1,208

کوئی حدیث قرآن کے خلاف نہیں۔۔(قسط نمبر 4)۔۔علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری


دینِ اسلام کی بنیاد عقیدہ توحید اور عقیدہ ئ رسالت پر استوار ہے ، یہ شریعت ِ مطہرہ کے دو اساسی اور بنیادی اصول ہیں ، ان کا ماخذ و مصدر قرآن و حدیث ہے ، اہل اسلام کا اجماعی اور اتفاقی عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں وحی اور دینِ الٰہی ہیں ، نیز دونوں اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے محفوظ ہیں ۔
قرآن مجید :     قرآنِ مجید کلام ِ رب العالمین ہے ، اس کے وحی ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، یہ ہر قسم کے ریب وشک سے پاک و منزہ کتاب ِ مبین ہے ، اس کے باوجود ظالموں نے اس کا انکار کیا ہے ، اس انکار کو خود قرآنِ کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
(اِنْ ھٰذَا اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ \ اِنْ ھٰذَا اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ\) (المدثر : ٢٤۔٢٥)
”یہ تو بس ایک مؤثر جادو ہے ، یہ تو کسی بشر کی کلام ہے َ”
ایک دوسرے مقام پر فرمایا :     (اِنْ ھٰذَا اِلَّا اخْتِلَاقُ\ ) (ص : ٧)
”یہ تو محض اپنی طرف سے گھڑی گئی بات ہے ۔”
قارئین کرام ! انصاف سے بتائیں کہ ان مشرکوں اور کافروں کی بیزاری سے قرآنِ مجید میں کیا نقص واقع ہوا ؟ عیسائی مشنریوں اور آریوں نے تو قرآنِ مجید میں شکوک و شبہات پیدا کیے ہیں اور اس میں اعتراضات بھی وارد کیے ہیں ، قادیانیوں نے قرآنِ مجید کو منسوخ کہا ہے ، حدیثوں کا انکار کیا ، شیعہ نے اس میں تواتر کی حد تک تحریف اور کمی و بیشی کا دعویٰ کیا ہے ، وہ تو کہتے ہیں کہ اصلی قرآن سترہ ہزار آیات پر مشتمل ہے ، کیا اس سارے پراپیگنڈے کی وجہ سے مسلمان قرآنِ مجید کا انکار کر دیں ، جو جواب قرآن کے بارے میں ہو گا ، وہی جواب حدیث کے بارے میں ہو جائے گا ۔
قرآن مجید اور انکار حدیث :
ہر منکر ِ حدیث درحقیقت منکر ِ قرآن ہوتا ہے ، منکرینِ قرآن اور منکرینِ حدیث دونوں کے مقاصد ایک ہیں کہ عقیدہئ توحید اور عقیدہئ رسالت کا انکار کیا جائے، یہ قرآن و حدیث کے انکار سے ہی ممکن ہے ، قرآن کی آڑ میں حدیث کو نشانہ بنایا جائے ، حدیث پر اعتراضات وارد کیے جائیں ، اس میں شکوک و شبہات پیدا کیے جائیں ، حدیث کو تاریخی حیثیت دے کر اسوہئ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتمہ کی سازش کی جائے ، حدیث کو عجمی شازش قرار دے کر سرے سے انکار ہی کر دیا جائے ، دین کی پیروی کی بجائے خواہشات کی پیروی کو ہوا دی جائے ، وہ یوں کہ حدیث کو قرآن پر پیش کریں ، اگر یہ بزعم ِ خویش قرآن کے موافق ہے تو حدیث ہے ، ورنہ جھوٹی داستان! کبھی یہ راگ الاپا کہ قرآن قطعی ہے اور حدیث ظنی ہے ، لہٰذااس سے عقیدہئ توحید اور عقیدہئ رسالت ثابت نہیں ہو سکتا ، کبھی احادیث ِ صحیحہ اور ائمہ کی متفقہ تصریحات کے خلاف قرآنی نصوص میںباطل تاویلات کر کے ان کو خواہشات کا تختہ مشق بنا دیا ، کبھی یہ شور مچایا کہ حدیث تو دو سو سال بعد لکھی گئی ہے ، اس پر کیا اعتبار ؟ کبھی حدیث کو عقل سقیم کی بھینٹ چڑھا کر اس کا انکار کر دیا ۔
