1,348

دینی امور پر اجرت، بہترین کمائی یا دین فروشی، حافظ ابویحیی نور پوری، قسط دوم


دینی اُمور پر اُجرت
بہترین کمائی یا دین فروشی؟ 2
حافظ ابو یحییٰ نورپوری

ماہنامہ السنہ کے گزشتہ شمارے میں دینی امور پر اُجرت کے جواز کے حوالے سے شرعی نصوص اور ان کے معانی ومفاہیم تفصیلاً بیان کر دیے گئے ہیں۔اس قسط میں دینی اُمور پر اُجرت کو حرام قرار دینے والوں کے شبہات ووساوس کا ردّ کر دیا گیا ہے۔ملاحظہ فرمائیں؛
شبہات اور ان کا ازالہ
1 تحفے میں کمان والا واقعہ :
n سیدنا عُبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں :
عَلَّمْتُ نَاسًا مِّنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ الْکِتَابَ، وَالْقُرْآنَ، فَأَہْدٰی إِلَيَّ رَجُلٌ مِّنْہُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ : لَیْسَتْ بِمَالٍ وَّأَرْمِي عَنْہَا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ، لَآتِیَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَلَـأَسْأَلَنَّہٗ، فَأَتَیْتُہٗ، فَقُلْتُ : یَا رَسُولَ اللّٰہِ، رَجُلٌ أَہْدٰی إِلَيَّ قَوْسًا مِّمَّنْ کُنْتُ أُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ، وَالْقُرْآنَ، وَلَیْسَتْ بِمَالٍ، وَأَرْمِي عَنْہَا فِي سَبِیلِ اللّٰہِ، قَالَ : ’إِنْ کُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِّنْ نَّارٍ؛ فَاقْبَلْہَا ۔‘
’’میں نے اہل صفہ کے کئی لوگوں کو کتابت(لکھائی)اور قرآن ِ کریم
کی تعلیم دی۔ ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان تحفے میں دی۔میں نے کہا : یہ کوئی مال تو ہے نہیں،پھر میں اس کے ذریعے اللہ عزوجل کے راستے میں تیراندازی کروں گا۔میں ضرور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہو کر اس بارے میں استفسار کروں گا۔ چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول! ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے مجھے ایک کمان تحفے میں دی ہے،جنہیں میں کتاب اور قرآن کی تعلیم دیتا تھا۔یہ کوئی مال تو ہے نہیں،پھر میں اس کے ذریعے اللہ کے راستے میں تیراندازی کروں گا۔اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر آپ چاہتے ہیں کہ آگ کا ایک طوق آپ کو پہنایا جائے تو اسے قبول کر لیں۔‘‘
(سنن أبي داوٗد، کتاب البیوع، أبواب الإجارۃ، في کسب المعلّم، رقم الحدیث : 3416؛ سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الأجر علی تعلیم القرآن، رقم الحدیث : 2157؛ مسند الإمام أحمد : 363/37، مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ئ؛ السنن الکبرٰی للبیہقي : 125/6، دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، 2003ئ؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 48/2، دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، 1990ئ؛ وسندہٗ حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
n اسی واقعہ کو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں بھی بیان کیا ہے :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُشْغَلُ، فَإِذَا قَدِمَ رَجُلٌ مُّہَاجِرٌ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَفَعَہٗ إِلٰی رَجُلٍ مِّنَّا یُعَلِّمُہُ الْقُرْآنَ، فَدَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا، فَکَانَ مَعِيَ فِي الْبَیْتِ
أُعَشِّیہِ عَشَائَ أَہْلِ الْبَیْتِ، فَکُنْتُ أُقْرِئُہُ الْقُرْآنَ، فَانْصَرَفَ انْصِرَافَۃً إِلٰی أَہْلِہِ، فَرَآی أَنَّ عَلَیْہِ حَقًّا، فَأَہْدٰی إِلَيَّ قَوْسًا لَّمْ أَرَ أَجْوَدَ مِنْہَا عُودًا، وَلَا أَحْسَنَ مِنْہَا عِطْفًا، فَأَتَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ : مَا تَرٰی یَا رَسُولَ اللّٰہِ فِیہَا؟ قَالَ : ’جَمْرَۃٌ بَیْنَ کَتِفَیْکَ تَقَلَّدْتَہَا أَوْ تَعَلَّقْتَہَا ۔‘
