1,684

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ۔ حافظ ابو یحیٰی نورپوری

فصل سوم : حدیث ِ ابی امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ
امام محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَۃَ بْنَ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ یُحَدِّثُ ابْنَ الْمُسَیِّبِ، قَــالَ : [ اَلسُّنَّۃُ فِي الصَّــــــلَاۃِ عَلَی الْجَنَائِزِ أَنْ یُکَبِّرَ، ثُمَّ یَقْرَأَ بِأُمِّ الْقُرْآنِ، ثُمَّ یُصَلِّيَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یُخْلِصَ الدُّعَاءَ لِلْمَیِّتِ، وَلَا یَقْرَأَ إِلَّا فِي التَّکْبِیـرَۃِ الْـأُولیٰ، ثُمَّ یُسَلِّمَ فِي نَفْسِہٖ عَنْ یَّمِینِہٖ ]
میں نے سیدنا ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو سنا کہ وہ امام سعیدبن مسیب رحمہ اللہ کو حدیث سنا رہے تھے ، انہوں نے فرمایا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ آدمی(پہلی) تکبیر کہے ، پھر سورہئ فاتحہ کی قراء ت کرے ، پھر (دوسری تکبیر کے بعد)نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے ، پھر (تیسری تکبیر کے بعد)میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دُعا کرے ، قراء ت صرف پہلی تکبیر کے بعد کرے، پھر اپنی دائیں جانب خاموشی سے سلام پھیر دے ۔ 1
n یہاں سورہئ فاتحہ کو نماز جنازہ میں سنت قرار دینے والے سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی صحبت کے بارے میں اگرچہ اختلاف ہے ، لیکن راجح بات یہ ہے کہ اگرچہ انہوں نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی ، لیکن وہ صحابی ئ رسول ہی ہیں ، کیونکہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف انہیں حاصل ہے ۔
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وَأَبُو أُمَامَۃَ ہٰذَا صَحَابِيٌّ .
یہ ابو امامہ صحابی ئ رسول ہیں ۔ 2
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خود بھی اس کی صراحت کی ہے اور دیگر کئی محدثین کرام سے بھی یہ بات نقل کی ہے کہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو زیارت ِ نبوی کا شرف حاصل ہے ۔ 3

1 مصنف عبد الرزاق : 489/3، مصنف ابن أبي شیبۃ : 296/3، 298، فضل الصلاۃ علی النبي للامام إسماعیل القاضي ، نقلًا عن ابن حجر في التلخیص الحبیر : 287/2، سنن النسائي : 1989، المنتقیٰ لابن الجارود : 540، مسند الشامیین للطبراني : 160/4، رقم الحدیث : 3000، وسندہ، صحیحٌ . 2 خلاصۃ الأحکام في مہمات السنن وقواعد الإسلام للنووي : 975/2. 3 تقریب التہذیب لابن حجر : 402، تہذیب التہذیب لابن حجر : 264/1.

بعض محدثین کرام کا ان کے بارے میں صحبت کی نفی کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ صحابی ئ رسول نہیں ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں کچھ عرصہ گزارنے کا موقع نہیں ملا ۔یہ بات ہم نے محض اٹکل پچو سے نہیں کی ۔
ہمیں کتب ِ رجال کے مطالعہ سے اس بارے میں ایک عمدہ قاعدہ معلوم ہوا ہے ۔ وہ یہ کہ جب بعض محدثین کسی شخص کو صحابی قرار دیں اور ان کے لیے رؤیت کا اثبات کریں ، جبکہ بعض ان کی صحبت کی نفی کریں تو ان کی مراد لغوی صحبت ہوتی ہے ، نہ کہ اصطلاحی، یعنی بتانا یہ مقصود ہوتا ہے کہ اس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلی ملاقات نہیں کی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث روایت نہیں کی ۔ اس قاعدے کی ایک دلیل ملاحظہ فرمائیں کہ سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ کو محدثین کرام نے صحابی قرار دیا ہے :
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طَارِقُ بْنُ شِہَابٍ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا ہے ۔ 1
امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
طَارِقُ بْنُ شِہَابٍ قَدْ رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ یَسْمَعْ مِنْہُ شَیْئًا .
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی ۔ 2
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَطَارِقُ بْنُ شِہَابٍ مِّمَّنْ یُّعَدُّ فِي الصَّحَابَۃِ .
طارق بن شہاب ان لوگوں میں سے ہیں ، جن کا شمار صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ 3
علامہ ذہبی رحمہ اللہ بھی لکھتے ہیں :
رَأَی النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
انہوں نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ۔ 4
1 المراسیل لابن أبی حاتم : ص 98.
2 سنن أبی داو،د ، تحت الحدیث : 1067.
3 المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 288/1.
4 سیر أعلام النبلاء للذھبی : 488/3.

