1,562

نجد حجاز وعراق صحیح احادیث کی روشنی میں … غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


نجد ِ حجاز و عراق صحیح احادیث کی روشنی میں
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
ہمارے ہاں نجد سے متعلق عجیب و غریب باتیں سنائی دیتی ہیں۔ بعض لوگ نجدِ عراق کے بارے میں مروی صحیح احادیث کی مراد میں تلبیس سے کام لیتے ہوئے انہیں نجد ِحجاز پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی توحید پر مبنی اصلاحی تحریک کو نجد کا فتنہ قرار دیتے ہیں۔ان صحیح احادیث کی حقیقی مراد کیا ہے؟ پرفتن نجد کون سا ہے؟ اس میں پھوٹنے والے فتنے کون سے ہیں؟شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے بارے میں مذکورہ لاف زنی کی کیا حقیقت ہے؟اس مضمون میں غیر جانبداری سے ان امور کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس تحقیقی مضمون کا خاکہ کچھ یوں ہے کہ سب سے پہلے نجد کے پُرفتن ہونے کے بارے میں مروی وہ احادیث مع ترجمہ ذکر کی جائیں گی جو محدثین کے اصول کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔پھر کچھ صحیح احادیث ہی کے ذریعے ان صحیح احادیث کی تفسیر و تشریح کی جائے گی۔آخر میں مسلمہ فقہائے کرام،معروف شراحِ حدیث اور نامور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں اس تحقیق کی تائید پیش کی جائے گی۔
آئیے سب سے پہلے نجد کے بارے میں صحیح احادیث ملاحظہ فرمائیں :
حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ قَالَ : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي نَجْدِنَا ؟ فَأَظُنُّہ، قَالَ فِي الثَّالِثَۃِ : ‘ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے شام کو بابرکت بنا دے، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں؟ فرمایا : اے اللہ ! ہمارے لیے ہمارے شام اور یمن میں برکت دے۔صحابہ کرام نے پھر عرض کی : اے اللہ کے رسول! اور ہمارے نجد میں بھی؟ میرے خیال میں تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے۔شیطان کا سینگ بھی وہیں طلوع ہو گا۔” (مسند الإمام أحمد : 118/2، صحیح البخاري : 1051/2، ح : 7094، سنن الترمذي : 3953)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے روایت ہے :
إِنَّہ، سَمِعَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ، یَقُولُ : ‘أَلَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا،آپ مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرما رہے تھے : آگاہ رہو، فتنہ یہیں سے رونما ہو گا، یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7093، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی راوی ہیں :
إِنَّہ، قَامَ إِلٰی جَنْبِ الْمِنْبَرِ، فَقَالَ : ‘الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، الْفِتْنَۃُ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُع قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی ایک جانب کھڑے ہوئے اور فرمایا : فتنہ یہیں سے ابھرے گا،فتنہ یہیں سے ابھرے گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 1050/2، ح : 7092، صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[47])
صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ، وَھُوَ مُسْتَقْبِلَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف رُخ کیے ہوئے فرمایا : خبردار! فتنے یہاں سے رونما ہوں گے اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
حدیث نمبر 4 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ إِلَی الْمَشْرِقِ، فَقَالَ : ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یاد رکھو! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور شیطان کا سینگ بھی یہیں سے طلوع ہو گا۔”
(المؤطّأ للإمام مالک : 975/2، صحیح البخاري : 463/1، ح : 3279)
حدیث نمبر 5 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، : ‘ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، ھَاھُنَا الْفِتْنَۃُ، حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرق کی طرف اشارہ کر کے یہ فرماتے ہوئے سنا: فتنے یہیں سے نمودار ہوں گے اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الإمام أحمد : 111/2، وسندہ، حسنٌ)
ۤحدیث نمبر 6 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”کفر کا مبنع مشرق کی جانب ہے۔”
(صحیح البخاري : 466/1، ح : 3301، صحیح مسلم : 53/1، ح : 52)
صحیح احادیث کی تفسیر صحیح احادیث سے
قارئین کرام ! آپ نے ان چھ صحیح احادیث کا مطالعہ کر لیا ہے۔اب ان میں نجد مشرق سے کیا مراد ہے ؟ ہم یہ مراد بھی صحیح احادیث ہی سے واضح کرتے ہیں :
