928

دربار نبوت میں محبوب ترین کون؟ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہستی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تھی۔اس مضمون کے آخر میں صحیح و صریح احادیث ِنبویہ کی روشنی میں تفصیلاً یہ بات بیان کر دی گئی ہے۔
بعض لوگ ان صحیح و صریح احادیث کے خلاف حدیث الطیر پیش کرتے ہیں۔ آئیے اس روایت پر اصولِ محدثین کے مطابق تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
1 حدیث انس رضی اللہ عنہ :
1 سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ عِنْدَہٗ طَائِرٌ، فَقَالَ : ’اللّٰہُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَیْکَ یَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ ہٰذَا الطَّیْرِ‘، فَجَائَ أَبُو بَکْرٍ، فَرَدَّہٗ، وَجَائَ عُمَرُ، فَرَدَّہٗ، وَجَائَ عَلِيٌّ، فَأَذِنَ لَہٗ ۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک (پکا ہوا) پرندہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ! اپنے اس بندے کو بھیج دے،جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے،وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوواپس بھیج دیا۔اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے،تو انہیں بھی واپس بھیج دیا۔پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواجازت دے دی۔‘‘(السنن الکبرٰی للنسائي : 107/5، ح : 8398، خصائص علي بن أبي طالب للنسائي : 10)
تبصرہ :
یہ ’’ضعیف ‘‘اور ’’منکر‘‘روایت ہے،کیونکہ :
1 اس کا ایک راوی مسہر بن عبدالملک کمزور راوی ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر : 6667)
b اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فِیہِ بَعْضُ النَّظَرِ ۔ ’’اس پربعض محدثین نے کلام کی ہے۔‘‘
(التاریخ الصغیر : 250/2)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلِمُسْہِرٍ غَیْرُ مَا ذَکَرْتُ، وَ لَیْسَ بِالْکَثِیرِ ۔
’’مسہر نے اس کے علاوہ بھی روایات بیان کی ہیں،مگر یہ کثیر الروایہ نہیں ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 458/6)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (197/9) میں ذکر کے لکھا ہے :
یُخْطِیُٔ وَیَہِمُ ۔ ’’یہ راوی غلطیوں اور اوہام کا شکار تھا۔‘‘
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’لین‘‘(کمزور راوی ) کہا ہے۔
(المقتنٰی في سرد الکنٰی : 5419)
نیز انہوں نے اسے لیس بالقوی (قوی نہیں ہے)بھی کہا ہے۔
(المغني في الضعفاء : 658/2)
واضح طور پر اسے صرف حسن بن حماد نصیبی وراق نے ثقہ کہا ہے۔
(مسند أبي یعلٰی : 4052، الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 457/6، وسندہٗ صحیحٌ)
جمہور محدثین نے اس روایت کو ’’ضعیف‘‘کہا ہے۔اس روایت کی بہت ساری سندیں ہیں۔ وہ ساری کی ساری ’’ضعیف‘‘ہیں۔ ذیل میںہر ایک سند کے ضعف کو واضح کیا جاتا ہے۔
2 طریق السدّي عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(سنن الترمذي : 3721، مسند أبي یعلٰی : 4052، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 229/1)
تبصرہ :
یہ ’’منکر‘‘ روایت ہے، کیونکہ اس کا راوی عبیداللہ بن موسیٰ عبسی اگرچہ صحاح ستہ کا راوی ہے اور ثقہ ہے، لیکن محدثین کرام نے اس کی اس خاص روایت پر کلام کر رکھی ہے۔
b امام ابن سعد رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
کَانَ ثِقَۃً صَدُوقًا، إِنْ شَائَ اللّٰہُ، کِثِیرَ الْحَدِیثِ، حَسَنَ الْہَیْئَۃِ، وَکَانَ یَتَشَیَّعُ، وَیَرْوِي أَحَادِیثَ فِي التَّشَیُّعِ مُنْکَرَۃً، فَضُعِّفَ بِذٰلِکَ عِنْدَ کَثِیرٍ مِّنَ النَّاسَ ۔
’’یہ ان شاء اللہ ثقہ و صدوق اور کثیر الحدیث راوی ہے۔یہ خوش شکل اور شیعہ بھی ہے۔ تشیع میں منکر روایتیں بیان کرتا ہے،اسی بنا پر بہت سے محدثین نے اس کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔ ‘‘(الطبقات الکبرٰی : 368/6)
یوں یہ روایت ’’منکر ‘‘ہی ہے۔
3 طریق الحارث بن نبہان عن السدي عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 356/42)
تبصرہ :
یہ من گھڑت سند ہے،کیونکہ اس میں حارث بن نبہان ’’منکر الحدیث‘‘اور ’’متروک الحدیث‘‘ راوی ہے۔
4 طریق حمّاد بن المختار عن عبد الملک بن عمیر ۔۔۔۔ ۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 253/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 254/42، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 228/1)
تبصرہ :
یہ سند ’’ضعیف‘‘ ہے،کیونکہ اس کا راوی حمادبن مختار ’’مجہول‘‘ہے۔
b اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَیْسَ بِالْمَعْرُوفِ ۔ ’’یہ غیر معروف راوی ہے۔ ‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 252/2)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘(مجمع الزوائد : 125/9)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : لَا یُعْرَفُ ۔
’’یہ غیر معروف راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 599/1)
اس میں ایک اور علت ِقادحہ بھی ہے۔
5 قطن بن نسیر، ثنا جعفر بن سلیمان : ثنا عبد اللّٰہ بن المثنّٰی عن عبد اللّٰہ بن أنس ۔۔۔۔ ۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 147/2، 148، ت : 383، تاریخ دمشق لابن عساکر : 247/42)
تبصرہ :
یہ ’’منکر‘‘روایت ہے،کیونکہ اس کا راوی جعفر بن سلیمان ضبعی ثقہ اور حسن الحدیث ہے۔ یہ صحیح مسلم کا راوی ہے اور اجماعِ امت کی بنا پر صحیح مسلم میں مذکور اس کی ساری روایات صحیح ہیں۔ صحیح مسلم کے علاوہ اس کی بعض روایات منکر بھی ہیں۔جن روایات پر جمہور محدثین نے کلام کردی ہے ان میں یہ روایت بھی ہے۔
b اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یُخَالَفُ فِي بَعْضِ حَدِیثِہٖ ۔
’’بعض احادیث میںثقہ راوی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
(التاریخ الکبیر : 192/2)
b حافظ جوزجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی أَحَادِیثَ مُنْکَرَۃً، وَہُوَ ثِقَۃٌ مُّتَمَاسِکٌ، کَانَ لَا یَکْتُبُ ۔
’’اس نے کچھ منکر روایات بیان کی ہیں، اگرچہ یہ ثقہ و ضابط ہے،یہ اپنے حافظے سے بیان کرتا تھا، اپنی روایات کو لکھتا نہیں تھا۔‘‘(أحوال الرجال : 173)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہُوَ صَدُوقٌ فِي نَفْسِہٖ، وَیَنْفَرِدُ بِأَحَادِیثَ عِدَّۃٍ، مِمَّا یُنْکَرُ ۔
’’یہ ذاتی طور پر ثقہ راوی ہے، مگر اس نے کئی منکر روایات منفرد بیان کی ہیں۔‘‘
(میزان الاعتدال : 410/1)
فائدہ جلیلہ :
b شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے :
وَلَا عَیْبَ عَلٰی مُسْلِمٍ فِي إِخْرَاجِ حَدِیثِہٖ، لِأَنَّہٗ یَنْتَقِي مِنْ أَحَادِیثِ ہٰذَا الضَّرْبِ مَا یَعْلَمُ أَنَّہٗ حَفِظَہٗ، کَمَا یَطْرَحُ مِنْ أَحَادِیثِ الثِّقَۃِ مَا یَعْلَمُ أَنَّہٗ غَلِطَ فِیہِ، فَغَلِطَ فِي ہٰذَا الْمَقَامِ مَنِ اسْتَدْرَکَ عَلَیْہِ إِخْرَاجَ جَمِیعِ حَدِیثِ الثِّقَۃِ، وَمَنْ ضَعَّفَ جَمِیعَ حَدِیثِ سَيِّئِ الْحِفْظِ، فَالْـأُولٰی طَرِیقَۃُ الْحَاکِمِ وَأَمْثَالِہٖ، وَالثَّانِیَۃُ طَرِیقَۃُ أَبِي مُحَمَّدِ ابْنِ حَزْمٍ وَّأَشْکَالِہٖ، وَطَرِیقَۃُ مُسْلِمٍ ہِيَ طَرِیقَۃُ أَئِمَّۃِ ہٰذَا الشَّأْنِ ۔
