520

اللہ عرش پر ہے، شمارہ 38 غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

تمام ائمہ مسلمین کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ہمارے دور میں محمد بن حسن شیبانی جہمی(١٣١۔١٩١ھ)، بشر المریسی معتزلی حنفی(م : ٢١٨ھ) ، جہم بن صفوان(م : ١٢٨ھ)، ابو الہذیل الحلاف(١١٥۔٢٣٥ھ)، جعد بن درہم(م : ١١٨ھ)، ثمامہ بن اشرس(م : ٢١٣ھ)اور اسکافی معتزلی(م : ٢٤٠ھ)کی ذریت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ گمراہ جہمیوں کا عقیدہ ہے۔
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
قالت الجہمیّۃ : إنّ اللّٰہ في کلّ مکان ، وقال إخوانہم : لیس في العالم ولا خارج العالم ، ولا متّصلا بہ ولا منفصلا عنہ ، ولا مباینا لہ ولا محادثا لہ ، ولا فوقہ ولا خلفہ ، ولا أمامہ ولا وراء ہ ۔
”جہمیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں ہے۔جبکہ ان کے بھائیوں (معطلہ)نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ کائنات کے اندر ہے نہ باہر، نہ کائنات سے متصل ہے نہ جدا، نہ کائنات سے علیحدہ ہے نہ اس سے جُڑا ہوا، نہ کائنات کے اوپر ہے نہ اس کے نیچے ،نہ اس کے آگے ہے نہ پیچھے۔ ”(الصواعق المرسلۃ في الردّ علی الجہمیّۃ والمعطّلۃ لابن القیم : ١١٩٢۔١١٩٣)
یہ انتہائی گمراہ کن عقیدہ ہے جو اہل سنت کے عقیدہ کے سراسر مخالف و منافی ہے۔ قرآن و حدیث، اجماعِ امت اور فطرت ِ سلیمہ کے بھی خلاف ہے۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنّہ لا یعلم آیۃ من کتاب اللّٰہ ولا نصّ صحیح عن رسول اللّٰہ في باب أصول الدین ، اجتمعت الأمّۃ علی خلافہ ، وغایۃ ما یقدّر اختلاف الأمّۃ فی القول بموجبہ ، ومن لہ خبرۃ بمذاہب الناس وأقوال السلف یعلم قطعا أنّ الأمّۃ اجتمعت علی القول بہ قبل ظہور المخالف ، کما اجتمعت بأنّ اللّٰہ مستو علی عرشہ فوق سماواتہ ۔
”اصولِ دین کے بارے میں کتاب اللہ کی کوئی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صحیح حدیث ایسی نہیں جس کے خلاف پوری امت جمع ہو گئی ہو۔ہاں ، زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ امت اس کے مفہوم کو سمجھنے میں مختلف ہو گئی ہو۔ جس شخص کو لوگوں کے مذاہب اور سلف کے اقوال کے بارے میں پختہ علم ہے ، وہ یقینی طور پر جانتا ہے کہ اس نظریے کے مخالفین کے ظہور سے پہلے امت ِ مسلمہ اس بات پر متفق تھی۔ اسی طرح امت ِ مسلمہ اس بات پر بھی متفق تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔”
(الصواعق المرسلۃ لابن القیم : ٨٣٣)
اس اجماعِ امت کے خلاف جہمیہ اور معطلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے۔ وہ اس مسئلہ میں موجود قرآن وحدیث کی واضح نصوص کی بودی تاویلات کرتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث سے ایسا عقیدہ تراشنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے خلاف امت ِ مسلمہ کا اجماع ہو چکا ہے۔ان سے سوال ہے کہ کیا امت ِ محمدیہ گمراہی اور ضلالت پر جمع ہو سکتی ہے؟ یا یہ جہمی گمراہی اور غلطی پر ہیں؟جواب یہ ہے کہ امت ِ محمدیہ کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔ قرآن و حدیث حق ہے ، امت کا اجماع بھی حق ہے۔ حق کبھی حق کے مخالف نہیں ہو سکتا، لہٰذا جہمیہ و معطلہ باطل پر ہیں اور ائمہ سلف حق پر ہیں۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جہمیوں کی تین قسمیں ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)بیان فرماتے ہیں :
وکذلک الجہمیّۃ علی ثلاث درجات ؛ فشرّہا الغالیۃ الذین ینفون أسماء اللّٰہ وصفاتہ ، وإن سمّوہ بشیء من أسمائہ الحسنی قالوا : ہو مجاز ، فہو فی الحقیقۃ عندہم لیس بحيّ ولا عالم ولا قادر ولا سمیع ولا بصیر ولا متکلّم ولا یتکلّم ۔۔۔۔۔۔۔ والدرجۃ الثانیۃ من التجہّم ہو تجہّم المعتزلۃ ونحوہم الذین یقرّون بأسماء اللّٰہ الحسنٰی في الجملۃ ، لکن ینفون صفاتہ ، وہم أیضا لا یقرّون بأسماء اللّٰہ الحسنٰی کلّہا علی الحقیقۃ ، بل یجعلون کثیرا منہا علی المجاز ، وہٰؤلاء ہم الجہمیّۃ المشہورون ، وأمّا الدرجۃ الثالثۃ فہم الصفاتیّۃ المثبتون المخالفون للجہمیۃ ، لکن فیہم نوع من التجہّم ، کالذین یقرّون بأسماء اللّٰہ وصفاتہ فی الجملۃ ، لکن یردّون طائفۃ من أسمائہ وصفاتہ الخبریّۃ ، أو غیر الخبریّۃ ، ویتأوّلونہا کما تأوّل الأوّلون صفاتہ کلّہا ۔
