732

ازواج مطہرات پر درود، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن پر درود

غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازواجِ مطہرات پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے،کیونکہ قرآن وسنت کی رُو سے وہ بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں،جیسا کہ :

قرآنِ کریم کی روشنی میں :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} (الأحزاب : 33)

’’اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہ کو دُور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں حبرِامت، ترجمان القرآن اور مفسر صحابہ،سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما  فرماتے ہیں:

نَزَلَتْ فِي نِسَائِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاصَّۃً ۔

’’یہ آیت خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 410/6، بتحقیق سلامۃ، وسندہٗ حسنٌ)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کے شاگرد عکرمہ  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مَنْ شَائَ بَاہَلْتُہٗ أَنَّہَا نَزَلَتْ فِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔

’’جو مباہلہ کرنا چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہوں کہ یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 411/6؟؟؟، بتحقیق سلامۃ، وسندہٗ حسنٌ)

اس آیت کی تفسیر میں اہل سنت کے مشہور مفسر،حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَہٰذَا نَصٌّ فِي دُخُولِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي أَہْلِ الْبَیْتِ ہَاہُنَا؛ لِأَنَّہُنَّ سَبَبُ نُزُولِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ ۔

’’یہ آیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے اہل بیت میں شامل ہونے پر نص ہے، کیونکہ ازواجِ مطہرات ہی اس آیت کے نزول کا سبب ہیں۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 410/6، بتحقیق سلامۃ)

نیز فرماتے ہیں:

فَإِنْ کَانَ الْمُرَادُ أَنَّہُنَّ کُنَّ سَبَبَ النُّزُولِ دُونَ غَیْرِہِنَّ فَصَحِیحٌ، وَإِنْ أُرِیدَ أَنَّہُنَّ الْمُرَادُ فَقَطْ دُونَ غَیْرِہِنَّ، فَفِي ہٰذَا نَظَرٌ؛ فَإِنَّہٗ قَدْ وَرَدَتْ أَحَادِیثُ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ أَعَمُّ مِنْ ذٰلِکَ ۔

’’اگر یہ مراد ہو کہ ازواجِ مطہرات کے علاوہ کوئی بھی اس آیت کے نزول کا سبب نہیں، تو یہ بات صحیح ہے،لیکن اگر کسی کی مراد یہ ہو کہ اہل بیت کے مفہوم میں ازواجِ مطہرات کے علاوہ کوئی شامل نہیں،تو یہ محل نظر ہے،کیونکہ کئی احادیث بتاتی ہیں کہ اہل بیت کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 411/6، بتحقیق سلامۃ)

یعنی یہ آیت اگرچہ ازواجِ مطہرات کے اہل بیت میں شامل ہونے کو بیان کرتی ہے، لیکن صحیح احادیث کی بنا پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں،بل کہ اگر بیویاں اہل بیت ہیں تو رشتہ دار بالاولیٰ اہل بیت میں شامل ہیں۔