’’جعفر بن سلیمان کی احادیث بیان کرنا امام مسلم رحمہ اللہ کے لیے کوئی عیب والی بات نہیں،کیونکہ وہ اس قسم کے راویوں کی ان روایات کا انتخاب کرتے ہیں، جن کے بارے میں وہ جانتے ہوتے ہیں کہ وہ انہیں یاد ہیں۔جس طرح کہ وہ ثقہ راویوں سے منقول ایسی روایات کو چھانٹ دیتے ہیں،جن کے متعلق ان کو علم ہوتا ہے کہ ان میں غلطی ہے۔اس مقام پر ان لوگوں نے غلطی کی ہے،جنہوں نے کسی ثقہ راوی کی بیان کردہ تمام روایات کو استدراکاً ذکر کر دیا ہے،یاخراب حافظے والے راویوں کی تمام روایات کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔پہلے گروہ کی مثال امام حاکم رحمہ اللہ اور ان کی مثل دوسرے لوگ ہیں، (جو صحیحین کے راویوں کی تمام روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں)اور دوسرے گروہ کی مثال علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اور ان جیسے دوسرے لوگ ہیں،(جو خراب حافظے والے راویوں کی تمام روایات کو ضعیف کہتے ہیں)۔امام مسلم رحمہ اللہ کا طریقہ کار وہی ہے، جو اس فن کے لائق ائمہ کرام کا ہے۔‘‘(زاد المعاد : 136/1)
6 أبو الہندي عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(مشیخۃ ابن شاذان : 5، تاریخ بغداد للخطیب : 171/3، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 227/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 253/42)
تبصرہ :
یہ سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ ابو الہندی راوی ’’مجہول‘‘ہے۔
b امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَجْہُولٌ، وَاسْمُہٗ لَا یُعْرَفُ ۔
’’یہ مجہول ہے ۔اس کا تو نام بھی معلوم نہیں۔‘‘
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُعْرَفُ ۔
’’یہ غیر معروف راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 583/4)
7 عن إسماعیل بن سلمان الأزرق عنہ ۔۔۔۔ ۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 358/1، مسند البزّار : 7547)
تبصرہ :
یہ سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی اسماعیل بن سلمان ازرق سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔
اسے امام یحییٰ بن معین، امام ابو زرعہ رازی، امام ابو حاتم رازی، امام نسائی، امام ابن نمیر، امام دارقطنی، امام یعقوب بن سفیان فسوی، امام ابن حبان اور جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ نے ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘قرار دیا ہے۔
8 عثمان الطویل عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 3/2، تاریخ دمشق لابن عساکر : 250/42)
تبصرہ :
یہ سند بھی ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس کا راوی عثمان الطویل ’’متکلم فیہ‘‘ہے۔
b امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات (157/5)میں ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : رُبَّمَا أَخْطَأَ ۔ ’’کبھی غلطی کرجاتا ہے۔‘‘
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہُوَ شَیْخٌ ۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 173/6)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عُثْمَانُ الطَّوِیلُ عَزِیزُ السَّنَدِ، إِنَّمَا لَہٗ ہٰذَا وَآخَرُ عَنْ أَنَسٍ ۔
’’عثمان الطویل کی سند عزیز(دو واسطوں والی)ہے۔اس کی ایک یہ روایت ہے، دوسری ایک روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 166/3، وفي نسخۃ : 1026/3، ترجمۃ رفیع أبي العالیۃ)
b امام شعبہ رحمہ اللہ نے اس سے روایت لی ہے،لیکن امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عَنْ أَنَسٍ مِّنْ وُّجُوہٍ، وَکُلُّ مَنْ رَوَاہُ عَنْ أَنَسٍ، فَلَیْسَ بِالْقَوِيِّ ۔
’’اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے، البتہ جو بھی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کرتا ہے،وہ قوی نہیں۔‘‘
(مسند البزّار : 7548)
b امام خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَمَا رَوٰی حَدِیثَ الطَّیْرِ ثِقَۃٌ ۔
’’حدیث الطیر کسی بھی ثقہ راوی نے بیان نہیں کی۔‘‘(الإرشاد : 420/1)
لہٰذا اس کا ضعف ہی راجح ہے۔
2 امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلاَ یُعْرَفُ لِعُثْمَانَ سَمَاعٌ مِّنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ۔
’’عثمان الطویل کا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔‘‘
(التاریخ الکبیر : 3/2)
لہٰذا یہ سند ’’انقطاع‘‘ کی بنا پر بھی ’’ضعیف‘‘ہے۔
9 عن محمّد بن عیاض، عن یحیی بن حسّان، عن سلیمان ابن بلال، عن یحیی بن سعید عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 130/3)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 اس میں ابن عیاض راوی ’’مجہول‘‘ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
فَلَا أَعْرِفُہٗ ۔ ’’میں اسے نہیں جانتا۔‘‘(میزان الاعتدال : 465/3)
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے۔‘‘(مجمع الزوائد : 125/9)
2 محمد بن احمد بن عیاض بن ابو طیبہ راوی بھی ’’مجہول الحال‘‘ہے۔
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اس روایت کو ’’بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح‘‘ کہنا تساہل پر مبنی ہے۔
b ان کے رد میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا فِیہِ نَظَرٌ ۔ ’’امام حاکم کی یہ بات محل نظر ہے۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 387/7)
0 عن إسماعیل بن سلیمان الرازي، عن عبد الملک بن أبي سلیمان، عن عطاء عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 7462، تاریخ بغداد للخطیب : 36/9، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 227/1، ح : 365)
تبصرہ :
یہ سند بھی باطل ہے،کیونکہ :
1 اس میں کئی ’’مجہول‘‘راویوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اس روایت کی صحت کے مدعی پر تمام راویوں کی توثیق پیش کرنا واجب ہے۔
2 اسماعیل بن سلیمان رازی کے بارے میں :
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اَلْغَالِبُ عَلٰی حَدِیثِہِ الْوَہْمُ ۔ ’’اس کی حدیث پر وہم کا غلبہ ہے۔ ‘‘
(الضعفاء الکبیر : 82/1)
مذکورہ بالا حدیث اور ایک دوسری حدیث ذکرکرنے کے بعد امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کِلَاہُمَا لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ، وَلَیْسَا بِمَحْفُوظَیْنِ ۔
’’ان دونوں روایتوں کی متابعت نہیں ملتی۔یہ دونوں غیر محفوظ ہیں۔‘‘
(الضعفاء الکبیر : 82/1)
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا لَا یَصِحُّ، وَفِیہِ مَجَاہِیلَ، لَا یُعْرَفُونَ ۔
’’یہ روایت صحیح نہیں۔ اس میں ایسے مجہول راوی ہیں،جن کی معرفت نہیں ہو سکتی۔‘‘(العلل المتناہیۃ : 227/1، ح : 365)
! عن مسلم بن کیسان، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(الموضح للخطیب البغدادي : 398/2، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 236/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 256/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 398)
تبصرہ :
اس کی سند سخت ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کا راوی مسلم بن کیسان اعور جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَضَعَّفَہٗ جَمَاعَۃٌ کَثِیرُونَ ۔
’’محدثین کی ایک کثیر جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(مجمع الزوائد : 29/1)
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یَتَکَلَّمُونَ فِیہِ ۔
’’محدثین کرام نے اس پر جرح کی ہے۔‘‘(التاریخ الکبیر : 271/7)
b امام فلاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہُوَ مُنْکَرُ الْحَدِیثِ جِدًّا ۔
’’یہ سخت منکر الحدیث راوی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 192/8)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَتَکَلَّمُونَ فِیہِ، وَہُوَ ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔
’’اس پر محدثین نے جرح کی ہے اور یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 192/8)
b امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ ’’ضعیف الحدیث‘‘ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 192/8)
b امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام جوزجانی، امام یحییٰ بن معین اور جمہور محدثین رحمہم اللہ اسے ’’ضعیف ‘‘ہی کہتے ہیں۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَالضَّعْفُ عَلٰی رِوَایَاتِہٖ بَیِّنٌ ۔
’’اس کی روایات میں ضعف واضح نظر آتا ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 308/6، ت : 1796)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
اِخْتَلَطَ فِي آخِرِ عُمُرِہٖ، کَانَ لَا یَدْرِي مَا یُحَدِّثُ بِہٖ، فَجَعَلَ یَأْتِي بِمَا لَا أَصْلَ لَہٗ عَنِ الثِّقَاتِ، فَاخْتَلَطَ حَدِیثُہٗ وَلَمْ یَتَمَیَّزْ ۔
’’یہ آخری عمر میں حافظے کے اختلاط کا شکار ہو گیا تھا،اس کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ اس نے کیا بیان کیا ہے۔چنانچہ اس نے ثقہ راویوں سے منسوب کر کے بے اصل روایات بیان کر دیں۔یوں اس کی بیان کردہ روایات خلط ملط ہو گئیں اور صحیح و ضعیف میں تمیز نہیں ہو سکی۔‘‘(المجروحین : 8/3)
@ عن إبراہیم بن ثابت البنانيّ، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 46/1، المستدرک للحاکم : 131/3)
تبصرہ :
یہ سخت ’’ضعیف‘‘ سند ہے،کیونکہ اس کے راوی ابراہیم بن ثابت قصاربصری کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ضَعِیفٌ جِدًّا ۔
’’یہ سخت ضعیف راوی ہے۔‘‘(المغني في الضعفاء : 10/1)
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ’’ساقط‘‘ راوی ہے۔(تلخیص المستدرک : 131/3)
# عن بشر بن الحسین، عن الزبیر بن عدي عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(أخبار أصبہان لأبي نعیم الأصبہاني :232/1، تاریخ دمشق لابن عساکر : 252/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 163)
تبصرہ :
یہ سندبھی باطل ہے۔،کیونکہ اس کے راوی بشر بن حسین اصبہانی کے بارے میں :
b امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
بِشْرُ بْنُ حُسَیْنٍ أَصْبَہَانِيٌّ عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِيٍّ، وَلَہٗ عَنْہُ نُسْخَۃٌ مَّوْضُوعَۃٌ، وَالزُّبَیْرُ ثِقَۃٌ ۔
’’بشر بن حسین اصبہانی زبیر بن عدی سے بیان کرتا ہے، زبیر بن عدی تو ثقہ ہیں،لیکن بشر نے ان سے منسوب کر کے موضوع روایات پر مشتمل ایک نسخہ بنایا ہوا ہے۔‘‘(الضعفاء والمتروکون : 126)
یہی بات امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 355/2)
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ نَظَرٌ ۔
’’اس پر محدثین کی جرح موجود ہے۔‘‘(التاریخ الصغیر : 26/2)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَعَامَّۃُ حَدِیثِہٖ لَیْسَ بِالْمَحْفُوظِ ۔
’’اس کی اکثر روایات غیر محفوظ ہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 11/2)
نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف‘‘بھی کہا ہے۔(الکامل : 11/2)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِيٍّ بِنُسْخَۃٍ مَّوْضُوعَۃٍ ۔
’’یہ زبیر بن عدی سے موضوع روایات پر مشتمل نسخہ سے بیان کرتا ہے۔‘‘
(المجروحین من المحدّثین والضعفاء والمتروکین : 190/1)
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنِ الزُّبَیْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَغَیْرِہٖ کِتَابًا یَّزِیدُ عَدَدُہٗ عَلٰی مِائَۃٍ وَّخَمْسِینَ حَدِیثًا، أَکْثَرُہَا مَوْضُوعَۃٌ ۔
’’یہ زبیر بن عدی کے واسطے سے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ وغیرہ سے روایات بیان کرتاہے۔اس کے پاس ایک کتاب تھی،جس میں ایک سو پچاس سے زائد روایات تھیں۔ان میں سے اکثر من گھڑت تھیں۔‘‘
(المدخل إلی الصحیح، ص : 123)
یہ روایت بھی بشر نے زبیر بن عدی سے بیان کی ہے، لہٰذا یہ روایت جھوٹی ہے۔
$ عن عبد اللّٰہ بن محمّد بن عمارۃ، عن مالک، عن إسحاق بن عبد اللّٰہ، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الأصبہاني : 339/6، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 225/1)
تبصرہ :
یہ ’’ضعیف‘‘ سند ہے،کیونکہ ابن عمارہ راوی کے بارے میں :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَسْتُورٌ، مَا وُثِّقَ وَلَا ضُعِّفَ ۔
’’یہ مستور راوی ہے۔اس کی نہ توثیق کی گئی ہے،نہ تضعیف۔‘‘
(میزان الاعتدال : 489/2)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أَوْرَدَ لَہُ الدَّارَقُطْنِيُّ فِي الْغَرَائِبِ عَنْ مَّالِکٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ، عَنْ أَنَسٍ، حَدِیثَ الطَّیْرِ، وَہُوَ مُنْکَرٌ، وَقَالَ : تَفَرَّدَ ابْنُ عُمَارَۃَ عَنْ مَّالِکٍ، وَغَیْرُہٗ أَثْبَتُ مِنْہُ ۔
’’امام دارقطنی رحمہ اللہ نے حدیث الطیر کو اپنی کتاب الغرائب میں مالک عن اسحاق بن عبداللہ عن انس کی سند سے نقل کیا ہے۔یہ منکر روایت ہے۔ا مام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:مالک سے بیان کرنے میں ابن عمارہ منفرد ہے، یہ ضعیف راوی ہے۔‘‘(لسان المیزان : 336/3)
% عن أبي مکیس دینار، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ جرجان للسہمي، ص : 169، تاریخ بغداد للخطیب : 382/8، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 229/1)
تبصرہ :
یہ سند بھی جھوٹی ہے،کیونکہ ابو مکیس دینار کے بارے میں :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سَاقِطٌ ۔ ’’یہ سخت ضعیف راوی ہے۔ ‘‘(المغني في الضعفاء : 224/1)
نیز فرماتے ہیں : عَنْ أَنَسٍ، ذَاکَ التَّالِفُ الْمُتَّہَمُ ۔
’’یہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایات بیان کرتا ہے۔سخت ضعیف اور متہم بالکذب ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 30/2)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، ذَاھِبُ الْحَدِیثِ، شِبْہُ الْمَجْہُولِ ۔
’’اس کی بیان کردہ احادیث منکر اور سخت ضعیف ہیں۔یہ مجہول جیسا ہے۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 109/3، 112)
^ عن یغنم بن سالم، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(فضائل الخلفاء الراشدین لأبي نعیم الأصبہاني : 50، مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي : 164، 171)
تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے،کیونکہ یغنم بن سالم راوی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سخت جھوٹا راوی تھا۔(المغني في الضعفاء : 760/2)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شَیْخٌ یَّضَعُ الْحَدِیثَ عَلٰی أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ۔
ــ’’یہ سیدناانس رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان کرتا ہے۔‘‘
(المجروحین : 145/3)
& عن عليّ بن الحسن، حدّثنا خلید بن دعلج، عن قتادۃ عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 250/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 169)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی سند ہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی علی بن حسن سامی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَہُوَ فِي عِدَادِ الْمَتْرُوکِینَ ۔
’’اس کا شمار متروک راویوں میں ہوتاہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 160/3)
2 خلید بن دعلج راوی کو امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین، امام دارقطنی، امام ابو حاتم رازی، امام عقیلی ، امام ابن حبان اور جمہور محدثین رحمہم اللہ نے ’’ضعیف‘‘ کہاہے۔
3 قتادہ بن دعامہ تابعی ’’مدلس‘‘ہیںجو کہ لفظ ِ’’عن‘‘سے بیان کررہے ہیں اور ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