کسی ایک محدث نے بھی ان کے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونے کا

انکار نہیں کیا ۔البتہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ ان کے لیے زیارت ِ نبوی کا اثبات کرتے ہوئے یہ بھی فرماتے ہیں کہ :
طَارِقُ بْنُ شِہَابٍ، لَہ، رُؤْیَـۃٌ، وَلَیْسَتْ لَہ، صُحْبَۃٌ .
آپ کو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی ، لیکن صحبت حاصل نہیں ہوئی ۔ 1
1 المراسیل لابن أبی حاتم : ص 98.
یہ بات ہمارے بیان کیے گئے قاعدے کی ناقابل تردید دلیل ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اور دلیل ہم فصل پنجم میں ذکر کریں گے ۔ إِنْ شَاءَ اللّٰہ !
یہی معاملہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کا ہے کہ محدثین کرام نے ان کے لیے زیارت ِ نبوی سے مشرف ہونے کا اثبات کیا ہے ، کسی محدث سے اس کی نفی ثابت نہیں ۔ رہا بعض محدثین کرام کا ان کے لیے صحبت کی نفی کرنا تو اس سے مراد یہ ہے کہ بچپن کی وجہ سے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تفصیلی ملاقات کا موقع نہیں ملاجیسا کہ کتب ِ رجال سے عیاں ہے۔
n یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اگر بالفرض کوئی شخص سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو صحابی تسلیم نہ کرے تو بھی یہ حدیث ”منقطع ”یا ”مرسل” نہیں بنتی ، کیونکہ :
امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کے یہ الفاظ نقل فرمائے ہیں :
أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَۃَ بْنُ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ، وَکَانَ مِنْ کُبَرَاءِ الْـأَنْصَارِ وَعُلَمَائِہِمْ، وَأَبْنَاءِ الَّذِینَ شَہِدُوا بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَہُ أَنَّ السُّنَّۃَ فِي الصَّــــلَاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ یُکَبِّرَ الْإِمَامُ، ثُمَّ یَقْـــــــــــــــــــــــرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ سِرًّا فِي نَفْسِہِ، ثُمَّ یَخْتِمَ الصَّلَاۃَ فِی التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ .
مجھے ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے یہ بات بیان کی ۔ ابو امامہ رضی اللہ عنہ انصار کے بزرگ ترین لوگوں اور علمائے کرام میں سے تھے ، نیز غزوہئ بدر میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے والے صحابہ کرام کی اولاد میں سے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے ان کو یہ بیان کیا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے ، پھر خاموشی سے سورہئ فاتحہ کی قراء ت کرے ، پھر (پہلی تکبیر کے بعد)تین تکبیروں میں نماز ختم کرے ۔1
اس روایت میں سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے یہ صراحت کر دی ہے کہ انہوں نے یہ بات ایک صحابی ئ رسول سے سنی ہے ۔ اس صحابی ئ رسول نے نماز جنازہ میں سورہئ فاتحہ کی قراء ت کو سنت ِ نبوی قرار دیا ہے ۔
اس بحث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک اور صحابی بھی ہیں جو نماز جنازہ میں سورہئ فاتحہ کی قراء ت کو سنت قرار دیتے ہیں ۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِي ہَدَانَا لِہٰذَا .
n حدیث ِ ابی امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ اور نماز جنازہ میں ایک سلام
یہاں بطور فائدہ قارئین کرام یہ بات بھی نوٹ کر لیں کہ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں صرف ایک طرف سلام پھیرنا سنت ہے ۔ امام حاکم رحمہ اللہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَلَیْسَ فِي التَّسْلِیْمَۃِ الْوَاحِدَۃِ عَلَی الْجِنَازَۃ أَصَحُّ مِنْہُ .
نمازجنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے کے بارے میں یہ صحیح ترین حدیث ہے ۔ 2
1 شرح معاني الآثار للطحاوي : 500/1، وسندہ، صحیحٌ .
2 المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 513/1.
