609

اللہ کہاں ہے؟ علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اللہ کہاں ہے ؟
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
اہل سنت والجماعت کا یہ اجماعی واتفاقی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر بلند ہے ، اس پر قرآن ، حدیث ، اجماع اور فطرت کے دلائل شاہد ہیں ، جیسا کہ مشہور حنفی ، امام ابن ابی العز (٧٢١۔٧٩٢ھ)لکھتے ہیں :
”جو آدمی احادیث ِ رسول اور کلامِ سلف کو سنے گا ، اس میں اللہ تعالیٰ کے( عرش پر )بلند ہونے کے بے شمار ثبوت پائے گا ، اس بات میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب اپنی مخلوق کو پیدا کیا تھا تو ان کواپنی ذات کے اندر پیدا نہیں کیا ، اللہ تعالیٰ اس سے منزہ و مبرّا ہے ، کیونکہ وہ اکیلا وبے نیاز ہے ، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے ، لہٰذا یہ بات متعین ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی ذات سے خارج پیدا کیا ہے ، اللہ تعالیٰ قائم بالذات اور کائنات سے جدا ہے، اس صفت کے ساتھ ساتھ اگر اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی بلندی سے موصوف نہ ہو تو معاملہ بالکل اس کے الٹ ہو گا(یعنی لازم آئے گا کہ وہ مخلوق سے جدا نہیں ہے) ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے اپنی مخلوق سے بلند اور اوپر ہونے کے تقریباً بیس قسم کے مختلف و محکم دلائل ہیں :
1    ایسے کلمہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بلند ہونے کا ذکر جو اس کی ذات کے بلند ہونے پر دلالت کرتا ہے، جیسا کہ ”من” (جانب) ہے ، ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : ( یَخَافُوْنَ رَبَّھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ )(النحل : ٥٠)(وہ اپنے رب سے اپنے اوپر سے ڈرتے ہیں)
2    ایسے کلمہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کے بلند ہونے کا ذکر ، جیسے فرمانِ الٰہی ہے :      (وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ )(الانعام : ١٨، ٦١)(اور وہ اپنے بندوں کے اوپر حاکم ہے)
3    اللہ تعالیٰ کی طرف ( فرشتوں کے)چڑھنے کی صراحت ، جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ )(المعارج : ٤)(فرشتے اور روح الامین اس کی طرف چڑھتے ہیں)    نیز نبی کریم   صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :      (یعرج الّذین باتوا فیکم ، فیسألھم) (صحیح بخاری : ٧٤٢٩، صحیح مسلم : ٦٣٢)(وہ فرشتے (آسمان کی طرف)چڑھ جاتے ہیں ، جنہوں نے تمہارے اندر رات گزاری ہوتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرماتا ہے )
4    اس کی طرف (اعمال کے)چڑھنے کی صراحت ، جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ)(فاطر : ١٠)(اسی کی طرف اچھے کلمات چڑھتے ہیں)
5    اپنی کسی مخلوق کو اپنی طرف اٹھانے کے ساتھ صراحت ، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
(بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ)(النساء : ١٥٨)(بلکہ ان(عیسیٰ u)کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا)
نیز فرمایا :      (اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ)(آل عمران : ٥٥)(بیشک میں تجھے پورا پورا لینے والا اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں)
6    مطلق طور پر بلندی کا تذکرہ ، جوذات ، قدر ، شرف ، وغیرہ تمام مراتب ِ بلندی پر دلالت کرتی ہے ، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :      (وَھُوَ الْعَلِیُّّ الْعَظِیْمُ)(البقرہ : ٢٥٥)(اور وہ بلند اور عظیم ہے)
(وَھُوَ الْعَلِیُّّ الْکَبِیْرُ)(سبا : ٢٣)(اور وہ بلند اور بڑا ہے)،     (اِنَّہ، عَلِیٌّّ حَکِیْمٌ)(الشورٰی : ٥١) (بلاشہ وہ بلنداور حکمت والا ہے)
7    اس کی طرف سے کتاب (اوپرسے)نازل ہونے کی صراحت ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :     (تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ)(غافر : ٢)(کتاب کا نازل کیا جانا اللہ عزیز وعلیم کی طرف سے ہے)،     (تَنْزِیْلُ الْکِتَابِ مِنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ)(الزمر : ١)(کتاب کا نازل کیا جانا اللہ عزیز وحکیم کی طرف سے ہے)،     (تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ)(فصلت : ٢)(کتاب کانزول رحمن ورحیم ذات کی طرف سے ہے)،     (تَنْزِیْلٌ مِّنَ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ)(فصلت : ٤٢)(کتاب کا نزول حکیم وحمید ذات کی طرف سے ہے)،     (قُلْ نِزَّلَہ، رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ)(النحل : ١٠٢)(کہہ دیجیے کہ اس کتاب کو روح القدس نے تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کیا ہے)،     (حٰمۤ٭ وَالْکِتَابِ الْمُبِیْنِ ٭ اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ ٭ فِیْھَا یُفَْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ ٭ أَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ)(الدخان : ١۔٥)(کتابِ مبین کی قسم ! ہم نے اس کو مبارک رات میں نازل کیا ، بے شک ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ہماری طرف سے حکم کے ساتھ ، بے شک ہم بھیجنے والے ہیں)