* عن خالد بن عبید، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 173، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 229/1)
تبصرہ :
یہ سند بھی باطل ہے،کیونکہ اس کے راوی خالد بن عبید عتکی کے بارے میں :
b امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فِیہِ نَظَرٌ ۔
’’اس پر جرح کی گئی ہے۔‘‘(التاریخ الصغیر : 162/3)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ أَنَسٍ بِنُسْخَۃٍ مَّوْضُوعَۃٍ، مَا لَہَا أَصْلٌ، یَعْرِفُہَا مَنْ لَیْسَ الْحَدِیثُ صَنَاعَتُہٗ أَنَّہَا مَوْضُوعَۃٌ، لَا تَحِلُّ کِتَابَۃُ حَدِیثِہٖ؛ إِلَّا عَلٰی جِہَۃِ التَّعَجُّبِ ۔
’’یہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے ایک موضوع و من گھڑت روایات پر مشتمل نسخہ روایت کرتا ہے۔اس کی کوئی اصل نہیں۔جو حدیث میں مہارت نہیں رکھتا،وہ بھی جانتا ہے کہ یہ نسخہ موضوعہ(من گھڑت)ہے۔ اس کی حدیث کو لکھنا جائز ہی نہیں ہے۔ہاں! مگر برائے تعجب لکھا جا سکتا ہے۔‘‘
(المجروحین : 279/1)
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَ عَنْ أَنَسٍ بِأَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃٍ ۔
’’اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے جھوٹی روایات منسوب کی ہیں۔‘‘
(المدخل إلی الصحیح، ص : 133، ت : 48)
b امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدَّثَ عَنْ أَنَسٍ بِأَحَادِیثَ مَوْضَوعَۃٍ، لَا شَيْئَ ۔
’’اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے جھوٹی روایات منسوب کی ہیں۔اس کی بیان کردہ بات کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘(الضعفاء : 57)
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُتَابَعُ عَلٰی حَدِیثِہٖ ۔
’’اس کی روایات منکر ہیں۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 10/2)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ مَعَ جَلَالَتِہٖ ۔
’’اپنے مقام ومرتبے کے باوجود اس کی روایت متروک ہوتی ہے۔‘‘
(تقریب التہذیب : 1654)
( عن عبد اللّٰہ بن زیاد أبي العلائ، عن علي بن زید، عن سعید بن المسیّب، عن أنس ۔۔۔۔ ۔(تاریخ دمشق لابن عساکر : 248/42)
تبصرہ :
یہ سخت ’’ضعیف ‘‘سند ہے ، کیونکہ :
1 عبداللہ بن زیاد کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔
(التاریخ الکبیر : 95/5)
2 علی بن زید بن جدعان راوی جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
اسے حافظ ہیثمی(مجمع الزوائد : 209/8)، علامہ بو صیری،(مصباح الزجاجۃ :84)،علامہ ابن العراقی(طرح التثریب : 77/2)اور علامہ بقاعی(نظم الدرر في تناسب الآیات والسور : 524/4) رحمہم اللہ نے جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘قرار دیا ہے۔
یہ ضعیف ، مختلط اور ناقابل حجت راوی ہے۔ کسی نے اسے واضح طور پر ثقہ نہیں کہا۔
3 صالح بن عبدالکبیر بن شبیب ’’مجہول‘‘ہے۔
لہٰذا امام ابن شاہین رحمہ اللہ (تاریخ دمشق لابن عساکر : 249/42)کا اس حدیث کو ’’حسن‘‘ کہنا صحیح نہیں ۔
) عن میمون أبي خلف، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 358/1، الضعفاء الکبیر للعقیلي : 189/4، تاریخ دمشق لابن عساکر : 251/42)
تبصرہ :
یہ سخت ’’ضعیف‘‘سند ہے ،کیونکہ اس کے راوی میمون بن جابر ابو خلف کے بارے میں :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : لَا شَيْئَ ۔ ’’اس کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘
(المغني في الضعفاء : 690/2)
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَا یَصِحُّ حَدِیثُہٗ ۔
’’اس کی بیان کردہ روایت صحیح نہیں ہوتی۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 188/4)
` عن عبد اللّٰہ بن میمون، عن جعفر بن محمّد، عن أبیہ، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(طبقات المحدّثین لأبي الشیخ : 924، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 232/1)
تبصرہ :
یہ بھی سخت ’’ضعیف‘‘ سند ہے،کیونکہ اس کے راوی عبداللہ بن میمون قداح کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، مَتْرُوکٌ ۔
’’یہ منکر الحدیث اور متروک راوی ہے۔‘‘(تقریب التہذیب : 3653)
22 عن محمّد بن زکریا بن ذوید، عن حمید الطویل، عن أنس ۔۔۔۔ ۔ (مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي : 156)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے،کیونکہ اس کے راوی محمد بن زکریا کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ خَبَرًا بَاطِلًا، وَالرَّاوِي عَنْہُ؛ ہُوَ عَلِيُّ بْنُ صَدَقَۃَ الْجَوْہَرِيُّ، لَا أَعْرِفُہٗ ۔
’’اس نے حمید طویل سے منسوب کر کے جھوٹی روایت بیان کی ہے۔اس سے علی بن صدقہ جوہری بیان کرتا ہے۔میں اُسے نہیں جانتا۔‘‘
(میزان الاعتدال : 549/3)
– عن الحسن بن عبد اللّٰہ الثقفي، عن نافع، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي : 167)
تبصرہ :
یہ بھی باطل سندہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی حسن بن عبداللہ ثقفی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ’’منکر الحدیث‘‘ہے۔(میزان الاعتدال : 501/1)
نیز انہوں نے اسے ’’متروک ‘‘بھی کہا ہے۔(المغني في الضعفاء : 693/2)
2 نافع بن ہرمز بھی ’’ضعیف و متروک‘‘ راوی ہے۔
b اسے امام دارقطنی رحمہ اللہ نے(الضعفاء : 549)میں ذکر کیا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
ضَعَّفَہٗ أَحْمَدُ وَجَمَاعَۃٌ، وَکَذَّبَہُ ابْنُ مَعِینٍ مَرَّۃً، وَقَالَ أَبُو حَاتِمٍ : مَتْرُوکٌ، ذَاہِبُ الْحَدِیثِ، وَقَالَ النَّسَائِيُّ : لَیْسَ بِثِقَۃٍ ۔
’’امام احمد رحمہ اللہ اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ اس کو جھوٹا کہا ہے۔امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے متروک اور ذاہب الحدیث کہا ہے۔نیز امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 243/4)
_ عن محمّد بن سلیم، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 253/4)
تبصرہ :
یہ ’’ضعیف‘‘ سندہے،کیونکہ محمد بن سلیم راوی ’’مجہول‘‘ہے۔
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول‘‘قرار دیا ہے۔
(لسان المیزان : 192/5)
= عن عبد اللّٰہ بن المثنّٰی، عن ثمامۃ، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 253/42، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 231/1)
تبصرہ :
یہ سند باطل ہے،کیونکہ :
1 ابن عساکر کی سند میں عبدالسلام بن راشد ہے،جس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَا یُدْرٰی مَنْ ذَا ؟ ’’کوئی پتہ نہیں کہ یہ کون ہے۔‘‘
(المغني في الضعفاء : 394/1)
العلل المتناہیۃ لابن الجوزي والی سند میں عباس بن بکار ہے،جس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بَصَرِيٌّ کَذَّابٌ ۔
’’یہ بصری کذاب ہے۔‘‘(الضعفاء والمتروکون : 424)
+ عن سالم مولی عمر بن عبید اللّٰہ، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 230/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے،کیونکہ اس کی سند میں احمد بن سعید بن فرقد راوی ہے،جس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی حَدِیثَ الطَّیْرِ بِإِسْنَادِ الصَّحِیحَیْنِ، فَہُوَ مُتَّہَمٌ بِوَضْعِہٖ ۔
’’اس نے حدیث الطیر کو بخاری و مسلم کی سندوں سے روایت کیا ہے، مگر وہ خود اس پر اس حدیث کو گھڑنے کا الزام ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 100/1)
q عن مفضّل بن صالح، عن الحسن بن الحکم، عن أنس۔۔۔۔ ۔ (العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 231/1)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے،کیونکہ مفضل بن صالح اسدی کو امام بخاری(التاریخ الکبیر : 264/2) اور امام ابو حاتم رازی(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 317/8)نے ’’منکر الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔
b امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ عِنْدَ أَہْلِ الْحَدِیثِ بَذَاکَ الْحَافِظِ ۔
’’محدثین کرام کے نزدیک اس کا حافظہ مضبوط نہیں۔‘‘(سنن الترمذي : 2592)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مُنْکَرُ الْحَدِیثِ، کَانَ مِمَّنْ یَّرْوِي الْمَقْلُوبَاتِ عَنِ الثِّقَاتِ، حَتّٰی یَسْبِقُ إِلَی الْقَلْبِ أَنَّہٗ کَانَ الْمُتَعَمِّدُ لَہَا مِنْ کَثْرَتِہٖ، فَوَجَبَ تَرْکُ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ ۔
’’یہ منکر الحدیث راوی ہے،ثقہ راویوں سے مقلوب روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی کثرتِ روایات سے یہ گمان ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر ایسا کرتا ہے۔اس کی بیان کردہ روایت کو ترک کر دینا واجب ہے۔‘‘(المجروحین : 32/3)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘کہا ہے۔
(تقریب التہذیب : 6854)
رضی اللہ عنہما عن حمّاد، عن إبراہیم النخعي، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(أسد الغابۃ لابن الأثیر : 30/4)
تبصرہ :
یہ موضوع (من گھڑت)سند ہے،کیونکہ :
1 اس میں محمد بن اسحاق بن ابراہیم اہوازی ’’متہم بالوضع‘‘راوی ہے۔
(دیکھیں : میزان الاعتدال للذہبي : 478/3)
2 اس میں کئی اور علل قادحہ بھی موجود ہیں۔
صلی اللہ علیہ وسلم عن عبد الملک بن أبي سلیمان، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(التاریخ الکبیر للبخاري : 3/2، مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي : 157)
تبصرہ :
یہ روایت ’’انقطاع‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے،جیسا کہ :
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ أَبِي سُلَیْمَانَ عَنْ أَنَسٍ مُّرْسَلٌ ۔
’’عبدالملک بن ابی سلیمان کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے۔‘‘
(المراسیل لابن أبي حاتم : 132)
رضی اللہ عنہا عن یحیی بن أبي کثیر، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 206/2، 207، ح : 1744)
تبصرہ :
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ :
1 یحییٰ بن ابی کثیر ’’مدلس‘‘ہیں اور لفظ ِ ’’عن‘‘سے بیان کر رہے ہیں، ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
یاد رہے کہ صحیح بخاری و مسلم کے علاوہ ’’مدلس‘‘کا ’’عنعنہ‘‘نامقبول ہوتا ہے،تاوقتیکہ کسی اور جگہ اس کے سماع کی تصریح یاکوئی ثقہ متابع مل جائے۔
2 یحییٰ بن ابی کثیر کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ہے۔
(تحفۃ التحصیل في ذکر رواۃ المراسیل للعراقي : 346، 347)
رضی اللہ عنہ عن خالد بن عبید أبي عصام، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 25/3)
تبصرہ :
اس کی سند باطل ہے،کیونکہ اس میں خالد بن عبید عتکی ’’متروک‘‘ راوی موجود ہے۔ اس کے بارے میں گزشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے۔
y عن عمر بن عبد اللّٰہ بن یعلی بن مرّۃ، عن أبیہ، عن جدّہ،ٖ وعن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ بغداد للخطیب : 376/11، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 230/1)
تبصرہ :
یہ سخت ’’ضعیف‘‘ سند ہے،کیونکہ اس کے راوی عمربن عبداللہ بن یعلیٰ کو نقاد محدثین امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابو حاتم رازی، امام ابو زرعہ رازی، امام بخاری، امام نسائی، امام یعقوب بن سفیان فسوی رحمہم اللہ نے ’’ضعیف و مجروح‘‘ قرار دیا ہے۔
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون : 376)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مُنْکَرُ الرِّوَایَۃِ عَنْ أَبِیہِ ۔
’’اس کی اپنے باپ سے بیان کردہ روایات منکر ہیں۔‘‘ (المجروحین : 91/2)
یہ روایت بھی وہ اپنے باپ ہی سے بیان کر رہا ہے۔
u عن عبد اللّٰہ بن المثنّٰی، عن أبان، عن أنس ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 406/37)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے،کیونکہ :
1 ابان بن ابو عیاش راوی بالاتفاق ’’متروک الحدیث‘‘ہے۔
2 ابو الولید ہاشم بن احمد بن مسرور راوی کے حالاتِ زندگی نہیں مل سکے۔
3 عبیداللہ بن اسحاق بن سہل سنجاری کی توثیق درکار ہے۔
4 اس سند میں اور بھی خرابیاں ہیں۔
i عن الحسن، عن أنس بن مالک ۔۔۔۔ ۔
(المعجم الأوسط للطبراني : 146/8، ح : 9372)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے،کیونکہ :
1 امام طبرانی رحمہ اللہ کا استاذ ہارون بن محمد بن منخل واسطی ’’مجہول‘‘ہے۔
2 موسیٰ بن سعد بصری راوی بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
3 حفص بن عمر عدنی راوی جمہور محدثین کے نزدیک سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔
b حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ ۔
’’جمہور محدثین کرام نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘
(تخریج أحادیث الإحیاء : 4272)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘کہا ہے۔
(العلل للدارقطني : 245/1)
4 امام حسن بصری ’’مدلس‘‘ہیں اور انہو ں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
یہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منسوب حدیث کی تمام سندیں ہیں ،جن کی حقیقت ہم نے واضح کر دی ہے۔
b حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَہٰذِہٖ طُرُقٌ مُّتَعَدِّدَۃٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، وَکُلٌّ مِّنْہَا فِیہِ ضَعْفٌ وَّمَقَالٌ ۔
’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کی یہ مختلف سندیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک میں ضعف اور مقال ہے۔‘‘(البدایۃ والنہایۃ : 353/7)
b امام حاکم رحمہ اللہ نے جب اس روایت کے دفاع میں یہ کہا کہ :
وَقَدْ رَوَاہُ عَنْ أَنَسٍ أَکْثَرُ مِنْ ثَلَاثِینَ نَفْسًا ۔
’’اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے تیس سے زائد راویوں نے بیان کیا ہے۔‘‘
تو ان کے ردّو جواب میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا :
فَصِلْہُمْ بِثِقَۃٍ یَّصِحُّ الْإِسْنَادُ إِلَیْہِ ۔
’’ان میںسے کوئی ایک ثقہ راوی ایسا بتا دیں، جس تک صحیح سند پہنچ رہی ہو۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 351/7)
حدیث سفینہ :
اس حدیث کی تین سندیں ہیں۔ان میں سے ہر ایک کا حال پیش خدمت ہے :
1 عن مطیر، عن ثابت البجليّ، عن سفینۃ ۔۔۔۔ ۔
(مسند أبي یعلٰی، کما في المطالب العالیۃ : 3936، فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنبل : 945، تاریخ دمشق لابن عساکر : 258/42)
تبصرہ :
یہ باطل سند ہے،کیونکہ اس کا راوی مطیر بن ابو خالد ’’متروک‘‘ہے۔
b امام بخاری رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَلَا یَصِحُّ حَدِیثُہٗ ۔ ’’اس کی روایت صحیح نہیں ہے۔‘‘
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 252/4، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مَتْرُوکُ الْحَدِیثِ ۔ ’’یہ متروک الحدیث راو ی ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 394/8)
b امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف الحدیث‘‘کہا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 394/8)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے الضعفاء والمتروکون(503)میں ذکر کیا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’متروک‘‘ کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 129/4، ت : 8597)
2 عن بریدۃ بن سفیان، عن سفینۃ ۔۔۔۔ ۔
