1,499

داڑھی کی شرعی حیثیت اور ماہنامہ اشراق، حافظ ابویحیی نور پوری

جنوری 2011 کے ماہنامہ اشراق پر نظر پڑی ۔ صفحہ نمبر 45 اور 46 میں جناب عمار خان ناصر نے ڈاڑھی کی شرعی حیثیت کے متعلق ایک سوال کا جواب دیا ہے ۔
یہ جواب پڑھ کر حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی ۔ اس حوالے سے ہم دو باتوں کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرنا چاہیں گے ۔ ایک تو ڈاڑھی کی شرعی حیثیت کی تعیین میں جناب جاوید احمد غامدی کا تضاد اور دوسرے ڈاڑھی کو شعائر ِ اسلام سے خارج کرنے کے حوالے سے جناب عمار خان ناصر کی سعیِ لاحاصل ۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے :
ڈاڑھی کی شرعی حیثیت اور غامدی صاحب کا تضاد :
جناب عمار خان ناصر لکھتے ہیں : “دین میں ڈاڑھی کی حیثیت کے بارے میں استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے دو قول ہیں ۔ قولِ جدید کے مطابق یہ ان کے نزدیک کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں ، جبکہ قولِ قدیم یہ ہے کہ اسے دین کے ایک شعار اور انبیاء کی سنت کی حیثیت حاصل ہے ۔”(ماہنامہ اشراق ، شمارہ جنوری 2011 ، ص 45)
کسی ایسے مسئلہ میں ایک شخص کی رائے یا تحقیق بدل جانا کوئی معیوب بات نہیں جو امت ِ مسلمہ کے مابین اختلافی ہو ، لیکن ایک ایسا اَمَرجو ضروریات ومطلوبات ِ دین میں سے ہو اور جس کے شعارِ اسلام ہونے پر صحابہ کرام سے لے کر پوری امت ِ مسلمہ کا کلمہ ایک رہا ہو ، کسی دَور میں بھی مسلمانوں کی اس بارے میں دو رائے نہ ہوئی ہوں ، نیز جسے خود غامدی صاحب ایک دَور میں “نبیوں کی سنت ، ملّت ِ اسلامی میں سنت ِ متواترہ ، فطرت کا تقاضا ، ملّت ِ اسلامیہ کا شعار ”قرار دے چُکے ہوں اورڈاڑھی نہ رکھنے والے شخص کو کھلے الفاظ میں عملی طور پر ملت ِ اسلامی سے خارج بھی کہہ چُکے ہوں ، ایسے فطری اور اَٹَل اَمَر کے بارے میں ایک مُدّت بعد“کوئی دینی نوعیت رکھنے والی چیز نہیں” کا غیر فطری فتویٰ، مفاد پرستی اور ہویٰ پرستی کے سوا کسی اور نام سے موسُوم نہیں ہو سکتا ۔
ڈاڑھی کی شرعی حیثیت پر بہت کچھ لکھا جا چُکا ہے ۔ اس حوالے سے کتاب وسنت کی نُصوص اور ہردَور کے علمائے اُمت کے اقوال کا یہ مختصر مضمون متحمل بھی نہیں ہو سکتا ۔ یہاں پر ہم غامدی صاحب کے وہ الفاظ نقل کرنے پر ہی اکتفا کریں گے ،جو انہوں نے آج سے تقریباً 25 سال پہلے اسی ماہنامہ “اشراق” میں لکھے تھے ، وہ کہتے ہیں :
