951

باب علم ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ


سیدنا علی رضی اللہ عنہ دامادِ رسول،خلیفۂ چہارم اور شیر خدا ہیں۔زبانِ نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جوبات رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند ِصحیح ہم تک پہنچ گئی ہے،ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے۔من گھڑت، ’’منکر‘‘ اور ’’ضعیف ‘‘ روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے۔ایک ایسی ہی بات کا تذکرہ ہم یہاں پر کر رہے ہیں؛
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی( رضی اللہ عنہ )اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں،کیونکہ اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔اس کی استنادی حیثیت جاننے کے لیے اس سلسلے میں مروی تمام روایات پر تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ؛
روایت نمبر 1 :
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘ ۔
’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علی( رضی اللہ عنہ )اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
(سنن الترمذي : 3723، تہذیب الآثار للطبري، مسند عليّ، ص : 104)
تبصرہ :
اس روایت کی سند ’’ضعیف‘‘ہے، کیونکہ :
1 اس میں محمد بن عمر بن عبداللہ رومی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے، جیسا کہ :
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ ضُعْفٌ ۔
’’اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 22/8)
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شَیْخٌ لَّیِّنٌ ۔
’’یہ کمزور راوی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 22/8)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یُقَلِّبُ الْـأَخْبَارَ، وَیَأْتِي مِنَ الثِّقَاتِ بِمَا لَیْسَ مِنْ أَحَادِیثِہِمْ، لَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ بِحَالٍ ۔
’’یہ حدیثوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے منسوب کر کے وہ روایات بیان کرتا ہے جو انہوں نے کبھی بیان ہی نہیں کیں۔اس کی بیان کردہ روایت کو کسی بھی صورت دلیل بنانا جائز نہیں۔‘‘(المجروحین : 94/2)
یاد رہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وہم کی بنا پریہ جرح محمد بن عمر کے والد کے حالات میں ذکر کر دی ہے اور محمد بن عمر کو الثقات (71/9)میں ذکر کر دیاہے۔
اس سلسلے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
غَلَطَ ابْنُ حِبَّانَ فَلَیَّنَہٗ، وَإِنَّمَا اللَّیِّنُ ابْنُہٗ مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ ۔
’’امام ابن حبان رحمہ اللہ نے غلطی کی بنا پر عمر بن عبد اللہ کو کمزور قرار دے دیا ہے، دراصل اس کا بیٹا محمد بن عمر کمزور راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 698/4)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کی حدیث کو کمزور قرار دیا ہے۔(تقریب التہذیب : 6169)
2 اس میں شریک بن عبداللہ راوی بھی موجود ہے، جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صَدُوقٌ یُّخْطِیُٔ کَثِیرًا، تَغَیَّرَ حِفْظُہٗ مُنْذُ وَلِيَ الْقَضَائَ بِالْکُوفَۃِ ۔
’’یہ سچے تھے، مگر بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے۔جب سے یہ کوفہ کے قاضی بنے تھے، ان کے حافظے میں خرابی آ گئی تھی۔‘‘(تقریب التہذیب : 2787)
کسی بھی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ محمد بن عمر رومی نے شریک بن عبد اللہ قاضی سے ان کا حافظہ خراب ہونے سے پہلے احادیث روایت کی ہوں۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ فِي آخِرِ أَمْرِہٖ یُخْطِیُٔ فِیمَا یَرْوِي، تَغَیَّرَ عَلَیْہِ حِفْظُہٗ، فَسَمَاعُ الْمُتَقَدِّمِینَ عَنْہُ؛ الَّذِینَ سَمِعُوا مِنْہُ بِوَاسِطَ، لَیْسَ فِیہِ تَخْلِیطٌ، مِثْلِ یَزِیدَ بْنِ ھَارُونَ، وَإِسْحَاقَ الْـأَزْرَقِ، وَسَمَاعُ الْمُتَأَخِّرِینَ عَنْہُ بِالْکُوفَۃِ؛ فِیہِ أَوْہَامٌ کَثِیرَۃٌ ۔
’’عمر کے آخری حصے میں شریک بن عبد اللہ کی بیان کردہ روایات میں غلطیاں پائی جاتی ہیں،کیونکہ اس کا حافظہ خراب ہو گیاتھا۔ ان کے اولین شاگردوں میں سے جنہوں نے واسط کے علاقہ میں سماع کیا، جیسا کہ یزید بن ہارون اور اسحاق ازرق ہیں،ان کی روایات میں حافظے کی خرابی کا کوئی دخل نہیں۔ لیکن جن متاخرین تلامذہ نے کوفہ میں ان سے سماع کیا،ان کی بیان کردہ روایات میں بے شمار اوہام پائے جاتے ہیں۔ ‘‘(الثقات : 444/6)
شریک بن عبداللہ قاضی کی ولادت 95ہجری اور وفات 177ہجری میں ہوئی۔ وہ 150ہجری میں واسط کے قاضی مقرر ہوئے۔ بعد میں ابو جعفر منصور کی وفات کے بعد کوفہ کے قاضی بنے۔ابو جعفر منصور کی وفات 158ہجری میں ہوئی اور محمد بن عمر رومی 220ہجری کے قریب فوت ہوئے۔یہ تقریباً 62سال کا فاصلہ بنتاہے۔اس سے یہی معلوم ہوتاہے کہ محمد بن عمر رومی،جو کہ خود ’’ضعیف‘‘ راوی ہے،نے شریک قاضی سے ان کے حافظہ کی خرابی کے بعد روایات سنی ہیں۔
3 اس میں شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’تدلیس‘‘بھی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اس روایت کو صریح انداز میں جھوٹی،باطل اور ’’منکر‘‘ قرار دیا ہے،جیسا کہ :
n امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ’’منکر‘‘ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 22/8)
n امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ ۔ ’’یہ حدیث غریب و منکر ہے۔‘‘
(سنن الترمذي : 3723)
n امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا خَبَرٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ۔‘‘(المجروحین : 94/2)
n حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَمَا أَدْرِي مَنْ وَّضَعَہٗ ۔
’’میں نہیں جانتا کہ اسے کس نے گھڑا ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 668/3)
روایت نمبر 2 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، (زَادَ الْـآجُرِيُّ : ) فَمَنْ أَرَادَ أَتَاہَا مِنْ بَابِہَا‘ ۔
’’میں حکمت کا گھر ہوں اور علی( رضی اللہ عنہ )اس کا دروازہ ہیں۔امام آجری رحمہ اللہ نے اس روایت میں یہ الفاظ زیادہ کیے ہیں:جو اس گھر میں آنا چاہے،وہ اس کے دروازے سے آئے۔‘‘
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :
إِنَّ بَیْنَ أَضْلَاعِي لَعِلْمًا کَثِیرًا ۔
’’میری پسلیوں کے درمیان (میرے دل میں)بہت زیادہ علم ہے۔‘‘
(جزء الألف دینار للقطیعي : 216، زوائد فضائل الصحابۃ للقطیعي : 635,634/1، الشریعۃ للآجري : 233,232/3، معرفۃ الصحابۃ لأبي نعیم الأصبہاني : 308/1، الموضوعات لابن الجوزي : 349/1)
تحقیق :
اس روایت کی سند کا حال وہی ہے،جو مذکورہ سند کا تھا۔
روایت نمبر 3 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ بَابَ الْمَدِینَۃِ‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں، علی( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ،وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘
(مناقب عليّ لابن المغازلي : 129، تاریخ دمشق لابن عساکر : 378/42)
تبصرہ :
یہ سند کئی وجوہ سے مخدوش ہے،کیونکہ اس میں ؛
1 شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’تدلیس‘‘ ہے۔
2 سلمہ بن کُہَیْل نے صنابحی سے نہیں سنا۔