(مسند البزّار : 3841، تاریخ دمشق لابن عساکر : 258/42، مناقب علي بن أبي طالب لابن المغازلي : 175)
تبصرہ :
اس کی سند باطل ہے،کیونکہ بریدہ بن سفیان جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔
b اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فِیہِ نَظَرٌ ۔ ’’اس میں کلام ہے۔‘‘(التاریخ الکبیر : 141/2)
b امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لَہٗ بَلِیَّۃٌ تُحْکٰی عَنْہُ ۔
’’اس سے ایک جھوٹی روایت نقل کی جاتی ہے۔‘‘(العلل : 1500)
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون : 134)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضَعِیفُ الْحَدِیثِ ۔
’’یہ ضعیف الحدیث راوی ہے۔‘‘(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 424/3)
b امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہٰذَا لَیْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِیثِ ۔
’’یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔‘‘(السنن الکبریٰ : 877)
b حافظ جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : رَدِيئُ الْمَذْہَبِ ۔
’’یہ غلط مذہب کا پیروکار ہے۔‘‘(أحوال الرجال : 205)
3 عن سلیمان بن قرم، عن فطر بن خلیفۃ، عن عبد الرحمٰن بن أبي نعم، عن سفینۃ ۔۔۔۔ ۔
(المعجم الکبیر للطبراني : 82/7، ح : 6437)
تبصرہ :
یہ سند باطل ہے،کیونکہ اس کا راوی سلیمان بن قرم جمہور محدثین کے نزدیک سخت ’’ضعیف‘‘ہے۔
b امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ یَکُنْ بِالْقَوِيِّ، وَہُوَ صَالِحٌ ۔
’’یہ نیک آدمی ہے، مگر حدیث میں قوی نہیں ہے۔‘‘(سؤالات ابن أبي شیبۃ: 2471)
b امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَیْسَ بِشَيْئٍ، وَہُوَ ضَعِیفٌ ۔
’’یہ کچھ بھی نہیں ،ضعیف راو ی ہے۔ ‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 137/4، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے لَیْسَ بِالْمَتِینِ اور امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے لَیْسَ بِذَاکَ کہا ہے۔ (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 137/4)
b امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے لَیْسَ بِالْقَوِيِّ کہا ہے۔
(الضعفاء والمتروکون : 251)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
کَانَ رَافِضِیًّا غَالِیًا فِي الرَّفْضِ، وَیُقَلِّبُ الْـأَخْبَارَ ۔
’’یہ غالی رافضی تھا اور روایات کو الٹ پلٹ کر دیتا تھا۔‘‘(المجروحین : 332/1)
b امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا أَرٰی بِہٖ بَأْسًا، وَلٰکِنَّہٗ کَانَ یَفْرِطُ فِي التَّشَیُّعِ ۔
’’میں اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، لیکن وہ تشیع میں افراط سے کام لیتا تھا۔‘‘(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 136/2، وسندہٗ صحیحٌ)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّہٗ مُفْرِطٌ فِي التَّشَیُّعِ، وَلِسُلَیْمَانَ أَحَادِیثُ حِسَانٌ أَفَرَادَاتٌ، وَہُوَ خَیْرٌ مِّنْ سُلَیْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ بِکَثِیرٍ ۔
’’یہ غالی شیعہ تھا،سلیمان کی منفرد روایتیں اچھی ہیں، وہ سلیمان بن ارقم سے بہت بہتر ہے۔ ‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 257/3)
b امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے تعلیقاً اور امام مسلم رحمہ اللہ نے متابعت میں روایت لی ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 580/3، ت : 7671)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سَيِّئُ الْحِفْظِ، یَتَشَیَّعُ ۔
’’اس کا حافظہ خراب تھا اور یہ شیعہ تھا۔‘‘(تقریب التہذیب : 2600)
لہٰذا یہ راوی ’’ضعیف‘‘ہی ہے۔
حدیث ابن عباس :
(الضعفاء الکبیر للعقیلي : 82/4، 83، المعجم الکبیر للطبراني : 282/10، مناقب عليّ بن أبي طالب لابن المغازلي :164، تاریخ دمشق لابن عساکر : 246/42، المناقب للخوارزمي : 50)
تبصرہ :
یہ سند باطل ہے،کیونکہ :
1 اس میں سلیمان بن قرم ’’ضعیف‘‘ راوی موجود ہے۔
2 محمد بن شعیب راوی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَا یُعْرَفُ ۔ ’’یہ مجہول راوی ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 580/3)
b حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول‘‘ کہا ہے۔
(لسان المیزان : 199/5)
طبرانی میں محمد بن سعید ہے یہ تصحیف (کتاب کی غلطی)ہے۔ صحیح عبارت محمد بن شعیب ہی ہے۔
b حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔
’’میںاسے نہیں جان پایا۔‘‘(مجمع الزوائد : 126/9)
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہٰذَا حَدِیثٌ لَّا یَصِحُّ، مُحَمَّدُ بْنُ شُعَیْبٍ (سَعِیدٍ) مَّجْہُولٌ ۔
’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے، کیونکہ اس کی سند میں محمد بن شعیب (سعید)مجہو ل ہے۔‘‘(العلل المتناہیۃ : 229/1)
b امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حَدِیثُہٗ غَیْرُ مَحْفُوظٍ ۔
’’اس کی حدیث غیر محفوظ ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 82/4)
اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: اَلرِّوَایَۃُ فِي ہٰذَا؛ فِیہَا لِینٌ ۔
’’اس روایت میں کمزوری ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 83/4)
حدیث علی :
عن عیسی بن عبد اللّٰہ بن محمد بن عمر بن علي بن أبي طالب، حدّثني أبي، عن أبیہ، عن جدّہ، عن عليّ ۔۔۔۔ ۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 245/42)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی عیسیٰ بن عبداللہ بن عمر کو :
b امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ’’متروک الحدیث‘‘کہا ہے۔
(سنن الدارقطني : 263/2)
b امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَمْ یَکُنْ بِقَوِيِّ الْحَدِیثِ ۔ ’’یہ حدیث میں قوی نہیں ہے۔‘‘
(الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم : 280/6)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
یَرْوِي عَنْ أَبِیہِ، عَنْ آبَائِہٖ أَشْیَائَ مَوْضُوعَۃً، لَا یَحِلُّ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ، کَأَنَّہٗ کَانَ یَہِمُ وَیُخْطِیُٔ، حَتّٰی کَانَ یَجِيئُ بِالْـأَشْیَائِ الْمَوْضُوعَۃِ عَنْ أَسْلَافِہٖ، فَبَطَلَ الِاحْتِجَاجُ بِمَا یَرْوِیہِ لِمَا وَصَفْتُ ۔
’’یہ اپنے آباو اجداد سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا ہے۔اس کی بیان کردہ روایت کو دلیل بنانا جائز نہیں، کیونکہ یہ وہم اور خطا کا شکار تھا، یہاں تک کہ اس نے اپنے اسلاف سے موضوع روایتیں بیان کر ڈالیں۔چنانچہ اس بنا پر اس کی روایات سے دلیل لینا باطل ہے۔‘‘(المجروحین : 122/2)
نیز اسے (الثقات : 492/8)میں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
فِي حَدِیثِہٖ بَعْضُ الْمَنَاکِیرُ ۔ ’’اس کی بعض روایتیں منکر ہیں۔‘‘
b امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی عَنْ أَبِیہِ، عَنْ آبَائِہٖ أَحَادِیثَ مَوْضُوعَۃً ۔
’’یہ اپنے والد کے واسطے سے اپنے اجداد سے من گھڑت روایتیں بیان کرتا ہے۔‘‘(المدخل إلی الصحیح، ص : 170)
b امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی عَنْ أَبِیہِ، عَنْ آبَائِہٖ أَحَادِیثَ مَنَاکِیرَ، لَا یُکْتَبُ حَدِیثُہٗ، لَا شَيْئَ ۔
’’یہ اپنے والد کے واسطے سے اپنے اجداد سے منکر روایتیں بیان کرتا ہے، اس کی حدیث کو نہ لکھا جائے،اس کا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘(الضعفاء : 175)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَعَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ لَا یُتَابَعُ عَلَیْہِ ۔
