739

گردن کا مسح بدعت ہے ۔ حافظ ابو یحییٰ نورپوری

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا جو طریقہ اختیار فرمایا ، اس میں گردن کے مسح کا کوئی ذکر نہیں ، نہ ہی آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی نے گردن کا مسح کیا ، لیکن اس کے باوجود تقلید پرست اسے ”مستحب” کہتے ہیں ، چنانچہ جناب انوارِ خورشید دیوبندی لکھتے ہیں :
”گردن (گدی )پر مسح کرنا مستحب ہے ۔” (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٢)
قارئین کرام !

آلِ تقلید کی چالاکی دیکھیں کہ جب انہوں نے گردن کے مسح کی کوئی حدیث نہ پائی تو اکابر پرستی کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی خلاف ِ سنت فقہ کو بچانے کے لیے گردن کا معنیٰ ”گدی” کرنا شروع کر دیا ، حالانکہ ہمارا محلِّ نزاع گردن کے دونوں طرف الٹے ہاتھ پھیرتے ہوئے مسح کرنا ہے ، نہ کہ سر کا مسح کرتے ہوئے گدی کو چھونا ، تقلید پرست آج بھی گردن کے پہلو پر الٹے ہاتھوں سے مسح کرتے ہیں ، انہیں چاہیے کہ اس عمل سے فرار اختیار نہ کریں ، بلکہ اسی پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس پر کوئی ایک” صحیح”حدیث پیش کر دیں ، قیامت تک مہلت ہے۔ فان لّم تفعلوا ولن تفعلوا فاتّقوا النّار الّتی وقودھا النّاس والحجارۃ۔

آئیے ان کے مزعومہ دلائل کا جائزہ لیتے ہیں :
دلیل نمبر ١:
عن ابن عمر أنّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال : من توضّا ومسح علیٰ عنقہ ، وُقِی الغلّ یوم القیمۃ ۔ (التلخیص الحبیر)
حضرت ابنِ عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جس نے وضو کیا اور دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن (گدی )پر مسح کیا تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے )سے بچا لیاجائیگا۔] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٢۔١٨٣، اعلاء السنن : ١/١٢٠)
تبصرہ :
(ا) یہ روایت ”ضعیف ” ہے ، حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں : بین ابن فارس وفلیح مفازۃ ۔
”ابنِ فارس اورفلیح کے درمیان (انقطاع کا )لمبا صحرا ہے ۔”(التلخیص الحبیر : ١/٩٣)
دیونبدیوں کو چاہیے کہ اس کی مکمل سند پیش کریں ، اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ”متصل ، صحیح ” احادیث کا نام ہے ، نہ کہ ”منقطع اور ضعیف” روایات کا !
(ب) اس ”ضعیف ” روایت میں بھی ان کے مروّجہ ،یعنی الٹے ہاتھوں گلے تک مسح کا کوئی ثبوت نہیں۔
دلیل نمبر ٢:
عن ابن عمر أنّ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال : من توضّا ومسح یدیہ علیٰ عنقہ أمن یوم القیٰمۃ من الغلّ ۔ (مسند فردوس مع تسدید القوس ج ٤ ص ٤٤)
حضرت ابنِ عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوٰ ۃ والسلام سے فرمایا جس نے وضو کیا اور دونوں ہاتھ اپنی گردن (گدی )پر پھیرے تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے )سے مامون رہے گا۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٣، اعلاء السنن : ١/١٢٠)
تبصرہ : یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے ، بے سروپا باتوں کا دینِ حق سے کوئی تعلق ہے؟
دلیل نمبر ٣:
عن لیث عن طلحۃ بن مصرّف عن أبیہ عن جدہ أنہ رآی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مسح مقدّم رأسہ حتّٰی بلغ القذال من مقدّم عنقہ (طحاوی ج ١ ص ٢٨)
حضرت طلحہ بن مصرف بروایت اپنے والد ، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنے سر کے اگلے حصہ پر مسح کیا حتی کہ آپ (اپنے ہاتھ )سر کے آخر حصہ تک لے گئے ۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٣، اعلاء السنن : ١/١٢٠۔١٢١)
