667

اعمال ایمان میں داخل ہیں ۔ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
سلف صالحین او ران کے مخالف مُرْجِیئ (حنفی )فرقہ میں ایمان کے مسائل میں سب سے زیادہ اختلاف اسی مسئلہ میں تھا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں یا نہیں ، اسلاف یعنی صحابہ و تابعین کا مذہب یہ تھا کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے ، وہ اس سے مراد دل کا قو ل و عمل ، زبان کا قول اور اعضا ء کا عمل لیتے تھے ۔ مرجئہ (حنفیہ )کا کہنا ہے کہ ایمان صرف دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کا نام ہے ، اعمال ایمان میں داخل نہیں،بلکہ اس کے ثمرات ہیں ، اسی مؤقف کی وجہ سے وہ ایمان میں کمی و بیشی اور استثناکے منکر ہوئے ۔ جوں ہی یہ بدعت امت میں ظاہر ہوئی ، سلف صالحین اور اہلِ ارجاء کے مابین اختلاف و نزاع کا سلسلہ چل نکلا،سلف صالحین نے مرجئہ کے قول کو باطل ثابت کیا اور ان کو بدعتی و گمراہ قرار دے کر امت کو ان کے شنیع مذہب سے دور کیا ۔ حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
أنکر السّلف علی من أخرج الأعمال عن الایمان انکاراً شدیداً ۔ (جامع العلوم والحکم : ٢٣،٢٤)
سلف صالحین نے ان لوگوں پر سخت نکیر کی ، جنہوں نے ایمان سے اعمال کوخارج کیا ۔
اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ مرجئہ کے نزدیک ایمان ایک ہی چیز ہے ، اس کے اجزا ء نہیں ، جبکہ سلف صالحین کے نزدیک ایمان قول وعمل سے مرکب ہے ۔ حافظ ابنِ قیّم رحمہ اللہ(٦٩١۔٧٥١) سلف کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
الایمان حقیقۃ مرکّبۃ من معرفۃ ما جاء بہ الرّسول والتّصدیق بہ عقدا والاقرار بہ نطقاً والانقیاد لہ محبۃً وخضوعاً والعمل بہ باطناً وظاہراً وتنفیذہ والدّعوۃ الیہ بحسب الامکان وکمالہ فی الحبّ للّٰہ والمنع للّٰہ ۔
”ایمان رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی معرفت ، دل سے ان کی تصدیق ، زبان سے اقرار ، محبت و انکساری سے اطاعت، ظاہری و باطنی طور پر عمل ، ان کے نفاذ اور حسب ِ استطاعت ان کی طرف دعوت سے مرکب ہے ، نیز ایمان کا کمال اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور اسی کے لیے نفرت میں مضمر ہے ۔(الفوائد : ١٩٦)
ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨) مرجئہ کا مذہب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقالت المرجئۃ والجھمیّۃ : لیس الایمان الّا شیأاً واحداً لا یتبعّض ، امّا مجرّد تصدیق القلب کقول الجھمیّۃ ، أو تصدیق القلب واللّسان کقول المرجئۃ ۔۔۔۔۔وجماع شبھتھم فی ذٰلک أنّ الحقیقۃ مرکّب تزول بزوال بعض أجزائھا ، کالعشرۃ ، فانّہ اذا زال بعضھا لم تبق عشرۃ ، وکذٰلک الأجسام المرکبۃ ۔
”مرجئہ اور جہمیہ کہتے ہیں کہ ایمان ایک ہی چیز کا نام ہے، اس کے اجزاء نہیں ، جہمیہ کے نزدیک وہ صرف تصدیقِ قلبی ہے اور مرجئہ کے نزدیک دل اور زبان کی تصدیق کا نام ہے ، ان کا اصل اعتراض (ایمان کے مرکب ہونے پر)یہی ہے کہ مرکب چیز ایک جز و کے ختم ہونے سے زائل ہو جاتی ہے ، جیسے ‘دس’ایک مرکب حقیقت ہے ، اگر ‘ایک’بھی پیچھے ہٹ جائے تو دس باقی نہیں رہتے ، اسی طرح دوسرے مرکب اجسام کا حال ہے۔”(مجموع الفتاوٰی : ٧/٥١٠،٥١١)
