1,124

(مُتَنَفِّل کی اقتداء میں مُفْتَرَض کی نماز(٢

حافظ ابو یحییٰ نور پوری
دلیل نمبر ٢:
((عن جابر قال : أقبلنا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حتی اذا کنّا بذات الرّقاع ۔ فذکر الحدیث، الی أن قال۔ فنودی بالصّلوۃ ، فصلّی النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بطائفۃ رکعتین ، ثمّ تأخّروا ، فصلّی بالطائفۃ الئاخری رکعتین ، قال : فکانت لرسو ل اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم أربع رکعات ، وللقوم رکعتان))
”سیدناجابررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے حتی کہ ذات الرقاع جگہ پر پہنچ گئے ۔۔۔ نماز کے لئے اذان کہی گئی ، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو دو رکعتیں پڑھائیں ، وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے ، آپ نے دوسرے گروہ کو بھی دو رکعتیں پڑھا دیں ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چاررکعتیں ہوئیں اور صحابہ کی دو دو ۔”
(صحیح بخاری تعلیقاً :٢/٥٩٣، ح : ٤١٣٦ ، صحیح مسلم موصولاً :٢/٢٧٩، ح : ٨٤٣)
دلیل نمبر ٣:
((عن أبی بکرۃ قال : صلّی النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی خوف الظّھر، فصفّ بعضھم خلفہ و بعضھم بازاء العدوّ ، فصلّی بھم رکعتین ثمّ سلّم ، فانطلق الّذین صلّوا معہ فوقفوا موقف أصحابھم ، ثمّ جاء أولئک فصلّوا خلفہ ، فصلّی بھم رکعتین ثمّ سلّم ، فکانت لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أربعا ولأصحابہ رکعتین رکعتین ، وبذٰلک کان یفتی الحسن ۔))
”سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف کی حالت میں ظہر کی نماز ادا کی ، کچھ لوگوں نے آپ کے پیچھے صف بنائی اور کچھ نے دشمن کے سامنے ، آپ نے ان کو دو رکعتیں پڑھائیں ،پھر سلام پھیرا ، وہ لوگ جو نماز ادا کر چکے تھے ، جا کر دوسرے ساتھیوں کی جگہ پر کھڑے ہو گئے ، پھر وہ آئے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی ، آپ نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں ، اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعتیں ہو گئیں اور صحابہ کی دو دو ، امام حسن بصری اسی طرح فتوی دیتے تھے ۔”(سنن أبی داؤد : ١٢٤٨، سنن نسائی : ١٥٥٣، صحیح)
٭    امام ابن خزیمہ(م ٣١١ ھ ) ان دونوں احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب صفۃ صلاۃ الخوف والعدوّخلف القبلۃ ، وصلاۃ الامام بکل طائفۃ رکعتین ، وھذا أیضا الجنس الذی أعلمت من جواز صلاۃ المأموم فریضۃ خلف الامام المصلّی نافلۃ ، اذ احدی الرّکعتین کانت للنّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم تطوّعا وللمأ مومنین فریضۃ ۔
”دشمن قبلہ کے پیچھے ہو ، تو نمازِ خوف کا طریقہ اور امام کا ہر گروہ کو دو رکعتیں پڑھانا ، نیز یہ اسی طرح کی دلیل ہے ، جو میں نے نفل ادا کرنے والے امام کی اقتدا میں فرض اداکرنے والے مقتدیوں کی نماز کے جواز میں بتائی تھی ، کیونکہ چار میں سے دو رکعتیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نفل تھیں اور مقتدیوں کے لئے فرض ۔”(صحیح ابن خزیمہ : ٢/٢٩٧ ، باب نمبر : ٦١٥)
٭    امام ابن المنذر (م ٣١٨ ھ ) فرماتے ہیں :
وھٰذا الخبر یدلّ علٰی اباحۃ أن یصلّی المرء الفریضۃ خلف من یصلّی نافلۃ ، لأنّ الآخرۃ من صلاۃ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کانت نافلۃ ۔
”یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ فرض پڑھنے والے آدمی کی نماز نفل پڑھنے والے کے پیچھے جائز ہے ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دو رکعت نماز نفلی تھی ۔ ”(الأوسط لابن المنذر : ٥/٣٢)
٭    امام بیہقی (م ٤٥٨ ھ ) ان احادیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں :
باب الفریضۃ خلف من یصلّی نافلۃ ۔
”نفل پڑھنے والے کی اقتداء میں فرض پڑھنے کا بیان ۔”(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٨٥)
٭    حافظ ابن حزم(م٤٥٦ ھ ) نے بھی ان احادیث سے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کا جواز ثابت کیا ہے ۔(المحلّٰی : ٤/٢٢٦)
٭    حافظ نووی(٦٣١ ۔ ٦٧٦ ھ ) لکھتے ہیں :
وکان النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم متنفّلا فی الثّانیۃ وھم مفترضون واستدلّ بہ الشّافعیّ وأصحابہ علٰی جواز صلوۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسری جماعت کی دونوں رکعتوں میں متنفل تھے اور لوگ مفترض تھے ، امامِ شافعی اور ان کے موافقین نے اس حدیث سے متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کے جواز پر استدلال کیا ہے ۔”(شرح مسلم از نووی : ١/٢٧٩)
نیز حافظ نووی اپنی کتاب ”خلاصۃ الأحکام” میں ان احادیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں :
باب صحّۃ صلاۃ المفترض خلف المتنفّل ۔
”متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز درست ہونے کا بیان ۔” (خلاصۃ الاحکام از نووی : ٢/٦٩٧)