تبصرہ :
(ا) اس کی سند بھی ”ضعیف ” ہے ، کیونکہ لیث بن ابی سُلَیم جمہور کے نزدیک ”ضعیف ”اور ”مختلط” ہے ، امام احمد بن حنبل ، امام دارقطنی ، اما م یحییٰ بن مَعین ، امام ابوحاتم الرازی ، امام ابو زرعہ الرازی ، امام نسائی ، امام ابن عدی اور جمہور محدّثین نے اسے حدیث میں ناقابلِ اعتبار قرار دیا ہے ۔
اس کے بارے میں حافظ عراقی (٧٢٥۔٨٠٦)لکھتے ہیں : ضعّفہ الجمہور۔ ” جمہور نے اس کو ضعیف کہا ہے۔”(المغنی عن حمل الاسفار فی الاسفار : ٢/١٧٨، تخریج احادیث الاحیاء للحداد : ١٦٤٨)
حافظ ہیثمی لکھتے ہیں : وضعّفہ الأکثر ۔ ” اکثر محدثین نے اس کو ضعیف کہا ہے ۔” (مجمع الزوائد : ١/٩٠،٩١،٢/١٧٨)
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ضعیف عند الجمہور۔ ”جمہور کے نزدیک ضعیف ہے ۔” (البدر المنیر لابن الملقن : ٢/١٠٤)
بوصیری کہتے ہیں : ضعّفہ الجمہور۔ ” اس کو جمہور نے ضعیف کہا ہے ۔”(زوائد ابن ماجہ : ٥٤)
حافظ ابنِ حجر نے اس کو ”ضعیف الحفظ ” کہا ہے ۔(تغلیق التعلیق لابن حجر : ٢/٣٣٧)
اب بھی دیوبندیوں کا اس کی روایات سے استدلال کرنا نہایت تعجب خیز ہے ۔
(ب) سر کا مسح کرتے ہوئے گدی تک ہاتھ لے جانا محلِ نزاع نہیں ، بلکہ آلِ تقلید کو چاہیے کہ کہ وہ گردن کے اطراف کا مسح کرتے ہوئے دونوں الٹے ہاتھوں کوگلے تک لے جانے پر کوئی ایک حدیث پیش کر دیں ۔
دلیل نمبر ٤:
عن طلحۃ عن أبیہ عن جدہ أنہ رآی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یمسح رأسہ حتّٰی بلغ القذال وما یلیہ من مقدّم العنق بمرّۃ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٨١)
حضرت طلحہ بروایت اپنے والد ، اپنے داد ا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ اپنے سر پر مسح فرما رہے ہیں یہاں تک کہ آپ (اپنے ہاتھ)سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصہ تک ایک بار لے گئے ۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٣۔١٨٤)
تبصرہ :
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : واسنادہ ضعیف کما تقدم ۔
”اس کی سند ضعیف ہے ، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ۔”(التلخیص الحبیر : ١/٩٢)
یہ بالکل سابقہ روایت ہے ، لیث بن ابی سلیم پر جرح آپ پڑھ چکے ہیں ، دیوبندی صاحب نے خوامخواہ صرف کتاب کا حجم بڑھانے کے لیے بار بار وہی خام مال لوڈ کیا ہے ، ابھی بھی ان کا دعوٰی ہے کہ ہمارے پاس بہت سے حدیثی دلائل ہیں ، یہ ہے ان کے دلائل کی حیثیت !
دلیل نمبر ٥ :
عن موسی بن طلحۃ قال : من مسح قفاہ مع رأسہ وقی الغلّ یوم القیمۃ ، قلت : فیحتمل أن یقال ھٰذا وان کان موقوفا فلہ حکم الرّفع (التلخیص الحبیر ج ١ ٩٢)
حضرت موسیٰ بن طلحہ ؒ فرماتے ہیں جس نے اپنے سر کے ساتھ گردن کا بھی مسح کیا وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے )سے بچا لیا جائے گا ، حافظ ابنِ حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے لیکن حکماً مرفوع ہے ۔”]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٤، اعلاء السنن : ١/١٢٢)
تبصرہ :
اس کی سند بھی ”ضعیف” ہے ، عبد الرحمن بن عبد اللہ المسعودی آخری عمر میں ”اختلاط” کا شکار ہو گئے تھے ، عبد الرحمن بن مہدی جو اس روایت کو ان سے بیان کر رہے ہیں ، انہو ں نے ”اختلاط ” کے بعد ان سے روایت لی ہے ، چنانچہ ابنِ نُمَیر کہتے ہیں :
المسعودیّ کان ثقۃً ، فلمّا کان بأخرۃ اختلط ، سمع منہ عبدالرّحمٰن بن مھدیّ ویزید بن ھارون أحادیث مختلطۃ ً۔
