676

بشریت نبوی۔علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

بشریّت ِ نبوی
غلام مصطفےٰ ظہیرامن پوری
تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح ہمارے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر تھے ، جب پہلی امتوں نے انبیائے علیہم السلام کو جھٹلایا تو ان کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ آپ بشر ہیں ، بشر منصب ِ نبو ت و رسالت پر فائز نہیں ہو سکتا ، اللہ رب العزت نے ان کے اس باطل اور گمراہ کن نظریہ کی تردید فرمائی ، جب نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو مشرکینِ مکہ نے بھی یہی اعتراض اٹھایا ، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
(وَ اَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْن)(الانبیاء : ٣)
”اور (ان ظالموں نے ) چپکے چپکے سرگوشیاں کیں کہ وہ تو تم ہی جیسا بشر ہے ، پھر کیا وجہ ہے ، جو تم آنکھوں دیکھتے جادو میں آجاتے ہو؟”
اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا :
(وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ)(الانبیاء : ٧)
”آپ سے پہلے جتنے بھی پیغمبر ہم نے بھیجے ، سبھی مرد تھے ، جن کی طرف ہم وحی اتارتے تھے ، پس تم اہلِ ذکر سے پوچھ لو اگر خود تمہیں علم نہ ہو ۔”
اس واضح نص کے باوجود ” قبوری فرقے” کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے نور سے نو ر ہیں،اب ہم اتنی سی وضاحت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر قر آنی دلائل پیش کرتے ہیں :
دلیل نمبر ١:
(قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ)(الکھف : ١١٠، حمۤ السجدہ : ٦)
”(اے نبی !)آپ کہہ دیجیے کہ میں تو بس تمہارے ہی جیسا بشر ہوں ، میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔”
دلیل نمبر ٢:
(قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلاً )(بنی اسرائیل : ٩٣)
”آپ کہہ دیجیے کہ میرارب پاک ہے ، میں صرف ایک بشر (اور )رسول ہوں ؟”
دلیل نمبر ٣:
(لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ)(آلِ عمران : ١٦٤)
”درحقیقت اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے ، جب انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا۔ ”
دلیل نمبر ٤:
(لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ)(التوبۃ : ١٢٨)
”بے شک تمہارے پاس ایک رسول آئے ہیں ، جو تمہاری جنس سے ہیں ۔”
دلیل نمبر ٥:
(قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْاَرْضِ مَلٰۤئِکَۃٌ یَّمْشُوْنَ مُطْمَئِنِّیْنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْھِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوْلاً)(بنی اسرائیل : ٩٥)
”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ) کہہ دیجیے کہ اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل رہے ہوتے تو ہم آسمان سے ان کے لیے کوئی فرشتہ رسول بنا کر بھیجتے ۔”
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أی من جنسہم ، ولمّا کنتم أنتم بشرا بعثنا فیکم رسلنا منکم لطفاً ورحمۃً ۔
”مراد یہ ہے کہ ان فرشتوں کی جنس سے(فرشتہ رسول بھیج دیتے )، لیکن جبکہ تم بشر تھے توہم نے اپنے خاص فضل و کرم سے تمہاری طرف تمہاری جنس سے رسول بھیج دیا ۔”(تفسیر ابنِ کثیر : ٤/١٧٤)
ثابت ہو ا کہ آپ بشرہیں اور جنسِ انسانیت سے ہیں ، قرآنی دلائل کے بعد اب حدیثی دلائل ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر ١:
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسرٰی کے ترجمان سے کہا :
بعث ربّ السّماوات وربّ الأرضین تعالیٰ ذکرہ وجلّت عظمتہ الینا نبیّا من أنفسنا نعرف أباہ وأمّہ ۔
”زمین و آسمان کے رب نے ہماری طرف ہماری جنس سے ایک نبی بھیجا ہے ، جن کے والدین کو ہم جانتے ہیں ۔”(صحیح بخاری : ١/٤٤٧، ح : ٣١٥٩)
دلیل نمبر ٢:
ابو جمرہ نصر بن عمران کہتے ہیں کہ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ہمیں کہا ، کیا میں آپ کو ابوذر (غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کے قبولِ اسلام کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ ہم نے عرض کی ، ہاں ! آپ نے کہا ، میں غفار قبیلے کا فرد تھا فبلغنا أن رجلاً قد خرج بمکّۃ یزعم أنہ نبیٌّ ۔