اسی حوالے سے حافظ ابن کثیر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ثُمَّ الَّذِي لَا یَشُکُّ فِیہِ مَنْ تَدَبَّر الْقُرْآنَ أَنَّ نِسَائَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَاخِلَاتٌ فِي قَوْلِہٖ تَعَالٰی : {اِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا}، فَإِنَّ سِیَاقَ الْکَلَامِ مَعَہُنَّ؛ وَلِہٰذَا قَالَ تَعَالٰی بَعْدَ ہٰذَا کُلِّہٖ : {وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِی بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ} أَيِ اعْمَلْنَ بِمَا یُنْزِلُ اللّٰہُ عَلٰی رَسُولِہٖ فِی بُیُوتِکُنَّ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَہٗ قَتَادَۃُ وَغَیْرُ وَاحِدٍ، وَاذْکُرْنَ ہٰذِہِ النِّعْمَۃَ الَّتِي خُصِصْتُنَّ بِہَا مِنْ بَیْنِ النَّاسِ؛ أَنَّ الْوَحْيَ یَنْزِلُ فِي بُیُوتِکُنَّ دُونَ سَائِرِ النَّاسِ، وَعَائِشَۃُ الصِّدِّیقَۃُ بِنْتُ الصِّدِّیقِ أَوْلاہُنَّ بِہٰذِہِ النِّعْمَۃِ، وَأَحْظَاہُنَّ بِہٰذِہِ الْغَنِیمَۃِ، وَأَخَصُّہُنَّ مِنْ ہٰذِہِ الرَّحْمَۃِ الْعَمِیمَۃِ، فَإِنَّہٗ لَمْ یَنْزِلْ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ فِي فِرَاشِ امْرَأَۃٍ سِوَاہَا، کَمَا نَصَّ عَلٰی ذٰلِکَ صَلَوَاتُ اللّٰہِ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ، قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَائِ رَحِمَہُ اللّٰہُ : لِأَنَّہٗ لَمْ یَتَزَوَّجْ بِکْرًا سِوَاہَا، وَلَمْ یَنَمْ مَعَہَا رَجُلٌ فِي فِرَاشِہَا سِوَاہُ، فَنَاسَبَ أَنْ تُخَصَّصَ بِہٰذِہِ الْمَزِیَّۃِ، وَأَنْ تُفْرَدَ بِہٰذِہِ الرُّتْبَۃِ الْعَلِیَّۃِ، وَلٰکِنْ إِذَا کَانَ أَزْوَاجُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ؛ فَقَرَابَتُہٗ أَحَقُّ بِہٰذِہِ التَّسْمِیَۃِ، کَمَا تَقَدَّمَ فِي الْحَدِیثِ : ’وَأَہْلُ بَیْتِی أَحَقُّ‘، وَہٰذَا یُشْبِہُ مَا ثَبَتَ فِي صَحِیحِ مُسْلِمٍ : أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا سُئِلَ عَنِ الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ، فَقَالَ : ’ہُوَ مَسْجِدِي ہٰذَا‘، فَہٰذَا مِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ؛ فَإِنَّ الْآیَۃَ إِنَّمَا نَزَلَتْ فِي مَسْجِدِ قُبائٍ، کَمَا وَرَدَ فِي الْـأَحَادِیثِ الْـأُخَرِ، وَلٰکِنْ إِذَا کَانَ ذَاکَ أُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ أَوَّلِ یَوْمٍ؛ فَمَسْجِدُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْلٰی بِتَسمِیَتِہٖ بِذٰلِکَ ۔

’’پھر قرآنِ کریم میں تدبر کرنے والا جس چیز میں شبہ نہیں کر سکتا،وہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہیں: {اِنَّمَا یُرِیدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} (اے اہل بیت!بلاشبہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے گناہوں کو دُور کر کے تمہیں خوب پاک صاف کر دے)،کیونکہ سیاقِ کلام ازواجِ مطہراترضی اللہ عنھن (والے مفہوم)کے ساتھ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس ساری بات کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : {وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِی بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ}(اے نبی کی ازواج!تمہارے گھروں میں اللہ کی آیات اور حکمت میں سے جو پڑھا جاتا ہے،تم اس کو یاد کرو)،یعنی کتاب و سنت کی جو نصوص اللہ تعالیٰ تمہارے گھروں میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نازل فرماتا ہے،ان پر عمل کرو۔امام قتادہ تابعی  رحمہ اللہ سمیت کئی ایک اہل علم نے یہ تفسیر کی ہے۔مراد یہ ہے کہ اے نبی کی ازواج!اس نعمت کو یاد کرو،جو باقی لوگوں کی نسبت خاص تمہیں نصیب ہوئی ہے کہ وحی صرف تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھااس نعمت میں سب سے آگے تھیں،سب سے بڑھ کر اس غنیمت سے فائدہ اٹھانے والی تھیں اور اس بے بہا رحمت کا سب سے زیادہ حصہ پانے والی تھیں۔اس کی وجہ یہ تھی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ کے بستر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو وحی نہیں آئی،سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے،جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے۔بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ اس خصوصیت کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکے سوا کسی کنواری عورت سے شادی نہیں کی،اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سوا کسی مرد سے خلوت نہیں کی، چنانچہ ان کی شخصیت اس امتیاز کے ساتھ خاص ہونے اور اس بلند رتبے میں منفرد ہونے کے زیادہ مناسب تھی۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج اہل بیت میں سے ہیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار اہل بیت کہلانے کے زیادہ حق دار ہیں،جیسا کہ حدیث میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان بیان ہو چکا ہے کہ میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے)زیادہ حق دار ہیں۔ یہ معاملہ صحیح مسلم میں مذکور اس معاملے سے ملتا جلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے جب پوچھا گیا کہ قرآنِ کریم میں جس مسجد کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ پہلے دن سے تقویٰ پر استوار کی گئی تھی،وہ کون سی مسجد ہے؟اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : اس سے مراد میری یہ مسجد(مسجد نبوی)ہے۔حالانکہ یہ آیت تو مسجد ِقباء کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔لیکن چونکہ مسجد نبوی پہلے دن سے تقویٰ پر استوار کی گئی تھی، لہٰذا یہ اس نام کی زیادہ حق دار تھی۔اہل بیت کا معاملہ بھی اسی طرح کا ہے(کہ اگرچہ قرآن میں ازواجِ مطہرات کو اہل بیت کہا گیا،لیکن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے رشتہ دار بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالے ہونے کی بنا پر اہل بیت میں شامل ہیں )۔‘‘