٭    علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وعلٰی کلّ حال ، فالاستدلال علی الحنفیّۃ بحدیث جابر صحیح ۔
”بہر حال جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے احناف کے خلاف(متنفل کے پیچھے مفترض کی نماز کا) استدلال صحیح ہے ۔”(نصب الرایہ : ٢/٥٧)
٭     علامہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
ولا یخفٰی أنّہ یلزم فیہ اقتداء المفترض بالمتنفّل قطعا ولم أر لھم عنہ جوابا شافیا۔
”بڑی واضح بات ہے کہ اس حدیث میںقطعی طور پر متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نمازکا جواز ثابت ہوتاہے ، میں نے ان (احناف) کے پاس اس حدیث کا کوئی شافی (مقبول )جواب نہیں پایا ۔”
(حاشیۃ السندی علی النسائی)
تاویلات و اعتراضات کا جائزہ:
قارئین ! احناف کے قابل قدر امام سندھی حنفی تو فرما رہے ہیں کہ احناف کے پاس اس حدیث کا کوئی شافی جواب نہیں ہے ، لیکن پھر بھی بعد والوں نے اس پر اپنے تقلیدی حربے خوب آزمائے ہیں ، آیئے ان کا منصفانہ تجزیہ کرتے ہیں :
تاویل نمبر ١:
جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
قد علمت أن فیہ حجّۃ للشّافعیّۃ فی مسأ لۃ جواز اقتداء المفترض بالمتنفّل و عجز عن جوابہ مثل الزّیلعیّ وابن الھمّام ، وحملہ الطّحاویّ علٰی زمان کانت الفرائض فیہ تصلّٰی مرّتین ، وقد أجبت عنہ جوابا شافیا۔
”میں جانتا ہوں کہ اس حدیث میں شوافع کے لئے متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کے جواز کی دلیل موجود ہے ، اس کے جواب سے زیلعی اور ابن ہمام جیسے اکابر احناف بھی عاجز رہے ہیں اور امام طحاوی نے اسے اس زمانے پر محمول کر دیا ہے جب فرض دو مرتبہ پڑھے جاتے تھے ،البتہ میں نے اس کا شافی جواب دیا ہے ۔”(فیض الباری : ٤/١٠٤)
تبصرہ :ـ کشمیری صاحب اس بات کا تو اقرار کر چکے ہیں کہ اس حدیث میں اس مسئلہ کی دلیل موجود ہے ، اس پر طرّہ یہ کہ اکابر احناف بھی اس کے جواب سے عاجز رہے ، امام طحاوی نے اسے مخصوص زمانے پر محمول کیا ہے ، اس کا جواب ہم پیچھے (حدیث معاذ پر اعتراض نمبر ٥ کے تحت تبصرہ ) ذکر کر آئے ہیں کہ جس دلیل پر ان کے دعوی کی بنیاد تھی ، جب وہ دلیل ہی ٹوٹ گئی ، تو دعوی کی عمارت خود بخود زمین بوس ہو گئی ۔
ویسے بھی کشمیری صاحب کے نزدیک یہ کوئی شافی جواب نہیں ، لہٰذا امام طحاوی کا اعتراض تو احناف کے گھر سے ہی ختم ہو گیا ۔
اب رہا کشمیری صاحب کا شافی جواب ، تو عرض ہے کہ موصوف صحیح حدیث کے خلاف اکثر ایسی طبع آزمائی فرماتے رہتے ہیں ، ایک وتر ، جو کہ صحیح مسلم میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور کئی اکابر احناف اس بات کا اقرار کر چکے ہیں ، اس کا بھی شافی جواب تقریباً١٤ سال کی” محنت شاقہ” کے بعد کشمیری صاحب کے ذہن میں آیا تھا۔
(دیکھیں فیض الباری : ٢/٣٧٥، العرف الشذی : ١/١٠٧، معارف السنن از بنوری: ٤/٢٦٤، درسِ ترمذی از تقی : ٣/٢٢٤)
بھلا حدیث پر عمل کا یہی تقاضا ہے کہ اگر وہ امام کے قول کے موافق نہ ہو ، تو پوری زندگی اس کا جواب ہی ڈھونڈا جائے ، عمل نہ کیا جائے ؟ کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا یہی طرز عمل تھا ؟ کیا امام ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ دین کا یہی درس تھا ؟
قارئین !آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ یہ طرزِعمل حدیث سے خیر خواہی ہے یا ۔۔۔۔ ؟یہ اقرار حدیث ہے یا ۔۔۔۔۔؟اور یہ حدیث کی موافقت ہے یا ۔۔۔۔۔؟
تاویل نمبر ٢:
اب صلوۃ ِخوف والی حدیث کا”شافی کشمیری جواب” ملاحظہ ہو ، فرماتے ہیں :
والجواب علٰی ما ظھر لی أنّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صلّاھا فی ذات الرّقاع علی الصّفۃ المختارۃ عند الشّافعیّۃ ، فصلّٰی بطائفۃ رکعۃ ، ثمّ ثبت قائما حتّٰی أتمّوا لأنفسھم ، وجاء ت الأخرٰی ، فصلّی بھم کذالک ،فاعتبر الرّاوی رکعتہ رکعۃ ، و مکثہ بقدر ما أتمّوا لأنفسھم رکعۃ أخرٰی ، فعبّرعنہ بالرّکعتین ، وکانت الرّکعتان فی الحقیقۃ لمن خلفہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وانّما نسبھما الیہ أیضا لتأخیرہ بتلک المدّۃ ، ومکثہ فیھا ، فاذا تضمّنت رکعتہ لرکعتیھم تضمّنت رکعتاہ لأربعھم لا محالۃ، وھٰذا وان کان یرٰی تاویلا فی بادی النّظر ، لکنّہ مؤیّد بما یروٰی عن جابر فی عین تلک القصّۃ ، فقد أخرج البخاریّ : (ص:٥٩٢،ج :٢) عن صالح بن خوّات عمّن شھد مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یوم ذات الرّقاع صلاۃ الخوف أنّ طائفۃ صفّت معہ ، وطائفۃ وجاہ العدوّ ، فصلّٰی بالّتی معہ رکعۃ ، ثمّ ثبت قائما ، وأتمّوا لأنفسھم ، ثمّ انصرفوا فصفّوا وجاہ العدوّ ، وجاء ت الطّائفۃ الأخرٰی ،فصلّٰی بھم الرّکعۃ الّتی بقیت من صلاتہ ، ثمّ ثبت جالسا ، وأتمّو لأنفسھم ، ثمّ سلّم بھم ، اھ ۔ فھٰذا صریح فی أنّ القوم فرغوا جمیعا ، فکانت لھم رکعتان رکعتان ، وکانت للنّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أیضا رکعتان ، کما ذکرہ الرّاوی ھٰھنا ،لأنہ لمّا مکث بعد رکعۃ بقدر رکعۃ ، وانتظر القوم عبّر عنہ الرّاوی ھناک بالرّکعۃ ، وعدّ لہ أربع رکعات بھٰذا الطّریق ، ولا بدّ ، فانّ الواقعۃ واحدۃ ، فلعلّک علمت الآن حال تعبیر الرّواۃ أنہ لا یبنی علٰی مسألۃ فقھیّۃ فقط ، بل یأتی علٰی عبارات و ملاحظ ، تسنح لھم عند الرّوایۃ ۔
