565

اللہ کہاں ہے۔۔قسط2) علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

مؤمنوں کا اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر ہے ، حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قلت : مقالۃ السّلف وأئمّۃ السّنّۃ ، بل والصّحابۃ واللّٰہ ورسولہ والمؤمنون أنّ اللّٰہ عزّوجلّ فی السّماء ، وأنّ اللّٰہ علی العرش ، وأنّ اللّٰہ فوق سماواتہ ، وأنّہ ینزل الی السّماء الدّنیا ، وحجّتھم علی ذلک النّصوص والآثار ۔
ومقالۃ الجھمیّۃ : أنّ اللّٰہ تبارک فی جمیع الأمکنۃ ، تعالی اللّٰہ عن قولھم ، بل ھو معنا أینما کنّا بعلمہ ، ومقال متأخّری المتکلّمین : أنّ اللّٰہ تعالیٰ لیس فی السّماء ولا علی العرش ولا فی الأرض ، ولا داخل العالم ، ولا خارج العالم ، ولا ھو بائن عن خلقہ ، ولا متّصل بھم ، وقالوا: جمیع ھذہ الأشیاء صفات الأجسام ، واللّٰہ تعالیٰ منزّہ عن الجسم ، قال لھم أھل السّنّۃ والأثر : نحن لا نخوض فی ذلک ، ونقول ما ذکرناہ اتّباعا للنّصوص ، وان زعمتم ۔۔۔ ولا نقول بقولکم ، فانّ ھذہ السّلوب نعوت المعدوم ، تعالی اللّٰہ جلّ جلالہ عن العدم ، بل ھو موجود متمیّز عن خلقہ موصوف بما وصف بہ نفسہ من أنّہ فوق العرش بلا کیف ۔
”میں کہتا ہوں کہ سلف صالحین اور ائمہ سنت ، بلکہ صحابہ کرام ] ، اللہ تعالیٰ ، اس کے رسول  صلہ اللہ علیہ وسلم  اور تمام مؤمنوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بلندی میں، اپنے عرش پر اور اپنے آسمانوں کے اوپر ہے ، وہ آسمانِ دنیا کی طرف نزول بھی فرماتا ہے ، ان کی اس بارے میں دلیل (قرآنی)نصوص اور (حدیثی)آثار ہیں ۔
جہمیوں کا کہنا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر جگہ ہے ، ان کے اس قول سے اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے ، دراصل ہم جہاں بھی ہوتے ہیں ، وہ ہمارے ساتھ اپنے علم کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔
متأخرین متکلمین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ آسمان کے اوپر ہے ، نہ عرش پر ، نہ زمین میں ، نہ کائنات میں داخل ،نہ کائنات سے خارج ، نہ اپنی مخلوق سے جد ا اور مخلوق سے متصل ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری کی ساری صفات ایک جسم کی ہیں اور اللہ تعالیٰ جسم سے منزہ ہے ۔اہل سنت والاثر (والجماعت) نے ان سے کہا ہے کہ ہم اس بارے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے اور جو ہم بیان کرچکے ہیں ، نصوص کی اتباع میں ہمارا وہی قول ہے۔ ۔۔۔یہ تو کوئی وجود نہ رکھنے والی چیز کا انداز ہے ، جبکہ اللہ تعالیٰ عدم سے بہت بلند ہے ، وہ تو موجود اور اپنی مخلوق سے ممتاز ہے ، ان تمام صفات سے موصوف ہے ، جن کے ساتھ اس نے اپنے آپ کو موصوف کیاہے ، یعنی کہ وہ بلا کیف عرش کے اوپر ہے ۔”(مختصر العلو للذھبی : ص ١٤٦۔١٤٧)
اب ہم انتہائی اختصار کے ساتھ وہ احادیث ِ صحیحہ ذکر کرتے ہیں ، جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر بلند ہونے پر واضح طور پر دلالت کرتی ہیں :
حدیث نمبر 1 :      عن معاویۃ بن الحکم السّلمیّ قال : کانت لی جاریۃ ترعیٰ غنما لی قبل أحد والجوابیّۃ ، فاطّلعت ذات یوم ، فاذا الذّئب قد ذہب بشاۃ عن غنمھا ، وأنا رجل من بنی آدم ، آسف کما یأسفون ، لکنّی صککتھا صکّۃ ، فأتیت رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فعظّم ذلک علیّ ، قلت : یا رسول اللّٰہ ! أفلا أعتقھا ؟ قال : ائتنی بھا ، فأتیتہ بھا ، فقال لھا : أین اللّٰہ ؟ قالت : فی السّماء ، قال : من أنا ؟ قالت : أنت رسول اللّٰہ ، قال : أعتقھا ، فانّھا مؤمنۃ ۔
