1,106

بڑی عمر میں عقیقہ، حافظ ابویحیی نوری پوری حفظہ اللہ

عقیقہ ایک مسنون عمل ہے۔شریعت نے اس کی طرف تاکیداً رہنمائی کی ہے۔کئی دیگر شرعی امور کی طرح شریعت نے اس کا بھی وقت مقرر کیا ہے اور وہ ہے ساتواں دن۔ احادیث ِ نبویہ سے امت کو یہی تعلیم ملتی ہے، جیسا کہ :
n سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘کُلُّ غُلَامٍ مُّرْتَہَنٌ بِعَقِیقَتِہٖ، یُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ السَّابِعِ، وَیُحْلَقُ رَأْسُہ،، وَیُسَمّٰی’
”ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی رکھا جاتاہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے،اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے ۔ ”
(مسند الإمام أحمد : 22,18,17,12,8,7/5، سنن أبي داو،د : 2838، سنن الترمذي : 1522، سنن النسائي : 4225، سنن ابن ماجہ : 3165، المنتقٰی لابن الجارود : 910، وسندہ، صحیحٌ)
دیگر شرعی مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف دلائل کو دیکھنے کے بعد اہل علم کا تھوڑا سا اختلاف ہوا۔وہ اس طرح کہ اسلافِ امت میں سے بعض اہل علم نے کچھ روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتویں دن کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن بھی عقیقے کی مشروعیت کا فتویٰ دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ چودھویں یا اکیسویں دن والی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہو سکیں۔لہٰذا صرف ساتویں دن عقیقے کی مشروعیت والا قول ہی راجح ہے۔
یہ اختلاف تو تھامحض ساتویں کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن کو ملانے کا، رہا ساتویں دن سے پہلے یا اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کرنا تو یہ اسلافِ امت،یعنی صحابہ وتابعین اور ائمہ دین سے قطعاً ثابت نہیں۔ہمارے علم کے مطابق خیرالقرون،بلکہ اس کے بعد بھی پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کوئی اہل علم چودھویں اور اکیسویں دن کے علاوہ ساتویں دن سے پہلے یا بعد عقیقے کا قائل و فاعل نہیں تھا۔
پانچویں صدی ہجری میںظاہری نظریے کے حامل بعض اہل علم نے عقیقے کی احادیث کے ظاہری الفاظ سے اس کی فرضیت کا حکم کشید کیا اور پھر اسی بنا پر فتویٰ دیا کہ عقیقہ چونکہ فرض ہے ، لہٰذا بچہ ساتویں دن تک زندہ رہے یا نہ رہے ، عقیقہ کرنا ہی پڑے گا،البتہ ساتویں دن سے پہلے عقیقہ نہیں کیا جا سکتا،اگر ساتویں دن بچے کا عقیقہ نہیں کیا گیا تو زندگی میں جب بھی ممکن ہو، عقیقہ کیا جائے۔علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ (456-384ھ) کا یہی فتویٰ تھا۔
(المحلّٰی بالآثار : 234/6)
اسلافِ امت کی تعلیمات کے خلاف یہ ایک شاذ قول تھا۔جب یہ فتویٰ دیاگیاتواسی دور کے محدث الاندلس، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463-368ھ)نے سخت الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: وَأَجَازَ بَعْضُ مَنْ شَذَّ أَنْ یَّعُقَّ الْکَبِیرُ عَنْ نَّفْسِہٖ . ”بعض شاذ لوگوں نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ بالغ شخص اپنا عقیقہ خود کر لے۔”
(الاستذکار : 318/5)
بعض جید اور قابل قدر اہل علم کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ بڑی عمر کا شخص بھی عقیقہ کر سکتا ہے۔انہوں نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے اس فتوے کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے : ”اس قول کا کوئی بھی مخالف نہیں، بلکہ ابن القیم وغیرہ اس کے مؤیدین میں سے ہیں۔”(ماہنامہ ضرب حق، شمارہ 11، ص 42)
ان کی اطلاع کے لیے مؤدبانہ عرض ہے کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تو ابن حزم رحمہ اللہ سے تین صدی بعد آئے ہیں۔ ان کی طرف سے ابن حزم رحمہ اللہ کی موافقت کوئی فائدہ نہیں دے گی،کیونکہ ان سے تین صدیاں پہلے ابن حزم رحمہ اللہ کے ہم عصر ، ہم علاقہ اور ان سے سات سال بعد دنیا سے کوچ کرنے والے عالم،علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس فتوے کو ایک شاذ قول قرار دے کر ردّ کر دیا تھا اور حدیثی دلائل(جن کو ہم بعد میں ذکر بھی کریں گے) دیتے ہوئے فرمایاتھا : وَذٰلِکَ کُلُّہ، سَوَاءٌ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْعَقِیقَۃَ عَنِ الْغُلَامِ، لَا عَنِ الْکَبِیرِ .
