639

عالم الغیب کون، غلام مصطفی ظہیر امن پوری، قسط 3


رضی اللہ عنہا علم ِغیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔یہ اہل سنت والجماعت کا اتفاقی و اجماعی عقیدہ ہے۔ اس اجماعی عقیدے کے خلاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کے نظریے کی اسلام میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
نصارٰی اور روافض کا نظریہ :
انبیا کے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ اسلاف ِ امت میں کسی سے بھی ثابت نہیں، بلکہ یہ نصاریٰ اور روافض (دشمنانِ صحابہ شیعوں)سے ماخوذ ہے،جیسا کہ :
n علامہ،عبد الرحمن بن عبداللہ، سہیلی رحمہ اللہ (581-508ھ)لکھتے ہیں :
فَلِذٰلِکَ کَانَ الْمَسِیحُ عِنْدَہُمْ یَعْلَمُ الْغَیْبَ، وَیُخْبِرُ بِمَا فِي غَدٍ، فَلَمَّا کَانَ ہٰذَا مِنْ مَّذْہَبِ النَّصَارَی الْکَذِبَۃِ عَلَی اللّٰہِ، الْمُدَّعِینَ الْمُحَالِ ۔
’’اسی لیے نصاریٰ کے ہاں سیدنا عیسیٰu عالم الغیب تھے اور آئندہ کی باتوں کی خبر دیتے تھے۔جب اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور ناممکنات کا دعویٰ کرنے والے نصاریٰ کا یہ حال تھا،تو۔۔۔‘‘
(الروض الأنف : 404/2، عمدۃ القاري للعیني الحنفي : 55/1)
قرآنی دلیل :
اب اس عقیدے کے متعلق قرآنی دلیل ملاحظہ فرمائیں :
n ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ} (الأنعام 6 : 50)
’’آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔‘‘
n سیدنا نوحu کا اپنی قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے یوں نقل فرمایا ہے :
{وَلَا اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا اَقُولُ اِنّی مَلَکٌ} (ھود 11 : 31)
’’میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں،نہ میں غیب جانتا ہوں،نہ ہی میں فرشتہ ہوں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں امام،ابو جعفر،نحاس(م : 338ھ)لکھتے ہیں :
{وَلَا اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللّٰہِ}، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِہٖ وَتَذَلُّلِہٖ لِلّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، وَأَنَّہٗ لَا یَدَّعِي مَا لَیْسَ لَہٗ؛ مِنْ خَزَائِنِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، وَہِيَ إِنْعَامُہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ، وَأَنَّہٗ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ؛ لِأَنَّ الْغَیْبَ لَا یَعْلَمُہٗ إِلَّا اللّٰہُ جَلَّ وَعَزَّ ۔
’’{وَلَا اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللّٰہِ}(میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔)یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں اپنی عاجزی اور بے بسی کا اظہار کیا ہے،نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں،آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے،جس بندے پر چاہے کرے۔یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے،کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔‘‘
(إعراب القرآن : 167/2)
علامہ،ابو اسحاق،ابراہیم بن سری،زجاج رحمہ اللہ (311-241ھ)فرماتے ہیں :
فَأَعْلَمَہُمُ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہٗ لَا یَمْلِکُ خَزَائِنَ اللّٰہِ الَّتِي بِہَا یَرْزُقُ وَیُعْطِي، وَأَنَّہٗ لاَ یَعْلَمُ الْغَیْبَ فَیُخْبِرَہُمْ بِمَا غَابَ عَنْہُ مِمَّا مَضٰی، وَمَا سَیَکُونُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ اللّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان(مشرکین)کو بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رزق و بخشش والے خزانوں کے مالک نہیں۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے بغیر انہیں ان واقعات کی خبر دیں،جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرموجودگی میں پیش آ چکے تھے یا آئندہ رونما ہونے والے تھے۔‘‘
(معاني القرآن وإعرابہ : 250/2)
مشہور مفسر،علامہ،ابو عبد اللہ،محمد بن احمد،قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)فرماتے ہیں :
{وَلَا اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ}، أَخْبَرَ بِتَوَاضُعِہٖ وَتَذَلُّلِہٖ لِلّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، وَأَنَّہٗ لَا یَدَّعِي مَا لَیْسَ لَہٗ؛ مِنْ خَزَائِنِ اللّٰہِ جَلَّ وَعَزَّ، وَہِيَ إِنْعَامُہٗ عَلٰی مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ، وَأَنَّہٗ لَا یَعْلَمُ الْغَیْبَ؛ لِأَنَّ الْغَیْبَ لَا یَعْلَمُہٗ إِلَّا اللّٰہُ جَلَّ وَعَزَّ ۔