”سیدنا معاویہ بن حکم سلمی  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی ، جو احد اور جوابیہ مقام کی طرف میری بکریاں چراتی تھی ، ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک بھیڑیا اس کے ریوڑ سے ایک بکری لے گیا ، میں آدم زاد تھا ، دوسروں کی طرح مجھے بھی افسوس ہوا ، میں نے اسے ایک تھپڑ رسید کر دیا ، پھر رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم  کے پاس آیا، آپ نے اس کام کو میرے لیے برا جانا ، میں نے عرض کیا ، اے اللہ کے رسول ! کیا میں اسے آزاد نہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا ، اسے میرے پاس لاؤ ، میں اسے لے آیا ،تو رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ، اللہ کہاں ہے ؟ اس نے جواب دیا ، آسمانوں کے اوپر ، آپ نے فرمایا ، میں کون ہوں ؟ اس نے جواباً عرض کیا ، آپ اللہ کے رسول ہیں ، آپ نے فرمایا ، اسے آزاد کر دو کہ یہ مؤمنہ ہے ۔”(صحیح مسلم : ١/٢٠٣۔٢٠٤، ح : ٥٣٧)
یہ حدیث نصِ صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے ،امام ابو الحسن الاشعری  رحمہ اللہ (م ٣٢٤ھ) اس حدیث سے ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وھذا یدلّ علی أنّ اللّٰہ تعالیٰ علی عرشہ فوق السّماء ۔    ”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے ۔”(الابانۃ فی أصول الدیانۃ لأبی الحسن الاشعری : ص ١٠٩)
امام ابن عبدالبر  رحمہ اللہ (م ٤٦٣ھ)اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : معانی ھذا الحدیث واضحۃ یستغنی عن الکلام فیھا ، وأمّا قولہ : أین اللّٰہ ؟ فقالت : فی السّماء ، فعلیٰ ھذا أھل الحقّ
”اس حدیث کا مفہوم واضح ہے ، جس پر کلام کرنے کی ضرورت نہیں ، رہا رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم کا سوال کہ اللہ کہاں ہے ؟ اور اس لونڈی کا جواب کہ آسمانوں کے اوپر ہے ، اہل حق اسی پر ہیں ۔”(التمھید لابن عبد البر : ٢٢/٨٠)
نیز اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :      وأمّا قولہ فی ھذا الحدیث للجاریۃ : أین اللّٰہ ؟ فعلی ذلک جماعۃ أھل السّنّۃ ، وھم أھل الحدیث ورواتہ المتفقّھون فیہ وسائر نقلتہ ، کلّھم یقول ما قال اللّٰہ تعالیٰ فی کتابہ : (الرحمن علی العرش استوٰٰی)(طٰہٰ : ٥) ، وأنّ اللّٰہ عزّوجلّ فی السّماء وعلمہ فی کلّ مکان ۔
”اس حدیث میں لونڈی کو جو فرمانِ رسول  صلہ اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ کہاں ہے ؟ تو اسی پر اہل سنت والجماعت ہیں جو کہ اہل حدیث ، حدیث میں فقاہت حاصل کرنے والے راوی اور تمام ناقلین ہیں ، وہ صرف وہی بات کہتے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمائی ہے : (الرحمن علی العرش استوی)(طٰہٰ : ٥) ، اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے اور اس کا علم ہرجگہ ہے ۔(الاستذکار لابن عبد البر : ٧/٣٣٧)
امام عثمان بن سعید الدارمی  رحمہ اللہ (م ٢٨٠ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ففی حدیث رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم دلیل علی أنّ الرّجل اذا لم یعلم أنّ اللّٰہ عزّوجل فی السّماء دون الأرض ، فلیس بمؤمن ، ولو کان عبدا ، فأعتق لم یجز فی رقبۃ مؤمنۃ ، اذ لا یعلم أنّ اللّٰہ فی السّماء ، ألا تری أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أمارۃ ایمانھا معرفتھا أنّ اللّٰہ فی السّماء ، وفی قول رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم تکذیب لقول من یقول : ھو فی کلّ مکان ، لا یوصف ب ” أین ” ، لأنّ شیأا ، لا یخلو منہ مکان یستحیل أن یقال : أین ھو ؟ ولا یقال : أین الّا لمن ھو فی مکان ، یخلو منہ مکان ۔