”ہم تک یہ خبر پہنچی ہے کہ مکہ میں ایک آدمی ظاہر ہوا ہے ، جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے ۔”
میں نے اپنے بھائی (انیس غفاری )سے کہا ، آپ اس آدمی کے پاس جائیں اور اس سے بات چیت کریں ، میرے پاس اس کے بارے میں خبر لائیں ، وہ چلا گیا اور آپ سے ملاقات کی ، پھر واپس آیا ، میں نے کہا ، آپ کے پاس کیا خبر ہے ؟ اس نے کہا:
واللّٰہ لقد رأیت رجلاً یأمر بالخیر وینہیٰ عن الشّرّ ۔
”اللہ کی قسم ! میں نے ایک آدمی کو دیکھا ہے ، جوخیر و بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے منع کرتا ہے ۔”
(صحیح بخاری : ١/٤٩٩، ح : ٣٥٢٢، صحیح مسلم : ٢/٢٩٧، ح : ٢٤٧٤)
دلیل نمبر ٣:
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا کہ مشرکینِ مکہ نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ جو سخت ترین معاملہ کیا ہے ، اس کی مجھے خبر دیں ، وہ کہنے لگے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے صحن میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک عقبہ بن ابی معیط آیا ، اس نے آپ کو کندھے سے پکڑا اور اپنا کپڑا نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک میں ڈال کر سختی سے آپ کا گلا گھونٹا ، سیدنا ابو بکر تشریف لا ئے اور اس کے کندھے سے پکڑ کر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیا اور یہ آیت تلاوت فرمائی : (اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّی اللّٰہُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ)(المؤمن : ٢٨)(کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرنے کے درپے ہو ، جو یہ کہتا ہے کہ میر ارب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن نشانیاں لے کر آیا ہے)۔
(صحیح بخاری : ٢/٧١١۔٧١٢، ح : ٤٨١٥)
دلیل نمبر ٤:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سناہے : اللّٰہمّ ! انّ محمّداً بشر یغضب کما یغضب البشر ۔
”اے اللہ ! بے شک محمدبشر ہے ، اس کو غصہ آجاتا ہے ، جس طرح ایک بشر کو غصہ آجاتا ہے ۔”
(صحیح مسلم : ٢/٣٢٤، ح : ٢٦٠١)
دلیل نمبر ٥:
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میں تو بس بشر ہوں ، تم میرے پاس مقدمات لاتے ہو ، ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے دلائلِ دعوی کے نشیب و فراز کو دوسرے کی نسبت زیادہ سمجھ داری سے پیش کرے ، میں (بالفرض )دلائل کی سماعت کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ سنا دوں ، (یاد رکھو)جس کو میں (دلائل کی ظاہری قوت کے پیشِ نظر )اس کے بھائی کا معمولی سا حق بھی کا ٹ کر دے دوں ، وہ اسے نہ لے ، یقینامیں نے اسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دیا ہے ۔”(صحیح بخاری : ٢/١٠٦٢، ح : ٧١٦٩، صحیح مسلم : ٢/٧٤، ح : ١٧١٣)
دلیل نمبر ٦:
سیدنا سمرہ بن جندب کہتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے اجتماع سے خطاب فرمایا :     یۤا أیہا النّاس ! انّما أنا بشر ورسول اللّٰہ ۔ ”لوگو! میں بشر ہوں اور اللہ کا رسول ہو ں ۔”
(مسند الامام احمد : ٥/١٦، الطبرانی : ٦٧٩٧۔٦٧٩٩، المستدرک للحاکم : ١/٣٢٩۔٣٣٠ واخرجہ ابوداؤد : ١٨٤ والنسائی : ١٤٨٤والترمذی : ٥٦٢ مختصراً وقال : حسن صحیح، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابنِ خزیمہ (١٣٩٧)، امام ابنِ حبان (٢٨٥٦)نے ”صحیح ” اور حاکم نے بخاری و مسلم کی شرط پر ” صحیح ” کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
اس حدیث کا راوی ثعلبہ بن عباد العبدی ” موثق حسن الحدیث ” ہے ، امام ابنِ خزیمہ ، امام ترمذی ، امام ابنِ حبان اور حاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے اس کی توثیق کی ہے ، لہٰذا اس کو ”مجہول ”کہنے والوں کا قول مردود ہے ۔
دلیل نمبر ٧:
ابو رمثہ کہتے ہیں ، میں اپنے والد ِ گرامی کے ساتھ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ، جب میرے باپ نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے :
وکنت أظنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم شیئًا لا یشبہ النّاس ، فاذا بشر ۔
”میرے خیال میں یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں جیسے نہیں ہوں گے ، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ آپ تو بشر ہیں ۔”