اس سلسلے میں ان کی سب سے بڑی دلیل لغت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ لغت میں ایمان صرف تصدیق کا معنیٰ دیتا ہے،جیساکہ امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ(٢٠٢۔٢٩٤) فرماتے ہیں :
ومن أعظم حجج المرجئۃ الّتی یقولون بھا عند أنفسھم اللّغۃ ، وذٰلک أنّھم زعموا أنّ الایمان لا یعرف فی اللّغۃ الّا بالتّصدیق ، وزعم بعضھم أنّ التّصدیق لا یکون الّا بالقلب ، وقال بعضھم : لا یکون الّا بالقلب واللّسان ، وقد وجدنا العرب فی لغتھا کلّ عمل حقّقت بہ عمل القلب واللّسان تصدیقاً ۔
”اس بارے میں مرجئہ کی سب سے بڑی دلیل لغت ہے ، ان کا دعوی ہے کہ لغت میں ایمان صرف تصدیق پر بولا جاتا ہے، پھر بعض کا خیال ہے کہ تصدیق صرف دل سے ہوتی ہے ، جبکہ بعض کے بقول صرف دل اور زبان سے ہوتی ہے ، حالانکہ ہم نے عرب کی لغت میں دیکھا ہے کہ ہر وہ عمل جس سے دل اور زبان کا عمل ثابت ہو ، اسے تصدیق کہا گیا ہے ۔”(تعظیم قدر الصّلاۃ : ٢/٧١٦)
ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقد عدلت المرجئۃ فی ھٰذا الأصل عن بیان الکتاب والسّنۃ ، وأقوال الصّحابۃ والتّابعین لھم باحسان ، واعتمدوا علی رأیھم ، وعلی ما تاوّلوہ بفھمھم اللّغۃ ، وھٰذہ طریقۃ أھل البدع ۔۔۔۔۔۔ولھٰذا نجد المعتزلۃ والمرجئۃ والرّافضۃ وغیرہم من أھل البدع یفسّرون القرآن برأیھم ومعقولھم وما تاوّلوہ من اللّغۃ ، ولھٰذا تجدھم لا یعتمدون علی أحادیث النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم والتّابعین وأئمّۃ المسلمین ، فلا یعتمدون لا علی السّنۃ ولا علی اجماع السّلف وآثارھم، وانّما یعتمدون علی العقل واللّغۃ ، وتجدھم لا یعتمدون علی کتب التّفسیر المأثورۃ والحدیث وآثار السّلف ، وانّما یعتمدون علی کتب الأدب وکتب الکلام الّتی وضعتھا رؤوسھم ۔
”اس اصل(ایمان )کے بارے میں مرجئہ کتاب و سنت اور اقوالِ صحابہ وتابعین سے ہٹ گئے ہیں ، انہوں نے اپنی عقل اور لغت پر اعتماد کیا ہے ، یہ اہلِ بدعت کا طریقہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم معتزلہ ، مرجئہ ، روافض اور دیگر بدعتیوں کو دیکھتے ہیں ، وہ قرآن کی تفسیر اپنی رائے ، عقل اور لغت سے کرتے ہیں ، اسی لیے آپ انہیں احادیث ِ نبوی اور صحابہ و تابعین و اسلاف کے آثار پر اعتماد کرتا نہیں دیکھیں گے ، نہ وہ احادیث کی پرواکرتے ہیں ، نہ اجماعِ سلف کی ، وہ تو اپنی عقل اور لغت پر انحصار کرتے ہیں ، آپ کبھی نہیں پائیں گے کہ وہ تفسیر بالماثور ، احادیث اور آثارِ سلف پر مشتمل کتب پر اعتماد کرتے ہوں ، بلکہ وہ تو ادب کی کتب اور اپنے بڑوں کی لکھی ہوئی علم ِ کلام کی کتابوں پر اعتماد کرتے ہیں ۔” (الایمان : ١١٤)
الحاصل سلف صالحین نے کتاب و سنت کی متواتر نصوص اور اجماع کے ذریعے مرجئہ کا مکمل رد ّ کیا ہے ، ان کے کچھ دلائل قارئین کے استفادہ کے لیے پیش کیے جارہے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں ۔