’’{وَلَا اَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَائِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ}(میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں،نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔)یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا تذکرہ کیا ہے،نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ کے پاس نہیں ہیں،آپ ایسا کوئی دعویٰ بھی نہیں کرتے۔یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے،جس بندے پر چاہے کرے۔یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے،کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔‘‘(الجامع لأحکام القرآن : 26/9، 27)
معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر جو یہ فرمایا تھا :
’أَمَا إِنَّہَا سَتَہُبُّ اللَّیْلَۃَ رِیحٌ شَدِیدَۃٌ، فَلاَ یَقُومَنَّ أَحَدٌ، وَمَنْ کَانَ مَعَہٗ بَعِیرٌ؛ فَلْیَعْقِلْہُ‘ ۔
’’خبردار! آج رات سخت آندھی چلے گی،لہٰذا کوئی بھی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو،اسے باندھ لے۔‘‘(صحیح البخاري : 1481، صحیح مسلم : 1392)
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی سے فرمایا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے ہی باخبر کر دیا تھا۔صحابہ کرام] کو آندھی آنے سے قبل ہی اس کی خبر مل گئی تھی، لیکن کوئی بھی اس خبر ملنے کی بنا پر صحابہ کرام کو عالم الغیب ثابت نہیں کرتا،تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر ملنے پر عالم الغیب ثابت کرنا کیسے درست ہے؟حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین میں جابجا اس بات کی صراحت فرما دی ہے کہ علم ِ غیب اللہ تعالیٰ ہی کا خاصہ ہے،اس کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا!
احادیث ِ نبویہ :
آئیے اس حوالے سے کچھ احادیث بھی ملاحظہ فرما لیں :
n سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’وَلَا یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللّٰہُ‘ ۔
’’کل کیا ہونے والا ہے؟اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘
(صحیح البخاري : 7379)
n ام المومنین،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
’إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِنِسَائٍ مِّنَ الْـأَنْصَارِ، فِي عُرْسٍ لَّہُنَّ، یُغَنِّینَ : ۔۔۔، وَیَعْلَمُ مَا فِی غَـــــدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’لَا یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللّٰہُ‘ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کی کچھ عورتوں کے پاس سے ہوا،جو اپنی ایک شادی میں یہ گنگنا رہی تھیں:۔۔۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کو جانتے ہیں۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کل کی بات کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔‘‘
(المعجم الأوسط للطبراني : 3401، المعجم الصغیر للطبراني : 343، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 185/2، السنن الکبرٰی للبیہقي : 289/7، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘قرار دیا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: وَرِجَالُہٗ رِجَالُ الصَّحِیحِ ۔
’’اس حدیث کے راوی صحیح بخاری والے ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد : 290/4)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘قرار دیا ہے۔
n سیدنا جبریلu نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’سُبْحَانَ اللّٰہِ، فِي خَمْسٍ، مِّنَ الغَیْبِ، لَا یَعْلَمُہُنَّ إِلَّا ہُوَ : {اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْـأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَّمَا تَدْرِی نَفْسٌ مبِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ} (لقمان 31 : 34) ۔
’’سبحان اللہ!قیامت کا علم تو ان پانچ چیزوں میں شامل ہے،جو غیب سے تعلق رکھتی ہیں۔انہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔(پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت ِکریمہ تلاوت فرمائی:) {اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْـأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِی نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا وَّمَا تَدْرِی نَفْسٌ مبِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ} (لقمان 31 : 34) (بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے،وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ارحام میں جو کچھ ہے،وہی اسے جانتا ہے۔کوئی جان نہیں جانتی کہ وہ کل کو کیا کرے گی اور کسی کو یہ معلوم نہیں کہ کس زمین میں اسے موت آئے گی۔بے شک اللہ تعالیٰ ہی خوب علم والا،خبر رکھنے والا ہے)۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 318/1، وسندہٗ حسنٌ)