”جو جواب مجھ پر منکشف ہوا ہے ، وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ ذات الرقاع میں اس طرح نماز پڑھی تھی ، جیسے شوافع کے ہاں مختار ہے ، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو ایک رکعت پڑھائی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے رہے حتی کہ صحابہ کرام نے اپنی (دو رکعتیں) نماز مکمل کر لی، دوسری جماعت آئی ، تو آپ نے ان کو بھی ایسے ہی ایک رکعت نماز پڑھائی اور دوسری صحابہ کرام نے خود مکمل کی ، لہٰذا راوی نے آپ کی رکعت کو بھی ایک رکعت شمار کیا اور آپ کے انتظار کو بھی ایک رکعت شمار کر لیا ، یوں دو رکعتیں سمجھ لیں ، حالانکہ دو رکعتیں در حقیقت تو ان صحابہ کی تھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کی تھی ، راوی نے آپ کے ایک رکعت کے بعد ٹھہرنے اور دوسرے صحابہ کا انتظار کرنے کو ملحوظ رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی دو رکعتیں منسوب کر دیں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رکعت صحابہ کی دو رکعتوں کو متضمن ہو گئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعتیں صحابہ کی چار رکعتوں کو بھی بلا شبہ متضمن ہو گئیں ، یہ بات بظاہر تو ایک تاویل ہی لگتی ہے ، لیکن اس کی تائید جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی واقعہ کی ایک اور روایت سے ہوتی ہے ، بخاری (٢/٥٩٢) میں صالح بن خوات اس شخص سے بیان کرتے ہیں ، جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ذات الرقاع والے دن نماز ِخوف پڑھی تھی ، کہ صحابہ کرام کے ایک گروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صف بنائی اور دوسرے گروہ نے دشمن کے سامنے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والے گروہ کو ایک رکعت نماز پڑھائی ، پھر کھڑے رہے ، حتی کہ انہوں نے اپنی دوسری رکعت مکمل کی ، پھر وہ لوٹ گئے اور دشمن کے سامنے صف بنا لی ، دوسرا گروہ آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بقیہ نماز(دوسری رکعت )پڑھا دی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہے ، حتی کہ صحابہ نے اپنی دوسری رکعت مکمل کر لی ، پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ سلام پھیرا ۔ یہ روایت صریح ہے کہ صحابہ دو دو رکعتیں پڑھ کر فارغ ہوئے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کے فارغ ہونے کے بعد فارغ ہوئے ، صحابہ کرام کی دو دو رکعتیں ہوئیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی دو، جیسا کہ راوی نے یہاں ذکر کر دیا ، مگر جب آپ ایک رکعت کے بعد ایک رکعت کی مقدار ٹھہرے اور دوسرے صحابہ کا انتظار فرمایا ، تو راوی نے اسے بھی ایک رکعت شمار کر لیا ، اس طرح آپ کی نماز کو بھی چار رکعتوں کے برابر کر دیا ، حالانکہ یقینا واقعہ ایک ہی ہے ، شاید اب ہی آپ کو راویوں کی تعبیر کا حال معلوم ہو جائے کہ یہ تعبیر محض کسی ایک فقہی مسئلے پر مبنی نہیں ہوتی ، بلکہ روایت کے وقت راویوں کو جو عبارات سوجھ جائیں ، تعبیر انہی کے مطابق ہوتی ہے ۔”(فیض الباری : ٣/٢٤٧)
تبصرہ:
معززقارئین !دیکھا آپ نے کہ کشمیری صاحب کو حدیث سے جان چھڑانے کی خاطر کتنے پاپـڑ بیلنا پڑے ؟ لیکن ان کی اتنی” محنت ”بھی رنگ نہ لا سکی کیونکہ :
٭جس روایت پر بناء کر کے کشمیری صاحب نے اتنی بڑی اور بعید تاویل کی ہے ، بصراحتِ محدثین ، وہ الگ واقعہ ہے ، یہی قصہ نہیں ، لہٰذا کشمیری صاحب کا یہ کہنا کہ ولا بدّ ، فانّ الواقعۃ واحدۃ۔ (یقینا یہ ایک ہی واقعہ ہے) کئی وجوہ سے باطل ہے :
(ا)    جو روایت بخاری کے حوالہ سے پیش کی گئی ہے ، اس میں من شھد مع رسول اللہ ۔(جس نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہئ ذاتِ رقاع والے دن نماز ادا کی تھی) سے مراد قطعاََجابررضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں ہیں ، ائمہ مجتہدین اور فقہاء سے ایسی کوئی بات منقول نہیں ہے ، آج تک کسی عالم نے یہ بات نہیں کہی ، بلکہ یہ خالص” کشمیری انکشاف” ہے ۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
قیل ان اسم ھٰذا المبھم سھل بن أبی حثمۃ ، لأن القاسم بن محمّد روٰی حدیث صلاۃ الخوف عن صالح بن خوّات عن سھل بن أبی حثمۃ ، و ھٰذا ظاھر من روایۃ البخاری ، ولکن الرّاجح أنّہ أبوہ خوّات بن جبیر ، لأنّ أبا أویس روٰی ھٰذا الحدیث عن یزید بن رومان شیخ مالک فیہ فقال ، عن صالح بن خوّات عن أبیہ ، أخرجہ ابن مندۃ فی معرفۃ الصّحابۃ من طریقہ ، و کذٰلک أخرجہ البیھقیّ من طریق عبید اللّٰہ بن عمر عن القاسم بن محمّد عن صالح بن خوّات عن أبیہ ، وجزم النّوویّ فی تھذیبہ بأنہ خوّات بن جبیر وسبقہ لذٰلک الغزالیّ فقال : ان صلاۃ ذات الرّقاع فی روایۃ خوّات بن جبیر ۔
