1,560

گم پایا، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

طائفہ منصورہ ، ائمہ محدثین کے خلاف بعض لوگوں نے قرآن و حدیث کے خلاف یہ عقیدہ گھڑ رکھا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اس باطل اور انتہائی گمراہ کن عقیدے کے خلاف حدیثی دلائل اختصاراً ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
فقدتّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لیلۃ من الفراش ، فالتمستہ ۔۔۔
”ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر سے گم پایا اور ان کو تلاش کرنے لگی۔۔۔”
(صحیح مسلم : ١/١٩٢، ح : ٤٨٦)
دلیل نمبر 2 : سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
أصبح الناس وقد فقدوا نبیّہم ۔۔۔ ”صبح ہوئی تو لوگوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا۔۔۔”(صحیح مسلم : ١/٢٣٩، ح : ٦٨١)
دلیل نمبر 3 : سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
کنّا مع رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ذات لیلۃ ، ففقدناہ ، فالتمسناہ فی الأودیۃ والشعاب ، فقلنا : استطیر أو اغتیل ، قال : فبتنا بشرّ لیلۃ بات بہا قوم ، فلمّا أصبحنا إذا جاء من قبل حراء ، قال : فقلنا : یا رسول اللّٰہ ! فقدناک ، فطلبناک ، فلم نجدک ، فبتنا بشرّ لیلۃ بات بہا قوم ۔۔۔
”ہم ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اچانک ہم نے آپ کو گم پایا۔ ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا۔ پھر ہم نے کہا کہ (شاید) آپ پر جنوں یا انسانوں نے پراسرار طور پر حملہ کر دیا ہو۔ ہم نے وہ ساری رات سخت ترین پریشانی اور اذیت میں گزاری۔جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حراء کی جانب سے تشریف لائے۔ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو گم پایا اور تلاش کرتے رہے لیکن آپ کہیں نہ ملے ، لہٰذا ہم نے پوری رات سخت ترین پریشانی اور اذیت میں گزاری۔۔۔”
(صحیح مسلم : ١/١٨٤، ح : ٤٥٠)
دلیل نمبر 4 : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
افتقدتّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ذات لیلۃ ، فظننت أنّہ ذہب إلی بعض نسائہ ، فتحسّست ، ثمّ رجعت ، فإذا ہو راکع أو ساجد ، یقول : سبحانک وبحمدک ، لا إلہ إلّا أنت ۔ ”ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (بستر سے) گم پایا۔ میں نے سمجھا کہ آپ کسی بیوی کے گھر چلے گئے ہوں گے۔ میں نے تلاش کیا ، پھر واپس لوٹی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع یا سجدے میں یہ دعا پڑھ رہے تھے : سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ ۔۔۔”(صحیح مسلم : ١/١٩٢، ح : ٤٨٥)
دلیل نمبر 5 : سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فقد أناسا فی بعض الصلوات ۔۔۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نماز میں کچھ لوگوں کو گم پایا۔۔۔”(صحیح مسلم : ١/٢٣٢، ح : ٦٥١)
دلیل نمبر 6 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّ امرأۃ سوداء کانت تقمّ المسجد ، أو شابّا ، ففقدہا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فسأل عنہا أو عنہ ، فقالوا : مات ۔۔۔
”ایک عورت یا نوجوان کی عادت مسجد میں جھاڑو دینے کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : اس کی وفات ہو گئی ہے۔”(صحیح مسلم : ١/٣٠٩، ح : ٩٥٦)
دلیل نمبر 7 : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :
إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم افتقد ثابت بن قیس ، فقال رجل : یا رسول اللّٰہ ! أنا أعلم لک علمہ ، فأتاہ فوجدہ جالسا فی بیتہ منکسا رأسہ ۔۔۔
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو گم پایا۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں آپ کو ان کے بارے میں آگاہی دیتا ہوں۔ وہ شخص آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے گھر میں سر جھکائے بیٹھے ہیں۔”(صحیح البخاری : ١/٥١٠، ح : ٣٦١٣)
دلیل نمبر 8 : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّہ لقی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی طریق من طرق المدینۃ ، وہو جنب ، فانسلّ ، فذہب ، فاغتسل ، فتفقّدہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فلمّا جاء ہ قال : أین کنت یا أبا ہریرۃ ؟ ۔۔۔ ”وہ مدینہ منورہ کے ایک راستے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ اس وقت وہ جنابت کی حالت میں تھے ، لہٰذا چپکے سے کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کیا۔ جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوہریرہ! آپ کہاں تھے ؟ ”(صحیح مسلم : ١/١٦٢، ح : ٣٧١)