“ڈاڑھی نبیوں کی سنت ہے ۔ ملت اسلامی میں یہ ایک سنت ِ متواترہ کی حیثیت سے ثابت ہے۔ نبی نے اسے اُن دس چیزوں میں شمار کیا ہے جو آپ کے ارشاد کے مطابق اُس فطرت کا تقاضا ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے اور قرآنِ مجید نے فرمایا ہے کہ اللہ کی بنائی ہوئی فطرت میں تبدیلی کرنا جائز نہیں ہے ۔ ارشاد ِ خداوندی ہے : ﭽ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬﭼ الروم : ٣٠، (اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو تبدیل کرنا جائز نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔) بنی آدم کی قدیم ترین روایت ہے کہ مختلف اقوام و ملل اپنی شناخت کے لیے کچھ علامات مقرر کرتی ہیں ۔ یہ علامات اُن کے لیے ہمیشہ نہایت قابلِ احترام ہوتی ہیں ۔زندہ قومیں اپنی کسی علامت کو ترک کرتی ہیں نہ اس کی اہانت گوارا کرتی ہیں ۔ اِس زمانے میں جھنڈے اور ترانے اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کو ہرقوم میں یہی حیثیت حاصل ہے ۔ دین کی بنیاد پر جو ملت وجود میں آتی ہے ، اس کی علامات میں سے ایک یہ ڈاڑھی ہے ۔ نبی نے جن دَس چیزوں کو فطرت میں سے قرار دیا ہے ، اُن میں سے ایک ختنہ بھی ہے ۔ ختنہ ملت ِ ابراہیمی کی علامت یا شِعار ہے ۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ڈاڑھی کی حیثیت بھی اِس ملت کے شِعار کی ہے ، چنانچہ کوئی شخص اگر ڈاڑھی نہیں رکھتا تو وہ گویا اپنے اس عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ملت ِ اسلامی میں شامل نہیں ہے ۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر اس ملک کے عَلَم اور ترانے کو غیر ضروری قرار دے تو ہمارے یہ دانش وَر اُمید نہیں ہے کہ اُسے یہاں جینے کی اِجازت دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔ لیکن اسے کیا کیجیے کہ دین کے ایک شِعار سے بے پروائی اور بعض مواقع پر اس کی اہانت ان لوگوں کا شِعار بن چُکا ہے ۔ ہمیں اِن کے مقابلے میں بہرحال اپنے شِعار پر قائم رہنا چاہیے۔”(ماہنامہ اشراق ، شمارہ ستمبر 1986، بحوالہ ماہنامہ اشراق ، جنوری 2011، ص 45، 46)
غامدی صاحب کی اس تحریر سے کم ازکم یہ دَس نِکات تو واضح طور پر اُبھر کر سامنے آ رہے ہیں :
1 ڈاڑھی تمام انبیائے کرام کی سنّت ہے ۔
2 ملت ِ اسلامیہ میں یہ ایک سنت ِ متواترہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
3 ڈاڑھی فطرت کا تقاضا ہے ۔
4 فطرت میں تبدیلی کرناحرام ہے ۔
5 ڈاڑھی شِعار ِ اسلام ہے ۔
6 ڈاڑھی ملت ِ اسلامیہ کی بھی علامت اور شِعار ہے۔
7 کوئی زندہ دل مسلمان ڈاڑھی کو ترک کر سکتا ہے نہ اس کی اہانت کر سکتا ہے۔
8 ڈاڑھی نہ رکھنے والا شخص ملت ِ اسلامیہ سے خارج ہونے کا (کم از کم عملی طور پر تو)اعلان کرتا ہے ۔
9 ڈاڑھی جیسے شِعار سے بے پروائی اور اِس کی اہانت نام نہاد دانشوروں کا شِعار ہے۔
0 حالات جیسے بھی ہوں ، ہر دَور میں حقیقی مسلمانوں کو ڈاڑھی والے شِعار پر قائم رہنا چاہیے ۔
لیکن افسوس کہ جب غامدی صاحب نے دیکھا کہ بدلتے حالات میں اِسی رائے پر قائم رہتے ہوئے اہل مغرب کو خوش نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے دین ومذہب کو مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے یہ فتویٰ جاری کر دیا :
