599

دیدار رسول، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

دیدارِ الٰہی

اللہ تعالیٰ روز ِآخرت اپنے مومن بندوں کو اپنا دیدار دیں گے۔ یہ بہت بڑی غایت اور نہایت شان دار عنایت ہے۔ اس پر قرآن و حدیث کی نصوص اور مومنوں کا اجماع دلیل ہے۔ معطلہ، جہمیہ، معتزلہ، خوارج اور امامیہ شیعہ اس کے منکر ہیں۔
اجماعِ امت
1    مفسر شہیر، محدث کبیر، امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ  (٣١٠ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الصَّوَابُ مِنَ الْقَوْلِ فِي رُؤْیَۃِ الْمُؤْمِنِینَ رَبَّہَمْ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَہُوَ دِینُنَا الَّذِي نَدِینُ الِلّٰہَ بِہٖ، وَأَدْرَکْنَا عَلَیْہِ أَہْلَ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، فَہُوَ : أَنَّ أَہْلَ الْجَنَّۃِ یَرَوْنَہ، عَلٰی مَا صَحَّتْ بِہِ الْأَخْبَارُ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”درست یہی ہے کہ مومن روز قیامت باری تعالیٰ کا دیدار کریں گے، اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ ہمارا دین ہے۔ ہم نے اسی پر اہل سنت والجماعت کو پایا کہ جنتی باری تعالیٰ کا دیدار کریں گے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے صحیح احادیث میں ثابت ہے۔”
(صریح السنۃ، ص ٢٠)
2    امام ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ  (م:٣٦٠ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی جَلَّ ذِکْرُہ، وَتَقَدَّسَتْ أَسْمَاؤُہ، خَلَقَ خَلْقَہ، کَمَا أَرَادَ لِمَا أَرَادَ فَجَعَلَہُمْ شَقِیًّا وَّسَعِیدًا فَأَمَّا أَہْلُ الشِّقْوَۃِ فَکَفَرُوا بِاللّٰہِ الْعَظِیمِ وَعَبَدُوا غَیْرَہ، وَعَصَوْا رُسُلَہ، وَجَحَدُوا کُتُبَہ، فَأَمَاتَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ فَہُمْ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ وَفِي الْقِیَامَۃِ عَنِ النَّظَرِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی مَحْجُوبُونَ وَإِلٰی جَہَنَّمَ وَارِدُونَ وَفِي أَنْوَاعِ الْعَذَابِ یَتَقَلَّبُونَ وَلِلشَّیَاطِینِ مُقَارِبُونَ وَہُمْ فِیہَا أَبَدًا خَالِدُونَ، وَأَمَّا أَہْلُ السَّعَادَۃِ فَہُمُ الَّذِینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ الْحُسْنٰی فَآمَنُوا بِاللّٰہِ وَحْدَہ، وَلَمْ یُشْرِکُوا بِہٖ شَیْئًا وَّصَدَّقُوا الْقَوْلَ بِالْفِعْلِ فَأَمَاتَہُمْ عَلٰی ذٰلِکَ فَہُمْ فِي قُبُورِہِمْ یُنَعَّمُونَ وَعِنْدَ الْمَحْشَرِ یُبَشَّرُونَ وَفِي الْمَوْقِفِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی بِأَعْیُنِہِمْ یَنْظُرُونَ وَإِلَی الْجَنَّۃِ بَعْدَ ذٰلِکَ وَافِدُونَ وَفِي نَعِیمِہَا یَتَفَکَّہُونَ وَلِلْحُورِ الْعِینِ مُعَانِقُونَ وَالْوِلْدَانُ لَہُمْ یَخْدُمُونَ وَفِي جِوَارِ مَوْلَاہُمُ الْکَرِیمِ أَبَدًا خَالِدُونَ وَلِرَبِّہِمْ تَعَالٰی فِي دَارِہٖ زَائِرُونَ، وَبِالنَّظَرِ إِلٰی وَجْہِہِ الْکَرِیمِ یَتَلَذَّذُونَ وَلَہ، مُکَلِّمُونَ وَبِالتَّحِیَّۃِ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالسَّلَامِ مِنْہُ عَلَیْہِمْ یُکَرَّمُونَ (ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ)(الحدید : ٢١) فَإِنِ اعْتَرَضَ جَاہِلٌ مِّمَّنْ لَّا عِلْمَ مَعَہ، أَوْ بَعْضُ ہٰؤُلَاءِ الْجَہْمِیَّۃِ الَّذِینَ لَمْ یُوَفَّقُوا لِلرَّشَادِ وَلَعِبَ بِہِمُ الشَّیْطَانُ وَحُرِمُوا التَّوْفِیقَ فَقَالَ : الْمُؤْمِنُونَ یَرَوْنَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ قِیلَ لَہ، نَعَمْ؛ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی عَلٰی ذٰلِکَ فَإِنْ قَالَ الْجَہْمِيُّ : أَنَا لَا أُؤْمِنُ بِہٰذَا . قِیلَ لَہ، : کَفَرْتَ بِاللّٰہِ
الْعَظِیمِ . فَإِنْ قَالَ : وَمَا الْحُجَّۃُ . قِیلَ : لِـأَنَّکَ رَدَدْتَّ الْقُرْآنَ وَالسُّنَّۃَ وَقَوْلَ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَقَوْلَ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِینَ وَاتَّبَعْتَ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ .
”اللہ نے مخلوق پیدا کی، ان میں سعادت مند و بدبخت لکھ دئیے، بد بختوں نے اللہ کے ساتھ کفر کیا، غیر اللہ کی پوجا کی، اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور کتب وحی کو ٹھکرا دیا، انہیں اسی حالت میں موت آگئی۔ یہ لوگ قبروں میں عذاب دئیے جاتے ہیں، روز ِقیامت دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے، جہنم کا ایندھن ہوں گے، مختلف قسم کے عذابات میں الٹ پلٹ ہوں گے۔ شیطان کے ساتھی ہیں اور جہنم میں ہمیشہ رہیں گے اور خوش بختوں کے لئے تو اللہ نے پہلے سے ہی جنت تیار کر رکھی ہے، یہ لوگ صرف اللہ پر ایمان لائے اس کے ساتھ شرک نہیں کیا، اپنے قول کو عملی جامہ پہنایا۔ وہ اسی حالت میں فوت ہو گئے، انہیں قبروں میں انعام ملیں گے، روز ِمحشر ان کے لئے خوش خبریاں ہوںگی۔ میدان محشر میں آنکھوں کے ساتھ اللہ کا دیدار کریں گے۔ بعد ازاں وفود کی صورت جنت میں داخل ہوں گے۔ جنت کی نعمتوں سے محظوظ ہوں گے اور حور عین سے معانقہ کریں گے، بچے ان کے خدمت گزار ہوں گے۔ اپنے مولیٰ کریم قرب میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کی زیارت کیا کریں گے، باری تعالیٰ کے چہرے کے دیدار سے محظوظ ہوں گے۔ اللہ سے کلام کریں گے، ان کے لئے اللہ کی طرف سے سلام اور تحائف کی تکریم ہو گی۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے، اللہ عظیم فضل والا ہے۔
اگر کوئی جاہل، لا علم شخص اعتراض کرے یا جہمیہ، جنہیں حق بولنے کی توفیق ہی نہیں ملی، شیطان اس سے کھیلتا ہے اور جو توفیق خاص سے محروم ہے، سوال کرے کہ کیا مومنین روز قیامت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے؟، تو اس سے کہا جائے گا کہ جی ہاں الحمد للہ!۔ اگر جہمی کہے کہ میں رؤیت باری تعالیٰ پر ایمان نہیں لاتا، تو ہم اسے کہیں گے کہ تو نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے، اگر دلیل کا مطالبہ کرے، تو ہمارا جواب ہو گا کہ تو نے قرآن و سنت، اقوال صحابہ اور تمام مسلمان علمائے کرام کے اقوال کی مخالفت کی ہے اور مومنین کے رستے کو چھوڑ کر کسی اور ڈگر پر چل نکلا ہے۔”
(الشریعۃ للآجُرِّي : ٢/٩٧٦)
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
(وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیمًا . تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہ، سَلَامٌ وَّأَعَدَّ لَہُمْ أَجْرًا کَرِیمًا) (الأحزاب : ٤٣) .