3 سُوَید بن سعید حدثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَوْصُوفٌ بِالتَّدْلِیسِ؛ وَصَفَہُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالْإِسْمَاعِیلِيُّ وَغَیْرُہُمَا، وَقَدْ تَّغَیَّرَ فِي آخِرِ عُمُرِہٖ بِسَبَبِ الْعَمْيِ، فَضَعُفَ بِسَبَبِ ذٰلِکَ ۔
’’یہ تدلیس کے ساتھ موصوف ہے ، امام دارقطنی اور امام اسماعیلی وغیرہما نے اسے مدلس کہا ہے، نابینا ہونے کے سبب عمر کے آخری حصہ میں حافظہ میں بھی تغیر آگیا تھا، اسی وجہ سے ضعیف قرار پایا ۔‘‘(طبقات المدلّسین : 120)
روایت نمبر 4 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْفِقْہِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘ ۔
’’میں فقہ کا شہرہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔‘‘
(الشریعۃ في السنّۃ للآجري : 232/3،حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 64/1، الموضوعات لابن الجوزي : 349/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے، اس میں کئی علتیں پائی جاتی ہیں :
1 عبدالحمید بن بحر بصری راوی پر احادیث کے سرقہ کا الزام ہے۔
b اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلِعَبْدِ الْحَمِیدِ ہٰذَا غَیْرُ حَدِیثٍ مُّنْکَرٍ، رَوَاہُ وَسَرَقَہٗ مِنْ قَوْمٍ ثِقَاتٍ ۔
’’اس عبدالحمید کی بیان کردہ کئی ایک حدیثیں منکر ہیں،جنہیں اس نے ثقہ راویوں سے سرقہ کرکے روایت کیا ہے۔ ‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 325/5)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ مَّالِکٍ وَّشَرِیکٍ وَّالْکُوفِیِّینَ مَا لَیْسَ مِنْ أَحَادِیثِہِمْ، وَکَانَ یَسْرِقُ الْحَدِیثَ، لَا یَحِلُّ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ بِحَالٍ ۔
’’یہ مالک، شریک اور کوفیوں سے وہ حدیثیں بیان کرتا ہے، جو انہوں نے بیان ہی نہیں کیں۔یہ حدیث کا سرقہ کرتا تھا، کسی صورت میں بھی اس کی روایت سے دلیل لینا جائز نہیں۔‘‘(المجروحین : 142/2)
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ مَّالِکِ بْنِ مِغْوَلٍ وَّشَرِیکٍ أَحَادِیثَ مَقْلُوبَۃً ۔
’’یہ مالک بن مغول اور شریک سے مقلوب حدیثیں بیان کرتا تھا۔‘‘
(لسان المیزان لابن حجر : 395/3)
b امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یَرْوِي عَنْ مَّالِکٍ وَّشَرِیکٍ أَحَادِیثَ مُنْکَرَۃً ۔
’’یہ مالک اور شریک سے منکر احادیث بیان کرتا ہے۔‘‘(الضعفاء : 135)
2 شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’تدلیس‘‘بھی ہے۔
n اس روایت کے بارے میں ذہبیٔ دوراں، علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَإِنَّ الْمَرْوِيَّ عَنْ شَرِیکٍ لَّا یَثْبُتُ عَنْہُ، وَلَوْ ثَبَتَ لَمْ یَتَحَصَّلْ مِنْہُ عَلٰی شَيْئٍ لِّتَدْلِیسِ شَرِیکٍ وَّخَطَئِہٖ، وَالِاضْطِرَابِ الَّذِي لَا یُوَثَّقُ مِنْہُ عَلٰی شَيْئٍ ۔
’’بلاشبہ شریک سے یہ روایت ثابت نہیں،بالفرض اگر ثابت ہوبھی جائے،تو بھی اس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا،کیونکہ اس میں شریک کی تدلیس، خطا اور اضطراب بھی ہے، جس کی وجہ سے اس پر کسی چیز میں بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘
(حاشیۃ الفوائد المجموعۃ للشوکاني، ص : 352)
روایت نمبر 5 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’أَنَا مَدِینَۃُ الْجَنَّۃِ، وَأَنْتَ بَابُہَا یَا عَلِيُّ، کَذِبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یَدْخُلُہَا مِنْ غَیْرِ بَابِہَا‘ ۔
’’میں جنت کا شہرہوں اور اے علی( رضی اللہ عنہ )آپ اس کا دروازہ ہیں، جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اس شہر میں دروازے کے علاوہ کہیں اور سے داخل ہو جائے گا، وہ جھوٹ بولتا ہے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 378/42، اللآّلي المصنوعۃ للسیوطي : 335/1)
تبصرہ :
اس کی سند جھوٹی ہے، کیونکہ :
1 سعد بن طریف اسکانی راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَتْرُوکٌ وَّرَمَاہُ ابْنُ حِبَّانَ بِالْوَضْعِ، وَکَانَ رَافِضِیًّا ۔
’’یہ متروک راوی ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے وضاع قرار دیا ہے۔یہ رافضی تھا۔‘‘(تقریب التہذیب : 2241)
2 اصبغ بن نباتہ تمیمی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَتْرُوکٌ، رُمِيَ بِالرَّفْضِ ۔
’’یہ متروک راوی ہے، اسے محدثین کرام نے رافضی قرار دیا ہے۔‘‘
(تقریب التہذیب : 537)
روایت نمبر 6 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’شَجَرَۃٌ أَنَا أَصْلُہَا، وَعَلِيٌّ فَرْعُہَا، وَالْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ مِنْ ثَمَرِہَا، وَالشِّیعَۃُ وَرَقُہَا، فَہَلْ یَخْرُجُ مِنَ الطَّیِّبِ إِلَّا الطَّیِّبُ؟ وَأَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَہَا؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’میں درخت کا تنا ہوں، علی( رضی اللہ عنہ ) اس کی شاخ ہیں، حسن اور حسین ( رضی اللہ عنہما ) اس کے پھل ہیں اور شیعہ اس کے پتے ہیں۔پاکیزہ چیز سے صرف پاکیزہ چیز ہی پیدا ہوتی ہے۔میں علم کا شہر ہوں، علی( رضی اللہ عنہ )اس کا دروازہ ہیں،لہٰذا جو شہر میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا ہے ،وہ اس کے دروازے سے آئے۔‘‘
(تلخیص المتشابۃ للخطیب : 308/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 383/42، 384)
تبصرہ :
اس کی سند بھی جھوٹی اور من گھڑت ہے، کیونکہ :
b امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَحْیَی بْنُ بَشَّارِنِالْکِنْدِيُّ الْکُوفِيُّ حَدَّثَ عَنْ إِسْمَاعِیلَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ الْہَمْدَانِيِّ، وَجَمِیعًا مَّجْہُولَانِ ۔
’’یحییٰ بن بشار کندی،کوفی نے اسماعیل بن ابراہیم ہمدانی سے یہ روایت بیان کی ہے اور یہ دونوں ہی مجہول ہیں۔‘‘(تلخیص المتشابہ : 308/1)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَحْیَی بْنُ بَشَّارِنِ الْکِنْدِيُّ لَا یُعْرَفُ عَنْ مِّثْلِہٖ، وَأَتٰی بِخَبَرٍ مبَاطِلٍ ۔
’’یحییٰ بن بشار کندی غیر معروف راوی ہے۔اس نے جھوٹی روایت بیان کی ہے۔‘‘
(میز ان الاعتدال : 366/4)
روایت نمبر 7 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَأَنْتَ ــــیَا عَلِيُّــــ بَابُہَا‘ ۔
’’میں حکمت کا شہر ہوں،اے علی( رضی اللہ عنہ )!آپ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
(الأمالي لأبي جعفر الطوسي الرافضي : 490/1)
تبصرہ :
یہ انتہائی جھوٹی روایت ہے ،کیونکہ :
1 جابر بن یزید جعفی راوی کذاب اور ’’متروک‘‘ہے۔
2 احمد بن حماد ہمدانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا أَعْرِفُ ذَا ۔ ’’میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 94/1)
3 عمرو بن شمر راوی ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ہے۔
اس سند میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
روایت نمبر 8 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘
(الموضوعات لابن الجوزي : 350/1)
تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے،کیونکہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے امام ابن مردویہ سے حسین بن علی رضی اللہ عنہما تک سند ذکر نہیں کی،بلکہ اسے ذکر کرنے کے بعد خود فرماتے ہیں :
’’اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں۔‘‘(الموضوعات لابن الجوزي : 353/1)