”ایک قول یہ ہے کہ اس مبہم راوی کا نام سہل بن ابی حثمہ ہے ، کیونکہ قاسم بن محمد نے نماز خوف میں ایک روایت سہل بن ابی حثمہ سے بیان کی ہے اور یہ بات صحیح بخاری کی روایت سے واضح ہے ، لیکن راجح بات یہ ہے کہ مبہم راوی صالح کا باپ خوات بن جبیر ہے ، کیونکہ ابو اویس نے بالکل یہی حدیث یزید بن رومان ، جو امام مالک کے شیخ ہیں ، سے عن صالح بن خوات عن أبیہ کے الفاظ سے بیان کی ہے ، اس سند سے ابن مندہ نے اسے اپنی کتاب معرفۃ الصحابہ میں بیان کیاہے ، اسی طرح امام بیہقی نے بھی عبید اللہ بن عمر عن القاسم بن محمّد عن صالح بن خوّات عن أبیہ کے الفاظ سے بیان کیا ہے ، حافظ نووی نے اپنی کتاب التھذیب میں بالجزم بتایا ہے کہ یہ خوات بن جبیر ہیں ،ان سے پہلے غزالی نے کہا تھا کہ غزوہ ذات ِالرقاع میں نمازِ خوف کا قصہ خوات بن جبیر کی روایت سے ہے ۔”
(فتح الباری : ٧/٤٢٢)
موصوف مزید لکھتے ہیں :
ویحتمل أنّ صالحا سمعہ من أبیہ ومن سھل بن أبی حثمۃ فلذٰلک یبھمہ تارۃ و یعیّنہ أخرٰی ، الا أن تعیین کونھا کانت ذات الرقاع انما ھو فی روایتہ عن أبیہ ولیس فی روایۃ صالح عن سھل أنہ صلّاھا مع النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم۔۔۔۔
”یہ بھی احتمال ہے کہ صالح نے اپنے باپ سے بھی سنا ہو اور سہل بن ابی حثمہ سے بھی ، اسی لئے وہ کبھی اسے مبہم رکھتے ہیں اور کبھی تعیین کر دیتے ہیں ، لیکن ذات ِرقاع میں راوی کی تعیین صرف عن أبیہ سے ہے ، سہل بن ابی حثمہ سے نہیں، کیونکہ یہ بات ہی بہت بعید ہے کہ سہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہو ، کیونکہ ان کی عمر ہی اس غزوہ کے وقت بہت تھوڑی تھی ۔” (فتح الباری : ٧/٤٢٢)
ان تصریحات سے تو روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا ہے کہ صالح بن خوات غزوہ ذاتِ رقاع کی نمازِ خوف جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان نہیں کر رہے بلکہ اپنے والد خوات بن جبیر سے بیان کرتے ہیں ، لہٰذا کشمیری صاحب کا یہ کہنا کہ لکنّہ مؤیّد بما یروٰی عن جابر فی عین تلک القصّۃ (اس تاویل کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو اسی واقعہ میں جابر ہی سے مروی ہے ) بالکل بے بنیاد ہے ۔
(ب)    محدثین نے نمازِ خوف کے بہت سے طریقے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں ، جو طریقے آپ سے بسندِ صحیح ثابت ہیں ، ان سب پر عمل کیا جا سکتا ہے ۔
جناب محمد سرفراز خاں صفدر دیوبندی حیاتی لکھتے ہیں :
”حافظ ابن قیم زادالمعاد (١/١٤٧) میں لکھتے ہیں کہ صلوۃ الخوف کی چھ یا سات صورتیں ہیں وکلھا جائزۃ یہ سب جائز ہیں ۔ علامہ ابن حزم نے محلی میں اور ابو داؤد نے اپنی سنن میں تیرہ صورتیں لکھی ہیں ، قاضی شوکانی نیل الاوطار (٣/٣٣٧) میں لکھتے ہیں کہ سترہ صورتیں ہیں ، حافظ ابن حجر بحوالہ ابو بکر بن العربی سولہ صورتیں نقل کرتے ہیں (فتح الباری :٢/٤٣١) ،امیر یمانی سبل السلام (٢/٧١) میں لکھتے ہیں : وقال ابن حزم صحّ منھا أربعۃ عشر وجھا وقال ابن العربی فی عارضۃ الأحوذیّ (٣/٤٥) فیھا روایات کثیرۃ أصحّھا ستّ عشر روایۃ ۔ (ابن حزم فرماتے ہیں کہ ان میں سے ١٤ طریقے صحیح ثابت ہیں اور ابن العربی کہتے ہیں کہ اس میںبہت سی روایات ہیں ،ان میں سے صحیح ترین ١٦ ہیں )۔ ان میں سے جس پر عمل کرے ، درست ہے ۔”(خزائن السنن : ٢/٢٠٢)
لہٰذا جب یہ قصہ الگ ثابت ہو گیا ہے ، تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ اس میں تاویل کرکے اسے جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی طریقے کے ساتھ ملا دیا جائے ۔
چنانچہ ائمہ مجتہدین نے جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ غزوہ ذات ِ رقاع کی نماز کو ایک الگ طریقہ اور صالح بن خوات کی بیان کردہ نماز کو ایک الگ طریقہ بتایا ہے ، صاف ظاہر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں ایک نماز تو نہیںپڑھی ہو گی ، کسی نماز میں ایک طریقہ اپنا لیا اور کسی میں دوسرا ، لہٰذا دونوں احادیث میں کوئی منافات نہ رہی ، یہ دو الگ نمازیں ہیں۔
امام ابن حبان نے سیدناجابر کی روایت کو چھٹے طریقے اور صالح بن خوات کی روایت کو نماز خوف کے ساتویں طریقے میں درج کیا ہے ۔ (صحیح ابن حبان : ٧/١٣٥۔١٤٠)
امام ابن خزیمہ نے بھی ان دونوں روایات سے دو الگ الگ طریقے ثابت کئے ہیں ۔
(صحیح ابن خزیمہ : ٢/٢٩٧ ، ٣٠٠)
امام ابن المنذر نے سیدناجابر کی روایت چوتھے طریقے اور صالح بن خوات کی روایت چھٹے طریقے میں بیان کی ہے ۔(الاوسط لابن المنذر : ٥/٣٢ ۔ ٣٣)
امامِ بخاری نے بھی صالح بن خوات اورسیدنا جابر کی روایات الگ الگ ذکر کی ہیں ۔
الغرض اس بحث سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ یہ دو الگ واقعات ہیں ۔