”اللہ تعالیٰ مومنوں کے لئے رحیم ہے، جس روز مومنوں کی اللہ سے ملاقات ہو گی، اس روز ان کا تحفہ سلام ہو گا، اللہ نے ان کے لئے اجر ِکریم تیار کر رکھا ہے۔”
امام ابوبکر، محمد بن حسین، آجری رحمہ اللہ  (م : ٣٦٠ھ) لکھتے ہیں:
وَاعْلَمْ رَحِمَکَ اللّٰہُ أَنَّ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ بِاللُّغَۃِ أَنَّ اللُّقٰی ہَاہُنَا لَا یَکُونُ إِلَا مُعَایَنَۃً یَّرَاہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی وَیَرَوْنَہ، وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ وَیُکَلِّمُہُمْ وَیُکَلِّمُونَہ، .
”اللہ آپ پر رحم کرے، ذہن نشین فرما لیں کہ ائمہ لغت کا فیصلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار آمنے سامنے ہو گا، اللہ اہل ِجنت کو اور اہل ِجنت اللہ کو دیکھیں گے۔ اللہ ان پر سلام کرے گا۔ وہ اللہ کے ساتھ کلام کریں گے اور اللہ ان کے ساتھ کلام کرے گا۔”
(الشَّرِیعۃ : ٢/٩٧٦)
3    امام الائمہ، امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٢٣۔٣١١ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ أَعْلَمْتُ قَبْلُ أَنَّ الْعُلَمَاءَ لَمْ یَخْتَلِفُوا أَنَّ جَمِیعَ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَ خَالِقَہُمْ فِي الْآخِرَۃِ لَا فِي الدُّنْیَا، وَمَنْ أَنْکَرَ رُؤْیَۃَ الْمُؤْمِنِینَ خَالِقَہُمْ یَوْمَ الْمَعَادِ، فَلَیْسُوا بِمُؤْمِنِینَ، عِنْدَ الْمُؤْمِنِینَ، بَلْ ہُمْ أَسْوَأُ حَالًا فِي الدُّنْیَا عِنْدَ الْعُلَمَاءِ مِنَ الْیَہُودِ، وَالنَّصَارٰی، وَالْمَجُوسِ .
”پہلے آگاہ کر چکا ہوں کہ کسی اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں (یعنی اجماعی عقیدہ ہے) کہ مومنین آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، نہ کہ دنیا میں۔ جو بھی روز قیامت مومنین کے دیدار ِالٰہی سے مشرف ہونے کے منکر ہوں، وہ اہل ایمان کے ہاں مومن نہیں ہو سکتے، بل کہ علمائے کرام کی نظر میں یہ لوگ دنیا میں یہود و نصاری اور مجوس سے بھی برے ہیں۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الرّب عزّ وجلّ : ٢/٥٨٥)
4    محدث ِہراۃ، امام ابو سعید، دارمی رحمہ اللہ  (٢٠٤۔٢٨٠ھ) لکھتے ہیں :
قَدْ صَحَّتِ الْآثَارُ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ بَّعْدَہ، مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، وَکِتَابُ اللّٰہِ النَّاطِقُ بِہٖ، فَإِذَا اجْتَمَعَ الْکِتَابُ وَقَوْلُ الرَّسُولِ وَإِجْمَاعُ الْـأُمَّۃِ لَمْ یَبْقَ لِمُتَأَوِّلٍ عِنْدَہَا تَأَوُّلٌ، إِلَّا لِمُکَابِرٍ أَوْ جَاحِدٍ .
” (رؤیت باری تعالیٰ ) قرآن ِمجید، صحیح احادیث نبویہ اور آثار سلف سے ثابت ہے، جب کتاب اللہ، قول ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم  اور اجماع ِامت متفق ہو جائیں تو تاویل کی گنجائش ہی نہیں رہتی، البتہ متکبر یا منکر کے لئے کوئی ضابطہ نہیں۔”
(الردّ علی الجہمیۃ، ص : ١٢١)
5    حافظ عبد الغنی ، مقدسی رحمہ اللہ  (٥٤١۔٦٠٠) لکھتے ہیں:
أَجْمَعَ أَہْلُ الْحَقِّ وَاتَّفَقَ أَہْلُ التَّوْحِیدِ وَالصِّدْقِ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُرٰی فِي الْـآخِرَۃِ، کَمَا جَاءَ فِي کِتَابِہٖ، وَصَحَّ عَنْ رَّسُولِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”اہل حق، اہل توحید و صدق کا اتفاق ہے کہ روز ِآخرت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔”
(الاقتصاد في الاعتقاد، ص : ١٢٥)
6    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (م : ٧٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ وَأَئِمَّۃُ الْإِسْلَامِ الْمَعْرُوفُونَ بِالْإِمَامَۃِ فِي الدِّینِ، کَمَالِکٍ وَّالثَّوْرِيِّ وَالْـأَوْزَاعِيِّ وَاللَّیْثِ بْنِ سَعْدٍ وَّالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَأَبِي حَنِیفَۃَ وَأَبِي یُوسُفَ وَأَمْثَالِ ہٰؤُلَائِ، وَسَائِرِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ وَالطَّوَائِفِ الْمُنْتَسِبِینَ إِلَی السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ کَالْکُلَّابِیَّۃِ وَالْـأَشْعَرِیَّۃِ وَالسَّالِمِیَّۃِ وَغَیْرِہِمْ، فَہٰؤُلَاءِ کُلُّہُمْ مُّتَّفِقُونَ عَلٰی إِثْبَاتِ
الرُّؤْیَۃِ لِلّٰہِ تَعَالٰی، وَالْـأَحَادِیثُ بِہَا مُتَوَاتِرَۃٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَہْلِ الْعِلْمِ بِحَدِیثِہٖ . وَکَذٰلِکَ الْآثَارُ بِہَا مُتَوَاتِرَۃٌ عَنِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانٍ، وَقَدْ ذَکَرَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَغَیْرُہ، مِنَ الْـأَئِمَّۃِ الْعَالِمِینَ بِأَقْوَالِ السَّلَفِ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَالتَّابِعِینَ لَہُمْ بِّإِحْسَانٍ مُّتَّفِقُونَ عَلٰی أَنَّ اللّٰہَ یُرٰی فِي الْآخِرَۃِ بِالْـأَبْصَارِ، وَمُتَّفِقُونَ عَلٰی أَنَّہ، لَا یَرَاہُ أَحَدٌ فِي الدُّنْیَا بِعَیْنِہٖ .
”صحابہ کرام، تابعین عظام، معروف ائمہ اسلام، مثلاً مالک، ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد، شافعی، احمد، اسحاق، ابوحنیفہ، ابویوسف اور ان جیسے دوسرے ائمہ کرامS، تمام اہل سنت والحدیث اور وہ جماعتیں، جو خود کو اہل سنت کی طرف منسوب کرتی ہیں، مثلا کلابیہ، اشعریہ، سالمیہ وغیرہ، ان تمام کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار ہو گا۔ محدثین کرام کے ہاں اس پر متواتر احادیث نبویہ ہیں، اسی طرح آثار صحابہ وتابعین بھی بہ کثرت موجود ہیں۔ امام احمد اور آثار سلف کو جاننے والے دیگر ائمہ کرام کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کا اتفاق ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار آنکھوں سے ہو گا۔ نیز یہ بھی اتفاقی بات ہے کہ اللہ کو دنیاوی آنکھ سے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔”
(منہاج السّنۃ النّبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریّۃ : ٢/٣١٦)
7    حافظ ذہبی  رحمہ اللہ (٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ یَأْتِنَا نَصٌّ جَلِيٌّ بِّأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَآی اللّٰہَ تَعَالٰی بِعَیْنَیْہِ، وَہٰذِہِ الْمَسْأَلَۃُ مِمَّا یَسَعُ الْمَرْءَ الْمُسْلِمَ فِي دِیْنِہِ السُّکُوتُ عَنْہَا . فَأَمَّا رُؤْیَۃُ الْمَنَامِ فَجَاء تْ مِنْ وُّجُوہٍ مُّتَعَدِّدَۃٍ مُّسْتَفِیضَۃٍ . وَأَمَّا رُؤْیَۃُ اللّٰہِ عِیَاناً فِي الْـآخِرَۃِ فَأَمْرٌ مُّتَیَقَّنٌ، تَوَاتَرَتْ بِہِ النُّصُوصُ، جَمَعَ أَحَادِیثَہَا الدَّارَقُطْنِيُّ، وَالْبَیْہَقِيُّ، وَغَیْرُہُمَا .