روایت نمبر 9 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’یَا عَلِيُّ، أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَنْتَ الْبَابُ، کَذِبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یَصِلُ إِلَی الْمَدِینَۃِ، إِلَّا مِنَ الْبَابِ‘ ۔
’’اے علی!میں علم کا شہرہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں۔جو یہ دعویٰ کرتاہے کہ وہ شہر میں اس دروازے کے علاوہ کہیں اور سے داخل ہوجائے گا، وہ جھوٹ بکتا ہے۔‘‘(مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 126)
تبصرہ :
اس روایت کی سند بھی جھوٹی ہے :
1 محمد بن عبداللہ بن عمر بن مسلم لاحقی راوی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
2 محمد بن عبداللہ بن محمد ابو مفضل کوفی راوی پرلے درجے کا جھوٹا،دجال اور جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔
(دیکھیں : تاریخ بغداد للخطیب : 466/5، لسان المیزان لابن حجر : 231/5، 232)
روایت نمبر 0 : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘
(اللآّلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي : 334/1)
تبصرہ :
اس کی سند بھی جھوٹی ہے، کیونکہ :
1 دائود بن سلیمان جرجانی غازی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَذَّبَہٗ یَحْیَی بْنُ مَعِینٍ، وَلَمْ یَعْرِفْہُ أَبُو حَاتِمٍ، وَبِکُلِّ حَالٍ؛ فَہُوَ شَیْخٌ کَذَّابٌ، لَہٗ نُسْخَۃٌ مَّوْضُوعَۃٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَی الرَّضٰی، رَوَاھَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدُ بْنُ مِہْرَوَیْہِ الْقَزْوِینِيُّ الصَّدُوقُ عَنْہُ ۔
’’امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے مجہول قرار دیا ہے۔بہر صورت یہ کذاب راوی ہے۔اس کے پاس علی بن موسیٰ رضا کی سند سے من گھڑت روایتوں پر مشتمل ایک نسخہ تھا، جو علی بن محمد بن مہرویہ قزوینی صدوق راوی نے اس سے نقل کیا ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 8/2، لسان المیزان لابن حجر : 417/2)
2 علی بن حسین بن بندار بن مثنیٰ استر اباذی کے بارے میں ؛
b حمزہ بن یوسف سہمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : تَکَلَّمَ فِیہِ النَّاسُ ۔
’’اس پر محدثین کرام نے جرح کی ہے۔‘‘(تاریخ جرجان : 571)
b ابن نجار رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(لسان المیزان لابن حجر : 217/4)
b ابن طاہر رحمہ اللہ نے اسے ’’متہم‘‘قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال للذہبي : 121/3)
روایت نمبر ! : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو بھی علم حاصل کرنا چاہتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘(الموضوعات لابن الجوزي : 350/1)
تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے، کیونکہ :
1 حسن بن محمد بن جریر راوی کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
2 عبیداللہ بن ابو رافع کا تعارف بھی درکا ر ہے۔
روایت نمبر @ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، وَلَا تُؤْتَی الْبُیُوتُ إِلاَّ مِنْ أَبْوَابِہَا‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوںاور علی اس کا دروازہ ہیں۔گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔‘‘(مناقب عليّ لابن المغازلي : 122)
تبصرہ :
یہ روایت بھی ثابت نہیں، کیونکہ :
1 علی بن عمر بن علی بن حسین کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’مستور‘‘ کہا ہے۔
(تقریب التہذیب : 4775)
2 حفص بن عمر صنعانی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
(تقریب التہذیب : 1420)
3 محمد بن مصفّٰی بن بہلول قرشی ’’تدلیس التسویۃ‘‘ کا مرتکب ہے۔
(المجروحین لابن حبّان : 94/1)
روایت نمبر # : ایک روایت امام دارقطنی رحمہ اللہ کی کتاب [العلل : 247/3] میں بھی ہے۔اس کے راوی یحییٰ بن سلمہ بن کہیل کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَتْرُوکٌ، وَکَانَ شِیعِیًّا ۔
’’یہ متروک اور شیعہ راوی ہے۔‘‘(تقریب التہذیب : 7561)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’متروک‘‘کہا ہے۔
(تلخیص المستدرک : 126/3، 246/2)
روایت نمبر $ : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا بازو پکڑ کرفرمایا :
’ہٰذَا أَمِیرُ الْبَرَرَۃِ، وَقَاتِلُ الْفَجَرَۃِ، مُنْصُورٌ مَّنْ نَّصَرَہٗ، مَخْذُولٌ مَّنْ خَذَلَہٗ‘، مَدَّ بِہَا صَوْتَہٗ، ثُمَّ قَالَ : ’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْحِکَمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’یہ نیکوں کے قائد اور برے لوگوں کے قاتل ہیں۔جو ان کی مدد کرے گا، منصور ہو گا اور جو ان کو رسوا کرنے کی کوشش کرے گا، خود ذلیل ہو گا۔ ان الفاظ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز کے ساتھ ارشاد فرمایا۔پھر فرمایا:میں علم کا شہر ہوںاور علی اس کا دروازہ ہیں، لہٰذا جو حکمتوں کو حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 152/1، 153، الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 192/1، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 127/3، 129، تاریخ بغداد للخطیب : 219/4، 377/2)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے، کیونکہ اس میں ؛
1 احمد بن عبداللہ بن یزید ہشیمی راوی کذاب اور جھوٹی روایات گھڑنے والاہے۔اس کے بارے میں ؛
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فر ماتے ہیں : یَضَعُ الْحَدِیثَ ۔
’’یہ خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے۔ ‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 192/1)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَالثِّقَاتِ الْـأَوَابِدَ وَالطَّامَّاتِ ۔
’’یہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ اور دیگر ثقہ لوگوں سے منکر اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے۔‘‘(المجروحین : 152/1)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَغَیْرِہٖ بِالْمَنَاکِیرِ، یُتْرَکُ حَدِیثُہٗ ۔
’’یہ امام عبدالرزاق رحمہ اللہ اور دوسرے راویوں سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی حدیث کو متروک قرار دیا گیا ہے۔ ‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 220/4، وسندہٗ حسنٌ)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب کہا ہے۔(المغني في الضعفاء : 43/1)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ ان الفاظ کو من گھڑت اور جھوٹے قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّنْکَرٌ مَّوْضُوعٌ ۔ ’’یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔ ‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 192/1)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا شَيْئٌ مَّقْلُوبٌ إِسْنَادُہٗ وَمَتْنُہٗ مَعًا ۔
’’اس روایت کی سند اور متن دونوں مقلوب ہیں۔‘‘(المجروحین : 153/1)
2 امام سفیان ثوری کی ’’تدلیس‘‘ بھی موجود ہے۔
جب امام حاکم رحمہ اللہ (المستدرک : 127/3)نے اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہا تو ان کے ردّ و تعاقب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے فرمایا :
اَلْعَجَبُ مِنَ الْحَاکِمِ وَجُرْأَتِہٖ فِي تَصْحِیحِہٖ ہٰذَا وَأَمْثَالِہٖ مِنَ الْبَوَاطِیلِ، أَحْمَدُ ہٰذَا دَجَّالٌ کَذَّابٌ ۔
’’امام حاکم رحمہ اللہ پر تعجب ہے کہ انہوں نے اس روایت اور اس طرح کی دوسری باطل روایات کو صحیح کہنے کی جرأت کیسے کی؟حالانکہ اس کی سند میں احمد بن عبداللہ دجال و کذاب ہے۔ ‘‘(تلخیص المستدرک : 127/3)
