3,329

وسیلہ کی شرعی حیثیت۔۔۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

وسیلہ کی تین قسمیں ہیں ،

غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

 ان میں سے دو مشروع و جائز ہیں اور تیسری غیر مشروع و ناجائز ہے ، وسیلہ کی ایک مشروع اور جائز قسم یہ ہے کہ انسا ن اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کرے ، جیسا کہ تین آدمیوں کا غار کے پتھر والا واقعہ مشہور ہے ، جنہوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا تھا ، ان کی پریشانی رفع ہوگئی تھی ۔
(صحیح بخاری : ٢/٨٨٣ ، ح : ٥٩٧٤، صحیح مسلم : ٢/٣٥٣ ، ح : ٢٧٤٣)
وسیلہ کی دوسری مشروع صورت یہ ہے کہ کسی صالح اور موحد انسان سے دعا کرائی جائے ، جیسا کہ سورہئ نساء (٦٤)میں اس کا ثبوت مذکور ہے ، ایک نابینا شخص نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی تھی ۔(سنن ترمذی : ٣٥٧٨ ، وسندہ، حسن)اور سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب سے دعا کروائی تھی۔(صحیح بخاری : ١/١٣٧ ، ح : ١٠١٠)
وسیلہ کی غیر مشروع اور ناجائز صورت یہ ہے کہ حاضر یا غائب ، زندہ یا فوت شدہ کی ذات کا وسیلہ پیش کیا جائے یا صاحب ِ قبر کو یہ کہا جائے کہ آپ میرے حق میں دعا اور سفارش کریں ۔ صحابہ کرام yمیں سے کسی نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پیش نہیں کیا ، سلف صالحین اور ائمہ محدثین سے بھی یہ قطعاًثابت نہیں ہے ۔
پہلی وجہ :      وسیلہ کی اس صورت کے غیر مشروع اور ناجائز و ممنوع ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ بدعت ہے ، قرآن وحدیث میں اس کا ثبوت نہیں ، صحابہ کرام اور سلف صالحین کا اس پر عمل نہیں ، نبی اکر م  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمانِ گرامی ہے :     من عمل عملا ، لیس علیہ أمرنا ، فھو ردّ ۔
”جو آدمی کو ئی ایسا کام کرے جس پر ہمارا امر نہ ہو ، وہ مردود ہے ۔”(صحیح مسلم : ٢/٧٧ ، ١٧١٨/١٨)
قال الامام اسحاق بن راھویہ ، أخبرنا یونس ، نا ابن جریج عن عطاء ، قال : سمعت ابن عبّاس یقول : عجبا لترک النّاس ھذا الاھلال ولتکبیرھم ما بی ، الّا أن یکون التّکبیرۃ حسنا ، ولکنّ الشّیطان یأتی الانسان من قبل الاثم ، فاذا عصم منہ جاء ہ من نحو البرّ لیدع سنّۃ ، ولیبتدع بدعۃ ۔    ”سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، لوگوں کے اس تلبیہ اور تکبیر کے چھوڑ دینے پر تعجب ہے ، میرے نزدیک تکبیر اچھی چیز ہے ، لیکن شیطان انسان کے پاس گناہ کے دروازے سے آتا ہے ، جب وہ اس سے بچ جائے تو وہ اس کے پاس نیکی کے دروازے سے آتا ہے ، تاکہ وہ سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اپنا لے ۔”
(مسند اسحاق بن راہویہ : ٤٨٢، وسندہ، صحیح)
امام ابنِ جریج  رحمہ اللہ کہتے ہیں :     عطاء ، فأنا سمعتہ منہ ، وان لم أقل سمعت ۔
”میں نے امام عطاء بن ابی رباح سے سنا ہوتا ہے ، اگرچہ میں سننے کی صراحت نہ بھی کروں ۔”
(تاریخ ابن ابی خیثمۃ : ٢/٢٤١، ٢٤٧، وسندہ، صحیح)
لہٰذا ثابت ہوا کہ امام ابنِ جریج کی امام عطاء بن ابی رباح سے ”عن” والی روایت بھی سماع پر محمول ہو گی ۔
دوسری وجہ :     اس وسیلہ کے غیر مشروع اور ناجائز ہونے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دین میں غلو ّ ہے ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے :      وایّاکم والغلوّ فی الدّین ، فانّما أھلک من کان قبلکم الغلوّ فی الدّین ۔    ”تم دین میں غلو سے بچو ، تم سے پہلے لوگوں کو دین میں غلو نے ہی ہلاک کر دیا تھا ۔”(مسند الامام احمد : ١/٢١٥ ، سنن نسائی : ٣٠٥٩ ، سنن ابن ماجہ : ٣٠٢٩ ، مسند ابی یعلیٰ : ٢٤٢٧ ، المستدرک للحاکم : ١/٤٦٦ ، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کوامام ابن الجارود(٤٧٣) ، امام ابنِ خزیمہ (٢٨٦٧)، امام ابنِ حبان (٣٨٧١)نے ”صحیح” اور امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس کو امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر ”صحیح” کہا ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ہر بدعت کا منشاء دین میں غلو ہے ، دین میں غلو ہلاکت و بربادی کا موجب ہے ۔
تیسری وجہ :     سلف صالحین راہِ اعتدال پر تھے ، سنت کے متبع تھے ، وسیلہ کی اس قسم کا ان کی زندگیوں میں ثبوت نہیں ملتا ، سلف صالحین کی پیروی اہل سنت والجماعت کا شعار ہے ، ان کی مخالفت اہل بدعت کا شیوہ ہے ، شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ثمّ سلف الأمّۃ وأئمّتھا وعلمائھم الی ھذا التّاریخ ، سلکوا سبیل الصّحابۃ فی التّوسّل فی الاستسقاء بالأحیاء الصّالحین الحاضرین ، ولم یذکر أحد منھم فی ذلک التّوسّل بالأموات ، لا من الرّسل ، ولا من الأنبیاء ، ولا من الصّالحین ۔    ”پھر امت کے اسلاف وائمہ اور علمائے کرام آج کے دن تک بارش طلب کرنے کے حوالے سے نیک زندہ لوگوں کا وسیلہ لینے میںصحابہ کرام yکے طریقے پر چلے ہیں ، ان میں سے کسی ایک سے بھی یہ منقول نہیں کہ انہوں نے مردوں کا وسیلہ پیش کیا ہو ، نہ رسولوں کا ، نہ انبیاء کا اور نہ عام نیک لوگوں کا ۔”(الرد علی البکری لابن تیمیۃ : ص ١٢٦۔١٢٧)
شارحِ ترمذی امام محمد عبدالرحمن مبارکپوری  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      قلت : الحقّ عندی أنّ التّوسّل بالنّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم فی حیاتہ بمعنی التّوسّل بدعائہ وشفاعتہ جائز ، وکذا التّوسّل بغیرہ من أھل الخیر والصّلاح فی حیاتھم بمعنی التّوسّل بدعائھم وشفاعتھم أیضا جائز ، وأمّا التّوسّل بہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد مماتہ ، وکذا التّوسّل بغیرہ من أھل الخیر والصّلاح بعد مماتھم ، فلا یجوز واختارہ الامام ابن تیمیۃ ۔۔۔
” میرے نزدیک حق بات یہ ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے وسیلہ سے مراد آپ کی دعا اور سفارش والا وسیلہ ہے جو کہ جائز ہے ، اسی طرح نیک لوگوں سے ان کی زندگی میں ان کی دعا اور سفارش والا وسیلہ پکڑنا بھی جائز ہے ، رہا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی ذات کا وسیلہ پکڑنا ،اسی طرح نیک لوگوں کا ان کی وفات کے بعد وسیلہ پکڑنا تو یہ ناجائز ہے ، اسی بات کو امام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے ۔”
(تحفۃ الاحوذی : ٤/٢٨٣)
وسیلہ کی اس ممنوع و ناجائز صورت پردیئے جانے والے دلائل کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے :
قرآنی دلیل نمبر 1:     (وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُ وْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا)(النساء : ٦٤)
”اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں ، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے ۔”
تبصرہ :     اس آیت ِ مبارکہ میں تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ گناہ گا ر لوگ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر خود اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کا سوال کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دے گا ، دعا تو مشروع وسیلہ ہے ، اس آیت ِ کریمہ میں فوت شدگان کا وسیلہ پکڑنے کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ، یہ ہماری دلیل ہے جو وسیلہ کی مشروع صورت پر مبنی ہے ، نہ کہ اہل بدعت کی جو وسیلہ ”بالذوات وبالاموات” کے قائل ہیں ۔
اس آیت کے ضمن میں حافظ ابنِ کثیر ”العتبی” نامی آدمی کا ایک بے سند و بے ثبوت واقعہ بھی لائے ہیں۔
تنبیہ : ”ابو حرب ہلال کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے فریضہ ئ حج ادا کیا ، پھر وہ مسجد نبوی کے دروازے پر آیا ، وہاں اپنی اونٹنی بٹھاکراسے باندھنے کے بعد وہ مسجد میں داخل ہوگیا ، یہاں تک کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا اور آپ کے پاؤں مبارک کی جانب کھڑا ہوگیا اور کہا ، السّلام علیک یا رسول اللّٰہ ! ، پھر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا ، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہا ، اے اللہ کے رسول !میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں گناہ گار ہوں ، اس لیے آیا ہوں تاکہ اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بنا سکوں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ مجید میں فرمایا ہے : (وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَھُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُ وْا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا)(النساء : ٦٤)