خوب یاد رہے کہ ہر باطل مذہب کی یہی پہچان ہے کہ وہ دین کو صرف عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے ، الغرض ہر بدبخت اور ظالم نے دل کھول کر حدیث ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھایا ہے ، ہم اپنے اللہ سے شکایت کرتے ہیں ، وہی ان ظالموں کو پوچھے گا ۔
باطل فرقے اور انکار قرآن و حدیث :
جہمی فرقہ نے جہاں حدیث کا رد کیا ، وہاں قرآن کے کلام ِ الٰہی ہونے کا بھی انکار کیا ، معتزلہ فرقہ نے جہاں حدیثیں رد کیں ، وہاں قرآن کو بھی مخلوق کہا ۔
امام نعیم بن حماد الخزاعی  رحمہ اللہ (م ٢٢٨ھ) فرماتے ہیں :
المعتزلۃ تردّون ألفی حدیث من حدیث النّبیّ صَلَّی اللّٰہ علیہ وسلّم أو نحو ألفی حدیث ۔
”معتزلہ احادیث ِ نبویہ میں سے دو ہزار یا اس کے لگ بھگ احادیث کا انکار کرتے ہیں ۔”
(سنن ابی داو،د ، تحت حدیث : ٤٧٧٢، وسندہ، صحیح)
اشعری فرقہ نے جہاں احادیث ِ نبویہ کو چھوڑا ، وہاں قرآنِ کریم کے اللہ تعالیٰ کی حقیقی کلام ہونے کا انکار کر دیا ، خارجیوں نے جہاں احادیث ِ نبویہ کا انکار کیا ، وہاں قرآنِ مجید کی واضح نصوص میں معنوی تحریف اور تاویل باطل کے مرتکب ہوئے ، کلابیہ فرقہ نے جہاں احادیث ِ صحیحہ کو خواہشات کا تختہئ مشق بنایا ، وہاں قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ کا مجازی کلام قرار دیا ، مرجی فرقہ نے جہاں بعض احادیث کا رد کیا ، وہاں قرآنِ مجید کی بعض آیات ِ بینات کو مہمل سمجھ لیا ، رافضیوں نے جہاں احادیث کا انکار کیا ، وہاں قرآن کے محرف و مبدل ہونے کا دعویٰ کر دیا ، قادیانیوں نے جہاں احادیث کا انکار کیا ، وہاں قرآن کو منسوخ قرار دیا ۔
معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقہ جوحدیث پر ظلم ڈھاتا ہے ، وہ ضرور بالضرور قرآنِ مجید کو اپنی خواہشات کے حوالے کر دیتا ہے ، فرق صرف اتنا ہے کہ رنگ و روپ مختلف ہے ، کردار ایک ہی ہے ۔
انکار قرآن و حدیث کا ایک نقصان :
منکرینِ قرآن نے نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِ باصفات کو تنقید کا نشانہ بنایا ، منکرینِ حدیث رافضیوں نے صحابہ کرام ]کی کردار کشی کی ، بعض نے جبریل امین سے دشمنی کر لی ، منکرینِ حدیث خارجیوں نے صحابہ کرام کی شان میں تنقیص کی ، ناصبی منکرینِ حدیث نے اہل بیت کی ذات ِ باصفات کو تنقید کا نشانہ بنایا ، ہمارے دور کے منکرینِ حدیث نے ثقہ ائمہ محدثین سلف صالحین اور ثقہ فقہاء و مجتہدین کی تذلیل و توہین کی کوشش کی ، محدثین کرام کو جاہل ، کم فہم اور قرآن کا دشمن و مخالف قرار دیا ۔
اگر نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ، صحابہ کرام ]کے وجود ِ مقدس اور محدثین کرام Sکے وجود ِ مبارک کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو دینِ اسلام کا وجود ِ مسعود باقی نہیں رہ سکتا ، منکرینِ حدیث بھی یہی چاہتے ہیں کہ دینِ اسلام کا نام و نشان تک نہ رہے (العیاذ باللہ!)، اس لیے وہ ان نفوسِ مقدسہ کو حدف ِ تنقید بناتے ہیں ۔
کیا حدیث کی حیثیت تاریخی ہے ؟
کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ حدیث ِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کو تاریخی حیثیت دے کر دین کے بڑے حصے سے دستبردار ہوجایا جائے ؟ جبکہ حدیث کے وحی ہونے پر اجماعِ مسلمین ہے ، قرآنی دلائل اس پر شاہد ہیں ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
( لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْراً\) (الاحزاب : ٢١)
