1,068

حافظ ابن کثیر اور عقائد اہل سنت، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  اور عقائد اہل ِسنت

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  (م : ٧٢٨ھ) فرماتے ہیں:
لٰکِنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ یَتَکَلَّمُونَ بِعِلْمٍ وَّعَدْلٍ، وَیُعْطُونَ کُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّہ، .
(منہاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 358/4)
نیز فرماتے ہیں:
فَمَنْ سَلَکَ سَبِیلَ أَہْلِ السُّنَّۃِ اسْتَقَامَ قَوْلُہ،، وَکَانَ مِنْ أَہْلِ الْحَقِّ وَالِاسْتِقَامَۃِ وَالِاعْتِدَالِ، وَإِلَّا حَصَلَ فِي جَہْلٍ وَّکَذِبٍ وَّتَنَاقُضٍ کَحَالِ ہٰؤُلَاءِ الضُّلَّالِ .
(منہاج السنۃ النبویۃ في نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ : 313/4)
1     سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہما  بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ ہٰذَا الْـأَمْرَ لَا یَنْقَضِي حَتّٰی یَمْضِيَ فِیہِمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِیفَۃً، قَالَ : ثُمَّ تَکَلَّمَ بِکَلَامٍ خَفِيَ عَلَيَّ، قَالَ : فَقُلْتُ لِـأَبِي : مَا قَالَ؟ قَالَ : کُلُّہُمْ مِّنْ قُرَیْشٍ .
”نظام کائنات اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب تک بارہ خلیفہ نہ ہو جائیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے کچھ آہستہ سی بات کی میں نہ سن سکا، میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا کہ کیا بات کی ہے؟ کہنے لگے : یہ کہ سب خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔”
(صحیح البخاري : ٧٢٢٢، صحیح مسلم : ١٨٢١، واللفظ لہ،)
مؤرخ اسلام، مفسر قرآن، امام اہل سنت، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
وَمَعْنٰی ھٰذَا الْحَدِیثِ الْبِشَارَۃُ بِوُجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِیفَۃً صَالِحًا یُّقِیمُ الْحَقَّ وَیَعْدِلُ فِیہِمْ، وَلَا یَلْزَمُ مِنْ ہٰذَا تَوَالِیہِمْ وَتَتَابُعُ أَیَّامِہِمْ، بَلْ قَدْ وُجِدَ مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ عَلٰی نَسَقٍ، وَہُمُ الْخُلَفَاءُ الْـأَرْبَعَۃُ : أَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، وَمِنْہُمْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ بِلَا شَکٍّ عِنْدَ الْـأَئِمَّۃِ، وَبَعْضُ بَنِي الْعَبَّاسِ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَۃُ حَتّٰی تَکُونَ وِلَایَتُہُمْ لَامَحَالَۃَ، وَالظَّاہِرُ أَنَّ مِنْہُمُ الْمَہْدِيُّ الْمُبَشَّرُ بِہٖ فِي الْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ بِذِکْرِہٖ أَنَّہ، یُواطيءُ اسْمُہُ اسْمَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَاسْمُ أَبِیہِ اسْمَ أَبِیہِ، فَیَمْلَـأُ الْـأَرْضَ عَدْلًا وّقِسْطًا، کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّظُلْمًا، وَلَیْسَ ہٰذَا بِالْمُنْتَظَرِ الَّذِي یَتَوَہَّمُ الرَّافِضَۃُ وُجُودَہ، ثُمَّ ظُہُورَہ، مِنْ سِرْدَابِ ‘سَامُرَّائَ’ فَإِنَّ ذَالِکَ لَیْسَ لَہ، حَقِیقَۃٌ وَّلَا وُجُودٌ بِّالْکُلِّیَّۃِ، بَلْ ہُوَ مِنْ ہَوَسِ الْعُقُولِ السَّخِیفَۃِ، وَتَوَہُّمِ الْخَیَالَاتِ الضَّعِیفَۃِ، وَلَیْسَ الْمُرَادُ بِہٰؤُلَاءِ الْخُلَفَاءِ الِاثْنَيْ عَشَرَ الْـأَئِمَّۃَ (الِاثْنَي عَشَرَ) الَّذِینَ یَعْتَقِدُ فِیہِمُ الِاثْنَا عَشْرِیَّۃَ مِنَ الرَّوَافِضِ، لِجَہْلِہِمْ وَقِلَّۃِ عَقْلِہِمْ، وَفِي التَّوْرَاۃِ الْبِشَارَۃُ بِإِسْمَاعِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَأَنَّ اللّٰہَ یُقِیمُ مِنْ صُلْبِہِ اثْنَيْ عَشَرَ عَظِیمًا، وَہُمْ ہٰؤُلَاءِ الْخُلَفَاءُ الِاثْنَا عَشَرَ الْمَذْکُورُونَ فِي حَدِیثِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ، وَبَعْضُ الْجَہَلَۃِ مِمَّنْ أَسْلَمَ مِنَ الْیَہُودِ إِذَا اقْتَرَنَ بِہِمْ بَعْضُ الشِّیعَۃِ یُوہِمُونَہُمْ أَنَّہُمُ الْـأَئِمَّۃُ الِاثْنَا عَشَرَ، فَیَتَشَیَّعُ کَثِیرٌ مِّنْہُمْ جَہْلًا وَّسَفَہًا، لِقِلَّۃِ عِلْمِہِمْ وَعِلْمِ مَنْ لَّقَّنَہُمْ ذَالِکَ بِالسُّنَنِ الثَّابِتَۃِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اس امت میں بارہ نیک و صالح خلفا ہوں گے، جو زمین پر عدل و انصاف قائم کریں گے۔ اس حدیث سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ پے در پے ہوں گے اور ان کا دور بھی تسلسل کے ساتھ ہو گا، بل ان میں سے چار تو لگاتار ہو چکے ہیں، ابو بکر، عمر، عثمان، علیy ۔ ائمہ کے نزدیک بلا شبہ ان میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  اور نبو عباس کے بعض خلفا بھی شامل ہیں۔ قیامت کا ظہور تب تک نہیں ہو گا، جب تک ان بارہ کی خلافت نہ گزر جائے۔ لگتا ہے کہ امام مہدی بھی ان میں ایک ہو ں گئے، جن کے متعلق احادیث میں وارد ہے کہ ان کا نام میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام اور باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہو گا۔ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے وہ ظلم و زیادتی سے اٹا اٹ بھری ہوئی ہو گی۔ یہ مہدی شیعوں کا امام منتظر نہیں ہے کہ ان کا گمان ہے کہ وہ ”سامراء نامی غار میں رو پوش ہے۔ یہ کلی طور پر بے حقیقت بات ہے۔ بل کہ یہ بے ہودہ عقلوں کا خبطی پن اور کمزور توہمات ہیں۔ ان بارہ اماموں سے شیعہ کے بارہ امام مراد نہیںہیں، جن کے متعلق اثنا عشریہ روافض اعتقادات رکھتے ہیں۔ یہ سراسر جہالت اور نادانی ہے۔ تورات میں اسماعیلu کی اور ان کی نسل سے بارہ عظیم خلفا کی بشارت بیان کی گئی ہے۔ یہ وہی بارہ خلفا ہیں جن کا ذکر عبد اللہ بن مسعود اور جابر بن سمرہy کی حدیث میں موجود ہے۔ یہودیوں سے مسلمان ہونے والے بعض جاہلوں کو جب شیعہ حضرات ملے، تو ان رافضیوں نے انہیں وہم ڈالا کہ یہ بارہ خلفا ہمارے بارہ امام ہیں، تو ان سے کئی ایک اپنی جہالت، پگلے پن، کم علمی اور حدیث رسول سے نا واقفیت کی بنا پر شیعہ مذہب قبول کر لیا۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٦٥، ٦٦)
نیز فرماتے ہیں:
ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، لَا بُدَّ مِنْ وُّجُودِ اثْنَيْ عَشَرَ خَلِیفَۃً عَادِلًا وَّلَیْسُوا ہُمْ بِأَئِمَّۃِ الشِّیعَۃِ الِاثْنَيْ عَشْرَ فَإِنَّ کَثِیرًا مِّنْ أُولٰئِکَ لَمْ یَکُنْ إِلَیْہِمْ مِنَ الْـأَمْرِ شَيْئٌ، فَأَمَّا ہٰؤُلَاءِ فَإِنَّہُمْ یَکُونُونَ مِنْ قُرَیْشٍ، یَلُونَ فَیَعْدِلُونَ، وَقَدْ وَقَعَتِ الْبِشَارَۃُ بِہِمْ فِي الْکُتُبِ الْمُتَقَدِّمَۃِ، ثُمَّ لَا یُشْتَرَطُ أَنْ یَّکُونَ مُتَتَابِعِینَ، بَلْ یَکُونُ وُجُودُہُمْ فِي الْـأُمَّۃِ مُتَتَابِعًا وَّمُتَفَرِّقًا، وَقَدْ وُجِد مِنْہُمْ أَرْبَعَۃٌ عَلَی الْوَلَائِ، وَہُمْ أَبُو بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ عَلِيٌّ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، ثُمَّ کَانَتْ بَعْدَہُمْ فَتْرَۃٌ، ثُمَّ وُجِدَ مِنْہُمْ مَا شَاءَ اللّٰہُ، ثُمَّ قَدْ یُوجَدُ مِنْہُمْ مَّنْ بَّقِيَ فِي وَقْتٍ یَّعْلَمُہُ اللّٰہُ، وَمِنْہُمُ الْمَہْدِيُّ الَّذِي یُطَابِقُ اسْمُہُ اسْمَ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکُنْیَتُہ، کُنْیَتَہ،، یَمْلَـأُ الْـأَرْضَ عَدْلًا وَّقِسْطًا، کَمَا مُلِئَتْ جَوْرًا وَّظُلْمًا .
”اس حدیث کا مفہوم ہے کہ اس امت میں بارہ پارسا و عادل خلیفہ ہوں گے۔ یہ شیعہ کے مذعوم بارہ ائمہ نہیں ہیں، کیوں کہ ان میں اکثر کو تو کوئی اقتدار ملا ہی نہیں، جب کہ یہ خلیفہ تو قریش میں ہوں گے۔ خلافت ملتے ہی عدل قائم کریں گے۔ ان کی بشارت سابقہ کتب میں بھی موجود ہے۔ پھر ان کے متعلق یہ بھی شرط نہیں کہ یہ لگا تار ہوں گے، بل کہ بعض تسلسل سے اور بعض انقطاع کے ساتھ۔ لگار تار خلیفہ بننے والوں میں ابو بکر، عمر، عثمان اور علیy شامل ہیں۔ پھر ایک وقفہ کے بعد جس کا اللہ نے چاہا، ظہور فرما دیا۔ باقیوں کے اوقاتِ ظہور کا حقیقی علم اللہ کے پاس ہے۔ ان بارہ میں امام مہدی بھی شامل ہیں کہ جن کا نام و کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے نام و کنیت کے مطابق ہو گی، زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جیسے ظلم و تشدد سے بھری ہو ئی ہو گی۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٧٨)
2     فرمان باری تعالیٰ ہے :
(وَالسَّابِقُونَ الْـأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِّإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَہَا الْـأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَالِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)(سورۃ التوبۃ : ١٠٠)
”ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ ابدالاباد تک ان کے لیے ایسے باغات کا انتظام کیا ہے، جن کے نیچے دریا جاری ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔”
امام ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