“نبینے تکبر کی بنا پر ایسی تمام چیزوں کے استعمال سے منع کیا ہے جن سے امارت کی نمائش ہو یا بڑائی مارنے ،شیخی بگھارنے ،دوسروں پر رعب جمانے یا اوباشوں کے طریقے پر دھونس دینے والوں کی وضع سے تعلق رکھتی ہوں۔ ریشم پہننے ،قیمتی کھالوں کے غلاف بنانے اور سونے چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے آپنے اسی لئے روکاہے ،یہاں تک کے چھوٹی ڈاڑھی اور بڑی مونچھیں رکھنے والوں کو متکبرانہ وضع ترک کر دینے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اپنا شوق ڈاڑھی بڑھا کر پورا کرلیں ،لیکن مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھیں(اس نصیحت کا صحیح مفہوم یہی تھا مگر لوگوں نے اسے ڈاڑھی بڑھانے کا حکم سمجھا اور اس طرح ایک ایسی چیز دین میں داخل کر دی جو اس سے کسی طرح متعلق نہیں ہو سکتی)۔”(ماہنامہ اشراق ، شمارہ مئی2007، صفحہ 65)
پہلی بات تو یہ ہے کہ کئی چیزوں کی ممانعت میں شرعی حکمت واقعی تکبر و نخوت سے بچانے کی ہی تھی لیکن ڈاڑھی سجانے کا حکم شریعت ِ اسلامیہ میں کہیں بھی اس تناظر میں نہیں آیا جس میں غامدی صاحب نے اُسے پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔یاد رہے کہ ماہنامہ “اشراق” کی مذکورہ بالا عبارت کسی حدیث کا ترجمہ یا مفہوم نہیں ، بلکہ محض غامدی صاحب کی اپنی اختراع ہے ۔ ویسے یہ بات قابلِ تعجب بھی ہے کہ اس طرح کا “صحیح مفہوم”صرف اور صرف غامدی صاحب کے ذہن میں آیا ہے ۔ غامدی صاحب کے طرز ِ استدلال سے عیاں ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک صحابہ کرام سے لے کر سلف صالحین و ائمہ دین اور غامدی صاحب کے علاوہ عصرِ حاضر کے تمام علمائے کرام ذہنی طور پر بانجھ ہی رہے ہیں ۔ اگر رسولِ اکرم کا ڈاڑھی بڑھانے والا فرمان صرف شوق پورا کرنے کی اِجازت ہی تھی تو صحابہ کرام  جو براہ ِ راست آپ کے شاگرد تھے ، اُن میں سے کسی کو یہ بات کیوں معلوم نہ ہوئی اور پھر اُن سے علمِ دین کی تحصیل کرنے والے تابعین عظام یا اُن کے خوشہ چین ائمہ دین و سلف صالحین کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہ آئی ؟
غامدی صاحب کوئی ایسی حدیث پیش نہیں کر سکتے جس کا مفہوم یہ ہو کہ رسول اللہ نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم متکبرانہ وضع ترک کرنے کے لیے دیا تھا ۔ ویسے اِسی عبارت میں اُنہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ “مونچھیں ہر حال میں چھوٹی رکھیں”۔ نہ معلوم مونچھیں چھوٹی رکھنے کے حکمِ نبوی کو غامدی صاحب نے متکبرانہ وضع ترک کرنے کے ساتھ خاص کیوں نہیں کیا ؟ اور کچھ عجب نہیں کہ ڈاڑھی کی طرح مونچھوں کے بارے میں بھی آیندہ دنوں میں اُن کا فتویٰ تبدیل ہو جائے اور وہ اس کے بارے میں بھی لکھ دیں کہ مونچھیں چھوٹی کرنے کے حکم کا دین سے کوئی تعلق نہیں !!!