ولو کان الأمر علی ما یدّعی ھؤلاء الزّائعۃ ، لأنکر علیھا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قولھا وعلمھا ، ولکنھا علمت بہ ، فصدّقھا رسول اللّٰہ وشھد لھا بالایمان بذلک ، ولو کان فی الأرض کما ھو فی السّماء لم یتمّ ایمانھا حتی تعرفہ فی الأرض کما عرفتہ فی السّماء ۔
”رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ اللہ زمین میں نہیں ، بلکہ آسمانوں کے اوپر ہے ، وہ مؤمن نہیں ہو سکتا ، اگر ایسا شخص غلام ہو اور آزاد کر دیا جائے تو مؤمن گردن کی آزادی میں کام نہیں دے گا ، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر نہیں مانتا ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اس (لونڈی) کے ایمان کی نشانی ہی اس کی اس معرفت ِ الٰہی کو قرار دیا ہے کہ اللہ آسمانوں پر ہے ، آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم کے سوال کہ اللہ کہاں ہے ؟ اس میں ان لوگوں کی بات کی تکذیب ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ ہے ، کیونکہ جو چیز ہر جگہ موجود ہو ، اسے ‘کہاں’ سے موصوف نہیں کیا جا سکتا ، جس چیز سے کوئی جگہ خالی نہ ہو ، اس کے بارے میں یہ پوچھنا محال ہے کہ وہ کہاں ہے ؟ کہاں کا سوال اسی چیز کے بارے میں کیا جائے گا ، جو ایک جگہ میں ہو اور دوسری جگہ میں نہ ہو ۔
اگر بات اسی طرح ہوتی ، جس طرح یہ گمراہ لوگ دعوی کرتے ہیں تو اللہ کے رسول  صلہ اللہ علیہ وسلم اس لونڈی کی بات کو غلط قرار دیتے اور اس کو سکھاتے ، لیکن اس نے اس حقیقت کو جان لیا تو اللہ کے رسول  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور اس وجہ سے آپ نے اس کے ایمان کی گواہی بھی دی ، اگراللہ تعالیٰ آسمانوں کی طرح زمین میں بھی ہوتا تو لونڈی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہونا تھا جب تک وہ اسے زمین میں بھی نہ جان لیتی ،جیسا کہ اس نے اسے آسمانوں پرجا نا تھا ۔”(الرد علی الجہمیۃ للدارمی : ص ٤٦۔٤٧)
نیز لکھتے ہیں :      فقول رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : انّھا مؤمنۃ دلیل علی أنّھا لو لم تؤمن بأنّ اللّٰہ فی السّماء لم تکن مؤمنۃ ، وأنّہ لا یجوز فی الرّقبۃ المؤمنۃ الّا من یحد اللّٰہ أنّہ فی السّماء ، کما قال اللّٰہ ورسولہ ۔     ”پس اللہ کے رسول  صلہ اللہ علیہ وسلم کا اسے مؤمنہ قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم نہ کرتی تو وہ مؤمنہ نہ ہوتی ، نیز یہ کہ مؤمن گردن کی آزادی میں وہی غلام یا لونڈی کام دے سکے گی جو اللہ ورسول کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر تسلیم کرے ۔”(نقض الامام عثمان بن سعید الدارمی علی بشر المریسی : ١/٢٢٦)
مزید لکھتے ہیں :      فھذہ الآی کلّھا تنبئک عن اللّٰہ أنّہ فی موضع ، وأنّہ علی السّماء دون الأرض ، وأنّہ علی العرش دون ما سواہ من المواضع ، قد عرف ذلک من قرأ القرآن وآمن بہ وصدّق اللّٰہ بما فیہ ، فلم تحکم علی اللّٰہ تعالیٰ أیّھا العبد الضّعیف بما ھو مکذّبک فی کتابہ ، ویکذّبک الرّسول صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ؟ أو لم یبلغک حدیث النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ قال : للأمۃ السّوداء : أین اللّٰہ ؟ فقالت : فی السّماء ، قال : أعتقھا ، فانّھا مؤمنۃ ، فھذا ینبّئک أنّہ فی السّماء دون الأرض ، فکیف تترک ما قال اللّٰہ تعالیٰ ورسولہ وتختار علیھما فی ذلک قول بشر والثّلجیّ ونظرائھما من الجھمیّۃ ۔