(شعب الایمان للبیہقی : ٣/٤٩٥ ، ح : ٤١٧٨ ، وفی نسخۃ : ٣٨٨٠)
تبصرہ :     یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے ، کیونکہ :     1اس کی سند میں یزید بن ابان الرقاشی راوی ہے جوکہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ضعّفہ الجمہور ۔
”اس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(مجمع الزوائد : ١٠/١٠٥)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس کو ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔(تقریب التھذیب : ٧٦٨٣)
2محمد بن روح بن یزید المصری راوی کے حالات نہیں مل سکے ۔
3ابو حرب ہلال کا ترجمہ و توثیق بھی مطلوب ہے ۔
4عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسین کے حالات و توثیق درکار ہے ۔
معلوم ہوا کہ یہ ”ضعیف” اور ”مجہول” راویوں کی کارستانی ہے ، جس سے دلیل لینا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔
قرآنی دلیل نمبر 2:     (یٰۤأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْۤا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ)(المائدۃ : ٣٥)
”اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو سکو ۔”
تبصرہ :     بالاتفاق اس وسیلہ سے مراد نیک اعمال ہیں ، جیسا کہ حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وھذا الّذی قالہ ھؤلاء الأئمۃ لا خلاف بین المفسّرین ۔
”ان ائمہ کرام نے جو فرمایا ہے ، اس میں مفسرین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ۔”(تفسیر ابن کثیر: ٢/٥٣٥)
نیک اعمال کا وسیلہ پکڑنا مشروع اور جائز ہے ، یہ اہل سنت والجماعت کی زبردست دلیل ہے ، اہل بدعت کا اس سے فوت شدگان کے وسیلہ پر دلیل پکڑنا قرآنِ مجید کی معنوی تحریف اور تاویلِ باطل ہے ۔
حدیثی دلائل
1    سیدنا عثمان بن حنیف  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی ، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے شفادے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اگر آپ چاہیں تو دعا کر دیتا ہوں اور اگر چاہیں تو صبر کرلیں ، وہ آپ کے لیے بہتر ہے ، اس نے کہا ، آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر دیں، اس نے کہا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اچھی طرح سنوار کر وضو کرنے اور پھر دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا کرنے کا حکم دیا :     اللّٰھم انّی أسئلک وأتوجّہ الیک بنبیّی محمّد نبیّ الرّحمۃ ، یا محمّد ! انّی أتوجّہ الی ربّی بک أن یکشف لی عن بصری ، اللّٰھم شفّعہ فیّ وشفّعنی فی نفسی ۔
”اے اللہ ! بے شک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں اپنے نبی ئ رحمت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف (دعا کے لیے )متوجہ کرتا ہوں ، اے محمد ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے )متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری نظر لوٹا دے ، اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی کی سفارش قبول فرما اور خود میری سفارش بھی قبول فرما ۔
جب وہ واپس لوٹا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی نظر لوٹا دی تھی ۔”(مسند الامام احمد : ٤/١٣٨ ، سنن الترمذی : ٣٥٧٨ ، السنن الکبرٰی ، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی : ٦٥٩ ، واللفظ لہ ، سنن ابن ماجہ : ١٣٨٥ ، مسند عبد بن حمید : ٣٧٩ ، وسندہ، حسن)
”اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح غریب” اور امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (١٢١٩) نے ”صحیح” کہا ہے ، امام ابن ماجہ  رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابو اسحاق نے کہا ہے کہ یہ حدیث ”صحیح” ہے ، امام حاکم  رحمہ اللہ (١/٣١٣)نے اس حدیث کو ”صحیح علی شرط الشیخین” قرار دیا ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اہل بدعت نے اس حدیث سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ گرامی کے وسیلہ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کا یہ استدلال باطل ، بلکہ ابطل الاباطیل ہے ، کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی ، جواب میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرآپ چاہیں تو میں دعا کر دیتا ہے ، اگر دعا نہ کروائیں اور بیماری پر صبر کریں تو بہتر ہے ، لیکن صحابی مذکور نے آپ کی دعا کو ترجیح دی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں دعا و سفارش فرما دی ، اس کو اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا ، پھر دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور اس کو دعا کے الفاظ بھی سکھا دئیے ، اس نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے حق میں دعا بھی کر دی اور کہا ،”اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اور خود میری دعا وسفارش قبول فرما ۔”
اس حدیث میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ اقدس کے وسیلہ کا ذکر تک نہیں ، بلکہ آپ کی حیات ِ طیبہ میں آپ کی دعا وسفارش کا وسیلہ پیش کرنے کا ذکر ہے ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں یا وفات کے بعد کسی صحابی سے آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا قطعاً ثابت نہیں ، حیات ِ مبارکہ میں آپ کی عدم موجودگی میں ذات کا وسیلہ پیش کرنا قطعاً ثابت نہیں ہے ، اسی طرح آپ کی وفات کی بعد کسی صحابی یا تابعی سے آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا اور آپ کی قبر مبارک پر جاکر دعا کرنا ثابت نہیں ہے ، مدعی پر دلیل لازم ہے ۔
دلیل نمبر 2:     ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان  رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آجایا کرتا تھا اور عثمان  رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے)اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے تھے ، وہ عثمان بن حنیف  رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے جا کر شکایت کی ، سیدنا عثمان بن حنیف نے اس سے کہا ، لوٹا لاؤ، وضو کرو ، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو ، پھر کہو :     اللّٰھم انّی أسئلک ، وأتوجّہ الیک بنبیّنا محمّد صلی اللہ علیہ وسلم نبیّ الرّحمۃ ، یا محمّد ! انّی أتوجّہ الی ربّی ، فیقضی حاجتی ۔
”اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ، میں اپنے نبی رحمت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں ، اے محمد ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے)متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے ۔”
پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو ، پھر میرے پاس آجاؤ تاکہ میں آپ کے ساتھ چلوں ، اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی ، سیدنا عثمان بن حنیف  رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی تو اس کی تکلیف بھی دور ہو گئی تھی ۔”(التاریخ الکبیر للبخاری : ٦/٢١٠ ، العلل لابن ابی حاتم الرازی : ٢/١٩٠ ، المعجم الکبیر للطبرانی : ٩/٣٠۔٣١ ، ح ٨٣١١ ، المعجم الصغیر للطبرانی : ١/١٨٣۔١٨٤، الدعاء للطبرانی : ٢/١٢٨٧۔١٢٨٨ ، ح : ١٠٥٠ ، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبھانی : ٤/١٩٥٩۔١٩٦٠ ، ح : ٤٩٢٨)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، کیونکہ : 1 عبداللہ بن وہب المصری ”مدلّس” ہیں اور ”عن” سے روایت کر رہے ہیں ، یہ مسلّم اصول ہے کہ جب ثقہ راوی بخاری ومسلم کے علاوہ ”عن” یا ”قال” کہہ کر روایت کرے تو وہ ”ضعیف” ہوتی ہے ۔
