658

عالم الغیب کون؟قسط2 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

دلیل نمبر 1 : فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(تِلْکَ مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوحِیہَا إِلَیْکَ مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِینَ) (ہود 11: 49)
”یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے ان کے بارے میں علم نہیں رکھتے تھے۔صبر سے کام لیں، بلاشبہ اچھا انجام متقین ہی کے لیے ہے۔”
اس آیت کی تفسیر میں سنی امام ابوجعفر ابن جریر طبریa(310-224ھ)فرماتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی ذِکْرُہ، لِنَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ الَّتِي أَنْبَأْتُکَ بِہَا مِنْ قِصَّۃِ نُوحٍ وَّخَبَرِہٖ وَخَبَرِ قَوْمِہٖ (مِنْ أَنْبَآءِ الْغَیْبِ) (آل عمران 3:44)، یَقُولُ : ہِيَ مِنْ أَخْبَارِ الْغَیْبِ الَّتِي لَمْ تَشْہَدْہَا فَتَعْلَمَہَا، (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) (ہود 11: 49)، یَقُولُ : نُوحِیہَا إِلَیْکَ نَحْنُ، فَنُعَرِّفُکَہَا (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا) (ہود 11: 49)، الْوَحْيِ الَّذِي نُوحِیہِ إِلَیْکَ . ”اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ نوح uاور ان کی قوم کے جس واقعے کی میں نے آپ کو خبر دی ہے وہ غیب کی ایک خبر ہے، یعنی آپ وہاں موجود نہیں تھے کہ جانتے لیکن ہم نے وہ خبریں آپ کی طرف وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم کو اس سے پہلے اس وحی کے بارے میں علم نہ تھاجو اب ہم نے آپ کی طرف کی ہے۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 74/12)
حافظ ابن کثیرa(774-701ھ)اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
یَقُولُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ہٰذِہِ الْقِصَّۃُ وَأَشْبَاہُہَا (مِنْ أَنْباءِ الْغَیْبِ)، یَعْنِي مِنْ أَخْبَارِ الْغُیُوبِ السَّالِفَۃِ (نُوحِیہَا إِلَیْکَ) عَلٰی وَجْہِہَا کَأَنَّکَ شَاہِدُہَا، نُوحِیہَا إِلَیْکَ، أَيْ نُعْلِمُکَ بِہَا وَحْیًا مِّنَّا إِلَیْکَ، (مَا کُنْتَ تَعْلَمُہا أَنْتَ وَلاَ قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ہٰذَا)، أَيْ لَمْ یَکُنْ عِنْدَکَ وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِّنْ قَوْمِکَ عَلِمٌ بِہَا حَتَّی یَقُولَ مَنْ یُکَذِّبُکَ : إِنَّکَ تَعَلَّمْتَہَا مِنْہُ، بَلْ أَخْبَرَکَ اللّٰہُ بِہَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. ”اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ یہ اور اس طرح کے دیگر واقعات سابقہ ادوار کی غیبی خبریں ہیں۔ ہم نے ان کو اسی طرح آپ کی طرف وحی کر دیا ہے، گویا کہ آپ ان کے چشم دید گواہ ہوں۔ ہم نے وحی کر کے آپ کو ان کی اطلاع دے دی ہے۔ آپ اور آپ کی قوم اس سے پہلے اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لہٰذا آپ کو جھٹلانے والے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ نے اپنی قوم کے کسی فرد سے یہ واقعات سنے ہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی خبر آپ کو دی ہے۔”
(تفسیر القرآن العظیم : 540/3)
نیز ایک آیت کی تفسیر میںموصوف یوں رقمطراز ہیں : وَیُخْبِرُہُمْ أَنَّہ، لَا یَقدِرُ عَلَی التَّصَرُّفِ فِي خَزَائِنِ اللّٰہِ، وَلَا یَعْلَمُ مِنَ الْغَیْبِ إِلَّا مَا أَطْلَعَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَ ہُوَ بِمَلِکٍ مِّنَ الْمَلَائِکَۃِ، بَلْ بَشَرٌ مُّرْسَلٌ، مُؤَیَّدٌ بِالْمُعْجِزَاتِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں یہ بتا رہے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں تصرف پر قادر نہیں، نیز وہ غیب نہیں جانتے،ہاں جس بات کی اللہ تعالیٰ انہیں اطلاع دے دیتا ہے، اس کا علم انہیں ہو جاتا ہے، نیز وہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ ایک بشر ہیں جنہیں مبعوث کیا گیا ہے اور معجزات کے ساتھ ان کی تائید کی گئی ہے۔”(تفسیر القرآن العظیم : 532/3)