”ہمیں کوئی ایسی واضح نص نہیں ملی، جس میں ہو کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس مسئلہ میں ایک مسلمان کے لیے سکوت ہی بہتر ہے۔ رہا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھنا، تو یہ کئی ایک مشہور اسانید سے ثابت ہے۔ آخرت میں دیدار باری تعالیٰ یقینی مسئلہ ہے، جو کہ متواتر نصوص سے ثابت ہے۔ امام دارقطنی اور بیہقی وغیرہماS نے رؤیت باری تعالیٰ کے متعلق احادیث جمع کی ہیں۔”
(سیرأعلام النّبلاء : ٢/٢٦٧)
نیزلکھتے ہیں:
بَلٰی نُعَنِّفُ وَنُبَدِّعُ مَنْ أَنْکَرَ الرُّؤْیَۃَ فِي الْـآخِرَۃِ، إِذْ رُؤْیَۃُ اللّٰہِ فِي الْـآخِرَۃِ ثَبَتَ بِنُصُوصٍ مُّتَوَافِرَۃٍ .
”کیوں نہیں، ہم اس کی سرزنش کریں گے اور اسے بدعتی قرار دیں گے، جو آخرت میں دیدار الٰہی کا منکر ہو، کیوں کہ آخرت میں رؤیت باری تعالیٰ متواتر نصوص سے ثابت ہے۔”
(سیرأعلام النّبلاء : ١٠/١١٤)
قرآنی دلائل
دلیل نمبر1:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (القِیَامۃ : ٢٢، ٢٣)
”اس روز جنتیوں کے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، دیدار الٰہی سے مشرف ہوں گے۔”
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ  (٦٩١۔٧٥١ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَإِضَافَۃُ النَّظَرِ إِلَی الْوَجْہِ الَّذِي ہُوَ مَحَلُّہ، فِي ہٰذِہِ الْـآیَۃِ وَتَعْدِیَتُہ، بِأَدَاۃِ ‘إِلٰی’ الصَّرِیحَۃُ فِي نَظَرِ الْعَیْنِ، وَإِخْلاَءُ الْکَلاَمِ مِنْ قَرِینَۃٍ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُرَادَ بِالنَّظَرِ الْمُضَافِ إِلَی الْوَجْہِ الْمُعَدّٰی بِإِلٰی خِلاَفُ حَقِیقَتِہ،، وَمَوْضُوعِہ، صَرِیحٌ فِي أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی أَرَادَ بِذٰلِکَ نَظَرَ الْعَیْنِ الَّتِي فِي الْوَجْہِ إِلٰی نَفْسِ الرَّبِّ جَلَّ جَلاَلُہ، .
” لفظ ‘نظر’ (دیکھنا) کی لفظ ‘وجہ’ (چہرہ)، جو کہ نظر کا محل ہے کی طرف اضافت کرنا، حرف ِجر ‘الیٰ’، جو آنکھ سے دیکھنے میں صریح ہے، سے متعدی ہونا اور لفظ نظر کا کسی ایسے قرینہ، جو اسے حقیقی معنی سے مجازی معنی کی طرف پھیر دے، سے خالی ہونا، اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ کی مراد یہ ہے کہ (مومنین) رب تعالیٰ کو حقیقی آنکھ سے دیکھیں گے۔”
(حادي الأرواح إلٰی بلاد الأفراح، ص : ٢٩٦، وفي نسخۃ، ص : ٢١١، وفي نسخۃ : ٢/٦٢٣)
امام عکرمہ رحمہ اللہ  اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
یَنْظُرُونَ إِلَی اللّٰہِ نَظَرًا .
” اللہ تعالیٰ کو حقیقی نظر سے دیکھیں گے۔”
(الردّ علی الجہمیّۃ للدّارمي : ٢٠٠، وسندہ، صحیحٌ)
امام عکرمہ، اسماعیل بن ابی خالد رحمہ اللہ  اور بہت سے اہل کوفہ کے مشائخ نے یہی تفسیر کی ہے۔
(تفسیر الطبري : ٢٣/٥٠٧، وسندہ، صحیحٌ)
تنبیہ:
تابعی امام، مجاہد بن جبیر رحمہ اللہ  اس آیت کی تفسیر یوں فرماتے ہیں:
تَنْتَظِرُ الثَّوَابَ مِنْ رَّبِّہَا .
” اللہ سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔”
(تفسیر الطبري : ٢٣/٥٠٨، وسندہ، صحیحٌ)
امام دارمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَاحْتَجَّ مُحْتَجٌّ مِّنْہُمْ بِّقَوْلِ مُجَاہِدٍ : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ، إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(القِیامۃ : ٢٣) قَالَ : تَنْتَظِرُ ثَوَابَ رَبِّہَا . قُلْنَا : نَعَمْ، تَنْتَظِرُ ثَوَابَ رَبِّہَا، وَلَا ثَوَابَ أَعْظَمُ مِنَ النَّظَرِ إِلٰی وَجْہِہٖ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی .
”قرآن کی آیت ہے (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (اس روز جنتیوں کے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔) امام مجاہد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یوں ہو گا کہ اہل ِجنت اپنے رب سے ثواب کے منتظر ہوں گے، تو اہل ِبدعت کے ایک صاحب نے یہ قول دیدار ِالٰہی کے خلاف بطور دلیل پیش کرنے لگا، ہم کہتے ہیں یہ ان کی دلیل نہیں بن سکتا، کیوں کہ اللہ کے چہرے کی طرف دیکھنے سے بڑا ثواب کیا ہو سکتا ہے۔ اہل جنت اسی ثواب کے منتظر ہوں گے۔”
(الردّ علی الجہمیّۃ، ص : ١٢٤)
یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ روز ِقیامت مومن اپنے رب کے دیدار سے محظوظ ہوں گے اور کفار اس سے محروم ہوں گے۔
دلیل نمبر 2:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ )(یُونُس : ٢٦)
”اہل ِاحسان مومنین کا مقدور جنت اور اس سے بھی زیادہ (دیدار الٰہی) ہے۔”
نبی ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی تفسیر یوں فرمائی:
إِذَا دَخَلَ أَہْلُ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ، قَالَ : یَقُولُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : تُرِیدُونَ شَیْئًا أَزِیدُکُمْ؟ فَیَقُولُونَ : أَلَمْ تُبَیِّضْ وُجُوہَنَا؟ أَلَمْ تُدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ، وَتُنَجِّنَا مِنَ النَّارِ؟ قَالَ : فَیَکْشِفُ الْحِجَابَ، فَمَا أُعْطُوا شَیْئًا أَحَبَّ إِلَیْہِمْ مِّنَ النَّظَرِ إِلٰی رَبِّہِمْ عَزَّ وَجَلَّ .
”جب اہل ِجنت، جنت میں چلے جائیں گے، تو اللہ تعالیٰ فر ما ئیں گے : کسی اور چیز کی طلب ہے، جو میں آپ کو زیادہ دوں؟ اہل ِجنت عرض کریں گے، مالک! کیا آپ نے ہمارے چہروں پہ نورانیت نہیں بکھیری؟ ہمیں جنت میں داخلہ نہیں دیا؟ ہمیں جہنم سے بچا نہیں لیا؟ (اس سے بڑا بھی کوئی احسان ہو گا؟)، تو اللہ پردے ہٹا دیں گے کہ اہل ِجنت کو ایسی نعمت ملی ہی نہیں، جو انہیں دیدار الٰہی سے زیادہ محبوب ہو۔”
(صحیح مسلم : ١٨١)
امام حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
اَلنَّظَرُ إِلَی الرَّبِّ .