(ج)     کشمیری صاحب کی یہ تاویل ایک اور وجہ سے بھی باطل ہو جائے گی کہ ابو داؤد اور نسائی کی روایت میں ثمّ سلّم کے الفاظ موجود ہیں ، یعنی آپ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا تھا ، اگر بقولِ کشمیری صاحب راوی نے آپ کی ایک رکعت کو دو سمجھ لیا ہو ، تو کیا آپ نے ایک رکعت کے بعد سلام پھیرا تھا ؟ خود کشمیری صاحب اس اعتراض کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ویخدشہ ما عند النّسائیّ (ص : ٢٣٢ )من ذکر تسلیم النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أیضا بعد رکعتین ۔( میری اس تاویل کو دو رکعتوں کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پھیرناپارا پارا کردیتا ہے ) (فیض الباری : ٤/١٠٤ )
تاویل نمبر ٣:
خود کشمیری صاحب نے اقرار کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پھیرنا ، اس تاویل کو باطل کر دیتا ہے ، لیکن پھر بھی اپنی تاویل کو چھوڑا نہیں ، بلکہ اسی کو ثا بت کر نے کی خاطر ایک اور تاویل کردی ، بھلا اقرارِ حدیث اور عمل بالحدیث اسی کا نام ہے ؟ لکھتے ہیں :
قد انکشف عندنا حقیقۃ الأمر ، وأن لا نتّبع الألفاظ ونقول :انہ بالحقیقۃ تسلیم القوم، ونسبت الی امامہ لکونھم فی امامتہ ، لا أنہ تسلیم نفسہ ، أو یقال : انہ لما انتظر تسلیم القوم ، عبّر الرّاوی انتظارا للتّسلیم بالتّسلیم ۔
”ہمارے ہاں حقیت ِحال واضح ہو چکی ہے ، ہم الفاظ کے پیچھے نہیں لگیں گے ، بلکہ کہیں گے کہ در حقیقت یہ قوم کا سلام تھا ، امام ہونے کی وجہ سے آپ کی طرف منسوب کر دیا گیا ، حقیقت میں آپ کا سلام نہ تھا ، یا یوں کہا جائے گا کہ جب آپ نے قوم کے سلام کا انتظار فرمایا ، تو راوی نے انتظار کو سلام سمجھ لیا۔”                          (فیض الباری : ٤/١٠٤)
تبصرہ:
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ تقلید ِنا سدید مقلدین کو کہاں تک لے جاتی ہے کہ ہر حدیث ، جو ان کے امام کے قول کے خلاف آئے ، اسے تاویلات کا تختہ مشق بنا لیتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو بلاواسطہ شاگردانِ رسول ہیں ، ان کے فہم پر حملے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
دیکھیں کہ ائمہ کرام ، محدثین عظام اور فقہائے کرام حتی کہ بعض حنفی بزرگ بھی واشگاف الفاظ میں ان احادیث سے یہ مسئلہ ثابت کر رہے ہیں ، لیکن مقلدین وہ باتیں کرتے ہیں ، جو آج تک کسی نے نہیں کیں ، کیا محدثین ، ائمہ کرام اور اکابر احناف اس حدیث کو زیادہ جانتے تھے یا بعد کے اندھے مقلد ؟ اگر یوں ہی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو نمازِ خوف کے بہت سے طریقے ، جو احناف کے ہاں بھی مقبول ہیں ، باطل ہو جائیں گے ، بلکہ سب طریقوں میں تاویل کر کے ایک ہی طریقہ بنا لیا جائے گا !!!
فائدہ :
کشمیری صاحب کی یہ ساری ”تاویلی محنت” اس وقت رائیگاں ہو جائے گی ، جب ہم امام طحاوی کا اس حدیث پر تبصرہ پیش کریں گے ، وہ لکھتے ہیں :
فقد خالف القاسم یزید بن رومان، فان کان ھٰذا یؤخذ من طریق الاسناد، فانّ عبدالرّحمٰن عن أبیہ عن صالح بن خوّات عن سھل بن أبی حثمۃ عن النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أحسن من یزید بن رومان عن صالح عمّن أخبرہ ، وان تکافأا تضادّا ، واذا تضادّا لم یکن لأحد الخصمین فی أحدھما حجّۃ اذ کان لخصمہ علیہ مثل ما لہ علٰی خصمہ ، فان قال قائل: فانّ یحیی بن سعید قد روٰی عن القاسم بن محمّد عن صالح بن خوّات عن سھل ما یوافق ما روٰی یزید بن رومان و یحیی بن سعید لیس بدون عبدالرّحمن بن القاسم فی الضّبط والحفظ ، قیل لہ یحیی بن سعید کما ذکرت ولکن لم یرفع الحدیث الی النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وانّما أوقفہ علٰی سھل فقد یجوز أن یکون ما روٰی عبدالرّحمٰن بن القاسم عن القاسم عن صالح ھو الّذی کذٰلک کان عند سھل عن النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم خاصّۃ ثمّ قال ھو من رأیہ ما بقی فصار ذٰلک رأیا منہ لا عن النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم و لذٰلک لم یرفعہ یحیی الی النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فلمّا احتمل ذٰلک ما ذکرنا ارتفع أن یقوم بہ حجّۃ أیضا۔۔۔۔
”اس روایت میں قاسم نے یزید بن رومان کی مخالفت کی ہے ، اگر سند کی طرف دیکھا جائے تو القاسم عن صالح۔۔۔ یزید بن رومان عن صالح۔۔۔ سے بہتر ہے ، اگر یہ دونوں برابر بھی ہوں ، تو ایک دوسرے کے معارض ہیں ، اور جب معارض ہیں ، تو دونوں گروہوں میں سے کسی کے لئے دلیل نہیں دن سکتیں۔۔۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یحییٰ بن سعید نے القاسم بن محمد عن صالح ۔۔۔۔کی سند سے یزید بن رومان کی طرح ہی حدیث بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید عبدالرحمن بن قاسم سے ضبط و حفظ میں کم نہیں ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یحییٰ بن سعید ، جیسا کہ آپ نے کہا ہے ، کم درجہ نہیں ہیں ،لیکن انہوں نے یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان نہیں کی،بلکہ موقوف ہے ، ہو سکتا ہے کہ جو عبد الرحمن بن قاسم نے بیان کیا ہے ، وہ خاص آپ کے الفاظ ہوں اور جو یحییٰ بن سعید سے ہے ، اس میں سہل نے اپنی رائے سے بات کی ہو ، اسی لئے یحییٰ بن سعید اسے مرفوع بیان نہیں کرتے ، جب ہمارا مذکورہ احتمال موجودہے ، تو اس سے دلیل لینا جائز نہ رہا۔دوسری بات یہ ہے کہ عقلی طور پر بھی یہ درست نہیں ، کیونکہ ہمیں کوئی نماز ایسی نظر نہیں آتی کہ اس میں مقتدی امام سے پہلے نماز کا کچھ حصہ ادا کر لے ، بلکہ وہ یا تو امام کے ساتھ ادا کرتا ہے یا امام کے بعد ، اختلافی صورت میں اجماعی امور کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔”