”یہ تمام آیات اللہ تعالیٰ کے بارے میں آپ کو بتاتی ہیں کہ وہ ایک جگہ میں ہے اور وہ جگہ آسمانوں کے اوپر ہے نہ کہ زمین کے اوپر ،نیز وہ عرش پر ہے ، نہ کہ کسی اور جگہ پر ، یہ بات ہر شخص کو معلوم ہو جاتی ہے ، جو قرآن پڑھتا ہے ، اس پر ایمان لاتا ہے اور اس میں موجود اللہ تعالیٰ کے فرامین کی تصدیق کرتا ہے ، اے کمزور انسان!تو اللہ تعالیٰ پر کیسے وہ حکم لگاتا ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اور اس کا رسول اپنے فرامین میں غلط قرار دیتا ہے یا تجھ کو وہ حدیث نہیں پہنچی کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اس سیاہ لونڈی سے سوال کیا ، اللہ کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا، آسمانوں کے اوپر ، آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس کو آزاد کر دو ، یہ مؤمنہ ہے ، یہ حدیث بھی تجھ کو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر ہے ، زمین میں نہیں ، چنانچہ تو کیسے اللہ ورسول کے فرمان کو چھوڑ کر اس بارے میں بشر (مریسی)اورثلجی جیسے جہمی لوگوں کی بات کو اس پر ترجیح دیتا ہے ؟”(النقض علی بشر المریسی: ص ١/١٤٥۔١٤٦)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں :      وھکذا رأینا فی کلّ من یسأل : أین اللّٰہ ؟ یبادر بفطرتہ ویقول : فی السّماء ، فی الخبر مسألتان : احداھما : شرعیّۃ قول المسلم : أین اللّٰہ ؟ وثانیھما : قول المسؤل : فی السّماء ، فمن أنکر ھاتین المسألتین فانّما ینکر علی المصطفٰی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔
”ہماری رائے بھی ہر شخص کے بارے میں یہی ہے (کہ وہ مسلمان ہے)، جس سے پوچھا جائے ، اللہ کہاں ہے؟ اور وہ اپنی فطرت کے مطابق جلدی سے یہ کہہ دے کہ آسمانوں میں ہے ۔اس حدیث میں دو مسئلے ہیں ، ایک تو یہ کہ مسلمان کے لیے یہ پوچھنا مشروع ہے کہ اللہ کہاں ہے ؟ دوسرا یہ کہ جس سے سوال کیا جائے ، اس کا یہ کہنا بھی مشروع ہے کہ وہ آسمانوں کے اوپر ہے ۔جو شخص ان دو باتوں کا انکار کرے گا ، وہ مصطفٰے صلہ اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکار کرے گا ۔”(العلو للذھبی : ص ٢٦)
حدیث نمبر 2 :      عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال : یتعاقبون فیکم ملائکۃ باللّیل وملائکۃ بالنّھار ، ویجتمعون فی صلاۃ الفجر وصلاۃ العصر ، ثمّ یعرج الّذین باتوا فیکم ، فیسألھم ، وھو أعلم بھم : کیف ترکتم عبادی ؟ فیقولون : ترکناھم وھم یصلّون ، وأتیناھم وھم یصلّون ۔
”سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم میں رات اور دن کے فرشتے آتے اور جاتے رہتے ہیں ، فجر اور عصر کی نماز میں وہ اکٹھے ہو جاتے ہیں ، پھر رات کو تمہارے ساتھ رہنے والے فرشتے اوپر چڑھ جاتے ہیں ، اللہ تعالیٰ باوجود بہتر جاننے کے ان سے پوچھتا ہے ، تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو ؟ وہ عر ض کرتے ہیں ، ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز میں مشغول تھے اور جب ان کو چھوڑ کر آئے ہیں تو اس وقت بھی وہ نماز ادا کر رہے تھے ۔”(صحیح بخاری : ٧٤٢٩، صحیح مسلم : ٦٣٢)