8    بعض مخلوقات کو اپنے قریب ہونے کے ساتھ خاص کرنے اور بعض مخلوقات کے دوسری مخلوقات کی نسبت اپنے قریب ہونے کی صراحت ، جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے :     (اِنَّ الَّذِیْنَ عِنْدَ رَبِّکَ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ)(الاعراف : ٢٠٦) (بلاشبہ وہ لوگ جو تیرے رب کے ہاں ہیں، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے)،     (وَلَہ، مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَہ، لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ)(الانبیاء : ١٩)(اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو لوگ اس کے پاس ہیں ، وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے )
اسی طرح نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کے بارے میں جو اللہ نے اپنے لیے لکھی ہے ، فرمایا :
انّہ عندہ فوق العرش ۔    ”وہ عرش کے اوپر اس (اللہ تعالیٰ)کے پاس ہے ۔”
(صحیح بخاری : ٧٥٥٣، صحیح مسلم : ٢٧٥١)
9    اس بات کی تصریح کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں میں ہے ، اہل سنت مفسرین کے ہاں اس کی دو تفسیریں ہیں ان کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ، پہلی تفسیر یہ کہ کلمہ فِیْ (میں) علیٰ (اوپر)کے معنیٰ میں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے )، دوسری تفسیر یہ ہے کہ کلمہ السّماء (آسمان) العلوّ (بلندی)کے معنیٰ میں ہے (یعنی اللہ تعالیٰ بلندی میں ہے)،کسی اور معنیٰ پر اسے محمول کرنا جائز نہیں ۔
0    کلمہ علیٰ (اوپر)کے ساتھ ملا کر خاص عرش پر مستوی ہونے کی تصریح ، جو کہ سب مخلوقات سے بلند مخلوق ہے ۔
!    اللہ تعالیٰ کی طرف (اوپر کو)ہاتھ اٹھانے کی تصریح ، جیسا کہ فرمانِ نبوی ہے :
انّ اللّٰہ یستحیی من عبدہ اذا رفع الیہ یدیہ أن یردّھما صفرا ۔     ”جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھا لیتا ہے تو اللہ حیا فرماتا کہ اس کے ہاتھوں کو خالی لوٹائے ۔”
(مسند البزار : ٢٥١٠، المعجم الکبیر للطبرانی : ٦١٣٠، المستدرک للحاکم : ١/٥٣٥، صحیحٌ ، وصححہ ابن حبان (٨٨٠) ، والحاکم ووافقہ الذھبی)
@    اللہ تعالیٰ کے ہر رات آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرمانے کی تصریح ، تمام لوگوں کے نزدیک یہ بات مسلّم ہے کہ نزول اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔
#    اللہ تعالیٰ کی طرف حسی طور پر اس ذات (نبی ئاکرم   صلی اللہ علیہ وسلم )کا اشارہ فرمانا ، جو اپنے ربّ کی ذات وصفات کو سب انسانوںسے بڑھ کر جانتے تھے ، آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑے اجتماع (حجۃ الوداع)کے موقع پر اور بڑے دن (حجۃ الوداع والے دن)اور عظیم جگہ (میدانِ عرفات)میں صحابہ کرام سے فرمایا :      أنتم مسؤلون عنّی ، فما ذا أنتم قائلون ؟     (تم میرے بارے میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے)سوال کیے جاؤ گے ، پھر تم کیا جواب دو گے ؟ )    صحابہ کرام نے جواب دیا :
نشھد أنّک قد بلّغت وأدّیت ونصحت ۔    (ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے دین کی تبلیغ کر دی ہے ، اسے پہنچا دیا ہے اور خیرخواہی کر دی ہے)        اس کے بعد آپ   صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک آسمان کی طرف اٹھائی اور فرمایا ، اے اللہ ! گواہ ہو جا ۔(صحیح مسلم : ١٢١٨)
$    نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم ، جو کہ سب سے بڑھ کر اللہ کو جانتے تھے ، اپنی امت کے لیے سب سے بڑھ کر خیر خواہ تھے اور صحیح معنیٰ بیان کرنے میں سب سے زیادہ فصیح تھے ، ان کا کئی مرتبہ یہ سوال کرنا کہ أین اللّٰہ ؟ (اللہ کہاں ہے؟)
%    آپ   صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کو آسمانوں کے اوپر ماننے والے شخص کے حق میںیہ گواہی دینا کہ وہ مؤمن ہے۔ (صحیح مسلم : ٥٣٧)
^    اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان کیا ہے کہ جب موسیٰ uنے اپنی قوم کو یہ بتایا کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے تو فرعون نے آسمان کی طرف چڑھنے کا ارادہ کیا تھا تاکہ وہ موسیٰ uکے الہ کوجھانکے ، پھر ان کو جھوٹا ثابت کرے کہ وہاں کچھ نہیںہے (معاذاللہ!)
