689

آؤ عمل کریں ——- علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

عمل نمبر١: سفر سے واپسی پر گھر جانے سے پہلے مسجد میں دورکعتیں
انسان زندگی کے اس سفر میں کئی سفر کرتا ہے، اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی یہ ہے کہ سفر سے واپسی پر مسجد میں جا کر دورکعتیں نماز ادا کرنے کے بعد گھر کا رخ کرے، یہ سنت مہجورہ ہے، کتنے لوگ اس سے غافل ہیں، اس پیاری سنت کو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے، جیسا کہ :
(١)۔۔۔۔۔۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
((کان النّبی صلّی اللَّٰہ علیہ وسلّم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلیّٰ فیہ))
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف لاتے، تو ابتدا مسجد کے ساتھ کرتے، (یعنی سب سے پہلے مسجد جاتے) اس میں (دورکعت) نماز ادا کرتے۔” (صحیح بخاری: ٣٠٨٨، صحیح مسلم: ٧١٦)
ایک روایت میں ہے:
((ثُمَّ جَلَسَ فِیہٖ))
”پھر اس میں بیٹھتے۔” (مسلم: ٧١٦)
حافظ نووی(٦٣١۔ ٦٧٦ھ) ایک حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
فی ھذہ الأحادیث استحباب الرّکعتین للقادم من سفرہ فی المسجد أوّل قدومہ وھذہ الصّلوۃ مقصودۃ للقدوم من السّفر، تحیّۃ المسجد، والأحادیث المذکورہ صریحۃ۔
”ان احادیث میں سفر سے واپس لوٹنے والے کے لیے سب سے پہلے مسجد میں دو رکعتیں ادا کرنے کے استحباب کا ثبوت ہے، یہ سفر سے لوٹنے والے کی نماز ہے، نہ کہ تحیۃ المسجد، احادیث مذکورہ اس پر صریح دلیل ہیں۔”
(شرح مسلم للنووی: ١/٢٤٨)
امیر المؤمنین فی الحدیث فقیہ الأمت امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ”باب الصلوۃ إذا قدم من سفر” قائم کیا ہے۔
(٢)۔۔۔۔۔۔سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
((اشتریٰ منی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بعیرا، فلماّ قدم المدینۃ أمرنی أن آتی المسجد فأصلیّ رکعتین))
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اونٹ خریدا، جب آپ مدینہ تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مسجد میں آنے کا حکم دیاکہ میں اس میں دورکعتیں ادا کروں۔” (صحیح بخاری: ٤٤٣، صحیح مسلم: ٧١٥، واللفظ لہ،)
(٣)۔۔۔۔۔۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
((ان رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلّم حین أقبل من حجتہ ، دخل المدینۃ ، فأناخ علی باب مسجدہ ، ثمّ دخلہ ، فرکع فیہ رکعتین ، ثمّ انصرف الی بیتہ ۔
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج سے واپس ہوئے تو آپ نے مدینہ میں داخل ہو کر اپنی مسجد کے دروازے پر سواری کو بٹھا دیا ، پھر مسجد میں داخل ہو کر دو رکعتیں ادا کیں ، پھر اپنے گھر کی طرف لوٹ گئے۔”
ابن عمر رضی اللہ عنہ کے شاگرد” نافع ”بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر کا بھی یہی طریقِ کار تھا۔
(مسندالامام احمد: ٢/١٢٩،سنن ابی داؤد: ٢٧٨٢، وسندہ صحیح)
فائدہ:
١۔۔۔۔۔۔ ابو صالح کہتے ہیں:
((انّ عثمان کان إذا قدم من سفر، صلیّٰ رکعتین))
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب سفر سے آتے تو دورکعتیں ادا فرماتے” (مصنف ابن أبی شیبہ:٢/٨٢)
وسندہ حسن ان صحّ سماع أبی صالح عن عثمان ، وھو نفسہ صدوق حسن الحدیث، قال الذھبی فیہ: ثقہ (میزان الاعتدال: ٤/٥٣٩)