حدیث نمبر 3 :      عن عبد اللّٰہ بن عمرو أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال : الرّاحمون یرحمھم الرّحمان ، ارحموا من فی الأرض یرحمکم من فی السّماء ۔
”سیدنا عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، رحمن رحم کرنے والوں پر ہی رحم فرماتا ہے ، تم اہل زمین پر رحم کرو ، جو آسمانوں پر ہے ، وہ تم پر رحم فرمائے گا ۔”
(مسند الحمیدی : ٥٩١، مسند الامام احمد : ٢/١٦٠، سنن الترمذی : ١٩٢٤، سنن أبی داو،د : ٤٩٤١، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی  رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح” اور امام حاکم  رحمہ اللہ (٤/١٥٩) نے ”صحیح” کہا ہے ، اس کا راوی ابو قابوس ”حسن الحدیث” ہے، امام ترمذی اور امام ابنِ حبان ; وغیرہما نے اس کی توثیق کر رکھی ہے ۔
حدیث نمبر 4 :      عن جابر بن عبد اللّٰہ أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال فی خطبتہ یوم عرفات : أنتم تسألون عنّی ، فما أنتم قائلون ؟ قالوا : نشھد أنّک قد بلّغت وأدّیت ونصحت ، فقال : باصبعہ السّبّابۃ یرفعھا الی السّماء وینکتھا الی النّاس : اللّٰھم اشھد ، اللّٰھم اشھد ، ثلاث مرّات ۔۔۔۔
”سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن اپنے خطبہئ (حجۃ الوداع)میں فرمایا ، تم سے (روز ِقیامت )میرے بارے میں پوچھا جائے گا ، تم کیا کہو گے ؟ صحابہ کرام ] نے جواب دیا ، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے (دین) پہنچا دیا ، (اللہ کی امانت کو) ادا کر دیااور خیر خواہی کی ، آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا ، اے اللہ گواہ ہو جا ، اے اللہ گواہ ہوجا ۔۔۔”(صحیح مسلم : ١٢١٨)
حدیث نمبر 5 :      عن أنس بن مالک قال : کانت زینب بنت جحش تقول : انّ اللّٰہ أنکحنی فی السّماء ۔ ”سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین سیدہ زینب بنت جحش r کہا کرتی تھیں ، میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے اوپر کیا ہے۔”
(صحیح بخاری : ٧٤٢١)
حدیث نمبر 6 :      عن أبی سعید الخدریّ قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : ألا تأمنونی وأنا أمین من فی السّماء ؟ یأتینی خبر السّماء صباحا ومسائً ۔۔۔۔۔
”سیدنا ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ، حالانکہ میں اس ذات کا امین ہوں ، جو آسمانوں کے اوپر ہے ، میرے پاس صبح وشام آسمانوں کی خبر آتی ہے ۔”
(صحیح بخاری : ٤٣٥١، صحیح مسلم : ١٠٦٤)
حدیث نمبر 7 :      عن أبی ھریرۃ قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : والّذی نفسی بیدہ ! ما من رجل یدعو امرأتہ الی فراشہا ، فتأبی علیہ ، الّا کان الّذی فی السّماء ساخطا علیھا ، حتّی یرضی عنھا ۔
”سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کوئی آدمی ایسا نہیں ، جو اپنی بیوی کو اس کے بستر کی طرف بلائے اور وہ انکار کر دے ،مگر وہ جو آسمانوں کے اوپر ہے ، اس (عورت)سے ناراض ہو جاتا ہے ، تاآنکہ خاوند اس سے راضی ہو جائے ۔”
(صحیح مسلم : ١٤٣٦)
حدیث نمبر 8 :         عن أنس قال : أصابنا ونحن مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مطر ، قال : فحسر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ثوبہ ، حتّی أصابہ من المطر ، فقلنا : یا رسول اللّٰہ ! لم صنعت ھذا ؟ قال : لأنّہ حدیث عھد بربّہ عزّوجلّ ۔