”بلاشبہ جو آدمی اللہ(پر ایمان لاتا ہے) اور یوم ِ آخرت کی امید رکھتا اور اللہ کا زیادہ ذکر کرتا ہے ،اس کے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے ۔”
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ کیا ہے ؟ وہ حدیث ہی تو ہے ، اگر حدیث کی حیثیت غیر تشریعی اور تاریخی ہے تو اسوہئ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہے ؟ منکرینِ حدیث کا مقصد بھی یہی ہے کہ اسوہئ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ ہو جائے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہر منکر ِ حدیث قرآن دشمنی کے درپے ہے ، یہ ایسے طریقے سے حدیث کی تردید و تکذیب کرتے ہیں ،جس سے قرآن کی تردید و تکذیب لازم آتی ہے ، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کا حکم تو دیا ،لیکن اس کا طریقہئ ادائیگی تاریخ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے :      ( وَأَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ )(النحل : ٤٤)
”اور ہم نے یہ ذکر (قرآن) آپ پر اس لیے نازل کیا ہے کہ آپ لوگوں کے لیے ان کی طرف نازل شدہ وحی کی تفسیروتشریح کردیں ۔”
کیا نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کا بیان پیش کیا ہے ؟ اس کی تبیین و توضیح فرمائی ہے ؟ اس کی تفسیر وتشریح کی ہے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ کہاں ہے ؟ اگر حدیث کی تشریعی حیثیت کا انکار کر دیا جائے تو قرآنِ مجید کی اس آیت ِ کریمہ کی تکذیب لازم آئے گی ، بھلا یہ کہنا کہاں تک صحیح ہو گا کہ ”حدیث کی حیثیت دینی نہیں ، محض تاریخی ہے ، جو صبح سے شام تک تبدیل ہو کر کچھ سے کچھ ہو جایا کرتی ہے ۔”
بھلا سوچیں کہ حدیث کیسی تاریخ ہے جو پوری انسانیت کے لیے سامانِ ہدایت واصلاح مہیا کرتی ہے اور اصلاح وفلاح کے حوالے سے زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہے ؟ یہ کیسی تاریخ ہے جو معیشت و سیاست اور ادب و اخلاق کے دائمی ضابطوں سے مالا مال ہے ؟ یہ کیسی تاریخ ہے جو فصاحت وبلاغت ، اسلوب و احکام کی بلندی اور دقت ِ تعبیر سے لبریز ہے؟ یہ کیسی تاریخ ہے جو حلال وحرام اور طیب وخبیث میں فرق کرتی ہے ؟
یہ کیسی تاریخ ہے جو قرآن کی تصدیق کرتی ہے ، اس کو وحی برحق قرار دیتی ہے ، اس پر عمل کرنے کو کہتی ہے، اس میں اختلاف کرنے سے منع کرتی ہے ، اس کی فضیلت بیان کرتی ہے ، اس کا معجزہ ئ خالدہ ہونا تسلیم کرتی ہے اور قرآنِ کریم نے جو تمام اساسی عقائد و عبادات واخلاق بیان کیے ہیں ، ان سے سرمو انحراف نہیں کرتی ؟
یہ کیسی تاریخ ہے جو نماز کے طریقہئ ادائیگی کی تفصیل بیان کرتی ہے، نیز یہ یہاں تک بتاتی ہے کہ ہوا خارج ہو جانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟ یہ کیسی تاریخ ہے جو رشتوں کی حرمت بیان کرتی ہے ؟ یہ کیسی تاریخ ہے کہ اس کی ایک بات کے خلاف بھی مسلمانوں کا اجماع نہ ہوسکا ؟ یہ کیسی تاریخ ہے کہ عقل سلیم اور فطرت ِ سلیمہ اس کی ہر بات کو تسلیم کرتی ہے ؟ یہ کیسی تاریخ ہے کہ اس سے پہلے دنیا کی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر رہی ہے ؟ اور یہ کیسی تاریخ ہے جو کلمہ لَا اَلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا ثبوت فراہم کرتی ہے ؟ ؟ ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.