’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مشغول ہوتے تھے۔جب کوئی مہاجر شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ اسے ہم میں سے کسی کی طرف بھیجتے تاکہ وہ اسے قرآنِ کریم کی تعلیم دے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف بھی ایک آدمی کو بھیجا۔وہ میرے ساتھ میرے گھر میں رہتا تھا۔میں اسے گھر والوں کی طرح کھانا بھی کھلاتا تھا اور قرآن بھی پڑھاتا تھا۔وہ ایک دفعہ اپنے گھروالوں کے پاس لوٹا۔اس نے سوچا کہ میرااُس پر احسان ہے۔چنانچہ اس نے مجھے تحفے میں ایک کمان دی۔میں نے اس جیسی عمدہ لکڑی اور بہترین گولائی والی کمان نہ دیکھی تھی۔میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اللہ کے رسول! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ آگ کا ایک انگارہ ہے،جو آپ نے اپنے کندھوں کے مابین لٹکا رکھا ہے۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 426/37، مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ئ؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 410/3، دار الکتب العلمیّۃ، بیروت، 1990ئ، وسندہٗ حسنٌ)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘،جب کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے
’’صحیح‘‘قرار دیا ہے۔
یہ واقعہ بعض لوگوں کو اُن صحیح و صریح احادیث سے معارض معلوم ہوا،جن سے ائمہ اہل سنت نے دینی اُمور پر اُجرت کا جواز ثابت کیا ہے۔
لیکن اس حدیث میں جو وعید آئی ہے،وہ قطعی طَور پر قرآنی تعلیم پر اُجرت لینے کی بنا پر نہیں۔اس حدیث سے استدلال کرتے وقت عبارت میں موجود کچھ بنیادی اور صریح نکات کو نظر انداز کر دیا گیا،جس کی وجہ سے استدلال میں خرابی پیدا ہوئی۔ملاحظہ فرمائیے:
4 اس حدیث میں یہ بات واضح ہے کہ یہ اُجرت کا معاملہ تھا ہی نہیں،بل کہ تحفے کا معاملہ تھا۔مہاجر صحابی نے سیدنا عُبادہ رضی اللہ عنہ کے کسی مطالبے کے بغیر،محض اپنی خوشی سے احسان کے بدلے کے طور پر تحفے میں کمان دی تھی۔ اگر اس تحفے کا سبب صرف اور صرف قرآنی تعلیم کو ہی قرار دیا جائے اور آگ کی وعید کا سبب بھی وہی ہو تولامحالہ ثابت ہو گا کہ کسی مُعلِّم و مُرَبِّی کی تعلیم و تربیت سے خوش ہو کر اس کے مطالبے کے بغیر جو تحفہ دیا جائے،وہ ناجائز و حرام اور دین فروشی و دوکان داری کہلائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام] ،رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو تحائف بغیر مطالبے کے محض اپنی خوشی سے پیش کرتے تھے،کیا ان کا محرک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی تعلیم و تربیت تھی یا کوئی دنیاوی امر؟
کوئی صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کے لیے گھر بلا رہا ہے اور کوئی کھانا تیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خود حاضر ہو رہا ہے۔کہیں بھُنی ہوئی بکری پیش کی جا رہی ہے تو کہیں کھجوروں کے پورے پورے خوشے۔کسی طرف سے حلوہ پیشِ
خدمت کیا جا رہا ہے تو کسی طرف سے دُودھ کے پیالے۔کیا ان سب تحائف کا سبب سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی تعلیم و تربیت کے کسی اور امر کو قرار دیا جا سکتا ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضِ منصبی یہی تھا کہ صحابہ کرام کو قرآنی و دینی تعلیم مہیا فرمائیں:
{یَتْلُوْ عَلَیْھِمْ آیَاتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ}
(آل عمران 3 : 164، الجمعۃ 62 : 2)
’’آپ انہیں اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے ہیں،ان کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘
اگر سیدناعبادہ رضی اللہ عنہ کو دی گئی کمان والی وعید قرآنی و دینی تعلیم پر منطبق کریں تو بعینہٖ یہی صورت ِ حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں پیش کی جانے والے تحائف کی ہے۔ وہاں بھی قرآنی تعلیم اور بغیر مطالبے کے تحفہ اوریہاں بھی قرآنی تعلیم اور بن مانگے ہدیہ۔جو حکم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیے جانے والے تحائف کا ہو گا، اصولی طور پر وہی سیدنا عُبادہ رضی اللہ عنہ کو پیش کی گئی کمان کا ہونا چاہیے۔ان تحائف کے جائز ہونے پر مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے۔ اہل علم میں سے کوئی ایک بھی انہیں ناجائز و حرام قرار نہیں دیتا۔
b علامہ،عبد الرحمن بن ابو بکر،سیوطی(911-849ھ)ابو اللیث سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اَلتَّعْلِیمُ عَلٰی ثَلَاثَۃِ أَوْجُہٍ؛ أَحَدُہَا لِلْحِسْبَۃِ، وَلَا یَأْخُذُ بِہٖ عِوَضًا،
