدین بھی دلیل کے ساتھ (ممانعت سے)خارج ہو گئی ہے ۔
معلوم ہوا کہ اس (صحیح مسلم کی حدیث جابر رضی اللہ عنہ )سے مراد سلام کے وقت ہاتھ سے اشارہ کرنا ہے ۔”
(التنبیہ علی مشکلات الھدایۃ لابن ابی العز الحنفی : ٢/٥٧٠۔٥٧١)
اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ِ رفع الیدین کے خلاف یہ حدیث پیش کرے تو اس پر افسوس ہے کہ وہ جہالت پر مبنی اس طرح کی بعید و عجیب باتیں کرتا ہے !
حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :      وھو حدیث جابر بن سمرۃ ، فجعلہ معارضا لما قدّمناہ من أقبح الجھالات لسنّۃ سیدنا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، لأنّہ لم یرد فی رفع الأیدی فی الرّکوع والرّفع منہ ، وانّما کانوا یرفعون أیدیھم فی حالۃ السّلام من الصّلاۃ ویشیرون بھا الی الجانبین ، یریدون بذلک السّلام علی من علی الجانبین ، وھذا لا اختلاف فیہ بین أھل الحدیث ، ومن لہ أدنٰی اختلاط بأھلہ ، وبرھان ذلک أنّ مسلم بن الحجّاج رواہ فی صحیحہ من طریقین ۔۔۔    ”وہ جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، اسے ہماری پیش کردہ روایاتِ (رفع الیدین)کے مخالف بناناہمارے رسولِ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے قبیح ترین جہالت ہے ، کیونکہ یہ حدیث رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بارے میں نہیں ہے ، اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر دونوں طرف اشارہ کرتے تھے ، وہ اس سے سلام کرنے کا ارادہ کرتے تھے ، اس بارے میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا بھی تعلق رکھنے والوںمیں کوئی اختلاف نہیں ، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام مسلم نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ۔۔۔۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٣/٤٨٥)
شارحِ مسلم حافظ نووی  رحمہ اللہ (م ٦٧٦ھ)لکھتے ہیں :      وأمّا حدیث جابر بن سمرۃ ، فاحتجاجھم بہ من أعجب الأشیاء ، وأقبح أنواع الجہالۃ بالسّنّۃ ، لأنّ الحدیث لم یرد فی رفع الأیدی فی الرّکوع والرّفع منہ ، ولکنّھم کانوا یرفعون أیدیھم فی حالۃ السّلام من الصّلاۃ ویشیرون بھا الی الجانبین ، یریدون بذلک السّلام علی من عن الجانبین ، وھذا لا خلاف فیہ بین أھل الحدیث ومن لہ أدنٰی اختلاط بأھل الحدیث ، ویبیّنہ أنّ مسلم بن الحجّاج رحمہ اللّٰہ رواہ فی صحیحہ من طریقین ۔۔۔
”رہی سیدنا جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ کی حدیث تو ان (احناف )کااس سے دلیل لینا بہت بڑا عجوبہ اور سنت ِ رسول سے جہالت کا قبیح ترین نمونہ ہے ، کیونکہ یہ حدیث رکوع جاتے اور سراٹھاتے وقت رفع الیدین کے بارے میں نہیں ، بلکہ صحابہ کرام نماز سے سلام پھیرنے کی حالت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اور ان کے ساتھ دونوں جانب اشارہ کرتے تھے ، ان کا ارادہ دونوں جانب سلام کرنے کا ہوتا تھا ، اس بات میں محدثین اور ان سے ادنیٰ سا تعلق رکھنے والوں میں سے کسی کا کوئی اختلاف نہیں ، اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ امام مسلم بن الحجاج  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں دوسندوں سے روایت کیا ہے ۔۔۔”(المجموع : ٣/٤٠٣)
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے :     ذکر الخبر المقتضی للفظۃ المختصرۃ الّتی تقدّم ذکرنا لھا ، بأنّ القوم انّما أمروا بالسّکون فی الصّلاۃ عند الاشارۃ بالتّسلیم دون رفع الیدین عند الرّکوع ۔    ”اس حدیث کا بیان جوتقاضا کرتی ہے کہ ہمارے پہلے ذکر کردہ مختصر الفاظ سے مراد یہ ہے کہ صحابہ کرام کو صرف نماز میں سلام کا اشارہ کرتے وقت سکون کا حکم دیا گیا تھا ، نہ کہ رکوع میں رفع الیدین کرتے وقت ۔”(صحیح ابن حبان : تحت حدیث ١٨٨٠)