(تفسیر ابن کثیر : 415/6، 416، بتحقیق سلامۃ)

احادیث کی روشنی میں :

n          سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاکی براء ت والے قصہ میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، مَنْ یَعْذِرُنِي مِنْ رَّجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي أَذَاہُ فِي أَہْلِ بَیْتِي، فَوَاللّٰہِ مَا عَلِمْتُ عَلٰی أَہْلِي إِلَّا خَیْرًا‘ ۔

’’اے مسلمانوں کی جماعت! کون اس شخص سے میرا بدلہ لے گا جس کی طرف سے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھے تکلیف پہنچی ہے؟اللہ کی قسم! میں اپنے گھروالوں کے بارے میں بھلائی کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔‘‘

(صحیح البخاري : 4850، صحیح مسلم : 2770)

n          حصین بن سبرہ تابعی  رحمہ اللہ نے سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہسے پوچھا:

وَمَنْ أَہْلُ بَیْتِہٖ یَا زَیْدُ؟ أَلَیْسَ نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ؟

’’اے زید!نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل نہیں؟‘‘

اس پر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہنے جواب دیا :

نِسَاؤُہٗ مِنْ أَہْلِ بَیْتِہٖ ۔

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ کے اہل بیت میں شامل ہیں۔‘‘

(صحیح مسلم : 2408)

n          سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنھابیان کرتی ہیں کہ جب سورۂ احزاب کی مذکورہ آیت نازل ہوئی تو:

فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی عَلِيٍّ وَّفَاطِمَۃَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ، فَقَالَ : ’اللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِي‘، قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، مَا أَنَا مِنْ أَہْلِ الْبَیْتِ؟ قَالَ : ’إِنَّکِ أَہْلِي خَیْرٌ، وَہٰؤُلَائِ أَہْلُ بَیْتِي، اللّٰہُمَّ أَہْلِي أَحَقُّ‘ ۔

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی،سیدہ فاطمہ اور حسن و حسینyکو بلایا۔ پھر فرمایا : میرے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنھانے عرض کیا : اللہ کے رسول!کیا میں اہل بیت میں شامل نہیں؟فرمایا : آپ میرے گھر والی ہیں اور بھلائی والی ہیں،جب کہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے اللہ!میرے گھر والے (اہل بیت ہونے کے)زیادہ حق دار ہیں۔‘‘

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 416/2، وسندہٗ حسنٌ)

امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’امام بخاری  رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دیاہے،جب کہ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اسے ’’امام مسلم   رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے۔