2    عبداللہ بن وہب المصری یہ روایت اپنے استاذ شعیب بن سعید الحبطی (ثقہ) سے کر رہے ہیںاور خود شعیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں ، امام الجرح والتعدیل ابن عدی  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :     ولشعیب بن سعید نسخۃ الزّھریّ عندہ عن یونس عن الزّھریّ ، وھی أحادیث مستقیمۃ ، وحدث عنہ ابن وھب بأحادیث مناکیر ۔
”شعیب کے پاس ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں ، ابنِ وہب نے ان سے منکر احادیث بیان کی ہیں ۔”(الکامل لابن عدی : ٤/٣١)
یہ روایت بھی شعیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں ، یہ جرح مفسرہے ، لہٰذا یہ روایت ”ضعیف” اور ”منکر” ہے ، مطلب یہ ہے کہ شعیب بن سعید جب مصر میں گئے توو ہاں انہوں نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں ،جن میں سے یہ غلطی اور وہم کا شکار ہوگئے ۔
اعتراض :     شعیب بن سعید ابو سعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے ۔
جواب : حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     أخرج البخاریّ من روایتہ ابنہ (أحمد) عن یونس (بن یزید الأیلیّ) أحادیث لم یخرج من روایتہ عن غیر یونس ، ولا من روایۃ ابن وہب عنہ شیأا ۔۔۔
”امام بخاری  رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے یونس بن یزید الایلی کی سند سے یونس کے علاوہ اور راویوں سے روایات لی ہیں ، ابنِ وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں نہیں ہے ۔”(ھدی الساری : ٤٠٩)
ثابت ہوا کہ شعیب بن سعید سے وہ روایت جو عبداللہ بن وہب المصری کے علاوہ کسی اور راوی نے بیان کی ہو اور وہ روایت اس نے اپنے استاذ یونس بن یزید الایلی سے کی ہو ، وہ ”صحیح” اور دوسری ”ضعیف” ہوتی ہے ۔
الحاصل :     شعیب بن سعید سے اس کا شاگرد عبداللہ بن وہب المصری بیان کرے تو روایت ”منکر” اور ”ضعیف” ہوگی ، یہ روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں ، لہٰذا یہ ”منکر”’ اور ”ضعیف” ہے ، لہٰذا امام طبرانی  رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح” کہنا صحیح نہ ہوا ۔
تنبیہ :     اگر کوئی یہ کہے کہ عون بن عمارہ البصری نے شعیب بن سعید بن متابعت کر رکھی ہے ۔                  (المستدرک للحاکم : ١/٥٢٦ ، معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبھانی : ٤٩٢٩)
تو اس کا جواب یہ ہے کہ عو ن بن عمارہ البصری ”ضعیف” ہے ۔(تقریب التھذیب لابن حجر)
لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ عون بن عمارہ والی روایت میں ان الفاظ کی زیادتی موجودنہیں ۔
دلیل نمبر 3:     سیدناانس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
انّ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کان اذا قحطوا استسقیٰ بالعبّاس بن عبد المطّلب رضی اللہ عنہ ، فقال : اللّٰھم انّا کنّا نتوسّل الیک بنبیّنا ، فتسقینا ، وانّا نتوسّل الیک بعمّ نبیّنا فاسقنا ، قال : فیسقون ۔
”سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کا طریقہ یہ تھا کہ جب قحط پڑ جاتا تو سیدنا عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ (کی دعا ) کو وسیلہ پکڑکر بارش طلب کیا کرتے تھے اور یہ دعا کرتے تھے ، اے اللہ ! بے شک ہم تیرے سامنے اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم (کی زندگی میں ان کی دعا )کو وسیلہ پکڑ کر بارش طلب کیا کرتے تھے تو تو ہمیں بارش دیتا تھا اور اب ہم اپنے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات کے بعد)ان کے چچا (کی دعا ) کو وسیلہ بناکر بارش طلب کرتے ہیں (یعنی ان سے دعا کرواتے ہیں ) ، تو ہم پر بارش نازل فرما ، سیدنا انس  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان پر بارش نازل کی جاتی تھی ۔
(صحیح بخاری : ١/١٣٧ ، ح : ١٠١٠)
حافظ ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ اس حدیث کے الفاظ انّا کنّا نتوسّل کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں :
وذلک أنّ التّوسّل بہ فی حیاتہ ، ھو أنّھم کانوا یتوسّلون بہ ، أی یسألون أن یدعو اللہ ، فیدعو لھم ، ویدعون فیتوسّلون بشفاعتہ ودعائہ ۔۔۔
”یہ وسیلہ کی صورت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مبارکہ میں کچھ اس طرح تھی کہ صحابہ کرام yآپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دعا کی درخواست کرتے اور پھر خود بھی دعا کرتے تو اس طریقہ سے وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور وسیلہ چاہتے تھے ۔”(مختصر الفتاوی المصریۃ : ص ١٩٤)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ویستفاد من قصّۃ العبّاس رضی اللہ عنہ من استحباب الاستشفاع بأھل الخیر وأھل بیت النّبوّۃ ۔        ”سیدنا عباس  رضی اللہ عنہما کے قصہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ خیر و بھلائی ، نیکی و تقویٰ والوں اور خاندانِ نبوت سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے سفارش کروانا مستحب ہے ۔”(فتح الباری : ٢/٤٩٧) یہ ہماری دلیل ہے ، کیونکہ دعا مشروع وسیلہ ہے ۔
دلیل نمبر 4:     عبداللہ بن دینا ر کہتے ہیں :     سمعت ابن عمر یتمثّل بشعر أبی طالب : وأبیض یستسقیٰ الغمام بوجھہ      ثمال الیتامیٰ عصمۃ للأرامل ۔
”سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کو میں نے ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ، وہ گورے رنگ والے ، جن کے چہرے کے توسّل سے بارش طلب کی جاتی ہے ، یتیموں کے والی ، بیواؤں کے سہارا ہیں ۔”
(صحیح بخاری : ١/١٣٧ ، ح : ١٠٠٨)
یہاں سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ مراد ہے ، جو کہ مشرو ع اور جائز ہے ۔
وقال عمر بن حمزۃ : حدثنا سالم عن أبیہ ، ربما ذکرت قول الشّاعر ، وأنا أنظر الی وجہ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم یستسقی ، فما ینزل حتّی یجیش کلّ میزاب ۔
وأبیض یستسقیٰ الغمام بوجھہ         ثمال الیتامیٰ عصمۃ للأرامل ۔
”عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر  رحمہ اللہ نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا ہوں کہ کبھی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ئ اقدس کو تکتا کہ اس (رخِ زیبا)کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے )اترنے بھی نہ پائے تھے کہ سارے پرنالے بہنے لگے ، مذکورہ شعر ابو طالب کا ہے ۔”(صحیح بخاری : ١/١٣٧ ، ح : ١٠٠٩تعلیقاً ، سنن ابن ماجہ : ١٢٧٢ ، مسند الامام احمد : ٢/٩٣ ، ح : ٥٦٧٣ ، السنن الکبرٰی للبیہقی : ٣/٣٥٢ ، تغلیق التعلیق لابن حجر : ٢/٣٨٩)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس میں عمر بن حمزہ (بن عبداللہ بن عمر )”ضعیف” ہے ۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : ٤٨٨٤)
یہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” راوی ہے ، صحیح مسلم میں اس کی روایت صحیح اور باقی ”ضعیف” ہوگی ۔
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ نے اس کو ”ضعیف” کہا ہے ۔(تاریخ الدارمی عن بن معین : ص ١٤٢)
امام نسائی  رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” ہی قرار دیا ہے ، امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أحادیثہ أحادیث مناکیر ۔    ”اس کی احادیث منکر احادیث ہیں ۔”(الجرح والتعدیل : ٦/١٠٤)
امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     وھو ممّن یکتب حدیثہ ۔    ”یہ ان(ضعیف راویوں ) میں سے ہے ، جن کی احادیث لکھی جاتی ہیں ۔'(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٥/١٩)
لہٰذا امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ کا اس کو ”الثّقات” میں ذکر کرنا اور امام حاکم  رحمہ اللہ کا اس کی احادیث کو مستقیم قرار دینا محل نظر ہے ۔
