1,878

اولیاء و صالحین کی قبور پر مساجد، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اولیا و صالحین کی قبروں پر تبرک کے حصول کے لئے یا کسی اور مقصد کے لیے مساجد بنانا ممنوع و حرام ہے۔یہ منکر عمل شرک کا ذریعہ اور وسیلہ ہے،نیز یہ کافر قوموں کے ساتھ مشابہت بھی ہے اور قبروں کی خلافِ شرع حد درجہ تعظیم بھی۔اس سے بدعات و خرافات کے چور دروازے کھلتے ہیں۔اس حوالے سے دس صحیح احادیث پیش خدمت ہیں:
1 حدیث جندب بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پانچ دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘إِنِّي أَبْرَأُ إِلَی اللّٰہِ أَنْ یَّکُونَ لِي مِنْکُمْ خَلِیلٌ، فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِیلًا، کَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاہِیمَ خَلِیلًا، وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا مِّنْ أُمَّتِي خَلِیلًا؛ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ وَصَالِحِیہِمْ مَّسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْہَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ’ .
”اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس بات سے بری کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔میرے ربّ نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے،جس طرح ابراہیمuکو خلیل بنایا تھا۔اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا،تو ابوبکرصدیق کو خلیل بناتا۔ خبردار!بے شک تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاءِ کرام اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔خبردار!تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔ ”(صحیح مسلم : 532)
2 حدیث عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ :
b سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِکُہُ السَّاعَۃُ وَہُمْ أَحْیَائٌ، وَمَنْ یَّتَّخِذِ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ’
”بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جن کی زندگی میں قیامت قائم ہو گی اور وہ لوگ، جنہوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”
(مسند الإمام أحمد : 405/1، 435، المعجم الکبیر للطبراني : 10413، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (789)اور امام ابن حبان رحمہ اللہ (2325)نے ”صحیح” اور حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : 27/2)نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔
3 حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنہا :
b سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
لَمَّا اشْتَکَی النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ ذَکَرَتْ بَعْضُ نِسَائِہٖ کَنِیسَۃً رَّأَیْنَہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ، یُقَالُ لَہَا : مَارِیَۃُ، وَکَانَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ، وَأُمُّ حَبِیبَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَۃِ، فَذَکَرَتَا مِنْ حُسْنِہَا وَتَصَاوِیرَ فِیہَا، فَرَفَعَ رَأْسَہ،، فَقَالَ : ‘أُولَئِکِ إِذَا مَاتَ مِنْہُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا، ثُمَّ صَوَّرُوا فِیہِ تِلْکَ الصُّورَۃَ، أُولٰئِکِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ’ .
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ نے کنیسہ کا تذکرہ کیا،جسے انہوں نے سر زمین حبشہ میں دیکھا تھا۔اس بت کو ماریہ کہا جاتا تھا۔ سیّدہ امِ سلمہ اور سیّدہ امِ حبیبہ رضی اللہ عنہما سرزمین حبشہ گئی تھیں۔انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصویروں کا ذکر کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور ارشاد فرمایا:یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا، تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے۔پھر اس مسجد میں ان کی تصویریں بناتے۔یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بد ترین مخلوق ہےں۔”
(صحیح البخاري : 1341، صحیح مسلم : 528)
b علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَالَ شَیْخُنَا : وَہٰذِہِ الْعِلَّۃُ الَّتِي لِأَجْلِہَا نَہَی الشَّارِعُ عَنِ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَی الْقُبُوْرِ، ہِيَ الَّتِي أَوْقَعَتْ کَثِیْرًا مِّنَ الْـأُمَمِ؛ إِمَّا فِي الشِّرْکِ الْـأَکْبَرِ، أَوْ فِیْمَا دُوْنَہ، مِنَ الشِّرْکِ، فَإِنَّ النُّفُوْسَ قَدْ أَشْرَکَتْ بِتَمَاثِیْلِ الْقَوْمِ الصَّالِحِیْنَ، وَتَمَاثِیْلَ یَزْعَمُوْنَ أَنَّہ، طَلاَسِمُ لِلْکَوَاکِبِ وَنَحْوَ ذٰلِکَ، فَإِنَّ الشِّرْکَ بِقَبْرِ الرَّجُلِ الَّذِي یُعْتَقَدُ صَلَاحُہ،؛ أَقْرَبُ إِلَی النُّفُوْسِ مِنَ الشِّرْکِ بِخَشَبَۃٍ أَوْ حَجَرٍ، وَلِہٰذَا نَجِدُ أَہْلَ الشِّرْکِ کَثِیْرًا یَّتَضَرَّعُوْنَ عِنْدَہَا، وَیَخْشَعُوْنَ وَیَخْضَعُوْنَ، وَیَعْبُدُوْنَہُمْ بِقُلُوْبِہِمْ عِبَادَۃً لَّا یَفْعَلُوْنَہَا فِي بُیُوْتِ اللّٰہِ، وَلَا وَقْتَ السَّحَرِ، مِنْہُمْ مَّنْ یَّسْجُدُ لَہَا، وَأَکْثَرُہُمْ یَرْجُوْنَ مِنْ بَرْکَۃِ الصَّلاَۃِ عِنْدَہَا وَالدُّعَاءِ مَا لَا یَرْجُوْنَہ، فِي الْمَسَاجِدِ، فَلاِئَجْلِ ہٰذِہِ الْمَفْسَدَۃِ؛ حَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مَادَّتَہَا حَتّٰی نَہٰی عَنِ الصَّلاَۃِ فِي الْمَقْبَرَۃِ مُطْلَقًا، وَإِنْ لَّمْ یَقْصِدِ الْمُصَلِّي بَرَکَۃَ الْبُقْعَۃِ بِصَلاَتِہٖ، کَمَا یَقْصِدُ بِصَلاَتِہٖ بَرَکَۃِ الْمَسَاجِدِ، کَمَا نَہٰی عَنِ الصَّلَاۃِ وَقْتَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَغُرُوبَہَا، لاِئَنَّہَا أَوْقَاتٌ یَّقْصِدُ الْمُشْرِکُوْنَ الصَّلَاۃَ فِیْہَا لِلشَّمْسِ، فَنَہٰی أُمَّتَہ، عَنِ الصَّلَاۃِ حِیْنَئِذٍ، وَإِنْ لَّمْ یَقْصِدِ الْمُصَلِّي مَا قَصَدَہُ الْمُشْرِکُوْنَ، سَدًّا لِلذَّرِیْعَۃِ، قَالَ : وَأَمَّا إِذَا قَصَدَ الرَّجُلُ الصَّلَاۃَ عِنْدَ الْقُبُوْرِ مُتَبَرِّکًا بِالصَّلَاۃِ فِي تِلْکَ الْبُقْعَۃِ، فَہٰذَا عَیْنُ الْمُخَادَعَۃِ لِلّٰہِ وَلِرُسُوْلِہٖ، وَالْمُخَالَفَۃُ لِدِیْنِہٖ، وَابْتِدَاعِ دِیْنٍ لَّمْ یَأْذَنْ بِہِ اللّٰہُ تَعَالٰی، فَإِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی مَا عَلِمُوْہ، بِالْاِضْطِرَارِ مِنْ دِیْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ أَنَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ الْقُبُوْرِ مَنْہِيٌّ عَنْہَا، وَأَنَّہ، لَعَنَ مَنِ اتَّخَذَہَا مَسَاجِدَ، فَمِنْ أَعْظَمِ الْمُحْدَثَاتِ وَأَسْبَابِ الشِّرْکِ الصَّلَاۃُ عِنْدَہَا وَاتِّخَاذُہَا مَسَاجِدَ، وَبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَقَدْ تَّوَاتَرَتِ النُّصُوْصُ عَنِ النَّبِيِّ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِالنَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ وَالتَّغْلِیْظِ فِیْہِ، فَقَدْ صَرَّحَ عَامَّۃُ الطَّوَائِفِ بِالنَّہْيِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، مُتَابَعَۃً مِّنْہُمْ لِلسُّنَّۃِ الصَّحِیْحَۃِ الصَّرِیْحَۃِ، وَصَرَّحَ أَصْحَابُ أَحْمَدَ وَغَیْرُہُمْ مِّنْ أَصْحَابِ مَالِکٍ وَّالشَّافِعِيِّ بِتَحْرِیْمِ ذٰلِکَ، وَطَائِفَۃٌ أَطْلَقَتِ الْکَرَاہَۃَ، وَالَّذِي یَنْبَغِي؛ أَنْ یُّحْمَلَ عَلٰی کَرَاہَۃِ التَّحْرِیْمِ إِحْسَانًا لِّلظَّنِّ بِالْعُلَمَائِ، وَأَنْ لَّا یُظَنَّ بِہِمْ أَنْ یُّجَوِّزُوْا فِعْلَ مَا تَوَاتَرَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ لَعْنُ فَاعِلِہٖ وَالنَّہْيُ عَنْہ، .
”ہمارے شیخ(ابن تیمیہ رحمہ اللہ )نے فرمایا:شارع رحمہ اللہ نے جس وجہ سے قبروں پر مسجدیں بنانے سے روکا ہے،وہ یہ ہے کہ اسی عمل نے کئی امتوں کو شرکِ اکبر اور اصغر میں مبتلا کیا ہے،کیونکہ لوگ صالحین کی مُورتیاں اور کچھ ایسی مُورتیوں کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوئے،جنہیں وہ ستاروں کی طلاسم وغیرہ خیال کرتے تھے۔ جب کسی آدمی کے بارے میں نیک ہونے کا عقیدہ ہو جائے،توایسے شخص کی قبر کے پاس شرک کا ہونایقینی طور پر لکڑی اور پتھروں کے پاس ہونے والے شرک سے زیادہ ممکن ہے۔اسی لیے اکثر مشرکوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قبروں کے پاس خشوع و خضوع،عاجزی و انکساری اور دل سے ایسی عبادت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ جو اللہ کے گھروں اور بوقت سحری بھی نہیں کر پاتے،حتی کہ بعض لوگ تو ان قبروں کے پاس سجدے تک کر ڈالتے ہیں۔ان میں سے اکثر وہاں نماز اور دعا کے ذریعے برکت کی امیدیں رکھتے ہیں،حالانکہ مسجدوں سے یہ امیدیں نہیں لگاتے۔اس خرابی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کو جڑ سے ختم کر دیا،یہاں تک کہ قبرستان میں مطلق طور پر نماز پڑھنے سے روک دیا،اسی طرح طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت نماز سے بھی منع کر دیا گیا،کیونکہ اس وقت مشرکین سورج کی عبادت کرتے ہیں،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اُمت کو نماز سے روک دیا،اگرچہ نمازی کا ارادہ مشرکین والا نہ بھی ہو۔اگر کسی انسان کا قبر کے پاس نماز پڑھنے کا مقصد تبرک حاصل کرنا ہو، تو یقینا یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو دھوکہ دینا اوران کے دین کی مخالفت کرنا ہے،نیز دین میں ایسے نئے کام کو گھڑ لینا ہے،جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے یقینی طور پر ثابت ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنا ممنوع ہے اور ان پرمسجدیں بنانے والا ملعون ہے۔قبروں کے پاس نماز پڑھنا اور ان پر مسجدیں بنانا شرک کے بڑے ذرائع و اسباب میں سے ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ِمتواترہ میں بڑی شدت کے ساتھ اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے اکثر مکاتب ِفکر نے بھی قبروں کے پاس مسجدیں بنانے کی حرمت کی تصریح کی ہے۔امام احمد،امام مالک اور امام شافعی Sکے اصحاب نے بھی اس کی حرمت کی تصریح کی ہے۔بعض علماء ِکرام نے اسے مکروہ گردانا ہے،مگر ان علما کے متعلق حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ اس کراہت کو تحریم پر محمول کیا جائے،کیونکہ ان کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ کسی ایسے عمل کے لیے سند ِجواز پیش کریں گے،جس کے متعلق ممانعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہے اور ایسے کام کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے۔”
(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 184/1، 185)
4 حدیث ِ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘قَاتَلَ اللّٰہُ یَہُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’ .
”اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کوتباہ و برباد کرے،انہوں نے اپنے انبیاءِ کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔”(صحیح البخاري : 437، صحیح مسلم : 530)
صحیح مسلم(530)کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
‘لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُودَ وَالنَّصَارٰی، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’ .
”اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو اپنی رحمت سے دور کرے،جنہوں نے اپنے انبیاء ِ کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”
b علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَقَدْ نَہٰی عَنْ اتِّخَاذِ الْقُبُوْرِ مَساجِدَ فِي آخِرِ حَیَاتِہٖ، ثُمَّ إِنَّہ، لَعَنَ، وَہُوَ فِي السِّیَاقِ، مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ، لِیُحَذِّرَ أُمَّتَہ، أَنْ یَّفْعَلُوْا ذٰلِکَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ِطیبہ کے آخری ایام میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمادیا تھا،جیسا کہ سیاقِ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اہل کتاب پر لعنت فرمائی،جنہوں نے ایسا کیا تھا،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہ کام کرنے سے بچائیں۔”(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 186/1)
b علامہ شوکانی رحمہ اللہ (1173۔1250ھ)فرماتے ہیں:
ثُمَّ انْظُرْ کَیْفَ یَصِحُّ اسْتِثْنَاءُ أَہْلِ الْفَضْلِ بِرَفْعِ الْقِبَابِ عَلٰی قُبُوْرِہِمْ، وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا قَدَّمْنَا أَنَّہ، قَالَ : ‘أُوْلٰئِکَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِیْہِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ؛ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہٖ مَسْجِدًا’، ثُمَّ لَعَنَہُمْ بِہٰذَا السَّبَبِ، فَکَیْفَ یَسُوْغُ مِنْ مُّسْلِمٍ أَنْ یَّسْتَثْنِيَ أَہْلَ الْفَضْلِ بِفِعْلِ ہٰذَا الْمُحَرَّمِ الشَّدِیْدِ عَلٰی قُبُوْرِہِمْ، مَعَ أَنَّ أَہْلَ الْکِتَابِ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ الرَّسُوْلُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَذَّرَ النَّاسَ مَا صَنَعُوْا، لَمْ یَعْمُرُوا الْمَسَاجِدَ إِلاَّ عَلٰی قُبُوْرِ صُلَحَائِہِمْ، ثُمَّ ہٰذَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَیِّدُ الْبَشَرِ، وَخَیْرُ الْخَلِیْقَۃِ، وَخَاتِمُ الرُّسِلِ، وَصَفْوَۃُ اللّٰہِ مِنْ خَلْقِہٖ، یَنْہٰی أُمَّتَہ، أَنْ یَّجْعَلُوْا قَبْرَہ، مَسْجِدًا أَوْ وَثَنًا أَوْ عِیْدًا، وَہُوَ الْقُدْوَۃُ لِأُمَّتِہٖ، وَلِأَہْلِ الْفَضْلِ مِنَ الْقُدْوَۃِ بِہٖ، وَالتَّأَسِّي بِأَفْعَالِہٖ وَأَقْوَالِہِ الْحَظُّ الْـأَوْفَرِ، وَہُمْ أَحَقُّ الْـأُمَّۃِ بِذٰلِکَ وَأَوْلَاہُمْ بِہٖ، وَکَیْفَ یَکُوْنُ فِعْلُ بَعْضِ الْـأُمَّۃِ وَصَلَاحُہ، مُسَوِّغًا لِّفِعْلِ ہٰذَا الْمُنْکَرِ عَلٰی قَبْرِہٖ؟ وَأَصْلُ الْفَضْلِ وَمَرْجِعُہ، ہُوَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَيُّ فَضْلٍ یُّنْسَبُ إِلٰی فَضْلِہٖ أَدْنٰی نِسْبَۃٍ؟ أَوْ یَکُوْنُ لَہ، بِجَنْبِہٖ أَقَلُّ اعْتِبَارٍ؟ فَإِنْ کَانَ ہٰذَا مُحَرَّمًا مَّنْہِیًّا عَنْہ،، مَلْعُوْنًا فَاعِلُہ، فِي قَبْرِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا ظَنُّکَ بِقَبْرِ غَیْرِہٖ مِنْ أُمَّتِہٖ؟ وَکَیْفَ یَسْتَقِیْمُ أَنْ یَّکُوْنَ لِلْفَضْلِ مَدْخَلٌ فِي تَحْلِیْلِ الْمُحَرَّمَاتِ وَفِعْلِ الْمُنْکَرَاتِ؟
”علاوہ ازیں!صالحین کی قبروں پر قبے بنانے کا استثنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے،جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسندِ صحیح ہم ذکر کر چکے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں سے کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا،تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس حرکت کے سبب ان پر لعنت بھی فرمائی ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اس حرمت و ممانعت سے صالحین کی قبروں کو مستثنیٰ قرار دے؟جب کہ صورت حال یہ ہے کہ اہل کتاب، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملعون قرار دیااور ان کے اس فعل سے لوگوں کو ڈرایا،وہ صالحین کی قبروں ہی پر مسجدیں بناتے تھے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو نوعِ انسانی کے سردار،با کمال صورت کے مالک،خاتم الرسل اور اللہ تعالیٰ کے برگزید بندے ہیں، نے اپنی امت کو اپنے بعد اپنی قبر کو بھی مسجد،پوجا پاٹ اور میلے ٹھیلے کی جگہ بنانے سے منع فرمایا،حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت کے رہنما ہیں،صالحین امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ہی میں اسوہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے اقوال و افعال کا اتباع مشعلِ راہ ہے۔(اگر یہ کام جائز ہوتا،تو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس کے مستحق تھے،چنانچہ امت میں سے کسی کا فعل اور کسی کی نیکی کیسے اس منکر کام کو اس کی قبر پر جائز قرار دے سکتی ہے؟فضیلت کا منبع و مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے۔کسی بھی فضیلت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے کوئی ادنیٰ سی نسبت بھی نہیں ہو سکتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں اس کا کوئی بھی اعتبار نہیں ہو سکتا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر پر بھی یہ کام ممنوع و حرام ہیں اور ایسا کرنے والا ملعون ہے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امتی کی قبر کے بارے میں کیا رائے رکھی جا سکتی ہے؟ اور حرام و منکر کاموں کے جواز میں کسی فضیلت کا کیسے کوئی دخل ہو سکتا ہے؟”
(شرح الصدور بتحریم رفع القبور، ص : 39، 40)
b شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ (1193۔1285ھ)لکھتے ہیں:
قَوْلُہ، : ‘وَالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ’ مَعْطُوْفٌ عَلٰی خَبَرِ إِنَّ فِي مَحَلِّ نَصْبٍ عَلٰی نِیَّۃِ تِکْرَارِ الْعَامِلِ، أَيْ وَإِنَّ مِنْ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ، أَيْ بِالصَّلاَۃِ عِنْدَہَا وَإِلَیْہَا، وَبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَتَقَدَّمَ فِي الْـأَحَادِیْثِ الصَّحِیْحَۃِ أَنَّ ہٰذَا مِنْ عَمَلِ الْیُہُوْدِ وَالنَّصَارٰی، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ، تَحْذِیْرًا لِّلْـأُمَّۃِ أَنْ یَّفْعَلُوْا مَعَ نَبِیِّہِمْ وَصَالِحِیْہِمْ مِّثْلَ الْیُہُوْدِ وَالنَّصَارٰی، فَمَا رَفَعَ أَکْثَرُہُمْ بِذٰلِکَ رَأْسًا، بَلِ اعْتَقَدُوْا أَنَّ ہٰذَا الْـأَمْرَ قُرْبَۃٌ لِّلّٰہِ تَعَالٰی، وَہُوَ مِمَّا یُبْعِدُہُمْ عَنِ اللّٰہِ وَیَطْرُدُہُمْ عَنْ رَّحْمَتِہٖ وَمَغْفِرَتِہٖ، وَالْعَجَبُ أَنَّ أَکْثَرَ مَنْ یَّدَّعِي الْعِلْمَ مِمَّنْ ہُوَ مِنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ لاَ یَنْکُرُوْنَ ذٰلِکَ، بَلْ رُبَّمَا اِسْتَحْسَنُوْہُ وَرَغَّبِوْا فِي فِعْلِہٖ، فَلَقَدِ اشْتَدَّتْ غُرْبَۃُ الْإِسْلَامِ، وَعَادَ الْمَعْرُوْفُ مُنْکَرًا وَّالْمُنْکَرُ مَعْرُوْفًا، وَالسُّنَّۃُ بِدْعَۃً وَّالْبِدْعَۃُ سُنَّۃً، نَشَأَ عَلٰی ہٰذَا الصَّغِیْرُ وَہَرِمَ عَلَیْہِ الْکَبِیْرُ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:’وَالَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ’ إِنَّ کی خبر پر معطوف ہے،جوکہ تکرارِ عامل کی نیت پر محلاًّ منصوب ہے،مطلب اس کا یہ ہے کہ بدترین لوگ وہ ہیں،جو قبر کے پاس نماز پڑھتے اور ان پر مسجدیں بناتے ہیں،جیسا کہ اس بارے میں صحیح احادیث پہلے گزر چکی ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا وطیرہ ہے،اسی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود اپنی امت کو اپنی اور دیگر صالحین کی قبروں پر یہود و نصاریٰ جیسا عمل کرنے سے ڈرانا تھا۔مگر زیادہ امتیوں نے اس بات کی طرف دھیان نہیں دیا،بلکہ انہوں نے اس(قبر پرستی)کو قربت ِخداوندی کا ذریعہ سمجھ لیا،حالانکہ یہ کام تو انہیں اللہ تعالیٰ، رحمت الٰہی اور بخشش باری تعالیٰ سے دور کرتا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ امت میں اکثر علم کے دعوے دار بھی ان کاموں کا ردّ نہیں کرتے،بلکہ انہیں اچھا خیال کرتے ہیں اور ایسے کاموں کی ترغیب دیتے ہیں۔اسلام کی تعلیمات اس قدر اجنبی ہو گئی ہیںکہ نیکی نے برائی،برائی نے نیکی،سنت نے بدعت اور بدعت نے سنت کا روپ دھار لیا ہے اور انہی حالات پر چھوٹے پروان چڑھ رہے ہیں اور نوجوان بوڑھے ہو رہے ہیں۔ ”(فتح المجید شرح کتاب التوحید : 240)
5 حدیث ِ ابو عبیدہ بن جرّاح رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی:
‘وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ’ .
”جان لو!بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جنہوں نے اپنے انبیاء ِکرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”(مسند الإمام أحمد : 196/1، وسندہ، حسنٌ)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رِجَالُہ، ثِقَاتٌ .
”اس کے راوی ثقہ ہیں۔”(مجمع الزوائد : 28/2)
6 حدیث عائشہ و ابن عبّاسy :
n سیّدہ عائشہ اور سیّدنا عبداللہ بن عباسy بیان کرتے ہیں :
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیصَۃً لَّہ، عَلٰی وَجْہِہٖ، فَإِذَا اغْتَمَّ بِہَا کَشَفَہَا عَنْ وَّجْہِہٖ، فَقَالَ وَہُوَ کَذٰلِکَ : ‘لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارٰی، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’، یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوْا .
”جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کو بار بار رخِ زیبا پر ڈالتے۔جب گھبراہٹ ہوتی،تو اپنے چہرئہ مبارک سے چادر ہٹا دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اضطراب و پریشانی کی حالت میں فرمایا:یہود و نصاریٰ کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دور کرے،جنہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما کر اپنی امت کو ایسے کاموں سے منع فرما رہے تھے۔”
(صحیح البخاري : 435، صحیح مسلم : 531)
b شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773۔852ھ)سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فرمان لَـأُبْرِزَ قَبْرُہ، کے تحت لکھتے ہیں:
قَوْلُہ، : لَـأُبْرِزَ قَبْرُہ،، أَيْ لَکُشِفَ قَبْرُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُتَّخَذْ عَلَیْہِ الْحَائِلُ، وَالْمُرَادُ الدَّفْنُ خَارِجَ بَیْتِہٖ، وَہٰذَا قَالَتْہُ عَائِشَۃُ قَبْلَ أَنْ یُّوَسَّعَ الْمَسْجِدُ النَّبَوِيُّ، وَلِہٰذَا لَمَّا وُسِّعَ الْمَسْجِدُ جُعِلَتْ حُجْرَتُہَا مُثَلَّثَۃَ الشَّکْلِ مُحَدَّدَۃً، حَتّٰی لَا یَتَأَتّٰی لِأَحَدٍ أَنْ یُّصَلِّيَ إِلٰی جِہَۃِ الْقَبْرِ مَعَ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَۃ .
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کہ (اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ اور میلہ گاہ بنا لیا جائے گا)،توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو ظاہر کر دیا جاتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر کو کھلا چھوڑا جاتا اور اس پر کوئی پردہ حائل نہ ہوتا۔نیز گھر سے باہر دفن کرنے سے مراد یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات مسجد ِنبوی کی توسیع سے قبل کہی تھی،لہٰذا جب مسجد نبوی کی توسیع کی گئی،تو حجرہ کو مثلث نما بنا کر بند کر دیا گیا،یہاں تک کہ وہاں آنے والا کوئی نمازی بھی قبر کی جانب اور قبلہ رخ ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔(یعنی جب قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھے گا،تو قبر کی جانب منہ نہیں ہو سکتا،اسی طرح اگرکوئی قبر کی جانب منہ کرکے نماز ادا کرے گا،تو قبلہ کی طرف منہ نہیں ہو گا)۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 200/3)
b علامہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ (م:656ھ)اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وِلِہٰذَا بَالَغُ الْمُسْلِمُوْنَ فِي سَدِّ الذَّرِیْعَۃِ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَعْلَوْا حِیْطَانَ تُرْبَتِہٖ، وَسَدُّوا الْمَدَاخِلَ إِلَیْہَا، وَجَعَلُوْہَا مُحَدَّقَۃً بِقَبْرِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ خَافُوْا أَنْ یُّتَخَذَ مَوْضِعُ قَبْرِہٖ قِبْلَۃٌ، إِذْ کَانَ مُسْتَقْبَلَ الْمُصَلِّیْنَ، فَتُتَصَوَّرُ الصَّلَاۃُ إِلَیْہِ بِصُوْرَۃِ الْعِبَادَۃِ، فَبَنَوْا جِدَارَیْنِ مِنْ رُکْنَيِ الْقَبْرِ الشِّمَالَیَیْنَ، وَحَرَّفُوْہُمَا حَتَّی الْتَقَیَا عَلٰی زَاوِیَۃٍ مُثَلَّثٍ مِّنْ نَّاحِیَۃِ الشِّمَالِ ، حَتّٰی لَا یَتَمَکَّنَ أَحَدٌ مِنْ اسْتِقْبَالِ قَبْرِہٖ، وَلِہٰذَا الَّذِي ذَکَرْنَاہُ کُلَّہ،، قَالَتْ عَائِشَۃُ : وَلَوْلاَ ذٰلِکَ أُبْرِزَ قَبْرُہ، .
”مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے متعلق سختی سے سد ذرائع اختیار کرتے ہوئے دیواروں کو اونچا کر دیا،داخلی راستوں کو بند کر دیا،اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔نیزجب انہیں قبر نبوی کے متعلق قبلہ رخ ہونے کا خدشہ ظاہر ہوا،کیونکہ قبر نمازیوں کے سامنے آ رہی تھی اور بوقت ِعبادت، قبر کے لیے نماز کا تصور ہو سکتا تھا،توانہوں نے قبر کی شمالی سمت دو دیواریں بنا دیں،دونوں دیواروں کو شمالی سمت سے تھوڑا سا موڑ کر مثلث کی شکل دے دی،تاکہ کسی کے لیے قبر کا قبلہ ہونا ممکن نہ رہے۔اوپر ذکر کردہ اسباب کی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ بات کہی تھی:اگر یہ خدشہ نہ ہوتا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو ظاہر کر دیا جاتا۔”
(المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم : 932/2)
یعنی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوگیاکہ آپ عنقریب فوت ہو جائیں گے،تو وفات سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افرادِ امت کو قبر پر مسجد بنانے سے ڈرایا،اسی خدشہ کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجرئہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں دفن کیا گیا، ورنہ بقیع الغرقد میں دفن کیاجاتا۔
فائدہ :
n سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘مَا قُبِضَ نَبِيٌّ؛ إِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ’ .
”جب بھی کسی نبی کی وفات ہوئی،تو اسے وہیں دفن کیا گیا،جہاںاس کی روح قبض ہوئی۔”(سنن ابن ماجۃ : 1628)
یہ روایت ”ضعیف”ہے، کیونکہ اس کا راوی حسین بن عبداللہ بن عبیداللہ بن عباس ہاشمی جمہور ائمہجرح و تعدیل کے نزدیک ”ضعیف”ہے،جیسا کہ :
b امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضَعَّفَہ، أَکْثَرُ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ .
”اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔”(السنن الکبرٰی : 346/10)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہُوَ مَتْرُوْکٌ، وَضَعَّفَہُ الْجُمْہُوْرُ .