دلیل نمبر 2 : اللہ تعالیٰ کا فرمانِ عالی شان ہے :
(وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِینٍ) (التکویر 81: 24)
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب پر بخیل نہیں ہیں۔”
سب مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد وحی اور قرآن ہے۔اس آیت ِکریمہ سے یہ استدلال کرنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے علاوہ بھی علم غیب عطا کیا گیا تھا، یہ قرآنِ مجید کی معنوی تحریف اور کفریہ عقیدہ ہے۔
شیخ الاسلام ثانی،علامہ ابن القیمa(751-691ھ)فرماتے ہیں : وَأَجْمَعَ الْمُفَسِّرُونَ عَلٰی أَنَّ الْغَیْبَ ہٰہُنَا الْقُرْآنُ وَالْوَحْيُ . ”مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اس آیت ِکریمہ میں غیب سے مراد قرآنِ کریم اور وحیِ الٰہی ہی ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن ، ص : 197)
(بِضَنِینٍ) کی ایک قراء ت (بِظَنِینٍ) بھی ہے۔ اس کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے مشہور مفسر سعید بن جبیر تابعیaفرماتے ہیں : لَیْسَ بِمُتَّہَمٍ . ”آپ وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں۔” (جامع البیان عن تأویل آي القرآن للطبري : 103/30، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابن کثیرaفرماتے ہیں : أَيْ : وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا أَنْزَلَہُ اللّٰہُ إِلَیْہِ بِظَنِینٍ، أَيْ بِمُتَّہَمٍ، وَمِنْہُمْ مَّنْ قَرَأَ ذٰلِکَ بِالضَّادِ، أَيْ بِبَخِیلٍ، بَلْ یَبْذُلُہ، لِکُلِّ أَحَدٍ . ”یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں۔ بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر ایک کو پہنچاتے ہیں۔”(تفسیر القرآن العظیم : 404/6)
امام ابن جریر طبریa ضاد والی قراء ت کو راجح قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَمَا مُحَمَّدٌ عَلٰی مَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ مِنْ وَحْیِہٖ وَتَنْزِیلِہٖ بِبَخِیلٍ بِتَعْلِیمُکُمُوہُ أَیُّہَا النَّاسُ، بَلْ ہُوَ حَرِیصٌ عَلٰی أَنْ تُؤْمِنُوا بِہٖ وَتَتَعَلَّمُوہُ .
”اے لوگو! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی سکھائی ہوئی وحی اور کتاب کو تمہیں سکھانے کے حوالے سے بخیل نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس بات کے شیدائی ہیں کہ تم اس پر ایمان لاؤ اور اسے سیکھو۔”(جامع البیان عن تأویل آي القرآن : 104/30)
شیخ الاسلام ثانی ، علامہ ابن القیمaاسی حوالے سے فرماتے ہیں :
وَہٰذَا مَعْنًی حَسَنٌ جِدًّا، فَإِنَّ عَادَۃَ النُّفُوسِ الشُّحُّ بِالشَّيْءِ النَّفِیسِ، وَلَا سِیَّمَا عَمَّنْ لَّا یَعْرِفُ قَدْرَہ، وَیَذُمُّہ، وَیَذُمُّ مَنْ ہُوَ عِنْدَہ،، وَمَعَ ہٰذَا فَہٰذَا الرَّسُولُ لَا یَبْخَلُ عَلَیْکُمْ بِالْوَحْيِ الَّذِي ہُوَ أَنْفَسُ شَيْءٍ وَّأَجَلُّہ، .
”اس آیت کا یہ معنیٰ بہت عمدہ ہے(کہ آپ وحی کو آگے پہنچانے میں بخل سے کام نہیں لیتے)،کیونکہ عادتاً لوگ قیمتی چیز کو چھپاتے ہیں، خصوصاً ان لوگوں سے جو اس کی قدرو قیمت سے واقف نہیں ہوتے یا جو اس چیز کی یا اس چیز کے حامل کی اہانت کرتے ہیں۔لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ رسول تم پر اس وحی کے حوالے سے بخیل نہیںجو دنیا جہان کی سب چیزوںسے قیمتی اور عمدہ چیز ہے۔”(التبیان في أقسام القرآن، ص : 197)
مشہور لغوی فراء (م : 207ھ)کہتے ہیں: یَقُولُ : یَأْتِیہِ غَیْبُ السَّمَائِ، وَہُوَ مَنْفُوسٌ فِیہِ، فَلَا یَضُنُّ بِہٖ عَنْکُمْ . ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے نبی کے پاس آسمان سے غیب کی خبریں آتی ہیں۔ یہ وحی انہیں بہت عزیز ہوتی ہے لیکن وہ اسے تم سے چھپاتے نہیں۔”(معاني القرآن للفراء : 242/3)
لغت ِعرب کے ماہر علامہ ابوعلی فارسی(377-288ھ)کہتے ہیں :
اَلْمَعْنٰی : یَأْتِیہِ الْغَیْبُ فَیُبَیِّنُہ، وَیُخْبِرُ بِہٖ وَیُظْہِرُہ،، وََلَا یَکْتُمُہ، کَمَا یَکْتُمُ الْکَاہِنُ مَا عِنْدَہ،، وَیُخْفِیہِ حَتّٰی یَأْخُذَ عَلَیْہِ حُلْوَانًا .