وَالثَّانِي أَنْ یُّعَلَّمَ بِالْـأُجْرَۃِ، وَالثَّالِثُ أَنْ یُّعَلَّمَ بِغَیْرِ شَرْطٍ، فَإِذَا أُہْدِيَ إِلَیْہِ قُبِلَ، فَالْـأَوَّلُ مَأْجُورٌ، وَعَلَیْہِ عَمَلُ الْـأَنْبِیَائِ، وَالثَّانِي مُخْتَلَفٌ فِیہِ، وَالْـأَرْجَحُ الْجَوَازُ، وَالثَّالِثُ یَجُوزُ إِجْمَاعًا، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ مُعَلِّمًا لِّلْخَلْقِ، وَکَانَ یَقْبَلُ الْہَدِیَّۃَ ۔
’’(دینی)تعلیم تین طرح کی ہوتی ہے۔ایک وہ جو صرف نیکی کی نیت سے دی جائے اور اس کا معاوضہ نہ لیا جائے۔دوسری وہ جو اُجرت لے کر دی جائے اور تیسری وہ جو بغیر کسی شرط کے دی جائے،لیکن جب تحفہ دیا جائے تو اسے قبول کر لیا جائے۔پہلی قسم کی تعلیم پر اجر ملتا ہے اور انبیاے کرام کا عمل اسی پر تھا۔دوسری قسم میں اختلاف ہے،لیکن راجح اس کا جائز ہونا ہی ہے۔تیسری قسم کے جائز ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے ،کیوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انسانیت کے لیے مُعَلِّم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تحفہ قبول فرمایا کرتے تھے۔‘‘
(الإتقان في علوم القرآن : 357/1، الہیئۃ المصریّۃ العامّۃ للکتب، 1974ئ)
b علامہ،ابو الحسن،محمد بن عبد الہادی،سندھی حنفی رحمہ اللہ (م : 1138ھ)سیدنا عُبادہ رضی اللہ عنہ والی حدیث ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
دَلِیلٌ لِّمَنْ یُّحَرِّمُ أَخْذَ الْـأُجْرَۃِ عَلَی الْقُرْآنِ وَیَکْرَہُہٗ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَبِی حَنِیفَۃَ، وَرَخَّصَ فِیہِ الْمُتَأَخِّرُونَ مِنْ أَہْلِ مَذْہَبِہِ کَذَا قِیلَ : وَالْـأَقْرَبُ أَنَّہٗ ہَدِیَّۃٌ، وَلَیْسَ بِأُجْرَۃٍ مَّشْرُوطَۃٍ فِي التَّعْلِیمِ، فَہُوَ مُبَاحٌ عِنْدَ الْکُلِّ، وَحُرْمَتُہٗ لَا تَسْتَقِیمُ عَلٰی مَذْہَبٍ، وَلَا یَتِمُّ قَوْلُ مَنْ یَّقُولُ :
إِنَّہٗ دَلِیلٌ لِأَبِي حَنِیفَۃَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی ۔
’’کہا گیا ہے کہ یہ حدیث اُن لوگوں کی دلیل ہے جو قرآنِ کریم پر اُجرت کو حرام و مکروہ قرار دیتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کا یہی مذہب ہے،جب کہ متأخرین احناف نے اس میں رخصت دی ہے۔لیکن(میں سندھی کہتا ہوں:)حق کے قریب ترین بات یہ ہے کہ اس حدیث میں تحفے کا ذکر ہے،تعلیم پر مشروط اُجرت کا نہیں اور تحفہ قبول کرنا تو سب مسلمانوں کے ہاں جائز ہے۔اس کو حرام کہنا کسی بھی (فقہی)مذہب میں درست نہیں۔لہٰذا جو لوگ اس حدیث کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی دلیل قرار دیتے ہیں،ان کی بات درست نہیں۔‘‘
(حاشیۃ السندي علی سنن ابن ماجہ : 9-8/2، دار الجیل، بیروت)
b نیز اس حدیث کے حوالے سے لوگوں کی طرف سے ذکر کیے گئے مختلف مفہوم ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کَذَا قَالُوا، قُلْتُ : لَفْظُ الْحَدِیثِ لَا یُوَافِقُ شَیْئًا مِّنْ ذٰلِکَ عِنْدَ التَّأَمُّلِ، أَوِ الْـأَقْرَبُ أَنَّہٗ یُقَالُ : إِنَّ الْخِلَافَ فِي الْـأُجْرَۃِ، وَأَمَّا الْہَدِیَّۃُ؛ فَلَا خِلَافَ لِأَحَدٍ فِي جَوَازِہَا ۔
’’یوں انہوں نے(اس حدیث کے مختلف مفہوم بیان کرتے ہوئے)کہا ہے۔ لیکن میں کہتا ہوں غور کرنے پر حدیث کے الفاظ ان میں سے کسی بھی مفہوم کا ساتھ نہیں دیتے۔یہ کہنا ہی قرینِ صواب ہے کہ اختلاف تو اُجرت میں ہے،تحفہ قبول کرنے کے جواز میں تو کسی ایک مسلمان نے
بھی اختلاف نہیں کیا(اور اس حدیث میں تحفے ہی کا ذکر ہے،لہٰذا اسے اُجرت کے حرام ہونے پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟)۔‘‘
(أیضًا : 9/2)
ثابت ہوا کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو وعید مذکور ہے،اس کا تعلق قرآنی تعلیم اور دینی اُمور پر اُجرت سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں۔
2 سیدنا عُبادہ رضی اللہ عنہ مہاجر صحابی رضی اللہ عنہ کو صرف تعلیم نہیں دیتے تھے،بل کہ رہائش بھی مہیا کرتے تھے۔حدیث کے واضح الفاظ ہیں :
فَکَانَ مَعِيَ فِي الْبَیْتِ ۔
’’وہ شخص میرے ساتھ میرے گھر میں رہتا تھا۔‘‘
3 آپ رضی اللہ عنہ صرف رہائش ہی مہیا نہیں کرتے تھے،بل کہ مہاجر صحابی کو کھانا بھی کھلاتے تھے۔حدیث کے صریح الفاظ ہیں :
أُعَشِّیہِ عَشَائَ أَہْلِ الْبَیْتِ ۔
’’میں اسے گھروالوں کی طرح کھانا کھلاتا تھا۔‘‘