”یہ متروک راوی ہے، اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔”
(مجمع الزوائد : 60/5، 281/7)
اسے امام احمد بن حنبل،امام یحییٰ بن معین،امام علی بن مدینی،امام ابو حاتم رازی،امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی اور امام ابن حبانSوغیرہم نے ”ضعیف” و مجروح قرار دیا ہے۔
b سنن ترمذی(1018)کی سند میں عبد الرحمن بن ابو بکر مُلَیکی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
b اسی طرح مصنف عبد الرزاق (6534)اور مسند احمد (7/1)کی سند”منقطع” ہونے کی وجہ سے ”ضعیف”ہے۔
b شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قَوْلُہ، : یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوْا، اَلظَّاہِرُ أَنَّ ہٰذَا مِنْ کَلاَمِ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہَا، لاِئَنَّہَا فَہِمَتْ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذٰلِکَ تَحْذِیْرَ أُمَّتِہٖ مِنْ ہٰذَا الصَّنِیْعِ الَّذِي کَانَتْ تَّفْعَلُہُ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارٰی فِي قُبُوْرِ أَنْبِیَائِہِمْ، فَإِنَّہ، مِنَ الْغُلُوِّ فِي الْـأَنْبِیَائِ، وَمِنْ أَعْظَمِ الْوَسَائِلِ إِلَی الشِّرْکِ، وَمِنْ غُرْبَۃِ الْإِسْلَامِ أَنَّ ہٰذَا الَّذِي لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاعِلَیْہِ، تَحْذِیْرًا لاِئُمَّتِہٖ أَنْ یَّفْعَلُوْہُ مَعَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَ الصَّالِحِیْنَ مِنْ أُمَّتِہٖ، قَدْ فَعَلَہُ الْخَلْقُ الْکَثِیْرُ مِنْ مُتَأَخِّرِي ہٰذِہِ الاْئُمَّۃِ، وَاعْتَقَدُوْہُ قُرْبَۃً مِّنَ الْقُرُبَاتِ، وَہُوَ مِنْ أَعْظَمِ السَّیِّئَاتِ وَالْمُنْکَرَاتِ، وَمَا شََعُرُوْا أَنَّ ذٰلِکَ مُحَادَّۃً لِّلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، قَالَ الْقُرْطَبِيُّ فِي مَعْنَی الْحَدِیْثِ : وَکُلُّ ذٰلِکَ لِقَطْعِ الذَّرِیْعَۃِ الْمُؤَدِّیَۃِ إِلٰی عِبَادَۃِ مَنْ فِیْہَا کَمَا کَانَ السَّبَبُ فِي عِبَادَۃِ الاْئَصْنَامِ، اِنْتَہٰی، إِذْ لَا فَرْقَ بَیْنَ عِبَادَۃِ الْقَبْرِ وَمَنْ فِیْہِ وَعِبَادَۃِ الصَّنَمِ .
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو یہود ونصاریٰ کے فعل شنیع سے دُور رکھنا چاہتے تھے۔ ظاہری طور پر یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کا قول ہے،کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ فہم لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو ان کاموں سے ڈرانا چاہتے تھے،جو کام یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیا کی قبروں کے ساتھ کیے،کیونکہ یہ کام انبیا کی شان میں غلو ہے اور شرک کے بڑے اسباب میں سے ہے۔اسلام کی اجنبیت کا یہ عالم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کام کے کرنے والوں پر لعنت کی اور امت کو متنبہ فرمایا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صالحین کی قبروں کے ساتھ یہ کام نہ کریں، بہت سے متاخرین امت نے اسی کام کو اپنایا اور اسے قربِ الٰہی کا ذریعہ بھی سمجھ لیا،حالانکہ یہ بہت بڑا گناہ اور سخت منکر کام ہے۔ان لوگوں کو اس بات کا شعور تک نہیں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت ہے۔علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے: ‘یہ سب کچھ صاحب ِقبر کی عبادت سے بچانے کے لیے کیا گیا،کہ بت پرستی کا سبب بھی یہی تھا۔’کیونکہ قبر اورصاحب ِقبر کی عبادت اور بتوں کی پوجا میں کوئی فرق نہیں۔”
(فتح المجید شرح کتاب التوحید : 234)
b شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
وَبِالْجُمَلَۃِ فَمَنْ لَّہ، مَعْرِفَۃٌ بِالشِّرْکِ وَأَسْبَابِہٖ وَذَرَائِعِہٖ، وَفَہِمَ عَنِ الرَّسَوْلِ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ مَقَاصِدَہ،؛ جَزَمَ جَزْماً لَّا یَحْتَمِلُ النَّقِیْضَ أَنَّ ہٰذِہِ الْمُبَالَغَۃُ مِنْہُ بِالَّلعَنِ وَالنَّہْيِ بِصَیِغْتَیْہِ؛ صَیْغَۃِ : ‘لاَ تَفْعَلُوْا’ وَصَیْغَۃِ : ‘إِنِّي أَنْہَاکُمْ’ لَیْسَ لاِئَجْلِ النَّجَاسَۃِ، بَلْ ہُوَ لاِئَجْلِ نَجَاسَۃِ الشِّرْکِ اللَّاحِقَۃِ بِمَنْ عَصَاہ،، وَارْتَکَبَ مَا عَنْہُ نَہَاہ،، وَاتَّبَعَ ہَوَاہ،، وَلَمْ یَخْشَ رَبَّہ، وَمَوْلَاہ،، وَقَلَّ نَصِیْبُہ، أَوْ عَدِمَ فِي تَحْقِیْقِ شَہَادَۃِ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ، فَإِنَّ ہٰذَا وَأَمْثَالَہ، مِنَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ صِیَانَۃٌ لِّحِمَی التَّوْحِیْدِ أَنْ یَّلْحَقَہُ الشِّرْکُ وَیَغْشَاہ،، وَتَجْرِیْدٌ لَّہ، وَغَضَبٌ لِرَبِّہٖ أَنْ یَّعْدِلَ بِہٖ سِوَاہُ، فَأَبَی الْمُشْرِکُوْنَ إِلاَّ مَعْصِیَۃً لِّأَمْرِہٖ وَارْتِکَاباً لِّنَہْیِہٖ، وَغَرَّہُمُ الشَّیْطَانُ، فَقَالَ : بَلْ ہٰذَا تَعْظِیْمٌ لِّقُبُوْرِ الْمَشَایِخِ وَالصَّالِحِیْنَ، وَکُلَّمَا کُنْتُمْ أَشَدَّ لَہَا تَعْظِیْمًا، وَأَشَدَّ فِیْہِمْ غُلُوًّا؛ کُنْتُمْ بِقُرْبِہِمْ أَسْعَدَ، وَمِنْ أَعْدَائِہِمْ أَبْعَدَ، وَلَعَمْرُ اللّٰہِ، مِنْ ہٰذَا الْبَابِ بِعَیْنِہٖ دَخَلَ عَلٰی عُبَّادِ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرَ، وَمِنْہُ دَخَلَ عَلٰی عُبَّادِ الْـأَصْنَامِ مُنْذُ کَانُوْا إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، فَجَمَعَ الْمُشْرِکُوْنَ بَیْنَ الْغُلُوِّ فِیْہِمْ، وَالطَّعْنِ فِي طَرِیْقَتِہِمْ، وَہَدَی اللّٰہُ أَہْلَ التَّوْحِیْدِ لِسُلُوْکِ طَرَیْقَتِہِمْ، وَإِنْزَالِہِمُ الَّتِي أَنْزَلَہُمُ اللّٰہُ إِیَّاہَا، مِنَ الْعُبُوْدِیَّۃِ وَسَلْبِ خَصَائِصِ الْإِلٰہِیَۃِ عَنْہُمْ، وَہٰذَا غَایَۃُ تَعْظِیْمِہِمْ وَطَاعَتِہِمْ .
”الغرض جو شخص شرک کے اسباب و ذرائع کی معرفت رکھتا ہے اور مقاصد ِرسول کو سمجھتا ہے،اسے پختہ یقین ہے کہ اس کام(قبر پرستی)کے متعلق لعنت اور ممانعت میں ‘نہ کرو’ اور’میں تمہیں منع کرتا ہوں’کے الفاظ سے جو مبالغہ کیا گیا ہے،یہ اس لیے نہیں کہ اس میں ظاہری نجاست ہے،بلکہ اس لیے کہ اس میں شرک کی نجاست ہے، جو ہر اس شخص کو لاحق ہو جائے گی،جو اس معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے گا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کردہ کام کا ارتکاب کرے گا،نفس پرستی کا شکار ہو گا،اپنے رب اور مولا سے نہ ڈرے گا اور اس کا کلمہ شہادت پر یقین بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہو جائے گا۔یہ اور اس طرح کے دوسرے اقدام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی حفاظت کے لیے فرمائے،تاکہ شرک اس کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے،توحید پر شرک غالب نہ آ جائے اور توحید نکھر کر سامنے آئے۔نیز اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے پر غصے کا اظہار ہے،مگر مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کی نافرمانی اور منع کردہ کاموں کے ارتکاب کی ٹھان لی۔ شیطان نے انہیں دھوکا دیتے ہوئے کہا کہ یہ کام تو مشایخ اور صالحین کی قبروں کی تعظیم ہے، تم ان قبروں کی جتنی زیادہ تعظیم کرو گے اور غلو سے کام لو گے،تمہیں ان قبروں والوں کی اتنی ہی قربت حاصل ہو گی اور ان کے دشمنوں سے تم اتنے ہی دور ہو جاؤ گے۔اللہ کی قسم!یغوث،یعوق اور نسرکے پجاریوں کے ہاں شیطان اسی دروازے سے داخل ہوا تھا، شروع دن سے بت پرستوں کے پاس بھی وہ اسی دروازے سے آیااورقیامت تک ایسا ہی ہو گا۔ مشرکین نے ایک طرف انبیا و صالحین کے متعلق غلو سے کام لیا،تو دوسری طرف ان کی تعلیمات پر طعن و تشنیع کی۔اللہ تعالیٰ نے اہل توحید کو انبیاء ِکرام کے راستے پر چلنے کی ہدایت دی،جنہوں نے انبیاء ِکرام سے الوہیت کے خصائص کی نفی کر کے انہیں وہی مقامِ عبدیت دیا،جن پر اللہ تعالیٰ نے انہیں فائز کیا تھا اور یہی ان کی حد درجہ تعظیم و اطاعت ہے۔”(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 189/1)
7 حدیث ِ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘اَللّٰہُمَّ، لَا تَجْعَلْ قَبْرِي وَثَنًا، لَعَنَ اللّٰہُ قَوْمًا اتَّخَذُوا، أَوْ جَعَلُوا، قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَّسَاجِدَ’ .
” اے اللہ!میری قبر کو بت خانہ نہ بنانا،اس قوم پراللہ کی لعنت ہو،جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔”(مسند الحمیدي : 1025، وسندہ، حسنٌ)
b علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (691۔751ھ)فرماتے ہیں:
وَمِنْ أَعْظَمِ کَیْدِ الشَّیْطَانِ أَنَّہ، یَنْصِبُ لاِئَہْلِ الشِّرْکِ قَبَرَ مُعَظَّمٍ یُّعَظِّمُہُ النَّاسُ، ثُمَّ یَجْعَلُہ، وَثَنًا یُّعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، ثُمَّ یُوْحٰی إِلٰی أَوْلَیَائِہٖ أَنَّ مَنْ نَّہٰی عَنْ عِبَادَتِہٖ، وَاتِّخَاذِہٖ عِیْدًا، وَجَعْلِہ، وَثَنًا؛ فَقَدْ تَنَقَّصَہ،، وَہَضَمَ حَقَّہ،، فَیَسْعَی الْجَاہِلُوْنَ الْمُشْرِکُوْنَ فِي قَتْلِہٖ وَعَقُوْبَتِہٖ، وَیُکَفِّرُوْنَہ،، وَذَنْبُہ، عِنْدَ أَہْلِ الْإِشْرَاکِ أَمْرُہ، بِمَا أَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ وَرَسُوْلُہ،، وَنَہْیُہ، عَمَّا نَہَی اللّٰہُ عَنْہ، وَرَسُوْلُہ،، مِنْ جَعْلَہٖ وَثَنًا وَّعِیْدًا، وَإِیْقَادِ السُّرُجِ عَلَیْہِ، وَبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ وَالْقِبَابِ عَلَیْہِ، وَتَجْصِیْصِہٖ، وَإِشَادَتِہٖ، وَتَقْبِیْلِہٖ، وَاسْتِلَامِہٖ، وَدُعَائِہٖ، وَالدُّعَاءِ بِہٖ، أَوِ السَّفَرِ إِلَیْہِ، أَوِ الِاسْتَغَاثَۃِ بِہٖ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، مِمَّا قَدْ عُلِمَ بِالِاضْطِرَارِ مِنْ دِیْنِ الْإِسْلَامِ أَنَّہ، مُضَادٌّ لِّمَا بَعَثَ اللّٰہُ بِہٖ رَسُوْلَہ،، مِنْ تَجْرِیْدِ التَّوْحِیْدِ لِلّٰہِ وَأَنْ لَّا یُعْبَدَ إِلَّا اللّٰہُ، فَإِذَا نَہَی الْمَوَحِّدُ عَنْ ذٰلِکَ؛ غَضِبَ الْمُشْرِکُوْنَ، وَاشْمَأَزَّتْ قُلُوْبُہُمْ، وَقَالُوْا : قَدْ تَنَقَّصَ أَہْلَ الرُّتَبِ الْعَالِیَۃِ، وَزَعَمَ أَنَّہُمْ لَا حُرْمَۃَ لَہُمْ وَلَا قَدْرَ، وَیَسْرِي ذٰلِکَ فِي نُفُوْسِ الْجُہَّالِ وَالطَّغَامِ وَکَثِیْرٍ مِّمَّنْ یُّنْسَبُ إِلَی الْعِلْمِ وَالدِّیْنِ، حَتّٰی عَادَوْا أَہْلَ التَّوْحِیْدِ، وَرَمَوْہُمْ بِالْعَظَائِمِ، وَنَفَّرُوا النَّاسَ عَنْہُمْ، وَوَالَوْا أَہْلَ الشِّرْکِ وَعَظَّمُوْہُمْ، وَزَعَمُوْا أَنَّہُمْ ہُمْ أَوْلِیَاءُ اللّٰہِ وَأَنْصَارُ دِیْنِہٖ وَرَسُوْلِہٖ، وَیَأْبَی اللّٰہُ ذٰلِکَ، فَمَا کَانُوْا أَوْلِیَائَہ،، وَإِنْ أَوْلَیَاؤُہ، إِلَّا الْمُتَّبِعُوْنَ لَہ،، الْمَوَافِقُوْنَ لَہ،، الْعَارِفُوْنَ بِمَا جَاءَ بِہٖ، الدَّاعُوْنَ إِلَیْہِ، لَا الْمُتَشَبِّعُوْنَ بِمَا لَمْ یُعْطَوْا، لاَبِسُوْا ثِیَابَ الزُّوْرِ، الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ النَّاسَ عَنْ سُنَّۃِ نَبِیِّہِمْ، وَیَبْغُوْنَہَا عِوَجاً، وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعاً .
فَصْلٌ : وَلَا تَحْسَبْ أَیُّہَا الْمُنْعَمُ عَلَیْہِ بِاتِّبَاعِ صِرَاطِ اللّٰہِ الْمُسْتَقِیْمِ، صِرَاطِ أَہْلِ نِعْمَتِہٖ وَرَحْمَتِہٖ وَکَرَامَتِہٖ أَنَّ النَّہْيَ عَنِ اتِّخَاذِ الْقُبُوْرِ أَوْثَانًا وَّأَعْیَاداً وَّأَنْصَابًا، وَالنَّہْيُ عَنِ اتِّخَاذِہَا مَسَاجِدَ، أَوْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدَ عَلَیْہَا، وَإِیْقَادِ السُّرُجِ عَلَیْہَا، وَالسَّفَرِ إِلَیْہَا، وَالنَّذْرِ لَہَا، وَاسْتِلَامِہَا، وَتَقْبِیْلِہَا، وَتَعْفِیْرِ الْجِبَاہِ فِي عَرْصَاتِہَا؛ غَضٌّ مِنْ أَصْحَابِہَا، وَلَا تَنْقِیْصٌ لَّہُمْ، وَلَا تَنَقُّصٌ، کَمَا یَحْسَبُہُ أَہْلُ الْإِشْرَاکِ وَالضَّلَالِ، بَلْ ذٰلِکَ مِنْ إِکْرَامِہِمْ وَتَعْظِیْمِہِمْ وَاحْتِرَامِہِمْ، وَمُتَابَعَتِہِمْ فِیْمَا یُحِبُّوْنَہ، وَتَجَنُّبِ مَا یُکْرَہُوْنَہ،، فَأَنْتَ وَاللّٰہِ وَلِیُّہُمْ وَمُحِبُّہُمْ، وَنَاصِرُ طَرِیْقِہِمْ وَسُنَّتِہِمْ، وَعَلٰی ہَدْیِہِمْ وَمِنْہَاجِہِمْ، وَہٰؤُلَاءِ الْمُشْرِکُوْنَ أَعْصَی النَّاسِ لَہُمْ، وَأَبْعَدُہُمْ مِنْ ہَدْیِہِمْ وَمُتَابَعَتِہِمْ، کَالنَّصَارٰی مَعَ الْمَسِیْحِِ، وَالْیَہُوْدِ مَعَ مُوْسٰی عَلَیْہِمَا السَّلَامُ، وَالرَّافِضَۃِ مَعَ عَلِيٍّ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہ،، فَأَہْلُ الْحَقِّ أَوْلٰی بِأَہْلِ الْحَقِّ مِنْ أَہْلِ الْبَاطِلِ، فَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ، وَالْمُنَافِقُوْنَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ .
فَاعْلَمْ أَنَّ الْقُلُوْبَ إِذَا اشْتَغَلَتْ بِالْبِدَعِ؛ أَعْرَضَتْ عَنِ السُّنَنِ، فَتَجِدُ أَکْثَرَ ہٰؤُلَاءِ الْعَاکِفِیْنَ عَلَی الْقُبُوْرِ، مُعْرِضِیْنَ عَنْ طَرِیْقَۃِ مَنْ فِیْہَا وَہَدْیِہٖ وَسُنَّتِہٖ؛ مُشْتَغِلِیْنَ بِقَبْرِہٖ عَمَّا أَمَرَ بِہٖ وَدَعَا إِلَیْہِ، وَتَعْظِیْمُ الاْئَنْبِیَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَمَحَبَّتُہُمْ؛ إِنَّمَا ہِيَ بِاتِّبَاعِ مَا دَعَوْ إِلَیْہِ، مِنَ الْعِلْمِ النَّافِعِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، وَاقْتِفَاءِ آثَارِہِمْ، وَسَلُوْکِ طَرِیْقَتِہِمْ، دُوْنَ عِبَادَۃِ قُبُوْرِہِمْ وَالْعُکُوْفِ عَلَیْہَا وَاتِّخَاذِہَا أَعْیَاداً، فَإِنَّ مَنِ اقْتَفٰی آثَارَہُمْ کَانَ مُتَسَبِّبًا إِلٰی تَکْثِیْرِ أُجُوْرِہِمْ بِاتِّبَاعِہٖ لَہُمْ، وَدَعْوَتِہِ النَّاسَ إِلَی اتِّبَاعِہِمْ، فَإِذَا أَعْرَضَ عَمَّا دَعَوْا إِلَیْہِ، وَاشْتَغَلَ بِضِدِّہٖ؛ حَرَمَ نَفْسَہ، وَحَرَمَہُمْ ذٰلِکَ الْـأَجْرَ، فَأَيُّ تَعْظِیْمٍ لَّہُمْ وَاحْتِرَامٍ فِي ہٰذَا؟ وَإِنَّمَا اشْتَغَلَ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ بِأَنْوَاعٍ مِّنَ الْعِبَادَاتِ الْمُبْتَدَعَۃِ الَّتِي یَکْرَہُہَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ،، لِإِعْرَاضِہِمْ عَنِ الْمَشْرُوْعِ أَوْ بَعْضِہٖ، وَإِنْ قَامُوْا بِصُوْرَتِہِ الظَّاہِرَۃِ؛ فَقَدْ ہَجَرُوْا حَقِیْقَتَہُ الْمَقْصُوْدَۃَ مِنْہُ، وَإِلَّا فَمَنْ أَقْبَلَ عَلَی الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ بِوَجْہِہٖ وَقَلْبِہٖ، عَارِفاً بِمَا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ مِنَ الْکَلَامِ الطَّیِّبِ وَالْعَمَلِ الصَّالِحِ، مُہْتَمًّا بِہَا کُلَّ الِاہْتِمَامِ؛ أَغْنَتُہُ عَنِ الشِّرْکِ، وَکُلُّ مَنْ قَصَّرَ فِیْہَا أَوْ فِي بَعْضِہَا؛ تَجِدُ فِیْہِ مِنَ الشِّرْکِ بِحَسَبِ ذٰلِکَ، وَمَنْ أَصْغٰی إِلٰی کَلَامِ اللّٰہِ بِقَلْبِہٖ وَتَدَبُّرِہٖ وَتَفَہُّمِہٖ؛ أَغْنَاہُ عَنِ السَّمَاعِ الشَّیْطَانِيِّ الَّذِي یَصُدُّ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلاَۃِ، وَیَنْبُتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ، وَکَذٰلِکَ مَنْ أَصْغٰی إِلَیْہِ وَإِلٰی حَدِیْثِ الرَّسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ بِکُلِّیَّتِہٖ، وَحَدَّثَ نَفْسَہ، بِاِقْتِبَاسِ الْہُدٰی وَالْعِلْمِ مِنْہ،، لَا مِنْ غَیْرِہٖ؛ أَغْنَاہ، عَنِ الْبِدَعِ وَالْآرَاءِ وَالتَّخَرُّصَاتِ وَالشَّطَحَاتِ وَالْخَیَالَاتِ الَّتِي ہِيَ وَسَاوِسُ النُّفُوْسِ وَتَخَیُّلاَتُہَا، وَمَنْ بَعُدَ عَنْ ذٰلِکَ؛ فَلاَ بُدَّ لَہ، أَنْ یَّتَعَوَّضَ عَنْہ، بِمَا لاَ یَنْفَعُہ،، کَمَا أَنَّ مَنْ عَمَّرَ قَلْبَہ، بِمَحَبَّۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَذِکْرِہٖ وَخَشْیَتِہٖ وَالتَّوَکُّلِ عَلَیْہِ وَالْإِنَابَۃِ إِلَیْہِ؛ أَغْنَاہُ ذٰلِکَ عَنْ مَحَبَّۃِ غَیْرِہٖ وَخَشْیَتِہٖ وَالتَّوَکُّلِ عَلَیْہِ، وَأَغْنَاہ، أَیْضًا عَنْ عِشْقِ الصُّوَرِ، وَإِذَا خَلَا مِنْ ذٰلِکَ صَارَ عَبْدَ ہَوَاہُ، أَيُّ شَيْءٍ اسْتَحْسَنَہ،؛ مَلَّکَہ، وَاسْتَعْبَدَہ،، فَالْمُعْرِضُ عَنِ التَّوْحِیْدِ مُشْرِکٌ، شَاءَ أَمْ أَبٰی، وَالْمُعْرِضُ عَنِ السُّنَّۃِ مُبْتَدِعٌ ضَالٌّ، شَاءَ أَمْ أَبٰی، وَالْمُعْرِضُ عَنْ مَّحَبَّۃِ اللّٰہِ وَذِکْرِہٖ عَبْدُ الصُّوَرِ، شَاءَ أَمْ أَبٰی، وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ، وَعَلَیْہِ التُّکْلَانُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ .
”شیطان کی ایک بڑی فریب کاری یہ بھی ہے کہ وہ مشرکوں کے لیے کسی بڑے نیک آدمی کی قبر کھڑی کرتا ہے،پھر اسے بت بنا کر ان سے غیراللہ کی عبادت کراتا ہے،بعد میں اپنے دوستوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو شخص اس صاحب ِقبر کی عبادت،اسے میلہ گاہ اور بت بنانے سے روکتا ہے،وہ شخص اس (ولی)کی تنقیص اور حق تلفی کرتا ہے۔جاہل مشرک ایسے شخص کو قتل کرنے،اسے سزا دینے اور اس کی تکفیر کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں،حالانکہ مشرکوں کے نزدیک بھی اس کا جرم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس کام کا حکم دیتا ہے، جس کا حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے دیا اور اس بات سے روکتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے روکا ہے،جیسا کہ قبروں کو بت،میلہ گاہ بنانے،وہاں چراغ جلانے،ان پر مسجد اور قبے بنانے،انہیںپختہو بلند کرنے،بوسہ و استلام کرنے،ان کی طرف سفر کرنے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان سے فریاد رسی کرنے سے روکا گیا ہے۔دین اسلام میں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہے کہ یہ سب کام ان تعلیمات سے متصادم ہیں،جنہیں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر مبعوث فرمایا ہے، یعنی توحید کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کردیا جائے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کی جائے۔جب کوئی موحد ان (قبروں پر ہونے والے بدعی)کاموں سے روکے ،تومشرکین اظہار برہمی اور دلوں میں تنگی محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں: اس نے عالی مقام لوگوں کی تنقیص کی ہے،یہ سمجھتا ہے کہ ان کی کوئی عزت اور قدر ومنزلت ہی نہیں ہے۔یہ بات جاہل،کمینے اور دین و علم کی طرف منسوب ملاؤں کے دلوں میں سرایت کرتی رہتی ہے،یہاں تک کہ وہ توحید والوں سے دشمنی رکھنے لگتے ہیں،ان پر بڑے بڑے الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں،لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں،مشرکوں سے دوستی اور ان کی تعظیم کرتے ہیں،یوںوہ جاہل اپنے تئیں خیال کرتے ہیں کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کے ولی،نیز اس کے دین اور رسول کے مددگار ہیں،مگر اللہ تعالیٰ ان کے ولی ہونے کا انکار کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ولی توصرف انبیاءِ کرام کی لائی ہوئی دعوت کی پیروی و موافقت اور اس کی معرفت رکھنے والے ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں،جیسے وہ نہیں ہیںیہ بہروپیے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے روک کر اور دین کو تروڑ مروڑ کر سمجھتے ہیں کہ بہت نیک کام کر رہے ہیں۔
ارے وہ صاحب،جسے اللہ تعالیٰ نے صراط ِمستقیم کی پیروی جیسی نعمت سے نواز رکھا ہے،جو راستہ انعام یافتہ اور اہل رحمت و کرامت کا ہے،یقینا قبروں کو معبدخانہ،میلہ گاہ،بت خانہ اورسجدہ گاہ بنانے،نیز ان پر مساجد تعمیر کرنے، چراغ جلانے،ان کی طرف سفر کرنے،ان کے نام کی نذریں ماننے،استلام و بوسے دینے اوران کے میدانوں میں اپنے ماتھوں کو خاک آلود کرنے،ان سب کاموں سے روکنا ان(نیک لوگوں)کی بے حرمتی نہیں،جیسا کہ مشرک اور گمراہ لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں،بلکہ یہ(قبروں پر ان امور کو روا رکھنا ) دراصل ان کی تنقیص ہے۔ایسے کاموں سے روکنا ہی صحیح معنوں میں ان کی عزت،تعظیم اور احترام ہے،کیونکہ ان کی عزت ان کی محبوب چیزوں کی پیروی اور ناپسندیدہ چیزوں سے اجتناب کرنے میں ہے۔
اللہ کی قسم!حقیقت میں تم(موحد) ہی ان نیک لوگوں کے دوست اور محبت کرنے والے ہو،ان کے طور و طریقے کے حامی اور ان کے منہج پر کاربند ہو، دوسری طرف یہ مشرکین سب ان کے نافرمان اور ان کی ہدایات و پیروی سے دور ہےں،جیسا کہ عیسائیوں کا سیدنا عیسیٰu،یہودیوں کا سیدنا موسیٰuاور رافضیوں کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاملہ ہے۔اہل باطل کی بہ نسبت حق والے اہل حق کے زیادہ قریب ہوتے ہیں،مؤمن مردو عورت ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں اور منافق مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔
پس جان لو!جب دل بدعات میں مشغول ہو جائیں،توسنت سے اعراض کرتے ہیں،اس لیے تم دیکھو گے کہ قبروں کے مجاور اکثر نیک بزرگوں کی تعلیمات سے منہ موڑنے والے ہوتے ہیں،صالحین نے جس بات کا حکم دیا اور جس کی طرف دعوت دی،اسے چھوڑ کر صرف قبروں سے چمٹے ہوئے ہیں،انبیاءِ کرام اور صالحین عظام کی تعظیم در اصل ان کی دعوت،وراثت میں چھوڑا ہوا علم نافع اور اعمال صالحہ کی پیروی کرنے میں ہے،نیز ان کے نقش قدم اور طور و طریقے کے اتباع میں ہے،نہ کہ ان کی قبروں کی عبادت،ان کی مجاوری اور انہیں میلہ گاہ بنانے میں۔جو شخص ان صالحین کے نقش قدم کی پیروی کرے اور لوگوں کو ان کے اتباع کی دعوت دے،وہ(شخص) ان(صالحین) کے لیے اجر میں اضافے کا باعث بنے گا،مگر جو شخص ان کی دعوت سے اعراض برتے،بلکہ ان کے برعکس کام کرے، تو وہ خود اور انہیں بھی اجر و ثواب سے محروم کرے گا۔اب بتائیں کہ اس میں تعظیم و احترام کہاں؟