٭فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہ، زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ٭ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ)(الأنفال : ٢۔٣)
”بلاشبہ مومن وہ ہیں کہ جب ان کے پاس اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس (اللہ تعالیٰ )کی آیات تلاوت کی جائیں تو ان کے ایمان کو بڑھادیتی ہیں ، نیزوہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ، وہ لوگ نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔”
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان کر دیا ہے کہ مذکورہ تمام قلبی و بدنی اعمال سے بندہ مومن بنتا ہے ۔
امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وصف اللّٰہ عزّوجلّ المؤمنین بالأعمال ، ثمّ ألزمھم حقیقۃ الایمان ، ووصفھم بھا بعد قیامھم الأعمال ، من الصّلوٰۃ والزکّاۃ وغیرھا۔
”اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اعمال سے متصف فرمایا ہے ، پھر ان کو حقیقی مومن قرار دیا ، لیکن نماز اور زکوٰۃ وغیرہ جیسے مذکورہ اعمال کو قائم کرلینے کے بعد۔”( تعظیم قدر الصلوٰۃ)
٭فرمانِ الٰہی ہے :
وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ۔(البقرۃ : ١٤٣)
”اور اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ۔”
حافظ ابنِ عبد البرّ رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣)لکھتے ہیں :
لم یختلف المفسّرون أنّہ أراد : صلاتکم الی بیت المقدس ، فسمّی الصّلوٰۃ ایماناً ۔
”مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی گئی نماز مراد ہے ، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نمازکا نام ایمان رکھا ہے ۔”(التّمھید لابن عبد البرّ : ٩/٢٥٣)
ثابت ہوا کہ ایمان میں اعمال داخل ہیں ، نماز اعضاوجوارح اور دل کا عمل ہے اور زبان کا قول ہے ۔
٭فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ۔(آل عمران : ٣٢)
”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کہہ دیجیے ، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کرو ، اگر تم پھر گئے تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔”
اس آیت ِ کریمہ سے ثابت ہوا کہ محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان کے لیے ناکافی ہے ، کیونکہ یہاں ایمان کے لیے اطاعت کو عملاً لازم قرار دیا گیا ہے ۔
٭فرمانِ ربّ العالمین ہے :
(وَمَا اُمِرُوْۤا اِِلَّا لِیَعْبُدُوْا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ)(البیّنۃ : ٥)
”ان کو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ یکسوہو کر خالص اللہ کی عبادت کریں ، نیز وہ نماز قائم کریں اورزکوٰ ۃ ادا کریں ، یہی مضبوط دین ہے۔”
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ(٧٠١۔٧٧٤) فرماتے ہیں :
وقد استدلّ کثیر من الأئمۃ کالزّھری والشّافعیّ بھٰذہ الآیۃ الکریمۃ علی أنّ الأعمال داخلۃ فی الایمان ۔
”بہت سے ائمہ کرام جن میں امام زہری اور امام شافعی رحمہما اللہ شامل ہیں ، نے اس آیت ِ کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں ۔”(تفسیر ابن کثیر : ٨/٤٧٧)