’’اس کی اکثر روایات منکر ہیں۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 245/5)
b جب امام حاکم رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں لکھا کہ :
صَحَّتِ الرِّوَایَۃُ عَنْ عَلِيٍّ ۔
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت ثابت ہے۔‘‘(المستدرک : 131/3)
تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں ان کا ردّ کیا کہ :
لَا، وَاللّٰہِ، مَا صَحَّ شَيْئٌ مِّنْ ذٰلِکَ ۔
’’اللہ کی قسم!اس بارے میں کوئی روایت بھی صحیح نہیں ہے۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 351/7)
حدیث یعلیٰ بن مرّۃ :
n حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ رُوِي مِنْ حَدِیثِ یَعْلَی بْنِ مُرَّۃَ، وَالْـإِسْنَادُ إِلَیْہِ مُظْلِمٌ، وَرُوِيَ مِنْ حَدِیثِ حَبْشِيِّ بْنِ جُنَادَۃَ، وَلَا یَصِحُّ أَیْضًا، وَمِنْ حَدِیثِ أَبِي رَافِعٍ نَّحْوُہٗ، وَلَیْسَ بِصَحِیحٍ ۔
’’اس بارے میں یعلیٰ بن مرہ کی حدیث بھی مروی ہے،لیکن اس کی سند سخت ضعیف ہے۔اسی طرح حبشی بن جنادہ کی حدیث بھی ہے ،وہ بھی ثابت نہیں۔ ابو رافع کی حدیث بھی مروی ہے اور وہ بھی صحیح نہیں۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 354/7)
متن کا اضطراب :
اس حدیث کی سند کا حال توآپ ملاحظہ فرما چکے ہیںکہ اس کی کوئی ایک بھی سند اصولِ محدثین کے مطابق پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔صرف سند کا ہی مسئلہ نہیں، اس کے متن میں بھی اضطراب و اختلاف پایا جاتا ہے۔
1 پہلا اختلاف یہ ہے کہ یہ کون سا پرندہ تھا؟مسند ابو یعلیٰ اور ابن عدی کی روایت میں حجل، ابن عساکر کی روایت،جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اس میں حباریٰ، ابن المغازلی کی روایت،جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اس میں یعاقیب اور ابن المغازلی ہی کی ایک روایت میں نحامہ ،جبکہ ابن عساکر کی ایک روایت میں دجاجۃ کا ذکر ہے۔
2 پرندے کی تعداد میں بھی اختلاف ہے۔ بعض روایات میں اطیار بعض میں طوائر اور بعض میں نحامات کا ذکر ہے۔
3 اس میں بھی اختلاف ہے کہ پرندہ کس نے ہدیہ کیا تھا؟ عقیلی اور طبرانی کی روایت میں سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا کا ذکر ہے،ابن عساکر اور ابن المغازلی کی روایت میں انصار کی ایک عورت کا ذکر ہے ۔یہ بات تو طَے ہے کہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا انصاریہ نہیں تھیں۔
اس پر سہاگہ یہ کہ اس روایت کو بلحاظ ِسند بہت سے ائمہ محدثین نے ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔
محدثین کرام اور حدیث طیر :
1 امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا الْبَابُ؛ الرِّوَایَۃُ فِیہَا لَیِّنٌ وَّضَعِیفٌ، وَلَا نَعْلَمُ فِیہِ شَیْئًا ثَابِتًا ۔
’’اس بارے میں منقول تمام روایات میں کمزوری اور ضعف ہے۔ہمارے علم کے مطابق اس سلسلے میں کچھ بھی ثابت نہیں۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 46/1)
نیز فرماتے ہیں : طُرُقُ ہٰذَا الْحَدِیثِ؛ فِیہَا لِینٌ ۔
’’اس حدیث کی سندوں میں کمزوری ہے۔‘‘(الضعفاء الکبیر : 189/4)
2 امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رَوٰی عَنْ أَنَسٍ مِّنْ وُّجُوہٍ، وَکُلُّ مَنْ رَوَاہُ عَنْہُ؛ فَلَیْسَ بِالْقَوِيِّ ۔
’’اس روایت کو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کئی سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے، البتہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے اسے بیان کرنے والے راویوں میں سے کوئی بھی قوی نہیں۔‘‘(مسند البزّار : 7848)
3 امام خلیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَمَا رَوٰی فِي حَدِیثِ الطَّیْرِ ثِقَۃٌ، رَوَاہُ الضُّعَفَائُ، مِثْلُ : إِسْمَاعِیلِ ابْنِ سُلَیْمَانَ الْـأَزْرَقِ وَأَشْبَاہِہٖ، وَیَرُدُّہٗ جَمِیعُ أَئِمَّۃِ الْحَدِیثِ ۔
’’حدیث ِطیر کو کسی ایک بھی ثقہ راوی نے بیان نہیں کیا۔اسے صرف ضعیف راوی بیان کرتے ہیں،جیساکہ اسماعیل بن سلیمان ازرق اور اس سے ملتے جلتے دوسرے راوی ہیں۔ تمام محدثین نے اسے ردّ کیا ہے۔‘‘
(الإرشاد في معرفۃ علماء الحدیث : 420/1)
4 حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ ،حافظ محمد بن طاہر مقدسی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں :
کُلُّ طُرُقِہٖ، أَيْ حَدِیثِ الطَّیْرِ، بَاطِلَۃٌ مَّعْلُولَۃٌ ۔
’’حدیث طیر کی تمام سندیں باطل اور معلول ہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ : 223/1)
5 حافظ محمد بن ناصر سلامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حَدِیثٌ مَّوْضُوعٌ، وَإِنَّمَا جَائَ مِنْ سُقَّاطِ أَہْلِ الْکُوفَۃِ، عَنَ الْمَشَاہِیرِ وَالْمَجَاہِیلِ، عَنْ أَنَسٍ وَّغَیْرِہٖ ۔
’’یہ روایت من گھڑت ہے، کیونکہ اس کو ضعیف کوفی راویوں نے مشہور اور مجہول راویوں کے واسطے سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے بیان کیا ہے۔ ‘‘
(المنتظم لابن الجوزي : 275/7)
6 خود حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس کی سولہ سندوں میں سے ہر ایک کی علت بیان کی اور فرمایا :
قَدْ ذَکَرَہُ ابْنُ مَرْدَوَیْہِ مِنْ نَّحْوِ عِشْرِینَ طَرِیقًا؛ کُلُّہَا مُظْلِمٌ، وَفِیہَا مَطْعَنٌ ۔
’’ابن مردویہ نے اس روایت کو تقریباً بیس سندوں سے ذکر کیا ہے،مگر وہ تمام کی تمام سخت ضعیف ہیں اور ان میں خرابی موجود ہے۔‘‘
(العلل المتناہیۃ : 233/1)
7 حافظ عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَہٗ طُرُقٌ؛ کُلُّہَا ضَعِیفَۃٌ ۔
’’اس کی کئی سندیں ہیں،لیکن سب کی سب ضعیف ہیں۔ ‘‘
(تخریج أحادیث الإحیائ، ص : 855)
8 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إِنَّ حَدِیثَ الطَّائِرِ مِنَ الْمَکْذُوبَاتِ الْمَوْضُوعَاتِ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ وَالْمَعْرِفَۃِ بِحَقَائِقِ النَّقْلِ ۔
’’حدیث ِطیر محققین علما اور اہل فن محدثین کے نزدیک من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ ‘‘(منہاج السنّۃ : 99/4، وفي نسخۃ : 371/7)
9 حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَہٰذَا الْحَدِیثُ قَدْ صَنَّفَ النَّاسُ فِیہِ، وَلَہٗ طُرُقٌ مُّتَعَدِّدَۃٌ، وَفِي کُلٍّ مِّنْہَا نَظَرٌ ۔
’’اس حدیث پر لوگوں نے متعدد کتابیں لکھیں ہیں۔اس کی بہت سی سندیں ہیں، لیکن ان میں سے ہر ایک میں خرابی ہے۔‘‘
(البدایۃ والنہایۃ : 351/7، 352)
نیز مذکورہ روایت کی بعض سندوں کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وَفِي جُمْلَۃٍ؛ فَفِي الْقَلْبِ مِنْ صِحَّۃِ ہٰذَا الْحَدِیثِ نَظَرٌ، وَإِنْ کَثُرَتْ طُرُقُہٗ ۔
’’خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگرچہ اس حدیث کے طرق بکثرت ہیں، مگر دل میں اس کی صحت محل نظر ہے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ : 351/7، 354)
0 علامہ دمیری رحمہ اللہ کہتے ہیں :
حَدِیثُ الطَّیْرِ؛ رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُو یَعْلٰی وَالْبَزَّارُ مِنْ عِدَّۃِ طُرُقٍ، کُلُّہَا ضَعِیفَۃٌ ۔
’’حدیث ِطیر کو امام طبرانی، ابو یعلیٰ اور بزار رحمہم اللہ نے متعدد سندوں سے بیان کیا ہے، لیکن وہ تمام ضعیف ہیں۔‘‘(حیاۃ الحیوان : 240/2)
! علامہ شوکانی رحمہ اللہ ،امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَاعْتَرَض عَلَیْہِ کَثِیرٌ مِّنْ أَہْلِ الْعِلْمِ ۔
’’اکثر اہل علم نے امام حاکم رحمہ اللہ کے اسے صحیح کہنے پر اعتراض کیا ہے۔‘‘
(الفوائد المجموعۃ، ص : 382)
@ علامہ محمد بن یعقوب فیروز آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لَہٗ طُرُقٌ کَثِیرَۃٌ؛ کُلُّہَا ضَعِیفَۃٌ ۔