کئی لوگ طرح طرح کی من گھڑت عبادات میں تو مشغول رہتے ہیں،جنہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ناپسند کرتے ہیں،مگر اکثر یا بعض مشروع عبادات سے منہ موڑتے ہیں،اگرچہ یہ ظاہری طور پر ان کا التزام بھی کرتے ہوں،کیونکہ انہوں نے ان عبادات کی حقیقت ِمقصودہ کو ترک کر دیا ہے۔ورنہ اگر کوئی خشوع و خضوع سے پانچ نمازوں کا پابند ہو،نماز کے پاکیزہ کلمات اور اعمالِ صالحہ سے مکمل آگاہ ہو اور پوری طرح ان کا اہتمام کرے، توایسا شخص شرک سے مستغنی ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس ہر وہ شخص جو پانچ نمازوں میں یا بعض میں کوتاہی کا شکار ہو جائے، تو اس کی صورت ِحال کے مطابق آپ کو اس میں شرک نظر آئے گا۔جو شخص کلام اللہ کو تفکر و تدبر سے سنتا ہے،وہ اس شیطانی سماع سے مستغنی ہو جاتا ہے،جو ذکر الٰہی اور نماز سے روکتا ہے اور دل میں نفاق کا بیج کاشت کرتا ہے۔اسی طرح جو شخص حدیث رسول کی طرف مکمل طور پر دھیان دیتا ہے اور اپنے دماغ میں یہ بات ڈال لیتا ہے کہ یہ دونوں(قرآن و حدیث) ہدایت اور علم کا سر چشمہ ہیں،تو ایسا شخص وساوس نفسانی اور تخیلات پر مشتمل بدعات،(باطل) آرا،تخمینہ آرائی، شطحیات اور خیالات سے مستغنی ہو جاتا ہے۔جو شخص ان(قرآن و حدیث) سے دوری اختیار کرتا ہے،ضروری طور پر اسے اس کے عوض غیر مفید چیزیں ملیں گی۔اسی طرح کوئی شخص اپنے دل کو اللہ کے ذکر،خشیت، توکل اور رجوع الی اللہ سے معمور رکھتا ہے، تو یہ رَوَش اسے غیر کی محبت و خشیت اور اس پر بھروسہ کرنے سے بے پرواہ کر دیتی ہے،نیز اسے صورتوں کے عشق سے بھی مستغنی کر دیتی ہے۔
اگر کوئی شخص ان صفات سے خالی ہو تو وہ اپنی خواہش کا بندہ بنے گا،اپنی پسند کا پجاری ہو گا،توحید سے اعراض کرنے والا چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی مشرک ہی ہو گا اور سنت سے منہ موڑنے والا،چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی بدعتی اور گمراہ کہلائے گا۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت اور ذکر الٰہی سے اعراض برتنے والا،چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے بھی صورتوں کا پجاری ہو گا۔
اللہ تعالیٰ ہی مددگار ہے اور اسی پر توکل ہے،ساری طاقت و قوت صرف اللہ عظیم و برتر کی ذات ہی سے ہے۔”(إغاثۃ اللفہان من مصاید الشیطان : 189/1)
b اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَأَعْظَمُ الْفِتْنَۃِ بِہٰذِہٖ الْـأَنْصَابِ فِتْنَۃُ أَصْحَابِ الْقُبُوْرِ، وَہِيَ أَصْلُ فِتْنَۃِ عُبَّادِ الْـأَصْنَامِ، کَمَا قَالَ السَّلَفُ مِنَ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ یَنْصِبُ لَہُمْ قَبْرَ رَجُلٍ مُّعَظَّمٍ یُعَظِّمُہُ النَّاسُ، ثُمَّ یَجْعَلُہ، وَثَناً یُّعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، ثُمَّ یُوْحٰی إِلٰی أَوْلَیَائِہٖ أَنَّ مَنْ نَّہٰی عَنْ عِبَادَتِہٖ وَاتِّخَاذِہٖ عِیْداً وَّجَعْلِہ، وَثَناً؛ فَقَدْ تَنَقَّصَہ، وَہَضَمَ حَقَّہ،، فَیَسْعَی الْجَاہِلُوْنَ فِي قَتْلِہٖ وَعَقُوْبَتِہٖ، وَیُکَفِّرُوْنَہ،، وَمَا ذَنْبُہ، إِلَّا أَنَّہ، أَمَرَ بِمَا أَمَرَ بِہِ اللّٰہُ تَعَالٰی وَرَسُوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَنَہٰی عَمَّا نَہَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”بت پرستی میں سب سے بڑا فتنہ قبر پرستوں کا ہے اور یہی بت پرستی کی بنیاد بنا، جیسا کہ سلف صالحین میں سے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے فرمایاہے۔شیطان ایک ایسے آدمی کی قبر ان کے سامنے کرتا ہے،جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں، پھر اُسے معبد خانہ بنا دیتا ہے،بعد ازاں شیطان اپنے دوستوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو لوگ ان کی عبادت کرنے، ان کی قبر کو میلہ ،عرس گاہ اور معبدخانہ بنانے سے روکتے ہیں،وہ ان کی گستاخی اور حق تلفی کرتے ہیں۔ اس پر جاہل لوگ ایسے (حق گو)لوگوں کو قتل کرنے، انہیں پریشان کرنے اور ان کو کافر قرار دینے کے درپے ہو جاتے ہیں،حالانکہ ان کا جرم صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا حکم دیتے ہیں،جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور وہ اس بات سے منع کرتے ہیں،جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔”
(زیارۃ القبور، ص : 39)
8 حدیث ِابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
‘لَا تُصَلُّوا إِلَی الْقُبُورِ، وَلَا تَجْلِسُوا عَلَیْہَا’ .
”قبروں کی طرف منہ کر کے نمازنہ پڑھو،نہ ہی ان کے اوپر بیٹھو۔”
(صحیح مسلم : 972)
b علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَمَنْ جَمَعَ بَیْنَ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي الْقُبُوْرِ، وَمَا أَمَرَ بِہٖ وَنَہٰی عَنْہُ، وَمَا کَانَ عَلَیْہِ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُوْنَ لَہُمْ بِإِحْسَانِ، وَبَیْنَ مَا عَلَیْہِ أَکْثَرُ النَّاسِ الْیَوْمَ؛ رَآی أَحَدَہُمَا مُضَادًّا لِّلْآخِرِ، مُنَاقِضاً لَّہ،، بِحَیْثُ لَا یَجْتَمِعَانِ أَبْدًا، فَإِنَّہ، عَلَیْہِ السَّلامُ نَہٰی عَنِ الصَّلاَۃِ إِلَی الْقُبُوْرِ، وَہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیُصَلُّوْنَ عِنْدَہَا، وَنَہٰی عَنِ اتِّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیَبْنُوْنَ عَلَیْہَا الْمَسَاجِدَ وَیُسَمُّوْنَہَا مَشَاہِدَ، وَنَہٰی عَنْ إِیْقَادِ السُّرَجِ عَلَیْہَا، وُہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیُوْقِدُوْنَ عَلَیْہَا الْقَنَادِیْلَ وَالشُّمُوْعَ، بَلْ یُوْقِفُوْنَ لِذٰلِکَ أَوْقَافاً، وَأَمَرَ بِتَسْوِیَتِہَا وَہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیَرْفَعُوْنَہَا مِنَ الْـأَرْضِ کَالْبَیْتِ، وَنَہٰی عَنْ تَجْصِیْصِہَا وَالْبِنَاءِ عَلَیْہَا، وَہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیُجَصِّصُوْنَہَا، وَیَعْقِدُوْنَ عَلَیْہَا الْقِبَابَ، وَنَہٰی عَنِ الْکِتَابَۃِ عَلَیْہَا، وَہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیَتَّخِذُوْنَ عَلَیْہَا الْـأَلْوَاحَ، وَیَکْتُبُوْنَ عَلَیْہَا الْقُرْآنَ وَغَیْرَہ،، وَنَہٰی عَنِ الزَّیَادَۃِ عَلَیْہَا غَیْرَ تُرَابِہَا، وُہُمْ یُخَالِفُوْنَہ، وَیَزِیْدُوْنَ عَلَیْہَا سِوَی التُّرابِ الْآجُرَ وَالاْئَحْجَارَ وَالْجُصَّ، وَنَہٰی عَنِ اتِّخَاذِہَا عِیدًا، وَہُمْ یُخَالِفُونَہ، وَیَتَّخِذُونَہَا عِیدًا، وَیَجْتَمِعُونَ لَہَا کَاجْتِمَاعِہِمْ لِلْعِیْدِ وَأَکْثَرْ، وَالْحَاصِلُ أَنَّہُمْ مُّنَاقِضُوْنَ لِمَا أَمَرَ بِہِ الرَّسُوْلُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ وَنَہٰی عَنْہُ، وَمُحَادُّوْنَ لِمَا جَاءَ بِہٖ .
”جو شخص زیارتِ قبور سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوامر و نواہی اور صحابہ و تابعین کے عمل کا موازنہ آج کل کے اکثر لوگوں کے عمل سے کرے گا،وہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے اس قدر مخالف پائے گاکہ یہ دونوں کبھی اکٹھے ہو ہی نہیں سکتے۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف نماز پڑھنے سے منع کیا ہے ،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ان کے پاس نماز پڑھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے منع کیا ،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں قبروں پر مسجدیں بنا کر انہیں مزاروں کا نام دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا ہے،جبکہ یہ لوگ مخالفت میں چراغ اور موم بتیاں جلاتے ہیں اور اس سلسلے میں رقم جمع کرنے کے لیے اوقاف قائم کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا ہے، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں انہیں گھروں کی طرح بلند وبالا بناتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں انہیں پکا کرتے اور ان پر قبے بناتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر لکھنے سے منع فرمایا،جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ان پر قرآن وغیرہ کی لکھی ہوئی تختیاں لگاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر اضافی مٹی ڈالنے سے منع فرمایا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں اضافی مٹی کے ساتھ ساتھ پکی اینٹیں،پتھر اور سیمنٹ بھی لگاتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو میلہ گاہ اور مزار بنانے سے روکا، جبکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے میلہ گاہ بناتے ہیں اور ان پر عید وغیرہ سے بڑھ کر اجتماعات کرتے ہیں۔حاصل کلام یہ ہے کہ یہ ہر اس بات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں،جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا یا جس سے روکا۔یوں یہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت سے دشمنی کماتے ہیں۔”
(زیارۃ القبور، ص : 15)
b ملا علی قاری حنفی ماتریدی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
أَيْ مُسْتَقْبِلِینَ (إِلَیْہَا)، لِمَا فِیہِ مِنَ التَّعْظِیمِ الْبَالِغِ، لِأَنَّہ، مِنْ مَّرْتَبَۃِ الْمَعْبُودِ، فَجَمَعَ بَیْنَ الِاسْتِحْقَاقِ الْعَظِیمِ وَالتَّعْظِیمِ الْبَلِیغِ، قَالَہُ الطِّیبِيُّ، وَلَوْ کَانَ ہٰذَا التَّعْظِیمُ حَقِیقَۃً لِّلْقَبْرِ أَوْ لِصَاحِبِہٖ؛ لَکَفَرَ الْمُعَظِّمُ ۔۔۔ .
”اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت ان(قبور)کی طرف رخ نہ کرو، کیونکہ یہ تعظیم میں مبالغہ آرائی ہے اور یہ حق صرف معبود کا ہے۔ایسا شخص(غیر اللہ کے لیے)عظیم استحقاق اور حد درجہ تعظیم کو ایک ساتھ جمع کر دیتا ہے۔یہ بات علامہ طیبی نے کہی ہے۔اگر یہ تعظیم واقعی قبر اور صاحب ِ قبر کے لیے کی جائے،تو ایسا کرنے والا کافر ہو جاتا ہے۔”(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 372/2)
9 حدیث ِ ابن عمر رضی اللہ عنہما :
n سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘اجْعَلُوا فِي بُیُوتِکُمْ مِّنْ صَلاَتِکُمْ، وَلاَ تَتَّخِذُوہَا قُبُورًا’ .
”اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو اور ان کو قبرستان مت بناؤ۔”
(صحیح البخاري : 432، صحیح مسلم : 777)
n صحیح مسلم میں ایک جگہ یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ‘لَا تَجْعَلُوا بُیُوتَکُمْ مَقَابِرَ’ .
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔”
(صحیح مسلم : 780)
b شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَوَجْہُ الدَّلَالَۃِ أَنَّ قَبْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ قَبْرٍ عَلٰی وَجْہِ الْـأَرْضِ، وَقَدْ نَہٰی عَنِ اتِّخَاذِہٖ عِیْدًا، فَقَبْرُ غَیْرِہٖ أَوْلٰی بِالنَّہْيِ کَائِنًا مَّنْ کَانَ، ثُمَّ إِنَّہ، قَرَنَ ذٰلِکَ بِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘وَلَا تَتَّخِذُوا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا’، أَي لَا تُعَطِّلُوْہَا عَنِ الصَّلاَۃِ فِیْہَا وَالدُّعَاءِ وَالْقِرَائَۃِ، فَتَکُوْنَ بِمَنْزِلَۃِ الْقُبُوْرِ، فَأَمَرَ بِتَحَرِّي الْعِبَادَۃِ فِي الْبُیُوْتِ، وَنَہٰی عَنْ تَحَرِّیْہَا عِنْدَ الْقُبُوْرِ، عَکْسَ مَا یَفْعَلُہُ الْمُشْرَکُوْنَ مِنَ النَّصَارٰی وَمَنْ تَشَبَّہَ بِہِمْ .