”سیدنا انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اس دوران ہمیں بارش نے آن لیا ، آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑے کو ہٹایا ، حتی کہ آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم کو بارش کا پانی لگ گیا ، ہم نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! آپ نے ایساکیوں کیا ؟ فرمایا ، کیونکہ یہ بارش اپنے رب عزوجل سے نئی نئی(ابھی) آئی ہے ۔”(صحیح مسلم : ٨٩٨)
حدیث نمبر 9 :         عن أبی ھریرۃ عن النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال : المیّت تحضرہ الملائکۃ ، فاذا کان الرّجل صالحا ، قالوا : اخرجی أیّتھا النّفس الطّیّبۃ کانت فی الجسد الطّیّب ، اخرجی حمیدۃ ، وأبشری بروح وریحان وربّ غیر غضبان ، فلا یزال یقال لھا حتّی تخرج ، ثمّ یعرج بھا الی السّماء ، فیفتح لھا ، فیقال : من ھذا ؟ فیقولون : فلان ، فیقال : مرحبا بالنّفس الطّیّبۃ ، کانت فی الجسد الطّیّب ، ادخلی حمیدۃ ، وأبشری بروح وریحان وربّ غیر غضبان ، فلا یزال یقال لھا ذلک ، حتّی ینتھی بھا الی السّماء الّتی فیھا اللّٰہ عزّوجلّ ۔۔۔
”سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ نبی ئ کریم  صلہ اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ نیک ہو تو وہ کہتے ہیں ، اے پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی ! قابل تعریف حالت میں نکل ، تیرے لیے خوشگوار وخوشبودار ہوا کے جھونکوں اور راضی ومہربان رب کی خوشخبری ہے ، اسے مسلسل یہی بات کہی جاتی ہے ، حتی کہ وہ جسم سے نکل جاتی ہے ، پھراسے آسمان کی طرف چڑھایا جاتا ہے ، آسمان کے دروازوں کو کھولا جاتا ہے ، پوچھا جاتا ہے ، یہ کون ہے ؟ فرشتے بتاتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ہے ، کہا جاتا ہے ، پاک جان جو کہ پاک جسم میں تھی ، اسے خوش آمدید ! تو قابل تعریف حالت میں داخل ہو جا ، تیرے لیے خوشگوار وخوشبودار ہوا اور مہربان ربّ کی خوشخبری ہے ، اسے مسلسل یہی کہا جاتا ہے ، حتی کہ اس آسمان تک پہنچا دیا جاتا ہے ، جس کے اوپر اللہ عزوجل کی ذات ہے ۔”(مسند الامام احمد : ٢/٣٦٤، سنن ابن ماجہ : ٤٢٦٢، وسندہ، حسنٌ)
حدیث نمبر 0 :         عن عامر بن سعد عن أبیہ قال : انّ سعد بن معاذ رضی اللّٰہ عنہ حکم علی بنی قریظۃ أن یقتل منھم کلّ من جرت علیہ الموسیٰ ، وأن تقسم أموالھم وذراریھم ، فذکر ذلک برسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فقال : لقد حکم الیوم فیھم بحکم اللّٰہ الّذی حکم بہ من فوق السّماوات ۔
”عامر بن سعد اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں ، انہوں نے کہا ، سعد بن معاذ  رضی اللہ عنہ نے بنی قریظہ کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا ہر بالغ مرد قتل کر دیا جائے اور ان کے مال واولاد کو (مسلمانوں میں)تقسیم کر دیا جائے ، یہ فیصلہ رسول اللہ  صلہ اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تو آپ  صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سعد نے اس اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا ہے ، جس نے آسمانوں کے اوپر یہ فیصلہ کیا تھا ۔”
(السنن الکبری للنسائی (تحفۃ الأشراف : ٣/٢٩٣)، فضائل الصحابۃ للنسائی : ١١٩، المستدرک للحاکم : ٢/١٢٤، الاسماء والصفات للبیہقی : ٢/١٦١۔١٦٢، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیح” قرار دیا ہے ۔(مختصر المستدرک للذھبی : ٢/١٢٤)
تلک عشرۃ کاملۃ         یہ پوری دس صحیح احادیث ہیں !
جاری ہے ۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.