دیگر بہت سی آیات سے بھی اعمال کا ایمان میں شامل ہو نا معلوم ہوتاہے ۔
امام آجری رحمہ اللہ (م٣٦٠) فرماتے ہیں :
اعلموا۔رحمنا اللّٰہ وایّاکم۔یا أھل العلم بالسّنن والآثار ، ویا معشر من فقّھھم اللّٰہ تعالیٰ فی الدّین بعلم الحلال والحرام : أنّکم ان تدبّرتم القرآن کما أمر اللّٰہ تعالیٰ ، علمتم أنّ اللّٰہ تعالیٰ أوجب علی المؤمنین بعد ایمانھم بہ وبرسولہ العمل ، وأنّہ تعالیٰ لم یثن علی المؤمنین بأنّہ قد رضی عنہم وأنّھم قد رضوا عنہ ، وأثابھم علی ذٰلک الدّخول فی الجنّۃ ، والنّجاۃ من النّار الّا بالایمان والعمل الصّالح ، قرن مع الایمان العمل الصالح ، لم یدخلھم الجنّۃ بالایمان وحدہ ، حتّٰی ضمّ الیہ العمل الصّالح الّذی وفّقھم لہ ، فصار الایمان لا یتمّ لأحد حتّٰی یکون مصدّقاً بقلبہ وناطقاً بلسانہ وعاملاً بجوارحہ ، لا یخفیٰ علی من تدبّر القرآن، وتصفّحہ ، وجدہ کما ذکرت ۔
واعلموا۔ رحمنا اللّٰہ وایّاکم۔ أنّی قد تصفّحت القرآن ، فوجدتُّ ما ذکرتہ فی شبیہ من خمسین موضعاً من کتاب اللّٰہ تعالیٰ أنّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ لم یدخل المؤمنین الجنّۃ بالایمان وحدہ ، بل أدخلھم برحمتہ ایّاھم ، وبما وفّقھم لہ من الایمان ، والعمل الصالح ۔
وھذا ردٌّ علی من قال : الایمان معرفۃ ، وردٌّ علی من قال : الایمان المعرفۃ والقول ، وان لّم یعمل!! نعوذ باللّٰہ من قائل ھٰذا ۔
”قرآن و حدیث کے علماؤ اور دین کے فقہاؤ ! اللہ تم پر رحم کرے ! جا ن لو کہ اگر تم قر آن پر حکمِ الٰہی کے مطابق غور وفکر کرو گے توتمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور اپنے رسول پر ایمان لانے کے بعد مومنوں پر عمل کو لازم قرار دیا ہے ، نیز ان کو رضا مندی کا سرٹیفیکیٹ اور جنت کے حصول اور آگ سے نجات کی صورت میں بدلہ ایما ن اور عملِ صالح دونوں کی موجودگی میں دیا ہے ، یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح کو ملایا ہے ، صرف ایمان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں کیا ، حتی کہ حسب ِ توفیق نیک اعمال کو بھی اس کے ساتھ ملا نہ دیا ، لہٰذا کسی کا ایمان مکمل تب ہی ہو گا ، جب وہ دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کرے گا، قرآنِ کریم پر غوروفکر اور اس کی ورق گردانی کرنے والے اس بات کو خوب جانتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ تم پر اور ہم پر رحم کرے ! جان لو کہ میں قرآن کی ورق گردانی کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قریبا ً پچاس ایسے مقامات ہیں ، جن میں اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے کہ وہ صرف ایمان کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں کرے گا ، بلکہ اس کی رحمت اور حسب ِتوفیق نیک اعمال بھی ایمان کے ساتھ شامل ہوں گے ۔
یہ ان لوگوں کا رد ہے جو صرف معرفت کو ایمان کہتے ہیں ، نیز ان لوگوں کا بھی جوایمان کو صرف دل کی معرفت اور زبان کااقرار کہتے ہیں ، اگرچہ عمل نہ بھی کیا جائے ، ہم ایسا کہنے والوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں ۔”(الشریعۃ للآجرّی : ٢/٦١٨۔٦١٩)