پھر یہ بات بھی مدِّ نظر رہنی چاہیے کہ فرمانِ نبوی کی بعید از کار تاویلات کے باوجود غامدی صاحب کے نزدیک ڈاڑھی ملت ِ اسلامی کا شِعار اور علامت ضرور ہے لیکن نہ جانے اب اِن کی نظر میں اس کی قدر وقیمت عَلَم اور ترانے جتنی بھی کیوں نہیں رہی ؟
یہاں پر ہم صرف ایک حدیث ِ رسول پیش کریں گے اور غامدی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کو دعوت ِ فکر دیں گے ۔ رسول اللہ کا فرمانِ عالیشان ہے :
«سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ، لَعَنَهُمُ اللَّهُ، وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ : —- وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي».
“چھ قسم کے لوگوں پر میں نے لعنت کی ہے ۔ اُن پر اللہ تعالیٰ اور ہر سابقہ نبی نے بھی لعنت کی ہے ۔ اُن میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جو میری سنّت کو چھوڑتے ہیں۔”
(جامع الترمذي : 2154، وسندہٗ حسن)
خود غامدی صاحب نے ڈاڑھی کو تمام انبیائے کرام کی سنّت قرار دیا ہے ، لہٰذا اُن کے فتوے کے مطابق ڈاڑھی نہ رکھنے والا شخص اللہ تعالیٰ اور تمام انبیائے کرام کی لعنت کا مستحق ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت ِ رسول پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے !
کتمانِ حق کے لیے لفظ و معنیٰ کی شعبدہ بازی !
ماہنامہ “اشراق” میں ڈاڑھی کی شرعی حیثیت کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے غامدی صاحب کے شاگرد ناصر صاحب نے کمال ہوشیاری دکھائی ہے ۔ وہ یوں کہ ناصر صاحب کے نزدیک ڈاڑھی دینی مطلوبات (ضروریات ِ دین)میں شامل تھی ۔ ضروریات ِ دین ایک اصطلاح ہے جس کا اطلاق اُن دینی اُمور پر ہوتا ہے جن کے دین ہونے کا انکارکرنے کے بعد آدمی کا دین سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ جب ڈاڑھی ناصر صاحب کے نزدیک ضروریات ِ دین میں شامل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دین ہونے کا منکر دین دار نہیں ہو سکتا۔ اور خود غامدی صاحب بھی قدیم دور میں کھل کر کہہ چُکے تھے کہ “کوئی شخص اگر ڈاڑھی نہیں رکھتا تو وہ گویا اپنے اس عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ ملت ِ اسلامی میں شامل نہیں ہے ۔” جب عملی طور پر انکار سے ملت ِ اسلامی سے خروج لگ جاتا ہے تو پھر سرے سے اس کے دین ہونے سے ہی انکاری ہو جانا بھی لازمی طور پر ملت ِ اسلامیہ سے خارج کر دیتا ہے۔یوں ناصر صاحب کے قول کی زَد میں غامدی صاحب پُوری طرح آ رہے تھے ۔
لیکن غامدی صاحب کی اس غلطی کو واضح کرنے کے بجائے ناصر صاحب نے لفظ و معنیٰ کی شعبدہ بازی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ : “میری طالب علمانہ رائے میں ڈاڑھی کو ایک اَمر فطرت کے طور پر دینی مطلوبات میں شمارکرنے کے حوالے سے استاذ گرامی کا قولِ قدیم اقرب الی الصواب ہے —”(اشراق ، جنوری 2011 ، ص 46)