تنبیہ :     سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے یہی شعر پڑھا۔اس وقت ابوبکر ایک فیصلہ فرما رہے تھے ،یہ شعر سن کر ابو بکر  رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم اس سے مراد نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔(مسند الامام احمد : ١/٧ ، مصنف ابن ابی شیبۃ : ١٢/٢٠ ، طبقات ابن سعد : ٣/١٩٨ ، مسند ابی بکر للمروزی : ١/٩١)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس کا راوی علی بن زید بن جدعان جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، نیز یہ ”مختلط” بھی ہے ، حافظ ہیثمی کہتے ہیں :     وضعّفہ الجمہور۔(مجمع الزوائد : ٨/٢٠٦،٢٠٩)
حافظ ابن العراقی کہتے ہیں :     ضعّفہ الجمہور ۔(طرح التثریب : ١/٨٢)
حافظ ابن الملقن کہتے ہیں :     وادّعی عبد الحقّ أنّ الأکثر علی تضعیف علی بن زید ۔
”اور عبدالحق نے دعوی کیا ہے کہ اکثر محدثین علی بن زید کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔”(البدر المنیر : ٤/٤٣٤)
اس کو امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین ، امام ابن عدی (الکامل : ٤/٣١٣)امام ابو حاتم الرازی اور ابوزرعہ الرازی وغیرہ نے ”ضعیف، لیس بالقوی ” کہا ہے ، نیز حافظ ابنِ حجر نے بھی ”ضعیف” کہا ہے ۔(تقریب التھذیب : ٤٧٣٤)
دلیل نمبر 5:     ابو الجوزاء اوس بن عبداللہ تابعی  رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
قحط المدینۃ قحطا شدیدا ، فشکوا الی عائشۃ رضی اللہ عنہا ، فقالت : انظروا قبر النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاجعلوا منہ کوی الی السّماء حتی لا یکون بینہ وبین السّماء سقف ، قال: ففعلوا ، فمطرنا مطرا حتی نبت العشب وسمنت الابل حتی تفتقت من الشّحم عام الفتق ۔
”ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے ، انہوں نے سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں )شکایت کی ، سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا نے فرمایا ، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے ، راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہوگئے کہ( محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے ، لہٰذا اس سال کا نام عام الفتق (پیٹ پھٹنے والا سال) رکھ دیا گیا ۔”
(مسند الدارمی : ٩٣ ، مشکاۃ المصابیح : ٥٦٥٠)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس کے راوی عمرو بن مالک النکری (ثقہ) کی حدیث ابوالجوزاء سے غیر محفوظ ہوئی ہے ،یہ روایت بھی اسی سے ہے ، حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقال ابن عدیّ (الکامل : ١/٤١١): حدّث عنہ عمرو بن مالک قدر عشرۃ أحادیث غیر محفوظۃ ۔        ”امام ابن عدی  رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں ۔”(تہذیب التھذیب لابن حجر : ١/٣٣٦)
یہ جرح مفسر ہے ، یہ حدیث بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابو الجوزاء سے روایت کی ہے ، لہٰذا غیر محفوظ ہے ۔
اس کا الزامی جوا ب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :      ومن حدّثک أنّہ یعلم الغیب ، فقد کذب ، وھو یقول : لا یعلم الغیب الّا اللّٰہ ۔    ”جو کوئی تجھے یہ بتائے کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہو ، وہ جھوٹا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ غیب کی باتوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔”
(صحیح بخاری : ٢/١٠٩٨ ، ح : ٧٣٨٠ ، صحیح مسلم : ١/٩٨ ، ح : ١٧٧)
اس کے جواب میں ”بعض الناس” نے لکھا ہے :      ”آپ کے یہ قول اپنے رائے سے ہیں، اس پر کوئی حدیث ِ مرفوع پیش نہیں فرماتیں ، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں ۔”(”جاء الحق” : ١/١٢٤)
سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے ؟ جب کہ وہ اس پر کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں ، اس پرسہاگہ یہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں ہے ۔
دلیل نمبر 6:     عن مالک الدّار قال : أصاب النّاس قحط فی زمن عمر ، فجاء رجل الی قبر النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال : یا رسول اللّٰہ استسق لأمّتک ، فانّھم قد ھلکوا، فأتی الرّجل فی المنام ، فقیل لہ : ائت عمر ، فأقرئہ السّلام وأخبرہ أنّکم مسقیون ، وقل لہ : علیک الکیس ، علیک الکیس ! فأتی عمر ، فأخبرہ ، فبکیٰ عمر ، ثم قال : یا ربّ ! لا آلو الّا ما عجزت منہ ۔
”مالک الدار سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے ، پھر ایک صحابی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی ، اے اللہ کے رسول ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لیے سیرابی مانگیں ، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) تباہ ہو گئی ہے ، پھر خواب میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لا ئے اور فرمایا ، عمر کے پاس جاکر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو کہ عقلمندی اختیار کیا کرو ، وہ صحابی سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا ، اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا ، مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں ۔”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٦/٣٥٦ ، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٧/٤٧ ، الاستیعاب لابن عبد البر : ٣/١١٤٩)
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس میں (محمد بن خازم الضریر) ابو معاویہ اور (سلیمان بن مہران ) الاعمش دونوں ”مدلّس” ہیں اور ”عن” سے روایت کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح نہیں ، لہٰذا سند ”ضعیف” ہے ۔
امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     فقلنا : لا نقبل من مدلّس حدیثا حتی یقول فیہ : حدّثنی أو سمعت ۔۔۔    ”ہم کسی مدلِّس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کردے ۔”(الرسالۃ للامام الشافعی : ص ٣٨٠)
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لا یکون حجّۃ فیما دلّس ۔     ”مدلس راوی تدلیس والی روایت میں حجت نہیں ہوتا ۔”(الکامل لابن عدی : ١/٣٤ ، وسندہ، حسن)
اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے ،لہٰذا حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ (البدایۃ والنھایۃ : ٥/١٦٧)
اور حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (الاصابۃ : ٣/٤٨٤)کا اس کی سند کو ”صحیح” قرار دینا صحیح نہیں ۔
دلیل نمبر 7:     سیدناابنِ عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :      استسقیٰ عمر بن الخطّاب عام الرّمادۃ بالعبّاس بن عبد المطّلب ، فقال : اللّٰھم ھذا عمّ نبیّک العبّاس ، نتوجّہ الیک بہ ، فاسقنا ، فما برحوا حتی سقاھم اللّٰہ ، قال : فخطب عمر النّاس ، فقال : ایّھا النّاس ! انّ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یری للعبّاس ما یری الوالد لولدہ ، یعظّمہ ویفحمہ ویبرّ قسمہ ، فاقتدوا أیّھا النّاس برسول اللّٰہ فی عمّہ العبّاس واتّخذوہ وسیلۃ الی اللّٰہ عزّ وجلّ فیما نزل بکم ۔
”سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت والے سال) میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ (کی دعا) کو وسیلہ بنا کر بارش طلب کی ، عرض کی ، اے اللہ ! یہ تےرے (مکرّم)نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے (معزز) چچا عباس ہیں ، ہم ان (کی دعا کے ) ساتھ تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں ، تو ہم پر بارش نازل فرما ، وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا ، راوی نے بیان کیا ہے کہ پھر سیدنا عمر بن خطا ب  رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو خطبہ دیا ، فرمایا ، اے لوگو ! نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس  رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے ، جیساکہ بیٹا باپ کو سمجھتا ہے ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا فرماتے تھے ، اے لوگو ! تم بھی سیدنا عباس  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرو ، ان (کی دعا) کو اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش ) برسائے ۔”(المستدرک للحاکم : ٣/٣٣٤ ، ح : ٥٦٣٨ ، الاستیعاب لابن عبد البر : ٣/٩٨)