٢۔۔۔۔۔۔ایک دوسری روایت میںسیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سفر سے واپسی پر مسجد میںبھی دو رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔(فضل الصلاۃ علی النبیّ للامام اسماعیل بن اسحاق القاضی: ٩٩، وسندہ، صحیح
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
عمل نمبر٢ گھرسے نکلتے اور داخل ہوتے وقت کی نماز
(١)۔۔۔۔۔۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
اذا دخلت منزلک فصل رکعتین تمنعانک مدخل السوئ، واذا خرجت من منزلک فصل رکعتین تمنعانک مخرج السوئ۔
”جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو دو رکعتیں ادا کرو ، وہ تمہیں اندرونی برائی سے محفوظ رکھیں گی ، اسی طرح جب تم گھر سے نکلوتو دو رکعتیں ادا کرو ، وہ تمہیں بیرونی نقصان سے بچائیں گی ۔” (کشف الاستار: ٧٤٦، وسندہ صحیح)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں : رجالہ موثقون ۔(مجمع الزوائد:٢/٢٨٣۔٢٨٤)
٢۔۔۔۔۔۔موسیٰ بن ابی موسیٰ اشعری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
((انّ ابن عباس قدم من سفر فصلیّٰ فی بیتہ رکعتین علی طنفسۃ))
”سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ایک سفر سے واپس آئے تو اپنے گھر میں چٹائی پر دو رکعتیں ادا کیں۔” (مصنف ابن أبی شیبہ: ٢/٨٢، وسندہ، حسن)
عمل نمبر٣:
شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے ام ِ سلمہ رضی اللہ عنہا کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہی تھیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں ، آپ سے کام کی شکایت کی ، کہنے لگیں ، اے اللہ کے رسول ! اللہ کی قسم ، چکی پیسنے کی وجہ سے میرے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں ، آٹا پیستی ہوں ، پھر گوندھتی ہوں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، اگر اللہ تعالیٰ نے آ پ کے مقدر میں کچھ لکھا ہے ، وہ آپ کو ضرور ملے گا، میں آپ کو اس سے بہتر چیز کی راہنمائی کرتا ہوں کہ جب آپ سونے کے لیے بستر پر لیٹیں تو ٣٣مرتبہ” سبحان اللہ ”، ٣٣بار ”اللہ اکبر”اور ٣٤بار ”الحمد للہ ” کہو ، یہ پورا سو ہے، جو کہ خادم سے کہیں زیادہ بہتر ہے، نمازِ فجر اور نمازِ مغرب کے بعد دس دس مرتبہ یہ ذکر کریں :
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ، ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ، یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ ، بِیَدِہِ الْخَیْرُ ، وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئِِ قَدِیْرٌ ۔
”اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق )نہیں ، وہ (ذات و صفات میں )اکیلا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ،اسی کی بادشاہت ہے ، تعریف و ثناء بھی اسی کی ہے، وہی زندہ کرتا ہے ، وہی مارتا ہے، اسی کے ہاتھ میں خیر و بھلائی ہے ، وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔”
ہر ایک کے بدلے میں دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی ، دس گناہ مٹا دیے جائیں گے ، اسماعیل علیہ السلا م کی اولاد سے ایک گردن آزاد کرنے کا اجر و ثواب ملے گا، شرک کے علاوہ کوئی گناہ گرفت نہیں کر سکے گا
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہ، لَا شَرِیْکَ لَہ،۔یہ آپ کے لیے صبح سے شام تک ہر شیطان اور ہر برائی سے بچاؤ کا ہتھیارہے۔(مسند الامام احمد : ٦/٢٩٨، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٣/٣٣٩، وسندہ حسن)