امیر المؤمنین فی الحدیث ، فقیہ الامت ، سیدنا امام بخاری  رحمہ اللہ (م ٢٥٦ھ) اس حدیث ِ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں :      فانّما کان ھذا فی التّشھّد ، لا فی القیام ، کان یسلّم بعضھم علی بعض ، فنھی النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن رفع الأیدی فی التّشھّد ، ولا یحتجّ بھذا من لہ حظ من العلم ، ھذا معروف مشہور ، لا اختلاف فیہ ، ولو کان کما ذھب الیہ لکان رفع الأیدی فی أوّل التّکبیرۃ وأیضا تکبیرات صلاۃ العیدین منھیّا عنھا ، لأنّہ لم یستثن رفعا دون رفع ، وقد بیّنہ حدیث ۔۔۔    ”یہ حدیث تشہد کے بارے میں تھی ، نہ کہ قیام کے بارے میں ، صحابہ کرام (ہاتھ اٹھا کر)ایک دوسرے پر سلام کہتے تھے ، تو نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد میں ہاتھوں کو اٹھانے سے منع فرما دیا ، اس حدیث سے کوئی بھی ایسا شخص (رفع الیدین کی ممانعت پر)دلیل نہیں لے گا جس کو علم کا کچھ حصہ نصیب ہوا ہو ، یہ بات مشہور ومعروف ہے ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ، اگر بات ایسے ہوتی ، جیسے یہ (مانع رفع الیدین ) گیا ہے تو پہلی تکبیر اور عید کی تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین بھی منع ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ(اس حدیث میں) آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کا کوئی موقع مستثنیٰ نہیں فرمایا ، پھر (دوسری)حدیث نے بھی اس کی وضاحت کر دی ہے ۔”(جزء رفع الیدین للامام البخاری : ص ٦١۔٦٢)
2    اگر رفع الیدین نماز میں سکون کے منافی ہے تو شروع نماز میں ، نیزوتروں اور عیدین کارفع الیدین کیوں کیا جاتا ہے ؟ شروع نماز میں رفع الیدین نماز میں داخل ہے ، جیسا کہ سیدنا مالک بن حویرث  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے :      کان اذا کبّر رفع یدیہ ۔    ”نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم جب اللہ اکبر کہتے تو رفع الیدین کرتے تھے ۔” (صحیح مسلم : ١/١٦٨، ح : ٣٩١)     یہ بات تو مسلّم ہے کہ نماز تکبیر تحریمہ سے شروع ہو جاتی ہے ۔
الحاصل :      حدیث ِ جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ کا تعلق بلا اختلاف سلام کے ساتھ ہے ، اس سے عدمِ رفع الیدین پر دلیل لینے والا امام بخاری ، حافظ نووی اور حافظ ابن الملقن  رحمہم اللہ  کے نزدیک” جاہل ”اور محمود الحسن دیوبندی و تقی عثمانی دیوبندی صاحبان کے نزدیک ”ناانصاف” ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :      رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، اذا افتتح رفع یدیہ حتّی یحاذی بھا منکبیہ ۔۔۔۔ واذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ لا یرفعھما ۔    ”میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے ۔۔۔ اورجب رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”(صحیح ابی عوانۃ : ٢/٩٠)
تبصرہ :      1    اس حدیث کو عدمِ رفع الیدین کے ثبوت میں وہی پیش کرسکتا ہے جو شرم و حیا سے عاری اور علمی بددیانتی کا مرتکب ہو ، کسی محدث نے اس حدیث کو رفع الیدین نہ کرنے پر پیش نہیں کیا ۔
دراصل لا یرفعھما والے الفاظ کا تعلق اگلے الفاظ بین السّجدتین کے ساتھ تھا ، اصل میں یوں تھا :     ولا یرفعھما بین السّجدتین۔ ”اورآپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”
بعض الناس نے ان الفاظ کے شروع سے ”واؤ” گرا کر اس کا تعلق پچھلی عبارت سے جوڑنے کی جسارت کی ہے ، جبکہ یہ ”واؤ” مسند ابی عوانہ کے دوسرے نسخوں میں موجود ہے ۔
2    اس روایت کے راوی امام سفیان بن عیینہ  رحمہ اللہ سے یہی روایت ان کے چھ ثقہ شاگرد ولا یرفعھما بین السّجدتین (آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ) کے الفاظ کے ساتھ روایت کرتے ہیں ۔(صحیح مسلم : ١/١٦٨، ح : ٣٩٠)