حالانکہ جس قول سے غامدی صاحب منحرف ہو چکے ہیں اور جس کو وہ بڑی وضاحت سے بارہا اپنی تحریر و تقریر میں ردّ کر چکے ہیں ، اُسے استعمال کر کے اُن کا دِفاع کرنا نہایت عجیب ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی اس غلطی کو واضح کیا جاتا اور بتایا جاتا کہ وہ ضروریات ِ دین میں سے ایک اَمَر کے انکاری ہوئے جاتے ہیں ۔
یوں تو مرزا غلام احمد قادیانی بھی دعویٔ نبوت سے پہلے مسلمانوں کی طرح ختم ِ نبوت اور رفعِ عیسیٰ کا قائل تھا اور یہ بات اب تک اس کی بعض کتابوں میں موجود ہے۔ اگرآج کوئی قادیانی نواز“مسلمان”ختمِ نبوت اور رفعِ عیسیٰ کے بارے میں کہے کہ :“اس سلسلے میں غلام احمد قادیانی کے دو قول ہیں ۔ ایک قدیم ، یعنی ختم ِ نبوت اور رفعِ عیسیٰ کا اثبات اور دوسرا جدید ، یعنی ختمِ نبوت اور رفعِ عیسیٰ کا انکار— میری طالب علمانہ رائے میں ختم ِ نبوت اور رفعِ عیسیٰ کے بارے میں مرزا صاحب کی قدیم رائے اقرب الی الصواب ہے۔”
ہر ذی شعور ایسے شخص سے ضرور کہے گا کہ بھئی جب مرزا قادیانی نے اپنی پُرانی رائے کو ردّ کر دیا تھا اور اُسے غلط عقیدہ قرار دے دیا تھا تو اب اس رائے کو اس کی طرف منسوب کرنا اور اسےاقرب الی الصواب کہنا نہ صرف غلط ہے ، بلکہ اس کے جرم پر پردہ ڈالنے کی ایک سازش ہے ۔ اسی طرح غامدی صاحب اپنی پُرانی رائے کو یہ کہہ کر ردّ کر چکے ہیں کہ :
“اس (ڈاڑھی)کا شریعت کے احکام سے یا دین کے احکام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اصل میں غلطی یہی ہوئی ہے ، ایک چیز جو دین کے احکام سے متعلق نہیں تھی ، اسے دین کے احکام کے متعلق کر دیا گیا ہے—”
(www.youtube.com/watch?v=5EzT829ZSp4)
ڈاڑھی کو شعائرِ اسلام سے خارج کرنے کی ناکام کوشش :
جناب ناصر صاحب نے غامدی صاحب کی مخالفت کرتے ہوئے ڈاڑھی کو مطلوبات ِ دین میں تو داخل کر دیا ہے لیکن ساتھ ساتھ اس کے شعار ِ اسلام ہونے کا انکاربھی کردیا ہے ۔ بزعمِ خود وہ اس پر دلائل بھی رکھتے ہیں ۔ آئیے پہلے اُن کی زبانی وہ دلائل پڑھ لیں اور پھر ہماری طرف سے اُن کا منصفانہ تجزیہ بھی ملاحظہ فرما لیں ۔ ناصر صاحب لکھتے ہیں :
“روایات کے مطابق صحابہ و تابعین کے عہد میں بعض مقامات میں مجرم کی تذلیل کے لیے سزا کے طور پر اس کی ڈاڑھی مونڈ دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اس نوعیت کے فیصلے سیّدنا ابوبکر ، سیّدنا عمر ، سعد بن ابراہیم اور عمرو بن شعیب سے منقول ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : 33528، اخبار القضاہ لوکیع : 1/159)ا گر یہ حضرات ڈاڑھی کو کوئی باقاعدہ شِعار سمجھتے تو یقیناً مذکورہ فیصلہ نہ کرتے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی علاقے کے مسلمان اجتماعی طور پر کوئی جُرم کریں اور سزا کے طور پر ان کی کسی مسجد کو منہدم کر دیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا ۔ اسی طرح ڈاڑھی کو دینی شِعار سمجھتے ہوئے اسے تعزیراً مونڈ دینے کا فیصلہ بھی ناقابلِ فہم ہے ۔ ”