تبصرہ :     اس کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ، اس میں داو،د بن عطاء المدنی راوی ”ضعیف” اور ”متروک” ہے ، اس کے بارے میں توثیق کا ادنیٰ لفظ بھی ثابت نہیں ، امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
لیس بالقویّ ، ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث۔     ”قوی نہیں ہے ، ضعیف الحدیث اورمنکر الحدیث ہے۔”امام ابو زرعہ  رحمہ اللہ نے ”منکر الحدیث” کہا ہے ۔(الجرح والتعدیل : ٣/٤٢١)
امام بخاری  رحمہ اللہ نے بھی ”منکر الحدیث ” قرار دیا ہے ۔(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٢/٣٥ ، وسندہ، صحیح)
امام دارقطنی  رحمہ اللہ نے ”متروک” قرار دیا ہے ۔(سوالات البرقانی للدارقطنی : ١٣٨)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لیس بشیئ ۔ ”یہ کچھ بھی نہیں ہے ۔”(الجرح والتعدیل:٣/٤٢١)
امام ابن عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وفی حدیثہ بعض النکرۃ ۔    ”اس کی حدیث میں کچھ خرابی ہے ۔”(الکامل لابن عدی : ٣/٨٧)یہ ہماری دلیل ہے ، کیونکہ دعا مشروع اور جائز وسیلہ ہے ۔
دلیل نمبر 8:     سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لمّا أذنب آدم صلی اللہ علیہ وسلم الذّنب رفع رأسہ الی العرش ، فقال : أسألک بحقّ محمّد الّا غفرت لی ، فأوحی اللّٰہ الیہ ، وما محمّد ؟ ومن محمّد ؟ فقال : تبارک اسمک ، لمّا خلقتنی رفعت رأسی الی عرشک ، فاذا فیہ مکتوب مکتوبا : لا الہ الّا اللّٰہ ، محمّد رسول اللّٰہ ، فعلمت أنّہ لیس أحد أعظم عندک قدرا ممن جعلت اسمہ مع اسمک ، فأوحی اللّٰہ عزّ وجلّ الیہ : یا آدم ! انّہ آخر النّبیّین من ذریّتک ، وانّ أمّتہ آخر الأمم من ذریّتک ، لولاہ یا آدم ! ما خلقتک ۔
”جب آدم uسے خطا سر زد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے ، (اے اللہ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف کر دے) ، اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی ، محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم uنے عرض کی ، (اے اللہ ! ) تیرا نام پاک ہے ، جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا ، وہاں میں نے لا الہ الّا اللّٰہ ، محمّد رسول اللّٰہ لکھا ہوا دیکھا ، لہٰذامیں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے ، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے ، پس اللہ تعالیٰ نے وحی کی ، اے آدم ! وہ (محمد  صلی اللہ علیہ وسلم )تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں ، ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا ۔”
(المعجم الصغیر للطبرانی : ٢/١٨٢ ، ح : ٩٩٢ ، وفی نسخۃ : ٢/٨٢ ، المعجم الاوسط للطبرانی : ٦٥٠٢)
تبصرہ :     یہ موضوع (من گھڑت ) روایت ہے ، کیونکہ :     1اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف و متروک” ہے ، حافظ ہیثمی لکھتے ہیں :      والأکثر علی تضعیفہ ۔
”جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں ۔”(مجمع الزوائد : ٢/٢١)
حافظ ابنِ ملقن  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ضعّفہ الکلّ ۔    ”اسے سب نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”
(البدر المنیر : ٥/٤٥٨)
اس کو امام احمد بن حنبل ، امام علی بن المدینی ، امام بخاری ، امام یحییٰ بن معین ، امام نسائی ، اما م ابو حاتم الرازی ، امام ابو زرعہ الرازی ، امام ابنِ سعد ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ابنِ حبان ، امام ساجی ، امام طحاوی حنفی ، امام جوزجانی Sوغیرہم نے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔
امام حاکم  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     روی عن أبیہ أحادیث موضوعۃ ۔    ”اس نے اپنے باپ سے موضوع (من گھڑت ) احادیث بیان کی ہیں ۔(المدخل للحاکم : ١٥٤)
یہی بات امام ابو نعیم الاصبہانی  رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے ۔(تہذیب التھذیب لابن حجر : ٦/١٦٢)
یہ حدیث بھی اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ، لہٰذا موضوع (من گھڑت ) ہے ۔
2امام طبرانی  رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داو،د بن عثمان الصدفی المصری کی توثیق مطلوب ہے ۔
3اس کے راوی احمد بن سعید المدنی الفہری کی بھی توثیق مطلوب ہے ۔
دلیل نمبر 9:      سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذا انفلتت دابّۃ أحدکم بأرض فلاۃ فلیناد : یا عباد اللّٰہ ! أحبسوا علیّ ، یا عباد اللّٰہ ! أحبسوا علیّ ، فانّ للّٰہ فی الأرض حاضرا ، سیحبسہ علیکم ۔
”جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیابان میں چھوٹ جائے تو اس شخص کو یہ پکارنا چاہیے ، اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑادو ، اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑادو ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے (فرشتے)اس زمین میں ہوتے ہیں ، وہ تمہیں (تمہاری سواری )پکڑا دیں گے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٦/١٠٣ ، المعجم الکبیر للطبرانی : ١٠/٢١٧ ، ح : ١٠٥١٨ ، واللفظ لہ ، مسند ابی یعلیٰ : ٥٢٦٩ ، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ٥٠٩)
تبصرہ :     اس کی سند کئی وجوہ سے سخت ترین ”ضعیف” ہے :
1    معروف بن حسان ”غیر معروف” اور” مجہول” ہے ، امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ نے اسے ”مجہول” قرار دیا ہے ۔(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/٣٢٣)
امام ابن عدی  رحمہ اللہ نے اسے ”منکر الحدیث ” کہاہے ۔(الکامل فی ضعفاء الرجال : ٦/٣٢٥)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔(مجمع الزوائد : ١٠/١٣٢)
اس کی توثیق میں ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ۔
2    اس میں قتادہ بن دعامہ تابعی ”مدلس” ہیں جو کہ ”عن” سے بیان کر رہے ہیں ، سماع کی تصریح ثابت نہیں ۔
3    سعید بن ابی عروبہ بھی ”مدلس” اور ”مختلط” ہیں ۔
4    حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      حدیث غریب أخرجہ ابن السّنّیّ والطبرانیّ ، وفی السّند انقطاع بین ابن بریدۃ وابن مسعود ۔ ”یہ غریب حدیث ہے جسے ابن السنی اور طبرانی نے بیان کیا ہے ، اس کی سند میں ابنِ بریدہ اور سیدنا ابنِ مسعود کے درمیان انقطاع ہے ۔”(شرح الاذکار لابن علان : ٥/١٥٠)
ابن السنی کی سند میں ابنِ بریدہ اور سیدنا ابنِ مسعود  رضی اللہ عنہ کے درمیان عن أبیہ کا واسطہ ہے ، یہ ناسخ کی غلطی ہے ، کیونکہ حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس سند کو ”منقطع ”قرار دیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ یہی سند ابو یعلیٰ کی بھی ہے ، مسند ابی یعلیٰ میں بھی یہ واسطہ مذکور نہیں ، لہٰذا اس کا” منقطع ”ہونا واضح ہے ۔
علامہ بوصیری اس کے بارے میں کہتے ہیں :     وسندہ ضعیف لضعف معروف بن حسان ۔
”اس کی سند معروف بن حسان کے ضعیف ہونے کی بنا پر ضعیف ہے ۔”(اتحاف الخیرۃ المھرۃ : ٧/٥٠٠)
حافظ سخاوی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وسندہ ضعیف ، لکن قال النّوویّ : انّہ جرّبہ ھو وبعض أکابر شیوخہ ۔    ”اس کی سند تو ضعیف ہے ، لیکن حافظ نووی  رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اور ان کے بعض اکابر شیوخ نے اس کا تجربہ کیا ہے ۔”(الابتھاج باذکار المسافر والحاج للسخاوی : ص ٣٩)
اس کے تعاقب میں ناصرالسنۃ محدث العصر علامہ البانی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
العبادات لا تؤخذ من التّجارب ، سیّما ما کان منھا فی أمر غیبیّ کھذا الحدیث ، فلا یجوز المیل الیٰ تصحیحۃ ، کیف وقد تمسّک بہ بعضھم فی جواز الاستغاثۃ بالموتیٰ عند الشّدائد ، وھو شرک خالص ، واللّٰہ المستعان !