یاد رہے کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ نے رہائش اور کھانے کا ذکر پہلے اور تعلیم کا بعد میں کیا ہے۔
یعنی مہاجر صحابی نے سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کا جو احسان محسوس کیا،اس کا سبب تعلیم سے بھی پہلے رہائش اور کھانے کی فراہمی تھی۔اگر بالفرض اس تحفے کو اُجرت ہی پر محمول کر لیا جائے توکیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ رہائش اور کھانے کا معاوضہ لینا بھی حرام ہے؟کیا اسے بھی دین فروشی اور دوکان داری قرار دیا جا سکتا ہے؟
3 تعلیم میں بھی صرف قرآنی تعلیم کا ذکر نہیں،بل کہ کتابت سکھانے
کا بھی ذکر ہے اور کتابت سکھانے پر اُجرت سب مسلمانوں کے ہاں بالاتفاق جائز ہے۔
اگر بالمحال اس حدیث میں مذکور تحفے کو اُجرت پر اور اس میں موجود وعید کو قرآنی تعلیم کی اُجرت ہی پرمنطبق کیا جائے تویہ ضروری طور پر رہائش، کھانے اور کتابت پر بھی منطبق ہو جاتی ہے،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وعید میں رہائش،کھانے،کتابت اور قرآنی تعلیم میں کوئی فرق نہیں کیا۔
ان حقائق کی روشنی میں یہ بات تو طَے ہو گئی ہے کہ اس حدیث میں دینی تعلیم پر اُجرت کا نہ تو ذکر ہے،نہ اس پر کوئی وعید۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اس حدیث میں قرآنی تعلیم پر اُجرت پر وعید نہیں کی گئی،تووعید کا اصل سبب کیا ہے؟اس سلسلے میں درجِ ذیل نکات قابل غور ہیں۔
1 اصحاب ِصفہ بہت مفلس لوگ تھے۔یہ لوگ تو پہلے ہی دوسرے صحابہ کرام کے صدقات وخیرات پر گزارا کرتے تھے۔ایسے طالب علموں سے کچھ لینا ان کے افلاس کی وجہ سے ناجائز تھا،قرآنی تعلیم کی بنا پرنہیں۔
2 سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے مہاجر صحابی کو قرآنِ کریم کی تعلیم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصوصی حکم کی تعمیل میں دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ ان سے معاوضہ لینے کے حق میں نہیں تھے،بل کہ اس حوالے سے صحابہ کرام کو کسی قسم کا کوئی مال قبول نہ کرنے کی نصیحت بھی کی ہوئی تھی۔حدیث کے الفاظ اس کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔
آپ پڑھ آئے ہیں کہ جب کمان تحفۃًپیش کی گئی تو سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ کے ذہن
میں فوراً یہی ممانعت آئی،اسی لیے انہوں نے دِل میں کہا کہ یہ کوئی مال تو ہے نہیں کہ مہاجر صحابی سے قبول کرنے میں کوئی قباحت ہو اور یہی بات انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِاقدس میں بھی عرض کی کہ اللہ کے رسول!یہ کوئی مال تو ہے نہیں، اس لیے میں اسے قبول کرنے کے حوالے سے پوچھنے آیا ہوں۔لیکن چونکہ اصحابِ صفہ اس قدر مفلس تھے کہ کمان بھی ان کے لیے ایک بیش قیمت چیز تھی،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرنا بھی سختی سے منع فرما دیا۔
سیدنا عُبادہ رضی اللہ عنہ کے ذہن میں اس تحفے کو قبول کرنے کے حوالے سے جو کسک تھی،اس کا سبب خاص اصحاب ِصفہ سے تعلیم کے عوض مال لینے سے ممانعت تھی،ورنہ تحائف تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی پیش کیے جاتے تھے اور آپ انہیں قبول فرماتے تھے۔اس صورت ِحال میں بھی سیدنا عُبادہ کا تحفہ قبول کرنے میں تامل کرنا بتا رہا ہے کہ یہاں کوئی مخصوص وجہ تھی اور وہ یہی تھی کہ اصحاب ِصفہ نادار لوگ تھے،صرف اُن سے کچھ قبول کرنا منع فرمایا گیا تھا۔
b فقیہ و محدث،حافظ،ابو سلیمان،حمد بن محمد،خطابی رحمہ اللہ (388-319ھ)مختلف توجیہات ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وَتَأَوَّلُوا حَدِیثَ عُبَادَۃَ ۔۔۔، وَأَہْلُ الصُّفَّۃِ قَوْمٌ فُقَرَائُ، کَانُوا یَعِیشُونَ بِصَدَقَۃِ النَّاسِ، فَأَخْذُ الرَّجُلِ الْمَالَ مِنْہُمْ مَّکْرُوہٌ، وَدَفْعُہٗ إِلَیْہِمْ مُّسْتَحَبٌّ ۔
’’اہل علم نے حدیث ِعبادہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ۔۔۔اہل صفہ مفلس لوگ تھے،جن کا گزر بسر دوسرے لوگوں کے صدقات و خیرات
پر ہوتا تھا۔ایسے لوگوں سے مال لینا ناپسندیدہ اور (ان کی طرف سے بخوشی دیے گئے)مال کو (بھی) انہیں واپس لوٹانا پسندیدہ عمل ہے۔‘‘(معالم السنن : 99/3، المطبعۃ العلمیّۃ، حلب، 1932ئ)