” اللہ کو دیکھنا۔”
(تفسیر الطبري : ١٢/١٦٠، الاعتقاد للبیہقي، ص : ١٢٥)
سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
قَوْلُہ، (وَزِیَادَۃٌ) ہِيَ تَضْعِیفُ ثَوَابِ الْـأَعْمَالِ بِالْحَسَنَۃِ عَشْرَ أَمْثَالِہَا إِلٰی سَبْعِمِائَۃِ ضِعْفٍ، وَزِیَادَۃٌ عَلٰی ذٰلِکَ أَیْضًا وَّیَشْمَلُ مَا یُعْطِیہِمُ اللّٰہُ فِي الْجِنَانِ مِنَ القُصُورِ والْحُورِ وَالرِّضَا عَنْہُمْ، وَمَا أَخْفَاہُ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ، وَأَفْضَلُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَعْلَاہُ النَّظَرُ إِلٰی وَجْہِہِ الْکَرِیمِ، فَإِنَّہ، زِیَادَۃٌ أَعْظَمُ مِنْ جَمِیعِ مَا أُعْطُوہُ، لَا یَسْتَحِقُّونَہَا بِعَمَلِہِمْ، بَلْ بِفَضْلِہٖ وَرَحْمَتِہٖ .
”’زیادہ ‘سے مراد، ایک نیکی کو دس سے ستر درجے تک بڑھا دیناہے ، اس سے بھی بڑھ کر جنت کے محل، حور، رضائے الٰہی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہے، جو اللہ نے اہل ِجنت کے لئے چھپا رکھا ہے، اس سے بھی افضل و اعلیٰ اللہ کے کریم چہرے کا دیدار ہے۔ یہی وہ انعام ہے جو اللہ کی انہیں عطا کردہ تمام نعمتوں سے افضل ہو گا۔ کوئی یہ نعمت اپنے اعمال کے بل بوتے پر حاصل نہیں کر سکتا، بل کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ہی نصیب ہو گی۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٤/٢٦٢، ت : سلامۃ)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَقَدَّمَ فِي صَحِیحِ مُسْلِمٍ عَنْ صُہَیبِ بْنِ سِنَانَ الرُّومِيِّ أَنَّہَا النَّظَرُ إِلٰی وَجْہِ اللّٰہِ الْکَرِیمِ .
”صحیح مسلم میں سیدنا صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ  کی روایت گزر چکی ہے کہ اس سے مراد اللہ کریم کے چہرے کا دیدار ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٧/٤٠٧)
دلیل نمبر3:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (المُطَفِّفِین : ١٥)
”خبردار! یہ لوگ روز ِقیامت دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔”
سنی مفسر، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧٤ھ) اس آیت کی تفسیر میں فر ما تے ہیں:
قَالَ الْإِمَامُ أَبُو عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ : فَہٰذِہِ الْآیَۃُ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَہ، عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَئِذٍ . وَہٰذَا الَّذِي قَالَہُ الْإِمَامُ الشَّافِعِيُّ، رَحِمَہُ اللّٰہُ، فِي غَایَۃِ الْحُسْنِ، وَہُوَ اسْتِدْلَالٌ بِّمَفْہُومِ ہٰذِہِ الْآیَۃِ، کَمَا دَلَّ عَلَیْہِ مَنْطُوقُ قَوْلِہٖ : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(الْقِیَامَۃِ ٢٢، ٢٣) . وَکَمَا دَلَّتْ عَلٰی ذٰلِکَ الْـأَحَادِیثُ الصِّحَاحُ الْمُتَوَاتِرَۃُ فِي رُؤْیَۃِ الْمُؤْمِنِینَ رَبَّہُمْ عَزَّ وَجَلَّ فِي الدَّارِ الْآخِرَۃِ، رُؤْیَۃٌ بِّالْـأَبْصَارِ فِي عَرَصَاتِ الْقِیَامَۃِ، وَفِي رَوْضَاتِ الْجِنَانِ الْفَاخِرَۃِ .
”ابو عبداللہ، امام شافعی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : یہ آیت دلالت کناں ہے کہ روز قیامت مومن اللہ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  کا یہ قول حسن ِاستدلال کی انتہاوں کو چھو رہا ہے، جو کہ اس آیت کا مفہوم ہے، جب کہ اسی مفہوم کا منطوق یہ قرآنی آیت ہے : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(اس روز جنتیوںکے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔) صحیح متواتر احادیث بھی اسی مفہوم کو بیان کرتی ہیں کہ روز ِآخرت مومن اللہ کا دیدار کریں گے، نیز یہ دیدار قیامت کی ہولناکیوں اور جنت کے شاندار باغیچوں میں آنکھوں کے ساتھ ہو گا۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٨/٣٥١)
امام ابوبکر، عبداللہ بن زبیر حمیدی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
قِیلَ لِسُفْیَانَ بْنِ عُیَیْنَۃَ : إِنَّ بِشْرًا الْمَرِّیسِيَّ یَقُولُ : إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یُرٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقَالَ : قَاتَلَ اللّٰہُ الدُّوَیَّبَۃَ أَلَمْ تَسْمَعْ إِلٰی قَوْلِہٖ (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (المطففین : ١٥) فَإِذَا احْتَجَبَ عَنِ الْـأَوْلِیَائِ، وَالْـأَعْدَائِ، فَأَيُّ فَضْلٍ لِّلْـأَوْلِیَاءِ عَلَی الْـأَعْدَائِ؟ .
”سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ  سے سوال ہوا کہ بشر مریسی کہتا کہ روز قیامت باری تعالیٰ کا دیدار نہیں ہو گا، فرمایا : اللہ دویبہ کو تباہ و برباد کرے، کیا اس نے اللہ کا فرمان نہیں پڑھا؟ (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (خبردار! روز قیامت یہ لوگ دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔) اگر اولیا ئے الٰہی بھی محروم ہوں گے، تو دشمنوں پر ان کی فضیلت کیسی؟”
(حِلْیَۃُ الأولیاء وطبقات الأصفیاء لأبي نعیم الئاصبہاني : ٧/٢٩٧، تاریخ بغداد للخطیب : ٦/٦٥، وسندہ، صحیحٌ)
ایک شخص روز ِقیامت ِدیدار ِالٰہی کا منکر تھا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  کو اس کا علم ہوا، تو شدید غصے میں آگئے اور فرمانے لگے :
مَنْ قَالَ بِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یُرٰی فِي الْآخِرَۃِ فَقَدْ کَفَرَ، عَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَغَضَبُہ، مَنْ کَانَ مِنَ النَّاسِ أَلَیْسَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(القیامۃ : ٢٣) وَقَالَ تَعَالٰی : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ (المطففین : ١٥)، ہٰذَا دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَ اللّٰہَ تَعَالٰی .
”جوقیامت کے دن اللہ کے دیدار کا منکر ہو، وہ کوئی بھی ہو، (پکا) کافر ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو۔ کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا؟ (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) ‘اس روز جنتیوںکے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔’ (نیز فرمایا : ) (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (خبردار! روز ِقیامت یہ لوگ دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔) یہ دلیل ہے کہ مومنوں کو دیدارِ الٰہی نصیب ہو گا۔”
(الشریعۃ للآجري : ٢/٩٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
عمرو بن ابی سلمہ، تمیمی، ابوحفص، دمشقی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
سَمِعْتُ مَالِکَ بْنَ أَنَسٍ یَّقُولُ : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(القیامۃ : ٢٣) قَوْمٌ یَّقُولُونَ إِلٰی ثَوَابِہٖ . قَالَ مَالِکٌ : کَذَبُوا فَأَیْنَ ہُمْ عَنْ قَوْلِ اللّٰہِ تَعَالٰی : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (المُطَفُِفِین : ١٥) .