’’اس کی بہت سی سندیںہیں ،مگر وہ تمام کی تمام ضعیف ہیں۔‘‘
(الفوائد المجموعۃ للشوکاني، ص : 382)
# اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ ثابت کرنے کے لیے علامہ ابو بکر برقانی رحمہ اللہ نے ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر : 354/7)
صحیح حدیث کی مخالفت :
حدیث ِطیر ’’ضعیف‘‘ ہونے کے ساتھ ساتھ اس متفق علیہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہے، ملاحظہ فرمائیں :
n سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
فَقُلْتُ : أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَیْکَ؟ قَالَ : ’عَائِشَۃُ‘، قُلْتُ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ : ’أَبُوہَا‘، قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : ’عُمَرُ‘، فَعَدَّ رِجَالًا، فَسَکَتُّ مَخَافَۃَ أَنْ یَّجْعَلَنِي فِي آخِرِہِمْ ۔
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : لوگوں میںسے آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عائشہ،پھر میں نے پوچھا: مردوں میں سے کون ہیں؟ فرمایا:ان کے والد(سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ )۔میں نے عرض کیا:اس کے بعد۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی اور آدمیوں کو شمار کیا۔میں اس ڈر سے خاموش ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سب سے آخر میں ذکر کریں گے۔‘‘
(صحیح البخاري : 4358، صحیح مسلم : 2384)
ایک اور روایت :
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب رکھتے تھے اور اللہ و رسول کے ہاں بھی محبوب تھے۔
(صحیح البخاري : 4210، صحیح مسلم : 2406)
البتہ یہ کہنا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالعموم سب سے زیادہ محبوب تھے،صحیح نہیں،بلکہ حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
حدیث ِطیر کی حالت تو آپ جان چکے ہیںکہ وہ سرے سے ثابت ہی نہیں،لیکن بعض لوگ اس سلسلے میں ایک اور حدیث بھی پیش کرتے ہیں،چنانچہ ملاحظہ فرمائیں :
n سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
اِسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَۃَ عَالِیًا، وَہِيَ تَقُولُ : وَاللّٰہِ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ عَلِیًّا أَحَبُّ إِلَیْکَ مِنْ أَبِي، فَأَہْوٰی إِلَیْہَا أَبُو بَکْرٍ لِّیَلْطِمَہَا، وَقَالَ : یَا ابْنَۃَ فُلَانَۃَ، أَرَاکِ تَرْفَعِینَ صَوْتَکِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَمْسَکَہٗ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَخَرَجَ أَبُو بَکْرٍ مُغْضَبًا، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : یَا عَائِشَۃُ، کَیْفَ رَأَیْتِنِي أَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ؟ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ أَبُو بَکْرٍ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَقَدِ اصْطَلَحَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَائِشَۃُ، فَقَالَ : أَدْخِلَانِي فِي السِّلْمِ، کَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي الْحَرْبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : قَدْ فَعَلْنَا ۔
’’سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، توسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بلند آواز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے سنا۔اللہ کی قسم!مجھے معلوم ہے کہ آپ،علی( رضی اللہ عنہ )کے ساتھ میرے باپ کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں۔سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو طمانچہ رسید کرنے کے لیے بڑھے اور فرمایا : میں تیری آواز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند ہوتے ہوئے سن رہا ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو روک دیا۔سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں وہاں سے چلے گئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا :دیکھا ،میں نے کیسے تمہیں تمہارے والد سے بچا لیا۔بعد میں سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر آنے کی اجازت طلب کی، تو اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی صلح ہوچکی تھی۔سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:آپ دونوں مجھے بھی اپنی صلح میں بھی شریک کر لیجیے،جس طرح اپنی ناراضگی میں شریک کیا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہم نے ایسا کر لیا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 275/4، فضائل الصحابۃ لأحمد بن حنبل : 39، مسند البزّار : 3225، شرح مشکل الآثار للطحاوي : 5309)
لیکن اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے۔اس کی سند سے ابو اسحاق سبیعی’’مدلس‘‘کا واسطہ گر گیا ہے،جو کہ سنن ابو داؤد (4999) میں موجود ہے۔بلاشبہ یہ [المزید في متّصل الأسانید]ہے۔ایسی صورت میں واسطے سے پہلے والا راوی واسطے کے بعد والے راوی سے سماع کی تصریح کر دے، تو شبہ انقطاع ختم ہو جاتا ہے،ورنہ نہیں۔یونس بن ابو اسحاق نے عیزار بن حریث سے سماع کی تصریح نہیں کی،لہٰذا شبہ انقطاع کی وجہ سے یہ سند ’’ضعیف‘‘ہی ہے۔
بالفرض اس روایت کو صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے،توثابت یہ ہو گا کہ کسی خاص موقعہ پر کسی خاص کام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر پڑ گئی تھی اور اسی خاص موقعہ کی طرف سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حدیث میں اشارہ کیا ہے۔سیدہ کے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا علی رضی اللہ عنہ بالعموم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ محبوب تھے۔
شارحِ صحیح بخاری،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مذکورہ دونوں احادیث میں جمع و تطبیق ان الفاظ میں فرماتے ہیں :
وَیُمْکِن الْجَمْعُ بِاخْتِلَافِ جِہَۃِ الْمَحَبَّۃِ؛ فَیَکُونُ فِي حَقِّ أَبِي بَکْرٍ عَلٰی عُمُومِہٖ بِخِلَافِ عَلِيٍّ ۔
’’محبت کے مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے ان دونوں حدیثوں میں جمع و تطبیق کی صورت ممکن ہے۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ عمومی طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب تھے،جبکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کسی خاص موقعہ پر۔‘‘
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : 127/7)
الحاصل :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَردوں میں سب سے زیادہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو محبوب رکھتے تھے، تب ہی تو آپ رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ منتخب کیا گیا۔اس حقیقت کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھی اعتراف تھا کہ امت کے سب سے بہتر فرد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ انہوں نے خود کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب خیال کر کے اپنے آپ کو خلافت کا اول حقدار قرار دیا ہو۔
دیگر صحابہ کرام بھی یہی سمجھتے تھے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔اس حوالے سے دلائل کا ذکر طوالت کا باعث ہو گا۔
یہاں یہ بھی یاد رہے کہ جملہ صحابہ کرام] سے محبت ہمارے ایمان کا جزوِ لازم ہے۔دلائل کے ذریعے صحابہ کرام کے فضائل میں باہمی تقابل کسی کی تنقیص کا سبب نہیں بنتا۔ہم سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کرتے ہیں اور سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے بھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.