”ان سب احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ بچے ہی کا ہو گا، بڑے کا نہیں۔”(الاستذکار : 318/5)
دوسری بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے موافقت نہیں کی بلکہ جس طرح ابن حزم رحمہ اللہ نے ایک شاذ اجتہاد کے ذریعے ساتویں دن کے بعد پوری عمر عقیقے کا شاذ فتویٰ دیاجس میں ان کا کوئی سلف نہ تھا،اسی طرح ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے شاذ اجتہاد کے ذریعے ساتویں دن سے پہلے بھی عقیقہ کرنے کا شاذ فتویٰ جاری کر دیا جس میں ان کا بھی کوئی سلف نہ تھا۔دونوں اہل علم میں فرق صرف یہ ہوا کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ساتویں دن کے بعد پوری عمر کے لیے مدت ِ عقیقہ میں توسیع کی اور ابن القیم رحمہ اللہ نے ساتویں دن سے پہلے بھی اس کی رخصت دے دی اور ان دونوںمیں قدر مشترک یہ ہوئی کہ عقیقے کے مسئلے میں صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کا دامن ان میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں نہیںرہا۔
ہمارے قابل قدر اہل علم نے ابن حزم رحمہ اللہ کے قول کو صحیح قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے : ”اس قول کے صحیح ہونے پر(ہمارے علم کے مطابق)اجماع ہے۔”
(ماہنامہ ضرب حق، شمارہ 11، ص 42)
اجماع کا یہ دعویٰ بہت عجیب ہے۔ابن حزم رحمہ اللہ کے معاصر علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کے مذکورہ صریح فتوے کے بعد اس دعوے کی کوئی گنجائش نہیں۔ابن حزم کے ایک اور ہم عصروہم علاقہعالم،شارحِ بخاری،علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م:449ھ)کا یہ قول سونے پر سہاگہ ہے، وہ لکھتے ہیں : لَا یُعَقُّ عَنِ الْکَبِیرِ، وَعَلٰی ہٰذَا أَئِمَّۃُ الْفَتْوٰی بِالْـأَمْصَارِ .
”بڑے کی طرف سے عقیقہ نہیں کیا جا سکتا۔تمام علاقوں کے مفتی ائمہ کا یہی مذہب ہے۔”(شرح صحیح البخاري : 375/5)
اس کے بعد نویں صدی ہجری میں علامہ عینی حنفی نے بھی بڑے کی طرف سے عقیقہ نہ ہونے کو تمام ائمہ فتویٰ کا مذہب قرار دیا۔(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 86/21)
پھر بارہویں صدی ہجری میں شیخ عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ (1206-1115ھ)نے لکھا :
اَلْعَقِیقَۃُ عَنِ الْکَبِیرِ، مَا عَلِمْتُ لَہ، أَصْلًا . ”بڑی عمر کے شخص کی طرف سے عقیقے کی کوئی دلیل میرے علم میں نہیں۔”(الدرر السنیّۃ في الأجوبۃ النجدیّۃ : 410/5)
پھر تیرہویں صدی ہجری میں علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ (م : 1250ھ)نے لکھا :
إِنَّ وَقْتَ الْعَقِیقَۃِ سَابِعُ الْوِلَادَۃِ، وَأَنَّہَا تَفُوتُ بَعْدَہ، .
”بلاشبہ عقیقے کا وقت ولادت کا ساتواں دن ہے، اس کے بعد اس کا وقت نکل جاتا ہے۔”(نیل الأوطار : 157/5)
پھر چودہویں صدی ہجری میں علامہ شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : 1329ھ)نے لکھا :
إِنَّ وَقْتَ الْعَقِیقَۃِ سَابِعُ الْوِلَادَۃِ، وَأَنَّہَا لَا تُشْرَعُ قَبْلَہ، وَلَا بَعْدَہ، .
”عقیقے کا وقت ولادت کا ساتواں دن ہی ہے۔ اس سے پہلے یا بعد میں عقیقہ کرنا مشروع نہیں۔”(عون المعبود شرح سنن أبي داو،د : 28/8)
پھر اسی صدی میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353ھ)نے بھی لکھا کہ :
وَالظَّاہِرُ أَنَّ الْعَقِیقَۃَ مُؤَقَّتَۃٌ بِالْیَوْمِ السَّابِعِ . ”راجح بات یہی ہے کہ عقیقہ کے لیے صرف ساتواں دن مقرر ہے۔”(تحفۃ الأحوذي : 98/5)
یعنی حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے پہلے بھی کوئی اہل علم بڑی عمر میں عقیقے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیتا تھا اور پھر ان کے دور سے لے کر آج تک اہل علم دلائل کے ساتھ بڑی عمر میں عقیقے کو ناجائز قرار دیتے رہے اور عقیقے کو بچے کے ساتھ خاص سمجھتے رہے۔
اس بحث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ابن حزم رحمہ اللہ سے پہلے تک اہل علم کا اس بات پر اجماع رہا کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا۔ انہوں نے اس اجماع کے خلاف جو شاذ فتویٰ دیا، اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اہل علم کے نزدیک اجماعی مسائل میں ابن حزم رحمہ اللہ کے ایسے شاذ نظریات سے اجماع کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ہماری اس بات کی تائید کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
1 علامہ احمد بن عبد الرحیم بن حسین المعروف بہ ابن العراقی رحمہ اللہ (م : 826ھ) لکھتے ہیں : وَمَنْ تَبَرَّعَ بِصَدَقَۃٍ عَنْ حَمْلٍ رَجَاءَ حِفْظِہٖ وَسَلَامَتِہٖ، فَلَیْسَ عَلَیْہِ فِیہِ بَأْسٌ، وَقَدْ نُقِلَ الِاتِّفَاقُ عَلٰی عَدَمِ الْوُجُوبِ قَبْلَ مُخَالَفَۃِ ابْنِ حَزْمٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ قَالَ وَالِدِي رَحِمَہُ اللّٰہُ : وَمَعَ کَوْنِ ابْنِ حَزْمٍ قَدْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ فِي وُجُوبِہَا عَلَی الْجَنِینِ فَقَدْ تَنَاقَضَ کَلَامُہ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
”جو شخص حفاظت اور سلامتی کی امید سے پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے نفلی طور پر صدقہ فطر ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی مخالفت سے پہلے حمل پر صدقہ فطر کے واجب نہ ہونے پراتفاق منقول ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میرے والد(حافظ عراقی رحمہ اللہ )نے فرمایا : ابن حزم رحمہ اللہ نے جہاں حمل پر صدقہ فطر کے وجوب کا فتویٰ دے کر اجماع کی مخالفت کی ہے ، وہاں ان کی کلام بھی متناقض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
(طرح التثریب في شرح التقریب : 61/4)
2 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں : وَلَمْ یَعْتَبِرِ ابْنُ قُدَامَۃَ مُخَالَفَتَہ، ہٰذِہٖ، فَحَکَی الإِجْمَاعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ .
”علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ابن حزم رحمہ اللہ کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں کیا اور اجماع ہی نقل کیاہے۔”(فتح الباري : 529/3)
مانعین کے دلائل
بڑی عمر میں عقیقہ کے غیر مشروع ہونے کے حوالے سے ایک حدیث تو اس مضمون کے شروع میں ذکر کی جا چکی ہے۔اس میں عقیقے کا وقت چونکہ ساتواں دن بتایا گیا ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ چھوٹی عمر ہی میں کرنا چاہیے۔مزید وضاحت اس حدیث کے بعد ملاحظہ فرمائیں:
2 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘مَنْ وُّلِدَ لَہ، وَلَدٌ، فَأَحَبَّ أَنْ یَّنْسُکَ عَنْہُ فَلْیَنْسُکْ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ وَعنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ’
”جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو کر لے۔ بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری۔”
(سنن أبي داو،د : 2842، السنن الکبرٰی للبیہقي : 505/9، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث میں دو مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا۔ ”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو ۔” کے الفاظ اس بات میں صریح ہیں کہ عقیقے کا وقت بچے کی پیدائش کے قریب قریب ہی ہے اور اس کی وضاحت ساتویں دن کے الفاظ کے ساتھ ہماری ذکر کردہ پہلی حدیثمیں موجود ہے۔
3 سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘مَعَ الْغُلَامِ عَقِیقَۃٌ، فَأَہْرِیقُوا عَنْہُ دَمًا، وَأَمِیطُوا عَنْہُ الْـأَذٰی’
”بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، لہٰذا تم اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس کی گندگی دُور کرو(یعنی اس کے بال مونڈھو اور ختنہ کرو)۔”(صحیح البخاري : 5471)
اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں: ‘فِي الْغُلَامِ عَقِیقَۃٌ/عَنِ الْغُلَامِ عَقِیقَۃٌ’ ”بچے کی طرف سے عقیقہ ہے۔”
(مسند أحمد : 16238، 16239، سنن النسائي : 4219، السنن الکبرٰی للبیہقي : 298/9)
اس حدیث میں بھی عقیقے کا تعلق بچے ہی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور بچے ہی کی طرف سے جانور ذبح کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ بچے کا معاملہ ہے :
بَابُ إِمَاتَۃِ الْـأَذٰی عَنِ الصَّبِيِّ فِي الْعَقِیقَۃِ .
”عقیقے میں بچے کے بال مونڈھنے اور ختنہ کرنے کا بیان۔”
شارحِ بخاری علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م : 449ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وَقَوْلُہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ‘مَعَ الْغُلَامِ عَقِیقَتُہ،’ حُجَّۃٌ لِّقَوْلِ مَالِکٍ أَنَّہ، لَا یُعَقُّ عَنِ الْکَبِیرِ، وَعَلٰی ہٰذَا أَئِمَّۃُ الْفَتْوٰی بِالْـأَمْصَارِ .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے ،امام مالک کے اس قول(؟) کی دلیل ہے کہ بڑے کی طرف سے عقیقہ نہیں ہو گا۔اور اسی بات پر تمام علاقوں کے مفتی ائمہ دین قائم ہیں۔”(شرح صحیح البخاري : 375/5)
علامہ بدر الدین عینی حنفی(م : 855ھ)نے بھی اس حدیث سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : 88/21)
4 اس حدیث کے راوی صحابی سیدنا سلمان بن عامر ضبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
[اَلْعَقِیقَۃُ مَعَ الْوَلَدِ] ”عقیقہ بچے کے ساتھ ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 298/9، وسندہ، صحیحٌ)
5 سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے : عَنِ الْغُلَامِ وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ شَاۃٌ . ”بچے اور بچی دونوں کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک بکری ذبح کی جائے۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 114/5، وسندہ، صحیحٌ)
6 ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ کے بارے بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، کَانَ یَعِقُّ عَنِ الْغُلَامِ وَالْجَارِیَۃِ شَاۃً شَاۃً . ”آپ بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ کرتے تھے۔”(أیضًا، وسندہ، صحیحٌ)
7 امام زہری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے : یُعَقُّ عَنِ الْغُلَامِ وَالْجَارِیَۃِ شَاۃٌ . ”بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ کر دی جائے تو کافی ہے۔”
(أیضًا : 115/5، وسندہ، صحیحٌ)
8 سیدہ عائشہr فرمایا کرتی تھیں : عَلَی الْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَلَی الْجَارِیَۃِ شَاۃٌ . ”بچے پر دو بکریاں اور بچی پر ایک بکری عقیقہ کی جائے۔”
