697

الصلوۃ خیر من النوم، شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

اذان کا جواب دینا ہمارے پیارے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے :
1    عن أبی سعید الخدریّ : أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قـال : (( إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذّن )) ” سیدنا ابو سعید خدریرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : جب تم اذان سنو تو کہو اس کی مثل جو مؤذن کہتا ہے ۔ ” (صحیح البخاری : ١/٨٦، ح : ٦١١، صحیح مسلم : ١/١٦٦، ح : ٣٨٣)
یہ حدیث صحیح البخاری (١/٨٦) میں سیدنا معاویہرضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
2    سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ئ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب تم مؤذن کی اذان سنو تو جو وہ کہتا ہے ، تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود پڑھو ۔ جس نے ایک بار مجھ پر درود پڑھا ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا ۔ اس کے بعد تم میرے لیے اللہ تعالیٰ سے ‘وسیلہ ‘کا سوال کرو ۔ بے شک یہ جنت میں ایک منزلت (درجہ) ہے ۔ یہ اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک کے لائق ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں ۔ جس نے میرے لیے ‘وسیلہ’ کا سوال کیا ، اس پر میری شفاعت واجب ہے ۔ ”(صحیح مسلم : ١/١٦٦، ح : ٣٨٤)
ان دو ”صحیح” احادیث سے اذان کے جواب کا استحباب اور اجر و ثواب ثابت ہوا ہے۔ نیز ان کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ جو کلمات مؤذن کہے ، جواب میں وہی کلمات دہرائے جائیں ، البتہ ایک دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہا جائے گا ، جیسا کہ سیدنا عمر بن خطابرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر جب مؤذن حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃ کہے تو تم میںسے کوئی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہے اور جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کہے تو تم میں سے کوئی لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہے ۔”
(صحیح مسلم : ١/١٦٧، ح : ٣٨٥)
ان کلمات کی استثنیٰ حدیث سے ثابت ہو گئی ۔ لیکن اَلصَّــلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کے الفاظ عموم میں داخل ہیں ۔ یعنی ان کے جواب میں یہی الفاظ دہرائے جائیں گے ، کیونکہ ان کی استثنیٰ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کلمات کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ کہا جائے گا۔ جبکہ یہ کلمات نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعاً ثابت نہیں ہیں ۔ اس بارے میں حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لا أصل لہا ۔ ” ان کلمات کی کوئی اصل نہیں۔”
(التلخیص الحبیر لابن حجر : ١/٢١١)
جناب مولوی عاشق الٰہی بلند شہری دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
” حَیَّ عَلَی الصَّلَاۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کے جواب میں لَا حَـوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ کہے اور باقی الفاظ کے جواب میں وہی الفاظ کہے جو مؤذن سے سنے ۔ یہ احادیث سے ثابت ہے ۔ البتہ اَلصَّــلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کے جواب میں الگ سے کوئی خاص کلمات کہنا ثابت نہیں ہے ۔ قُولُوا مِثْلَ مَا یَقُولُ (اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہے) کا تقاضا یہ ہے کہ جواب دینے والا بھی اَلصَّـلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کہے اور اس سے اپنے نفس کو خطاب کرے اور حنفیہ شافعیہ کی کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ اس کے جواب میں صَدَقْتَ وَبَرَرْت کہے ، اس کی کوئی اصل نہیں۔”
(حاشیہ حصن حصین از عاشق الٰہی دیوبندی : ٢٥٥)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.