یہ بھی یاد رہے کہ نماز جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنے کے بارے میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث ثابت نہیں ، جبکہ ایک سلام پھیرنے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قارئین کرام نے ملاحظہ فرما لی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام میں سے بھی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے بھی نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنا ثابت ہے ۔ پھر کسی ایک صحابی سے بھی نماز جنازہ میں دو طرف سلام پھیرنا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں۔اسی طرح تابعین کرام میں سے امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ ، امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ ، امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام مکحول رحمہ اللہ سے صحیح سند کے ساتھ نماز جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرنے کا ذکر ملتا ہے ۔ 1
امام اہل سنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل و فاعل تھے ۔ 2
آخر میں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا فیصلہ کن فرمان پیش خدمت ہے :
مَنْ سَلَّمَ عَلَی الْجَنَازَۃِ بِتَسْلِیمَتَیْنِ فَہُوَ جَاہِلٌ جَاہِلٌ .
جو شخص نماز جنازہ میں دو سلام پھیرتا ہے ، وہ جاہل ہے ، جاہل ہے ۔ 3
1 مصنف ابن أبی شیبۃ : 307/3، وسند الکلّ صحیحٌ .
2 سیرۃ الإمام أحمد لأبي الفضل : ص 40.
3 مسائل الإمام أحمد لابی داو،د : 154، وسندہ، صحیحٌ .
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : ماہنامہ السنۃ ، جہلم ، شمارہ نمبر%
حدیث ِ ابی امامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ
قارئین کرام ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ والی مذکورہ حدیث کئی کتب ِ حدیث میں موجود ہے ۔ فن حدیث کا مبتدی طالب علم بھی اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ ایک حدیث کی سندیں جب مختلف ہوتی ہیں تو اس کے الفاظ بھی مختلف ہو جاتے ہیں اور اسلوب بھی ۔ ایک راوی اسے مکمل ذکر کرتا ہے تو دوسرا مختصر ۔ کوئی راوی اس میں سے ایک مضمون بیان کرتا ہے اور کوئی دوسرا مضمون ۔ روایت ِ حدیث کا یہ ایک عمومی انداز ہے ۔
اس اسلوب کے مطابق یہ حدیث بھی مختلف الفاظ اور اسلوب سے بیان ہوئی ہے ۔ مستدرک ِحاکم والی روایت میں سورہئ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے ۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب (1394-1310ھ)لکھتے ہیں :
وَفِي التَّلْخِیصِ الْحَبِیرِ : فِي الْمُسْتَدْرَکِ مِنْ طَرِیقِ الزُّہْرِیِّ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ بْنِ سَہْلِ بْنِ حُنَیْفٍ : أَنَّہُ أَخْبَرَہُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : أَنَّ السُّنَّۃَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْجِنَــــــــازَۃِ أَنْ یُکَبِّرَ الْإِمَامُ، ثُمَّ یُصَلِّيَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَــــــلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَیُخْلِصَ الدُّعَاء َ فِي التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ، ثُمَّ یُسَلِّمَ تَسْلِیمًا خَفِیًّا، وَالسُّنَّۃُ أَنْ یَفْعَلَ مَنْ وَرَاء َہ، مِثْلَ مَا فَعَلَ إمَامُہُ، قَالَ الزُّہْرِيُّ : سَمِعَہُ ابْنُ الْمُسَیِّبِ مِنْہُ، فَلَمْ یُنْکِرْہُ ۔اہ، فَہٰذَا حَدِیثٌ وَّاحِدٌ وَسِیَاقُہ، مُخْتَلِفٌ .
(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب)التلخیص الحبیر میں ہے : المستدرک (علی الصحیحین للحاکم)میں امام زہری رحمہ اللہ کی سند سے یہ روایت یوں ہے کہ ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ان کو بتایا : نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے اور میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دُعا کرے ۔ (یہ کام )تین تکبیروں میں کرے ، پھر آہستہ سے سلام پھیرے ۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ مقتدی بھی وہی طریقہ اختیار کریں جو ان کا امام اختیار کرتا ہے ۔ امام زہری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے یہ بات سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے سنی ، لیکن کوئی اعتراض نہیں کیا ۔ یہ ایک ہی حدیث ہے ، لیکن انداز مختلف ہے ۔
جناب ظفر احمد تھانوی صاحب مزید لکھتے ہیں :
وَإِذَا صَحَّ الطَّرِیقَانِ یُجْمَعُ بَیْنَہُمَا بِأَنَّ السُّنَّۃَ فِي الصَّلَاۃِ عَلَی الْجَنَـــازَۃِ أَنْ یُّکَبِّرَ الْإِمَامُ، وَیُثْنِيَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، سَوَائً کَانَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ أَوْ غَیْرِہَا، وَلِذَا ذَکَرَ الصَّحَابِيُّ مَــرَّۃً وَّحَذَفَہَا أُخْریٰ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ الْحَنَفِیَّۃِ فِي الْبَابِ .