ایک اور مقام پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بَلْ ــــ وَاللّٰہِ ــــ مَوْضُوعٌ، وَأَحْمَدُ کَذَّابٌ، فَمَا أَجْہَلَکَ عَلٰی سِعَۃِ مَعْرِفَتِکَ ۔
’’ اللہ کی قسم!یہ تو من گھڑت روایت ہے، اس میں احمد راوی کذاب ہے۔اپنی وسعت ِعلم کے باوجود آپ اس بارے میں کتنے ناواقف رہے۔‘‘
(تلخیص المستدرک : 129/3)
یاد رہے کہ احمد بن عبداللہ بن یزید راوی کی متابعت احمد بن طاہر بن حرمہ تجیبی مصری نے کر رکھی ہے، لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں،کیونکہ تجیبی بھی کذاب راوی ہے۔
اسی لیے اس روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا یصح من جمیع الوجوہ ۔ ’’تمام سندوں کے ساتھ یہ روایت ضعیف ہے۔‘‘ (الموضوعات : 353/1)
روایت نمبر % : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ سَیِّدَا أَہْلِ الْجَنَّۃِ ۔۔۔۔ أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکَمِ، أَوِ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ بِالْمَدِینَۃِ؛ فَلْیَأْتِ بَابَہَا‘ ۔
’’ابو بکر و عمر( رضی اللہ عنہما ) اہل جنت کے سردار ہیں۔میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔جو حکمت حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،وہ شہر کے دروازے سے آئے۔‘‘
(المؤتلف والمختلف للدارقطني : 625,624/2، تلخیص المتشابہ للخطیب : 161/1، 162، تاریخ دمشق لابن عساکر : 382/42، اللآّلي المصنوعۃ للسیوطي : 335/1)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ :
1 اس کے راوی حبیب بن نعمان کے بارے میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَیْسَ بِالْمَعْرُوفِ ۔ ’’یہ غیر معروف راوی ہے۔‘‘
(تلخیص المتشابہ : 161/1)
2 دوسرے راوی حسین بن عبداللہ تمیمی کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں : فِي عِدَادِ الْمَجْہُولِینَ ۔
’’اس کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا ہے۔ ‘‘(تلخیص المتشابہ : 161/1)
روایت نمبر ^ : سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ سَیِّدُ الْعَرَبِ، فَقِیلَ أَلَسْتَ أَنْتَ سَیِّدُ الْعَرَبِ؟ فَقَالَ : أَنَا سَیِّدُ وُلْدِ آدَمَ، وَعَلِيٌّ سَیِّدُ الْعَرَبِ، مَنْ أَحَبَّہٗ وَتَوَلَّاہُ؛ أَحَبَّہُ اللّٰہُ وَہَدَاہُ، وَمَنْ أَبْغَضَہٗ وَعَادَاہُ؛ أَصَمَّہُ اللّٰہُ وَأَعْمَاہُ، عَلِيٌّ؛ حَقُّہٗ کَحَقِّي، وَطَاعَتُہٗ کَطَاعَتِي، غَیْرَ أَنَّہٗ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، مَنْ فَارَقَہٗ فَارَقَنِي، وَمَنْ فَارَقَنِي؛ فَارَقَہُ اللّٰہُ، أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَہِيَ الْجَنَّۃُ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَکَیْفَ یَھْتَدِي الْمُہْتَدِي إِلَی الْجَنَّۃِ إِلَّا مِنْ بَابِہَا، عَلِيٌّ عَلَیْہِ السَّلَامُ خَیْرُ الْبَشَرِ، مَنْ أَبٰی فَقَدْ کَفَرَ‘ ۔
’’علی بن ابو طالب عرب کے سردار ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید العرب نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اولاد ِآدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔جس نے ان کو دوست بنایا،اللہ رب العزت اس سے محبت کرے گا اوراس کو ہدایت دے گا۔جو ان سے بغض رکھے گا،اللہ اس سے دشمنی رکھے گااور اسے اندھا اور بہرا کر دے گا۔ان کا حق میرے حق کی طرح ہے اور ان کی اطاعت در اصل میری اطاعت ہے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔جو ان سے جدا ہوا در اصل وہ مجھ سے جدا ہوا اور جس نے مجھ سے دُوری اختیار کی،اللہ اسے اپنی رحمت سے دُور کر دے گا۔میں حکمت،یعنی جنت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ بھلا کوئی اس دروازے سے گزرے بغیرجنت میں کیسے پہنچے گا؟علی تمام انسانوں سے بہتر ہیں،جو شخص اس بات کا انکارکرتا ہے،یقینا وہ کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
(المنقبۃ لابن شاذان : 94)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
1 عیسیٰ بن مہران ابو موسیٰ مستعطف راوی کذاب ہے۔
b اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَ بِأَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃٍ مَّنَاکِیرَ، مُحْتَرِقٌ فِي الرَّفْضِ ۔
’’یہ من گھڑت اور منکر روایتیں بیان کرتا ہے اور کٹر رافضی ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 260/5)
b امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیںـ :
کَانَ عِیسَی بْنُ مِہْرَانَ الْمُسْتَعْطِفُ مِنْ شَیَاطِینِ الرَّافِضَۃِ وَمَرَدَتِہِمْ، وَوَقَعَ إِلَيَّ کِتَابٌ مِّنْ تَصْنِیفِہٖ فِي الطَّعْنِ عَلَی الصَّحَابَۃِ وَتَضْلِیلِہِمْ وَإِکْفَارِہِمْ وَتَفْسِیقِہِمْ، فَوَاللّٰہِ لَقَدْ قَفَّ شَعْرِي عِنْدَ نَظَرِي فِیہِ، وَعَظُمَ تَعَجُّبِي مِمَّا أَوْدَعَ ذٰلِکَ الْکِتَابَ مِنَ الْـأَحَادِیثِ الْمَوْضُوعَۃِ، وَالْـأَقَاصِیصِ الْمُخْتَلَقَۃِ، وَالْـأَنْبَائِ الْمُفْتَعَلَۃِ، بِالْـأَسَانِیدِ الْمُظْلِمَۃِ، عَنْ سُقَّاطِ الْکُوفِیِّینَ، مِنَ الْمَعْرُوفِینَ بِالْکَذِبِ، وَمِنَ الْمَجْہُولِینَ، وَدَلَّنِي ذٰلِکَ عَلٰی عَمْيِ بَصِیرَۃِ وَاضِعِہٖ، وَخُبْثِ سَرِیرِۃِ جَامِعِہٖ، وَخَیْبَۃِ سَعْيِ طَالِبِہٖ، وَاحْتِقَابِ وِزْرِ کَاتِبِہٖ، {فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ}، {وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ} ۔
’’عیسیٰ بن مہران مستعطف ایک شیطان اور سرکش رافضی ہے، اس نے ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس میں صحابہ کرام پر طعن کیا ہے، ان کو (معاذاللہ) گمراہ ،کافر اور فاسق قرار دیا ہے۔ اللہ کی قسم!جب میں نے اس کتاب کو دیکھاتو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔مجھے اس کتاب میں موضوع روایات، من گھڑت قصے اور خود ساختہ حکایات دیکھ کر بڑا تعجب ہوا۔ان روایات کی سندیں اندھیری ہیں اور مشہور و معروف جھوٹے کوفیوں اور مجہول راویوں سے بیان کی گئی ہیں۔یہ چیزیں عیسیٰ بن مہران کی اندھی بصیرت ،خبث ِ باطن، نامراد کاوش اور آخرت کی بربادی پر دلالت کرتی ہیں۔اس پر یہ فرامین باری تعالیٰ صادق آتے ہیں : {فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ}(البقرۃ 2 : 79)(ہلاکت ہے اس کے لئے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا، ہلاکت ہے اس کے لئے جو انہوں نے کمایا)، {وَسَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ}(الشعراء 26 : 227) (جنہوں نے ظلم کیا، عنقریب وہ جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں)۔
(تاریخ بغداد : 168/11)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رَافِضِيٌّ، کَذَّابٌ جَبَلٌ ۔
’’یہ رافضی اور بڑا کذاب تھا۔ ‘‘(میزان الاعتدال : 324/3)
2 اس کا راوی محمد بن عبداللہ بن عبیداللہ بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبیداللہ، ابو فضل کوفی بھی پرلے درجے کا جھوٹا، دجال اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔
(دیکھیں : تاریخ بغداد للخطیب : 467,466/5، لسان المیزان لابن حجر : 321/5)
3 اس کے راوی خالد بن طہمان ابو علا خفاف کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَخُلِّطَ خَالِدٌ الْخَفَّافُ قَبْلَ مَوْتِہٖ بِعَشْرِ سِنِینَ، وَکَانَ قَبْلَ ذٰلِکَ ثِقَۃً، وَکَانَ فِي تَخْلِیطِہٖ کُلُّ مَا جَائُ وہُ بِہٖ وَرَآہُ؛ قَرَأَہٗ .
