1,074

عقیقہ صرف ساتویں دن، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

بچے یا بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا بالاتفاق مستحب عمل ہے۔ شریعت ِ محمدیہqنے اسے ساتویں دن مشروع قرار دیا ہے جیسا کہ :
1 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( یعقّ عن الغلام شاتان مکافئتان ، وعن الجاریۃ شاۃ )) ، قالت : عقّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم عن الحسن والحسین شاتین ، ذبحہما یوم السابع ۔
”لڑکے کی طرف سے دو برابر کی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے گی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے دو دو بکریاںساتویں دن بطورِ عقیقہ ذبح کیں۔”
(العیال لابن ابی الدنیا : ٤٣، والسیاق لہ،، مسند البزار : ١٢٣٩، مسند ابی یعلی : ٤٥٢١، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٣٠٣، ٣٠٤، وسندہ، صحیحٌ)
2 سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( کلّ غلام مرتہن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع ویحلق رأسہ ویسمّی ))
”ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی رکھا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے ، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ۔ ”(مسند الإمام أحمد : ٥/٧،٨،١٢،١٧،١٨،٢٢، سنن أبي داو،د : ٢٨٣٨، سنن الترمذي : ١٥٢٢، سنن النسائي : ٤٢٢٥، سنن ابن ماجہ : ٣١٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح” اور امام ابن جارود رحمہ اللہ (٩١٠) اور امام حاکم رحمہ اللہ (مستدرک : ٤/٢٣٧) نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے ۔
ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء و پیروی میں عقیقہ صرف ساتویں دن کرنا چاہیے، مثلاً بچہ جمعہ کے دن پیدا ہو تو اس کا عقیقہ جمعرات کے دن کرنا چاہیے۔ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ پیدائش کے دن کو شمار نہیں کیا جائے گا لیکن یہ بات درست نہیں۔ ساتویں دن سے پہلے عقیقہ کرنادرست نہیں۔ بعض علمائے کرام ساتویں دن سے پہلے عقیقے کی اجازت دیتے ہیں۔حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
والظاہر أنّ التقیید بذلک استحباب ، وإلّا فلو ذبح عنہ فی الرابع أو الثامن أو العاشر أو ما بعدہ أجزأت ۔ ”معلوم یہ ہوتا ہے کہ ساتویں دن کی قید استحباب کے طور پر ہے، ورنہ اگر کوئی شخص بچے کی طرف سے چوتھے ، آٹھویں ، دسویں یا بعد والے کسی دن عقیقہ کر دے تو وہ کفایت کر جائے گا۔”(تحفۃ المودود لابن القیم : ص ٥٠)
لیکن یہ بات حدیث کے مطابق درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حدیث میں ساتویں دن عقیقے کا ذکر ہے اور شریعت نے اس کا ایک وقت معین کیا ہے جس کی پابندی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ولا تجزیء قبل یوم السابع أصلا ۔
”ساتویں دن سے پہلے عقیقہ قطعاً کفایت نہیںکرے گا۔”(المحلی لابن حزم : ٦/٢٤٠)
یہی بات علامہ امیر صنعانی رحمہ اللہ بھی لکھی ہے۔(سبل السلام : ٤/١٨١)
اسی طرح بعض اہل علم ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکنے کی صورت میں چودھویں یا اکیسویں دن عقیقے کی مشروعیت کے قائل ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ساتویں دن کے بعد بھی عقیقہ کرنا درست نہیں کیونکہ اس پر کوئی صحیح دلیل نہیں۔ جو روایات اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں ، وہ اصولِ محدثین کے مطابق پایہئ صحت کو نہیں پہنچتیں۔ ان روایات پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے :
1 سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
العقیقۃ تذبح لسبع ، أو أربع عشرۃ ، أو إحدی وعشرین ۔
”عقیقے کا جانور ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں دن ذبح کیا جائے۔”(المعجم الاوسط للطبرانی : ٤٩٧٩، المعجم الکبیر للطبرانی : ٧٢٣، السنن الکبری للبیہقی : ٩/٣٠٣)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس میں اسماعیل بن مسلم المکی راوی ”ضعیف الحدیث” ہے۔ (تقریب التہذیب لابن حجر : ٤٧٤)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وفیہ اسماعیل بن مسلم المکّی ، وضعّف لکثرہ غلطہ ووہمہ ۔ ”اس کی سند میں اسماعیل بن مسلم المکی راوی موجود ہے۔ اسے اس کی بہت زیادہ غلطیوں اور وہم کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔”
(مجمع الزوائد للہیثمی : ٤/٥٩)
2 عطائ رحمہ اللہ نے کہا : ام کرز اور ابو کریز بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : ولیکن ذلک یوم السابع ، فإن لم یکن ففی أربعۃ عشر ، فإن لم یکن ففی إحدی وعشرین ۔ ”عقیقہ ساتویں دن ہونا چاہیے۔اگر ایسا نہ ہو تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن۔”(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٢٣٨، ٢٣٩، وقال : صحیح الاسناد، ووافقہ الذہبی)