”مسعودی ثقہ تھا ، لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گیا تھا ، عبد الرحمن بن مہدی اور یزید بن ہارون نے اس سے اختلاط والی روایات سنی ہیں ۔”(الجرح والتعدیل : ٥/٢٥١، وسندہ، صحیح)
یہ جرح مفسر ہے اور جرح مفسر تعدیل پر مقدم ہوتی ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ موسیٰ بن طلحہ تابعی ہیں اور ڈائریکٹ نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ، اس وجہ سے یہ ”مرسل”بھی ہے، لہٰذ ا یہ روایت ناقابلِ حجت ہے ، اسی لیے دیوبندیوں کے حصے میں آئی ہے ۔
دلیل نمبر ٦ :
حدثنی طلحۃ بن مصرف عن أبیہ عن جدہ کعب بن عمرو الیمامی أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم توضّأ فمضمض ثلاثا واستنشق ثلاثا یأخذ لکلّ واحدۃ ماء جدیدا وغسل وجہہ ثلاثا فلمّا مسح رأسہ قال ھکذا وأومأ بیدہ من مقدّم رأسہ حتی بلغ بھما الی أسفل عنقہ من قبل قفاہ۔(غایۃ المقصود ج ١ ص ١٣٧)
حضرت کعب بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا تین مرتبہ کلی کی اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالا ، ہر مرتبہ آپ نیا پانی لیتے تھے پھر تین دفعہ چہرہ کو دھویا جب آپ نے سر پر مسح کیا تو اس طرح کیا ۔ راوی نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سر کے اگلے حصے سے (مسح شروع کیا )یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں کو گدی کی طرف سے گردن کے نیچے تک لے گئے ۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٤۔١٨٥، اعلاء السنن : ١/١٢١)
تبصرہ :
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل اور ناقابلِ التفات ہے، بے سند روایات جمع کر کے اسے تحقیق کا نام دینا آلِ تقلید کا ہی خاصہ ہے ۔
دلیل نمبر ٧ :
عن وائل بن حجر (فی حدیث طویل)فغسل وجہہ ثلثا وخلّل لحیتہ ومسح باطن أذنیہ ثمّ أدخل خنصرہ فی داخل أذنہ لیبلغ الماء ثمّ مسح رقبتہ وباطن لحیتہ من فضل ماء الوجہ ۔۔۔ الحدیث ۔(معجم کبیر طبرانی ج ٢٢ ص ٤٢)
حضرت وائل بن حجر ؓ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا پھر ڈاڑھی میں خلال کیا اور کانوں کے اندر مسح فرمایا چھنگلی کا ن میں ڈال کرتاکہ پا نی پہنچ جائے پھر آپ نے گردن (گدی)کا اور ڈاڑھی کے اندر کا مسح کیا چہر ہ کے بچے ہوئے پانی سے۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٥، اعلاء السنن : ١/١٢٣)
تبصرہ :
(ا) اس کی سند کئی وجوہ سے سخت ”ضعیف” ہے :
١٭ محمد بن حجر راوی ”ضعیف ” ہے ، اس کے بارے میں امام بخاری فرماتے ہیں :
فیہ بعض النّظر ۔ ”اس میں بعض نظر ہے ۔”(التاریخ الکبیر : ١/٦٩)
ابو احمد الحاکم فرماتے ہیں :
لیس بالقویّ عندہم ۔(لسان المیزان : ٥/١١٩)
٢٭ سعید بن عبد الجبار کے بارے میں حافظ ابنِ حجر لکھتے ہیں : ضعیفٌ ۔(تقریب التھذیب : ٢٣٤٤)
٣٭ ام یحییٰ ”مجہولہ ہے ، اس کے حالات نہیں مل سکے ، جناب ابنِ ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :
وأمّ عبدالجبّار ھی أمّ یحییٰ ، لم أعرف حالھا ولا اسمھا ۔
”عبدالجبار کی والدہ ہی امّ یحییٰ ہے، نہ میں اس کے حالات سے واقف ہوا ہوں اور نہ اس کے نام سے ۔” (الجوہر النقی : ٢/٣٠)
(ب) قارئین اگر” طبرانی کبیر” اٹھا کر اس روایت کا خود مطالعہ کریں گے تو انہیںمعلوم ہو گا کہ آلِ دیوبند نے ہمارے خلاف یہ روایت پیش کرتے وقت بازارِ علم میںتاجِ خیانت مُول لیا ہے ،بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ وہ اس میدان کے بے تاج بادشاہ بن گئے ہیں ،وہ اس طرح کہ بالکل اسی روایت کے اندر سینے پر ہاتھ باندھنے ، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے رفع الیدین اوراونچی آواز سے آمین کہنے وغیرہ کا بھی ذکر موجود ہے ، جسے دیوبندی صاحب ”الحدیث ” کہہ کر بغیر ڈکار کے ہضم کر گئے ہیں ، ان سے سوال ہے کہ وہ اس روایت کی روشنی میں گردن کے مسح کے ساتھ ساتھ دوسری تمام سنتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے اور صرف گردن کے مسح کو لے کر (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ)کے مصداق کیوں بنتے ہیں ؟