’’خالد خفاف اپنی موت سے دس سال پہلے حافظے کے اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے وہ ثقہ تھا، لیکن اختلاط کے بعد وہ تلقین قبول کرنے لگا تھا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 19/3، وسندہٗ حسنٌ)
4 صاحب کتاب ابن شاذان بھی سخت جھوٹا شخص تھا،اس کے بارے میں آئندہ سطور میں تفصیلی بات ہونے والی ہے۔
روایت نمبر & : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
’یَا عَلِيُّ، أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَأَنْتَ بَابُہَا، وَمَا تَؤْتَی الْمَدِینَۃُ إِلَّا مِنْ قِبَلِ الْبَابِ، وَکَذِبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّہٗ یُحِبُّنِي وَیُبْغِضُکَ؛ لِأَنَّکَ مِنِّي وَأَنَا مِنْکَ، لَحْمُکَ مِنْ لَّحْمِي، وَدَمُکَ مِنْ دَمِي، وَرُوحُکَ مِنْ رُّوحِي، وَسَرِیرَتُکَ مِنْ سَرِیرَتِي، وَعَلَانِیَتُکَ مِنْ عَلَانِیَتِي، وَأَنْتَ إِمَامُ أُمَّتِي، وَخَلِیفَتِي عَلَیْہَا بَعْدِي، سَعِدَ مَنْ أَطَاعَکَ، وَشَقِيَ مَنْ عَصَاکَ، وَرَبِحَ مَنْ تَوَلَّاکَ، وَخَسِرَ مَنْ عَادَاکَ، وَفَازَ مَنْ لَّزِمَکَ، وَخَسِرَ مَنْ فَارَقَکَ، فَمَثَلُکَ وَمَثَلُ الْـأَئِمَّۃِ مِنْ وُّلْدِکَ بَعْدِي؛ مَثَلُ سَفِینَۃِ نُوحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ، مَنْ رَّکِبَہَا نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْہَا غَرِقَ، وَمَثَلُکُمْ مَّثَلُ النُّجُومِ؛ کُلَّمَا غَابَ نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘ ۔
’’اے علی!میں حکمت کا شہر ہوں اور آپ اس کا دروازہ ہیں، جو اس شہر میںآنا چاہے گا ، وہ دروازے سے ہی آئے گا۔وہ شخص میری محبت کا جھوٹا دعویدار ہے جو تجھ سے بغض رکھے،کیونکہ تو مجھ سے ہے اور میں تم سے ہوں، تیرا گوشت میرے گوشت سے ہے، تیرا خون میرے خون سے ہے، تیری روح میری روح سے ہے، تیرا باطن میرے باطن سے ہے اور تیرا ظاہر میرے ظاہر سے ہے۔ تو میری امت کا امام ہے اور میرے بعد امت محمدیہ کا خلیفہ ہے۔ خوش نصیب ہے وہ شخص جو تیری فرمانبرداری کرے گا اور بدبخت ہے وہ شخص جو تیری نافرمانی کرے گا۔نفع مند ہو گا وہ جو تجھ سے دوستی کرے گا اور خسارہ اٹھائے گا وہ شخص جو تجھ سے دشمنی رکھے گا۔تیری رفاقت میں کامیابی ہے اور تیری جدائی میں خسارہ ہے۔میرے بعد تیری اور تیری اولاد کے اماموں کی مثال کشتی ٔ نوح کی مانند ہے کہ جو اس میںسوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اورجو اس میں سوارہونے سے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔تیری مثال ستاروں کی مانند ہے،ایک ستارہ غروب ہوتا ہے تو دوسرا طلوع ہو جاتا ہے۔قیامت تک ایسا ہی رہے گا۔‘‘(المنقبۃ لابن شاذان : 18)
تبصرہ :
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے، کیونکہ :
1 سعد بن طریف اسکانی خفاف راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ فرمان پہلے بھی بیان ہو چکا ہے :
مَتْرُوکٌ، وَرَمَاہُ ابْنُ حِبَّانَ بِالْوَضْعِ، وَکَانَ رَافِضِیًّا ۔
’’یہ متروک راوی ہے، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا قرار دیا ہے ۔یہ رافضی بھی تھا۔‘‘(تقریب التہذیب : 2241))
2 صاحب ِکتاب محمد بن احمد بن علی بن حسین بن شاذان دجال اور کذاب ہے۔اس کے بارے میں :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَقَدْ سَاقَ أَخْطَبُ خَوَارْزَمُ مِنْ طَرِیقِ ہٰذَا الدَّجَّالِ؛ ابْنِ شَاذَانَ أَحَادِیثَ کَثِیرَۃً بَاطِلَۃً سَمْجَۃً رَکِیکَۃً، فِي مَنَاقِبِ السَّیِّدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ ۔
’’اخطب خوارزم نے اس ابن شاذان دجال کی سند سے سید نا علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں بہت سی جھوٹی، باطل اور ناقابل یقین روایتیں بیان کی ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 467/3)
نیز اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
ہٰذَا کَذِبٌ ۔ ’’یہ جھوٹ ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 467/3)
روایت نمبر * : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ۔جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ دروازے ہی سے آئے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 412/3، الموضوعات لابن الجوزي : 352/1)
تبصرہ :
یہ بھی من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
1 احمد بن حفص سعدی کے بارے میں :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَ بِأَحَادِیثَ مُنْکَرَۃً لَّمْ یُتَابَعْ عَلَیْہِ ۔
’’اس نے ایسی منکر روایات بیان کیںجن پر اس کی متابعت نہیں کی گئی۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 199/1)
b امام اسماعیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مَمْرُورٌ، یَکُونُ أَحْیَانًا أَشْبَہَ ۔
’’اس کی عقل چلی گئی تھی۔ کبھی کبھی اس پر اشتباہ واقع ہو جاتاتھا۔‘‘
(معجم الإسماعیلي : 355/1)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس قول کی وضاحت میں فرماتے ہیں :
فَأَشَارَ إِلٰی أَنَّہٗ أَحْیَانًا یَّغِیبُ عَقْلُہٗ، وَالْمَمْرُورُ الَّذِي یُصِیبُہُ الْخَلَطُ مِنَ الْمَرَّۃِ، فَیَخْلِطُ ۔
’’امام اسماعیلی رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کبھی کبھی اس کی عقل زائل ہوجاتی تھی۔ [مَمْرُور] وہ شخص ہوتا ہے جسے کسی بیماری کی وجہ سے اختلاط واقع ہو جاتا ہو۔‘‘(لسان المیزان : 163/1)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’صاحب المناکیر‘‘(منکر روایات بیان کرنے والا)قرار دیاہے۔(میزان الاعتدال : 94/1)
نیز فرماتے ہیں : وَاہٍ، لَیْسَ بِشَيْئٍ ۔
’’یہ ضعیف راوی ہے، کسی بھی کام کا نہیں۔‘‘(دیوان الضعفاء : 28)
فائدہ :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
لَعَلَّہُ اخْتَلَقَہُ السَّعْدِيُّ ۔
’’شاید اس روایت کو (احمد بن حفص) سعدی نے گھڑا ہو۔‘‘
(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 153/1)
لیکن اس راوی میں صرف اختلاط کا مسئلہ ہے۔ورنہ یہ’’ صدوق‘‘ اور ’’حسن الحدیث‘‘ راوی ہے۔یہ عمداً جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں۔
2 سعید بن عقبہ کوفی کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَجْہُولٌ، غَیْرُ ثِقَۃٍ ۔ ’’یہ مجہول اور غیر ثقہ ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 413/3)
روایت نمبر ( : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘ ۔
’’میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 177/5، الشریعۃ للآجري : 236/3)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
1 امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَہٰذَا الْحَدِیثُ لَا أَعْلَمُ رَوَاہُ أَحَدٌ عَنْ عِیسَی بْنِ یُونُسَ غَیْرَ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، وَہٰذَا الْحَدِیثُ فِي الْجُمْلَۃِ مُعْضَلٌ عَنِ الْـأَعْمَشِ، وَیَرْوِي عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْـأَعْمَشِ، وَیَرْوِیہِ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ أَبُو الصَّلْتِ الْہَرَوِيُّ، وَقَدْ سَرَقَہٗ مِنْ أَبِي الصَّلْتِ جَمَاعَۃٌ ضُعَفَائُ ۔
’’میں نہیں جانتا کہ اس حدیث کو عیسیٰ بن یونس سے عثمان بن عبداللہ کے علاوہ بھی کسی نے بیان کیا ہو۔ فی الجملہ یہ روایت اعمش سے معضل(جس کے کئی راوی گرے ہوئے ہوں)ہے۔ اسے عثمان نے ابو معاویہ عن الاعمش کی سند سے بھی بیان کیا ہے ۔ابو معاویہ سے یہ روایت ابو صلت ہروی بیان کرتا ہے۔ یقینا ابو صلت ہروی سے بہت سے ضعیف راویوں نے اس روایت کو چوری کر کے بیان کیا ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 177/5)