3    امام ابو عوانہ  رحمہ اللہ خود دفرماتے ہیں کہ بعض راویوں نے ولا یرفع بین السّجدتین کے الفاظ روایت کیے ہیں ، جبکہ معنیٰ ایک ہی ہے ، یعنی آپ دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔
4    امام ابو عوانہ  رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب قائم کیا ہے :      بیان رفع الیدین فی افتتاح الصّلاۃ قبل التّکبیر بحذاء منکبییہ وللرّکوع ولرفع رأسہ من الرّکوع ، وانّہ لا یرفع بین السّجدتین ۔    ”نماز کے شروع میں تکبیر سے پہلے ، رکوع کے لیے اور رکوع سے سر اٹھانے کے لیے رفع الیدین کا بیان اور اس بات کا بیان کہ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم دوسجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے ۔”
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک محدث رفع الیدین کے ثبوت کا باب قائم کرے اور حدیث وہ لائے جس سے رفع الیدین کی نفی ہو رہی ہو ، یہ ایسے ہی ہے ، جیسے کوئی سنار اپنی دکان پر گوشت اور سبزی کا بورڈ سجا دے ۔
5    خود امام ابو عوانہ  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی اور امام ابو داؤد ; کی روایات جن میں رکوع کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا ثبوت ہے ، اسی روایت کی طرح ہیں ، لہٰذا یہ حدیث رفع الیدین کے ثبوت پر چوٹی کی دلیل ہے ۔    والحمد اللّٰہ !
دلیل نمبر 4 :      سیدنا ابنِ عمر  رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں :     رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ من الرّکوع فلا یرفع ولا بین السّجدتین ۔    ”میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، جب آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، نہ ہی سجدوں کے درمیان کرتے تھے ۔”(مسند الحمیدی : ٢/٢٧٧، ح : ٦١٤)
تبصرہ :      اس حدیث سے عدم ِ رفع الیدین پر دلیل لینا دیانت ِ علمی کے خلاف ہے ، کیونکہ مسند الحمیدی کے جس نسخہ سے یہ روایت ذکر کی گئی ہے ، وہ جعلی نسخہ ہے ،جو حبیب الرحمن اعظمی دیوبندی صاحب کی تحقیق سے ساتھ چھپا ہے ۔
ہم حیران ہیں کہ ایک بڑا نفیس وا علیٰ اور معتمد علیہا نسخہ ظاہریہ ٦٠٣ھ، جس کے ناسخ محدث احمد بن عبدالخالق ہیں ، دوسرا نسخہ ظاہریہ ٦٨٩ھ ، جس کے ناسخ احمد بن نضر الدقوقی ہیں ، ان دونوں قدیم نسخوں کو چھوڑ کرایک ایسے نسخہ محرفہ پر اعتماد کر لیا گیا ہے ،جس کا کوئی صفحہ غلطیوں سے خالی نہیں ہے ۔
مسند الحمیدی والی یہی حدیث ِ ابنِ عمر المسند المستخرج علی صحیح الامام مسلم لأبی نعیم الاصبھانی (٢/١٢) پر ان الفاظ کے ساتھ موجود ہے :      عن عبداللّٰہ بن عمر : رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ حذو منکبیہ واذا أراد أن یرکع وبعد ما یرفع رأسہ من الرّکوع ، ولا یرفع بین السّجدتین ، اللفظ للحمیدیّ ۔
یعنی امام ابو نعیم  رحمہ اللہ نے یہ روایت امام حمیدی کے الفاظ کے ساتھ ذکر کی ہے ، لیکن اس میں رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کا اثبات ہے ، یہ روایت حبیب الرحمن اعظمی صاحب کے رد میں بڑی زبردست دلیل ہے ، کسی محدث یا کسی حنفی امام نے ان دیوبندیوں سے پہلے اس روایت کو عدمِ رفع الیدین کے لیے پیش نہیں کیا ، کیوں؟ جبکہ مسند الحمیدی ہر دور میں متداول رہی ہے ۔
معلوم ہوا کہ مسند الحمیدی والی حدیث عدم کے بجائے اثباتِ رفع الیدین کی زبردست دلیل ہے ۔
دلیل نمبر 5 :      سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :      انّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ الی قریب من أذنیہ ، ثمّ لا یعود ۔
