814

بشریت نبوی، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر تھے۔ یہ عقیدہ قرآن و حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ اس کے برعکس بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہراً بشر تھے اور حقیقت میں نور تھے۔ دلائل سے عاری یہ عقیدہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنس بشریت سے ہونے کا کوئی انکار نہیں کرسکتا، اسی لیے رافضی اور اس دور کے جہمی صوفی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشریت کا لبادہ اَوڑھ رکھا تھا۔
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ مشرکین مکہ اور پہلی امتوں کے کفار کو انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان لانے میں مانع یہی بات تھی کہ ان کی طرف آنے والے نبی جنس بشریت سے تعلق رکھتے تھے۔ ہر دور کے کفار بشریت کو نبوت و رسالت کے منافی خیال کرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکاری ہیں۔ دراصل یہ ایک بڑی حقیقت کا انکار ہے۔ جب کفار مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کو بہانہ بنانا چاہا تو قرآنِ کریم نے یہ نہیں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں لہٰذا ایمان لے آؤ ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات ِ بینات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا ثبوت فراہم کیا ۔ ایک مقام پر فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
(وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَ ہُمُ الْہُدٰی إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَسُولًا ٭ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَّمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا) (بنی اسرائیل : ٩٤، ٩٥)
”اور لوگوں کے پاس ہدایت آجانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انھوں نے کہا:کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے؟کہہ دیجیے:اگر زمین میں فرشتے ہوتے جویہاں مطمئن ہوکرچلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بناکر نازل کرتے۔”
یعنی اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ردّ میں فرمایا کہ زمین پر انسان اور بشر بستے ہیں ، لہٰذا انسانوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے جنس بشر ہی سے نبی اور رسول ہونا چاہیے۔ ہاں اگر فرشتے زمین پر آباد ہوتے تو انہی کی نسل سے رسول ہوتا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر سے تعلق رکھتے تھے۔ ورنہ مشرکین کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرما دیتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو محض بشریت کے لبادے میں ہیں ، حقیقت میں نور ہی ہیں۔ یوں مشرکین کا اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا کیونکہ ان کے بقول بشر رسول نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے انبیائ علیہم السلام بشر ہی تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی نبی ہو سکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے : (وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیلاً ) (الأحزاب : ٦٢)
”اور آپ اللہ کے قانون کو تبدیل ہوتا نہیں پائیں گے۔”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ قانونِ الٰہی نہیں بدلا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (قۤ وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ ٭ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکَافِرُونَ ہٰذَا شَيْء ٌ عَجِیبٌ) (ق : ١، ٢)
”قۤ! قسم ہے قرآنِ مجید کی ،بلکہ انھوں نے تعجب کیاکہ ان کے پاس انہی میں سے ایک ڈرانے والا آیا،پھر کافروں نے کہا: یہ تو عجیب بات ہے۔”
”انہی میں سے” کے الفاظ سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، انہی کی جنس سے تھے۔ تبھی تو مشرکین کو تعجب ہوا کہ ہم میں سے ایک انسان نبوت کا دعویدار کیسے بن گیا؟ بشر کیسے اللہ کا رسول ہو سکتا ہے ؟
ایک مقام پر ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ) (یونس : ٢) ”کیا لوگوں کے لیے یہ تعجب کی بات ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کی طرف وحی بھیجی؟”