دلیل نمبر 9 : سیدنا قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا جانا تھا۔ ان کے ساتھ ایک بچہ بھی ہوا کرتا تھا۔ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا : کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں؟ صحابی نے عرض کی : جی ، اللہ کے رسول ! ۔۔۔ ففقدہ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، فسأل عنہ ، فقالوا : یا رسول اللّٰہ ! مات ابنہ ۔۔۔ ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گم پایا تو اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کی : اللہ کے رسول ! اس کا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔”(مسند الطیالسی : ص ١٤٥، مسند الامام احمد : ٣/٤٣٦، سنن النسائی : ١٨٧١، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٣٨٤، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (٢٩٤٧)نے ”صحیح” کہا ہے۔ امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہذا حدیث صحیح الإسناد ۔ ”اس حدیث کی سند صحیح ہے۔”
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”صحیح” قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : إسنادہ صحیح ۔ ”اس کی سند صحیح ہے۔”(فتح الباری لابن حجر : ٣/٣٦١)
دلیل نمبر 0 : سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
فخرج رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی غزوۃ لہ ، قال : فلمّا أفاء اللّٰہ علیہ قال لأصحابہ : ہل تفقدون من أحد ؟ قالوا : نفقد فلانا ونفقد فلانا ، قال : انظروا ، ہل تفقدون من أحد ؟ قالوا : لا ، قال : لکنّی أفقد جلبیبا ، قال : فاطلبوہ فی القتلی ، قال : فطلبوہ ، فوجدوہ إلی جنب سبعۃ قد قتلہم ، ثم قتلوہ ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوے میں نکلے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالِ غنیمت عطا کیا تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کیا تم کسی کو گم پاتے ہو؟ صحابہ نے عرض کی : ہم فلاں اور فلاں کو گم پاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو ، کیا کسی اور کو بھی گم پاتے ہو؟صحابہ نے عرض کی : نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیکن میں تو جلیبیبکو گم پاتا ہوں۔ انہیںمقتولین میں تلاش کرو۔صحابہ کرام نے تلاش کیا تو انہیں سات کفار کے پہلو میں پایا جنہیں جلیبیب رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، پھر کفار نے انہیں قتل کر دیا تھا۔”(مسند الامام احمد : ٤/٤٢٢، وسندہ، صحیحٌ)
تلک عشرۃ کاملۃ یہ صحیح احادیث کی صورت میں پورے دس دلائل ہیں۔
ان دلائل سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات ِ مبارکہ میں بھی ہر جگہ حاضر و ناظر نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گم ہو جایا کرتے تھے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر تھے تو ایسا کیوں ہوتا تھا؟
اس سلسلے میں ایک اور حدیث پیشِ خدمت ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
کنت مع النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی سفر ، فقال : یا مغیرۃ ! خذ الإداوۃ ، فأخذتہا ، فانطلق رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، حتّی تواری عنّی ، فقضی حاجتہ ۔ ”میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے مغیرہ ! (پانی والا) برتن پکڑو۔ میں نے برتن پکڑ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے گئے حتی کہ مجھ سے چھپ گئے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوئے۔”
(صحیح البخاری : ١/٥٢، ح : ٣٦٣، صحیح مسلم : ١/١٣٣، ح : ٢٧٤)
کیا جو شخص دوسروں سے اتنا دُور ہو جائے کہ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے ،وہ ہر جگہ حاضرو ناظر ہوتا ہے؟ عقلی طور پر بھی یہ محال اور ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہوں کیونکہ ہر جگہ میں تو گندگی اور غلاظت والی جگہیں بھی شامل ہیں ، نیز لوگوں کی خلوت گاہیں اور ایسی جگہیں بھی شامل ہیں جن کو ایک عام مسلمان بھی دیکھنا پسند نہیں کرتا۔ کسی مسلمان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے پاس حاضر و ناظر ہوتے ہوئے اپنی زندگی کے سارے معاملات کو انجام دے سکے۔ بہت سے جائز معاملات ایسے ہیں کہ ایک مسلمان مر تو سکتا ہے لیکن ان کو کسی دوسرے مسلمان بھائی کے سامنے بھی انجام نہیں دے سکتا چہ جائیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہوتے ہوئے وہ ایسا کرے!!!
قارئین کرام سے ہماری درخواست ہے کہ وہ مذکورہ دلائل کو غور سے ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ غلط ہے یا صحیح !!!

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.