1,025

معرکہ حق و باطل، شمارہ 31 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


عقیدہ نمبر 7: سیدنا عمر بن خطاب سےروایت ہے کہ رسول اللہنے اہل مدینہ سے ارشاد فرمایا : اصبروا وأبشروا، فإنـّي قد بارکت في صاعکم ومدّکم “تم صبر سے کام لو اور خوش ہو جاؤ کہ میں نے تمہارے صاع اور مد میں برکت ڈال دی ہے۔”

(مسند االبزار :1/240،ح :127، سنن ابن ماجة : 3255مختصرا)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین “ضعیف”ہے ۔ اس کا راوی عمرو بن دینار قہرمان آل الزبیر بالاتفاق “ضعیف” ہے۔اس کی واضح توثیق کے حوالے سے ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔
اسے امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین ، امام ابو حاتم الرازی ، امام ابوزرعہ الرازی ، امام بخاری ، امام فلاس ، امام نسائی ، امام دارقطنی ، امام ترمذی ، امام ابن حبان اور امام جوزجانی وغیرہم نے “ضعیف” قرار دیا ہے۔
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام بزّار خود اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں : وھو لیّن الحدیث “اور اس کی حدیث کمزور ہے۔”
حافظ ذہبیفرماتے ہیں : متّفق علی ضعفہ “اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔”

(فيض القدير للمناوي : 4/60)
لہٰذا حافظ منذری (الترغيب : 2/145، ح : 1857) کا اس کی سند کو “جیّد” کہنا اور حافظ ہیثمی(مجمع الزوائد : 3/306) کا ورجالہ رجال الصحیح کہنا بالکل صحیح نہیں بلکہ حیران کن ہے کیونکہ خود حافظ منذری (2775) اور حافظ ہیثمی(8/178) نے اس راوی کو “متروک” قرار دیا ہے۔
اس کے باوجود “اعلیٰ حضرت” احمد رضا خان بریلوی صاحب اس سخت “ضعیف” روایت پر “حضور نے رزق کے پیمانے پر برکت دی” کی سرخی جما کر اپنا مبالغہ آمیز عقیدہ ان الفاظ میں ثابت کرتے ہیں : “اس حدیث نے بتایا کہ اہلِ مدینہ کے رزق میں برکت رکھنے کو حضور نے اپنی طرف نسبت فرمایا۔”

(الامن والعلیٰ از احمد رضا : ص 139)
قارئین کرام ! انصاف شرط ہے ۔ آیا اس طرح کے راویوں کی روایات کو عقیدہ کے باب میں بطور حجت پیش کرنا اہل حق کو زیبا ہے ؟ ایسوں کے بارے میں حافظ جوزجانی (م :259ھ) نے کیا خوب کہا ہے : ومنھم الضعیف في حدیثہ، غیر سائغ لذي دین أن یحتجّ بحدیثہ وحدہ إلّا أن یقویہ حدیث من ھو أقوی منہ، فحینئذ یعتبر بہ
“بعض روای اپنی حدیث میں ضعیف ہوتے ہیں۔ کسی دین دار کے لیے ان کی حدیث سے حجت لینا جائز نہیں ہوتا الّا یہ کہ اس کی حدیث کو ایسے شخص کی حدیث تقویت دے دے جو اس سے قوی ہو ۔ اس وقت اس کی حدیث کو متابعات وشواہد میں پیش کیا جا سکتا ہے۔”

(أحوال الرجال للجوزجاني : ص 33)
عقیدہ نمبر 8 : دو اونٹ مست ہو کربگڑ گئے تھے ، کسی کو پاس نہ آنے دیتے تھے ۔ مالکوں نے ایک باغ میں بند کر دئیے تھے۔ باغ اُجاڑتے تھے ۔ نبی ٔ اکرمکو شکایت آئی تو آپتشریف لائے ۔ دروازہ کھولنے کا حکم دیا ۔ مامور نے اندیشہ کیا ، مبادا نبیٔ اکرم کو ایذا دیں ۔ فرمایا : خوف نہ کر، کھول دے ۔ کھول دیا ، وہ دو اونٹ نبی کریمکو دیکھتے ہی سجدہ میں گر گئے ۔ صحابہ کرام نے یہ حالت دیکھ کر عرض کی :
یا نبيّ الله! تسجد لک البھائم، فبلاء الله عندنا بك أحسن حين هدانا الله من الضلالة واستنقذنا بك من المهالك، أفلا تأذن لنا في السجود لك ؟
“اے اللہ کے نبی! چوپائے آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے لیے آپ کے ذریعے سے ہمارے پاس جو کچھ ہےوہ تو اس سےبہت بہتر ہے۔ آپ نے ہمیں گمراہی سے پناہ دی، ہلاکت سے نجات بخشی تو کیا آپ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں؟”
(دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني : 285، تاريخ ابن عساکر : 48/133)
تبصرہ : یہ روایت سخت ترین “ضعیف” ہے ۔ اس کا راوی شبیب بن شیبہ الثقفی جمہور محدثین کرام کے نزدیک “ضعیف”ہے جیسا کہ حافظ ہیثمیفرماتے ہیں :
والأکثرون علی تضعیفہ “اکثر محدثین اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔”