افسوس کہ ڈاڑھی کو شعائر ِ اسلام سے خارج کرنے کی دُھن میں روایات ذکر کرتے ہوئے غامدی صاحب کے “شاگرد ِ رشید” نے روایت کے تمام اصول و ضوابط کو پس پُشت ڈال دیا ہے ۔ اِن حضرات کی بندر بانٹ ملاحظہ فرمائیں کہ اگر اِن کی عقلِ سقیم نہ مانے تو یہ لوگ وہ احادیث بھی پُوری ڈھٹائی سے ردّ کردیتے ہیں جو چودہ سو سال سے پُوری امت ِ مسلمہ کے نزدیک معتبر رہی ہوتی ہیں ۔ اس کے برعکس اگر کوئی باطل روایت اِن کے باطل نظریات کے موافق ہو تو اس کو قبول کرنے کے سلسلے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں کرتے ۔
انہوں نے جن روایات کا حوالہ دیا ہے ، اُن کا بیان درجِ ذیل ہے :
سیّدنا ابو بکر و عمر  اور عمرو بن شعیب سے منسوب روایت :
یہ روایت مصنف ابنِ ابی شیبہ میں دو مقامات پر موجود ہے ۔ دونوں مقامات میں امام ابنِ ابی شیبہ  نے اس کی سند یوں بیان کی ہے : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنِ الْمُثَنّىٰ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ۔۔۔ “ہمیں عبد الوہاب ثقفی نے بیان کیا ۔ وہ مثنّٰی سے بیان کرتے ہیں اور مثنّٰی ، عمرو بن شعیب سے بیان کرتا ہے ۔ ”
(مصنف ابن ابی شیبۃ : 10/51، ح : 29279، 12/496، ح : 34225)
ظاہر ہے کہ کسی کی طرف منسوب بات ثابت تب ہی ہو گی جب منسوب کرنے والا شخص قابلِ اعتبار ہو گا ۔اب غور فرمائیں کہ عمرو بن شعیب سے اس بات کو بیان کرنے والا جو شخص مثنّٰی نامی ہے ،درجنوں ائمہ حدیث نے اسے ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے ۔ ان میں امام احمد بن حنبل ، امام ترمذی ، امام یحییٰ بن معین ، امام ابنِ عدی ، امام ابوزرعہ ، امام ابوحاتم ، امام نسائی ، امام دارقطنی ، امام ساجی ، امام ابو احمد الحاکم ، امام عُقَیْلی ، امام ابنِ حبان وغیرہم شامل ہیں ۔
حافظ ابنِ حجراس راوی کے بارے میں ائمہ دین کے خیالات کو اختصاراً یوں بیان کرتے ہیں : ضعيف، اختلط بأخرة. “یہ ضعیف راوی تھا ، آخر عمر میں تو اس کا حافظہ بھی جواب دے گیا تھا۔”(تقریب التھذیب لابن حجر : ت 6471)
یہ تو تھی عمرو بن شُعَیب کی بات ، اب غور فرمائیں کہ اس روایت میں سیّدنا ابو بکر اور سیّدنا عمر  کے حوالے سے جو اس طرح کی بات منسوب ہے ، اس میں ایک اَور اُصولی نقص ہے ۔ اس روایت میں دونوں مقامات پر عمرو بن شُعَیب کے الفاظ یہ ہیں :
وَبَلَغَنِي أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانَ يَفْعَلاَنِهِ . “مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر ایسے کرتے تھے ۔”
عمرو بن شُعَیب کو یہ بات کس نے بتائی اور کس ذریعے سے اُن کو یہ بات پہنچی ، یہ ایسا عُقدہ ہے جو آج تک حَل نہیں ہو سکا ۔
یعنی ایک تو عمرو بن شُعَیب سے یہ بات ثابت نہیں ہو سکی ، دوسرے عمرو بن شُعَیب سے سیّدنا ابو بکر و عمر  تک کا واسطہ نامعلوم ہے ۔ نہ جانے کس قُماش کے آدمی نے یہ بات سیّدنا ابوبکر و عمر کے ذمّے لگائی ہے ؟
افسوس کہ ایسی بے سروپا روایت ملی ہے ارباب ِ ماہنامہ “اشراق”کو شعائر ِ اسلام پر حملہ کرنے کے لیے !