(مصنف عبد الرزّاق : 328/4، وسندہ، صحیحٌ)
ان سب احادیث اور تمام آثار میں غُلَام(بچے)اور جَارِیَہ (بچی) کے الفاظ پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہیں کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا ، بڑے کا نہیں کیونکہ غلام اور جاریہ کا لفظ چھوٹے بچے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صحیح حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
‘فَإِنَّہ، یُغْسَلُ بَوْلُ الْجَارِیَۃِ، وَیُرَشُّ مِنْ بَوْلِ الْغُلَامِ’
”بلاشبہ بچی کے پیشاب کو دھویا جائے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں۔”
(سنن أبي داو،د : 376 ، سنن النسائي : 305 ، سنن ابن ماجہ : 526 ، واللفظ لہ،، وسندہ، حسنٌ)
جس طرح پیشاب پر چھینٹے مارنے کے حوالے سے غُلَام اور جَارِیَۃ ،یعنی بچے اور بچی میں فرق صرف چھوٹی عمر میں ہی ہوتا ہے،بڑی عمر میں یہ فرق ختم ہو جاتا ہے ، اسی طرح عقیقے کے لیے بھی چھوٹی عمر(ساتواں دن) ہی ضروری ہے، بڑی عمر میں عقیقے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
مجوزین کے دلائل
اب قارئین کرام بڑی عمر میں عقیقے کے جواز کا فتویٰ دینے والے اہل علم کے دلائل ملاحظہ فرمائیں :
1 عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَقَّ عَنْ نَّفْسِہٖ بَعْدَ مَا بُعِثَ نَبِیًّا . ”سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔”(المعجم الأوسط للطبراني : 298/1، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مجوزین اہل علم نے لکھا ہے :
”اس حدیث سے یہ مسئلہ صاف ثابت ہے کہ اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو بعد میں جب موقع ملے(مثلاً چالیس سال بعد)عقیقہ کرنا جائز ہے اور اسے ناجائز قرار دینا غلط ہے۔”(ماہنامہ ضرب حق، شمارہ 11، ص 41)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عقیقہ کرنا ایک خاص عمل تھا۔کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑی عمر میں عقیقہ امت کے لیے جائز ہو اور پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کوئی ایک بھی اہل علم ایسا نہ ملے جو بڑی عمر میں عقیقے کا قائل و فاعل ہو اورپھر اگر پانچویں صدی میں کوئی ایسا فتویٰ دے بھی دے تو اہل علم اس کا سختی سے ردّ کرتے ہوئے اسے شذوذ قرار دیں؟مذکورہ حدیث میں یہ بات کہیں موجود نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ ہوا ہی نہیں تھا یا کسی وجہ سے رہ گیاتھا۔اگر کوئی یہ کہہ دے کہ زمانہئ جاہلیت میں عقیقے کا رواج نہ تھا یا اس دور کے عقیقے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر نہ سمجھا تو صحابہ کرام] جن میں سے اکثر اسی زمانے میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنا عقیقہ مسلمان ہونے اور فرصت ملنے کے بعد کیوں نہ کیا؟صحیح بات یہ ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : وَیَحْتَمِلُ أَنْ یُّقَالَ : إِنْ صَحَّ ہٰذَا الْخَبَرُ کَانَ مِنْ خَصَائِصِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا قَالُوا فِي تَضْحِیَتِہٖ عَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِہٖ . ”یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے قربانی نہ کر سکنے والے لوگوں کی طرف سے قربانی کی تو علمائے کرام نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔”
(فتح الباري : 595/9)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی یہ احتمال ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے : أَوْ ہُوَ مِنْ خَصَائِصِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا ضَحّٰی عَمَّنْ لَّمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِہٖ، وَقَدْ عَدَّہ، بَعْضُہُمْ مِّنْ خَصَائِصِہٖ . ”یا پھر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے نادار لوگوں کی طرف سے قربانی کی اور علمائے کرام نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ شمار کیا۔”(فتح الباري : 595/9)
یہی احتمال علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔(تحفۃ الأحوذي : 97/5)
نوٹ : محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ (1914-1332ھ)بعثت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیقے والی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وَقَدْ ذَہَبَ بَعْضُ السَّلَفِ إِلَی الْعَمَلِ بِہٖ . ”بعض سلف نے اس حدیث کے مطابق عمل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ وشيء من فقہہا وفوائدہا : 506/6)
آئیے ان کے ذکر کردہ اور دیگر آثارِ سلف کا جائزہ لیتے ہیں:
n محمدبن سیرین تابعی رحمہ اللہ کی طرف یہ قول منسوب ہے :
