554

باغی گروہ کا تعارف:

باغی گروہ کا تعارف

مرزا صاحب نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کے دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں ایسی الفاظ بولے ہیں کہ وہ سخت توہیں میں آتے ہیں، مثال کے طور پر مرزاصاحب کے چند الفاظ ہم یہاں نقل کر دئیے دیتے ہیں۔
انہوں نے دین برباد کر دیا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مخالفین نےڈھونگ رچایا۔
سیدنا معاویہ،سیدنا مغیرہ بن شعبہ، سیدنا عمرو بن عاص، سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنھم ان سب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نام لیکر وہ کہتے ہیں کہا”ان صحابہ نے امت نال کم پایا اے”یعنی ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے امت کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ کیا ہے۔ نعوذ باللہ۔
جن کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ” ان صحابہ نے امت نال کم پایا اے”انہوں نے ڈھونگ رچایا ہے، اور آپ کہتے ہیں کہ ہم صرف لعنت سے رکتے ہیں، باقی ان کے بارے میں کوئی دفاع نہیں کرتے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ :
ہم آپ کو یاد کرواتے ہیں کہ آپ نے سورہ فتح کی تفسیر کرتے ہوئے کہا تھا کہ”یہ جو رضی اللہ عنھم ورضواعنہ والی آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے خاص ہے، یہ سب صحابہ کے لیے نہیں ہے(ہم نے ان باتوں کا تحریری جواب بھی دیا اور تقریروں میں )اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ (جن کے بارے میں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے امت نال کم پایا اے)کے بارے میں( صحیح بخاری2731)صلح حدیبیہ کے موقع پرجب مذاکرات ہو رہے تھے،اس وقت عروبن مسعود مسلمان نہیں تھے ، کافروں کی طرف سے بطور سفیر آئے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی کو ہاتھ لگا لگا کر بات کر رہے تھےتو اس وقت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کے پاس کھڑے تھےاور اپنی تلوار اک دستہ عروہ بن مسعود کے ہاتھ پر مار کر کہتے تھے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے پلید ہاتھ کو دور کرو۔حالانکہ عروہ بن مسعود ثقفی سیدنا مغیربن شعبہ رضی اللہ عنہ کے جگری یار تھےاور عروہ نے اس بات کا شکوہ بھی کیا ۔۔لیکن مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ہیں۔
صحیح بخاری کی اس حدیث کے مطابق سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ والے صحابی ہیں اور آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ رضی اللہ عنھم ورضواعنہ والی آیت صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لیے خاص ہے،چلو اتنا تو مانوکہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اللہ راضی ہو چکا تھااور ان کی زندگی میں ہی اللہ نے ان کو جنت اک سرٹیفیکیٹ دے دیا تھا، جن کو جنت کی گارنٹی ملی ہو ان کے بارے میں یہ کہتے ہو کہ ” ان صحابہ نے امت نال کم پایا اے”یہ احترام ہے ان کا ؟کیا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس گواہی کے منافی نہیں ہے؟
آپ نے رافضیوں کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ” ان صحابہ نے امت نال کم پایا اے”انہوں نے ڈھونگ رچایا، کیا یہ احترامِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہے؟انا للہ وانا الیہ راجعون۔
سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ :
مسند احمد(8042)سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ابْنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ: عَمْرٌو وَهِشَامٌ
عاص کے دونوں بیٹےمومن ہیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بھی لیے،عمرو بن عاص اور ہشام بن عاص رضی اللہ عنھما ۔
جس کے ایمان کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود دیں آپ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ” انہوں نے امت نال کم پایا اے”؟ان کو آپ بد نیت قراردیتے ہیں کہ جن کے ایمان کی گواہی بذریعہ وحی دے گئی۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ :
مسند احمد(22952)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے سنااور تلاوت سن کر اپنےساتھ موجود صحابی سے پوچھا کہ :
تُرَاهُ مُرَائِيًا؟
آپ کا کیا خیال ہے،آپ انہیں ریا کار سمجھتے ہیں؟
تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہی بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ، لَا. بَلْ مُؤْمِنٌ مُنِيبٌ
نہیں، یہ تو مومن ہیں، اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع کرنے والے ہیں۔
جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ وحی ایسی بشارتیں دیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ ڈھوگ رچاتے رہے، یہ امت کے ساتھ دھوکہا ور فراڈ کرتے رہے ہیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
قیامت کے دن اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دیکھائیں گے؟ہمیں آپ سے ہمدردی ہے،اللہ کے لیے ہماری باتوں پر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا یہ جو باتیں آپ نے کی ہیں یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے احترام کے منافی ہیں یا نہیں؟اللہ آپ کو ہدایت نصیب فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.