”وجہ دلالت یہ ہے کہ روئے زمین پر سب سے افضل قبر،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک قبر ہے۔اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کو میلہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ہے،تو پھر کسی بھی دوسری قبر کے ساتھ یہ معاملہ کرنا بطریق اولیٰ ممنوع ہے۔اس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ‘اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ۔’ مطلب اس کا یہ ہے کہ گھروں کو نماز، دعا اور تلاوت ِقرآن سے خالی مت کرو، کیونکہ ایسے تووہ قبرستان کی طرح ہوجائیں گے۔گھروں میں عبادت کا حکم دیا گیا اور قبروں کے پاس عبادت سے روکا گیا ہے، مگر نصاریٰ اور ان جیسے مشرک اس کے برعکس چلتے ہیں۔”(اقتضاء الصراط المستقیم : 172/2)
b علامہ یمن،محمد بن اسماعیل،صنعانی رحمہ اللہ قبر رسول کے بارے میں فرماتے ہیں:
اَلتَّحْقِیْقُ أَنَّ قَبْرَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یُعَمَّرْ عَلَیْہِ الْمَسْجِدُ، لاِئَنَّہ، مَوْضِعٌ مُّسْتَقِلٌّ قَبْلَ بِنَاءِ الْمَسْجِدِ بِدَفْنِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ یَصْدُقْ عَلَیْہِ أَنَّہ، جَعَلَ قَبْرَہ، مَسْجِداً أَوْ وَثَناً یُّعْبَد،، بَلْ قَدْ أَجَابَ اللّٰہُ دُعَائَہ،، فَدُفِنَ فِي بَیْتِہٖ وَفِي مَنْزِلِہِ الَّذِي یَمْلِکُہ،، أَوْ تَمْلِکُہ، زَوْجُہ، عَائِشَۃُ، وَکَانَ الْمَسْجِدُ أَقْرَبَ شَيْءٍ إِلَیْہِ، ثُمَّ لَمَّا وُسِّعَ الْمَسْجِدُ لَمْ یَخْرُجْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیْتِہٖ، وَلَا جَعَلَ بَیْتَہ، مَسْجِداً، بَلْ غَایَتُہ، أَنَّہُ اتَّصَلَ الْمَسْجِدُ بِہٖ اتِّصَالاً أَشَدَّ مِمَّا کَانَ، فَالَّذِي یَصْدُقُ عَلَیْہِ أَنَّہُ اتَّخَذَ مَسْجِداً؛ إِنَّمَا ہُوَ أَنْ یُّدْفَنَ الْمَیِّتُ فِي مَسْجِدٍ مُّسَبَّلٍ أَوْ فِي مُبَاحِ، ثُمَّ یُعْمَرُ عَلَیْہِ مَسْجِدٌ .
”تحقیقی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر مسجد نہیں بنائی گئی،کیونکہ یہ مقام مسجد تعمیر کیے جانے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مستقل مدفن تھا۔چنانچہ یہ بات لازم نہیں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد اور معبدخانہ بنایا گیا ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو شرف ِقبولیت بخشا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ملکیت والے گھر میں دفنایا گیا۔مسجد اس کے بہت قریب تھی،جب مسجد کی توسیع ہوئی،تو اس وقت نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے خارج ہوئے اور نہ ہی اس گھر کو مسجد بنایا گیا۔ہاں!البتہ مسجد بالکل متصل ہو گئی۔قبر کو مسجد بنائے جانے والی بات تو تب لازم آتی ہے،جب کسی میت کو مباح وعام قبرستان میں دفنایا جائے، پھر اس پر مسجد بنالی جائے۔” (العدّۃ علی إحکام الأحکام : 261/3)
0 حدیث ِابو سعید خدری رضی اللہ عنہ :
n سیّدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘الْـأَرْضُ کُلُّہَا مَسْجِدٌ؛ إِلَّا الْحَمَّامَ وَالْمَقْبَرَۃَ’ .
”حمام اور قبرستان کے علاوہ ساری کی ساری زمین مسجد ہے۔”
(مسند الإمام أحمد : 96/3، سنن أبي داو،د : 492، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (791)، امام ابن حبان رحمہ اللہ (1699)اور امام حاکم رحمہ اللہ (251/1)نے ”صحیح” کہا ہے،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ (یہ پوری دس دلیلیں ہیں)
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت کے متعلق وارد شدہ احادیث کے بارے میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَأَحَادِیثُ النَّہْيِ الْمُتَوَاتِرَۃُ کَمَا قَالَ ذٰلِکَ الْإِمَامُ، لَا تَقْصُرُ عَنِ الدَّلَالَۃِ عَلَی التَّحْرِیمِ الَّذِي ہُوَ الْمَعْنَی الْحَقِیقِیُّ لَہ،، وَقَدْ تَقَرَّرَ فِي الْـأُصُولِ أَنَّ النَّہْيَ یَدُلُّ عَلٰی فَسَادِ الْمَنْہِيِّ عَنْہُ، فَیَکُونُ الْحَقُّ التَّحْرِیمَ وَالْبُطْلَانَ .
”اس ممانعت والی احادیث متواتر ہیں، جیسا کہ امام نے فرمایاہے۔ان کی دلالت، حرمت سے کم نہیں،جو اس کا حقیقی معنیٰ ہے۔اصول سے یہ بات واضح ہے کہ کسی چیز سے ممانعت اس کے فاسد ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔چنانچہ اس کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ یہ کام حرام اور باطل ہے۔”(نیل الأوطار : 137/2)
b شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فَأَمَّا إِذَا قَصَدَ الرَّجُلُ الصَّلَاۃَ عِنْدَ بَعْضِ قُبُوْرِ الْـأَنْبِیَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ، مُتَبَرِّکًا بِالصَّلاَۃِ فِي تِلْکَ الْبُقْعَۃِ؛ فَہٰذَا عَیْنُ الْمُحَادَّۃِ لِلّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَالْمُخَالِفَۃِ لِدِیْنِہٖ، وَابْتِدَاعِ دِیْنٍ لَّمْ یَأْذَنْ بِہِ اللّٰہُ، فَإِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ قَدْ أَجْمَعُوْا عَلٰی مَا عَلِمُوْہ، بِالاِْضْطِرَارِ مِنْ دِیْنِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَنَّ الصَّلَاۃَ عِنْدَ الْقَبْرِ، أَيِّ قَبْرٍ کَانَ، لَا فَضْلَ فِیْہَا لِذٰلِکَ، وَلَا لِلصَّلاَۃِ فِي تِلْکَ الْبُقْعَۃِ مَزِیَّۃُ خَیْرٍ أَصْلاً، بَلْ مَزِیَّۃُ شَرٍّ .
”جب کوئی انسان انبیا اور نیک لوگوں کی قبروں کی طرف نماز کا قصد کرتا ہے،تا کہ اس جگہ سے برکت حاصل کرے،تو اس کا یہ کام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عین دشمنی،دین اسلام کی عین مخالفت اور ایسے دین کی ایجاد ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم نہیں دیا۔مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یقینی طور پر یہ بات دینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طور پر ثابت ہے کہ کسی بھی قبر کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی فضیلت نہیں،نہ ہی اس جگہ نماز پڑھنے میں کوئی خاص بھلائی ہے، البتہ خاص شر کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔”(اقتضاء الصراط المستقیم : 193/2)
فائدہ نمبر 1 :
b علامہ آلوسی بغدادی حنفی،سورہئکہف کی آیت نمبر 21کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ہٰذَا وَاسْتُدِلَّ بِالْآیَۃِ عَلٰی جَوَازِ الْبِنَاءِ عَلٰی قُبُوْرِ الصُّلَحَائِ، وَاتِّخَاذِ مَسْجِدٍ عَلَیْہَا، وَجَوَازِ الصَّلاَۃِ فِي ذٰلِکَ، وَمِمَّنْ ذَکَرَ ذٰلِکَ الشِّہَابُ الْخُفَاجِيُّ فِي حَوَاشِیْہِ عَلَی الْبَیْضَاوِيِّ، وَہُوَ قَوْلٌ بَاطِلٌ، عَاطِلٌ، فَاسِدٌ، کَاسِدٌ .
”اس آیت سے بعض لوگوں نے صالحین کی قبروں پر عمارت و مسجدبنانے اور اس میں نماز پڑھنے کا جواز پیش کرتے ہیں،جےسا کہ شہاب خفاجی نے بیضاوی کے حاشیہ میں ذکر کیا ہے،لیکن یہ بات باطل،بے بنیاد،فاسد اور مردود ہے۔”
(تفسیر روح المعاني : 225/8)
فائدہ نمبر 2 :
b علامہ یمن،محمد بن اسماعیل،صنعانی رحمہ اللہ ،بیضاوی کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قَالَ الْبَیْضَاوِيُّ : لَمَّا کَانَتِ الْیَہُودُ وَالنَّصَارٰی یَسْجُدُونَ لِقُبُورِ أَنْبِیَائِہِمْ، تَعْظِیمًا لِّشَأْنِہِمْ، وَیَجْعَلُونَہَا قِبْلَۃً یَّتَوَجَّہُونَ فِي الصَّلَاۃِ نَحْوَہَا، اتَّخَذُوہَا أَوْثَانًا لَہُمْ، وَمَنَعَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ : وَأَمَّا مَنِ اتَّخَذَ مَسْجِدًا فِي جِوَارِ صَالِحٍ، وَقَصَدَ التَّبَرُّکَ بِالْقُرْبِ مِنْہُ لَا لِتَعْظِیمٍ لَّہ،، وَلَا لِتَوَجُّہٍ نَّحْوَہُ، فَلَا یَدْخُلُ فِي ذَلِکَ الْوَعِیدِ .
قُلْت : قَوْلُہ، : لَا لِتَعْظِیمٍ لَّہ،، یُقَالُ : اتِّخَاذُ الْمَسَاجِدِ بِقُرْبِہٖ، وَقَصْدُ التَّبَرُّکِ بِہٖ تَعْظِیمٌ لَّہ،، ثُمَّ أَحَادِیثُ النَّہْيِ مُطْلَقَۃٌ، وَلَا دَلِیلَ عَلَی التَّعْلِیلِ بِمَا ذَکَرَ .
”بیضاوی کہتے ہیں:یہود و نصاریٰ چونکہ اپنے انبیاءِ کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا کر ان کی تعظیم کیا کرتے تھے اور نماز وغیرہ میں ان کی طرف رُخ کیا کرتے تھے، یوں انہوں نے قبروں کو معبدخانہ بنا رکھا تھا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کام سے منع فرما دیا۔اب اگر کوئی شخص کسی نیک آدمی کی قبر کے پڑوس میں مسجد بنا لیتا ہے اور اس کا مقصد نیک آدمی سے تبرک حاصل کرنا ہے،نہ کہ اس کی تعظیم کرنا،نہ ہی وہ اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتا ہے ،تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہے۔میں(صنعانی رحمہ اللہ )کہتاہوں:بیضاوی اگر یہ کہتا ہے کہ یہ کام تعظیم کے لیے نہ ہو، تو جائز ہے، تو اسے یہ جواب دیا جائے گا کہ قبر کے قریب مسجد بنانا اور اس سے تبرک حاصل کرنا تعظیم ہی تو ہے۔نیز قبر پر مسجد بنانے سے ممانعت والی احادیث مطلق ہیں اور بیضاوی کی ذکر کردہ تاویل پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ”
(سبل السلام شرح بلوغ المرام : 229/1)
فائدہ نمبر 3 :
بعض کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ مسجدیں قبروں کے اوپر نہیں، ایک طرف بنائی جاتی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جو مسجد قبر کے پاس بنائی جائے،وہ قبر کے اوپر ہی ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:
بنَیَ السُّلْطَانُ عَلٰی مَدِیْنَۃِ کَذٰا، أَوْ عَلٰی قَرْیَۃِ کَذٰا سُوْرًا .
”فلاں بادشاہ نے فلاں شہر یا بستی پر فصیل بنائی ہے۔”
حالانکہ فصیل شہر یا بستی کے اوپر نہیں بنائی جاتی، بلکہ اس کے ارد گرد واقع ہوتی ہے۔ عربی زبان میں اس کا استعمال بکثرت ہے۔
علمائے کرام کی تصریحات :
قبروں پر مسجدیں بنانا بالاجماع حرام اور ممنوع ہیں، علماکی تصریحات ملاحظہ ہوں:
1 امام شافعی رحمہ اللہ قبر پر مسجد بنانے،اس پر یا اس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔”(الأمّ : 278/1)
2 شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَالَ عُلَمَاؤُنَا : لَا یَجُوزُ بِنَاءُ الْمَسْجِدِ عَلَی الْقُبُورِ، وَقَالُوا : إنَّہ، لَا یَجُوزُ أَنْ یُّنْذَرَ لِقَبْرٍ، وَلَا لِلْمُجَاوِرِینَ عِنْدَ الْقَبْرِ شَیْئًا مِّنَ الْـأَشْیَائِ، لَا مِنْ دِرْہَمٍ، وَلَا مِنْ زَیْتٍ، وَلَا مِنْ شَمْعٍ، وَلَا مِنْ حَیَوَانٍ، وَلَا غَیْرِ ذٰلِکَ، کُلُّہ، نَذْرُ مَعْصِیَۃٍ .
”علمائے اسلام کا کہناہے کہ قبروں پر مساجد بنانا جائز نہیں ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی قبر اور وہاں بیٹھے مجاورین کےلئے کسی قسم کی چیز ،مثلاً درہم و دینار، تیل، موم بتی،جانور وغیرہ بغرضِ نذر لانا جائز نہیں،کیونکہ یہ تمام نذریں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی ہےں۔”(مجموع الفتاوی : 77/27)
3 حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
فَأَمَّا بِنَاءُ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَإِشْعَالُ الْقَنَادِیْلِ وَالشُّمُوْعِ أَوِ السُّرُجِ عِنْدَہَا؛ فَقَدْ لُعِنَ فَاعِلُہ،۔۔۔، وَصَرَّحَ عَامَّۃُ عُلَمَاءِ الطَّوائِفِ بِالنَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ مُتَابَعَۃً لِّلاْئَحَادِیْثِ الْوَارِدَۃِ فِي النَّہْيِ عَنْ ذٰلِکَ، وَلاَ رَیْبَ فِي الْقَطْعِ بِتَحْرِیْمِہٖ .
”قبروں پر مساجد بنانے،وہاں لالٹینیںو شمعیں جلانے والے پر لعنت کی گئی ہے۔۔۔ مختلف مکاتب ِفکر کے اکثر علماءِ کرام نے اس کی ممانعت پر مبنی احادیث کی پیروی میں واضح طور پر اس سے منع کیا ہے۔اس کام کو قطعی طور پر حرام کہنے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔”(الأمر بالاتّباع : 60،59)
b نیز لکھتے ہیں:
فَہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَۃُ عَلَی الْقُبُوْرِ یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا، ہٰذَا مِمَّا لَا خِلَافَ فِیْہِ بَیْنَ الْعُلَمَاءِ الْمَعْرُوْفِیْنَ، وَتُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِیْہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ .
”معروف علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قبروں پر تعمیر شدہ مسجدیں منہدم کرنا ضروری ہے،نیز وہاں نماز پڑھنا بھی بالاتفاق مکروہ ہے۔ ”
(الأمر بالاتّباع، ص : 115، وفي نسخۃ : 61)
4 حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَاتَّفَقَتْ نُصُوصُ الشَّافِعِيِّ وَالْـأَصْحَابِ عَلٰی کَرَاہَۃِ بِنَاءِ مَسْجِدٍ عَلَی الْقَبْرِ، سَوَاءٌ کَانَ الْمَیِّتُ مَشْہُورًا بِالصَّلَاحِ، أَوْ غَیْرِہٖ، لِعُمُومِ الْـأَحَادِیثِ .
”امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کے فتاویٰ قبر پر مسجد بنانے کے مکروہ ہونے پر متفق ہیں۔حدیث کے عموم کے پیش نظر میت نیک ہو یا بد،اس معاملے میں برابر ہے۔”(المجموع شرح المہذّب : 316/5)
b حافظ نووی رحمہ اللہ سے ایک سوال ہوا،اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
مَسْألَۃٌ : مَقْبَرَۃٌ مُّسَبَّلَۃٌ لِّلْمُسْلِمِیْنَ، بَنٰی إِنْسَانٌ فِیْہَا مَسْجِدًا، وَجَعَلَ فِیْہَا مِحْرَابًا، ہَلْ یَجُوْزُ ذٰلِکَ؟ وَہَلْ یَجِبُ ہَدْمُہ،؟
اَلْجَوَابُ : لَا یَجُوْزُ لَہ، ذٰلِکَ، وَیَجِبُ ہَدْمُہ، .
”سوال:اگر کوئی شخص مسلمانوں کے لیے وقف شدہ عام قبرستان میں مسجد اور محراب بناتا ہے ،تو کیا یہ جائز ہے؟نیز کیا اسے گرا دینا فرض ہے؟
جواب:ایسا کرنا جائز نہیں،نیز اسے گرا دینا فرض ہے۔”(فتاوی النووي، ص : 65)
b مزید لکھتے ہیں:
قَالَ الشَّافِعِيُّ فِي الْـأُمّ : وَرَأَیْتُ الْـأَئِمَّۃَ بِمَکَّۃَ یَأْمُرُونَ بِہَدْمِ مَا یُبْنٰی، وَیُؤَیِّدُ الْہَدْمَ قَوْلُہ، : ‘وَلَا قَبْرًا مُّشْرِفًا؛ إِلَّا سَوَّیْتَہ،’ .
”امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں کہا ہے:میں نے مکہ مکرمہ میں ائمہ کرام کو دیکھا کہ وہ(قبروں پر بنائی گئی عمارات وغیرہ کو)منہدم کرنے کا حکم دیتے تھے،نیز انہدام کی تائید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ ہر اونچی قبر کو برابر کر دو۔”
(شرح صحیح مسلم : 27/7)
5 علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَدْ صَرَّحَ عَامَّۃُ الطَّوَائِفِ بِالنَّہْيِ عَنْ بِنَاءِ الْمَسَاجِدِ عَلَیْہَا، وَالصَّلاَۃِ إِلَیْہَا .
”اکثر اسلامی مکاتب ِفکر نے قبروں پر مساجد بنانے اور ان کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھنے کی واضح طور پر ممانعت کی ہے۔”(زیارۃ القبور، ص : 4)
6 ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الْبِنَاءُ عَلَیْہِ؛ فَلَمْ أَرَ مَنِ اخْتَارَ جَوَازَہ، .
”قبر پر عمارت بنانے کو جائز قرار دینے والے کسی اہل علم کو میں نہیں جانتا۔”
(حاشیۃ ابن عابدین : 601/1)
7 حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ ، حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ہٰذَا یُحَرِّمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَّتَّخِذُوا قُبُورَ الْـأَنْبِیَاءِ وَالْعُلَمَاءِ وَالصَّالِحِینَ مَسَاجِدَ .
”یہ حدیث انبیاءِ کرام، علما اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنانا مسلمانوں پر حرام قرار دیتی ہے۔”(التمہید لما في المؤطّأ من المعاني والأسانید : 186/1)
8 مشہور مفسر،علامہ قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)سورہئ کہف کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
فَاتِّخَاذُ الْمَسَاجِدِ عَلَی الْقُبُورِ، وَالصَّلَاۃُ فِیہَا، وَالْبِنَاءُ عَلَیْہَا، إِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ، مِمَّا تَضَمَّنَتْہُ السُّنَّۃُ مِنَ النَّہْيِ عَنْہُ؛ مَمْنُوعٌ لَّا یَجُوزُ .
”قبروں پر مساجد،ان میں نماز،ان پر عمارت بنانا اور دیگر وہ امورجن سے سنت نے منع فرمایا ہے،وہ ممنوع اور حرام ہیں۔”(تفسیر القرطبي : 379/1)
b نیز فرماتے ہیں :
وَأَمَّا تَعْلِیَۃُ الْبِنَاءِ الْکَثِیرِ عَلٰی نَحْوِ مَا کَانَتِ الْجَاہِلِیَّۃُ تَفْعَلُہ، تَفْخِیمًا وَّتَعْظِیمًا؛ فَذٰلِکَ یُہْدَمُ وَیُزَالُ، فَإِنَّ فِیہِ اسْتِعْمَالُ زِینَۃِ الدُّنْیَا فِي أَوَّلِ مَنَازِلِ الْآخِرَۃِ، وَتَشَبُّہًا بِمَنْ کَانَ یُعَظِّمُ الْقُبُورَ وَیَعْبُدُہَا، وَبِاعْتِبَارِ ہٰذِہِ الْمَعَانِي وَظَاہِرِ النَّہْيِ أَنْ یَّنْبَغِيَ أَنْ یُّقَالَ : ہُوَ حَرَامٌ .
”رہا قبروں پر اہل جاہلیت کی طرح تکریم و تعظیم کے لیے عمارتیں بلند کرنا،تو اسے منہدم کر کے ختم کر دیا جائے گا،کیونکہ اس طرح دنیا کی زینت کو آخرت کی سب سے پہلی منزل میں استعمال کیا جاتا ہے،نیز اس سے ان لوگوں کی مشابہت لازم آتی ہے جو قبروں کی تعظیم و عبادت کرتے ہیں۔ان معانی کے اعتبار سے اور ظاہر ممانعت کو دیکھتے ہوئے اسے حرام قرار دینا ضروری ہے۔”(تفسیر القرطبي : 381/10)
b نیز فرماتے ہیں:
قَالَ عُلَمَاوُنَا : وَہٰذَا یُحَرِّمُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ أَنْ یَّتَّخِذُوا قُبُورَ الْـأَنْبِیَاءِ وَالْعُلَمَاءِ مَسَاجِدَ .
”علماءِ اسلام نے کہا ہے کہ یہ دلائل مسلمانوں پر انبیا اور علماکی قبروں پر مساجد بنانے کو حرام قرار دیتے ہیں۔”(تفسیر القرطبي : 380/1)
9 شیخ الاسلام،ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ)فرماتے ہیں:
فَہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَۃُ عَلٰی قُبُوْرِ الْـاَئنْبِیَائِ، وَالصَّالِحِیْنَ، وَالْمُلُوْکِ وَغَیْرِہِمْ، یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا بِہَدْمٍ أَوْ بِغَیْرِہٖ، ہٰذَا مِمَّا لَا أَعْلَمُ فِیْہِ خِلَافًا بَیْنَ الْعُلَمَاءِ الْمَعْرُوْفِیْنَ، وَتُکْرَہُ الصَّلاۃُ فِیْہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ أَعْلَمُہ،، وَلَا تَصِحُّ عِنْدَناَ فِي ظَاہِرِ الْمَذْہَبِ لِأَجْلِ النَّہْيِ وَاللَّعَنِ الْوَارِدِ فِي ذٰلِکَ، وَلِأَحَادِیْثَ أُخَرَ .
” انبیاءِ کرام ،صالحین اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر بنائی گئی ان مساجد کو منہدم کرنا یا کسی دوسرے طریقے سے ختم کرنا ضروری ہے۔میرے علم کے مطابق اس بارے میں مشہورعلما کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔بلا اختلاف ان مسجدوں میں نماز بھی مکروہ ہے۔اس حدیث اور دیگر احادیث میں مذکور ممانعت اور لعنت کی بنا پر ہمارا ظاہر مذہب یہی ہے کہ ایسا کرنا ناجائز ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ أصحاب الجحیم : 287/2)
b نیز فرماتے ہیں:
اِتَّفَقَ الْـأَئِمَّۃُ أَنَّہ، لَا یُبْنٰی مَسْجِدٌ عَلٰی قَبْرٍ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : ‘إِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوا یَتَّخِذُونَ الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، فَإِنِّي أَنْہَاکُمْ عَنْ ذٰلِک’، وَأَنَّہٰ لَا یَجُوزُ دَفْنُ مَیِّتٍ فِي مَسْجِدٍ، فَإِنْ کَانَ الْمَسْجِدُ قَبْلَ الدَّفْنِ غُیِّر، إِمَّا بِتَسْوِیَۃِ الْقَبْرِ، وَإِمَّا بِنَبْشِہٖ إِنْ کَانَ جَدِیدًا، وَإِنْ کَانَ الْمَسْجِدُ بُنِيَ بَعْدَ الْقَبْرِ، فَإِمَّا أَنْ یُّزَالَ الْمَسْجِدُ، وَإِمَّا أَنْ تُزَالَ صُورَۃُ الْقَبْرِ، فَالْمَسْجِدُ الَّذِي عَلَی الْقَبْرِ؛ لَا یُصَلَّی فِیہِ فَرْضٌ وَّلَا نَفْلٌ، فَإِنَّہ، مَنْہِيٌّ عَنْہُ .
”ائمہ کرام کا اتفاق ہے کہ قبر پر مسجد نہ بنائی جائے،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم سے پہلے لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے تھے، خبردار،تم قبروں کو سجدہ گاہ مت بناؤ،میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔اسی طرح مسجد میں میت کو دفن کرنا بھی جائز نہیں،اگر مسجد دفن کرنے سے پہلے بنی ہو، تو قبر کو برابر کر دیا جائے یا اگر قبر نئی ہے تو اُسے اکھاڑ دیا جائے۔اگر مسجد بعد میں بنائی گئی ہو،توایسی صورت میں یا تو مسجد کو ختم کر دیا جائے،یا قبر کی صورت ختم کر دی جائے۔ قبر پر بنائی گئی مسجد میں فرض یا نفل کوئی بھی نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ ”
(مجموع الفتاوٰی : 194/22،195)
b مزید فرماتے ہیں :
وَالْمَقْصُودُ ہَاہُنَا أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِإِحْسَانٍ لَّمْ یَبْنُوا قَطُّ عَلٰی قَبْرِ نَبِيٍّ وَّلَا رَجُلٍ صَالِحٍ مَّسْجِدًا، وَلَا جَعَلُوہُ مَشْہَدًا وَّمَزَارًا، وَلَا عَلٰی شَيْءٍ مِّنْ آثَارِ الْـأَنْبِیَائِ، مِثْلَ مَکَانٍ نَّزَلَ فِیہِ أَوْ صَلّٰی فِیہِ، أَوْ فَعَلَ فِیہِ شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ، لَمْ یَکُونُوا یَقْصِدُونَ بِنَاء َ مَسْجِدٍ لِّأَجْلِ آثَارِ الْـأَنْبِیَاءِ وَالصَّالِحِینَ .
”غرضیکہ صحابہ و تابعین نے کبھی بھی کسی نبی یا کسی نیک شخص کی قبر پر مسجد نہیں بنائی، نہ کسی کی قبرکو مزار و دربار بنایا۔انہوں نے تو انبیاءِ کرام کے آثار میں سے کسی اثر،مثلاً جس جگہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا یا نماز ادا کی یا کوئی اور کام کیا، وہاں پر انبیا و صالحین کے آثار کی بنا پر مسجد بنانے کا قصد نہیں کیا۔”
(مجموع الفتاوی : 466/17)
b نیز فرماتے ہیں :
فَہٰذِہِ الْمَسَاجِدُ الْمَبْنِیَّۃُ عَلٰی قُبُورِ الْـأَنْبِیَائِ، وَالصَّالِحِینَ، وَالْمُلُوکِ وَغَیْرِہِمْ، یَتَعَیَّنُ إِزَالَتُہَا بِہَدْمٍ أَوْ بِغَیْرِہٖ، ہٰذَا مِمَّا لَا أَعْلَمُ فِیہِ خِلَافًا بَیْنَ الْعُلَمَاءِ الْمَعْرُوفِینَ، وَتُکْرَہُ الصَّلَاۃُ فِیہَا مِنْ غَیْرِ خِلَافٍ أَعْلَمُہ، .