لَو أَعْلَمُ أَنَّہ، لَمْ یُعَقَّ عَنِّي، لَعَقَقْتُ عَنْ نَّفْسِي . ”اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرا عقیقہ نہیں کیا گیا تو میں اپنا عقیقہ خود کر لوں۔”(مصنف ابن أبي شیبۃ : 113/5)
لیکن اس کی سند حفص بن غیاث کی ”تدلیس” اور اشعث کے عدم تعین کی بنا پر ”ضعیف” ہے۔
n محمد بن سیرین رحمہ اللہ ہی کے بارے میں یوں بھی مروی ہے :
کَانَ لَا یَرٰی بَأْسًا أَنْ یُّعَقَّ قَبْلَ السَّابِعِ أَوْ بَعْدَہ،، وَکَانَ یَقُولُ : اجْعَلْ لَحْمَ الْعَقِیقَۃِ کَیْفَ شِئْتَ . ”آپ ساتویں دن سے پہلے یا بعد عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے : عقیقے کے گوشت کو جیسے چاہو استعمال کرو۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ : 115/5)
یہ قول بڑوں کے عقیقے کے سلسلے میں غیرصریح ہونے کے ساتھ ساتھ ”ضعیف” بھی ہے۔ سلیمان بن طرخان تیمی ”مدلس” ہیں اور ان کی طرف سے سماع کی تصریح ثابت نہیں۔
n امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے ایک قول مروی ہے کہ :
إِذَا لَمْ یُعَقَّ عَنْکَ، فَعُقَّ عَنْ نَفْسِکَ، وَإِنْ کُنْت رَجُلًا .
”اگر تیری طرف سے عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو تُو اپنا عقیقہ خود کر لے، چاہے تو بالغ ہی کیوں نہ ہو چکا ہو۔”(المحلّٰی لابن حزم : 240/6)
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس روایت کی پوری سند ذکر نہیں کی بلکہ امام وکیع بن جراح سے سلسلہ سند شروع کیا ہے۔امام وکیع رحمہ اللہ ،ابن حزم رحمہ اللہ کے پیدا ہونے سے تقریباً دو صدیاں پہلے دنیا سے رخت ِسفر باندھ چکے تھے۔لہٰذا یہ سند سخت منقطع ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس کی سند کو ”حسن” قرار دینا تعجب خیز ہے!
n امام عطاء بن ابی رباح تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
حَدَّثَنِي أَبُو بَکْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ ہَانِیئٍ : حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ الْـأَسْوَدِ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ : حَدَّثَنَا طَرِیفُ بْنُ عِیسٰی، قَالَ : قُلْتُ لِعَطَاءٍ فِي الْعَقِیقَۃِ، قَالَ : شَاۃٌ فِي الْغُلَامِ وَشَاۃٌ فِی الْجَارِیَۃِ، قَالَ : فَإِنْ لَّمْ یُعَقَّ عَنْہُ فَکَسَبَ الْغُلَامُ، عَقَّ عَنْ نَفْسِہٖ . ”طریف بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ میں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے عقیقے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری کفایت کر جاتی ہے۔اگر بچے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جا سکے اور وہ بڑا ہو کر کمائی کرے تو اپنی طرف سے عقیقہ کرے۔”
(النفقۃ علی العیال لابن أبی الدنیا : 213/1)
لیکن اس کے راوی طریف بن عیسیٰ عنبری کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 327/8)کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔وہ چونکہ مجہول راویوں کی توثیق کر دیتے ہیں،لہٰذا ان کی منفرد توثیق کا کوئی اعتبار نہیں۔یہ راوی مجہول الحال ہی ہے۔شاید اس کی سند میں ایک اور علت بھی ہو۔
معلوم ہوا کہ سلف میں سے کوئی بھی بڑی عمر میں عقیقے کی مشروعیت کا قائل و فاعل نہیں تھا۔صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا اس کام سے رک جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔سلف کا منہج اور محدثین کا طریقہ یہی ہے کہ جب صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کسی حدیث پر عمل کرنے سے باز رہیں تو اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کا تبرک لینا ثابت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے غیرنبی کے بارے میں ایسا کام ثابت نہیں، لہٰذا اہل سنت والجماعت نے تبرکات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھ لیا۔اسی بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (590-538ھ)لکھتے ہیں :
إِنَّ الصَّحَابَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بَعْدَ مَوْتِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَقَعْ مِنْ أَحَدٍ مِّنْہُمْ شَيْء ٌ مِّنْ ذٰلِکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَمْ یَثْبُتْ لِوَاحِدٍ مِّنْہُمْ مِنْ طَرِیقٍ صَحِیحٍ مَّعْرُوفٍ أَنَّ مُتَبَرِّکًا تَبَرَّکَ بِہٖ عَلٰی أَحَدِ تِلْکَ الْوُجُوہِ أَو نَحْوِہَا، بَلِ اقْتَصَرُوا فِیہِمْ عَلَی الِاقْتِدَاءِ بِالْـأَفْعَالِ وَالْـأَقْوَالِ وَالسِّیَرِ الَّتِي اتَّبَعُوا فِیہَا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَہُوَ إِذاً إِجْمَاعٌ مِّنْہُمْ عَلٰی تَرْکِ تِلْکَ الْـأَشْیَاءِ کُلِّہَا.
”صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا کوئی کام سرزد نہیں ہوا۔ان میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ اس نے اس طرح کوئی تبرک لیا ہو۔ بلکہ وہ اس سلسلے میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور سیرت ِطیبہ سے رہنمائی لینے تک محدود ہو گئے۔ چنانچہ صحابہ کرام کا یہ عمل ان سب تبرکات کو چھوڑ دینے پر اجماع ہے۔”(الاعتصام : 302,301/2)
2 رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ‘کُلُّ غُلَامٍ مُّرْتَہَنٌ بِعَقِیقَتِہٖ’
”ہربچہ اپنے عقیقے کے عوض رہن رہتاہے۔”(المنتقٰی لابن الجارود : 910، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بڑی عمر میں عقیقے کے قائل اہل علم نے لکھا ہے : ”جب ہر بچہ عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے تو ہر رہن کو چھڑانا بھی چاہیے اور شرعی عذر وغیرہ سے رہ جانے والے انسانوں کو چاہیے جب موقع ملے عقیقہ کر کے بچےکو اس رہن سے چھڑا لیں۔”(ماہنامہ ضرب حق، شمارہ 11، ص 42)
ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عقیقے کا مرہون بچہ ہی ہوتا ہے ، بڑا نہیں، لہٰذا جب کوئی شخص بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اس رہن سے خودبخود آزاد ہو جاتا ہے۔
پھر مذکورہ عبارت میں ہمارے قابل احترام اہل علم کے قلم نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ مرہون صرف بچہ ہوتا ہے اور موقع ملنے پر بچے ہی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا، بڑے کا نہیں۔ بچے کے بارے میں بھی ساتویں دن کی قید احادیث سے ثابت ہو چکی ہے۔بعض اسلاف ِامت نے جو چودھویں اور اکیسویں دن تک کی رخصت دی ہے تو اس کی وجہ بعض”ضعیف” روایات ہیں۔اسی وجہ سے اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کے قائل و فاعل ہونے کی کوئی مثال خیر القرون کے بہترین عہد میں نہیں ملتی۔
اوریہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وَالعَمَلُ عَلٰی ہٰذَا عِنْدَ أَہْلِ العِلْمِ، یَسْتَحِبُّونَ أَنْ یُّذْبَحَ عَنِ الغُلاَمِ العَقِیقَۃُ یَوْمَ السَّابِعِ، فَإِنْ لَّمْ یَتَہَیَّأْ یَوْمَ السَّابِعِ، فَیَوْمَ الرَّابِعَ عَشَرَ، فَإِنْ لَّمْ یَتَہَیَّأْ عُقَّ عَنْہُ یَوْمَ حَادٍ وَّعِشْرِینَ . ”اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔وہ بچے کی طرف سے ساتویں دن جانور ذبح کرنا مستحب سمجھتے ہیں۔اگر ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن۔”
(جامع الترمذي، تحت الحدیث : 1522)
یعنی صحابہ و تابعین و ائمہ دین جنہوں نے اس حدیث پر عمل کیا ہے ،وہ صرف ساتویں ، چودھویں اور اکیسویں دن ہی بچے کے عقیقے کے قائل رہے ہیں۔امام صاحب کے اس قول سے روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ ان کے دور تک اکیسویں دن کے بعد عقیقے کا کوئی اہل علم قائل نہ تھا، نیز امام صاحب کے نزدیک حدیث پر عمل کا یہی تقاضا تھا۔ بڑی عمر والوں کے لیے صحابہ و تابعین میں سے کسی نے عقیقہ کرنے کی رخصت نہیں دی۔ایسا کیوں ہوا؟ صرف اس لیے کہ حدیث میں عقیقے کے سلسلے میں ذکربچے ہی کا ہے، بڑے کا نہیں۔ فَلْیُتَدَبَّرْ !