حدیث نمبر 1 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشِیرُ بِیَدِہٖ، یَؤُمُّ الْعَرَاقَ، ‘ھَا ! إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ھَا إِنَّ الْفِتْنَۃَ ھَاھُنَا، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ . ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔آپ اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ عراق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرما رہے تھے : خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا، خبردار! فتنہ یہیں سے نمودار ہو گا اور یہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”(مسند الإمام أحمد : 143/2، ح : 6302، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 2 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مَکَّتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، فَأَعْرَضَ عَنْہُ، فَقَالَ : ‘فِیھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”یااللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے مکہ کو بابرکت بنا دے،ہمارے لیے ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے،ہمارے صاع (قریباً099.2 کلوگرام کا پیمانہ)اور مد(قریباً 88.524گرام کاپیمانہ)میں برکت دے۔ایک شخص نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف التفات نہ کرتے ہوئے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے بپا ہوں گے۔وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(مسند الشامیّین للطبراني : 1276، المعرفۃ والتاریخ للحافظ یعقوب بن سفیان الفسوي : 747/2، 748، المخلّصیّات : 196/2، ح : 1341، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبھاني : 133/6، تاریخ ابن عساکر : 131/1، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 3 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا، وَفِي مُدِّنَا’ فَرَدَّدَھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ الرَّجُلُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَلِعِرَاقِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘بِھَا الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَمِنْھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’ .
”اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے صاع اور مد میں برکت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ ایک شخص نے کہا : ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 384/12، ح : 13422، المعرفۃ والتاریخ للفسوي : 747/2، مسند البزّار : 5881، حلیۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 133/6، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث نمبر 4 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
صَلَّی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْفَجْرِ، فَأَقْبَلَ عَلَی الْقَوْمِ، فَقَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَسَکَتَ، ثُمَّ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي مَدِینَتِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا، اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي حَرَمِنَا، وَبَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، فَقَالَ رَجُلٌ : وَالْعِرَاقَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! قَالَ : ‘مِنْ ثَمَّ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَتَھِیجُ الْفِتَنُ’ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف رُخ مبارک کیا اور فرمایا: اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،ہمارے شام اور یمن کو بابرکت بنا۔ایک آدمی نے کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے،پھر فرمایا : اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مدینہ کو بابرکت بنا دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے،اے اللہ! ہمارے حرم کو برکت والا بنا اور شام اور یمن کو بھی بابرکت بنا۔آدمی نے پھر کہا : اللہ کے رسول! عراق کے لیے بھی دُعا کیجیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور فتنے رونما ہوں گے۔”(المعجم الأوسط للطبراني : 4098، فضائل الشأم ودمشق لأبي الحسن الربعي، ص : 11، ح : 20، تاریخ الرقۃ لأبي علي القشیري، ص : 95، ح : 145، تاریخ دمشق لابن عساکر : 132/1، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کے راویوں کے بارے میں حافظ ہیثمی(807-735ھ)فرماتے ہیں :
رِجَالُہ، ثِقَاتٌ . ”اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد : 305/3)
اس کے راوی زیاد بن بیان کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)نے ”صدوق عابد” قرار دیا ہے۔(تقریب التھذیب : 2057)
اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ)فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ، قَانِتٌ . ”یہ سچا اور نیک شخص ہے۔”(الکاشف : 275/1، الرقم : 1687)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فرمایا ہے : لَیْسَ بِہٖ بَأْسٌ .