”بے شک رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنے کانوں کے قریب تک رفع الیدین کرتے ، پھر دوباہ نہ فرماتے ۔”(سنن ابی داو،د : ٧٤٩، سنن الدارقطنی : ١/٢٩٣، مسند ابی یعلیٰ : ١٦٩٠)
تبصرہ :     1     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، حفاظ محدثین کا اس حدیث کے ”ضعف” پر اجماع و اتفاق ہے ، اس کا راوی یزید بن ابی زیاد جمہور کے نزدیک ”ضعیف ” اور ”سییئ الحفظ ” ہے ، نیز یہ ”مدلس” اور ”مختلط” بھی ہے ، تلقین بھی قبول کرتا تھا ، حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ضعیف ، کبر ، فتغیّر وصار یتلقّن وکان شیعیّا ۔    ”یہ ضعیف راوی ہے ، بڑی عمر میں اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا او ر یہ تلقین قبول کرنے لگا تھا ، یہ شیعی بھی تھا ۔”(تقریب التھذیب : ٧٧١٧)
نیز لکھتے ہیں :     والجمہور علیٰ تضعیف حدیثہ ۔    ” جمہور محدثین اس کی حدیث کو ضعیف کہتے ہیں ۔”(ھدی الساری : ٤٥٩)
بوصیری لکھتے ہیں :     یزید بن أبی زیاد أخرج لہ مسلم فی المتابعات وضعّفہ الجمہور ۔
”یزید بن ابی زیاد کی حدیث امام مسلم  رحمہ اللہ نے متابعات میں بیان کی ہے ، جمہور نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(زوائد ابن ماجہ : ٢/٥٤٩)
امام دارقطنی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لا یخرج منہ فی الصّحیح ، ضعیف ، یخطیئ کثیرا ۔
”کسی صحیح کتاب میں اس کی کوئی حدیث بیان نہیں کی جائے گی، یہ ضعیف ہے اور بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا۔”(سوالات البرقانی : ٥٦١)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     ولیس ھو بالمتقن ، فلذا لم یحتجّ بہ الشّیخان ۔
”وہ پختہ راوی نہیں ، اسی لیے شیخین (بخاری ومسلم )نے اس سے حجت نہیں لی ۔”(سیر اعلام النبلاء : ٦/١٢٩)
یہ صحیح مسلم کا راوی نہیں ہے ، امام مسلم نے اس سے مقروناً روایت لی ہے ۔
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ولم یکن یزید بن أبی زیاد بالحافظ ، لیس بذاک۔
”یزید بن ابی زیاد حافظ نہیں تھا ، حدیث کی روایت کے قابل نہ تھا ۔”(الجرح والتعدیل : ٩/٢٦٥)
امام ابو حاتم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیس بالقویّ ۔ ”یہ قوی نہیں تھا ۔” (الجرح والتعدیل : ٩/٢٦٥)
امام ابو زرعہ الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لیّن ، یکتب حدیثہ ، ولا یحتجّ بہ ۔    ” کمزور راوی ہے ، اس کی حدیث لکھی جائے گی ، لیکن اس سے حجت نہیں لی جائے گی ۔”(الجرح والتعدیل : ٩/٢٦٥)
امام جوزجانی کہتے ہیں :      سمعتھم یضعّفون حدیثہ ۔    ”میں نے محدثین کو اس کی حدیث کو ضعیف قراردیتے سنا ہے ۔” (احوال الرجال : ١٣٥)
امام نسائی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     لیس بالقویّ ۔ ”یہ قوی نہیں ۔” (الضعفاء والمتروکون : ٦٥١)
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ولا یحتجّ بحدیث یزید بن أبی زیاد ۔    ”یزید بن ابی زیاد کی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی ۔” (تاریخ یحییٰ بن معین : ٣١٤٤)
امام وکیع  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     لیس بشیئ ۔ ” یہ(حدیث میں) کچھ بھی نہیں ۔”
(الضعفاء للعقیلی : ٤/٣٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام علی بن المدینی  رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔(الضعفاء للعقیلی : ٤/٤٨٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام شعبہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں :     کان یزید بن ابی زیاد رفّاعاً ۔    ”یزید بن ابی زیاد رفّاع (موقوف روایات کو مرفوع بنادینے والا)تھا ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٩/٢٦٥)
امام عبداللہ بن مبارک  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ارم بہ ۔ ”اسے پھینک (چھوڑ )دو۔” (تھذیب التھذیب : ١١/٢٨٨)