(مجمع الزوائد : 4/311، 5/84)
اس راوی کو امام یحییٰ بن معین (تاریخ ابن معین : 2/248)نے غیر ثقہ قرار دیا ہے، امام ابوزرعہ الرازی (سوالات البرذعي : 2/443)اور امام ابو حاتم الرازی (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 4/358) نے غیر قوی ، امام نسائی (کتاب الضعفاء والمتروکین : 293)نے “ضعیف”اور امام دارقطنینے (کتاب الضعفاء والمتروکین : 286)میں ذکر کیا ہے۔ امام ابن حبانفرماتے ہیں :
کان یھم في الأخبار ویخطئ إذا روی غیر الأشعار، لا یحتجّ بما انفرد من الأخبار “جب یہ اشعار کے علاوہ کچھ بیان کرتا تھا تو یہ روایات میں وہم اور خطا کا شکار ہو جاتا تھا۔ اس کی ان احادیث سے حجت نہیں لی جا سکتی جن کے بیان کرنے میں یہ منفرد ہے۔”

(المجروحین لابن حبان : 1/363)
امام عقیلیفرماتے ہیں : لا یتابع علیہ (الضعفاء الکبیر للعقیلي : 2/191)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں : ضعّفوہ في الحدیث “محدثین کرام نے اسے حدیث میں ضعیف قرار دیا ہے۔”

(المغني في الضعفاء للذھبي : 1/464)
اس “ضعیف” راوی کی “ضعیف” روایت کو “اعلیٰ حضرت” بریلوی صاحب نے اپنے ماتھے کا جھومر بناتے ہوئے باب قائم کیا ہے کہ “نبی  نے گمراہی سے پناہ دی ، ہلاکت سے نجات بخشی”

(الأمن والعلیٰ از احمد رضا : ص 120)
نیز لکھتے ہیں : “وہابیہ کہ گمراہی پسند و ہلاک دوست ہیں۔ ان سخت ترین بلیأت کو بلا کیوں سمجھیں گے کہ ان سے پناہ دینے ، نجات بخشنے والے نبی کو دافع البلاء جانیں”

(الامن والعلیٰ از احمد رضا خان : ص 120)
قرآن و حدیث کا واضح فیصلہ ہے کہ دافع البلاء صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ہدایت کی توفیق صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے ۔ البتہ نبی کریمہدایت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ ہلاکت سے صرف اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے۔
عقیدہ نمبر 9 : جبیر بن نُفَیر الحضرمی التابعی سے روایت ہے کہ رسول اللہنے فرمایا : لقد جاء رسول اللّہ إلیکم، لیس بوھن
“تمہارے پاس رسول تشریف لائے ہیں جو ضعف و کاہلی سے پاک ہیں تاکہ وہ غلاف چڑھے ہوئے دلوں کو زندہ کردیں ، اندھی آنکھوں کو کھول دیں ، بہرے کانوں کو شنوا کر دیں اور ٹیڑھی زبانوں کو سیدھا کریں یہاں تک کہ لوگ کہہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں۔”

(مسند الدارمي : 1/6)
تبصرہ : اس کی سند “ضعیف” ہے کیونکہ جبیر بن نُفَیر تابعی ہیں اور ڈائریکٹ نبی اکرمسے روایت بیان کر رہے ہیں لہٰذا ناقابل حجت ہے۔“اعلیٰ حضرت” نے اس پر یہ سرخی جمائی ہے :
“حضور نے غافل دل زندہ ، اندھی آنکھیں روشن ، بہرے کان شنوا، ٹیڑھی زبانیں سیدھی کر دیں”۔

(الأمن والعلیٰ از احمد رضا خان : ص 119)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.