”ایک گروہ کہا کرتا تھا کہ فرمان ِباری تعالیٰ: (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) ‘اس روز جنتیوںکے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔’، سے صرف ثواب مراد ہے، میں نے امام مالک رحمہ اللہ  کو فرماتے سنا کہ یہ جھوٹے اللہ کے اس فرمان کا کیا جواب دیں گے؟ : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (خبردار! روز ِقیامت یہ لوگ دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔) ”
(حِلْیَۃ الأولیاء لأبي نعیم الأصبہاني : ٦/٣٢٦، وسندہ، صحیحٌ)
امام ابن حبان رحمہ اللہ  (م : ٣٥٤ھ) لکھتے ہیں:
ہٰذِہِ الْـأَخْبَارُ فِي الرُّؤْیَۃِ یَدْفَعُہَا مَنْ لَّیْسَ الْعِلْمُ صِنَاعَتَہ،، وَغَیْرُ مُسْتَحِیلٍ أَنَّ اللّٰہَ جَلَّ وَعَلَا یُمَکِّنُ الْمُؤْمِنِینَ الْمُخْتَارِینَ مِنْ عِبَادِہٖ مِنَ النَّظَرِ إِلٰی رُؤْیَتِہٖ، جَعَلْنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ بِّفَضْلِہٖ حَتّٰی یَکُونَ فَرْقًا بَّیْنَ الْکُفَّارِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْکِتَابُ یَنْطِقُ بِمِثْلِ السُّنَنِ الَّتِي ذَکَرْنَاہَا سَوَائً قَوْلَہ، جَلَّ وَعَلَا (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ)(المطففین : ١٥) فَلَمَّا أَثْبَتَ الْحِجَابَ عَنْہُ لِلْکُفَّارِ دَلَّ ذٰلِکَ عَلٰی أَنَّ غَیْرَ الْکُفَّارِ لَا یُحْجَبُونَ عَنْہُ، فَأَمَّا فِي ہٰذِہِ الدُّنْیَا، فَإِنَّ اللّٰہَ جَلَّ وَعَلَا خَلَقَ الْخَلْقَ فِیہَا لِلْفَنَاءِ فَمُسْتَحِیلٌ أَنْ یُّرٰی بِالْعَیْنِ الْفَانِیَۃِ الشَّيْءَ الْبَاقِيَ، فَإِذَا أَنْشَأَ اللّٰہُ الْخَلْقَ، وَبَعَثَہُمْ مِّنْ قُبُورِہِمْ لِلْبَقَاءِ فِي إِحْدَی الدَّارَیْنِ غَیْرُ مُسْتَحِیلٍ حِینَئِذٍ أَنْ یُّرٰی بِالْعَیْنِ الَّتِي خُلِقَتْ لِلْبَقَاءِ فِي الدَّارِ الْبَاقِیَۃِ الشَّيْءَ الْبَاقِيَ لَا یُنْکِرُ ہٰذَا الْـأَمْرَ إِلَّا مَنْ جَہِلَ صِنَاعَۃَ الْعِلْمِ، وَمَنَعَ بِالرَّأْيِ الْمَنْکُوسِ وَالْقِیَاسِ الْمَنْحُوسِ .
”رؤیت الٰہی کی بابت مروی روایات کا وہی منکر ہو سکتا ہے، جس کا علم نام کی چیز سے کوئی واسطہ نہ ہو۔ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مختار مومن بندوں کو اپنی طرف دیکھنے کی طاقت عطا فرما دیں، اللہ ہمیں بھی ان میں شامل فرما دے۔ یوں کفار اور مومنین کے درمیان فرق ہو جائے، جس طرح احادیث مالک ذوالجلال کے دیدار پر دلالت کنا ں ہیں اسی طرح قرآن میں بھی ہے : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (خبردار! روز ِقیامت یہ لوگ دیدار الٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔) قرآن کہہ رہا ہے کہ کفار دیدار ِخداوندی سے محروم ہوں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو کفار نہیں، وہ دیدار الٰہی سے محروم نہیں ہوں گے، جہاں تک دنیا میں رؤیت باری تعالیٰ کا تعلق ہے، تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مخلوق کو فنا ہونے کے لیے پیدا کیا، لہٰذا محال ہے کہ فانی آنکھ ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی ذات (اللہ) کو دیکھ لے، البتہ جس دن اللہ تعالیٰ مخلوق کو دوبارہ پیدا کرے گا اور جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہنے کے لئے انسانوں کو قبروں سے اٹھائے گا توممکن ہو گا کہ ہمیشہ رہنے والی آنکھ ہمیشہ رہنے والے خدا کو دیکھ پائے اور یہ عین ممکن ہے، اس کا انکار تو علم سے محروم لوگ ہی کر سکتے ہیں اور وہی کر سکتے ہیں، جو مردود رائے اور منحوس قیاس کی بنیاد پر علم وحی کو ٹھکرا دیتے ہوں۔”
(صحیح ابن حبّان : ١٦/٤٧٧، ٤٧٨)
امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں:
بَابُ ذِکْرِ الْبَیَانِ أَنَّ رُؤْیَۃَ اللّٰہِ الَّتِي یَخْتَصُّ بِہَا أَوْلِیَاؤُہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ہِيَ الَّتِي ذَکَرَ فِي قَوْلِہٖ : (وجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (القیامۃ : ٢٣) وَیُفَضَّلُ بِہٰذِہِ الْفَضِیلَۃِ أَوْلِیَاؤُہ، مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، وَیُحْجَبُ جَمِیعُ أَعْدَائِہٖ عَنِ النَّظَرِ إِلَیْہِ مِنْ مُّشْرِکٍ وَّمُتَہَوِّدٍ وَّمُتَنَصِّرٍ وَّمُتَمَجِّسٍ وَّمُنَافِقٍ، کَمَا أَعْلَمَ فِي قَوْلِہٖ (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (المطففین : ١٥) وَہٰذَا نَظَرُ أَوْلِیَاءِ اللّٰہِ إِلٰی خَالِقِہِمْ جَلَّ ثَنَاؤُہ، بَعْدَ دُخُولِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ الْجَنَّۃَ، وَأَہْلِ النَّارِ النَّارَ، فَیَزِیدُ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِینَ کَرَامَۃً وَّإِحْسَانًا إِلٰی إِحْسَانِہٖ تَفَضُّلًا مِّنْہُ، وَجُودًا بِّإِذْنِہٖ إِیَّاہُمُ النَّظَرَ إِلَیْہِ وَیُحْجَبُ عَنْ ذٰلِکَ جَمِیعُ أَعْدَائِہٖ .
”اس بات کا بیان کہ روز قیامت اولیاء اللہ کے لئے رویت ِالٰہی کا انتظام کیا گیا ہے، قرآن کہتا ہے: (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) ‘اس روز جنتیوں کے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔’ یہ فضیلت اللہ کے مومن دوستوں کے لئے ہے، اللہ کے دشمن مثلاً یہودی، نصرانی، مجوسی اور منافق اس سے محروم کر دئیے جائیں گے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (خبردار! روز ِقیامت یہ لوگ دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔) یہ دیدار تب ہو گا، جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنے خاص فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے اپنا دیدار عطا فرمائیں گے، جس سے تمام دشمنان الٰہی محروم کر دئیے جائیں گے۔”
(کتاب التّوحید وإثبات صفات الرّب عزّ وجلّ : ٢/٤٤١)
شیخ الاسلام، المجاہد، الامام، عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ  (م : ١٨١ھ) اللہ تعالیٰ کے فرمان (فَمَنْ کَانَ یَرْجُو لِقَاءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلاً صَالِحًا) (سورۃ الکہف : ١١٠) کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
مَنْ أَرَادَ النَّظَرَ إِلٰی وَجْہِ خَالِقِہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا، وَلَا یُخْبِرْ بِہٖ أَحَدًا .
”جو اپنے خالق کے چہرے کا دیدار چاہتا ہے، وہ عمل صالح کرے اور کسی کو اس کی خبر نہ دے۔”
(الاعتقاد والہدایۃ إلٰی سبیل الرّشاد علٰی مذہب السلف وأصحاب الحدیث للبیہقي، ص : ١٢٧، وسندہ، حسنٌ)
حدیثی دلائل
دلیل نمبر 1:
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
مَا مِنْکُمْ مِّنْ أَحَدٍ إِلَّا سَیُکَلِّمُہ، رَبُّہ،، لَیْسَ بَیْنَہ، وَبَیْنَہ، تَرْجُمَانٌ، وَلَا حِجَابَ یَحْجُبُہ، .
”آپ سب سے عن قریب اللہ تعالیٰ ہم کلام ہونے والے ہیں، اس طرح کہ آپ کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان یا حجاب نہیں ہو گا۔”
(صحیح البُخَاري : ٧٤٤٣، صحیح مسلم : ١٠١٦)
دلیل نمبر 2:
سیدنا جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:
کُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَی الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدَرِ قَالَ : إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَا تَرَوْنَ ہٰذَا الْقَمَرَ، لَا تُضَامُّونَ فِي رُؤْیَتِہٖ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لَّا تَغْلِبُوا عَلٰی صَلَاۃٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ، وَصَلَاۃٍ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَافْعَلُوا .
”ہم نبی ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل میں بیٹھے تھے کہ اچانک آپ نے چودہویں کے چاند کی جانب دیکھا اور فرمایا : آپ اپنے رب کو اسی طرح دیکھیں گے، جس طرح یہ چاند دیکھ رہے ہیں اور رب تعالیٰ کو دیکھنے میں کوئی مشکل نہیں ہو گی، اگر آپ نماز عصر اور نماز فجر کو وقت پر ادا کرنے کی استطاعت پاتے ہیں، تو ایسا کرتے رہیں۔”
(صحیح البخاري : ٧٤٣٤، صحیح مسلم : ٦٣٣)
صحیح بخاری (٧٤٣٥) میں روایت ہے:
إِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیَانًا .
”آپ اپنے رب کو رو برو دیکھیں گے۔”
رؤیت کی تشبیہ رویت کے ساتھ ہے۔ یعنی جس طرح حقیقت میں اپنی آنکھوں سے چاند دیکھتے ہیں، اسی طرح مومن روز قیامت اللہ تعالیٰ کا دیدار کرے گا۔
دلیل نمبر3:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
قَالَ أُنَاسٌ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، ہَلْ نَرٰی رَبَّنَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ فَقَالَ : ہَلْ تُضَارُّونَ فِي الشَّمْسِ لَیْسَ دُونَہَا سَحَابٌ قَالُوا : لَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ، قَالَ : ہَلْ تُضَارُّونَ فِي الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدَرِ لَیْسَ دُونَہ، سَحَابٌ قَالُوا : لَا یَا رُسُولَ اللّٰہِ، قَالَ : فَإِنَّکُمْ تَرَوْنَہ، یَوْمَ الْقِیَِامَۃِ کَذٰلِکَ .
”صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کیا روز قیامت ہم اللہ کو دیکھیں گے؟ فرمایا : مطلع صاف ہو، تو کیا آپ کو سورج دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟ عرض کیا : نہیں، اللہ کے رسول!، فرمایا : مطلع صاف ہو، تو کیا آپ چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی مشقت اٹھاتے ہیں؟ عرض کیا : جی نہیں، اللہ کے رسول ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : آپ اللہ کو روز قیامت اسی طرح دیکھیں گے۔”
(صحیح البخاري : ٦٥٧٣، صحیح مسلم : ١٨٢)
امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ  (١٥٠۔٢٢٤ھ) فرماتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْـأَحَادِیثُ فِي الرُّؤْیَۃِ ہِيَ عِنْدَنَا حَقٌّ، حَمَلَہَا الثِّقَاتُ بَعْضُہُمْ عَنْ بَّعْضٍ، غَیْرَ أَنَّا إِذَا سُئِلْنَا عَنْ تَفْسِیرِہَا لَا نُفَسِّرُہَا وَمَا أَدْرَکْنَا أَحَدًا یُّفَسِّرُہَا .
”ہم رویت ِباری تعالیٰ کی ان احادیث کو حق مانتے ہیں، یہ فرامین ثقہ راویوں کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں، البتہ ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے، نہ ہی ہم نے کسی کو ان کی تفسیر کرتے دیکھا ہے۔”
(الأسماء والصفات للبیہقي : ٢/١٩٦، وسندہ، صحیحٌ)
امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ  (١٠٧۔١٩٨ھ) روز قیامت دیدار ِالٰہی کی احادیث بارے فرماتے ہیں :
حَقٌّ عَلٰی مَا سَمِعْنَاہَا مِمَّنْ نَّثِقُ بِہٖ .
”ثقہ رواۃ کی بیان کردہ یہ احادیث حق ہیں۔”
(التصدیق بالنّظر إلی اللّٰہ تعالیٰ في الآخرۃ للۤاجري، ص : ٤٢، ٤٣، الشریعۃ للآجري : ٢/٩٨٤، سیر أعلام النّبلاء للذہبي : ٨/٤٦٦، وسندہ، صحیحٌ)
ثقہ امام عابد ، زاہد، اسود بن سالم، ابو محمد ، بغدادی رحمہ اللہ  (م:٢١٣ھ) رؤیت ِباری تعالیٰ کے متعلق احادیث کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ہٰذِہِ الْآثَارُ الَّتِي تُرْوٰی فِي مَعَانِي النَّظَرِ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَنَحْوُہَا مِنَ الْـأَخْبَارِ؟ فَقَال : نَحْلِفُ عَلَیْہَا بِالطَّلَاقِ وَالْمَشْيِ .
”رؤیت باری تعالیٰ کی یہ احادیث و آثار اگر درست نہ ہوں، تو قسم سے ہماری بیویوں کو طلاق ہے، وہ چلتی بنیں۔”
(الشریعۃ للآجري : ٢/٩٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
شارح صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ  (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
اِعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ بِأَجْمَعِہِمْ أَنَّ رُؤْیَۃَ اللّٰہِ تَعَالٰی مُمْکِنَۃٌ غَیْرُ مُسْتَحِیلَۃٍ عَقْلًا وَّأَجْمَعُوا أَیْضًا عَلٰی وُقُوعِہَا فِي الْآخِرَۃِ وَأَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَ اللّٰہَ تَعَالٰی دُونَ الْکَافِرِینَ وَزَعَمَتْ طَائِفَۃٌ مِّنْ أَہْلِ الْبِدَعِ الْمُعْتَزِلَۃُ وَالْخَوَارِجُ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَۃِ أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یَرَاہُ أَحَدٌ مِّنْ خَلْقِہٖ وَأَنَّ رُؤْیَتَہ،
مُسْتَحِیلَۃٌ عَقْلًا وَّہٰذَا الَّذِي قَالُوہُ خَطَأٌ صَرِیحٌ وَّجَہْلٌ قَبِیحٌ وَّقَدْ تَّظَاہَرَتْ أَدِلَّۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَإِجْمَاعِ الصَّحَابَۃِ فَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّنْ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ عَلٰی إِثْبَاتِ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی فِي الْآخِرَۃِ لِلْمُؤْمِنَیْنِ وَرَوَاہَا نَحْوٌ مِّنْ عِشْرِینَ صَحَابِیًّا عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَآیَاتُ الْقُرْآنِ فِیہَا مَشْہُورَۃٌ .
”یاد رہے! اہل ِسنت کا مذہب ہے کہ اللہ کا دیدار عقلا ممکن ہے، نا ممکن نہیں۔ اہل سنت کا اس پر بھی اجماع ہے کہ دیدار روز قیامت ہی ہوگا اور مومنوں ہی کو ہو گا، نہ کہ کافروں کو۔ اہل بدعت (یعنی) معتزلہ، خوارج اور بعض مرجیہ کا کہنا ہے کہ مخلوق میں کوئی بھی اللہ کو دیکھ نہیںسکتا، اللہ کی رویت عقلا محال ہے۔ یہ واضح خطا اور قبیح جہالت ہے۔ کتاب و سنت اور اجماع صحابہ و تابعین سے رؤیت باری تعالیٰ کا اثبات ہوتا ہے۔ اس مضمون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے تقریبا بیس صحابہ نے بیان کیا ہے اور اس بارہ میں آیات قرآنیہ تو مشہور ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم : ٣/١٥)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ  (٦٧٣۔٧٤٨ھ) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا رُؤْیَۃُ اللّٰہِ عِیَاناً فِي الْـآخِرَۃِ : فَأَمْرٌ مُّتَیَقَّنٌ، تَوَاتَرَتْ بِہِ النُّصُوصُ .
”آخرت میں اللہ کا دیدار، وہ بھی اس کے رو برو ایک یقینی امر ہے، متواتر نصوص اس پر دلالت کناں ہیں۔”
(سیر أعلام النّبلاء : ٢/١٦٧)
نیز فرماتے ہیں:
وَالْمُعْتَزِلَۃُ تَقُولُ : لَوْ أَنَّ الْمُحَدِّثِینَ تَرَکُوا أَلفَ حَدِیثٍ فِي الصِّفَاتِ وَالْـأَسْمَاءِ وَالرُّؤْیَۃِ وَالنُّزُولِ، لَـأَصَابُوا .