b علامہ،ابوابراہیم،محمد بن اسماعیل،امیر صنعانی رحمہ اللہ (1182-1099ھ)اہل علم کی توجیہات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَفِي أَخْذِ الْـأُجْرَۃِ مِنْ أَہْلِ الصُّفَّۃِ بِخُصُوصِہِمْ کَرَاہَۃٌ وَّدَنَائَۃٌ، لِأَنَّہُمْ نَاسٌ فُقَرَائُ، کَانُوا یَعِیشُونَ بِصَدَقَۃِ النَّاسِ، فَأَخْذُ الْمَالِ مِنْہُمْ مَّکْرُوہٌ ۔
’’صرف اہل صفہ سے اُجرت (یا تحفہ)لینا مکروہ اور ناپسندیدہ تھا،کیوں کہ وہ خود فقرا تھے،جن کا گزر بسر لوگوں کے صدقات پر ہوتا تھا،لہٰذا ان سے مال لینا ناپسندیدہ کیا گیا۔‘‘(سبل السلام في شرح بلوغ المرام : 117/2، دار الحدیث)
اگرچہ اہل علم نے اس حوالے سے دیگر کئی توجیہات بھی پیش کی ہیں،لیکن مذکورہ توجیہ ہی کافی و شافی ہے۔
ویسے بھی جب قرآنی دَم پر معاوضے کی بابت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف ہاں پر اکتفا نہیں کیا،بل کہ صراحتاً قرآنِ کریم کی اُجرت کو نام لے کر بہترین اُجرت قرار دیا۔جب کہ اس حدیث میں اگر قرآنی تعلیم پر اُجرت لینے کی وعید ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسی طرح صراحتاً ہی قرآنی تعلیم پر اُجرت کو آگ کا طوق اور انگارہ قرار دیتے،لیکن ایساکچھ بھی منقول نہیں۔
حیرت ہے کہ جن لوگوں کے لیے قرآن پر اُجرت کے جواز کا صریح فرمانِ
رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلیل نہیں بن سکا،وہ کس منہ سے ایک ایسی حدیث کو اپنے حق میں دلیل بنانے پر اصرار کر رہے ہیں،جس کا اپنا سیاق ان کے استدلال کو یکسر غلط قرار دے رہا ہے؟
2 قرآن ِ کریم کی تلاوت کا معاوضہ :
قرآنِ کریم کی تلاوت پر معاوضہ لینا جائز نہیں،جیسا کہ :
n سیدنا عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
’اِقْرَء ُوا الْقُرْآنَ، وَلَا تَغْلُوا فِیہِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْہُ، وَلَا تَأْکُلُوا بِہٖ، وَلَا تَسْتَکْثِرُوا بِہٖ‘ ـ
’’قرآنِ کریم کی قراء ت کرو،اس میں غلوّ کرونہ اس سے دُوری اختیار نہ کرو،نہ اس کے ذریعے کھاؤ اور نہ اس کے ذریعے زیادہ مال کی خواہش رکھو۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 288/24، 437، 439، 441، رقم الحدیث : 15529، 15666، 15668، 15670، مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت، 2001ئ؛ مسند أبي یعلٰی الموصلي : 88/3، رقم الحدیث : 1518، دار المأمون للتراث، دمشق، 1984ئ، وسندہٗ صحیحٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو ’’قوی‘‘قرار دیا ہے۔
(فتح الباري : 101/9، دار المعرفۃ، بیروت، 1379ھـ)
اس حدیث میں صاف طَور پر قرآن کی قراء ت کا ذکر ہے،لہٰذا اسے کتاب
اللہ کی تعلیم اور دینی اُمور پر اُجرت کے خلاف پیش نہیں کیا جا سکتا، اس میں تو
تعلیم کے معاوضے کا ذکر تک موجود نہیں۔
قرآنِ کریم کے دَم اور اس کی تعلیم پر اُجرت جائز و حلال ہے۔ائمہ دین میں سے جنہوں نے کوئی بات کی ہے،وہ صرف قراء ت کے بارے میں کی ہے اور اس میں بھی اہل علم کی آرا مختلف ہیں۔بعض اس حدیث کو ناحق کھانے پر بھی محمول کرتے ہیں،یعنی جو قرآن پڑھ کر ناحق کھائے،جس طرح یہودونصاریٰ اللہ تعالیٰ کی آیات میں تحریف کر کے کھاتے تھے،وہ حرام ہے،جب کہ دَم کر کے کھانے کو تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حق ،یعنی جائز کھانا قرار دیا ہے،جسے ہم تفصیلاً ذکر کر چکے ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ دَم میں بھی قراء ت ہی ہوتی ہے۔
3 بعض قرآنی آیات سے استدلال :
بعض لوگوں نے کچھ قرآنی آیات سے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے،جیسا کہ ؛
n فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{وَمَا اَسْاَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ٭}
(الشعراء 26 : 109، 127، 145، 164، 180)
’’(ہر نبی نے کافروں سے فرمایا:)میں تم سے اس تبلیغِ دین پر کسی اُجرت کا سوال نہیں کرتا۔میرا اجر تو رب العالمین ہی کے پاس ہے۔‘‘

یہ اور اس طرح کی دیگر آیات قطعاً دینی اُمور پر اُجرت کو حرام قرار نہیں دیتیں،کیوں کہ ان میں کوئی ایک لفظ بھی ایسا نہیں،جس میں حرمت کی طرف ادنیٰ اشارہ بھی ہو۔ان آیات میں تو کفار کو خطاب ہے،جو دین سے بیزار تھے اور تبلیغِ دین کو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے،انہیں فرمایا گیا کہ تمہیں مفت میں خیروبھلائی پہنچائی جا رہی ہے،اس پر کسی قسم کا کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگا جا رہا،کیا وجہ ہے کہ تم پھر بھی اس سے گرانی و تنگی محسوس کرتے ہو اور اعراض سے کام لیتے ہو؟