موصوف مزید لکھتے ہیں :
ولمّا لم نجد لقضاء المأموم من قبل أن یفرغ الامام من الصّلوۃ أصلا فیما أجمع علیہ یدلّ علیہ فنعطفہ علیہ أبطلنا العمل بہ ورجعنا الی الآثار الأخر الّتی قدّمنا ذکرھا الّتی معھا التّواتر و شواھد الاجماع۔
”جب ہمارے پاس امام کی فراغت سے پہلے مقتدی کی قضاء کے بارے میں کوئی اجماعی دلیل نہیں کہ ہم اس روایت کو اس پر محمول کر لیں ،تو ہم نے اس پر عمل کو باطل قرار دے دیا ، اور ان دوسرے آثار کی طرف رجوع کر لیا ، جن کے ساتھ تواتر اور اجماعی تائید ہے ، نیز ابو ہریرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بالکل برعکس طریقہ بھی بیان کیا ہے ۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢١٨۔ ٢١٩)
اب کشمیری صاحب کے معتقدین ہی بتائیں کہ امام طحاوی حنفی کے مقابلے میں کشمیری صاحب کی کیا حیثیت ہے ، بات طحاوی حنفی کی مانی جائے گی یا کشمیری صاحب کی ؟جس روایت کو بنیاد بنا کر کشمیری صاحب نے اتنی لمبی چوڑی تاویلات کی تھیں، امام طحاوی نے اسے ہی ناقابلِ حجت قرار دے دیا ہے ، احناف کو چا ہئے کہ وہ اپنے اکابر کی تولاج رکھیں۔
تاویل نمبر ٤:
جناب ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
ھٰذا کان فی صلاۃ الخوف والنّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان فی مسافۃ لا تقصر فی مثلھا الصّلوۃ ۔”آپ کی یہ نماز اتنی مسافت پر تھی کہ ، اس جیسی مسافت پر نماز قصر نہیں کی جاتی ۔”
(الجوھر النقی : ٣/٨٦) ،نیز دیکھیں (شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٢٠)
تبصرہ :
(ا)    جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی لکھتے ہیں : وحملہ علٰی حال الاقامۃ باطل ۔
”اس حدیث کو اقامت پر محمول کرنا باطل ہے ۔”(فیض الباری : ٣/٢٤٧)
(ب)    حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
ھٰذا جھل وکذب آخر ، أبو بکرۃ متأخّر الاسلام ، لم یشھد با لمدینۃ قطّ خوفا ولا صلاۃ خوف ولا فیما یقرب منھا ، و انّما کان ذٰلک ۔ قال جابر۔ بنخل و بذات الرقاع ، فکلا الموضعین علٰی أزید من ثلاثۃ أیام من المدینۃ ۔
”یہ ایک اور جھوٹ اور جہالت پر مبنی بات ہے ، ابو بکرۃرضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری دور میں اسلام لائے ہیں ، انہوں نے مدینہ میں کبھی خوف ، صلاۃ ِخوف یا اس سے ملتی جلتی کسی چیز کو نہیں دیکھا ، بلکہ جابر کے بقول یہ نماز ِخوف نخل اور ذات ِرقاع جگہ پر ادا کی گئی اور یہ دونوں جگہیں مدینہ سے تین دن سے زائد فاصلے پر واقع ہیں ۔”(المحلی لابن حزم : ٤/٢٣٥)
چنانچہ صریح احادیث ، اقوال ائمہ دین ، فہمِ محدثین اور فقاہت ِفقہائے کرام کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ تاویل فاسد و باطل ہے ۔
حدیث کا ماننا مشکل کام ہے ، تاویل مشکل نہیں ، جو بھی باطل پر ہو بلا دلیل تاویل کر ہی لیتا ہے ۔
علامہ ابن ابی العز حنفی(م ٧٩٢ ھ ) العقیدۃ الطحاویۃ کی شرح میں لکھتے ہیں :
ولا یشاء مبطل أن یتأوّل النّصوص و یحرّفھا عن مواضعھا الّا وجد الٰی ذالک من السّبیل۔ ”کوئی بھی باطل پرست آدمی جب نصوص میں تاویل و تحریف پر اتر آتا ہے ، تو تاویل کا کوئی نہ کوئی راستہ اسے ضرور مل جاتا ہے ۔” (شرح العقیدہ الطحاویہ : ١٨٩)
نیز تاویلِ فاسد کے نقصانات کے تحت لکھتے ہیں :
وھٰذا الّذی أفسد الدّنیا والدّین وھٰکذا فعلت الیھود والنّصارٰی فی نصوص التّوراۃ والانجیل وحذرنا اللّٰہ أن نّفعل مثلھم وأبی المبطلون الّا سلوک سبیلھم ، وکم جنی التّاویل الفاسد علی الدّین وأہلہ من جنایۃ ؟ فہل قتل عثمان رضی اللّٰہ عنہ الّا بالتّأویل الفاسد ! وکذا ما جری فی یوم الجمل ، و صفّین ، ومقتل الحسین رضی اللّٰہ عنہ ، والحرّۃ! وھل خرجت الخوارج ، واعتزلت المعتزلۃ ، ورفضت الرّوافض ، وافترقت الأمّۃ علٰی ثلاث و سبعین فرقۃ ، الّا بالتّأویل الفاسد۔
”اسی( تاویلِ فاسد) نے دین و دنیا کو خراب کیا ہے ، یہود و نصاری توراۃ و انجیل کی نصوص کے ساتھ ایسا ہی تو کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچنے کا حکم دیا ہے ، باطل پرست آج بھی انہی کے نقش قدم پر ڈٹے ہوئے ہیں ، اس تاویل نے دین اور دین داروں پر کتنے ہی ظلم ڈھائے ہیں ، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی تاویل فاسد کی وجہ سے ہی شہید کر دیئے گئے ، جنگ ِجمل ، صفین ، سانحہ کربلا اور واقعہ ئ حرہ اسی طرح رونما ہوئے ، خوارج اہل السنہ سے اسی وجہ سے نکلے ، معتزلی اسی وجہ سے علیحدہ ہوئے ، روافضی اسی وجہ سے رافضی ہوئے اور امت اسی تاویل فاسد کی وجہ سے تہتر فرقوں میں بٹی ۔”
(شرح العقیدہ الطحاویہ : ١٨٩)
موصوف مزید لکھتے ہیں :