چنداحادیث ِ نبویہ بھی درجِ ذیل ہیں :
٭سیدنا صفوان بن عسّال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو یہودی نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ سے سوال پوچھے ، جواب ملنے پر کہنے لگے : نشہد انّک نبیّ ۔ ”ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں ۔”تو نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فما یمنعکم أن تتّبعونی ۔ ” تمہیں میری اتباع سے کون سی چیز مانع ہے؟”(سنن نسائی : ٤٠٨٣، جامع ترمذی : ٢٧٣٣، ٣١٤٤، وقال : حسن صحیح ، سنن ابن ماجہ : ٣٧٠٥، مسند الامام احمد : ٤/٢٣٩، وسندہ، صحیح)
امام حاکم (١/٩)نے اس کو ” صحیح ” کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے ۔
٭سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد ِ عبد القیس سے فرمایا:
((آمرکم بأربع : الایمان باللّٰہ وحدہ ، وھل تدرون ما الایمان باللّٰہ ؟ شھادۃ أن لا الہ الّا اللّٰہ وأنّ محمّدا رسول اللّٰہ، واقام الصّلوٰۃ ، وایتاء الزّکوٰۃ ، وصیام رمضان ، وأن تعطوا من المغنم الخمس ))
”میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں ، (١) ایک اللہ پر ایمان لانا ، کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر ایمان کیا ہے؟ وہ یہ ہے کہ گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرو ، زکوٰۃ اداکرو، رمضان کے روزے رکھو اورمالِ غنیمت سے خمس نکالا کرو۔” (صحیح بخاری : ١/١٣، ح : ٥٣ ، صحیح مسلم : ١/٣٣، ح :١٧)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (٧٣١۔٧٩٢) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وأیّ دلیل علی أنّ الأعمال داخلۃ فی مسمّی الایمان فوق ھذا الدّلیل ؟ فانّہ فسّر الایمان بالأعمال ، ولم یذکر التّصدیق مع العلم بأنّ ھذہ الأعمال لا تفید مع الجحود ۔
”اعمال کے ایمان میں داخل ہونے کی دلیل اس سے بڑی اور کیا ہو گی ؟ آپ نے تو ایمان کی تفسیر ہی اعمال سے کی ہے ، تصدیق کا تذ کرہ ہی نہیں کیا ، کیونکہ معلوم ہے کہ یہ اعمال عدمِ تصدیق کے ساتھ فائدہ مند نہیں ہوتے ۔”(شرح العقیدۃ الطّحاویۃ : ٤٨٧)
٭سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الایمان بضع و سبعون أو بضع وستّون شعبۃً ، فأفضلھا قول لا الہ الّا اللّٰہ ، وأدناھا اماطۃ الأذی عن الطّریق ، والحیاء شعبۃ من الایمان
”ایمان کے ستر سے کچھ اوپریا ساٹھ سے کچھ اوپر شعبے ہیں ، سب سے افضل شعبہ لا الہ الّا اللّٰہکہنا ہے اور سب سے ادنیٰ شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے ، نیز حیا بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ۔” (صحیح بخاری : ١/٦، ح :٩ ، صحیح مسلم : ١/٤٧، ح : ٣٥ ، واللّفظ لہ،)
یہ حدیث اعمال کے ایمان میں داخل ہونے کی واضح دلیل ہے ، اس لیے کہ اس کے شعبہ جات دل ، زبان اور اعضاکے اعمال پر مشتمل ہیں ، جیسا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنا زبان کا قول و عمل ہے ، راستے سے موذی اشیا کو دور کرنا اعضا و جوارح کا عمل ہے اور حیا دل کا عمل ہے ۔
حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولمّا کان الایمان اصلاً لہ شعب متعدّدۃ ، وکلّ شعبۃ منھا تسمّٰی ایماناً ، فالصّلوٰۃ من الایمان وکذٰلک الزّکوٰۃ والحجّ والصّیام والأعمال الباطنۃ کالحیاء والتّوکل والخشیّۃ من اللّٰہ والانابۃ الیہ ، حتّٰی تنتھی ھذہ الشّعب الی اماتۃ الاذٰی عن الطّریق ، فانّہ شعبۃ من شعب الایمان ، وھذہ الشّعب منھا ما یزول الایمان بزوالھا کشعبۃ الشّھادۃ ، ومنھا ما لا یزول بزوالھا کترک اماطۃ الأذی عن الطّریق ، ومنھا شعب متفاوتۃ تفاوتاً عظیماً ، منھا ما یلحق بشعبۃ الشّھادۃ ویکون الیھا أقرب ، ومنھا ما یلحق بشعبۃ اماطۃ الئاذی ویکون الیھا أقرب ۔
”جب ایمان ایک ایسی اصل ہے ، جس کے بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبہ ایمان کہلاتا ہے تو نماز بھی ایمان ہے ، زکوٰۃ بھی ، حج بھی اور روزے بھی ، نیز باطنی اعمال ، مثلاً حیا ، توکل ، تقوٰی ، انابت وغیرہ بھی ، یہاں تک کہ یہ شعبے تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے تک پہنچ جاتے ہیں ،یہ بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے ، ان شعبوں میں سے بعض ایسے ہیں ، جن کے ختم ہونے سے ایمان ختم ہو جاتا ہے ، جیسا کہ شہادت ِ توحید و رسالت کا شعبہ ہے ، جبکہ بعض ایسے ہیں ، جن کے زائل ہو جانے سے ایمان زائل نہیں ہوتا ، جیسا کہ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے والا شعبہ ہے ، ان کے درمیان میں بہت سے متفاوت شعبہ جات ہیں ، بعض شہادت سے ملتے ہیں ، وہ اس کے قریب ہیں اور بعض تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے سے ملتے ہیں ، لہٰذا اس کے قریب ہیں ۔” (کتاب الصّلوٰۃ لابن القیّم : ٥٣)
اب اس پر سلف کا اجماع ملاحظہ فرمائیں ، جو بہت سے ائمہ دین نے نقل فرمایا ہے :
حافظ بغوی رحمہ اللہ (م٥١٠)لکھتے ہیں :
اتّفقت الصّحابۃ والتّابعون فمن بعدھم من علماء السّنّۃ علی أنّ الأعمال من الایمان ، وقالوا: انّ الایمان قول و عمل وعقیدۃ ۔
”صحابہ ، تابعین اور بعد کے محدثین کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ایمان قول و عمل اور عقیدے (دل کی تصدیق )کا نام ہے ۔”(شرح السّنۃ للبغوی : ١/٣٨)
امام آجرّی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اعلموا۔ رحمنا اللّٰہ وایّاکم ۔أنّ علیہ علماء المسلمین أنّ الایمان واجب علی جمیع الخلق، وھو تصدیق القلب واقرار باللّسان وعمل بالجوارح ، ثمّ اعلموا أنّہ لا تجزیئ المعرفۃ بالقلب ونطق باللّسان حتّٰی یکون عمل بالجوارح ، فاذا کملت فیہ ھٰذہ الخصال الثّلاث کان مؤمناً ، دلّ علی ذٰلک القرآن والسّنّۃ ، وھو قول علماء المسلمین ۔
”اللہ تعالیٰ تم پر اور ہم پر رحم فرمائے ! جان لو کہ مسلمانوں کے علماء کا یہ مذہب ہے کہ جو ایمان تمام مخلوق پرواجب ہے ، وہ دل سے تصدیق ، زبان سے اقرار اور اعضاء کے عمل کا نام ہے ، پھر جان لو کہ دل کی معرفت اور زبان کا اقرار اس وقت تک فائدہ نہیں دیتا ، جب تک اعضا سے عمل نہ ہو، جب یہ تینوں چیزیں جمع ہوں تو مومن بنتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.