اِن کفار سے اگر اُجرت طلب کی جاتی تو وہ اسے بوجھ محسوس کرتے،جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
{اَمْ تَسْاَلُھُمْ اَجْرًا فَھُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ٭} (الطور 52 : 40)
’’(اے نبی!)کیا آپ اُن سے کسی اُجرت کا سوال کرتے ہیں کہ وہ تاوان کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں؟‘‘
لیکن مسلمانوں کا معاملہ کفار و مشرکین سے یکسر مختلف ہے۔مسلمان تو اہل علم کے ساتھ مالی تعاون کو انفاق فی سبیل اللہ سمجھ کر سعادت ِدارین خیال کرتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ منافقوں پر گراں ہوتا ہے نہ کہ پختہ مسلمانوں پر۔
پھر ان آیات میں صرف اور صرف مفت میں تبلیغِ دین کی بات ہوئی ہے۔اس سے کون انکار کرتا ہے؟مفت میں تبلیغ کو سب افضل واعلیٰ عمل سمجھتے ہیں اور اسے
ہر جگہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،لیکن اس سے اُجرت کا ناجائز ہونا کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟
اگر کوئی کاریگر اپنے محلے کے کسی لڑکے کو کہے کہ میں تمہیں مفت میں فلاں ہنر سکھاتا ہوں اور وہ پھر بھی سیکھنے میں تعرض سے کام لے،تو وہ یہی کہے گا کہ میں اس بھلائی پر تم سے کسی معاوضے کا طلب گار نہیں ہوں،پھر تم کیوں اس سے گریزاں ہو؟اُس کاریگر اور ہُنرمند کی یہ خیرخواہی قابل قدر بھی ہو گی اور قابل ذکر بھی،لیکن اس سے ہُنر سکھانے کی اُجرت ناجائز و حرام نہیں ہو سکتی۔
اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی ڈاکٹر یا طبیب فلاحِ عامہ کے سلسلے میں مفت علاج کرے تو اس کا یہ عمل افضل و اعلیٰ ضرور ہو گا اور اس کی یہ نیکی لوگوں کے لیے بطور ِمثال پیش کی جائے گی، لیکن یہ سب کچھ دوسرے طبیبوں کی فیس اور اُجرت کے ناجائز و حرام ہونے کا سبب تو نہیں بن سکتا۔
n اس قرآنی آیت سے بھی استدلال کیا جاتا ہے :
{وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیلًا وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ} (البقرۃ 2 : 41)
’’میری آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت وصول نہ کرو اور مجھ ہی سے ڈرو۔‘‘
حالانکہ یہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اہل کتاب کی بات ہو رہی ہے اور اس آیت کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کی کتاب کی تعلیم پر اُجرت لیتے
تھے،اس لیے اُن کو یہ حکم سنایا گیا،بل کہ وہ لوگ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید حسد اور طلب ِدنیا کی بنا پر کتاب پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے۔وہ تو اللہ کی کتاب میں لفظی و معنوی تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ تب ہی تو ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور وہ بندر اور خنزیر بنا دیے گئے۔وہ تو کتاب کی آیات کا من پسند مطلب اخذ کر کے لوگوں کا مال ناحق طریقے سے ہڑپ کرتے تھے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ تنبیہ فرمائی کہ تم دنیا کی چند روزہ جاہ و عیش کی خاطر کتاب اللہ کو بیچ کر اپنی آخرت برباد نہ کرو۔ تم خواہ جتنا بھی کما لو،وہ تھوڑا ہے،کیوں کہ آخرت کے مقابلے میں متاعِ دنیا جتنا بھی ہو، قلیل ہی ہے۔
درجِ ذیل آیات میں اہل کتاب کی رَوَش کا تفصیلی تذکرہ ہوا ہے:
n {فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتَابَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیْلًا فَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ وَوَیْلٌ لَّھُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ٭} (البقرۃ 2 : 79)
’’ان لوگوں کے لیے تباہی ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے(نازل شدہ)ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی قیمت حاصل کر سکیں۔جو ان کے ہاتھوں نے لکھا،اس کی وجہ سے بھی ان کے لیے ہلاکت ہے اور جو وہ کماتے ہیں،اس کی بنا پر بھی ان کے لیے بربادی ہے۔‘‘

n {اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتَابِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیلًا اُولٰئِکَ مَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُونِھِمْ اِلَّا النَّارَ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ٭} (البقرۃ 2 : 174)
