598

انبیاء و صلحا سے متعلق بعض عقائد، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

ہمارے ہاں بہت سارے لوگ انبیا،رسل اور اولیا و صلحا کے بارے میں مختارِ خزائن الٰہی،اللہ تعالیٰ کی ذات کا مظہر،پناہِ عالم، ہر بلا کے دافع،جان و مال کے مالک،عالم میں تصرف اور تدبیر کرنے والے،دنیا و آخرت کی تمام نعمتیں عطا کرنے والے،اللہ تعالیٰ کے نائب،قسیم النار، شمس و قمر اور ملکوت السماوات والارض پر حکم چلانے والے،نفع و نقصان کی کنجیاں جن کے قبضہ اور مٹھی میں،حاجت روا، مشکل کشا،فریاد رس،روزی رساں، کارساز، مافوق الاسباب میں مدد کرنے والے، فتح و نصرت عطا کرنے والے، داتا، دستگیر، لجپال، غریب نواز اور اس جیسے دیگر عقائد رکھتے ہیں۔
ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ دور و نزدیک سے انہیں پکارنا، ان کے نام کی دہائی دینا، مشکل میں ان سے مدد مانگنا، انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی بنانا،ان سے دعائیں مانگنا،ان سے صحت و شفا کا سوال کرنا،ان کے سامنے اپنی حاجات رکھنا،ان سے خیر و برکت اور فتح و کامیابی کی امیدیں قائم کرنا،ان سے استعانت و التجااور استغاثہ کرنا جائز ہے،وہ ان کے نام کی نذر اتارنے کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے جھکتے اور سجدے کرتے ہیں۔
ان کے عقائد میں یہ بھی شامل ہے کہ اولیا دلوں کے بھیدوں سے واقف ہوتے ہیں،وہ ہمارے حالات سے بہ خوبی آگاہ ہیں،سارا جہاں ان کے سامنے ہے،وہ علم غیب رکھتے ہیں، سنتے ہیں اور جانتے ہیں۔
ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صلحا و اولیا کی قبروں کو پختہ کرنا،ان کی تزئین و زیبائش کرنا، ان پر قبے بنانا،ان کی طرف سفر کرنا،ان کی قبروں پر عرس و میلے لگانا، ان کی قبروں کی مجاوری اختیار کرنا،وہاں سبیلیں لگانا، قبروں پر چادریں اور پھول چڑھانا،ان پر چراغ جلانا،قبروں کا طواف،ان پر اعتکاف بیٹھنا،قبروں کو بوسے دینا،مَس کرنا،قبر کے سامنے باادب اور باوضو کھڑنے ہونے کا اہتمام کرنا،قبروں پر نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا،دیگیں چڑھانا اور قبروں کو تریاقِ مجرب سمجھنا جائز ہے۔ان کا خیال ہے کہ یہ اولیاء اللہ کی تعظیم و تکریم ہے،جو یہ اعتقاد نہ رکھے،وہ ایسا ویسا ہے۔
ان تمام شرکیات و کفریات،بدعات اور خرافات کو روا رکھنے کے لیے ناجائز تبرک اور ناجائز توسل کا چور دروازہ کھولا گیا ہے۔سابقہ مشرکین کا اپنے بزرگوں کے متعلق یہی عقیدہ تھا، وہ یہی کہتے ہیں کہ اولیا و صالحین کا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقام و منزلت ہے،ہم تو صرف ان کے وسیلے سے مانگتے ہیں، ہم انہیں سفارشی بناتے ہیں،ان سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ توسل وتبرک کی اوٹ میں شرک کرتے تھے، آج بھی مشرکین کا یہی حال ہے۔
تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کے ساتھ خاص ہے، یہ وہ تعظیم ہے جس میں آپ کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔اس حوالے سے مدلل تحریر پیش کی جا چکی ہے۔اس کے برعکس بعض لوگ اولیا و صالحین سے بھی تبرک کے قائل ہیں، ان کے دلائل پر ایک نظر کرتے ہیں:
دلیل نمبر 1 :
n سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیَقُولُونَ : فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ : ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ، ثُمَّ یَأْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ، فَیَغْزُو فِئَامٌ مِّنَ النَّاسِ، فَیُقَالُ : ہَلْ فِیکُمْ مَّنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَیَقُولُونَ : نَعَمْ، فَیُفْتَحُ لَہُمْ‘ ۔