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : اسنادہما حسن ۔
”(احمد اور طبرانی )دونوں کی سند حسن ہے۔”(مجمع الزوائد : ١٠/١٠٨، ١٢٢)
اس حدیث کے راوی شہر بن حوشب کو امام احمد بن حنبل ، امام یحیٰ بن معین ، امام ابو زرعہ ، امام عجلی ، امام بخاری ، امام ابو حاتم الرازی ، امام یعقوب بن شیبہ ، امام یعقوب بن سفیان الفسوی اور جمہور نے توثیق کی ہے ، نیز خطیب بغدادی (موضع الاوہام بین الجمع والتفریق : ١/٣٦٠)اور محدث المؤمل بن احمد (فوائد المؤمل ؛ ٤٦)نے اس کی حدیث کی سند کی تحسین کر کے توثیق کی ہے۔یہ حسن الحدیث ہے ۔حافظ ذہبی نے اس کے ترجمہ کے شروع میں [صح]لکھاہے ، اس کا مطلب ہے کہ ذہبی کے نزدیک اس پر جرح مردود ہے اور توثیق راجح ہے ، جیسا کہ حافظ ابن الملقن اور حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : [صح ]واصطلاحہ أن العمل علی توثیقہ ۔
”[صح]ذہبی کی اصطلاح ہے کہ اس راوی کی توثیق ہی راجح ہے۔”
(البدر المنیرلابن الملقن ؛ ١/٦٠٨، لسان المیزان لابن حجر ؛ ٢/١٥٩ترجمہ حارث بن محمد بن ابی اسامہ)
اس بار ے میںحافظ ذہبی لکھتے ہیں : الرجل غیر مدفوع عن صدق وعلم والاحتجاج بہ مترجح۔
”اس راوی کا صدق و علم ثابت ہے ، اس کی حدیث سے حجت پکڑنا ہی راجح ہے ۔”(سیر أعلام النبلاء ؛ ٤/٣٧٨)
حافظ ہیثمی اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں : وحدیثہ حسن ۔ ”اس کی حدیث حسن ہوتی ہے”
(مجمع الزوائد : ١٠/١٠٨)
نیز کہتے ہیں : والصحیح أنہما ثقتان ولا یقدح الکلام فیہما۔
”صحیح بات یہ ہے کہ (عبد الحمید بن بہرام او ر شہر بن حوشب )دونوں ثقہ ہیں ، ان میں جرحی کلام قابلِ قدح نہیں ۔”
(مجمع الزوائد ؛ ١/٢٢٢)
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭عمل نمبر٤:
صحابی رسول مسلم بن حارث التیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ نماز ِ مغرب سے فارغ ہوں تو سا ت مرتبہ یہ دعا پڑھیں :
اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ۔
”اے اللہ ! مجھے جہنم سے پناہ دے ۔”
اگر آپ نے یہ دعا پڑھ لی اور اسی رات فوت ہو گئے تو جہنم سے پناہ لکھ دی جائے گی ، جب آپ نمازِ فجر پڑھ لیں تو یہی دعا پڑھ لیں ، اگر اس دن فوت ہو گئے تو جہنم سے پناہ لکھ لی جائے گی ۔”(سنن ابی داؤد : ٥٠٧٩، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان (٢٣٤٦۔الموارد)نے” صحیح”کہا ہے۔
حافظ ابن حجر نے اس کو ”حسن ” کہا ہے۔(نتائج الافکار : ٢/٣٢٦)
اس کے راوی حارث بن مسلم کو امام دارقطنی نے ”مجہول”کہا ہے،جبکہ امام ابن حبان اور حافظ ہیثمی اس کو ”ثقہ”کہتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد : ٨/٩٩)
اس پر جرح مفسر نہیں ہے، اس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہے ، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث ” ہے، حافظ ابن حجر ایک اصول بیان کرتے ہیں :
وأما حالہا فقد ذکرت فی الصحابۃ ، وان لم یکن یثبت لہا صحبۃ ، فمثلہا لا یسأل عن حالہا۔
”جہاں تک (رباح کی دادی )کی عدالت کا تعلق ہے تو اس کو صحابہ میں ذکر کیا گیا ہے ، اگرچہ اس کا صحابیہ ہونا ثابت نہ بھی ہو گا ، تب بھی اس کیسی راویہ کی عدالت کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا۔”(التلخیص الحبیر : ١/٧٤)
اس اصول کے مطابق حارث بن مسلم کی عدالت ثابت ہوتی ہے، لہٰذا یہ ”حسن الحدیث ”ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.