جب یہ دونوں سندیں صحیح ہیں تو ان میں تطبیق یہ ہو گی کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرے ، یہ حمد و ثناء خواہ سورہئ فاتحہ کے ساتھ ہو یا کسی اور دُعا کے ساتھ ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابی نے ایک دفعہ سورہئ فاتحہ کا ذکر کیا ہے اور دوسری دفعہ اسے حذف کر دیا ہے ۔ اس مسئلہ میں احناف کا مذہب بھی یہی ہے ۔ 1
1 إعلاء السنن للتھانوي : 2564/6.
تجزیہ 1 جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں ، یہ حدیث مختلف انداز سے بیان ہوئی ہے۔ مستدرک ِ حاکم والی روایت میں سورہئ فاتحہ کا ذکر نہ ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کے سنت طریقے میں سورہئ فاتحہ کا ذکر نہیں کیا۔ یہ مسلم اصول ہے کہ عدمِ ذکر ، عدمِ وجود کی دلیل نہیں بن سکتا ۔ تھانوی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں کہ صحابی نے ایک دفعہ اس کا ذکر کیا ہے ، ایک دفعہ چھوڑا ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کا ذکر امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے والے راوی نے اختصار کی وجہ سے چھوڑا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی محدث نے اس حدیث کی عدمِ ذکرِفاتحہ والی روایت کو نماز جنازہ میں قراء ت ِ فاتحہ کی ممانعت یا اس کے غیر ضروری ہونے کی دلیل نہیں بنایا۔
پھر امام بیہقی رحمہ اللہ کے اسلوب سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس حدیث میں سورہئ فاتحہ کا ذکر سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نہیں چھوڑا ، بلکہ اس روایت میں راوی کا مقصود صرف نماز جنازہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی مشروعیت بتانا تھا ۔ اسی لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے سورہئ فاتحہ کے ذکر والی روایت کو نماز جنازہ میں قراء ت کے باب میں ذکر کیا ہے اور اس روایت کو نماز جنازہ میں درود پڑھنے کے باب میں بیان کیا ہے ۔
2 تھانوی صاحب اگر امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت ہی دیکھ لیتے تو شاید یہ اعتراض نہ کر پاتے ، کیونکہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے :
إِنَّ السُّنَّۃَ فِي الصَّـــــــــــلَاۃِ عَلَی الْجِنَازَۃِ أَنْ یُکَبِّرَ الْإِمَامُ، ثُمَّ یَقْـــــــــــــــــــــــرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ سِرًّا فِي نَفْسِہِ، ثُمَّ یَخْتِمَ الصَّلَاۃَ فِی التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ .
نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ امام تکبیر کہے ، پھر خاموشی سے سورہئ فاتحہ کی قراء ت کرے ، پھر (پہلی تکبیر کے بعد)تین تکبیروں میں نماز ختم کرے ۔1
1 شرح معاني الآثار للطحاوي : 500/1، وسندہ، صحیحٌ .
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ اس روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ذکر نہیں ہے ۔ یہاں یہ قطعاً نہیں کہا جا سکتا ایک دفعہ صحابی ئ رسول سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں درود پڑھنے کا ذکر کیا تھا اور دوسری مرتبہ خود ہی چھوڑ دیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہے تو حنفی بھائیوں کو چاہیے تھا کہ وہ جس طرح ایک روایت میں عدمِ ذکر کی وجہ سے سورہئ فاتحہ کو چھوڑ دیتے ہیں ، اسی طرح اس روایت میں عدمِ ذکر کی وجہ سے درود کو بھی چھوڑ دیتے ، کیونکہ اس کی سند کے صحیح ہونے کا اعتراف خود تھانوی صاحب نے کر لیا ہے ، پھر بعض احادیث میں نماز جنازہ کے بیان میں صرف دُعاؤں کا ذکر ہے ، ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف دُعاؤں پر اکتفا کر لیتے اور کہہ دیتے کہ باقی سب چیزوں کو چھوڑا جا سکتا ہے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ اس کے برعکس فقہ حنفی کی معتبر کتاب ”ہدایہ” میں نماز جنازہ کا طریقہ یوں بیان ہوا ہے:
وَالصَّــــــلَاۃُ أَنْ یُّکَبِّرَ تَکْبِیرَۃً یَحْمَدُ اللّٰہَ عَقِیبَہَا، ثُمَّ یُکَبِّرُ تَکْبِیرَۃً یُصَــــــــــــــــــــــلِّي فِیہَا عَلَی النَّبِيِّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، ثُمَّ یُکَبِّـــــــرُ تَکْبِیــرَۃً یَدْعُو فِیہَا لِنَفْسِہٖ وَلِلْمَیِّتِ وَلِلْمُسْلِمِینَ، ثُمَّ یُکَبِّرُ الرَّابِعَۃَ وَیُسَلِّمُ .

نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ایک تکبیر کہے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد کرے ، پھر دوسری تکبیر کہے ، اس کے بعد نبی علیہ السلام پر درود پڑھے ، پھر تیسری تکبیر کہے ، اس کے بعد اپنے لیے ، میت کے لیے اور مسلمانوں کے دُعا کرے ، پھر چوتھی تکبیر کہے اور سلام پھیر دے ۔ 1
1 الہدایۃ للمرغیناني ، فصل في الصلاۃ علی المیت .
صحیح اسانید کے ساتھ اس حدیث کو سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ سے صرف محمد بن سوید رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں اور ان سے صرف امام زہری رحمہ اللہ یہ واقعہ روایت کرتے ہیں ۔ پھر امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے والے کئی شاگرد ہیں ۔ ان میں سے :
معمر بن راشد (مصنف ابن أبي شیبۃ : 296/3، مصنف عبد الرزاق : 489/3،
المنتقیٰ لابن الجارود : 540.)
اللیث بن سعد (سنن النسائي الصغریٰ : 1989، سنن النسائي الکبریٰ : 2116،
العلل للدارقطني : 259/12.)
شعیب بن ابی حمزہ (مسند الشامیین للطبرانی : 160/4، رقم الحدیث : 3000، شرح
معاني الآثار للطحاوي : 500/1.)
وغیرہم (العلل للدارقطني : 259/12.)نے امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت اس حدیث میں سورہئ فاتحہ کا ذکر کیا ہے ۔ جبکہ صرف ایک شاگرد یونس بن یزید الایلی ( المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 513/1، السنن الکبریٰ للبیہقي : 39/4.)نے امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت سورہئ فاتحہ کا ذکر نہیں کیا ۔
اب امام زہری رحمہ اللہ سے سورہئ فاتحہ کو بیان کرنے والے شاگرد کئی ہیں اور سورہئ فاتحہ کا ذکر چھوڑنے والے شاگرد یونس بن یزید الایلی اکیلےہیں ۔ پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرتے وقت سورہئ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی حفظ و اتقان میں بھی یونس بن یزید الایلی سے بہت بلند ہیں ، جیسا کہ ان کے بارے میں محدثین کرام کے فیصلے سے عیاں ہے ۔ ہم اختصار کی خاطر صرف ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ ذکر کیے دیتے ہیں :
سورہئ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی . ذکر نہ کرنے والے راوی
٠ . ٠
٠٠٠ ٠٠٠
٠ . ٠
معمر بن راشد ۔۔۔۔۔۔ ثقۃ ، ثبت ، فاضل . . ٠
اللیث بن سعد۔۔۔۔۔۔ ثقۃ ، ثبت ، فقیہ . . یونس بن یزید الایلی ثقۃ .
شعیب بن ابی حمزہ …..ثقۃ ، عابد . .
پھر یہ تو ان راویوں کا عمومی تقابل تھا ۔ ایک استاذ کے شاگرد ہونے کے ناطے بھی سورہئ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں یونس بن یزید کے مقابلے میں اعلیٰ درجے کے ہیں ، جیسا کہ شعیب بن ابی حمزہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شُعَیْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَۃَ أَصَحُّ حَدِیثًا عَنِ الزُّہْرِيِّ مِنْ یُونُسَ .
شعیب بن ابی حمزہ امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں یونس سے زیادہ راست رَو ہیں ۔ 1
یونس بن یزید کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں :
إِنَّ فِي رِوَایَتِہٖ عَنِ الزُّہْرِيِّ وَہْمًا قَلِیلًا .
ان کو امام زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں کچھ وہم ہو جاتا ہے ۔ 2
1 الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 344/4، وسندہ، حسنٌ .
2 تقریب التہذیب : 7919.
اب قارئین کرام نے ملاحظہ فرما ہی لیا ہے کہ سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سورہئ فاتحہ کا ذکر کرنے والے راوی یونس بن یزید کے مقابلے میں عموماً بھی اعلیٰ درجے کے ہیں اور وہ اپنے استاذ زہری رحمہ اللہ سے بیان کرنے میں خصوصاً بھی زیادہ پختہ کار ہیں ، لیکن جناب ظفر احمد تھانوی صاحب اور دیگر حنفی احباب نے پھر بھی یونس بن