”اسی طرح جہمیہ کے بھی تین درجات ہیں۔ ان میں سے شریر ترین وہ غالی جہمی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی نفی کرتے ہیں۔ اگر وہ کبھی اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے کوئی نام لیں بھی تو اسے مجاز کہتے ہیں۔درحقیقت ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نہ زندہ ہے ، نہ عالم ہے ، نہ قادرہے ، نہ سمیع ہے ، نہ بصیر ہے ، نہ متکلم ہے نہ وہ کلام کرتا ہے۔۔۔۔۔ دوسرا درجہ جہمیوں کا وہ ہے جو معتزلہ کے زیر اثر ہے۔اس میں وہ لوگ شامل ہیں جو فی الجملہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا تو اقرار کرتے ہیں لیکن صفات ِ باری تعالیٰ کے انکاری ہیں۔پھر وہ اللہ تعالیٰ کے تمام اسمائے حسنیٰ کو مبنی بر حقیقت بھی نہیں سمجھتے بلکہ ان میں اکثر کو مجاز پر محمول کرتے ہیں(یعنی ان کی تاویلات کرتے ہیں)۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مشہور جہمی ہیں۔ تیسرے درجے میں وہ لوگ آتے ہیں جو صفات ِ باری تعالیٰ کا اثبات کرنے کے حوالے سے تو جہمیوں کے مخالف ہیں لیکن ایک طرح سے وہ بھی جہمی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا فی الجملہ اقرار تو کرتے ہیں لیکن اس کے کئی اسماء اور کئی خبری و غیر خبری صفات کو ردّ کرتے ہوئے ان میں وہی تاویلات کرتے ہیں جو پہلے درجات والے جہمیوں نے تمام صفات میں کی تھیں۔”(الفتاوی الکبرٰی لابن تیمیۃ : ٦/٣٦٩)
ائمہ دین اور سلف صالحین اللہ تعالیٰ کو عرش پر ہی مانتے تھے جیسا کہ اہل سنت کے جلیل القدر امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ (م : ٢٠٦ھ) سے ایک سائل نے پوچھا : أيّ شيء الجہمیّۃ؟ (جہمیہ کیا ہیں؟)، انہوں نے اپنا سر جھکایا ، پھر سر اٹھا کر فرمایا :
من توہّم (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٥) خلاف ما في قلوب العباد ، فہو جہميّ ۔ ”جس نے فرمانِ باری تعالیٰ (اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی) (طٰہٰ : ٥) کا معنیٰ وہ سمجھا جو بندوں کے دلوں میں موجود معنیٰ(علوِّ باری تعالیٰ) کے خلاف ہے ، وہ جہمی ہے۔”(مسائل الإمام أحمد لأبی داو،د : ص٢٦٨، وفي نسخۃ، الرقم : ١٧٣٣، خلق أفعال العباد للبخاري : ص ١١، وسندہ، حسنٌ)
اس روایت کا راوی شاذ بن یحییٰ ”موثّق” ہے۔ اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں اسے پہچانتا ہوں ، پھر آپ نے اس کا ذکر بالخیر فرمایا۔
(سوالات أبي داو،د : ٤٤٢
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”شیخ صدوق” کہا ہے۔(سیر أعلام النبلاء للذہبي : ١٠/٤٣٤)
اس قول کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
فہذا مذہب المسلمین وہو الظاہر من لفظ (اسْتَوٰی) عند عامّۃ المسلمین الباقین علی الفطرۃ السالمۃ التي لم تنحرف إلی تعطیل ولا إلی تمثیل ، وہذا ہو الذي أرادہ یزید ابن ہارون الواسطي المتّفق علی إمامتہ وجلالتہ وفضلہ ، وہو من أتباع التابعین ، حیث قال : من زعم أنّ الرحمٰن علی العرش استوی خلاف ما یقرّ في نفوس العامّۃ فہو جہميّ ، فإنّ الذي أقرّہ اللّٰہ تعالی في فطر عبادہ وجبلہم علیہ أنّ ربّہم فوق سماواتہ ۔۔۔۔۔
”مسلمانوں کا یہی مذہب ہے اور ان مسلمانوں کے نزدیک لفظ ِ (اسْتَوٰی) سے یہی ظاہر ہوتا ہے جو تعطیل و تمثیل کی طرف منحرف نہ ہونے والی فطرت سلیمہ پر قائم ہیں۔یہی مراد تھی امام یزید بن ہارون واسطی رحمہ اللہ کی جن کی امامت و جلالت اور فضیلت و منقبت پر مسلمانوں کا اتفاق ہے اور وہ تبع تابعین میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے فرمانِ باری تعالیٰ کی ایسی تفسیر کرتا ہے جو عام لوگوں کے دلوں میں موجود نظریے کے خلاف ہے ، وہ جہمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی فطرت میں یہ بات ودیعت کر دی ہے کہ ان کا ربّ آسمانوں سے اوپر ہے۔”