2 عثمان بن خالد کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ مِمَّنْ یَّرْوِي الْمَقْلُوبَ عَنِ الثِّقَاتِ، وَیَرْوِي عَنِ الْـأَثْبَاتِ أَسَانِیدَ لَیْسَ مِنْ رِّوَایَاتِہِمْ، کَأَنَّہٗ کَانَ یَقْلِبُ الْـأَسَانِیدَ، لَا یَحِلُّ الِاحْتِجَاجُ بِخَبَرِہٖ ۔
’’یہ ثقہ راویوں سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے ایسی سندیں بیان کرتاہے جو انہوں نے بیان ہی نہیں کی ہوتیں،یعنی وہ سندوں کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔اس کی بیان کردہ روایت کو دلیل بناناجائز نہیں۔ ‘‘
(المجروحین : 102/2)
لیکن امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا وَہْمٌ، لَمْ یَرْوِ عُثْمَانُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ عِیسَی بْنِ یُونُسَ شَیْئًا، وَإِنَّمَا رَوٰی ہٰذَا الْحَدِیثَ عَنْ عِیسَی بْنِ یُونُسَ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الْقُرَشِيُّ الشَّامِيُّ ۔
’’یہ وہم ہے، عثمان بن خالد نے عیسیٰ بن یونس سے کچھ بھی بیان نہیں کیا۔ عیسیٰ بن یونس سے تو اس حدیث کو عثمان بن عبداللہ قرشی شامی نے بیان کیا ہے۔ ‘‘(تعلیقات الدارقطني علی کتاب المجروحین لابن حبّان، ص : 183)
عثمان بن عبد اللہ نامی بھی دو راوی ہیں۔ایک شامی اور دوسرا اموی۔امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اور حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ان دونوں میں فرق کیا ہے، جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ دونوں نام ایک ہی انسان کے ہیں، جیساکہ حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَرَّقَ الْخَطِیبُ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ الْـأُمَوِيِّ، وَکِلَاہُمَا یَرْوِي عَنْ مَّالِکٍ ۔۔۔ وَجَمَعَ الذَّہَبِيُّ بَیْنَہُمَا فِي تَرْجِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ ۔
’’خطیب بغدادی اور ابن الجوزی نے عثمان بن عبداللہ شامی اور عثمان بن عبداللہ اموی میں فرق کیا ہے۔یہ دونوں امام مالک سے روایت کرتے ہیں، البتہ حافظ ذہبی نے ان دونوں کو ایک ہی قرار دیا ہے۔‘‘(ذیل المیزان : 571)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اس فیصلے کو درست قرار دیا ہے۔
(لسان المیزان : 147/4)
یاد رہے کہ یہ عثمان کذاب اور حدیثیں گھڑنے والا راوی ہے۔
(دیکھیں : لسان المیزان لابن حجر : 143/4)
3 اس میں اعمش کی ’’تدلیس‘‘ بھی ہے۔
روایت نمبر ) : گزشتہ روایت کی ایک سند یوں ہے :
عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مَّحْمُودِ بْنِ خِدَاشٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ ۔ (الموضوعات لابن الجوزي : 325/1)
تبصرہ :
یہ روایت بھی من گھڑت ہے، کیونکہ حسن بن عثمان تستری راوی جھوٹی حدیثوں کا کاریگر تھا، جیسا کہ :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ عِنْدِي یَضَعُ، وَیَسْرِقُ حَدِیثَ النَّاسِ ۔
’’میرے نزدیک یہ حدیثیں گھڑتا تھا اور لوگوں سے احادیث کا سرقہ کرتا تھا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 345/2)
b عبدان اہوازی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 345/2)
روایت نمبر ` : سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ الْبَابَ‘ ۔
’’میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ،لہٰذا جو علم حاصل کرنا چاہتا ہو،وہ دروازے سے آئے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 348/4، الموضوعات لابن الجوزي : 351,350/1)
تبصرہ :
یہ بھی باطل روایت ہے، کیونکہ :
1 رجا بن سلمہ راوی کے بارے میں حافظ ابن الجوزی فرماتے ہیں :
اُتُّہِمَ بِسَرِقَۃِ الْحَدِیثِ ۔ ’’اس پر حدیث کے سرقہ کا الزام ہے۔ ‘‘
(الموضوعات لابن الجوزي : 351/1)
2 ابو معاویہ محمد بن حازم ضریر ’’مدلس‘‘ راوی ہے۔
3 اس میں اعمش راوی کی ’’تدلیس‘‘ بھی ہے ۔
4 احمد بن محمد بن یزید بن سلیم راوی کے حالات نہیں مل سکے۔
روایت نمبر ~ : سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ؛ فَلْیَأْتِ بَابَہٗ‘ ۔
’’میں حکمت کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔جو علم حاصل کرنے کا خواہاں ہو،وہ دروازے سے آئے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 67/5، المعجم الکبیر للطبراني : 65/11، ح : 11061، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 126/3، تہذیب الآثار للطبري، ص105، تاریخ بغداد للخطیب : 48/11، الموضوعات لابن الجوزي : 351/1، المناقب للخوارزمي : 69)
تبصرہ :
یہ جھوٹی اور من گھڑت روایت ہے، کیونکہ :
1 اس کا راوی ابو صلت عبدالسلام بن صالح ’’ضعیف‘‘اور ’’متروک‘‘ہے۔
2 اس میں اعمش راوی کی ’’تدلیس‘‘ہے۔
3 اعمش یہ روایت مجاہد سے بیان کرتے ہیں۔
b امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَتَبْتُ عَنِ الْـأَعْمَشِ أَحَادِیثَ عَنْ مُّجَاہِدٍ، کُلُّہَا مُلْزَقَۃٌ، لَمْ یَسْمَعْہَا ۔
’’میں نے اعمش کی مجاہد سے بیان کردہ روایات لکھی ہیں۔وہ تمام امام مجاہد کی طرف منسوب ہیں۔انہیں اعمش نے مجاہد سے سنا نہیں ہے۔‘‘
(مقدّمۃ الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم، ص : 241، وسندہ صحیح)
b امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْـأَعْمَشُ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ مُّجَاہِدٍ، وَکُلُّ شَيْئٍ یَّرْوِیہِ عَنْہُ؛ لَمْ یَسْمَعْ، إِنَّمَا مُرْسَلَۃٌ مُّدَلَّسَۃٌ ۔
’’اعمش کا مجاہد سے سماع نہیں۔اعمش نے جو بھی روایت مجاہد سے بیان کی ہے، وہ مرسل اور مدلس ہے۔ ‘‘(روایۃ ابن طہمان : 59)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْـأَعْمَشُ قَلِیلُ السَّمَاعِ مِنْ مُّجَاہِدٍ، وَعَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ عَنْ مُّجَاہِدٍ مُّدَلَّسٌ ۔
’’اعمش کا مجاہدسے سماع نہ ہونے کے برابر ہے۔اکثر یہ مجاہد سے مدلَّس روایات بیان کرتے ہیں۔‘‘(العلل لابن أبي حاتم : 210/2)
4 ابو معاویہ بھی ’’مدلس‘‘ہیں اور لفظ ِعن سے بیان کر رہے ہیں۔
نوٹ : بعض راویوں نے اس روایت میں ابو صلت عبدالسلام بن صالح کی متابعت کر رکھی ہے۔ان کا حال بھی ملاحظہ فرماتے جائیں ؛
روایت نمبر – : ابن محرز (معرفۃ الرجال : 242/2، مناقب عليّ لابن المغازلي : 128) نے متابعت کی ہے اور سند یوں بیان کی ہے :
عَنْ مُّحَمَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْعَلَّافِ، قال : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الطُّفَیْلِ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ ۔
تبصرہ :
یہ روایت بھی معلول ہے، کیونکہ :
1 ابن محرز کی توثیق مطلوب ہے۔
2 محمد بن طفیل بن مالک حنفی کو صرف امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات (63/9) میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا یہ ’’مجہول الحال‘‘ہے۔
روایت نمبر _ : محمد بن جعفر فیدی نے متابعت کی ہے :
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 127/3)
تبصرہ :
اس کی سند میں حسین بن فہم راوی غیر قوی ہے۔اگرچہ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’ثقہ، مامون،حافظ‘‘ کہاہے، لیکن یہ امام صاحب کا تساہل ہے۔انہوں نے خود امام دارقطنی رحمہ اللہ سے اسے لیس بالقوي کہنا نقل کیا ہے۔(سؤالات الحاکم للدارقطني : 85)
نیز اس سند میں ابو حسین محمد بن احمد بن تمیم قنطری کی توثیق کا مسئلہ بھی ہے۔
روایت نمبر = : امام ابو عبید قاسم بن سلام نے (کتاب المجروحین لابن حبّان : 130/1،131، الموضوعات لابن الجوزي : 352/1) میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
یہ سندبھی مختلف وجوہات کی بنا پر باطل ہے؛
1 اسماعیل بن محمد بن یوسف الجبرینی ابو ہارون کے بارے میں :
b امام ابن ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَتَبَ إِلَيَّ بِجُزْئٍ، فَنَظَرْتُ فِي حَدِیثِہٖ، فَلَمْ أَجِدْ حَدِیثَہٗ حَدِیثَ أَہْلِ الصِّدْقِ ۔