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ویزید من شیعۃ أھل الکوفۃ ، مع ضعفہ یکتب حدیثہ ۔
”یزید اہل کوفہ کے شیعہ میں سے ہے ، ضعف کے ساتھ ساتھ اس کی حدیث لکھی جائے گی ۔” (الکامل : ٧/٢٧٦)
لہٰذا امام عجلی (تاریخ العجلی : ٢٠١٩) اور امام ابنِ سعد (الطبقات الکبرٰی : ٦/٣٤٠) کا اس کو ”ثقہ” کہنا اور امام ابنِ شاہین کا اسے ” الثقات(١٥٦١)” میں ذکر کرنا جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں ناقابل التفات ہے ۔
نیز اس کی توثیق کے بارے میں احمد بن صالح المصری کا قول ثابت نہیں ہے ۔
الحاصل :      یہ حدیث باتفاقِ محدثین ”ضعیف” ہے ، ”ضعف ” کے ساتھ ساتھ یزید بن ابی زیاد نے اسے بیان بھی اختلاط کے بعدکیا ہے ۔
2    یہ روایت ”ضعیف” ہونے کے ساتھ ساتھ عام بھی ہے ، جبکہ رکوع والے رفع الیدین کی دلیل خاص ہے ، لہٰذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا ۔
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :      ھذا خبر عوّل علیہ أھل العراق فی نفی رفع الیدین فی الصّلاۃ عند الرّکوع وعند رفع الرّأس منہ ، ولیس فی الخبر : ثمّ لم یعد ، وھذہ الزّیادۃ لقّنھا أھل الکوفۃ یزید بن أبی زیاد فی آخر عمرہ ، فتلقّن ، کما قال سفیان بن عیینۃ : انّہ سمعہ قدیما بمکّۃ یحدّث بھذا الحدیث باسقاط ھذہ اللّفظۃ ، ومن لم یکن العلم صناعتہ لا یذکر لہ الاحتجاج بما یشبہ ھذا من الأخبار الواھیۃ ۔
”یہ وہ حدیث ہے جس پر اہل عراق نے نماز میں رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی میں اعتماد کیا ہے ، حالانکہ حدیث میں ثمّ لم یعد (پھر دوبارہ نہ کیا)کے الفاظ نہیں تھے ، یہ زیادت یزید بن ابی زیاد کو اس کی آخری عمر میں اہل کوفہ نے تلقین کی تھی ، اس نے اسے قبول کر لیا ، جیسا کہ امام سفیان بن عیینہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلے دور میں مکہ میں اسے یہی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا تھا ، اس وقت انہوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے تھے ، جو آدمی فنِّ حدیث کا اہل نہ ہو ، اس کے لیے اس طرح کی ضعیف روایات کو بطور ِ دلیل ذکر کرنا درست نہیں ہے۔”(المجروحین لابن حبان : ٣/١٠٠)
خطیب بغدادی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ذکر ترک العود الی الرّفع لیس بثابت عن النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فکان یزید بن أبی زیاد یروی ھذا الحدیث قدیما ولا یذکرہ ، ثمّ تغیّر وساء حفظہ ، فلقّنہ الکوفیّون ذلک ، فتلقّنہ ووصلہ بمتن الحدیث ۔
”(تکبیر تحریمہ میں رفع الیدین کے بعد)دوبارہ رفع الیدین کو چھوڑنا نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، یزید بن ابی زیاد اس حدیث کو پہلے پہل بیان کرتا تھا ، لیکن ان الفاظ کو ذکر نہیں کرتا تھا ، پھر اس کا حافظہ خراب ہو گیا تو کوفیوں نے اس کو ان الفاظ کی تلقین کی ، اس نے قبول کر لی اور اسے متن کے ساتھ ملا دیا ۔”(المدرج : ١/٣٦٩)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     واتّفق الحفّاظ علی أنّ قولہ : ثمّ لم یعد ، مدرج فی الخبر من قول یزید بن أبی زیاد ۔۔۔۔     ”حفاظ محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثمّ لم یعد کے الفاظ اس حدیث میں مدرج ہیں ، یہ یزید بن ابی زیاد کی اپنی بات ہے ۔”(التلخیص الحبیر : ١/٢٢١)
دلیل نمبر 6 :      سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :      رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رفع یدیہ حین افتتح الصّلاۃ ، ثمّ لم یرفعھما حتّی انصرف ۔