صحابہ کرام ] کا عقیدہ :
صحابہ کرام] جو ساری کائنات سے بڑھ کر پیکر ِنبوت و رسالت کی واقفیت رکھتے تھے،ان کا بھی یہی عقیدہ و نظریہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے۔
n مؤمنوں کی ماں،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
وَمَنْ حَدَّثَکَ أَنَّہٗ یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ؛ فَقَدْ کَذَبَ ۔
’’جو آپ کو یہ بتائے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والے واقعات کو جانتے تھے، اس نے جھوٹ بولا ہے۔‘‘(صحیح البخاري : 4855)
صحیح مسلم(177)میں یہ الفاظ ہیں :
وَمَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یُخْبِرُ بِمَا یَکُونُ فِي غَدٍ؛ فَقَدْ أَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ، وَاللّٰہُ یَقُولُ : {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ}(النمل 27 : 65) ۔
’’جس کا یہ دعویٰ ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ ہونے والی باتوں کی خبر دیتے تھے،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا جھوٹ باندھا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ} (النمل 27 : 65)(اے نبی!آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی ہستی،سوائے اللہ تعالیٰ کے،غیب نہیں جانتی)۔
مشہور صوفی،ابو محمد،ابن ابو جمرہ(م : 699ھ)لکھتے ہیں :
وَفِي قَوْلِہٖ : ’وَلَا یَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ إِلَّا اللّٰہُ‘ إِشَارَۃٌ إِلٰی أَنْوَاعِ الزَّمَانِ وَمَا فِیہَا مِنَ الْحَوَادِثِ، وَعَبَّرَ بِلَفْظِ غَدٍ لِتَکُونَ حَقِیقَتُہٗ أَقْرَبَ الْـأَزْمِنَۃِ، وَإِذَا کَانَ مَعَ قُرْبِہٖ لَا یَعْلَمُ حَقِیقَۃَ مَا یَقَعُ فِیہِ مَعَ إِمْکَانِ الْـأَمَارَۃِ وَالْعَلَامَۃِ؛ فَمَا بَعُدَ عَنْہُ أَوْلٰی، وَفِي قَوْلِہٖ : ’وَلَا یَعْلَمُ مَتٰی تَقُومُ السَّاعَۃُ إِلَّا اللّٰہُ‘ إِشَارَۃٌ إِلٰی عُلُومِ الْآخِرَۃِ، فَإِنَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَوَّلُہَا، وَإِذَا نَفٰی عِلْمَ الْـأَقْرَبِ انْتَفٰی عِلْمُ مَا بَعْدِہٗ، فَجَمَعَتِ الْآیَۃُ أَنْوَاعَ الْغُیُوبِ وَأَزَالَتْ جَمِیعَ الدَّعَاوِي الْفَاسِدَۃِ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں کہ’کل کی بات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا‘مختلف زمانوں اور ان میں پیش آنے والے واقعات کی طرف اشارہ ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی نفی کو کل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے تاکہ اس کا اثبات قریب ترین زمانہ میں ہو۔جب کل کے قریب ہونے اور اس میں ہونے والے واقعات کی علامات بھی موجود ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں نہیں جانتے تھے،تو دُور والے واقعات کا علم تو بالاولیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھا۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ ’قیامت کب قائم ہو گی،سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا‘میں علومِ آخرت کی طرف اشارہ ہے۔ قیامت کا دن آخرت کا آغاز ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی چیز کے علم کی نفی کر دی،تو اس کے بعد والے حالات کے علم کی نفی خود بخود ہو گئی۔اس آیت ِ کریمہ نے غیب کی تمام اقسام کو جمع کر دیا ہے اور تمام غلط دعویٰ جات کی نفی کر دی ہے۔‘‘(بہجۃ النفوس وتحلّیہا بمعرفۃ ما لہا وما علیہا : 272/4 ملخّصًا، فتح الباري لابن حجر : 365/13)
الحاصل :
علم ِ غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔مخلوق میں سے کوئی بھی عالم الغیب نہیں۔ قرآنِ کریم،احادیث ِنبویہ،فتاویٔ صحابہ اور ائمہ مسلمین کا یہی فیصلہ ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ تعالیٰ کی وحی آتی تھی اور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ کی کئی خبریں اپنی امت کو بتائیں۔اگر اسے علم ِغیب کا نام دیا جائے،تو دنیا کا ہر شخص عالم الغیب قرار پائے گا۔
نزولِ عیسیٰ

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.