یزید کی بات کو لے کر سورہئ فاتحہ کو چھوڑ دیا ہے ۔ اگر احناف اس حدیث میں اختصار کی وجہ سے سورہئ فاتحہ رہ جانے کے قول پر مطمئن نہیں تھے تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ زیادہ تعداد ، زیادہ ثقہ اور زیادہ پختہ کار راویوں کی بات پر اعتماد کرتے ۔
4 خود جناب ظفر احمد تھانوی صاحب نے صرف پگڑی پر مسح سے انکار کرتے ہوئے اس بارے میں موجود صحیح و صریح احادیث کا یہ جواب دیا تھا :
ظَنَّ الرَّاوِي أَنَّ الْمَسْحَ عَلَی النَّاصِیَۃِ مَعْلُومٌ، وَالْمُہِمُّ ہُوَ التَّکْمِیلُ عَلَی الْعِمَامَۃِ، فَاقْتَصَرَ عَلیٰ ذِکْرِ مَسْحِہَا .
راوی نے سمجھا کہ پیشانی پر مسح تو سب کو معلوم ہے ۔ اہم بات تو پگڑی پر مسح کو مکمل کرنا تھا، لہٰذااس نے صرف پگڑی کے مسح کو ذکر کیا ۔
وَیُؤَیِّدُ ذٰلِکَ أَنَّ الِاخْتِصَارَ فِي الرِّوَایَۃِ وَالِاقْتِصَارَ عَلیٰ ذِکْرِ الْمُہِمِّ لَمْ یَزَلْ مِنْ دَأْبِ الرُّوَاۃِ قَدِیمًا وَّحَدِیثًا .
اس بات کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ روایت میں اختصار اور اہم بات کے ذکر پر اکتفا کرنا قدیم وجدید زمانے میں راویوں کی عادت رہی ہے ۔1
تھانوی صاحب کہنا یہ چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی اور پگڑی دونوں پر مسح کیا تھا ، لیکن راوی نے پیشانی کا ذکر اختصار کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے ۔ ہم نے تھانوی صاحب کی اس بات کو سنت ِ رسول ، اقوال و افعالِ صحابہ اور آراء ِمحدثین سے غلط ثابت کیا تھا ۔ 2
1 إعلاء السنن للتہانوي : 61-54/1، ملخّصًا .
2 دیکھیں : ماہنامہ ضرب ِ حق ،جلد نمبر1، شمارہ نمبر0.
عرض ہے کہ پگڑی پر مسح کے بارے میں تو محدثین و فقہائے کرام کی تصریحات کے خلاف بھی یہ قانون تھانوی صاحب نے پورے زور و شور سے پیش کیا تھا ، لیکن کیا وجہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورہئ فاتحہ کے مسئلہ میں وہ اسے بھول گئے ہیں ، حالانکہ یہاں ایسا کہنا سنت ِ رسول ، فہم ِ صحابہ اور عمل سلف کے موافق بھی ہے ؟

2 تبصرے “نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ۔ حافظ ابو یحیٰی نورپوری

  1. السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

    میرا سوال یہ ہے کہ کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت ثابت ہے کہ نہیں ؟ اگر ہوتو برائے مہربانی مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

    جزاک اللہ خیرا

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.