’’جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے اور اس کے بدلے میں تھوڑی قیمت حاصل کرتے ہیں،بلاشبہ وہ لوگ اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھرتے ہیں،روز ِقیامت اللہ تعالیٰ نہ اُن سے کلام فرمائے گا نہ انہیں پاک کرے گا اور اُن کے لیے درد ناک عذاب ہو گا۔‘‘
n {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ فَنَبَذُوْہُ وَرَائَ ظُھُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖ ثَمَنًا قَلِیلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ٭} (آل عمران 3 : 187)
’’جب اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ لیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں،توانہوں نے اسے پسِ پشت ڈال دیا اور اس کے بدلے میں تھوڑی قیمت حاصل کر لی۔بہت بُرا ہے جو وہ سودا کرتے ہیں۔‘‘

n {اِشْتَرَوْا بِآیَاتِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِہٖ اِنَّھُمْ سَائَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ٭} (التوبۃ 9 : 9)
’’انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے میں تھوڑی قیمت حاصل کی اور اس کے راستے سے روکا۔بلاشبہ بہت بُرا ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
اِن آیات پر غور کرنے سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کتاب اللہ کے بدلے میں تھوڑی قیمت لینے سے مراد دنیاوی اغراض کے بدلے کتاب اللہ کی آیات کو چھپانا اور ان میں لفظی و معنوی تبدیلی و تحریف ہے۔
اس کی اصل تفسیر بیان کرتے ہوئے مفسر قرآن،امام،اسماعیل بن عبد الرحمن بن ابو کریمہ، سدی رحمہ اللہ (م : 127ھ)فرماتے ہیں :
وَلاَ تَأْخُذُوا طَمَعًا قَلِیلًا عَلٰی أَنْ تَکْتُمُوا مَا أَنْزَلْتُ ۔
’’تم میری نازل کردہ آیات کو چھپاکر تھوڑا(دنیاوی)فائدہ نہ لو۔‘‘
(تفسیر الطبري : 345/10، مؤسّسۃ الرسالۃ، بیروت، 2000ئ، وسندہٗ حسنٌ)
خود امام ،ابوجعفر،محمد بن جریر،طبری رحمہ اللہ (310-224ھ)نے یہ تفسیر کی ہے:
فَاتَّقُونِ فِي بَیْعِکُمْ آیَاتِي بِالْخِسِّیسِ مِنَ الثَّمَنِ، وَشِرَائِکُمْ بِہَا الْقَلِیلَ مِنَ الْعَرَضِ، وَکُفْرِکُمْ بِمَا أَنْزَلْتُ عَلٰی رَسُولِي وَجُحُودِکُمْ نُبُوَّۃَ نَبِیِّي، أَنْ أُحِلَّ بِکُمْ مَّا أَحْلَلْتُ بِأَسْلَافِکُمُ الَّذِینَ سَلَکُوا سَبِیلَکُمْ مِّنَ
الْمَثُلَاتِ وَالنَّقِمَاتِ ۔
’’تم میری آیات کو ادنیٰ قیمت میں فروخت کرتے ہو اور اُن کے بدلے میں تھوڑا سامان حاصل کرتے ہو،میں نے اپنے رسول پر جو وحی نازل کی ہے،اس کے ساتھ کفر کرتے ہو اورمیرے نبی کی نبوت کا انکار کرتے ہو،لہٰذا اس بات سے ڈرو کہ میں تمہارے اوپر بھی وہی عبرت ناک سزائیں اور عذاب نازل کر دوں،جو تم سے پہلے اُن لوگوں پر نازل کی تھیں،جنہوں نے تمہارے جیسی رَوَش اختیار کی تھی۔‘‘
(أیــــــــــــــــــــــضًا : 566/1)
لہٰذا اس آیت کی یہ تفسیر کرنا کہ دینی اُمور پر اُجرت لینا حرام ہے،قرآنِ کریم کی معنوی تحریف اور احادیث ِصحیحہ و فہم سلف کی صریح مخالفت ہے۔
حیرانی تو اس بات پر ہے کہ یہ سارے دلائل اسلافِ امت اور ائمہ دین کے پیش نظر تھے،لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی دینی اُمور پر اُجرت کا حرام ہونا ثابت نہیں کیا۔ہم کیسے تسلیم کر لیں کہ وہ سب ان آیات کی صحیح تفسیر سے ناآشنا رہے اور اصل تفسیر تکفیریوں کے سمجھ میں آ گئی،جو اسلافِ امت کو ’’دین فروش‘‘ اور ’’دوکان دار‘‘قرار دیتے ہیں؟
اسلاف ِامت سب سے بڑھ کر ورع و تقویٰ والے تھے،علم میں فائق اور دین پر عمل کرنے میں بے تکلف تھے۔اگر ان دلائل سے تعلیم قرآن اور دینی اُمور پر اُجرت کا حرام ہونا ثابت ہوتا تو وہ ضرور اس کے قائل ہوتے۔

b عظیم تبع تابعی،شیخ الاسلام،عبد الرحمن بن عمرو،اوزاعی رحمہ اللہ (م : 157ھ)کی یہ نصیحت تکفیریوں کے لیے بہت قابل غور ہے:
عَلَیْکَ بِآثَارِ مَنْ سَلَفَ، وَإِنْ رَفَضَکَ النَّاسُ، وَإِیَّاکَ وَآرَائِ الرِّجَالِ، وَإِنْ زَخْرَفُوا لَکَ بِالْقَوْلِ ۔
’’آپ اسلاف کے آثار کو لازم پکڑے رکھیے،اگرچہ لوگ آپ کو چھوڑ جائیں اور آپ بعد والوں کی آرا سے بچ کر رہیے،اگرچہ وہ اپنی بات کو (اپنے تئیں دلائل سے)مزین کر کے پیش کریں۔‘‘