”اس آیت کا معنیٰ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غیب کی خبر آتی ہے تو آپ اسے آگے بیان کر دیتے ہیں اور اس کو سب لوگوں کے سامنے ظاہر کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہیں کرتے جیسے کاہن اپنے پاس موجود خبر کو اس وقت تک چھپائے رکھتا ہے جب تک اسے اجرت نہ دے دی جائے۔”(التبیان في أقسام القرآن لابن القیّم، ص : 197)
اس آیت ِکریمہ سے واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیب یعنی وحی پر بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔ وحی کو من وعن آگے پہنچاتے تھے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ثابت کرنا لغوی و تفسیری ادب کے ساتھ ظلم ہے۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین میں سے کسی نے اس آیت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب کا اثبات نہیں کیا، بلکہ پورا قرآنِ کریم پڑھنے کے باوجود اسلاف کا یہی عقیدہ رہا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی غیب نہیں جانتا۔ لیکن کیا کریں کہ مخلوق کے لیے علم غیب کے دعوے دار سینہ زوری سے کام لے کر ائمہ دین کے خلاف عقیدہ گھڑ لیتے ہیں اور قرآن و حدیث کی دور ازکار تاویلیں کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
یہ بات تو مسلّم ہے اور کوئی مسلمان اس سے انکاری نہیں ہو سکتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی غیب کی خبر آئی وہ وحی الٰہی تھی اور وحی الٰہی کے ایک ایک لفظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال دیانتداری سے امت تک پہنچا دیا۔ اس میں دو رائے نہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ایک بھی لفظ چھپانے کا الزام لگاتا ہے،وہ پکا بے ایمان اور کافر ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناطق بالوحی تھے تو عالم الغیب کیسے ہوئے؟ وحی ایک اطلاع ہے اور اطلاع ملنے پر غیب،غیب نہیں رہتا بلکہ خبر بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ سب سے علم غیب کی نفی کر دی ہے۔(النمل 27: 65)
اگر وحی الٰہی کو علم غیب قرار دینے پر اصرار ہے تو یہ وحی ہم تک بھی تو پہنچی ہے۔ ہر مسلمان اور ہر کافر یکساں اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔ کیا دنیا میں کوئی شخص ایسا رہ جائے گا جو عالم الغیب نہ ہو یا قرآن و سنت کا مطالعہ کر کے عالم الغیب بن نہ سکتا ہو؟
علم غیب کے حوالے سے ان لوگوں کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تمام انبیائ، صلحاء اور اولیاء حتی کہ اولیاء کی بلیاں بھی غیب جانتی ہیں۔ جبکہ بعض علم غیب کو صرف انبیائے کرام تک محدود کرتے ہیں اور بعض تو صرف خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب قرار دیتے ہیںاور باقی سب سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں۔
ایک ایسے ہی شخص سے ہماری بات ہوئی۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ اللہ کے علاوہ کس کس ہستی کو عالم الغیب قرار دیتے ہیں؟اس کا جواب تھا : صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ اس سے پوچھا گیا : کیا جبریلuبھی عالم الغیب ہیں؟ اس کا جواب نفی میں تھا۔ اس سے کہا گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس وقت تک بات نہیں کرتے تھے جب تک وحی نہ آ جاتی تھی۔جب اللہ تعالیٰ کی وحی پر اطلاع پانا آپ کے نزدیک علم غیب ہے تو سب سے پہلے عالم الغیب جبریلu ہوئے جو اس وحی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سیکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھاتے تھے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غیب کی وحی پاکر عالم الغیب ہوئے اور اس کے بعد وہی وحی جب بے کم و کاست امت ِمحمدیہqتک پہنچی تو پوری امت ِمحمدیہqبھی عالم الغیب ہو گئی۔ یہ کون سی منطق ہے کہ نہ پہلے نمبر والے(جبریلu)عالم الغیب ہوئے اور نہ تیسرے نمبر والے(مسلمان) عالم الغیب کہلائے بلکہ صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی پر مطلع ہونے کی بنا پر عالم الغیب کہلائے؟؟؟
اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، چنانچہ اس نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں راہِ حق پر گامزن فرمائے۔ آمین!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.