ایک روایت میں سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنھاکے یہ الفاظ بھی مروی ہیں :

قُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، أَلَسْتُ مِنْ أَہْلِکَ؟ قَالَ : ’بَلٰی، فَادْخُلِي فِي الْکِسَائِ‘، قَالَتْ : فَدَخَلْتُ فِي الْکِسَائِ بَعْدَ مَا قَضٰی دُعَائَہٗ لِابْنِ عَمِّہٖ عَلِيٍّ وَّابْنَیْہِ وَابْنَتِہٖ فَاطِمَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ۔

’’میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول!کیا میں آپ کے اہل سے نہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : کیوں نہیں،آپ بھی چادر میں داخل ہو جائیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے چچازاد سیدنا علی،اپنے نواسوں (سیدنا حسن و حسین)اور اپنی بیٹی فاطمہy کے لیے دُعا کر چکے تو میں بھی چادر میں داخل ہو گئی۔‘‘

(مسند الإمام أحمد : 298/6، وسندہٗ حسنٌ)

ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت دو طرح کے ہیں؛ بزبانِ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات اہل بیت ہیں،جب کہ بزبانِ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار بھی اہل بیت میں شامل ہیں۔

جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی اہل بیت ہیں،تو ان پر بھی درود پڑھنا مشروع ہے،جیسا کہ حدیث میں ہے :

n          سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہبیان کرتے ہیں:

إِنَّہُمْ قَالُوا : یَا رَسُولَ اللّٰہِ کَیْفَ نُصَلِّي عَلَیْکَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’قُولُوا : اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّأَزْوَاجِہٖ وَذُرِّیَّتِہٖ، کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیدٌ‘ ۔

’’صحابہ کرام نے عرض کیا : اللہ کے رسول!ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یوں کہو : اے اللہ!محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر رحمت نازل کر، جیسا کہ تُو نے ابراہیمu کی آل پر رحمت نازل کی،نیز  محمد صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسا کہ تُونے ابراہیمuکی آل پر برکت نازل کی،یقینا تو قابلِ تعریف، بڑی شان والا ہے۔‘‘

(الموطّأ للإمام مالک : 165/1؛ صحیح البخاري : 3369؛ صحیح مسلم : 407)

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کا اختصار!

ابو سعید

صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کی جگہ ’’ص،صعم،صلم،صلیو،صلع اورصلعم‘‘جیسے رموزو اشارات کا استعمال حکم الٰہی اور منہجِ سلف صالحین کی مخالفت ہے۔یہ قبیح اور بدعی اختصارخلافِ ادب ہے۔یہ ایسی بے ہودہ اصطلاح ہے کہ کوئی نادان ہی اس پر اکتفا کر سکتا ہے۔

b          حافظ سخاوی  رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ)لکھتے ہیں:

وَاجْتَنِبْ أَیُّہَا الْکَاتِبُ الرَّمْزَ لَہَا أَيْ لِلصَّلَاۃِ عَلٰی رُسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي خَطِّکَ، بِأَنْ تَقْتَصِرَ مِنْہَا عَلٰی حَرْفَیْنِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ، فَتَکُونَ مَنْقُوصَۃً صُورَۃً، کَمَا یَفْعَلُہُ الْکِسَائِيُّ وَالْجَہَلَۃُ مِنْ أَبْنَائِ الْعَجَمِ غَالِبًا وَعَوَامُّ الطَّلَبَۃِ، فَیَکْتُبُونَ بَدَلًا عَنْ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ص، أَوْ صم، أَوْ صلم، أَوْ صلعم، فَذٰلِکَ لِمَا فِیہِ مِنْ نَّقْصِ الْـأَجْرِ لِنَقْصِ الْکِتَابَۃِ خِلَافُ الْـأَوْلٰی ۔