جب مشرکین مکہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر رسول ہونے پر شک و شبہ کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو دو طرح سے سمجھایا :
1 (وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ) (النحل : ٤٣، الأنبیاء : ٧)
”اور ہم نے آپ سے پہلے بھی مردہی(نبی) بھیجے تھے، ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے، لہٰذا تم اہل ذکر (اہل کتاب) سے پوچھ لواگر تم علم نہیں رکھتے۔”
2 (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ یُؤْمِنُوا إِذْ جَاء َہُمُ الْہُدٰی إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللّٰہُ بَشَرًا رَّسُولًا ٭ قُلْ لَّوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَۃٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِّنَ السَّمَاء ِ مَلَکًا رَّسُولًا) (بنی إسرائیل : ٩٤، ٩٥)
”اور لوگوں کے پاس ہدایت آجانے کے بعد ان کو ایمان لانے سے صرف اس چیز نے روکا کہ انھوں نے کہا:کیا اللہ نے بشر رسول بھیجا ہے؟کہہ دیجیے:اگر زمین میں فرشتے ہوتے جویہاں مطمئن ہوکرچلتے پھرتے تو ہم ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ ہی رسول بناکر نازل کرتے۔”
پھر فرمایا : اگر تمہیں انکار ہے کہ نبی بشر نہیں ہو سکتا تو میرے اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ :
(قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ إِنَّہ، کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیرًا بَصِیرًا)
”کہہ دیجیے : میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خبر رکھنے والا اور انہیں دیکھنے والا ہے۔”
اب تمہاری مرضی ہے کہ مانو یا نہ مانو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبانی آپ کی بشریت کا اعلان کرا دیا :
(قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحٰی إِلَیَّ ۔۔۔) (الکہف : ١١٠، حم السجدۃ : ٦)
”کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے۔”
نیز جب کفار مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی ایک معجزات کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا : (قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي ہَلْ کُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا) (بنی إسرائیل : ٩٣)
”کہیے: میرا رب پاک ہے، میں تو بس ایک بشر رسول ہوں۔”
ایک مقام پر ارشاد ہے : (لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِکُمْ) (التوبۃ : ١٢٨)
”یقینا تمہارے پاس تمہاری جانوں میں سے ایک رسول آیا ہے۔”
مزید فرمایا : (کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنْکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا) (التوبۃ : ١٥١)
”جس طرح ہم نے تمہارے اندر تمھی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیات کی تلاوت کرتا ہے۔”
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں یوں فرمایا :
(وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنْ شَیْئٍ)
”اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق ہے، جس وقت انھوں نے کہا: اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔”
پھر ان کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا :
قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِہٖ مُوسٰی نُورًا وَّہُدًی لِلنَّاسِ) (الأنعام : ٩١)
”کہہ دیجےے: پھر وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جسے موسٰی لائے تھے، جو تمام انسانوں کے لیے روشنی او رہدایت تھی۔”
قومِ نوح نے نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار بھی اسی وجہ سے کیا تھا۔ فرمانِ الٰہی ہے :
(مَا نَرَاکَ إِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا) (ہود : ٢٧)
”ہم تجھے بس اپنے ہی جیسابشر دیکھتے ہیں َ”
سنی مفسر امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
وجحدوا نبوّۃ نبیّہم نوح علیہ السلام : ما نراک یا نوح إلّا بشرا مثلنا ، یعنون بذلک أنّہ آدمیّ مثلہم فی الخلق والصورۃ والجنس ، فإنّہم کانوا منکرین أن یکون اللّٰہ یرسل من البشر رسولا إلی خلقہ ۔
”انہوں نے اپنے نبی نوح علیہ السلام کی نبوت کا انکار کیا (اور کہا ): اے نوح ! ہم تجھے اپنے جیسا بشر ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی مراد یہ تھی کہ نوح علیہ السلام تخلیق ، شکل و صورت اور جنس میں انہی کی طرح کے ایک آدمی ہیں۔ کفار اس بات کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف جنس بشر میں سے رسول بھیجے۔”(تفسیر الطبری : ١٢/٣٦)