”اس میں کوئی حرج نہیں۔”
(میزان الاعتدال للذھبي : 87/2، تھذیب التھذیب لابن حجر : 256/3)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الثقات(247/8)”میں ذکر کر کے فرمایا ہے :
کَانَ شَیْخًا صَالِحًا . ”یہ نیک شیخ تھا۔”
شیخ ابو ملیح حسن بن عمر رقّی نے ان کی تعریف کی ہے۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 346/3، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن خلفون نے اسے اپنی کتاب ”الثقات” میں ذکر کیا ہے۔
(إکمال تھذیب الکمال للمغلطائي : 97/5)
ایسے راوی کی روایت ”حسن” درجے سے کم نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر 5 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘اَللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا، اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي یَمَنِنَا’، فَقَالَھَا مِرَارًا، فَلَمَّا کَانَ فِي الثَّالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ، قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! وَفِي عِرَاقِنَا، قَالَ : ‘[إِنَّ] بِھَا الزَّلَازِلَ وَالْفِتَنَ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’
”اے اللہ! ہمارے شام کو بابرکت بنا دے،اللہ! ہمارے یمن کو بابرکت بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کئی مرتبہ فرمائی۔جب تیسری یا چوتھی مرتبہ ہوئی تو لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول! ہمارے عراق کے لیے بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عراق تو زلزلوں اور فتنوں کی سرزمین ہے۔یہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : 293/12، ح : 13422، مسند البزّار : 5880، وسندہ، حسنٌ)
حدیث نمبر 6 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمِ قَالَ : ‘اللّٰھُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا’، مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ الرَّجُلُ : وَفِي مَشْرِقِنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ ! فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘مِنْ ھُنَالِکَ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، وَبِھَا تِسْعَۃُ أَعْشَارِ الشَّرِّ’ . ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں خیروبرکت فرما۔یہ دُعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمائی۔ایک نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمارے مشرق کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا اور دنیا کا نوے فی صد شر وہیں پر ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : 90/2، وسندہ، حسنٌ)
اس کے راوی عبیداللہ بن میمون کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَعْرُوفُ الْحَدِیثِ . ”اس کی حدیث معروف ہے۔”
(التاریخ الکبیر : 388/3، ت : 1247)
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صَالِحُ الْحَدِیثِ .
”اس کی حدیث حسن ہے۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 322/5)
حدیث نمبر 7 : نافع تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یوں دُعا فرمائی: [اَللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَیَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، فَقَالَ : قَالَ : [اللّٰہُمَّ ! بَارِکْ لَنَا فِي شَأْمِنَا وَفِي یَمَنِنَا]، قَالَ : قَالُوا : وَفِي نَجْدِنَا، قَالَ : قَالَ : [ھُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِھَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ] . ”اے اللہ!ہمارے شام اوریمن میں برکت فرما۔کچھ لوگوں نے کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔انہوںنے فرمایا: اے اللہ!ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما۔لوگوں نے پھر کہا : ہمارے نجد کے بارے میں بھی دُعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا : وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں پر شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔”
(صحیح البخاري : 141/1، ح : 1037)
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یہ الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں۔اس روایت میں اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، لیکن یہ بھی حکماً مرفوع ہے۔
اس بارے میں شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) لکھتے ہیں :
ھٰکَذَا وَقَعَ فِي ھٰذِہِ الرِّوَایَاتِ الَّتِي اتَّصَلَتْ لَنَا بِصُورَۃِ الْمَوْقُوفِ عَنِ ابْنِ عُمَر، قَالَ : [اللّٰھُمَّ بَارِکْ ۔۔۔]، لَمْ یَذْکُرِ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ الْقَابِسِيُّ : سَقَطَ ذِکْرُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ النُّسْخَۃِ، وَلَا بُدَّ مِنْہُ، لِأَنَّ مِثْلَہ، لَا یُقَالُ بِالرَّأْيِ . ”جو روایات ہمارے پاس سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر موقوف صورت میں پہنچی ہیں،ان میں اسی طرح ہے کہ انہوں نے خود یہ دُعا کی ہے،اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔قابسی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر صحیح بخاری کے نسخے سے گر گیا ہے۔یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ضروری ہے،کیونکہ ایسی بات کوئی صحابی اپنے قیاس سے نہیں کہہ سکتا۔”(فتح الباري : 522/2)
حدیث نمبر 8 : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے صاحبزادے سالم رحمہ اللہ نے عراق والوں کو مخاطب کر کے فرمایا: یَا أَھْلَ الْعِرَاقِ ! مَا أَسْأَلَکُمْ عَنِ الصَّغِیرَۃِ وَأَرْکَبَکُمْ لِلْکَبِیرَۃِ ! سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ : ‘إِنَّ الْفِتْنَۃَ تَجِيءُ مِنْ ھٰھُنَا، ـــ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ نَحْوَ الْمَشْرِقِ ـــ مِنْ حَیْثُ یَطلُعُ قَرْنَا الشَّیْطَانِ’ .