تبصرہ : اس قول کی سند ”انقطاع” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔ عطاء کے بارے میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ولم یسمع من أمّ کرز شیأا ۔
”انہوں نے ام کرز سے کچھ بھی نہیں سنا۔”(العلل لابن المدینی : ص ١٣٩)
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ : فإن لم یذبح فی الیوم السابع ذبح بعد ذلک حتّی أمکن فرضا ۔ ”اگر ساتویں دن عقیقے کا جانور ذبح نہ کر سکے تو اس کے بعد جب بھی اس فرض کی ادائیگی پر وہ استطاعت رکھے ایسا کر لے۔”
(المحلی لابن حزم : ٦/٢٣٤)
اس قول پر کوئی دلیل نہیں اور وہ سب روایات جن میں ذکر ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا ، ضعیف اورغیر ثابت شدہ ہیں۔ لہٰذا یہ قول ناقابل التفات اور ناقابل عمل ہے۔
اسی طرح اگر بچہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کا عقیقہ نہیں ہو گا جبکہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا بھی عقیقہ واجب ہے۔ (المحلی لابن حزم : ٦/٢٣٤)
اور حافظ نووی رحمہ اللہ کہتے کہ یہ ہمارے نزدیک مستحب ہے۔(المجموع للنووی : ٨/٤٤٨)
یہ دونوں قول بھی مرجوح ہیں۔ عقیقہ کا تعلق زندگی سے ہے۔ دوسری طرف حدیث نے ساتویں دن کو بھی مقرر کر دیا ہے لہٰذا اصل سنت حاصل نہیں ہوگی۔ اسی طرح ولادت سے پہلے بھی عقیقہ جائز اور درست نہیں کیونکہ یہ عقیقہ کی سنت ایک سبب کے پیش نظر ادا کی جاتی ہے، وہ بچے کی پیدائش ہے۔جب وہ سبب ہی نہ ہوگا تو سنت کیسے ادا ہو گی؟ قربانی کی طرح عقیقہ رات کو بھی کیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابنِ القیم رحمہ اللہ ساتویں دن عقیقہ کرنے کی حکمت یوں بیان کرتے ہیں: وحکمۃ ہذا ــ واللّٰہ أعلم ــ أنّ الطفل حین یولد یکون أمرہ مترددا بین السلامۃ والعطب ، ولا یدری ہل ہو من أہل الحیاۃ أم لا إلی أن تأتی علیہ مدّۃ یستدلّ بما یشاہد من أحوالہ فیہا علی سلامۃ بنیتہ وصحّۃ خلقتہ وأنّہ قابل للحیاۃ ، وجعل مقدار تلک المدّۃ أیّام الأسبوع فإنّہ دور یومیّ کما أنّ السنۃ دور شہریّ ۔۔۔۔۔ والمقصود أنّ ہذہ الأیّام أوّل مراتب العمر ، فإذا استکملہا المولود انتقل إلی المرتبۃ الثانیۃ وہی الشہور ، فإذا استکملہا انتقل إلی الثالثۃ وہی السنین ، فما نقص عن ہذہ الأیّام فغیر مستوف للخلیقۃ ۔۔۔۔۔ فجعلت تسمیۃ المولود وإماطۃ الأذی عنہ وفدیتہ وفکّ رہانہ فی الیوم السابع ۔
”اس کی حکمت ، واللہ اعلم ، یہ ہے کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کا معاملہ سلامتی اور ہلاکت کے درمیان متردد ہوتا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ زندہ رہے گا یا نہیں۔حتی کہ اس پر اتنی مدت گزر جائے کہ اسے دیکھنے والا اس کے حالات سے اس کی تخلیقی سلامتی ، صحت اور اس کے زندگی کے قابل ہونے کا اندازہ کر سکے۔ اس مدت کی مقدار شریعت نے ایک ہفتہ مقرر کی کیونکہ ہفتہ ، دنوں کا ایک مکمل چکر ہے جیساکہ سال مہینوں کا ایک مکمل چکر ہوتا ہے۔۔۔مقصود یہ ہے کہ یہ سات دن مراتب ِ عمر میں سے پہلا مرتبہ ہیں۔ جب بچہ ان دنوں کو پورا کر لیتا ہے تو وہ دوسرے مرتبے میں داخل ہو جاتا ہے جو کہ مہینے کی صورت میں ہوتا ہے اور جب وہ دوسرے مرتبے کی تکمیل کرتا ہے تو تیسرے مرتبے ، یعنی سال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ جو بچہ ان مراتب میں سے کسی مرتبے کو پہنچ نہ پایا ہو ، اس کی تخلیق مکمل نہیں ہوتی۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کے نام کا تعین ، اس سے گندگی کو دور کرنے (ختنہ کرنے اور سر منڈوانے)، اس کا فدیہ دینے اور اس کی گردن کو آزاد کرنے (عقیقہ کرنے) کے لیے ساتواں دن مقرر کیا گیا۔” (تحفۃ المودود لابن القیم : ص ٧٥، ٧٦)
nnnnnnn
صحیح حدیث لو !
امام محمد بن یحییٰ ذُہلی رحمہ اللہ (م ٥٨ ٢ھ) فرماتے ہیں :
لا یکتب الخبر عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حتّی یرویہ ثقۃ عن ثقۃ حتّی یتناہی الخبر إلی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بہذہ الصفۃ ، ولا یکون فیہم رجل مجہول ولا رجل مجروح ، فإذا ثبت الخبر عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بہذہ الصفۃ وجب قبولہ والعمل بہ وترک مخالفتہ ۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ کوئی روایت اس وقت تک نہ لکھی جائے جب تک اسے ثقہ راوی اپنے جیسے ثقہ سے بیان کرے اور یہ سلسلہ یونہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے۔ اس کڑی میں کوئی مجہول یا مجروح شخص نہ ہو۔ جب کوئی حدیث اس طریقے سے ثابت ہو جائے تو اسے قبول کرنا ، اس پر عمل کرنا اور اس کی مخالفت چھوڑ دینا واجب ہو جاتا ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.