”عبادات تجربوں سے اخذ نہیںکی جا سکتیں ، خصوصا ً ایسی عبادات جو کسی غیبی امر کے بارے میں ہوں ،جیسا کہ یہ حدیث ہے ، لہٰذا تجربے کو بنیاد بنا کر اس کو صحیح قرار دینے کی طرف مائل ہونا جائز نہیں ، یہ کیسے ممکن ہے ، حالانکہ بعض لوگوں نے اس سے مصیبتوں کے وقت مردوں سے مدد مانگنے پر بھی استدلال کیا ہے ،یہ خالص شرک ہے ،اللہ محفوظ فرمائے !”(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : ٢/١٠٨۔١٠٩ ، ح : ٦٥٥)
دلیل نمبر 0:     عتبہ بن غزوان نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :
اذا أضلّ أحدکم شیأا أو أراد أحدکم عونا ، وھو بأرض لیس بھا أنیس ، فلیقل : یا عباد اللّٰہ ! أغیثونی ، یا عباد اللّٰہ ! أغیثونی ، بأنّ للّٰہ عبادا لا نراھم وقد جُرِّبَ ذلک ۔
”جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے یا تم میں سے کسی کو مدد چاہیے ہو اور وہ ایسی جگہ میں ہو جہاں اس کا کوئی مددگار نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کہے ، اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو ، اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو ، یقینا اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے ۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی : ١٧/١١٧۔١١٨)
تبصرہ :     یہ روایت ”ضعیف” ہے ، حافظ ہیثمی لکھتے ہیں :      انّ زید بن علی لم یدرک عتبۃ۔”یقینا زید بن علی نے عتبہ کو نہیں دیکھا ۔”(مجمع الزوائد : ١٠/١٣٢)
دلیل نمبر ١١ :      سیدناابو درداء  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :      ابغونی فی ضعفائکم ، فانّما ترزقون وتنصرون بضعفائکم ۔
”مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو ، بے شک تمہیں اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے ۔”(مسند الامام احمد : ٥/١٩٨ ، سنن ابی داو،د : ٢٥٩٤ ، سنن النسائی : ٣١٨١ ، سنن الترمذی : ١٧٠٢ ، وسندہ، صحیح)امام ترمذی  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”حسن صحیح” ، امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے ”صحیح”اور امام حاکم  رحمہ اللہ  (٢/١٠٤، ١٤٥)نے ”صحیح الاسناد”کہا ہے ۔
معاشرہ کے کمزور اور نادار لوگ جو صالحین ہوں ،ان کی نیکی اور دعا کی وجہ سے معاشرہ میں آسودگی آتی ہے ، ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :     انّما ینصر اللّٰہ ھذہ الأمّۃ بضعیفھا ، بدعوتھم وصلاتھم واخلاصھم ۔    ”اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد ان کی کمزور لوگوں کی دعا ، نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے ۔”(سنن النسائی : ٣١٨٠ ، حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی : ٥/٢٦ ، وسندہ، صحیح)
لہٰذا ایسے لوگوں کا خیال رکھنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کا موجب ہے ، اس سے مبتدعین کا فوت شدگان کے توسّل کا مسئلہ نکالنا شرعی نصوص کی تحریف ہے ۔
دلیل نمبر ١٢ :      سیدہ میمونہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :      ”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو خانے میں تین مرتبہ لَبَّیْکَ کہا اور تین مرتبہ نُصِرْتَ (تیری مدد کی گئی )کہا ، میں نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول !میں نے آپ کو تین مرتبہ لَبَّیْکَ اور تین مرتبہ نُصِرْتَ فرماتے ہوئے سنا ہے ، جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو کر رہے ہوں ، کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا ؟ آپ نے فرمایا ، یہ بنو کعب کا رجز خواں مجھے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنو بکر کی امداد کی ہے ، تین دن کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو صبح کی نماز پڑھائی تو میں نے سنا کہ رجز خواں اشعار پیش کر رہا تھا ۔”(المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٣/٤٣٣۔٤٣٤ ، ح : ١٠٥٢ ، المعجم الصغیر للطبرانی : ٢/٧٣۔٧٥ )
تبصرہ :     اس کی سند ”ضعیف”ہے ، اس کے راوی محمد بن نضلہ کے حالات نہیں مل سکے ۔
تنبیہ :     حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ”ضعیف” ہے ۔(مجمع الزوائد : ٦/١٦٤)
لیکن راجح یہی ہے کہ یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ”حسن الحدیث” ہے ۔ واللّٰہ أعلم وعلمہ أحکم
دلیل نمبر ١٣ :      سیدنا عمر بن خطاب  رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت ١٨ ہجری میں قحط سالی واقع ہوئی ، اسی سال کو عام الرمادہ کہتے ہیں ، ہلال بن حارث مزنی سے ان کی قوم بنو مزینہ نے کہا کہ ہم مرے جارہے ہیں ، کوئی بکری ذبح کیجیے ، کہا ، بکریوں میں کچھ نہیں رہا ، اصرار بڑھا تو انہوں نے بکری ذبح کر دی ، جب اس کی کھال اتاری تو نیچے سے سرخ ہڈی نکلی ، یہ دیکھ کر ہلال مزنی نے یا محمّدا کہا ، رات ہوئی تو انہوں نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم انہیں فرما رہے ہیں کہ تمہیں زندگی مبارک ہو ۔”
(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر ٖ: ٧/٩١)
تبصرہ :     یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے ، کیونکہ :     1سیف بن عمر الکوفی راوی بالاتفاق ”ضعیف و متروک” ہے ، اس کی روایت سے وہی حجت پکڑے گا جو خود اس کی طرح ”ضعیف و متروک” ہو گا ۔2    اس کا استاذ مبشر بن فضیل ”مجہول” ہے ۔
امام عقیلی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     مجہول بالنّقل ، اسنادہ، لا یصحّ ۔”یہ نقل میں مجہول ہے ، اس حدیث کی سند صحیح نہیں ۔”(الضعفاء للعقیلی : ٤/٢٣٦)حافظ ذہبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لایدریٰ من ھو ۔ ”نہ معلوم یہ کون ہے ؟”(میزان الاعتدال : ٣/٤٣٤)3    اس کے راوی جبیر بن صخر کی توثیق مطلوب ہے ۔
دلیل نمبر ١٤ :      جنگ ِ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی ، جب کہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی ، مقابلہ بہت شدید تھا ، ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے ، سیدنا خالد بن ولید  رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے ، انہوں نے یہ حالت دیکھی تو:
نادٰی بشعار المسلمین ، وکان شعارھم یومئذ : یا محمّداہ ۔    ”انہوں نے مسلمانوں کا نعرہ بلند کیا ، اس دن ان کا نعرہ یا محمّداہ تھا ۔”(تاریخ الطبری : ٢/٢٨١ ، البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ٦/٣٢٤)
تبصرہ :    یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے ، اس میں وہی سیف بن عمر الکوفی راوی بالاتفاق ”ضعیف و متروک ” موجود ہے ،نیز اس میں اور بھی علتیں ہیں ۔
دلیل نمبر ١٥ :     سیدناابو عبیدہ بن الجراح  رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب بن ضمرہ  رضی اللہ عنہ کو ایک ہزار افراد کے ہمراہ حلب کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا ، جب وہ حلب کے قریب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہو ا ، مسلمان جم کر لڑنے لگے ، اتنے میں پیچھے چھپے ہوئے پانچ ہزار افراد کے لشکر نے حملہ کر دیا ، اس خطرناک صورت ِ حال نے مسلمانوں کو بے حد پریشان کر دیا ، کعب بن ضمرہ  رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے پکارا :     یامحمّد ، یا محمّد ، یا نصر اللّٰہ ! انزل !