’’لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی۔ان سے کہا جائے گا:کیا تم میں کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہے؟ وہ کہیں گے:جی ہاں! تو انہیں فتح نصیب ہو گی۔ پھر لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی، تو ان سے پوچھا جائے گا:کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے،جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی صحبت اختیار کی ہو(تابعی ہو)؟وہ کہیں گے:جی ہاں!تو انہیں فتح نصیب ہو گی۔پھر لوگوں پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگوں کی جماعتیں جہاد کریں گی، تو ان سے پوچھا جائے گا:کیا تم میں کوئی شخص ایسا ہے،جو اصحاب ِرسول کی صحبت اختیار کرنے والوں کی صحبت سے مشرف ہوا ہو(تبع تابعی ہو)؟وہ کہیں گے:جی ہاں!تو انہیں فتح حاصل ہو گی۔‘‘
(صحیح البخاري : 3649، صحیح مسلم : 2532)
تبصرہ :
کسی چیز کا مبارک اور بابرکت ہونا الگ چیز ہے ،متبرک ہونا ایک الگ ۔اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو خیرو برکت عطا فرما دیتے ہیں۔ان کے اعمالِ صالحہ،ان کی دعائوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے معاشرے میں آسودگی آتی ہے۔اہل خیر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں کو ڈھیروں برکات سے نوازتے ہیں،مگر اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ان سے تبرک حاصل کیا جائے۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کے اعمالِ صالحہ کی بہ دولت اللہ تعالیٰ نے امت کو بھلائیاں عطا فرمائی ہیں۔ان کی دعائوں اور اخلاص کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح و نصرت نصیب ہوتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
’ہَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ‘ ۔
’’تمہیں نصرت و رزق تمہارے کمزوروں ہی کی وجہ سے عطا کیا جاتا ہے۔‘‘
(صحیح البخاري : 2596)
n اسی طرح سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’أَبْغُونِي ضُعَفَائَکُمْ، فَإِنَّکُمْ إِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِکُمْ‘ ۔
’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔بلاشبہ تمہیں کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور انہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 198/5، سنن أبي داوٗد : 2594، سنن النسائي : 3181، سنن الترمذي : 1702، وسندہٗ صحیحٌ)
امام ترمذیaنے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘،امام ابن حبانa(4767)نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکمa(104/2، 105)نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔
ان دونوں حدیثوں کی وضاحت ایک اور حدیث میں یوں آتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’إِنَّمَا یَنْصُرُ اللّٰہُ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃَ بِضَعِیفِہَا، بِدَعْوَتِہِمْ وَصَلَاتِہِمْ وَإِخْلَاصِہِمْ‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد صرف اس کے کمزور لوگوں کی دعا،نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے۔‘‘
(سنن النسائي : 3180، حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 26/2، وسندہٗ صحیحٌ)
اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان یا زندوں کا تبرک ثابت کرے،تو اس کا یہ عمل دیانت ِعلمی کے خلاف ہے۔اس حدیث سے اولیا و صالحین کے تبرک کا جواز ثابت کرنا شرعی نصوص کی معنوی تحریف ہے۔اس سے زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اہل سنت والجماعت،یعنی اہل حدیث جائز اور مشروع سمجھتے ہیں۔

موجودہ دَور میں انبیاے کرام کی قبور
b جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شیخ ومحدث،ابو عبد اللطیف،حماد بن محمد انصاری، افریقیa (1418-1344ھ)فرماتے ہیں :
لَا یُوجَدُ نَبِيٌّ فِي الدُّنْیَا یُعْرَفُ قَبْرُہٗ إِلاَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہٰذَا إِجْمَاعٌ بَیْنَ السَّلَفِ ۔
’’دنیا میں کسی بھی نبی کی قبر معلوم نہیں،سوائے ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے۔اس بات پر سلف صالحین کا اجماع ہے۔‘‘
(المجموع في ترجمۃ العلاّمۃ المحدّث الشیخ حمّاد بن محمّد الأنصاري : 504/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.