بطور یاددہانی یہ عرض کرتے چلیں کہ جن احادیث سے ہم نے صرف بچے کے لیے عقیقے کا استدلال کیا ہے، ان احادیث سے استدلال کرنے میں ہمیں اولیت حاصل نہیں، بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا،امام ترمذی رحمہ اللہ ، دیگر ائمہ دین، حافظ ابن بطال اور حافظ ابن عبدالبر وغیرہم کا فہم ہمارے پیش نظر رہا ہے۔لیکن بڑی عمر میں عقیقے کے مجوزین احادیث سے استدلال کرنے میں اپنا کوئی سلف نہیں رکھتے۔رہے حافظ ابن حزم اور حافظ ابن القیمH تو وہ ان کے سلف نہیں بن سکتے۔ ابن حزم اس لیے کہ وہ عقیقے کے وجوب کے قائل ہیں اور اسی وجوب کو دلیل بنا کر انہوں نے عمر کے کسی بھی حصے میں اس کی ادائیگی کا موقف اپنایا،نیز وہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جانے والے بچے کا عقیقہ بھی واجب سمجھتے ہیں اور ابن القیم اس لیے نہیں کہ وہ عقیقے کے لیے کوئی مدت مقرر سمجھتے ہی نہیں ، اسی لیے انہوں نے ساتویں دن سے پہلے بھی عقیقے کو جائز قرار دیا۔ہمارے قابل قدر اہل علم ان دونوں سے اتفاق نہیں رکھتے،بلکہ وہ عقیقے کے وجوب اور ساتویں دن سے پہلے عقیقے کی رخصت،دونوں باتوں کو شذوذ سمجھتے ہیں۔پھر اگر وہ اس مسئلے میں ان دونوں حفاظ کو اپنا سلف مان بھی لیں تو ان دونوں اصحاب کی شاذ بات ان کے اپنے سلف، یعنی صحابہ وتابعین اور ائمہ دین کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ بھلا کیا حیثیت رکھے گی؟
معلوم ہوا کہ ہمارے قابل قدر اہل علم کا یہ کہنا درست نہیں کہ : ”اگر کسی عذر کی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ کی سنت پر عمل نہ ہو سکے تو پھر جب بھی زندگی میں موقع ملے عقیقہ کر لینا چاہیے اور یہی راجح و صواب ہے۔”(ماہنامہ ضرب حق : شمارہ 11، ص : 42)
ویسے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بڑی عمر میں عقیقہ کرنے کے لیے عذر کی بنا پر رہنے کی شرط کیوں ہے؟ اگر کسی شخص کے والدین نے بغیر کسی شرعی عذر کے اس کا عقیقہ نہ کیا اور وہ جوان ہو گیاتوکیااب وہ مرہون نہیں رہا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اگر ہے تو اس شرط کا کیا فائدہ؟
الحاصل : نصوصِ شرعیہ کی روشنی میں عقیقہ بچپن ہی میں اور ساتویں دن ہی مشروع ہے۔ہمارے اسلافِ صالحین سے یہی منقول ہے۔اگرچہ بعض سلف نے چند روایات کے مد نظر چودھویں اور اکیسویں دن بھی عقیقے کی رخصت دی ہے لیکن وہ روایات ”ضعیف” ہونے کی بنا پر ان کا یہ موقف مرجوح ہے۔رہا بڑی عمر میں عقیقہ تو اس کا سلف میں کوئی قائل و فاعل نہیں رہا۔اہل حق کا یہی وطیرہ ہے کہ وہ شریعت کی منہج سلف پر تعمیل کرتے ہیں۔فہم سلف سے ہٹ کر حق کو پانا ممکن نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں سلف کے نقش قدم پر ہی زندہ رکھے۔ آمین!
nnnnnnn

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.