(الفتاوی الکبرٰی لابن تیمیۃ : ٥/١٥٣
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (٦٧٣۔٧٤٨ھ)اسی قول کے بارے میں فرماتے ہیں :
والعامّۃ ، مرادہ بہم جمہور الأمّۃ وأہل العلم ۔
”امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے عام لوگوں سے مراد جمہورِ امت اور اہل علم لیے ہیں۔”
(مختصر العلوّ للذہبي : ١٦٨)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام یزید بن ہارون کے قول سے متعلق مزید فرماتے ہیں :
وہذا الذی قالہ ہو الحقّ ، لأنّہ لو کان معناہ علی خلاف ما یقرّ في القلوب السلیمۃ من الأہواء ، والفطرۃ الصحیحۃ من الأدواء ، لوجب علی الصحابۃ والتابعین أن یبیّنوا أنّ استواء اللّٰہ علی عرشہ علی خلاف ما فطر اللّٰہ علیہ خلقہ ، وجبلہم علی اعتقادہ ، اللّٰہم إلّا أن یکون فی بعض الأغبیاء من یفہم من أنّ اللّٰہ في السماء أو علی العرش أنّہ محیّز وأنّہما حیّز لہ ، وأنّ العرش محیط بہ ، فکیَّف ذلک فی ذہنہ وبفہمہ ، کما بَدَر فی الشاہد من أيّ جسم کان ، علی أيّ جسم ، فہذا حال جاہل ، وما أظنّ أنّ أحدا اعتقد ذلک من العامّۃ ولا قالہ ، وحاشا یزید بن ہارون أن یکون مرادہ ہذا ، وإنّما مرادہ ما تقدّم ۔
”یہ بات جو امام یزید بن ہارون نے کہی ہے ، حق ہے ، کیونکہ اگر عرش پر مستوی ہونے کا اصل معنیٰ ، ہوائے نفس سے سالم دلوں میں اور بیماریوں سے پاک فطرتوں میں موجود معنیٰ کے خلاف ہوتا تو صحابہ و تابعین پر لازم ہوتا کہ وہ یہ وضاحت فرماتے کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا وہ معنیٰ نہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت و جبلت میں رکھا ہے۔ ہاں ، یہ ہو سکتا ہے کہ بعض غبی ذہن کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے آسمانوں سے اوپریا اپنے عرش پر ہونے سے مراد یہ ہے کہ آسمان اور عرش اللہ تعالیٰ کی پناہ ہیں یا عرش اسے گھیرے ہوئے ہے۔ انہوں نے اپنے ذہن اور فہم میں اس کی ایک کیفیت بنا لی ہے جیسا کہ دیکھنے والے کو ایک جسم کے دوسرے جسم کے اوپر ہونے سے ذہن میں آتی ہے۔یہ ایک جاہل کی حالت ہے۔میں نہیں سمجھتا کہ عام مسلمانوں میں سے بھی کسی نے یہ بات سوچی یا کہی ہو چہ جائیکہ امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کی یہ مراد ہو۔بلاشبہ ان کی مراد وہی ہے جس کا تذکرہ پہلے کیا جا چکا ہے۔”(کتاب العرش للذہبي : ٢/٢٦٢،٢٦٣)
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ کا قول ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
قال شیخ الإسلام : والذی تقرّر فی قلوب العامّۃ ہو ما فطر اللّٰہ تعالی علیہ الخلیقۃ ، من توجہہا إلی ربّہا تعالی عند النوازل والشدائد والدعاء والرغبات إلیہ تعالی نحو العلوّ ، لا یلتفت یمنۃ ولا یسرۃ من غیر موقف وقفہم علیہ ، ولکنّ فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیہا ، وما من مولود إلّا وہو یولد علی ہذہ الفطرۃ ، حتّی یجہّمہ وینقلہ إلی التعطیل من یقیّض لہ ۔
”شیخ الاسلام(امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ )فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کے دلوں میں وہی بات سمائی ہوئی ہے جو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی فطرت میں ودیعت کی ہے ، یعنی وہ مصیبتوں اور سختیوں ، دعاؤں اور اللہ کی طرف رغبت کے مواقع پر اوپر کی طرف توجہ کرتی ہے۔ وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتی ، حالانکہ اس حوالے سے اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔البتہ یہ اس فطرت کا تقاضا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ ہر بچہ فطرت ہی پر پیدا ہوتا ہے۔الا یہ کہ اسے اس کا کوئی ساتھی جہمی یا معطل نہ بنا دے۔”
(اجتماع الجیوش الإسلامیۃ علی غزو المعطّلۃ والجہمیّۃ لابن القیم، ص : ٢١٤)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.