”معتزلہ کا زعم باطل ہے کہ محدثین اسماء و صفات، رؤیت ِباری تعالیٰ اور نزول باری تعالیٰ کی ہزار احادیث چھوڑ دیتے، تو راہ صواب پا جاتے۔”
(سیر أعلام النّبلاء : ١٠/٤٥٥)
امام ابو بکر محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ  (م:٣٦٠ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی لِنَبِیِّہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : (وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ) (النّحل : ٤٤) وَکَانَ مِمَّا بَیَّنَہ، لِـأُمَّتِہٖ فِي ہٰذِہِ الْآیَاتِ : أَنَّہ، أَعْلَمَہُمْ فِي غَیْرِ حَدِیثٍ : إِنَّکُمْ تَرَوْنَ رَبَّکُمْ تَعَالٰی رَوٰی عَنْہُ جَمَاعَۃٌ
مِّنْ صَحَابَتِہٖ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَقَبِلَہَا الْعُلَمَاءُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ الْقَبُولِ کَمَا قَبِلُوا عَنْہُمْ عِلْمَ الطَّہَارَۃِ وَالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصِّیَامِ وَالْحَجِّ وَالْجِہَادِ وَعِلْمَ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ کَذَا قَبِلُوا مِنْہُمُ الْـأَخْبَارَ : أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَ اللّٰہَ تَعَالٰی لَا یَشُکُّونَ فِي ذٰلِکَ ثُمَّ قَالُوا : مَنْ رَدَّ ہٰذِہِ الْـأَخْبَارَ فَقَدْ کَفَرَ .
”اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  سے فرماتے ہیں : (وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون) (ہم نے آپ پر ذکر (حدیث) نازل کیا تا کہ آپ لوگوں کو وحی الٰہی کے مفاہیم و مطالب سمجھا دیں، شاید یہ لوگ تفکر کی عادت اپنا لیں۔) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے امت کو قرآن کے جو مفاہیم و مطالب سمجھائے ہیں، ان میں بہت سی احادیث میں مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو باخبر کیا کہ آپ اپنے رب کو دیکھیں گے۔ یہ تفسیر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کئی صحابہ نے بیان کی ہے۔ صحابہ سے علماء اہل سنت جیسے حاصل کرنے کا حق تھا، حاصل کیا۔ جیسے مسلمانوں نے صحابہ سے طہارت، نماز، حج، روزہ، زکوۃ، جہاد اور حلال و حرام کا علم حاصل کیا، ایسے ہی انہوں نے یہ احادیث بھی صحابہ سے حاصل کیں ہیں کہ مومنین روز قیامت اللہ کا دیدار کریں گے۔ اہل سنت اس میں ذرہ برابر شک نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ ان احادیث کا انکار کرنے والا کافر ہے۔”
(الشریعۃ : ٢/٩٧٦)
امام مالک بن انس رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
اَلنَّاسُ یَنْظُرُونَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِأَعْیُنِہِمْ .
”روز قیامت (مومن) لوگ اللہ تعالیٰ کا دیدار بچشم خود کریں گے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥٧٤، وسندہ، صحیحٌ)
شبہات اور ان کا ازالہ
رؤیت باری تعالیٰ کے منکرین، اپنی اس ضلالت و جہالت کو ثابت کرنے کے لیے کچھ شبہات پیش کرتے ہیں۔ ذیل میں ان شبہات کا ذکر اور ان کے طریقہئ استدلال کا ضعف و جہالت پیش کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہوں:
شبہہ نمبر1:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
(لَا تُدْرِکُہُ الْـأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الْـأَبْصَارَ) (سورۃ الأنعام : ١٠٣)
”آنکھ اس (اللہ) کا ادراک نہیں کر سکتی، جب کہ وہ آنکھوں کا ادراک کرتا ہے۔”
امام الائمہ ،ابوبکر ابن خزیمہ رحمہ اللہ  (٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں:
فَاسْمَعُوا الْآنَ خَبَرًا ثَابِتًا صَحِیحًا مِّنْ جِہَۃِ النَّقْلِ یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ الْمُؤْمِنِینَ یَرَوْنَ خَالِقَہُمْ جَلَّ ثَنَاؤُہ، بَعْدَ الْمَوْتِ، وَأَنَّہُمْ لَا یَرَوْنَہ، قَبْلَ الْمَمَاتِ .
”چلئے، اب باسند صحیح ثابت حدیث سنئے، جو دلالت کناں ہے کہ مومنین مرنے کے بعد ہی اپنے خالق کو دیکھیں گے، موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتے۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الرّب عزّ وجلّ : ٢/٤٥٨)
نبی ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے خطبہ میں دجال کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
فَیَقُولُ : أَنَا رَبُّکُمْ وَہُوَ أَعْوَرُ، وَرَبُّکُمْ لَیْسَ بِأَعْوَرَ، وَلَنْ تَرَوْا رَبَّکُمْ حَتّٰی تَمُوتُوا .
”دجال مومن سے کہے گا کہ میں تمہار ارب ہوں، حالاں کہ وہ کانا ہو گا، یاد رکھئے گا کہ آپ کا رب کانا نہیں ہے اور آپ قیامت سے پہلے اللہ کو دیکھ بھی نہیں سکتے۔”
(السنۃ لابن أبي عاصم : ٤٨، کتاب التوحید لابن خزیمۃ : ٢/٤٥٩، وسندہ، حسنٌ)
الامام، العلامہ، الحافظ، الثبت، اسماعیل بن علیہ رحمہ اللہ  (م:١٩٣ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ہٰذَا فِي الدُّنْیَا .
”یہ دنیا کی بابت کہا جا رہا ہے۔”
(تفسیر ابن أبي حاتم : ٤/١٣٦٣، وسندہ، صحیحٌ)
سنی مفسر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  (٧٠٠۔٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ آخَرُونَ (لَا تُدْرِکُہُ الْـأَبْصَارُ) أَيْ : جَمِیعُہَا، وَہٰذَا مُخَصَّصٌ بِّمَا ثَبَتَ مِنْ رُّؤْیَۃِ الْمُؤْمِنِینَ لَہ، فِي الدَّارِ الْآخِرَۃِ وَقَالَ آخَرُونَ مِنَ الْمُعْتَزِلَۃِ بِمُقْتَضٰی مَا فَہِمُوہُ مِنَ الْآیَۃِ : إِنَّہ، لَا یُرٰی فِي الدُّنْیَا وَلَا فِي الْآخِرَۃِ فَخَالَفُوا أَہْلَ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ فِي ذٰلِکَ، مَعَ مَا ارْتَکَبُوہُ مِنَ الْجَہْلِ بِمَا دَلَّ عَلَیْہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃُ رَسُولِہٖ . أَمَّا الْکِتَابُ، فَقَوْلُہ، تَعَالٰی : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(الْقِیَامَۃِ : ٢٢۔٢٣) وَقَالَ تَعَالٰی عَنِ الْکَافِرِینَ : (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) (الْمُطَفِّفِین : ١٥)
”ایک گروہ کہتا ہے کہ (لَا تُدْرِکُہُ الْـأَبْصَارُ) ‘آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔’ کا مطلب ہے کہ کوئی بھی اسے نہیں دیکھ سکتا، حالاں کہ اس آیت کی تخصیص ہو جاتی ہے، جیسا کہ روز قیامت مومنوں کا دیدار الٰہی سے محظوظ ہونا ثابت ہے۔ معتزلہ کا ایک گروہ اس آیت سے یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ دنیا و آخرت کہیں بھی اللہ کا دیدار نہیں ہو گا۔ انہوں نے قرآن و سنت کی نصوص سے جہالت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ، اہل سنت کی بھی مخالفت کی ہے، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) ‘اس روز جنتیوں کے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔’ اللہ تعالیٰ کافروں سے فرماتے ہیں: (کَلَّا إِنَّہُمْ عَنْ رَّبِّہِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ) ‘خبردار! یہ لوگ روز قیامت دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئیے جائیں گے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٣٠٩)
ادراک کی نفی سے رویت کی نفی لازم نہیں آتی، ہم سورج کو دیکھتے ہیں، ادراک کے اعتبار سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
امام اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابی کریمہ رحمہ اللہ  سدی کوفی (م:١٢٧ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
لَا یَرَاہُ شَيْءٌ وَّہُوَ یَرَی الْخَلَائِقَ .