”میں نے رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا ، پھر سلام پھیرنے تک دوبارہ نہیں کیا ۔”(سنن ابی داو،د : ٧٥٢، مسند ابی یعلی : ١٦٨٩، شرح معانی الآثار : ١/٢٢٤)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس کا راوی ابن ابی لیلیٰ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، اس حدیث کے تحت امام ابو داؤد فرماتے ہیں :      ھذا الحدیث لیس بصحیح ۔ ”یہ حدیث صحیح نہیں ۔”
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ابن أبی لیلیٰ کان سیّء الحفظ ۔    ” ابن ابی لیلیٰ خراب حافظہ والا تھا ۔”(العلل : ١/١٤٣)
امام بیہقی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     ومحمّد بن عبدالرّحمٰن بن أبی لیلیٰ لا یحتجّ بحدیثہ ، وھو أسوأ حالاً عند أھل المعرفۃ بالحدیث من یزید بن أبی زیاد ۔     ”محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کی حدیث سے حجت نہیں لی جائے گی ، اس کی حالت محدثین کے نزدیک یزید بن ابی زیاد سے بھی بری تھی ۔”(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٢/٤١٩)
دلیل نمبر 7 :      سیدنا براء بن عازب  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :      کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ حتّی یحاذی منکبیہ ، لا یعود یرفعھما حتّی یسلّم من صلاتہ ۔    ”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر رفع الیدین کیا ، دوبارہ آپ رفع الیدین نہیں کرتے تھے ، حتی کی نماز سے سلام پھیر دیتے ۔”(مسند ابی حنیفۃ لابی نعیم : ص ١٥٦)
تبصرہ : یہ سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ، اس میں ابو حنیفہ نعمان بن ثابت باجماعِ محدثین ”ضعیف” ہیں ، ان کے حق میں کسی ”ثقہ” امام سے باسند ِ ”صحیح” کوئی ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ، مدعی پر دلیل لازم ہے ۔
دلیل نمبر 8 :      سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :      صلّیت مع النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ومع أبی بکر ومع عمر ، فلم یرفعوا أیدیھم الّا عند التّکبیرۃ الأولیٰ فی افتتاح الصّلاۃ ۔    ”میں نے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر  رضی اللہ عنہما  کے ساتھ نماز پڑھی ، انہوں نے صرف نماز کے شروع میں پہلی تکبیر کے وقت رفع الیدین کیا ۔”(سنن الدارقطنی : ١/٢٩٥، ح : ١١٢٠، واللفظ لہ ، مسند ابی یعلیٰ : ٥٠٣٩)
تبصرہ :      یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” ہے ، کیونکہ     1اس کا راوی محمد بن جابر یمامی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وھو ضعیف عند الجمہور ۔
”یہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔” (مجمع الزوائد : ٥/٣٤٦)
اس کو امام احمد بن حنبل ، امام بخاری ، امام یحییٰ بن معین ، امام عمروبن علی الفلاس ، امام نسائی ، امام جوزجانی، امام دارقطنی وغیرہم  رحمہم اللہ  نے مجروح و”ضعیف” کہا ہے ۔
امام دارقطنی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :     تفرّد بہ محمّد بن جابر الیمامیّ وکان ضعیفا ۔”اس کو بیان کرنے میں محمد بن جابر یمامی راوی متفرد ہے اور وہ ضعیف تھا ۔”(سنن الدارقطنی : ١/٢٩٥)
امام اہل سنت احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ھذا ابن جابر ایش حدیثہ ؟ ھذا حدیث منکر ، أنکرہ، جدًّا ۔     ”یہ محمد بن جابر ہے ، اس کی حدیث کیا ہے ؟ یہ ایک منکر حدیث ہے ، میں اسے سخت منکر سمجھتا ہوں ۔”(العلل : ١/١٤٤)
امام عقیلی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لا یتابع محمد بن جابر علی ھذا الحدیث ولا علی عامّۃ حدیثہ ۔     ”محمد بن جابر کی نہ اس حدیث میں متابعت کی گئی ہے اور نہ ہی عام احادیث پر ۔” (الضعفاء : ٤/٤٢)
امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”ضعیف” کہا ہے ۔(معرفۃ السنن والآثار للبیہقی : ٢/٤٢٤)
حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں :      ھذا حدیث لا یصحّ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”یہ حدیث رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔”(الموضوعات : ٢/٩٦)
امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ کہتے ہیں :      وحدیثہ عن حمّاد ، فیہ اضطراب ۔ ”اس کی حدیث حماد بن ابی سلیمان سے مضطرب ہوتی ہے ۔” (الجرح والتعدیل : ٧/٢١٩)
یہ روایت بھی اس نے اپنے استاذ حماد سے بیان کی ہے ،لہٰذا یہ جرح مفسر ہے ۔
تنبیہ :     محمد بن جابر یمامی کہتے ہیں :     سرق أبوحنیفۃ کتب حمّاد منّی ۔
”ابوحنیفہ نے مجھ سے حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں چوری کیں۔”(الجرح والتعدیل : ٨/٤٥٠)
اب یہاں عجیب الجھن پیدا ہوگئی ہے کہ اگر محمد بن جابر یمامی ”ثقہ” ہے تو امام صاحب پر چوری کا الزام عائد ہوتا ہے اور اگر امام صاحب کو بچائیں تو اس روایت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے !
2    اگر یہ حدیث ”صحیح” ہے تو بعض الناس قنوت ِ وتر اور عیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں ؟
3    یہ روایت ”ضعیف” ہونے کے ساتھ ساتھ عام ہے ، جبکہ رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کے ثبوت والی احادیث خاص ہیں ، لہٰذا خاص کو عام پر مقدم کیا جائے گا ۔
اتنی سی بات بعض لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں !
4    سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ سے رفع الیدین کرنا ”صحیح” سند سے ثابت ہے ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٢/٧٣)
دلیل نمبر ٣ :     قال الامام ابن أبی شیبۃ : حدّثنا ابن فضیل عن عطاء عن سعید بن جبیر عن ابن عبّاس قال: ترفع الأیدی فی سبعۃ مواطن : اذا قام الی الصّلاۃ ، واذا رأی البیت ، وعلی الصّفا والمروۃ ، وفی عرفات ، وفی جمع وعند الجمار ۔
”سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سات مقامات پر رفع الیدین کیا جاتا ہے : جب نماز کے لیے کھڑا ہو ، جب بیت اللہ کو دیکھے ، کوہ ِ صفا اور کوہِ مروہ پر ، عرفات میں ، مزدلفہ میں اور جمرات کے پاس ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٢/٢٣٥۔٢٣٦)
تبصرہ : 1    سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  کے اس قول کی سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ عطاء بن السائب (حسن الحدیث )”مختلط” ہیں اور ابنِ فضیل نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے ۔
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عطاء بن السائب راوی ”مختلط” ہیں ۔(الجرح والتعدیل : ٦/٣٣٤)
امام احمد بن حنبل ،امام ابو حاتم الرازی (الجرح والتعدیل : ٦/٣٣٤) اور امام دارقطنی (العلل : ٥/١٨٦، ٨/٢٨٨) رحمہم اللہ نے ان کو ”مختلط” قرار دیا ہے ۔
امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں :     وما رویٰ عنہ ابن فضیل ، ففیہ غلط واضطراب ۔
”عطاء بن السائب سے جو کچھ ابنِ فضیل نے روایت کیاہے ، اس میں غلطیاں اور اضطراب ہے ۔”
(الجرح والتعدیل : ٦/٣٣٤)
یہ جرح مفسر ہے ، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے ، اس قول میں قنوت ِ وتر اور عیدین کے رفع الیدین کا بھی ذکر نہیں ہے ، وہ کیوں کیا جاتا ہے ؟
2    ابو حمزہ (عمران بن ابی عطاء القصاب ثقۃ عند الجمہور )کہتے ہیں :
رأیت ابن عبّاس یرفع یدیہ اذا افتتح الصّلاۃ واذا رکع واذا رفع رأسہ من الرّکوع ۔
”میں نے سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  کو نماز شروع کرتے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ١/٢٣٩، وسندہ، حسن)
اس روایت سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں :
(ا)    سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما  نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے ۔
(ب)    نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کا رفع الیدین کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ منسوخ نہیں ہے ۔
فائدہ :     یہ روایت مرفوعاً بھی مروی ہے، لیکن اس کی سند بھی ”ضعیف” ہے ، اس میں ابنِ ابی لیلیٰ راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف ، سیّیئ الحفظ ”ہے ،حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  لکھتے ہیں :
ضعیف ، سیّیئ الحفظ ۔    ”ضعیف اور خراب حافظے والا ہے ۔”(التلخیص الحبیر : ٣/٢٢)
حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     محمّد بن عبد الرّحمن بن أبی لیلیٰ سیّء الحفظ ، لا یحتج ّبہ عند أکثرھم ۔”ابنِ ابی لیلیٰ خراب حافظے والا ہے ، اکثر محدثین کے نزدیک قابلِ حجت نہیں۔”(تحفۃ الطالب : ٣٤٥)
امام طحاوی حنفی نے اس کو ”مضطرب الحدیث جداً ” کہا ہے ۔(مشکل الآثار للطحاوی : ٣/٢٢٦)
انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں :     فھو ضعیف عندی کما ذھب الیہ الجمہور ۔
”وہ میرے نزدیک بھی ضعیف ہے ، جیسا کہ جمہور کا مذہب ہے ۔”(فیض الباری : ٣/١٦٨)
2    اس کی سند میں الحکم بن عتیبہ راوی ”مدلس” ہے جو کہ ”عن ” سے روایت کر رہا ہے ۔امام عینی حنفی نے بھی اس کو ”مدلس” کہاہے ۔(عمدۃ القاری : ٢١/٢٤٨) نیز دیکھیں (اسماء المدلسین للسیوطی : ٩٦)
دلیل نمبر 0 :      عباد بن زبیر سے روایت ہے :      انّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان اذا افتتح الصّلاۃ رفع یدیہ فی أوّل الصّلاۃ ، ثمّ لم یرفعھما فی شیئ حتّی یفرغ ۔
”رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو رفع الیدین فرماتے ، پھر فارغ ہونے تک کسی بھی رکن میں رفع الیدین نہیں فرماتے تھے ۔”(الخلافیات للبیہقی ، نصب الرایۃ للزیلعی : ١/٤٠٤)
تبصرہ :      یہ حدیث موضوع(من گھڑت) ہے ، حافظ ابنِ قیّم  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وھو موضوع ۔      ”یہ حدیث موضوع(من گھڑت) ہے ۔”(المنار المنیف : ص ١٣٩)
1    عباد تابعی کا تعارف مطلوب ہے کہ یہ کون ہے ؟     عباد بن زبیر کے نام سے کئی راوی ہیں ، اس سے عباد بن عبداللہ بن زبیر مراد لینا غلط ہے ۔
2    محمد بن اسحاق راوی کا تعین مطلوب ہے ۔
3    اس کی سند میں حفص بن غیاث ”مدلس” ہیں ، جو ”عن ” سے روایت کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے ۔
4    بعض الناس قنوت ِ وتر اورعیدین میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں ؟
5    یہ موضوع(من گھڑت )روایت عام ہے، جبکہ رکوع کو جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی احادیث خاص ہیں ، تعارض کے وقت خاص کو عام پر مقدم کیا جاتا ہے ۔
دعوت ِ فکر
دینی بھائیواور بہنو ! ہم نے جانبین کے دلائل پوری دیانت کے ساتھ ذکر کر دئیے ہیں ، اب آپ کا دینی فریضہ ہے کہ دونوں طرف کے دلائل کوغیر جانبداراری سے بنظرِ انصاف پڑھیں ، پھر اللہ تعالیٰ سے ڈر کر فیصلہ کریں کہ حق کس کے ساتھ ہے ؟ جو لوگ اللہ رب العالمین کے عذاب سے بے خوف و خطر ہو کر سنت ِ رسول   صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں یہ کہتے ہیں کہ رفع الیدین کا حکم دکھاؤ ، رفع الیدین کی احادیث کو اللہ ورسول نے ”صحیح ” کہا ہو ، دس کا اثبات اور اٹھارہ کی نفی دکھاؤ ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کو سنت کہا ہو ،وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔
ایسے لوگ علم اور عقل ونقل سے بالکل عاری ہیں ۔مومنین کے راستہ کو چھوڑ کر کسی اور راستے کے راہی ہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.