وأما اذا تأوّل الکلام بما لا یدلّ علیہ ولا اقترن بہ ما یدلّ علیہ ، فباخبارہ بأن ھٰذا مرادہ کذب علیہ ، وھو تأویل بالرّای وتوھّم بالھوٰی ۔
”جب کوئی کسی کلام کی ایسی تاویل کرے ، جس پریہ کلام دلالت ہی نہیں کرتی ، نہ اس کا کوئی قرینہ ہو ، تو اس تاویل کو ، متکلم کی مراد قرار دینا ، اس پر بہتا ن ہے ، یہی من پسند تاویل اور نفسانی خواہش ہے ۔”                          (شرح العقیدہ الطحاویہ : ١٩٨ )
کیا صحیح احادیث ، فہم محدثین اور اقوال فقہاء کے خلاف یہ تاویل ، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان اور اتباع ہوٰی نہیں ہے ؟
اب ایک طرف امام طحاوی حنفی اس روایت کو اجماع و تواتر کے خلاف قرار دے کر ، اس پر عمل کو باطل کہہ رہے ہیں ، جبکہ اس کے بالکل برعکس کشمیری صاحب بخاری و مسلم کی صحیح و صریح روایت کو اس پر محمول کرنے کے لئے تاویلیں کر رہے ہیں ۔
قارئین ! انصاف شرط ہے ، بتائیں کہ فقہ حنفی میں امام طحاویؒ کی بات مانی جائے گی یا کشمیری صاحب کی ، کوئی مجتہد اس پر مواخذہ کرے ، تو کرے ، ایک مقلد کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنے مجتہد امام کی مخالفت کرے؟ کیا یہ تضاد بیانی نہیں ہے ؟
تاویل نمبر ٥:
وانّ قصرالصّلاۃ انّما أمرہ اللّٰہ تعالیٰ بہ بعد ذٰلک فکانت الأربع یومئذ مفروضۃ علی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”آپ کو نماز میں قصر کرنے کا حکم اللہ تعالی نے اس واقعے کے بعد دیا تھا ، اس دن یہ چار رکعتیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھیں اوریہ حکم اب منسوخ ہو چکا ہے ۔”
(شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٢١)
تبصرہ :
امام ِطحاوی کی یہ بات درست نہیں ، کیونکہ غزوہئ ذات ِرقاع بالاتفاق کم از کم بھی ٤ ہجری میں پیش آیا، اور نماز ِقصر ہجرت کے فورا بعد نازل ہو گئی تھی ۔
حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
وقد صحّ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا أنّ الصّلاۃ أنزلت بمکۃ رکعتین رکعتین ، فلمّا ھاجر رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اتمّت صلاۃ الحضر وأقرّت صلاۃ السّفر۔
”عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے باسند ِصحیح ثابت ہے کہ مکہ میں نماز دو دو رکعت نازل ہوئی تھی ، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ، تو حضر کی نماز مکمل ہو گئی اور سفر کی دو ہی برقرار رکھی گئی ۔”              (صحیح بخاری : ١٠٩٠ ، صحیح مسلم : ٦٨٥،المحلّٰی لابن حزم : ٤/٢٣٥)
نیز لکھتے ہیں :
فھٰذا آخر فعل رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، لأنّ أبا بکرۃ شھدہ ، وانّما کان اسلامہ یوم الطائف بعد فتح مکۃ وبعد حنین۔
”یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری فعلِ مبارک ہے ، کیونکہ سیدنا ابو بکرہ اس میں حاضر ہوئے ہیں اور وہ فتحِ مکہ اور غزوہئ حنین کے بعد طائف والے دن مسلمان ہو رہے ہیں ۔” (المحلّٰی :٤/٢٢٧)
تاویل نمبر ٦:
امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :
قد یحتمل أن یکون ذٰلک السّلام المذکور فی ھٰذا الموضع ھوسلام التّشھّد الّذی لا یراد بہ قطع الصّلٰوۃ ، ویحتمل أن یکون سلاما اراد بہ اعلام الطّائفۃ الأولٰی بأوان انصرافھا والکلام حینئذ مباح لہ فی الصّلاۃ غیر قاطع لھا۔
”یہ بھی احتمال ہے کہ اس حدیث میں دو رکعتوں کے بعد آپ کا مذکورہ سلام ، تشہد والاسلام ہو ،جس سے نماز سے خارج ہونا مراد نہ ہو ،نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اس سلام سے پہلی جماعت کو جانے کی خبر کرنا مقصود ہو ، ان دنوں نماز میں کلام جائز تھی ، نماز کو توڑتی نہ تھی ۔” (شرح معانی الآثار للطحاوی : ١/٢٢١)
تبصرہ :
ہم پیچھے ثابت کر آئے ہیں کہ صلاۃِ خوف کا واقعہ نماز ِقصر نازل ہونے کے بہت مدّت بعد کا ہے ۔
حافظ نووی لکھتے ہیں :
وادّعی الطّحاویّ أنّہ منسوخ ولا تقبل دعواہ اذ لا دلیل لنسخہ ۔
”امام طحاوی نے اس کے منسوخ ہونے کا دعوی کیا ہے ، لیکن ان کا یہ دعوٰی قبول نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ نسخ کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔” (شرح مسلم از نووی : ١/٢٧٨)
لہٰذا اگر یہاں سلام سے سلامِ تشہد (التحیات میں السلام علیک اور السلام علینا ) مراد لیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قصر میں چار رکعت نماز ثابت ہو گی ، اور احناف کے نزدیک قصر میں چار رکعت یا تو باطل ہے یا اس میں آخری دو نفل ہیں ۔
حافظ ابن حزم لکھتے ہیں :
وأبوحنیفۃ یرٰی علٰی من صلّٰی أربعا وھو مسافر أنّ صلاتہ فاسدۃ ، الّا أن یجلس فی الاثنتین مقدار التّشھّد فتصحّ صلاتہ ، وتکون الرّکعتان اللّتان یقوم الیھما تطوّعا ، فان کان علیہ السلام لم یقعد بین الرّکعتین مقدار التّشھد فصلاتہ عندھم فاسدۃ ، فان أقدموا علٰی ھذا القول کُفِّروا بلا مریۃ ، وان کان علیہ السّلام قعد بین الرّکعتین مقدار التّشھّد فقد صارت الطّائفۃ الثّانیۃ مصلّیۃ فرضھم خلفہ ، وھو علیہ السلام متنفّل ، وھذا قولنا لا قولھم ۔