”اے محمد ! اے محمد ! اے اللہ کی مدد ، اتر آ۔”(فتوح الشام لمحمد بن عمر الواقدی : ١/١٩٦ ، طبع مصر : ١٩٣٤)
تبصرہ :     یہ روایت سخت ترین ”ضعیف” ہے ، اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک ”ضعیف ، متروک اور کذاب” ہے ، ابنِ ملقن  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     وقد ضعّفہ الجمہور ۔
”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٥/٣٢٤)حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  نے اسے ”متروک” کہاہے ۔(تقریب التھذیب : ٦١٧٥)امام شافعی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     کتب الوقدیّ کذب ۔    ”واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٨/٢١ ، وسندہ، صحیح) امام اسحاق بن راہویہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      لأنّہ عندی ممن یضع الحدیث ۔     ”میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے ۔”(الجرح والتعدیل : ٨/٢١)امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے اسے ”کذاب” قرار دیا ہے ۔(الکامل لابن عدی : ٦/٢٤١ ، وسندہ، حسن)امام بخاری ، امام ابو زرعہ ، امام نسائی اور امام عقیلی Sنے اسے ”متروک الحدیث ” کہا ہے ، اما م یحییٰ بن معین اور جمہور نے ”ضعیف” کہاہے ، امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یروی أحادیث غیر محفوظۃ والبلاء منہ ، ومتون أخبار الواقدیّ غیر محفوظۃ ، وھو بیّن الضّعف ۔ ”یہ غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے ، واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوظ ہیں ، وہ واضح ضعیف راوی ہے ۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٦/٢٤٣)
دلیل نمبر ١٦ :      ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ بنو عامر نے بصرہ میں اپنے جانور کھیتی میں چرائے ، انہیں طلب کرنے کے لیے ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ بھیجے گئے ، بنو عامر نے بلند آواز سے اپنی قوم آلِ عامر کا بلایا تو نابغہ جعدی اپنے رشتہ داروں کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے ، انہیں ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا، آپ نے پوچھا ، آپ کیوں نکلے ہیں ؟ انہوں نے کہا ، میں نے اپنی قوم کی پکار سنی تھی ، ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  نے انہیں تازیانے لگائے ، اس پر نابغہ جعدی نے کہا :
فان تک لابن عفّان أمینا     فلم یبعث بک البرّ الأمینا
ویا قبر النّبیّ وصاحبیـــہ         ألا یا غوثنا لو تسمعونــــا
”اگر تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا امین ہے تو انہوں نے تجھے احسان کرنے والا امین بنا کر نہیں بھیجا ، اے نبی اور آپ کے دوصاحبوں کی قبر !اے ہمارے فریا د رس ! کاش آپ ہماری فریاد سن لیں ۔”(الاستیعاب : ٣/٥٨٦)
تبصرہ :     یہ روایت موضوع (جھوٹ کا پلندا)ہے ، اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ”کذاب” اور ”متروک الحدیث” ہے ۔
دلیل نمبر ١٧ :     نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جعرانہ تشریف لائے ، اس وقت قبیلہ ئ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے ، اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا، ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہوکر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ، انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں ، آپ نے فرمایا ، قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کر لو ، انہوں نے عرض کی ، ہمیں قیدی محبوب ہیں ، آپ نے فرمایا ، جو قیدی میرے ہیں یا بنو عبدالمطلب کے ہیں ، وہ تمہارے ہیں ، باقی جو تقسیم ہو چکے ہیں ، ان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرو :
اذا أنا صلّیت الظّھر بالنّاس فقوموا ، فقولوا : انّا نستشفع برسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الی المسلمین وبالمسلمین الی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی آبائنا ونسائنا ، فسأعطیکم عند ذلک وأسأل لکم ۔
”جب میں لوگوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ لوں تو تم کھڑے ہو کر کہنا ، ہم اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت (سفارش) فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں ، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں ، تو میں تمہیں اس وقت عطا کردوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا ۔”
چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ، اکثر صحابہ نے عرض کی ، جو کچھ ہمارے پاس ہے ، وہ آپ کا ہے ، باقی صحابہ سے آپ نے وعدہ فرما یا کہ ہر قیدی کے بدلے مالِ غنیمت سے چھ اونٹنیاں دی جائیں گی ، اس طرح ہوازن کو تمام قیدی واپس مل گئے ۔(سیرۃ ابن ھشام مع الروض الانف : ٢/٣٠٦ ، وسندہ، حسن)زندہ انسان سے دعا و سفارش کروانا جائز ہے ، یہ ہماری دلیل ہے ۔
دلیل نمبر ١٨ :      عبدالرحمن بن سعد کہتے ہیں :      کنت عند ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما ، فخدرت رجلہ ، فقلت : یا أبا عبد الرّحمن ! ما لرجلک ؟ قال : اجتمع عصبھا من ھاھنا ، فقلت : أدع أحب الناس الیک ، فقال : یا محمّد ! فانبسطت ۔
”میں سیدنا عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا ، آپ کا پاؤں سن ہو گیا ، میں نے عرض کی ، اے ابو عبدالرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہو گیا ہے ؟ فرمایا ، یہاں سے میرے پٹھے کھنچ گئے ہیں ، میں نے عرض کی ، تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے ، اسے یاد کریں ، آپ نے یا محمّد! کہا ، اسی وقت ان کے پٹھے کھل گئے ۔”(الادب المفرد للبخاری : ٩٢٤ ، مسند علی بن الجعد : ٢٥٣٩، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ١٧٣ ، طبقات ابن سعد : ٤/١٥٤، تاریخ ابن معین : ٢٩٥٣)
تبصرہ :      اس کی سند ”ضعیف” ہے ، اس کی سند کا دارومدار ابو اسحاق السبیعی پر ہے جو کہ ”مدلس” اور ”مختلط” ہیں ، مسلّم اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن” یا ”قال” سے بیان کرے تو راویت ”ضعیف”ہوتی ہے ، جب تک سماع کی تصریح نہ کرے ، اس کی صحت کے مدعی پرسماع کی تصریح لازم ہے ۔
الادب المفرد کی سند میں سفیان ثوری  رحمہ اللہ ”مدلس” ہیں ، جو کہ ”عن” سے بیان کر رہے ہیں ۔
عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی (١٦٩)میں سفیان ثوری  رحمہ اللہ کی ابو بکر بن عیاش (١٧١)، اسرائیل بن یونس اور(١٧٣) زہیر بن معاویہ نے متابت کر رکھی ہے ۔
یہ تینوں ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد روایت لیتے ہیں ، لہٰذا یہ روایت ابو اسحاق السبیعی کی تدلیس و تخلیط کی وجہ سے ”ضعیف” ہے ، نہ معلوم عقیدہ میں خبرِ واحد کو حجت نہ ماننے والے اسے سینے سے کیوں لگائے بیٹھے ہیں ؟
فائدہ :     امام ِ بریلویت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں :     ”حضور ِ اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم کو نام پاک لے کر نداکرنی ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے ۔”(روحوں کی دنیا از احمد رضا خان : ٢٤٥)
نیز دیکھیں (”جاء الحق” از احمد یار خان نعیمی بریلوی : ١/١٧٣ ، شان ِ حبیب الرحمن از نعیمی : ١٣٦،٢٢٦)
دلیل نمبر ١٩ :      مجاہد رحمہ اللہ سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں :
حذرت رجل رجل عبد ابن عبّاس ، فقال ابن عبّاس : اذکر أحب النّاس الیک ، فقال : محمّد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فذھب خدرہ ۔
”سیدنا عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہوگئی تو انہوں نے اس سے فرمایا ، لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے ، اس کو یاد کرو تو اس شخص نے یامحمّد! کہا ، اس کے پاؤں کا سن ہوجانا جاتا رہا ۔”(عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی : ١٧٠)
تبصرہ :     یہ موضوع (من گھڑت )روایت ہے ، اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم النخعی بالاتفاق کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا) ، خبیث اور وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا ) ہے ۔