آپ کے بال مبارک کانوں سے ملے ہوئے تھے ، ان پر مہندی لگی ہوئی تھی ، آپ پر دو سبز چادریں تھیں ، میرے باپ نے آپ پر سلام کہا ، پھر ہم بیٹھ گئے ، تھوڑی دیر باتیں کیں تو آپ نے میرے والد سے پوچھا ، کیا یہ آپ کا بیٹا ہے ؟ تو انہوں نے جواب میں کہا ، ہاں ، کعبہ کے رب کی قسم ! یہ میر ا بیٹا ہے ، آپ نے فرمایا ، واقعی آپ کا بیٹا ہے ـ؟تو میرے باپ نے کہا ، میں اس پر گواہی دیتا ہوں ، میری والد سے مشابہت اور مجھ پر میرے والد کی قسم کی وجہ سے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دئیے ، فرمایا ، اس کے جرم کی سزا آپ کو نہیں ملے گی اور نہ ہی آپ کے جرم کی سزا اس کو ملے گی ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ِ کریمہ تلاوت فرمائی :(وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی)(الأنعام :١٦٤،الاسراء : ١٥، فاطر : ١٨، الزمر : ٧ )(کوئی جان دوسری جا ن کا بوجھ نہیں اٹھا تی )پھر میرے والد نے آپ کی جلد مبارک کے ساتھ لگا ہو ازائد گوشت دیکھا تو کہا ، اے اللہ کے رسول ! میں لوگوں کا علاج کرتا ہوں، کیا آپ کا علاج نہ کروں ؟ اس پر نبی ئ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، نہیں ، اس کو پیداکرنے والا ہی اس کا طبیب ہے ۔”(مسند الامام احمد : ٢/٢٢٦،٢٢٨ زوائد مسند الامام احمد : ٢/٢٢٧،٢٢٨، وسندہ صحیح)
امام حاکم (٢/٤٢٥)نے اس کو ”صحیح الاسناد ”کہا ہے ۔
دلیل نمبر ٨:
سیدنا رافع بن خدیج انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انّما أنا بشر، اذا أمرتکم بشییئ من دینکم فخذوا بہ واذا أمرتکم بشییئ من رأیی فانّما أنا بشر ۔”یقینا میں بشر ہوں ، جب میں تمہیں کوئی بھی دینی حکم دوں تو اس پر (سختی سے )عمل پیرا ہو جاؤ اور جب میں تمہیں اپنی رائے سے حکم دوں تو میں بشر ہوں ۔”(صحیح مسلم : ٢/٢٦٤، ح : ٢٣٦٢)
دلیل نمبر ٩:
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بات سنتا تھا ، وہ حفظ و ضبط کے ارادے سے لکھ لیتا تھا ، مجھے اس بات سے ہر قریشی (صحابی )نے منع کیا ، انہوں نے کہا کہ آپ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات لکھ لیتے ہیں ، حالانکہ آپ بشر ہیں ، غضب و غصہ اور خوشگوار ی دونوں حالتوں میں بات کرتے ہیں ، عبداللہ بن عمرو کہتے ہیں ، میں حدیث لکھنے سے رک گیا ، میں نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے اپنی انگلی مبارک سے اپنے منہ مبارک کی طرف اشار ہ کیا اورفرمایا، لکھا کر ، مجھے اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اس منہ سے صرف حق نکلتا ہے ۔”(مسند الامام أحمد : ٢/١٦٢، سنن أبی داؤد : ٣٦٤٦، سنن الدارمی : ٤٩٠، المستدرک للحاکم : ١/١٠٥۔١٠٦، وسندہ صحیح، وأخرجہ أحمد : ٢/٢٠٧، مسند البزار : ٢٤٧٠، تاریخ أبی زرعۃ الدمشقی :١٥١٦، الصحابۃ لأبی القاسم البغوی : ١٤٧٢، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر : ١/٨٤۔٨٥، وسندہ حسن ، التقیید للخطیب : ٨٠، وسندہ حسن)
دلیل نمبر ١٠:
قاسم بن محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امور ِ خانہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا :
کان بشراً من البشر، یفلی ثوبہ ، ویحلب شاتہ ، ویخدم نفسہ ۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشروں میں سے ایک بشر تھے ، اپنے کپڑوں سے جوئیں تلاش کرتے ، اپنی بکریوں کادودھ دوہتے اور اپنے کا م خود کر تے تھے ۔”
(مسند الامام أحمد : ٦/٢٥٦، وسندہ حسن ، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم : ٨/٣٣١ عن عمرۃ وسندہ حسن ، وصححہ ابن حبان : ٥٦٧٤، الشمائل للترمذی : ٣٤٣، الادب المفرد للبخاری : ٥٤١، شرح السنۃ : ٣٦٧٦، وہو حسن)
دلیل نمبر ١١:
ابو رِمثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں :
دخلت المسجد مع أبی واذا النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قاعد فی ظلّ الکعبۃ ، قال لی: أرأیت الرّجل الّذی فی ظلّ الکعبۃ ؟ ذاک رسول اللّٰہ ۔
”میں اپنے والد کے ہمراہ مسجد ِ(حرام )میں داخل ہو ا ، وہاں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ، میرے والد نے مجھے کہا، کیا تو نے وہ شخص دیکھے ہیں ، جو کعبے کے سائے میں بیٹھے ہیں ، وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔”
(مسند الامام أحمد : ٤/١٦٣، زوائد مسند الامام أحمد : ٢/٢٢٧، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٢/٢٨٢، وسندہ صحیح)
٭

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.