(الشریعۃ للآجري، باب ذمّ الجدال والخصومات في الدین : 145/1، دار الوطن، الریاض، 1999ئ، جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البرّ، باب ما جاء في ذمّ القول في دین اللّٰہ تعالٰی بالرأي والظنّ والقیاس : 1071/2، دار ابن الجوزي، السعودیّۃ، 1994ئ، شرف أصحاب الحدیث للخطیب، ص : 7، دار إحیاء السنّۃ النبویّۃ، أنقرۃ، الإحکام في أصول الأحکام لابن حزم : 52/6، 53، دار الآفاق الجدیدۃ، بیروت، المدخل إلی السنن الکبرٰی للبیہقي، باب ما یذکر في ذمّ الرأي وتکلّف القیاس في موضع النصّ، ص : 199، دار الخلفاء للکتاب الإسلامي، الکویت، وسندہٗ صحیحٌ)
فائدہ :
یاد رہے کہ اس آیت کی تفسیر میں امام،ابو العالیہ،ریاحی رحمہ اللہ کی طرف یہ قول منسوب ہے :
لَا تَأْخُذُوا عَلَیْہِ أَجْرًا ۔
’’تم اس پر اُجرت نہ لو۔‘‘(تفسیر الطبري : 565/1)

لیکن یہ قول امام موصوف سے ثابت نہیں،کیوں کہ اس کے راوی ربیع بن انس کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ)لکھتے ہیں :
وَالنَّاسُ یَتَّقُونَ حَدِیثَہٗ مَا کَانَ مِنْ رِّوَایَۃِ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْہُ، لِأَنَّ فِیہَا اضْطِرَابٌ کَثِیرٌ ۔
’’اہل علم اس کی اُن احادیث سے بچتے ہیں،جو ابو جعفر نے اس سے بیان کی ہیں، کیوں کہ ان میں بہت زیادہ اضطراب ہے۔‘‘
(الثقات : 228/4، دائرۃ المعارف العثمانیّۃ، الھند، 1973ئ)
یہ روایت بھی ابو جعفر،عیسیٰ بن ابو عیسیٰ،رازی نے ربیع بن انس سے بیان کی ہے،لہٰذا یہ روایت مضطرب و مردُودہے۔
4 نصوص کے مقابلے میں ایک قیاس :
دینی اُمور پر اُجرت کے جواز کی صریح نصوص فہم سلف کی روشنی میں ذکر کی جا چکی ہیں۔ بعض لوگ ان نصوص کو اپنے اس قیاس کی بنا پر ردّ کرتے ہیں کہ نماز و روزہ اللہ کو راضی کرنے والے کام ہیں،جس طرح اِن پر اُجرت لینا جائز نہیں،اسی طرح دینی اُمور بھی رضاے الٰہی کے لیے سرانجام دیے جاتے ہیں،لہٰذا اِن پر بھی اُجرت جائز نہیں۔
حالانکہ نصوص کے خلاف قیاس کرنا جائز ہی نہیں،پھر یہ قیاس ہے بھی غلط، کیوں کہ نماز و روزہ انسان کے اپنے ساتھ خاص ہوتا ہے،جب کہ تعلیم کا دوسرے کے ساتھ بھی تعلق ہوتا ہے۔
b مشہور مفسر،علامہ،ابوعبد اللہ،محمد بن
احمد،قرطبی رحمہ اللہ (671-600ھ)لکھتے ہیں :
وَأَمَّا مَا احْتَجَّ بِہِ الْمُخَالِفُ مِنَ الْقِیَاسِ عَلَی الصَّلَاۃِ وَالصِّیَامِ؛ فَفَاسِدٌ، لِأَنَّہٗ فِي مُقَابَلَۃِ النَّصِّ، ثُمَّ إِنَّ بَیْنَہُمَا فُرْقَانًا؛ وَہُوَ أَنَّ الصَّلَاۃَ وَالصَّوْمَ عِبَادَاتٌ مُّخْتَصَّۃٌ بِالْفَاعِلِ، وَتَعْلِیمُ الْقُرْآنِ عِبَادَۃٌ مُّتَعَدِّیَۃٌ لِّغَیْرِ الْمُعَلِّمِ، فَتَجُوزُ الْـأُجْرَۃُ عَلٰی مُحَاوَلَتِہِ النَّقْلَ، کَتَعْلِیمِ کِتَابَۃِ الْقُرْآنِ ۔
’’رہا مخالفین کا نماز و روزے پر قیاس کو دلیل بنانا تو وہ فاسد ہے،کیوں کہ یہ نص کے مقابلے ہے۔پھر نماز و روزے اور قرآنی تعلیم میں فرق ہے؛وہ یہ کہ نماز اور روزہ تو ایسی عبادات ہیں،جو کرنے والے کے ساتھ خاص ہیں،جب کہ قرآن کی تعلیم ایسی عبادت ہے جو سکھانے والے کے غیر(سیکھنے والے)کی طرف متعدی ہوتی ہے۔لہٰذا اسے سکھانے کی کوشش پر اُجرت جائز ہے،جیسا کہ قرآنِ کریم کی کتابت سکھانے کی اُجرت لینا جائز ہے۔‘‘
(الجامع لأحکام القرآن ’تفسیر القرطبي‘ : 335/1، دار الکتب المصریّۃ، القاھرۃ، 1964ئ)
الحاصل :
دینی اُمور پر اُجرت لینا دینا جائز ہے،اس میں کوئی قباحت نہیں۔امت ِمسلمہ میں سے صرف بعض متقدمین احناف نے اس کی حرمت کا فتویٰ دیا تھا،لیکن اسے بھی متأخرین نے ردّ کر دیا اور دینی اُمور پر اُجرت کو جائز قرار دیا۔
عصر حاضر میں بعض تکفیری لوگوں نے احناف کے وہ دلائل چُرا کر اہل حق پر طعن و تشنیع کی کوشش کی ہے،جن کو خود احناف نے ردّ کر دیا ہے۔اپنی اس
کاوش میں وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلاف ِامت اور ائمہ دین و محدثین کی گستاخی کے مرتکب ہوئے ہیں۔نیز انہوں نے حلت و حرمت،جس کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے،اسے اپنے ہاتھ میں لینے کی سعی کی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں احادیث ِصحیحہ اور فہم سلف پر زندہ رکھے اور اسی پر موت دے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.