”اسے کوئی چیز نہیں دیکھ سکتی، جب کہ وہ تمام مخلوقات کو دیکھتا ہے۔”
(تفسیر الطبري : ٩/٤٦٢، وسندہ، حسنٌ)
شبہہ نمبر 2:
قرآن مجید میں ہے کہ جب سیدنا موسیu نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی درخواست کی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(لَنْ تَرَانِي) (سورۃ الأعراف : ١٤٣)
”موسی! آپ مجھے نہیں دیکھ سکیں گے۔”
احادیث میں دیدارِ الٰہی کا ثبوت ہے اور قرآن کی اس آیت میں نفی ہو رہی ہے۔ منکرین حدیث اس تعارض کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ احادیث صحیح نہیں، بالفرض انہیں صحیح مان لیا جائے تو اس سے مراد علم ہے، نہ کہ دیدار ِالٰہی، بطور دلیل وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیش کرتے ہیں :
(أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِي السَّمٰوَاتِ وَالْـأَرْضِ) (سورۃ النُّور : ٤١)
”آپ کے علم میں نہیں کہ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔”
ہمارا جوابی بیانیہ یہ ہے کہ یہ احادیث متواتر ہیں، ان کی صحت میں کوئی شبہ نہیں۔ قرآن نے جس دیدار ِالٰہی کی نفی کی ہے، اس کا تعلق دنیا سے ہے۔ حدیث میں جس کا اثبات ہے، اس کا تعلق آخرت سے ہے، یعنی دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو اپنا دیدار کرائے گا۔ تعارض ختم ہوا۔ یہاں رؤیت کی تعبیر علم سے کرنا قرآن و حدیث اور صحابہ و تابعین کے متفقہ فہم کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ . إِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ) (سورۃ القِیامۃ ٢٢۔٢٣)
”اس روز جنتیوں کے چہرے شگفتہ و بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے۔”
نظر کی نسبت چہرے کی طرف کی گئی ہے، جو کہ آنکھوں کا محل ہے، اس کو ”الی” کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ رویت بصری ہو گی، نہ کہ قلبی۔ یہ اہل ِجنت پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہو گا اور جو منکر ہو گا، وہ اس سے محروم رہے گا۔
علامہ ابن قتیبہ دینوری رحمہ اللہ  (٢١٣۔٢٧٦ھ) لکھتے ہیں:
فِي قَوْلِ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ : (رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَیْکَ) أَبْیَنُ الدَّلَالَۃِ عَلٰی أَنَّہ، یُرٰی فِي الْقِیَامَۃِ . وَلَوْ کَانَ اللّٰہُ تَعَالٰی لَا یُرٰی فِي حَالٍ مِّنَ الْـأَحْوَالِ، وَلَا یَجُوزُ عَلَیْہِ النَّظَرُ لَکَانَ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ قَدْ خَفِيَ عَلَیْہِ مِنْ وَّصْفِ اللّٰہِ تَعَالٰی مَا عَلِمُوہُ .
”سیدنا موسیu کی اس بات (رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَیْکَ) (اللہ میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔) میں واضح دلالت موجود ہے کہ روز قیامت اللہ کا دیدار ہوگا۔ اگر اللہ کا دیدار کسی صورت بھی ممکن نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنا بھی ممکن نہیں تھا، تو لازم آتا کہ سیدنا موسیu پر اللہ کا وہ وصف مخفی رہ گیا، جو ان جاہلوں نے جان لیا ہے۔”
(تاویل مختلف الحدیث، ص : ٢٩٩)
شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں:
اَلَّذِي عَلَیْہِ جُمْہُورُ السَّلَفِ أَنَّ مَنْ جَحَدَ رُؤْیَۃَ اللّٰہِ فِي الدَّارِ الْآخِرَۃِ فَہُوَ کَافِرٌ .
”جمہور سلف یہی کہتے ہیں کہ آخرت میں رؤیت ِباری تعالیٰ کا منکر کا فر ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٦/٤٨٦)
شیخ الاسلام، ثانی عالم ربانی، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ  (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں :
وَہِيَ الْغَایَۃُ الَّتِي شَمَّرَ إِلَیْہَا الْمُشَمِّرُونَ وَتَنَافَسَ فِیہَا الْمُتَنَافِسُونَ وَتَسَابَقَ إِلَیْہَا الْمُتَسَابِقُونَ وَلِمِثْلِہَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُونَ، إِذَا نَالَہ، أَہْلُ الْجَنَّۃِ نَسُوا مَا ہُمْ فِیہِ مِنَ النَّعِیمِ، وَحِرْمَانُہ، وَالْحِجَابُ عَنْہُ لِـأَہْلِ الْجَحِیمِ أَشَدُّ عَلَیْہِمْ مِّنْ عَذَابِ الْجَحِیمِ، اتَّفَقَ عَلَیْہَا الْـأَنْبِّیَاءُ وَالْمُرْسَلُونَ وَجَمِیعُ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعُونَ وَأَئِمَّۃُ الْـإِسْلاَمِ عَلٰی تَتَابُعِ الْقُرُونِ وَأَنْکَرَہَا أَہْلُ الْبِدَعِ الْمَارِقُونَ وَالْجَہْمِیَّۃُ الْمُتَہُوِّکُونَ
وَالْفِرْعَوْنِیَّۃُ الْمَعَطِّلُونَ وَالْبَاطِنِیَّۃُ الَّذِینَ ہُمْ مِنْ جَمِیعِ الْـأَدْیَانِ مُنْسَلِخُونَ وَالرَّافِضَۃُ الَّذِینَ ہُمْ بِّحَبَائِلِ الشَّیْطَانِ مُتَمَسِّکُونَ وَمِنْ حَبْلِ اللّٰہِ مُنْقَطِعُونَ وَعَلٰی مَسَبَّۃِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ عَاکِفُونَ وَلِلسُّنَّۃِ وَأَہْلِہَا مُحَارِبُونَ وَلِکُلِّ عَدُوٍّ لِّلّٰہِ وَرَسُولِہٖ وَدِینِہٖ مُسَالِمُونَ، وَکُلُّ ہٰؤُلاَءِ عِنْ رَّبِّہِمْ مَّحْجُوبُونَ وَعَنْ بَّابِہٖ مَطْرُودُونَ أُولٰئِکَ أَحْزَابُ الضَّلاَلِ وَشِیعَۃُ اللَّعِینِ وَأَعْدَاءُ الرَّسُولِ .
”دیدار ِالٰہی وہ مقصود ہے، جس کے لئے مستعد لوگ مستعد رہتے ہیں، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اعمال کا مقابلہ کرتے ہیں، نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی نیکیاں کرنی چاہیے۔ جب یہ مقصود اہل ِجنت کو حاصل ہو جائے گا، تو وہ جنت کی تمام نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ اہل جہنم کی اس سے محرومی ان پر جہنم کی سختیوں سے بھی گراں ہو گی۔ اس پر انبیائے کرام، صحابہ، تابعین اور ہر دور کے ائمہ اسلام کا اجماع ہے۔ اس کا انکار اہل ِبدعت مارقہ، حیرت زدہ جہمیہ، فرعونیہ معطلہ، تمام ادیان سے بیزار باطنیہ اور شیطان کی رسی میں تھامے ہوئے، اللہ کی رسی کو چھوڑے ہوئے، اصحاب رسول کو سب و شتم کا نشانہ بنانے والے، سنت اور اہل سنت کی عداوت و دشمنی مول لینے والے اور اللہ و رسول اور دین اسلام کے دشمنوں سے مصالحت کرنے والے رافضیوں نے کیا ہے۔ (مذکورہ) یہ سب لوگ دیدار ِالٰہی سے محروم کر دئے جائیں گے اور اس کے در سے دھتکار دئیے جائیں گے۔ یہ گم راہی کی فوجیں ہیں۔ ملعون (شیطان) کے ساتھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمن ہیں۔”
(حادي الأرواح إلٰی بلاد الأفراح، ص : ٢٨٥)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.