”عراق کے باشندو! تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف تم چھوٹے چھوٹے مسائل بہت پوچھتے ہو اور دوسری طرف کبیرہ گناہوں کے ارتکاب میں اتنے دلیر ہو !میں نے اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا : فتنہ یہاں سے آئے گا اور یہیں سے شیطان کے سینگ طلوع ہوں گے، ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک کے ساتھ مشرق کی طرف اشارہ فرمایا۔”
(صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[50])
حدیث نمبر 9 : سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے :
خَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ، فَقَالَ : ‘رَأْسُ الْکُفْرِ مِنْ ھٰھُنَا، مِنْ حَیْثُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ، یَعْنِي الْمَشْرِقَ’ .
”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے نکلے تو فرمایا : مشرق کفر کا سرچشمہ ہے،وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔” (صحیح مسلم : 394/2، ح : 2905[48])
حدیث نمبر 0 : بدری صحابی سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :
‘مِنْ ھٰھُنَا جَاءَ تِ الْفِتَنُ، نَحْوَ الْمَشْرِقِ’ .
”فتنے مشرق ہی کی طرف سے آئیں گے۔”(صحیح البخاري : 496/1، ح : 3498)
تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ .(یہ پوری دس دلیلیں ہیں)
صحیح احادیث کی تفسیر اہل علم سے
لغوی طور پر ”نجد” بلند علاقے کو کہتے ہیں۔اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے نجد ہیں،لیکن مذکورہ احادیث میں ”نجد” کی تشریح ”مشرق” اور ”عراق” سے ہوئی ہے۔ثابت ہوا کہ جو نجدفتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا،وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔صحیح احادیث ِنبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔اسی بارے میں مشہور لغوی ابن منظور افریقی(711-630ھ)لکھتے ہیں:
مَا ارْتَفَعَ مِنْ تِھَامَۃَ إِلٰی أَرْضِ الْعِرَاقِ، فَھُوَ نَجْدٌ .
”تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے،وہ نجد ہے۔”(لسان العرب : 413/3)
احادیث ِنبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر(606-544ھ)لکھتے ہیں :
وَالنَّجْدُ : مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَھُوَ اسْمٌ خَاصٌّ لِّمَا دُونَ الْحِجَازِ، مِمَّا یَلِي الْعِرَاقَ . ”نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔”(النھایۃ في غریب الحدیث والأثر : 19/5)
علامہ خطابی رحمہ اللہ (388-319ھ) ”نجد” کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَالْغَوْرُ مَا انْخَفَضَ مِنْھَا، وَتِھَامَۃُ کُلُّھَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمِنْھَا مَکَّۃُ، وَالْفِتْنَۃُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمِنْ نَّاحِیَتِھَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، فِي أَکْثَرِ مَا یُرْوٰی مِنَ الْـأَخْبَارِ .
”مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔نشیبی علاقے کو غَور کہتے ہیں۔تہامہ کا سارا علاقہ غَور ہے۔مکہ بھی اسی غَور میں واقع ہے۔اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا،اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلےں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔”
(إعلام الحدیث للخطابي : 1274/2ـــ ط ـــ المغربیّۃ)
امام اندلس حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463-368ھ)لکھتے ہیں :
إِشَارَۃُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ـــ وَاللّٰہُ أَعْلَمُ ـــ إِلٰی نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ بِالْفِتْنَۃِ لِأَنَّ الْفِتْنَۃَ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، ھِيَ قَتْلُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَھِيَ کَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ، وَحُرُوبِ صِفِّینَ، کَانَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ .
”واللہ اعلم! رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین ،یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔”
(الاستذکار : 519/8)
علامہ ابو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک العروف بہ ابن بطال(م : 449ھ)لکھتے ہیں :
قَالَ الْخَطَّابِيُّ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ، کَقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتْنَۃِ وَطُلُوعِھَا مِنْ نَّاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ : ‘وَمِنْہُ یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَقَالَ فِي الشَّمْسِ : إِنَّھَا تَطْلُعُ بَیْنَ قَرْنَيِ الشَّیْطَانِ، وَالْقَرْنُ : الْـأُمَّۃُ مِنَ النَّاسِ یُحْدَثُونَ بَعْدَ فَنَاءِ آخَرِینَ، قَالَ الشَّاعِرُ :
مَضَی الْقَرْنُ الَّذِي أَنْتَ مِنْھُمْ ۔۔۔۔۔۔ وَخَلَفْتَ فِي قَرْنٍ فَأَنْتَ غَرِیب،
وَقَالَ غَیْرُہ، : کَانَ أَھْلُ الْمَشْرِقِ یَوْمَئِذٍ أَھْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ، وَھِيَ مَقْتَلُ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَکَانَتْ سَبَبَ وَقْعَۃِ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ، ثُمَّ ظُھُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَاءَ ھَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَعْلُومٌ أَنَّ الْبِدَعَ إِنَّمَا ابْتَدَأَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَإِنَّ الَّذِینَ اقْتَتَلُوا بِالْجَمَلِ وَصِفِّینَ، بَیْنَھُمْ کَثِیرٌ مِّن أَھْلِ الشَّامِ وَالْحِجَازِ، فَإِنَّ الْفِتْنَۃَ وَقَعَتْ فِي نَاحِیَۃِ الْمَشْرِقِ، وَکَانَ سَبَبًا إِلَی افْتِرَاقِ کَلِمَۃِ الْمُسْلِمِینَ، وَفَسَادِ نِیَّاتِ کَثِیرٍ مِّنْھُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُہ، قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ دَلِیلٌ عَلٰی نَبُوَّتِہٖ .
”حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے،جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تُو رَہ جائے تو اس وقت تُو اجنبی ہے۔ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا ،وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا۔یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔پھر خوارج کا ظہور بھی نجد،عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی،ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی،لہٰذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔”
(شرح صحیح البخاري : 44/10)
حافظ ابن الجوزی(597-508ھ)لکھتے ہیں : أَمَّا تَخْصِیصُ الْفِتَنِ بِالْمَشْرِقِ، فَلِأَنَّ الدَّجَّالَ یَخْرُجُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِِِ، وَکَذٰلِکَ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ، وَأَمَّا ذِکْرُ قَرْنِ الشَّیْطَانِ، فَعَلٰی سَبِیلِ الْمَثَلِ، کَأَنَّ إِبْلِیسَ یَطْلُعُ رَأْسُہ، بِالْفِتَنِ مِنْ تِلْکَ النَّوَاحِي .
”مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔”
(کشف المشکل علی الصحیحین : 493/2)
شارحِ بخاری،علامہ کرمانی ”نجد”اور ”غَور” کا معنیٰ واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ الطَّیِّبَۃِ ــــ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَاکِنِھَا ــــ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَھَا، وَھِيَ مَشْرِقُ أَھْلِھَا، وَلَعَلَّ الْمُرَادَ مِنَ الزَّلَازِلِ وَالِاضْطِرَابَاتِ الَّتِي بَیْنَ النَّاسِ مِنَ الْبَلَایَا، لِیُنَاسِبَ الْفِتَنَ مَعَ احْتِمَالِ إِرَادَۃِ حَقِیقَتِھَا، قِیلَ : إِنَّ أَھْلَ الْمَشْرِقِ کَانُوا حِینَئِذٍ أَھْلَ الْکُفْرِ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ نَّاحِیَتِھِمْ، کَمَا أَنَّ وَقْعَۃَ الْجَمَلِ وَصِفِّینَ وَظُہُورَ الْخَوَارِجِ مِنْ أَھْلِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَالَاھَا کَانَتْ مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَذٰلِکَ یَکُونُ خُرُوجُ الدَّجَّالِ وَیَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِنْھَا، وَقِیلَ : الْقَرْنُ فِي الْحَیَوَانِ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِیمَا لَا یُحْمَدُ مِنَ الْـأُمُورِ . ”مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔یہی بات فتنوں کے حسب ِحال ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد وعراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔اسی طرح دجال اور یاجوج وماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لیے مستعمل ہے۔”