’’اے لکھنے والے!اپنی لکھائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی اس طرح رمز لکھنے سے اجتناب کروکہ دو یا تین چار حرفوں پر اکتفا کر لو۔اس طرح درود کی صورت ناقص ہو جاتی ہے،جیسے کسائی،بہت سے جاہل عجمی لوگوں اور اکثر طلبہ کا طرز عمل ہے۔ وہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ص،صم،صلم یاصلعم لکھتے ہیں۔یہ طریقہ کتابت میں نقص کی وجہ سے خلافِ اولیٰ ہے۔‘‘(فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث : 71/3، 72)

b          علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری  رحمہ اللہ (م:۹۲۶ھ)لکھتے ہیں:

وَتُسَنُّ الصَّلاَۃُ نُطْقًا وَّکِتَابَۃً عَلٰی سَائِرِ الْـأَنْبِیَائِ وَالْمَلاَئِکَۃِ صَلَّی اللّٰہُ  وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ، کَمَا نَقَلَہُ النَّوَوِيُّ عَنْ إِجْمَاعِ مَنْ یُّعْتَدُّ بِہٖ ۔

’’تمام انبیاے کرام اور فرشتوں پر بول اور لکھ کر درود وسلام بھیجنا مسنون ہے، جیسا کہ علامہ نووی  رحمہ اللہ نے تمام معتبر اہل علم کے اجماع سے یہ بات نقل کی ہے۔‘‘

(فتح الباقي بشرح ألفیۃ العراقي : 44/2)

b          علامہ ابن حجر ہیتمی(۹۰۹۔۹۷۴ھ)لکھتے ہیں:

وَکَذَا اسْمُ رَسُولِہٖ بِأَنْ یُّکْتَبَ عَقِبَہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ جَرَتْ بِہٖ عَادَۃُ الْخَلَفِ کَالسَّلَفِ، وَلَا یُخْتَصَرُ کتَابَتُہَا بِنَحْوِ صلعم؛ فَإِنَّہٗ عَادَۃُ الْمَحْرُومِینَ ۔

’’اسی طرح اللہ کے رسول کے نام کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم  لکھنا چاہیے۔خلف و سلف کی یہی عادت رہی ہے۔البتہ درود کا اختصار لکھنا،جیسے صلعم،یہ محروم لوگوں کی عادت ہے۔‘‘

(الفتاوی الحدیثیّۃ : 164/1)

b          علامہ طیبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

وَأَنَّ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِبَارَۃٌ عَنْ تَعْظِیمِہٖ وَتَبْجِیلِہٖ، فَمَنْ عَظَّمَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَحَبِیبَہٗ؛ عَظَّمَہُ اللّٰہُ، وَرَفَعَ قَدْرَہٗ فِي الدَّارَیْنِ، وَمَنْ لَّمْ یُعَظِّمْہُ؛ أَذَلَّہٗ اللّٰہُ، فَالْمَعْنٰی : بَعِیدٌ مِّنَ الْعَاقِلِ، بَلْ مِنَ الْمُؤْمِنِ الْمُعْتَقِدِ أَنْ یَّتَمَکَّنَ مِنْ إِجْرَائِ کَلِمَاتٍ مَّعْدُودَۃٍ عَلٰی لِسَانِہٖ، فَیَفُوزُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ مِّنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَ، وَبِرَفْعِ عَشْرِ دَرَجَاتٍ لَّہٗ، وَبِحَطِّ عَشْرِ خَطِیئَاتٍ عَنْہُ، ثُمَّ لَمْ یَغْتَنِمْہُ حَتّٰی یَفُوتَ عَنْہُ، فَحَقِیقٌ بِأَنْ یَّحْقِرَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَیَضْرِبَ عَلَیْہِ الذِّلَّۃَ وَالْمَسْکِنَۃَ، وَبَائَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی، وَمِنْ ہٰذَا الْقَبِیلِ عَادَۃُ أَکْثَرِ الْکُتَّابِ أَنْ یَّقْتَصِرُوا فِي کِتَابَۃِ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَامِ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الرَّمْزِ ۔