سعد بن ابراہیم سے منسوب روایت :
رہی بات سعد بن ابراہیم سے منسوب روایت کی تو اس کی بھی دو سندیں ہیں :
1 امام بخاریکی سند (التاریخ الکبیر للبخاری : 4/51- 52) :
حَدَّثَنِي سهل : نا أبو سلمة : أخبرني الهيثم بن محمّد بن حفص بن دينار مولى بنى غفار : كان سعد عند ابن هشام ۔۔۔۔۔۔۔
اور امام بخاری ہی کی سند سے اس روایت کو امام ابنِ عساکر نے اپنی تاریخ (تاریخ دِمشق : 20/216) اور حافظ ذہبینے اپنی کتاب (سیر اعلام النبلاء : 5/420)میں بیان کیا ہے ۔
2 امام (ابوبکر محمد بن خلف بن حیان بن صدقہ )وکیع البغدادی (م : 306ھ)کی سند (اخبار القضاۃ لوکیع : ص 158، 159) :
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللهِ بْن الْحَسَن، عَنِ النُّمَيري، عَن ابن سلمة الغِفَاري، عَنِ الهَيثَمِ بْنِ حُمَيْد بْنِ حَفْصِ بْنِ دِينَار؛ قَالَ : كان سعدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑا سا غور کرنے پر ہر شخص بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ دونوں سندوں کا دارومدار الہیثم بن محمد(اخبار القضاۃ میں یہ غلطی سے حُمَیْد ہو گیا ہے) بن حفص بن دینار نامی راوی پر ہے جو کہ سعد بن ابراہیم سے یہ روایت بیان کر رہا ہے ۔
اس کے بارے میں بھی اختصاراً حافظ ابنِ حجرہی کا قول ملاحظہ فرما لیا جائے :
قال ابن حبان : منكر الحديث على قلّته، لا يحتجّ به، لما فيه من الجهالة والخروج عن العدالة — وقد قدّمنا أنّ أبا حاتم قال فيه : مجهول —
“امام ابنِ حباننے فرمایا ہے کہ اس نے بہت کم روایات بیان کی ہیں ، پھر بھی اس کی روایات منکر ہیں ۔ اس کی روایت کو بطور ِ دلیل ذکر کرنا درُست نہیں ، کیونکہ یہ نامعلوم اور ثقاہت سے عاری راوی ہے —– ہم یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ امام ابوحاتمنے بھی اسے مجہول (نامعلوم) قرار دیا ہے۔”(لسان المیزان لابن حجر : 6/211)
دیگر محدثین کرام نے بھی اسے غیرمعتبر راویوں میں ذکر کیا ہے ، لیکن امام ابنِ حبّان اور دیگر ائمہ دین کے فیصلے کے خلاف تجدّد پسند ٹولہ ایسے راوی کی روایت کو بطور ِ دلیل پیش کرنے پر مُصِر ہے ۔
قارئین کرام اب خود ہی فیصلہ فرما لیں کہ جو اَمَر سب انبیائے کرام کی سنّت ہو ، خیر القرون کے تمام مسلمان اس کے پابند رہے ہوں اور وہ امت ِ مسلمہ میں متواتر سنّت کی حیثیت رکھتا ہو، اس کو شعائر ِ اسلام سے خارج کرنے کے لیے بھلا اس طرح کی بودی اور بوگس دلیلیں کام آسکتی ہیں ؟
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو معلوم کرنے اور پھر اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے !

2 تبصرے “داڑھی کی شرعی حیثیت اور ماہنامہ اشراق، حافظ ابویحیی نور پوری

  1. مسند ابو یعلی کی رویات هے کے نبی ص نے فرمایا عیسی ع خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ ختم کریں گے اور میری قبر پر مجهے آواز دیں گے اور میں ضرور جواب دوں گا اس رویات کی کیا حیثیت هے بیان کر دیں اگر ضعیف هے تو جرح پیش کر دیں

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.