(شرح الکرماني للبخاري : 168/24)
شارحِ بخاری،علامہ عینی حنفی(859-762ھ)امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘الْفِتْنَۃُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ’ کے تحت لکھتے ہیں :
مُطَابَقَتُہ، لِلتَّرْجِمَۃِ فِي قَوْلِہٖ : ‘وَہُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِہَا یَطْلُعُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، وَأَشَارَ بِقَوْلِہٖ : ‘ہُنَاکَ’ نَجْدٌ، وَنَجْدٌ مِّنَ الْمَشْرِقِ، قَالَ الْخَطَّابِيُّ : نَجْدٌ مِّنْ جِہَۃِ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ کَانَ بِالْمَدِینَۃِ کَانَ نَجْدُہ، بَادِیَۃَ الْعِرَاقِ وَنَوَاحِیَہَا، وَہِيَ مَشْرِقُ أَہْلِ الْمَدِینَۃِ، وَأَصْلُ النَّجْدِ مَا ارْتَفَعَ مِنَ الْـأَرْضِ، وَہُوَ خِلَافُ الْغَوْرِ، فَإِنَّہ، مَا انْخَفَضَ مِنْہَا، وَتِہَامَۃُ کُلُّہَا مِنَ الْغَوْرِ، وَمَکَّۃُ مِنْ تِہَامَۃِ الْیَمَنِ، وَالْفِتَنُ تَبْدُو مِنَ الْمَشْرِقِ، وَمَنْ نَّاحِیَتِہَا یَخْرُجُ یَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَالدَّجَّالُ، وَقَالَ کَعْبٌ : بِہَا الدَّاءُ الْعُضَّالُ، وَہُوَ الْہَلَاکُ فِي الدِّینِ، وَقَالَ الْمُہَلَّبُ : إِنَّمَا تَرَکَ الدُّعَاءَ لِأَہْلِ الْمَشْرِقِ، لِیَضْعُفُوا عَنِ الشَّرِّ الَّذِي ہُوَ مَوْضُوعٌ فِي جِہَتِہِمْ لِاسْتِیلَاءِ الشَّیْطَانِ بِالْفِتَنِ .
”اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایااور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔کعب کہتے ہیں : مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لیے دُعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔”
(عمدۃ القاري في شرح صحیح البخاري : 200/24)
نیز لکھتے ہیں : وَإِنَمَا أَشَارَ إِلَی الْمَشْرِقِ لِأَنَّ أَہْلَہ، یَوْمَئِذٍ کَانُوا أَہْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، وَکَذٰلِکَ کَانَتْ، وَہِيَ وَقْعَۃُ الْجَمَلِ وَوَقْعَۃُ صِفِّینَ، ثُمَّ ظُہُورُ الْخَوَارِجِ فِي أَرْضِ نَجْدٍ وَّالْعِرَاقِ وَمَا وَرَائَہَا مِنَ الْمَشْرِقِ، وَکَانَتِ الْفِتْنَۃُ الْکُبْرَی الَّتِي کَانَتْ مِفْتَاحَ فَسَادِ ذَاتِ الْبَیْنِ قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ، وَکَانَ یُحَذِّرُ مِنْ ذٰلِکَ وَیُعْلِمُ بِہٖ قَبْلَ وُقُوعِہٖ، وَذٰلِکَ مِنْ دَلَالَاتِ نَبُوَّتِہٖ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل وصفین اور خوارج کا ظہور نجدوعراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا،وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔”
(عمدۃ القاري في شرح صحیح البخاري : 199/24)
شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)فرماتے ہیں :
وَقَالَ غَیْرُہ، : کَانَ أَہْلُ الْمَشْرِقِ یَوْمَئِذٍ أَہْلَ کُفْرٍ، فَأَخْبَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْفِتْنَۃَ تَکُونُ مِنْ تِلْکَ النَّاحِیَۃِ، فَکَانَ کَمَا أَخْبَرَ، وَأَوَّلُ الْفِتَنِ کَانَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، فَکَانَ ذٰلِکَ سَبَبًا لِّلْفُرْقَۃِ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، وَذٰلِکَ مِمَّا یُحِبُّہُ الشَّیْطَانُ وَیَفْرَحُ بِہٖ، وَکَذٰلِکَ الْبِدَعُ نَشَأَتْ مِنْ تِلْکَ الْجِہَۃِ .
”علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔”(فتح الباري : 47/13)
تمام گمراہ اور ظالم فرقے،مثلاًرافضی،جہمی،قدریہ،وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا۔
شارحِ ترمذی،علامہ محمد عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ)اس حدیث کے الفاظ ‘یَخْرُجُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’کی شرح میں فرماتے ہیں :
‘یَخْرُجُ قَرْنُ الشَّیْطَانِ’، أَي حِزْبُہ، وَأَہْلُ وَقْتِہٖ وَزَمَانِہٖ وَأَعْوَانُہ،، ذَکَرَہُ السُّیُوطِيُّ، وَقِیلَ : یَحْتَمِلُ أَنْ یُّرِیدَ بِالْقَرْنِ قُوَّۃَ الشَّیْطَانِ، وَمَا یَسْتَعِینُ بِہٖ عَلَی الْإِضْلَالِ .
”علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ،اس کادور اور اس کے معاونین ہیں۔ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔”(تحفۃ الأحوذي : 381/4)
‘رَأْسُ الْکُفْرِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ’کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م : 1014ھ) لکھتے ہیں : رَأْسُ الْکُفْرِ، أَي مُعْظَمُہ،، ذَکَرَہُ السُّیُوطِيُّ، وَالْـأَظْھَرُ أَنْ یُّقَالَ : مَنْشَأُہ، نَحْوَ الْمَشْرِقِ . ”سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔زیادہ بہتر یہ معنیٰ ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔”
(مرقاۃ المفاتیح في شرح مشکاۃ المصابیح : 4039/9، ح : 6268)
نیز لکھتے ہیں : وَقَالَ النَّوَوِيُّ : الْمُرَادُ بِاخْتِصَاصِ الْمَشْرِقِ بِہٖ مَزِیدُ تَسَلُّطِ الشَّیْطَانِ عَلٰی أَہْلِ الْمَشْرِقِ، وَکَانَ ذٰلِکَ فِي عَہْدِہٖ ـــ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ــــ وَیَکُونُ حِینَ یَخْرُجُ الدَّجَّالُ مِنَ الْمَشْرِقِ، فَإِنَّہ، مَنْشَأُ الْفِتَنِ الْعَظِیمَۃِ وَمَثَارُ الْکُفْرِ . ”علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔”(مرقاۃ المفاتیح في شرح مشکاۃ المصابیح : 4037/9، ح : 6268)
فائدہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا :
‘ھَلْ تَرَوْنَ مَا أَرٰی ؟ قَالُوا : لَا، قَالَ : فَإِنِي لَـأَرَی الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُیُوتِکُمْ کَوَقْعِ الْقَطْرِ’ .
”جو میں دیکھ رہا ہوں،کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں اللہ کے رسول! فرمایا : بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔”
(صحیح البخاري : 1046/2، ح : 7060، صحیح مسلم : 389/1، ح : 2885)
اس حدیث ِنبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع و تطبیق کرتے ہوئے شارحِ بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ) فرماتے ہیں :
وَإِنَّمَا اخْتُصَّتِ الْمَدِینَۃُ بِذٰلِکَ، لِأَنَّ قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ کَانَ بِہَا، ثُمَّ انْتَشَرَتِ الْفِتَنُ فِي الْبِلَادِ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَالْقِتَالُ بِالْجَمَلِ وَبِصِفِّینَ کَانَ بِسَبَبِ قَتْلِ عُثْمَانَ، وَالْقِتَالُ بِالنَّہْرَوَانِ کَانَ بِسَبَبِ التَّحْکِیمِ بِصِفِّینَ، وَکُلُّ قِتَالٍ وَّقَعَ فِي ذٰلِکَ الْعَصْرِ إِنَّمَا تَوَلَّدَ عَنْ شَيءٍ مِّنْ ذٰلِکَ، أَوْ عَنْ شَيءٍ تَوَلَّدَ عَنْہُ، ثُمَّ إِنَّ قَتْلَ عُثْمَانَ کَانَ أَشَدَّ أَسْبَابِہِ الطَّعْنُ عَلٰی أُمَرَائِہٖ، ثُمَّ عَلَیْہِ بِتَوَلِّیَتِہٖ لَہُمْ، وَأَوَّلُ مَا نَشَأَ ذٰلِکَ مِنَ الْعِرَاقِ، وَہِي مِنْ جِہَۃِ الْمَشْرِقِ، فَلَا مُنَافَاۃَ بَیْنَ حَدِیثِ الْبَابِ وَبَیْنَ الْحَدِیثِ الْآتِي أَنَّ الْفِتْنَۃَ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ .
”اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی،جبکہ (خوارج کے خلاف)جنگ نہروان کا سبب جنگ ِصفین میں تحکیم والامعاملہ بنا۔اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت ِعثمان سے تھا۔پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔عراق (مدینہ منورہ کے)مشرق کی سمت میں واقع ہے۔یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق)ہی ہے۔”(فتح الباري : 13/13)
الحاصل : احادیث ِنبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.