”انبیا و صالحین اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر بنی ہوئی مسجدوں کو گرا کر یا کسی اور طریقے سے ختم کرنا ضروری ہے۔اس مسئلے میں معروف اہل علم میں کوئی اختلاف مجھے معلوم نہیں،نیز ایسی مساجد میں نماز کی ادائیگی بھی بالاتفاق مکروہ ہے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم : 187/2)
b ایک مقام پر لکھتے ہیں :
وَالنَّصَارٰی کَثِیرًا مَّا یُعَظِّمُونَ آثَارَ الْقِدِّیْسِیْنَ مِنْہُمْ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ أَنَّہُمْ أَلْقَوْا إِلٰی بَعْضِ جُہَّالِ الْمُسْلِمِینَ أَنَّ ہٰذَا قَبْرُ بَعْضِ مَنْ یُعَظِّمُہُ الْمُسْلِمُونَ لِیُوَافِقُوہُمْ عَلٰی تَعْظِیمِہٖ، کَیْفَ لَا؟ وَہُمْ قَدْ أَضَلُّوا کَثِیرًا مِّنْ جُہَّالِ الْمُسْلِمِینَ، حَتّٰی صَارُوا یُعَمِّدُونَ أَوْلَادَہُمْ، وَیَزْعُمُونَ أَنَّ ذٰلِکَ یُوْجِبُ طُوْلَ الْعُمْرِ لِلْوَلَدِ، وَحَتّٰی جَعَلُوہُمْ یَزُورُونَ مَا یُعَظِّمُونَہ، مِنَ الْکَنَائِسِ وَالْبِیَعِ، وَصَارَ کَثِیرٌ مِّنْ جُہَّالِ الْمُسْلِمِینَ یَنْذِرُونَ لِلْمَوَاضِعِ الَّتِي یُعَظِّمُہَا النَّصَارٰی، کَمَا قَدْ صَارَ کَثِیرٌ مِّنْ جُہَّالِہِمْ یَزُورُونَ کَنَائِسَ النَّصَارٰی وَیَلْتَمِسُونَ الْبَرَکَۃَ مِنْ قِسِّیسِیہِمْ وَرَہَابِینِہِمْ وَنَحْوِہِمْ، وَاَلَّذِینَ یُعَظِّمُونَ الْقُبُورَ وَالْمَشَاہِدَ لَہُمْ شَبَہٌ شَدِیدٌ بِالنَّصَارٰی، حَتّٰی إِنِّي لَمَّا قَدِمْتُ الْقَاہِرَۃَ اجْتَمَعَ بِي بَعْضُ مُعَظِّمِیہِمْ مِنَ الرُّہْبَانِ، وَنَاظَرَنِي فِي الْمَسِیحِ وَدِینِ النَّصَارٰی، حَتّٰی بَیَّنْتُ لَہ، فَسَادَ ذٰلِکَ وَأَجَبْتُہ، عَمَّا یَدَّعِیہِ مِنَ الْحُجَّۃِ، وَبَلَغَنِي بَعْدَ ذٰلِکَ أَنَّہ، صَنَّفَ کِتَابًا فِي الرَّدِّ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، وَإِبْطَالِ نُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَحْضَرَہ، إِلَيَّ بَعْضُ الْمُسْلِمِینَ، وَجَعَلَ یَقْرَؤُہ، عَلَیَّ لِأُجِیبَ عَنْ حُجَجِ النَّصَارٰی وَأُبَیِّنَ فَسَادَہَا، وَکَانَ مِنْ أَوَاخِرَ مَا خَاطَبْتُ بِہِ النَّصْرَانِيَّ أَنْ قُلْتُ لَہ، : أَنْتُمْ مُّشْرِکُونَ، وَبَیَّنْتُ مِنْ شِرْکِہِمْ مَا ہُمْ عَلَیْہِ مِنَ الْعُکُوفِ عَلَی التَّمَاثِیلِ وَالْقُبُورِ وَعِبَادَتِہَا وَالِاسْتِغَاثَۃِ بِہَا، قَالَ لِي : نَحْنُ مَا نُشْرِکُ بِہِمْ وَلَا نَعْبُدُہُمْ، وَإِنَّمَا نَتَوَسَّلُ بِہِمْ کَمَا یَفْعَلُ الْمُسْلِمُونَ إِذَا جَائُوا إِلٰی قَبْرِ الرَّجُلِ الصَّالِحِ، فَیَتَعَلَّقُونَ بِالشُّبَّاکِ الَّذِي عَلَیْہِ وَنَحْوَ ذٰلِکَ، فَقُلْتُ لَہ، : وَہٰذَا أَیْضًا مِّنَ الشِّرْکِ، لَیْسَ ہٰذَا مِنْ دِینِ الْمُسْلِمِینَ، وَإِنْ فَعَلَہُ الْجُہَّالُ، فَأَقَرَّ أَنَّہ، شِرْکٌ، حَتّٰی إِنَّ قِسِّیسًا کَانَ حَاضِرًا فِي ہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃِ، فَلَمَّا سَمِعَہَا قَالَ : نَعَمْ، عَلٰی ہٰذَا التَّقْدِیرِ نَحْنُ مُشْرِکُونَ، وَکَانَ بَعْضُ النَّصَارٰی یَقُولُ لِبَعْضِ الْمُسْلِمِینَ : لَنَا سَیِّدٌ وَّسَیِّدَۃٌ، وَلَکُمْ سَیِّدٌ وَّسَیِّدَۃٌ، لَنَا السَّیِّدُ الْمَسِیحُ وَالسَّیِّدَۃُ مَرْیَمُ، وَلَکُمُ السَّیِّدُ الْحُسَیْنُ وَالسَّیِّدَۃُ نَفِیسَۃُ، فَالنَّصَارٰی یَفْرَحُونَ بِمَا یَفْعَلُہ، أَہْلُ الْبِدَعِ وَالْجَہْلِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، مِمَّا یُوَافِقُ دِینَہُمْ وَیُشَابِہُونَہُمْ فِیہِ، وَیُحِبُّونَ أَنْ یَّقْوٰی ذٰلِکَ وَیَکْثُرَ، وَیُحِبُّونَ أَنْ یَّجْعَلُوا رُہْبَانَہُمْ مِّثْلَ عُبَّادِ الْمُسْلِمِینَ، وَقِسِّیسِیہِمْ مِّثْلَ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِینَ، وَیُضَاہِئُوْنَ الْمُسْلِمِینَ، فَإِنَّ عُقَلَائَہُمْ لَا یُنْکِرُونَ صِحَّۃَ دِینِ الْإِسْلَامِ، بَلْ یَقُولُونَ : ہٰذَا طَرِیقٌ إِلَی اللّٰہِ، وَہٰذَا طَرِیقٌ إِلَی اللّٰہِ، وَلِہٰذَا یَسْہُلُ إِظْہَارُ الْإِسْلَامِ عَلٰی کَثِیرٍ مِّنَ الْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ أَسْلَمُوا مِنْہُمْ، فَإِنَّ عِنْدَہُمْ أَنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالنَّصَارٰی کَأَہْلِ الْمَذَاہِبِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ، بَلْ یُسَمُّونَ الْمِلَلَ مَذَاہِبَ .
”نصاریٰ اکثر اپنے ولیوں اور خدا رسیدہ بزرگوں کی قبروں کی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں۔بعید نہیں کہ انہوں نے ہی بعض جاہل مسلمانوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہو کہ یہ قبر کسی ایسے بزرگ کی ہے،جس کی مسلمان بہت تعظیم کرتے تھے، تاکہ قبروں کی تعظیم میں مسلمان بھی عیسائیوں کے ہم خیال ہو جائیں۔یہ بات بعید ہو بھی کیونکر سکتی ہے ؟نصاریٰ نے مسلمانوں میں سے بہت سے جاہلوں کو گمراہ کر دیا ہے، حتی کہ جاہل مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح اپنی اولادوں کو اس غرض سے ”بپتسمہ ”(عیسائیوں کے ہاں مقدس پانی کے چھینٹے) لگاتے ہیں کہ یہ عمل بچے کی عمر میں طوالت کا موجب ہے۔یہاں تک کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کو اس حد تک گمراہ کر دیا کہ جاہل مسلمان بھی یہود و نصاریٰ کے عبادت خانوں کی زیارت اور تعظیم کرنے لگے ہیں۔بہت سے جاہل مسلمان بھی ان مقامات پر نذر و نیاز چڑھانے لگے، جن مقامات کی نصاریٰ تعظیم کرتے ہیں۔نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ بعض جاہل مسلمان نصاریٰ کے گرجوں کی زیارت کر کے ان کے پادریوں اور صوفیوں وغیرہ سے تبرک حاصل کرنے لگے ہیں۔
جولوگ قبروں اور خانقاہوں کی تعظیم کرتے ہیں،ان کی نصاریٰ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت ہے،چنانچہ جب میں قاہرہ آیاتو نصاریٰ کا ایک بڑا راہب میرے پاس آیا اور سیدنا عیسیٰuاور دینِ نصاریٰ کے متعلق میرے ساتھ مناظرہ کرنے لگا،یہاں تک کہ میں نے مروجہ عیسائیت کی خرابیوں کو واضح کر دیا اور اس کے تمام دلائل کا جواب دے دیا۔بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے رد میں ایک کتاب لکھی ہے۔ایک مسلمان میرے پاس وہ کتاب لے آیا اور اسے میرے سامنے پڑھنے لگا،تاکہ میں نصاریٰ کے دلائل کا جواب دوں اور ان کی خرابیوں کو واضح کروں۔اس عیسائی راہب کے ساتھ آخر ی مناظرے میں مَیں نے کہا:تم مشرک لوگ ہو۔ان کے مشرک ہونے کی وجہ یہ بیان کی کہ تم قبروں کے مجاور،بت پرست، قبروں کے پجاری اور ان سے مدد مانگنے والے ہو۔یہ سن کر اس نے کہا:نہ ہم ان بزرگوں کو شریک ٹھہراتے ہیں، نہ ہی ان کی عبادت کرتے ہیں،بلکہ ہم تو انہیں وسیلہ بناتے ہیں،جس طرح مسلمان فوت شدگان کو وسیلہ بناتے ہیں،نیزمسلمان کسی نیک آدمی کی قبرپر جاتے ہیں، اس کی کھڑکیوں سے جا چمٹتے ہیں اور اسی طرح کے دیگر کام کرتے ہیں۔
میں نے اسے کہا:یہ سب کچھ شرک ہے، دینِ اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اگرچہ کچھ جاہل لوگ یہ کام کرتے ہیں۔اس پر اس نے اقرار کر لیا کہ یہ شرک ہے،یہاں تک کہ ایک عیسائی پادری بھی وہاں موجود تھا،جب اس نے یہ بات سنی، تو اس نے کہا:جی ہاں!اس بنا پر تو ہم مشرک ہی ٹھہرے۔
کچھ عیسائی مسلمانوں سے کہتے ہیں:ہمارا بھی ایک سید اور ایک سیدہ ہیں،آپ کا بھی ایک سید اور ایک سیدہ ہیں۔ہمارے سید مسیحu اور سیدہ مریم رضی اللہ عنہا ہیں،جبکہ آپ کے لئے سید حسین رضی اللہ عنہ اور سیدہ نفیسہ رضی اللہ عنہا ہیں۔
جاہل اور بدعتی مسلمانوں کے شرک و بدعت والے کاموں سے عیسائی بڑے خوش ہوتے ہیں،کیونکہ یہ ان کے دین سے موافقت اور مشابہت رکھتے ہیں۔وہ یہی چاہتے ہیںکہ یہ کام مسلمانوں میں مزید مضبوط اور زیادہ ہو جائیں۔ان کی تو خواہش ہے کہ ان کے راہب مسلمانوں کے درباریوں کی طرح بن جائیں اور ان کے پادری مسلمان علما کی مانند ہو جائیں۔یوں وہ مسلمانوں سے مشابہت اختیار کر لیں۔ نصاریٰ کے دانش وَر لوگ دین اسلام کی صداقت کے انکاری نہیں،بلکہ وہ کہتے ہیں کہ نصرانیت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ایک راستہ ہے اور اسلام بھی ایک راستہ۔ اسی لئے ان میں سے اکثر منافقین کےلئے اظہار ِاسلام آسان ہو گیا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک اسلام اور عیسائیت ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں کے باہمی مذاہب ہیں،یعنی انہوں نے ملتوں کو مسلک کہنا شروع کر دیا ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : 460/27۔462)
0 علامہ،ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)فرماتے ہیں :
فَمِنَ الْـأَنْصَابِ مَا قَدْ نَصَبَہُ الشَّیْطَانُ لِلْمُشْرِکِینَ؛ مِنْ شَجَرَۃٍ، أَوْ عُمُودٍ، أَوْ وَثَنٍ، أَوْ قَبْرٍ، أَوْ خَشَبَۃٍ، أَوْ غَیْرِ ذٰلِکَ، وَالْوَاجِبُ ہَدْمُ ذٰلِکَ کُلِّہٖ، وَمَحْوُ أَثَرِہٖ، کَمَا أَمَرَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ عَلِیًّا رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ بِہَدْمِ الْقُبُورِ الْمُشَرَّفَۃِ، وَتَسْوِیَتِہَا بِالْـأَرْضِ .
”شیطان نے مشرکین کے لیے درختوں،ستونوں،تھانوں،قبروں یا لکڑیوں وغیرہ کی صورت میں جو بت قائم کیے ہیں،ان سب کو منہدم کرنا اور ان کے آثار ختم کرنا ضروری ہے،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلند قبروں کو گرانے اور زمین کے ساتھ برابر کرنے کا حکم فرمایا۔”
(إغاثۃ اللہفان من مصاید الشیطان : 209/1)
! علامہ،ابن الحاج رحمہ اللہ (م : 737ھ)لکھتے ہیں :
فَہٰذَا إِجْمَاعٌ مِّنْ ہٰؤُلَاءِ الْعُلَمَاءِ الْمُتَأَخِّرِینَ، فَکَیْفَ یَجُوزُ الْبِنَاءُ فِیہَا؟ فَعَلٰی ہَذَا؛ فَکُلُّ مَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ، فَقَدْ خَالَفَہُمْ .
”یہ متاخرین علما کی طرف سے پختہ اور بلند قبروں کو گرانے پر اجماع ہے۔ اس صورت میں قبروں پر قبے وغیرہ بنانا کیسے جائز ہو گا؟اس لیے جو بھی ایسا کرے گا، وہ ان اہل علم کا مخالف ہو گا۔”(المدخل : 182/1، وفي نسخۃ : 253/1)
@ حنفی مذہب کی معتبر کتاب میں لکھا ہے :
وَیُکْرَہُ أَنْ یُّبْنٰی عَلَی الْقَبْرِ مَسْجِدٌ أَوْ غَیْرُہ،، کَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَہَّاجِ، وَیُکْرَہُ عِنْدَ الْقَبْرِ مَا لَمْ یُعْہَدْ مِنَ السُّنَّۃِ، وَالْمَعْہُودُ مِنْہَا لَیْسَ إِلَّا زِیَارَتُہ، وَالدُّعَاءُ عِنْدَہ، قَائِمًا، کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ .
”قبر پر مسجد یا کوئی اور عمارت بنانا مکروہ ہے۔السراج الوہاج میں اسی طرح ہے۔ نیز قبر کے پاس وہ کام کرنا بھی مکروہ ہیں،جو سنت سے ثابت نہیں۔سنت سے صرف یہی ثابت ہے کہ قبر کی زیارت کی جائے اور اس کے پاس کھڑے ہو کر (صاحب ِقبر کے لیے)دُعا کی جائے۔البحرا لرائق میں یہی لکھا ہے۔”
(الفتاوی الہندیۃ : 166/1)
# علامہ آلوسی بغدادی نے ابن حجر ہیتمی سے نقل کیا ہے:
وَقَدْ أَفْتٰی جَمْعٌ بِہَدْمِ کُلِّ مَا بِقُرَافَۃِ مِصْرَ مِنَ الْـأَبْنِیَۃِ، حَتّٰی قُبَّۃَ الْإِمَامِ الشَّافِعِيِّ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃُ، الَّتِي بَنَاہَا بَعْضُ الْمُلُوْکِ، وَیَنْبَغِي لِکُلِّ أَحَدٍ ہَدْمُ ذٰلِکَ مَا لَمْ یُخْشَ مِنْہ، مَفْسَدَۃٌ، فَیَتَعَیَّنُ الرَّفْعُ لِلْإِمَامِ أَخْذًا مِّنْ کَلَامِ ابْنِ الرُّفْعَۃِ فِي الصُّلْحِ .
”مصر کے قبرستان میں جتنی بھی قبروں پر عمارتیں ہیں، حتی کہ امام شافعی کی قبر پر بعض بادشاہوں کا بنایا ہوا قبہ بھی،ان سب کے منہدم کرنے کا علماءِ کرام کے جم غفیر نے فتویٰ دیا ہے۔اگر فتنہ و فساد کا خدشہ نہ ہو، تو ہر ایک کے لیے انہیں منہدم کرنا فرض ہے۔حاکم کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا ضروری ہے،جیسا کہ صلح کے باب میں ابن رفعہ کی کلام سے معلوم ہوتا ہے۔”(روح المعاني : 226/8)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.