چنانچہ اس نے کہا تھا :      (یَا ھَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْ أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ ٭ أَسْبَابَ السَّمٰوَاتِ فَأَطَّلِعَ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰٰی وَاِنِّیْ لَأَظُنُّہ، کَاذِبًا)(المومن : ٣٦)(اے ہامان! میرے لیے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ جاؤں ، پھر میں موسیٰ کے الٰہ کی طرف جھانکوں اور بے شک میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں)
لہٰذا اب جوجہمی شخص اللہ تعالیٰ کی صفت ِ علوّ (بلندی)کا انکار کرتا ہے ، وہ فرعونی ہے اور جو اس صفت ِ علوّ کا اثبات کرتا ہے ، وہ موسوی محمدی (موسیٰ uاور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والا)ہے ۔
&    آپ   صلی اللہ علیہ وسلم معراج والی رات بار بار موسیٰ uاور اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے ، اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف جاتے ، پھر نیچے موسیٰ uکی طرف آتے ۔(صحیح بخاری : ٣٢٠٧، صحیح مسلم : ١٦٢)
*    کتاب وسنت میں جنتی لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا ثبوت موجود ہے ، فرمانِ نبوی ہے کہ جنتی اللہ تعالیٰ کو اس طرح دیکھیں گے ، جیسے سورج کو دیکھتے ہیں اور چاند کو چودہویں رات کو دیکھتے ہیں ، جب کہ اس کے آگے کوئی بادل نہ ہو ، واضح بات ہے کہ وہ اوپر کو ہی دیکھیں گے ۔
نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے :      بینا أھل الجنّۃ فی نعیمھم ، اذ سطع لھم نور ، فرفعوا رؤوسھم ، فاذا الجبّار جلّ جلالہ قد أشرف علیھم من فوقھم ، وقال : یا أھل الجنّۃ ! سلام علیکم ، ثمّ قرأ قولہ تعالیٰ : (سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ)(یسۤ : ٥٨) ، ثمّ یتواری عنھم وتبقیٰ رحمتہ وبرکتہ علیھم فی دیارھم ۔    ”جنتی اپنی نعمتوں میں ہوں گے کہ اچانک ان کے لیے ایک نور چمکے گا ، وہ اپنے سر اوپر کو اٹھائیں گے، اللہ جل جلالہ ان کے اوپر سے ان پر جھانک رہا ہو گا اور فرمائے گا ، اے اہل جنت ! تم پر سلامتی ہو ، پھر آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ فرمانِ باری تعالیٰ تلاوت فرمایا : (سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ)(یسۤ : ٥٨)(انہیں نہایت مہربان رب کی طرف سے سلام کہا جائے گا)پھر اللہ تعالیٰ ان سے چھپ جائے گا ، لیکن اس کی رحمت وبرکت ان کے گھروں میں باقی رہے گی ۔
(سنن ابن ماجہ : ١٨٤، مسند البزار : ٢٢٥٣، وسندہ ضعیف ، فیہ الفضل بن عیسیٰ الرقاشی ، وھو منکر الحدیث کما فی التقریب : ٥٤١٣، ولم نجدہ فی مسند الامام احمد)
اللہ تعالیٰ کی صفت ِ فوقیت (اوپر ہونا)کا انکار تب ہی ہو سکتا ہے ، جب (جنت میں)رؤیت ِ باری تعالیٰ کا بھی انکار کیا جائے ، اسی لیے جہمیہ نے ان دونوں صفات کا انکار کیا ہے ، جبکہ اہل سنت نے دونوں صفات کا اقرار اور دونوں کی تصدیق کی ہے ، جس نے رؤیت کی نفی اور علو کا انکار کیا ہے ، وہ مذبذب ہو گیا ہے ، نہ ادھر کا رہا ، نہ ادھر کا ۔
یہ (باری تعالیٰ کے سب مخلوقات سے بلند ہونے کے)دلائل کی (بیس)اقسام ہیں ، اگر ان کو پھیلایا جائے تو یہ تقریباً ہزار دلیل بن جائے گی اور تاویل کرنے والے کو ہر ایک کا جواب دینا ہوگا ، لیکن ان میں سے کچھ کا بھی جواب دینا اس کے بس کی بات نہیں ۔”(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لابن ابی العز الحنفی : ٢٨٤۔٢٨٨)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.