’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم وتکریم ہے۔جو اللہ کے رسول اور حبیب کی تعظیم کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے عظمت عطا فرمائیں گے اور دنیاوآخرت میں اس کی شان بلند کر دیں گے۔جو (درود نہ پڑھ کر)آپ کی تعظیم نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دیں گے۔مطلب یہ کہ کسی عاقل،بالخصوص کسی ایسے پختہ اعتقاد والے مؤمن سے یہ بات بعید ہے کہ وہ اپنی زبان پر چند کلمات جاری نہ کر سکے،جن کے بدلے وہ اللہ تعالیٰ کی دس رحمتوں کے حصول،دس درجات کی بلندی اور دس گناہوں کی معافی سے بہرہ ور نہ ہو جائے۔پھر وہ اس غنیمت سے فائدہ نہ اٹھائے،حتی کہ درود اس سے رہ جائے۔ایسا شخص اس بات کا مستحق ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کرے اور اس پر ذلت و مسکینی نازل کرے اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے۔اکثر کاتبوں کی عادت بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  پردرود لکھنے کے بجائے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔‘‘

(شرح المشکــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــاۃ : 131/2)

b          جناب مفتی محمد شفیع دیوبندی صاحب،جناب اشرف علی تھانوی صاحب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فرمایا کہ حضورؐ کے نام مبارک کے ساتھ درود شریف پڑھنا واجب ہے، اگر کسی نے صرف لفظ ’’صلعم‘‘ قلم سے لکھ دیا ،زبان سے درود سلام نہیں پڑھا تو میرا گمان یہ ہے کہ واجب ادا نہیں ہو گا،مجلس میں چند علماء بھی تھے،انہوںنے اس سے اختلاف کیا اور عرض کیا کہ آج کل لفظ ’’صلعم‘‘ پورے درود پر دلالت تامہ کرنے لگا ہے،اس لیے کافی معلوم ہوتا ہے،حضرت نے فرمایا: میرا اس میں شرح صدر نہیں ہوا،در اصل بات تو یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن خلق کے معاملہ میں اختصار کی کوشش اور کاوش ہی کچھ سمجھ میں نہیں آتی۔اگر آپؐ ہمارے معاملہ میں اختصارات سے کام لینے لگیں تو ہم کہاں جائیں؟

احقرجامع(مفتی محمد شفیع )عرض کرتا ہے کہ جہاں تک کہ ضرورت کا تعلق ہے، سب سے زیادہ ضرورت اختصار کی،حضراتِ محدثین کو تھی، جن کی ہر سطر میں تقریبا حضورؐ کا نام مبارک آتا ہے،مگر آپ ائمہ حدیث کی کتابوں کا مشاہدہ فرما لیں کہ انہوںنے ہر ہر جگہ نام مبارک کے ساتھ پورا درود و سلام لکھا ہے،اختصار کرنا پسند نہیں کیا۔‘‘ (مجالس حکیم الامت،ص : 241)

b          علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی صاحب کہتے ہیں:

وَاعْلَمْ أَنَّ مَا یُذْکَرُ وَیُکْتَبُ لَفْظُ (صلعم) بَدْلَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؛ فَغَیْرُ مَرْضِيٍّ ۔

’’جان لیجیے کہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ جو صلعم کا لفط بولا اور لکھا جاتا ہے،وہ نا پسندیدہ ہے۔‘‘

(العرف الشذي : 110/1)

b          جناب محمد زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :

’’جب اسمِ مبارک لکھے،صلاۃ وسلام بھی لکھے،یعنی  صلی اللہ علیہ وسلم  پورا لکھے،اس میں کوتاہی نہ کرے۔صرف ’’   ؑ‘‘یا صلعم پر اکتفا نہ کرے۔‘‘(تبلیغی نصاب، ص : 769)

b          محمد امجد علی بریلوی صاحب لکھتے ہیں:

’’اکثر لوگ آجکل درود شریف کے بدلے صلعم ،عم،  ؐ،  ؑ،لکھتے ہیں،یہ ناجائزو سخت حرام ہے۔‘‘(بہارِ شریعت،حصہ سوم،ص : 87)

یاد رہے کہ بہار ِشریعت کا یہ حصہ’’اعلیٰ حضرت بریلوی‘‘کا تصدیق شدہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.