دلیل نمبر ٢٠ :      سیدناابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، جو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اوریہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے لیے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں :
اللّٰھم انّی أسألک بحقّ السّائلین علیک ، وأسألک بحقّ ممشای ھذا ۔
”اے اللہ ! میں دعا کرنے والوں کا جو آپ پر حق ہے ، اس کے طفیل اور میرے اس چلنے کے طفیل سوال کرتا ہوں ۔”(سنن ابن ماجہ : ٧٧٨)
تبصرہ :      اس کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ، اس کا راوی عطیہ بن سعد العوفی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ، نیز ”مدلس” بھی ہے ، حافظ نووی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      ضعیف عند الجمہور ۔
”جمہور کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے ۔”(تہذیب الاسماء واللغات للنووی : ١/٤٨)حافظ عراقی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ضعّفہ الجمہور ۔(طرح التثریب لابن العراقی : ٣/٤٢)حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     والأکثر علی تضعیفہ ۔(مجمع الزوائد : ١٠ /٤١٢)حافظ ابن الملقن  رحمہ اللہ اسے ”ضعیف” قرار دے کر لکھتے ہیں :      والجمہور علی تضعیفہ ۔”جمہور اس کی تضعیف کرتے ہیں ۔”(البدر المنیر لابن الملقن : ٧/٤٦٣)
امام ہشیم بن بشیر اور امام سفیان ثوری  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔(الجرح والتعدیل : ٦/٣٨٣)
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ضعیف الحدیث ۔ ”یہ ضعیف حدیث والا ہے ۔”
امام ابو زرعہ الرازی نے اسے ”لیّن” کہا ہے اور امام ابو حاتم الرازی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعیف الحدیث ، یکتب حدیثہ ۔ ”ضعیف الحدیث ہے ، اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں) لکھی جائے گی ۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٣٨٣)امام دارقطنی  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” قرار دیا ہے ۔(سنن الدارقطنی : ٤/٣٩)نیز فرماتے ہیں کہ ”مضطرب الحدیث ” ہے ۔(العلل للدارقطنی : ٤/٢٩١)امام بخاری  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :     کان یحییٰ یتکلّم فی عطیّۃ ۔    ”امام یحییٰ عطیہ پر کلام (جرح) کرتے تھے ۔”(التاریخ الکبیر للامام البخاری : ٤/٨٣)نیز فرماتے ہیں : کان یحییٰ لا یروی عن عطیۃ ۔”امام یحییٰ عطیہ بن سعد العوفی سے روایت نہیں کرتے تھے ۔”(التاریخ الکبیر للامام البخاری : ٥/١٢٢)امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      ضعیف ، الّا أنّہ یکتب حدیثہ ۔ ”یہ راوی ضعیف ہے ، البتہ اس کی روایت (متابعات و شواہد ) میں لکھی جائے گی ۔”(الکامل لابن عدی : ٥/٣٦٩ ، وسندہ، حسن)امام نسائی  رحمہ اللہ نے ”ضعیف” کہاہے ۔(میزان الاعتدال : ٣ /٨٠)امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :      وھو مع ضعفہ یکتب حدیثہ ، وکان یعدّ من شیعۃ الکوفۃ ۔ ”ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات و شواہد) میں لکھی جائے گی ، اس کا شمار کوفہ کے شیعوںمیں ہوتا ہے ۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٥/٣٧٠)امام ساجی  رحمہ اللہ کہتے ہیں : لیس بحجّۃ ۔ ”قابل حجت نہیں ہے ۔”(تہذیب التھذیب : ٧/٢٠٢)حافظ ابنِ حزم  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :     ضعیف جدّا ۔ ”سخت ضعیف ہے ۔”(المحلی لابن حزم : ١١/٨٦)حافظ نووی  رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف” کہاہے ۔(خلاصۃ الاحکام للنووی : ١/٥٧٢)حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں : ضعیف الحدیث ، مشہور بالتّدلیس القبیح ۔”یہ راوی ضعیف الحدیث اور بری تدلیس کے ساتھ مشہور ہے ۔”(طبقات المدلسین لابن حجر : ٥٠)حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف” لکھا ہے ۔(میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبی : ٣/٨٠)حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ بھی ”ضعیف” قرار دیتے ہیں ۔(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر : ٦/٨٩ ، بتحقیق المھدی)لہٰذا امام عجلی ، امام ابنِ سعد اور امام ترمذی Sکا اسے ”ثقہ” کہنا جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے ۔
تنبیہ :     عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی(٨٥) میں جو سیدنا بلال  رضی اللہ عنہ کی روایت ہے ، اس کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ، اس میں الوازع بن نافع العقیلی راوی ”متروک ، کذاب و وضاع” ہے ۔
دلیل نمبر ٢١ :      سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
کانت یھود خیبر تقاتل غطفان ، فکلّما التقوا ھزمت یھود خیبر ، فعاذت الیھود بھذا الدّعاء : اللّٰھمّ انّا نسألک بحقّ محمّد النّبیّ الأمّیّ الّذی وعدتّنا أن تخرجہ لنا فی آخر الزّمان الّا نصرتنا علیھم ، قال : فکانوا اذا التقوا دعوا بھذا الدّعاء ، فھزموا غطفان ، فلمّا بعث النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم کفروا بہ ، فأنزل اللّٰہ : وقد کانوا یسفتحون بک یا محمّد علی الکافرین ۔
”خیبر کے یہودی غطفان قبیلے سے بر سرِ پیکار رہا کرتے تھے ،جب بھی دونوں کا سامنا ہوتا یہودی شکست کھا جاتے ، پھر یہودیوں نے اس دعا کے ذریعے پناہ مانگی ، اے اللہ ! ہم تجھ سے اُمّی نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے سوال کرتے ہیں ، جنہیں تو نے آخر ی زمانہ میں ہمارے لیے بھیجنے کا وعدہ فرمایا ہے ، تو ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما ، راوی کہتے ہیں کہ جب بھی وہ دشمن کے سامنے آئے ، انہوں نے یہی دعا مانگی اور غطفان (قبیلہ) کو شکست دی ، لیکن جب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر دیا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس سے تو وہ خوداے محمد! آپ کے وسیلہ سے کافروں پر فتح پانے کی دعا کرتے تھے ۔”
(المستدرک للحاکم : ٢/٢٦٣ ، ح : ٣٠٤٢ ، الشریعۃ للآجری : ٤٤٨ ، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٢/٧٦)
تبصرہ :      یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ، جسے عبدالملک بن ہارون بن عنترہ نے تیار کیا ہے ، اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے ”ضعیف الحدیث ” ،امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ”کذاب” ، جوزجانی نے ”دجال، کذاب” ، امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے ”متروک الحدیث ، ذاہب الحدیث” ، امام دارقطنی  رحمہ اللہ نے ”ضعیف” اور امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے ”یضع الحدیث” (یہ احادیث گھڑتا تھا) جیسے الفاظ کہے ہیں ، اس پر توثیق کا ادنیٰ سا کلمہ بھی ثابت نہیں ۔
دلیل نمبر ٢٢ :      سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :     أوحی اللّٰہ الی عیسی علیہ السّلام : یا عیسیٰ ! آمن وأمر من أدرکہ من أمّتک أن یؤمنوا بہ ، فلولا محمّد ما خلقت آدم ، ولولا محمّد ما خلقت الجنّۃ والنّار ، ولقد خلقت العرش علی الماء ، فاضطرب ، فکتب علیہ : لا الہ الّا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ ، فسکن ۔
”اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ uکی طرف وحی کی ، اے عیسیٰ ! محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ ان میں سے جو ان کا زمانہ پائے ، ان پر ایمان لائے ، (جان لو!) اگر محمد نہ ہوتے تو میں آدم کو بھی پیدا نہ کرتا ، اگر محمد نہ ہوتے تو میں جنت و جہنم کو پیدا نہ کرتا ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہوگئی ، لہٰذا میں نے اس پر لا الہ الّا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا ۔”
(المستدرک للحاکم : ٢/٦١٥ ، ح : ٤٢٢٧ ، طبقات المحدثین باصبھان لابن حیان : ٣/٢٨٧)
تبصرہ :      یہ موضوع (من گھڑت ) قول ہے ، جیسا کہ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.