’’اس نے میری طرف کچھ احادیث لکھ کر بھیجیں۔میں نے ان کو دیکھا ، تو مجھے ان میںکوئی حدیث بھی ایسی نہیں ملی جو سچے راویوں کے بیان سے ملتی ہو۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 196/2)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یُقَلِّبُ الْـأَسَانِیدَ، وَیَسْرِقُ الْحَدِیثَ، لَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ ۔
’’یہ سندوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور احادیث کا سرقہ کرتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات کو دلیل بنانا جائز نہیں۔‘‘(المجروحین : 130/1)
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی عَنْ سُنَیْدٍ وَّأَبِي عُبَبْدٍ وَّعَمْرِو بْنِ أَبِي سَلَمَۃَ أَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃً ۔
’’یہ سنید، ابو عبید اور عمرو بن سلمہ سے منسوب کر کے من گھڑت روایات بیان کرتا ہے۔ ‘‘(لسان المیزان لابن حجر : 433/1)
روایت نمبر + : عمر بن اسماعیل بن مجالد نے (الضعفاء الکبیر للعقیلي : 150/3، تاریخ بغداد للخطیب : 204/11، 353)میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
عمر بن اسماعیل کے بارے میں :
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔ ’’اس کی بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے۔ ‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 99/6)
b امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَذَّابٌ، یُحَدِّثُ أَیْضًا بِحَدِیثِ أَبِي مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘، وَہٰذَا حَدِیثٌ کَذِبٌ، لَیْسَ لَہٗ أَصْلٌ ۔
’’یہ جھوٹا راوی ہے۔اس نے أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَکی سندسے یہ حدیث بیان کی ہے:میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ یہ جھوٹی روایت ہے۔اس کی کوئی اصل نہیں۔ ‘‘
(سؤالات ابن الجنید : 51، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 150/3، وسندہٗ صحیح)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ کہا ہے۔
(تقریب التہذیب : 4866)
روایت نمبر q : ابراہیم بن موسیٰ رازی نے (تہذیب الآثار [مسند علی] لأبي جعفر الطبري، ص : 105)میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
اس ابراہیم کے بارے میں امام طبری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
ہٰذَا الشَّیْخُ لَا أَعْرِفُہٗ، وَلَا سَمِعْتُ مِنْہُ غَیْرَ ہٰذَا الْحَدِیثِ ۔
’’میں اس راوی کو نہیں جانتا،نہ ہی میں نے اس روایت کے علاوہ اس سے کوئی روایت سنی ہے۔ ‘‘
روایت نمبر رضی اللہ عنہما : احمد بن سلمہ، ابو عمرو جرجانی نے (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 190,189/1، تاریخ جرجان للسہمي، ص : 65، الموضوعات لابن الجوزي : 353,352/1)میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ احمد بن سلمہ کے بارے میں :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَ عَنِ الثِّقَاتِ بِالْبَوَاطِیلِ، وَیَسْرِقُ الْحَدِیثَ ۔
’’یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے اور احادیث کا سرقہ کرتا ہے۔ ‘‘(الکامل في ضعفاء الرجا ل : 189/1)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔(دیوان الضعفاء : 41)
روایت نمبر صلی اللہ علیہ وسلم : حسن بن راشد نے (الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 65/5)میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
یہ سند سخت ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ اس کا راوی حسن بن علی عدوی کذاب ہے۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا حَدِیثُ أَبِي الصَّلْتِ الْہَرَوِيُّ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ، عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ حَدَّثَ بِہٖ غَیْرُہٗ وَسَرَقَ مِنْہُ، مِنَ الضُّعَفَائِ، وَلَیْسَ أَحَدٌ مِّمَّنْ رَّوَاہُ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ خَیْرٌ وَّأَصْدَقُ مِنَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ ابْنِ رَاشِدٍ ۔
’’یہ ابو صلت ہروی کی ابو معاویہ سے بیان کردہ حدیث ہے۔اس حدیث کو ابوصلت سے سرقہ کر کے اور ضعیف راویوں نے بھی بیان کیا ہے۔ابو معاویہ سے بیان کرنے والوں میں سے حسن بن علی بن راشد سے بڑھ کر اچھا اور سچا کوئی نہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 341/2)
روایت نمبر رضی اللہ عنہا : موسیٰ بن محمد انصاری نے (میزان الاعتدال للذہبي : 444/3) میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی سند ہے، کیونکہ اس کے راوی محفوظ بن بحر انطاکی کے بارے میں امام ابوعروبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ مَحْفُوظٌ یَّکْذِبُ ۔ ’’محفوظ بن بحر جھوٹی روایتیں بیان کرتاتھا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 441/6)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو محفوظ بن بحر کی جھوٹی روایات میں شمار کیا ہے۔
(میزان الاعتدال : 444/3)
ابن العمی فرماتے ہیں : مِنْ وَّضْعِہٖ وَأَکَاذِیبِہٖ ۔
’’یہ اس کی اپنی وضع کردہ روایت اور اس کا ایک جھوٹ ہے۔ ‘‘
(الکشف الحثیث : 601)
روایت نمبر رضی اللہ عنہ : رجل من اہل الشام (شام کے ایک مرد)نے (تعلیقات الدارقطني علی المجروحین لابن حبّان، ص : 179)میں متابعت کر رکھی ہے۔
تبصرہ :
یہ بھی سفید جھوٹ ہے، کیونکہ :
b امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ أَبَا الصَّلْتِ وَضَعَہٗ عَلٰی أَبِي مُعَاوِیَۃَ، وَسَرَقَہٗ مِنْہُ جَمَاعَۃٌ، فَحَدَّثُوا بِہٖ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ، مِنْہُمْ : عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ بْنِ مُجَالِدٍ، ومُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَرَجُلٌ کَذَّابٌ مِّنْ أَہْلِ الشَّامِ، حَدَّثَ بِہٖ عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِی مُعَاوِیَۃَ ۔
’’ابو صلت نے یہ روایت ابو معاویہ کی طرف جھوٹی منسوب کی۔ اس سے ضعیف راویوں کی ایک جماعت نے سرقہ کیا۔ان میں عمر بن اسماعیل بن مجالد، محمد بن جعفر اور اہل شام میں سے ایک جھوٹا آدمی شامل ہے۔ شامی کذاب نے اسے عَنْ ہِشَامٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ کی سند سے بیان کیا ہے۔‘‘
(تعلیقات الدارقطني علی المجروحین لابن حبّان، ص : 179)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کی مکمل سند ذکر نہیں کی۔البتہ رجل مبہم کو کذاب ضرور قرار دیا ہے۔ اس کے باطل ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
روایت نمبر y : جعفر بن محمد بغدادی نے (تاریخ بغداد للخطیب : 172/7، الموضوعات لابن الجوزي : 350/1) میں متابعت کی ہے۔
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے ، کیونکہ اس کے راوی جعفر بن محمد بغدادی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ جَہَالَۃٌ ۔
’’یہ مجہول راوی ہے۔ ‘‘(میزان الاعتدال : 415/1)
نیز اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں : ہٰذَا مَوْضُوعٌ ۔
’’یہ من گھڑت روایت ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 415/1)
اس کے بارے میں ابو جعفر مطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ یَرْوِ ہٰذَا الْحَدِیثَ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ مِنَ الثِّقَاتِ أَحَدٌ، رَوَاہُ أَبُو الصَّلْتِ، فَکَذَّبُوہُ ۔
’’اس روایت کو ابو معاویہ سے کسی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا۔صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے،جس کو محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ ‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 172/7)