فرعون اور اس کے حواریوں نے موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے بارے میں کہا تھا :
(أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا) (المؤمنون : ٤٧)
”کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لائیں؟”
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ أَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً وَّمَا کَانَ لِرَسُولٍ أَنْ یَأْتِیَ بِآیَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰہِ لِکُلِّ أَجَلٍ کِتَابٌ) (الرعد : ٣٨)
”اور بے شک ہم نے آپ سے پہلے کئی رسول بھیجے، اور ہم نے انھیں بیوی بچوں والے بنایا۔اور کسی رسول کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی(معجزہ) لائے مگر اللہ کے اذن سے۔ ہر مقررہ وقت کے لیے ایک کتاب (لکھا ہوا وقت ) ہے ۔”
اس آیت کی تفسیر میں امام طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠ھ) فرماتے ہیں :
یقول تعالی ذکرہ : ولقد أرسلنا یا محمّد ! رسلا من قبلک إلی أمم قد خلت من قبل أمّتک ، فجعلناہم بشرا مثلک ، لہم أزواج ینکحون وذریّۃ أنسلوہم ، ولم نجعلہم ملائکۃ لا یأکلون ولا یشربون ولا ینکحون ، فنجعل الرسول إلی قومک من الملائکۃ مثلہم ولکن أسلنا إلیہم بشرا مثلہم ، کما أرسلنا إلی من قبلہم من سائر الأمم بشرا مثلہم ۔۔۔
”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! یقینا ہم نے آپ سے پہلے ان امتوں کی طرف رسول بھیجے تھے جو آپ کی امت سے پہلے ہو گزری ہیں۔ ہم نے ان کو آپ کی طرح بشر ہی بنایا تھا، ان کی بیویاں تھیں جن سے انہوں نے نکاح کیے اور ان کی اولاد بھی تھی جن سے ان کی نسل چلی۔ ہم نے ان کو فرشتے نہیں بنایا تھا کہ وہ نہ کھاتے پیتے اور نہ نکاح کرتے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم پہلی قوموں کی طرح آپ کی قوم کی طرف بھی فرشتوں میں سے رسول بھیجتے۔ لیکن ہم نے آپ کی قوم کی طرف ان جیسا ایک بشر بھیجا ہے جیسا کہ پہلی امتوں کی طرف ان کی طرح کے بشر ہی رسول بن کر آتے رہے۔۔۔”(تفسیر الطبری : ١٣/٢١٦)
مشرکین کے ایک مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(وَلَوْ جَعَلْنَاہُ مَلَکًا لَجَعَلْنَاہُ رَجُلًا وَّلَلَبَسْنَا عَلَیْہِمْ مَّا یَلْبِسُونَ) (الأنعام : ٩)
”اور اگر ہم اس (نبی) کو فرشتہ بنا کر بھیجتے تو بھی ہم اسے انسان ہی کی شکل میں بھیجتے اور (تب بھی) ہم انھیں اسی شبہے میں ڈالتے جس میں وہ اب پڑے ہوئے ہیں۔”
امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) ایک حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
والمصطفٰی خیر البشر صلّی ، فسہا ۔ ”مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ خیر البشر تھے ، انہوں نے نماز پڑھی اور بھول گئے۔”(صحیح ابن حبان، ح : ٤٠٧٤)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٠١۔٧٧٤ھ) فرمانِ باری تعالیٰ : (وَلَا أَقُولُ لَکُمْ إِنِّی مَلَکٌ) (میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میں فرشتہ ہوں)کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
أی ولا أدّعی أنّی ملک ، إنّما أنا بشر من البشر ، یوحٰی إلیّ من اللّٰہ عزّ وجلّ ، شرّفنی بذلک ، وأنعم علیّ بہ ۔ ”یعنی میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو ایک بشر ہی ہوں۔ میری طرف اللہ عزوجل کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے مجھے شرف عطا کیا ہے اور مجھ پر خاص انعام کیا ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٤١، مکتبۃ أولاد الشیخ للتراث)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) مشرکین مکہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
کفّار قریش یستبعدون کون محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم رسولا من اللّٰہ لکونہ بشرا من البشر ۔ ”کفار قریش ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول ہونے کو اس لیے محال سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنس بشر میں سے ایک بشر تھے۔”
(فتح الباری لابن حجر : ١٠/١٩١)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.