”امام ابو حنیفہ کا خیال ہے کہ جو آدمی سفر میں چار رکعتیں پڑھے ، اس کی نماز فاسد ہو جائے گی ، ہاں اگر وہ دو رکعتوں کے بعد تشہد میں بیٹھ گیا ، تو اس کی نماز درست ہو جائے گی ، لیکن دوسری دو رکعتیں نفل شمار ہوں گی ، لہٰذا اگر آپ دو رکعتوں کے بعد تشہد میں نہیں بیٹھے، تو احناف کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نعوذ باللہ فاسد ہو گی ، اگر یہ بات کہہ دیں تو بلا شبہ کافر قرار پائیں گے ، اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نزدیک دو رکعتوں کے بعد بیٹھے تھے ، تو پھر دوسرے گروہ نے آپ کے نفلوں کی اقتداء میں فرض ادا کئے، اس طرح یہ ہماری دلیل بنی نہ کہ ان کی ۔” (المحلّٰی لابن حزم : ٤/٢٢٨)
علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں :
وعلٰی کلّ حال، فالاستدلال علی الحنفیّۃ بحدیث جابر صحیح ، وان لم یسلّم من الرکعتین ، لأنّ فرض المسافر عندھم رکعتان ، والقصر عزیمۃ ، فان صلّی المسافر أربعا وقعد فی الأولیٰ صحّت صلاتہ ، وکانت الأخریان لہ نافلۃ ۔
”جو بھی تاویل کی جائے ،ہر حال میں جابر کی حدیث سے احناف کے خلاف( متنفل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کا )استدلال درست ہے ، اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام نہ بھی پھیرا ہو کیونکہ احناف کے ہاں مسافر پر دو رکعتیں فرض ہیں اور قصر کرنا عزیمت( واجب )ہے ، اگر مسافر چار رکعتیں پڑھے اور دو کے بعد بیٹھ جائے ، تو اس کی نماز صحیح ہو جائے گی ،لیکن آخری دو رکعتیں نفل ہوں گی، فرض نہیں ہو سکتیں ، کیونکہ چار فرض پڑھنے سے نماز فاسد ہو جائے گی ۔” (نصب الرایہ : ٢/٥٧)
تاویل نمبر ٧: جناب ابن ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
وھٰذا الحدیث اضطرب فیہ الحسن فرواہ مرّۃ عن جابر ومرّۃ عن أبی بکرۃ، ثمّ أخرجہ البیھقی من حدیث أبی بکرۃ ولیس فیہ أنہ سلّم بعد الرّکعتین الأوّلیین ۔
”اس حدیث میں حسن بصری کی طرف سے اضطراب واقع ہو گیا ہے ، وہ کبھی اسے جابر سے اور کبھی ابو بکرہ سے بیان کرتے ہیں ، پھر بیہقی نے ابو بکرہ کی جو حدیث بیان کی ہے ، اس میں دو رکعتوں کے بعد سلام مذکور نہیں ۔” (الجوھر النّقی : ٣/٨٦)
تبصرہ :
(ا)    اضطراب کا دعوٰی فضول ہے ، کیونکہ ابو بکرہ اور جابررضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں اس نماز میں حاضر ہوئے تھے ، حسن بصری نے دونوں سے یہ واقعہ نقل کر دیا ہے ، اضطراب کیسا ؟
(ب)    امام طحاوی حنفی تو بالاتفاق فنِّ حدیث میں ابن ترکمانی حنفی سے فائق ہیں ، انہوں نے اس حدیث پر بہت سے اعتراضات کئے ہیں ، جن کے جواب گزر چکے ہیں ،لیکن یہ اعتراض امام طحاوی نے بھی نہیں کیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک بھی اس حدیث میں یہ علت نہیں ۔
(ج)     علامہ زیلعی حنفی اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : أخرجہ أبو داود بسند صحیح ۔
”امام ابو داؤد نے اس حدیث کو باسند ِصحیح بیان کیا ہے ۔”(نصب الرایہ : ٢/٢٤٦)
لہٰذا اضطراب نہ رہا ، رہی یہ بات کہ سنن کبری بیہقی میں سیدناابو بکرہ کی روایت میں اس سلام کا ذکر نہیں ،تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کو بیان کرنے والا ایک راوی ان سے یہ الفاظ بیان نہیں کرتا ، دوسرا کر دیتا ہے ، تو ائمہ احناف کی تصریح کے مطابق اس صحیح حدیث کے ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہونی چاہیے ۔
علامہ زیلعی حنفی سیدناابو بکرہ کی اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
واعلم أنّ ھٰذا الحدیث صریح أنہ علیہ الصّلاۃ والسّلام سلّم من الرّکعتین ۔
”جان لیں کہ ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث اس بات میں صریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیراتھا ”۔(نصب الرایہ : ٢/٢٤٦)
دلیل نمبر ٤:
سیّد الملائکہ جبریل امین علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ نمازوں میں امامت کی ہے ۔(صحیح بخاری:٤٩٩، صحیح مسلم:٦١٠۔٦١١)
اتفاقی بات ہے کہ جبریل امین پر نماز فرض نہیں ، کیونکہ وہ شریعت محمدیہ کے مکلف نہیں ہیں اور غیر مکلف بچے وغیرہ کی نماز نفل ہوتی ہے ، لہٰذا جبریل کی یہ نماز نفل تھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی فرض نمازیں ان کی اقتداء میں ادا کیں ، ثابت ہوا کہ متنفّل کی اقتداء میں مفترض کی نماز ہو جاتی ہے ، یہ ایسی دلیل ہے جس کا مقلدین کے پاس کوئی جواب نہیں ۔
دوسرے بہت سے مسائل کی طرح دنیائے حنفیّت اس مسئلہ میں بھی دلائل سے بالکل تہی دست ہے ، ہمارے ذکر کردہ صریح و صحیح حدیثی دلائل کے برعکس ان کے پاس ایک بھی دلیل ایسی نہیں جس سے متنفّل کی اقتداء میں مفترض کی نماز کا بطلان ظاہر ہوتا ہو، آئندہ قسط میں ان کے مزعومہ دلائل کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔    ان شاء اللّٰہ                    جاری ہے ….

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.