الحاصل :
ثابت ہوا کہ ابو صلت کا کوئی ثقہ متابع نہیں اور اس سند کا دارومدار ہی ابو صلت ’’متروک‘‘ پر ہے۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا حَدِیثُ أَبِي الصَّلْتِ الْہَرَوِيُّ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ، عَلٰی أَنَّہٗ قَدْ حَدَّثَ بِہٖ غَیْرُہٗ وَسَرَقَ مِنْہُ، مِنَ الضُّعَفَائِ ۔
’’یہ ابو صلت ہروی کی ابو معاویہ سے بیان کردہ حدیث ہے۔اس حدیث کو ابوصلت سے سرقہ کر کے کئی ضعیف راویوں نے بھی بیان کیا ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 341/2)
روایت نمبر u : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَبُو بَکْرٍ وَّعُمَرُ وَعُثْمَانُ سُوَرُہَا، وَعَلِيٌّ بَابُہَا، فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ، فَلْیَأْتِ الْبَابَ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں،ابو بکر، عمر اور عثمان اس کی دیواریں ہیں، علی اس کا دروازہ ہیں۔اب جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے،وہ دروازے سے آئے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 321/45، اللّآلي المصنوعۃ للسیوطي : 308، 307/1)
تبصرہ :
یہ باطل (جھوٹی)روایت ہے، کیونکہ :
1 اس کا راوی حسن بن تمیم بن تمام مجہول ہے،نیز اس کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع بھی مطلوب ہے۔
2 دوسرے راوی ابو القاسم عمر بن محمد بن حسین کرخی کی بھی توثیق درکار ہے۔
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرٌ جِدًّا إِسْنَادًا وَّمَتْنًا ۔
’’اس روایت کی سند اور متن دونوں سخت منکر ہیں۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 321/45)
روایت نمبر i : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ روایت بھی منسوب ہے :
’أَنَا مَدِینَۃُ الْعِلْمِ، وَأَبُو بَکْرٍ أَسَاسُہَا، وَعُمَرُ حِیطَانُہَا، وَعُثْمَانُ سَقْفُہَا، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘ ۔
’’میں علم کا شہر ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ، عمر اس کی چار دیواری، عثمان اس کی چھت اور علی اس کا دروازہ ہیں۔‘‘(تاریخ دمشق لابن عساکر : 20/9)
تبصرہ :
یہ سفید جھوٹ ہے۔اس کو گھڑنے والا اسماعیل بن علی بن مثنی استراباذی ہے۔
ائمہ دین کی رائے
اب اس روایت کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
1 امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ حَدِیثٌ لَّیْسَ لَہٗ أَصْلٌ ۔ ’’اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 99/6، وسندہٗ صحیحٌ)
نوٹ : امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے اس حدیث کو صحیح کہنا بھی ثابت ہے۔
(تاریخ بغداد للخطیب : 315/12، طبعۃ بشّار، وسندہٗ صحیحٌ)
ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے کا ہو اور کسی راوی کی صحیح حالت ظاہر ہوجانے کے بعد یہ رائے بدل گئی ہو۔ واللّٰہ أعلم بالصواب!
2 امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَحَدِیثُ أَبِي مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : ’أَنَا مَدِینَۃُ الْحِکْمَۃِ، وَعَلِيٌّ بَابُہَا‘، کَمْ مِّنْ خَلْقٍ قَدِ افْتَضَحُوا فِیہِ ۔
’’ابو معاویہ سے بیان کی گئی عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍکی سند سے یہ حدیث کہ میں حکمت کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔کتنے ہی اہل علم ہیں، جو اس میں عیب لگاتے ہیں۔‘‘
(سؤالات البرذعي : 753/2)
3 امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’منکر‘‘ قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 22/8)
4 امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ مُّنْکَرٌ ۔
’’یہ حدیث غریب و منکر ہے۔ ‘‘(سنن الترمذي : 3723)
5 امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا خَبَرٌ لَّا أَصْلَ لَہٗ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
’’یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔‘‘(المجروحین : 94/2)
6 امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْحَدِیثُ مُضْطَرَبٌ، غَیْرُ ثَابِتٍ ۔
’’یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے۔ ‘‘(العلل : 247/3، ح : 386)
7 امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَا یَصِحُّ فِي ہٰذَا الْمَتْنِ حَدِیثٌ ۔
’’اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 150/3)
8 امام ابو جعفر مطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں ـ:
لَمْ یَرْوِ ہٰذَا الْحَدِیثَ عَنْ أَبِي مُعَاوِیَۃَ مِنَ الثِّقَاتِ أَحَدٌ، رَوَاہُ أَبُو الصَّلْتِ، فَکَذَّبُوہُ ۔
’’اس روایت کو ابو معاویہ سے کسی ایک ثقہ راوی نے بھی بیان نہیں کیا۔صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔ ‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 172/7)
9 امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ مُّنْکَرٌ مَّوْضُوعٌ ۔
’’یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔ ‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 192/1)
0 حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَکُلُّ ہٰذِہِ الرِّوَایَاتِ غَیْرُ مَحْفُوظَۃٍ ۔
’’اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔‘‘(تاریخ دمشق : 380/42)
! حافظ ابن الجوزی نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
(الموضوعات : 533/1)
@ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَحَدِیثٌ بَاطِلٌ ۔
’’یہ جھوٹی حدیث ہے۔ ‘‘(تہذیب الأسماء واللغات : 490/1)
# حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَالْحَدِیثُ مَوْضُوعٌ، رَوَاہُ الْـأَعْمَشُ ۔
’’یہ حدیث من گھڑت ہے ،اسے اعمش نے بیان کیا ہے۔‘‘
(تاریخ الإسلام للذہبي : 1191/5، بتحقیق بشّار عوّاد معروف)
$ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے خودساختہ قراردیا ہے۔
(منہاج السنۃ : 515/7، أحادیث القصاص، ص :62، مجموع الفتاوٰی : 123/18)
% علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
(تخریج أحادیث الإحیاء للعراقي : 1830)
^ علامہ عبدالرحمن معلمی رحمہ اللہ نے بھی موضوع کہا ہے۔
(حاشیۃ الفوائد المجموعۃ للشوکاني، ص : 349)
صرف امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ’’صحیح الاسناد‘‘کہا ہے۔ان جمہور ائمہ متقدمین و متأخرین کی ’’تضعیف‘‘کے مقابلے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح ناقابل التفات ہے، کیونکہ وہ متساہل تھے۔یہ بات اہل علم پر بخوبی عیاں ہے۔
بعض متأخرین اہل علم،مثلاً؛حافظ علائی(النقد الصحیح بما اعترض من أحادیث المصابیح، ص : 55)،حافظ ابن حجر(اللآّلي المصنوعۃ للسیوطي : 334/1)،حافظ سخاوی (المقاصد الحسنۃ : 189)اور علامہ شوکانی(الفوائد المجموعۃ، ص : 349)کا اسے ’’حسن‘‘ قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
الحاصل :
یہ حدیث اپنی تمام سندوں کے ساتھ ’’ضعیف و منکر‘‘ہے۔حدیث ابن عباس کے تمام طرق أَبُو مُعَاوِیَۃَ عَنِ الْـأَعْمَشِ، عَنْ مُّجَاہِدٍ سے مروی ہیں،لہٰذا یہ بھی ’’ضعیف و مدلَّس‘‘ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ہمارے سر آنکھوں پر،لیکن جھوٹی ،’’منکر‘‘ اور ’’ضعیف‘‘ سندوں سے مروی روایات کو فضیلت قرار دینا قطعاً صحیح نہیں۔
صحیح و ثابت فضائل و مناقب کی روشنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اتنی واضح ہے کہ اسے ایسی روایات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی،جن کو محدثین کرام نے قبول نہیں کیا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.