دلیل نمبر ٨ :
[[عن وائل بن حجر (فی حدیث طویل) ثمّ مسح علیٰ رأسہ ثلثا وظاہر أذنیہ ثلثا وظاہر رقبتہ وأظنّہ قال وظاہر لحیتہ ثلثا الحدیث ۔(کشف الاستار عن زوائد البزار ج١ ص ٨٤٠)
حضرت وائل بن حجر ؓ سے (ایک دوسری حدیث میں ) مروی ہے کہ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے سر پر تین دفعہ مسح کیا اور کانوں کے اوپر کے حصہ پر تین دفعہ مسح کیا اور گردن کے اوپر کے حصہ (گدی ) پر راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ حضرت وائل نے یہ بھی فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے ڈاڑھی کے اوپر کے حصہ پر (بھی )تین دفعہ مسح کیا۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٥۔١٨٦، اعلاء السنن : ١/١٢٤)
تبصرہ :
یہ بالکل سابقہ روایت ہے ، آلِ دیوبند ”ضعیف ” روایات کو بار بارذکر کے اپنے ناخواندہ حواریوں کویہ طفل تسلیاں دیتے ہیں کہ ان کے پاس بہت زیادہ احادیث ہیں ، اس دعوے کی حقیقت قارئین جان ہی چکے ہیں، مزید تسلی کے لیے گزشتہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں ۔
٭٭٭انوارِ خورشید صاحب اپنے دلائل کی کل کائنات پیش کر نے کے بعد یوں تبصرہ کرتے ہیں :
[[مذکور ہ احادیث و آثار سے ثابت ہو رہا ہے کہ دورانِ وضو گردن (گدی )پر مسح کرنا مستحب ہے ۔ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی گردن (گدی )پر مسح فرمایا ہے اور لوگوں کو بھی گردن (گدی )پر مسح کی ترغیب دی ہے ۔لیکن ان تمام احادیث و آثار کے خلاف غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ احادیث میں گردن پر مسح کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔گردن پر مسح کرنا ”احداث فی الدین ” ہے ۔]] (حدیث اور اہلحدیث : ١٨٦)
تبصرہ در تبصرہ :
ان کے ذکر کردہ ”احادیث و آثار” کی قلعی ہم نے کھول دی ہے ، ان میں سے ایک روایت بھی پایہ ئ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی، دین ”صحیح احادیث” کا نام ہے ، نہ کہ” ضعیف و من گھڑت” روایات کا ، اس پر طُرّہ یہ کہ ان کے ہاں مروّجہ گردن کا مسح (گردن کے پہلو پر الٹے ہاتھ پھیرنا)تو ان ”ضعیف ” روایات سے بھی ثابت نہیں ہوتا ، لہٰذا نہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود گردن کا مسح فرمایا ہے اور نہ ہی لوگوں کو اس کی ترغیب دی ہے ، بلکہ یہ محض آلِ تقلید کا ایک شوشہ ہے، ایسی بے بنیاد روایات کی مخالفت اہلحدیثوں کو چنداں مضر نہیں ۔
معلوم ہو ا کہ یہ عمل بدعت ہے ۔
٭٭٭دیوبندی صاحب مزید لکھتے ہیں :
[[یہ ہے غیر مقلدیت کا نتیجہ کہ بے دھڑک فعلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدعت کہہ دیا ۔العیاذ باللہ ]]
تبصرہ در تبصرہ :
یہ ہے تقلید پرستی کا انجام کہ بے دھڑک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور متبع سنت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے غیر ثابت شدہ خود ساختہ عمل کو مستحب کہہ دیا ، العیاذ باللہ !!!
اب قارئین کرام ہی فیصلہ فرمائیں کہ ایسے عمل کو مستحب قرار دینا جو نہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہو ، نہ صحابہ کو اس کی تعلیم دی ہو اور نہ ہی صحابہ کرام نے کیا ہو ،یہ حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.