فَقَدْ أَخْبَرَ اللّٰہُ الْعَظِیمُ أَنَّہ، قَدْ رَضِيَ عَنِ السَّابِقِینَ الْـأَوَّلِینَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِّإِحْسَانٍ : فَیَا وَیْلُ مَنْ أَبْغَضَہُمْ أَوْ سَبَّہم أَوْ أَبْغَضَ أَوْ سبَّ بَعْضَہُمْ، وَلَا سِیَّمَا سَیِّدُ الصَّحَابَۃِ بَعْدَ الرَّسُولِ وَخَیْرُہُمْ وَأَفْضَلُہُمْ، أَعْنِي الصِّدِّیقَ الْـأَکْبَرَ وَالْخَلِیفَۃَ الْـأَعْظَمَ أَبَا بَکْرِ بْنَ أَبِي قُحَافَۃَ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، فَإِنَّ الطَّائِفَۃَ الْمَخْذُولَۃَ مِنَ الرَّافِضَۃِ یُعَادُونَ أَفْضَلَ الصَّحَابَۃِ ویُبْغِضُونَہُمْ وَیَسُبُّونَہُمْ، عِیاذًا بِّاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ. وَہٰذَا یَدُلُّ عَلٰی أَنَّ عُقُولَہُمْ مَعْکُوسَۃٌ، وَقُلُوبَہُمْ مَّنْکُوسَۃٌ، فَأَیْنَ ہٰؤُلَاءِ مِنَ الْإِیمَانِ بِالْقُرْآنِ، إِذْ یَسُبُّونَ مَنْ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ؟ وَأَمَّا أَہْلُ السُّنَّۃِ فَإِنَّہُمْ یَتَرَضُّونَ عَمَّنْ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَیَسُبُّونَ مَنْ سَبَّہُ اللّٰہُ وَرَسُولُہ،، وَیُوَالُونَ مَنْ یُّوَالِي اللّٰہَ، وَیُعَادُونَ مَنْ یُّعَادِي اللّٰہَ، وَہُمْ مُتَّبِعُونَ لَا مُبْتَدِعُونَ، وَیَقْتَدُونَ وَلَا یَبْتَدُونَ وَلِہٰذَا ہُمْ حِزْبُ اللّٰہِ الْمُفْلِحُونَ وَعِبَادُہُ الْمُؤْمِنُونَ .
”اللہ عظیم و کریم نے اس آیت کریمہ میں خبر دی ہے کہ وہ ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے راضی ہو گیا ہے۔ افسوس اس پر جو تمام صحابہ کرام سے بغض رکھتا ہے اور انہیں سب و شتم کا نشانہ بناتا ہے یا بعض نفوس قدسیہ پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ خاص کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد صحابہ کے سردار، افضل الصحابہ اور پسند یدہ ترین ہستی میری مراد صدیق اکبر، خلیفہئ اعظم ابو بکربن ابو قحافہ رضی اللہ عنہما  کو شیعہ کا ایک ذلیل و قبیح گروہ اپنے بغض و عناد اور سب و شتم کا نشانہ بناتا ہے۔ العیاذ باللہ! اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی عقلیں ٹیڑی ہیں اور دل الٹے ہیں۔ اللہ کی پسندیدہ شخصیات سے بغض رکھتے ہیں، ان کا قرآن کیسے ایمان ہو سکتا ہے؟ اہل سنت تو ہر اس سے راضی ہے، جن سے اللہ راضی ہے۔ ہر اس کو برا کہتے ہیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے برا کہا، اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ یہ متبع سنت ہیں، بدعتی نہیں، قرآن و حدیث کی پیروی کرتے ہیں، بدعات جاری نہیںکرتے۔ اس بنا پر یہ اللہ کا گروہ ہیں، فوز و فلاح ان کا مقدر ہے اور یہی اللہ کے مومن بندے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٤/٢٠٣)
3     فرمان الٰہی ہے:
(وَالَّذِینَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَانًا وَّإِثْمًا مُّبِینًا)(سورۃ الأحزاب : ٥٨)
”جنہوں نے مومنین اور مومنات کو ایسے بہتان لگا کر تکلیف دی، جن کے وہ مرتکب ہی نہیں ہوئے، تو ان لوگوں نے بہتان بازی کی اور کھلم کھلا گناہ کمایا۔”
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:
ہٰذَا ہُوَ الْبُہْتُ الْبَیِّنُ أَنْ یُّحْکٰی أَوْ یُنْقَلَ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ مَا لَمْ یَفْعَلُوہُ، عَلٰی سَبِیلِ الْعَیْبِ وَالتَّنَقُّصِ لَہُمْ، ومِنْ أَکْثَرِ مَنْ یَّدْخُلُ فِي ہٰذَا الْوَعِیدِ الْکَفَرَۃُ بِاللّٰہ وَرَسُولِہٖ، ثُمَّ الرَّافِضَۃُ الَّذِینَ یَتَنَقَّصُونَ الصَّحَابَۃَ وَیَعِیبُونَہُمْ بِمَا قَدْ بَرَّأَہُمُ اللّٰہُ مِنْہُ، وَیَصِفُونَہُمْ بِّنَقِیضِ مَا أَخْبَرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ؛ فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَخْبَرَ أَنَّہ، قَدْ رَضِيَ عَنِ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـأَنْصَارِ وَمَدَحَہُمْ، وَہٰؤُلَاءِ الْجَہَلَۃُ الْـأَغْبِیَاءُ یَسُبُّونَہُمْ وَیَتَنَقَّصُونَہُمْ، وَیَذْکُرُونَ عَنْہُمْ مَّا لَمْ یَکُنْ وَّلَا فَعَلُوہُ أَبَدًا، فَہُمْ فِي الْحَقِیقَۃِ مَنْکُوسُو الْقُلُوبِ یَذُمُّونَ الْمَمْدُوحِینَ، وَیَمْدَحُونَ الْمَذْمُومِینَ .
”مومنین اور مؤمنات پر عیب جوئی اور تنقیص کی غرض سے ان کے متعلق وہ کچھ نقل کرنا، جو انہوں نے کیا ہی نہیں، واضح بہتان ہے۔ اس وعید کے مصداق اکثر تو اللہ و رسول کے منکر ہیں، پھر وہ روافض، جو صحابہ کرام کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، ان پر وہ وہ عیب لگاتے ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے انہیں پروانہئ براء ت دے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار صحابہ کرام سے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے اور قرآن میں ان کی مدح و ستائش کی ہے، لیکن یہ بدبخت جاہل انہیں گالیاں دیتے ہیں، ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور ان پاکباز ہستیوں کی بابت ایسے ایسے کام منسوب کرتے ہیں، جن کا انہیں پتا بھی نہیں۔ در اصل ان کے دل ٹیڑیں ہیں، ممدوحین کی مذمت کرتے ہیں اور مذمومین کی مدح کرتے ہیں۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/٤٨٠، ٤٨١)
4     حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  لکھتے ہیں:
فَالصَّحَابَۃُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ خَلُصَتْ نِیَّاتُہُمْ وَحَسُنَتْ أَعْمَالُہُمْ، فَکُلُّ مَنْ نَّظَرَ إِلَیْہِمْ أَعْجَبُوہُ فِي سَمْتِہِمْ وَہَدْیِہِمْ . …. قَالَ ہَاہُنَا : (ذَالِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ)، ثُمَّ قَالَ : (وَمَثَلُہُمْ فِي الْـإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہ، فَآزَرَہ، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ)، (أَخْرَجَ شَطْأَہ،) أَيْ : فِرَاخَہ،، (فَآزَرَہ،) أَيْ : شَدَّہ، (فَاسْتَغْلَظَ) أَيْ : شَبَّ وَطَالَ، (فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ) أَيْ : فَکَذَالِکَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آزَرُوہ، وَأَیَّدُوہ، وَنَصَرُوہ، فَہُمْ مَّعَہ، کَالشَّطْءِ مَعَ الزَّرْعِ، (لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ)…. وَالْـأَحَادِیثُ فِي فَضَائِلِ الصَّحَابَۃِ وَالنَّہْيِ عَنِ التَّعَرُّضِ لَہُمْ بِّمَسَاءَ ۃٍ کَثِیرَۃٌ، وَیَکْفِیہِمْ ثَنَاءُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ، وَرِضَاہُ عَنْہُمْ . ثُمَّ قَالَ : (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ) ‘مِنْ’ ہٰذِہٖ لِبَیَانِ الْجِنْسِ، (مَغْفِرَۃً) أَيْ : لِذُنُوبِہِمْ، (وَأَجْرًا عَظِیمًا) أَيْ : ثَوَابًا جَزِیلًا وَّرِزْقًا کَرِیمًا، وَوَعْدُ اللّٰہِ حَقٌّ وَّصِدْقٌ، لَا یُخْلَفُ وَلَا یُبَدَّلُ، وَکُلُّ مَنِ اقْتَفٰی أَثَرَ الصَّحَابَۃِ فَہُوَ فِي حُکْمِہِمْ، وَلَہُمُ الْفَضْلُ وَالسَّبْقُ وَالْکَمَالُ الَّذِي لَا یَلْحَقُہُمْ فِیہِ أَحَدٌ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ، رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَأَرْضَاہُمْ، وَجَعَلَ جَنَّاتِ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاہُمْ، وَقَدْ فَعَلَ .
”صحابہ کرامy نیتوں کے خالص اور اعمال کے اچھے تھے۔ ہر دیکھنے والے کو ان کی ہیئت و صورت اور ہدایت خوب بھائے گی۔….(ذَالِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ) ‘ان کی مثالیں تورات میں موجود ہیں ‘پھر فرمایا : (وَمَثَلُہُمْ فِي الْـإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہ، فَآزَرَہ، فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوقِہٖ) ‘انجیل میں بھی ان کا تذکرہئ خیر موجود ہے۔ ان کی مثال ایسی کھیتی کی مانند ہے، جو انگوریاں نکال کر انہیں مضبوط و گنی کرتی ہے اور تناور ہو جاتی ہے۔’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہ کرامy بھی ایسے ہی تھے، جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی نصرت و تائید کی اور آپ کی ڈھارس بندھائی، صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایسے رہے، جیسے بالیاں کھیتی کے ساتھ ہوتی ہیں۔ پھر فرمایا : (لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ) ‘تاکہ ان کے ذریعے کفار کو غیظ و غضب کا شکار کر دے۔’ … فضائل صحابہ اور ان کی لغزشوں میں تعرض کرنے کی ممانعت میں بہت سی احادیث ہیں۔ انہیں اللہ کی تعریف و رضا کافی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّأَجْرًا عَظِیمًا) ‘اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اور نیک و صالح اعمال کرنے والوں سے مغفرت اور اجر جزیل کا وعدہ کیا ہے۔’ اس آیت کریمہ میں حرف ‘من’ بیان جنس کے لیے ہے۔ مغفرت میں گناہوں کی معافی اور اجر عظیم میں اجر جزیل اور عزت کی روزی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق اور سچ ہے، اس میں خلاف ورزی اور تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ صحابہ کے نقشِ قدم پر چلنے والے کے لیے بھی یہی وعدہ ہے۔ البتہ صحابہ کے لیے خصوصی فضیلت و سبقت اور کمال ہے، جو بعد والوں میں سے کسی کے حصے میں نہیں آسکتا۔ اللہ صحابہ کرام سے راضی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں، نیز اللہ تعالیٰ نے ان کا ٹھکانہ جنت الفردوس بنا دیا ہے ۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٧/٣٦٢، ٣٦٣)
نیز فرمایا:
ذَکَرُوا أَیْضًا فِي مَقْتَلِ الْحُسَیْنِ أَنَّہ، مَا قُلِبَ حَجَرٌ یَّوْمَئِذٍ إِلَّا وُجِدَ تَحْتَہ، دَمٌ عَبِیطٌ، وَأَنَّہ، کَسَفَتِ الشَّمْسُ، وَاحْمَرَّ الْـأُفُقُ، وَسَقَطَتْ حِجَارَۃٌ .وَفِي کُلٍّ مِّنْ ذَالِکَ نَظَرٌ، وَالظَّاہِرُ أَنَّہ، مِنْ سُخْفِ الشِّیعَۃِ وَکَذِبِہِمْ، لِیُعَظِّمُوا الْـأَمْرَ وَلَا شَکَّ أَنَّہ، عَظِیمٌ وَّلٰکِنْ لَّمْ یَقَعْ ہٰذَا الَّذِي اخْتَلَقُوہُ وَکَذَبُوہُ، وَقَدْ وَقَعَ مَا ہُوَ أَعْظَمُ مِنْ ذَالِک قُتِلَ الْحُسَیْنُ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہ وَلَمْ یَقَعْ شَيْءٌ مِّمَّا ذَکَرُوہُ، فَإِنَّہ، قَدْ قُتِلَ أَبُوہُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَہُوَ أَفْضَلُ مِنْہُ بِالْإِجْمَاعِ وَلَمْ یَقَعْ شَيْءٌ مِّنْ ذَالِکَ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُتِلَ مَحْصُورًا مَّظْلُومًا، وَلَمْ یَکُنْ شَيْءٌ مِّنْ ذَالِکَ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ قُتِلَ فِي الْمِحْرَابِ فِي صَلَاۃِ الصُّبْحِ، وَکَأَنَّ الْمُسْلِمِینَ لَمْ تَطْرُقْہُمْ مُّصِیبَۃٌ قَبْلَ ذَالِکَ، وَلَمْ یَکُنْ شَيْءٌ مِّنْ ذَالِکَ . وَہٰذَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ سَیِّدُ الْبَشَرِ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ یَوْمَ مَاتَ لَمْ یَکُنْ شَيْءٌ مِّمَّا ذَکَرُوہُ . وَیَوْمَ مَاتَ إِبْرَاہِیمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ النَّاسُ : الشَّمْسُ خَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاہِیمَ، فَصَلّٰی بِہِمْ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاۃَ الْکُسُوفِ، وَخَطَبَہُمْ وَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَیَاتِہٖ .
”روافض مقتل حسین رضی اللہ عنہ  کے متعلق ذکر کرتے ہیں کہ اس روز جس پتھر کو بھی الٹا کیا جاتا، نیچے تازہ خون نظر آتا، سورج بے نور ہو گیا، افق زرد ہو گیا اور پتھروں کی بارش ہونے لگی۔ یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں۔ یقینا یہ شیعہ کا لچر پن اور جھوٹ ہے۔ تاکہ اس واقعہ کو ہوا دیں، اگرچہ یہ سانحہ بہت عظیم ہے، لیکن جو جھوٹ انہوں نے گھڑ لیے ہیں، وہ تو وقوع پذیر نہیں ہوا۔ جب کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ  تو اس سے بڑا سانحہ ہے، لیکن ان کے ذکر کردہ جھوٹ موٹ کا واقع ہونا ثابت نہیں۔ ان کے والد گرامی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ، جو بالاجماع ان سے افضل ہیں، بھی رتبہ شہادت نوش فرما گئے، لیکن جو شیعہ نے ذکر کیا وہ تو اس دن بھی واقع نہیں ہوا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کو دیکھ لیجئے کہ جو محصور اور مظلوم شہید کر دیے گئے، ان کے یوم شہادت ان میں سے کچھ بھی رونما نہیں ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  محراب میں دوران نماز فجر منصب شہادت پر فائز ہوئے، یوں لگا جیسے مسلمانوں پر اس سے بڑی کبھی مصیبت آئی ہی نہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ سب کو چھوڑیے دنیا و آخر میں پو ری انسانیت کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات والے دن وہ کچھ نہیں ہوا، جو شیعہ یوم شہادت حسین رضی اللہ عنہ  کے دن بیان کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ  کے وفات والے دن سورج گرہن لگ گیا، لوگوں نے کہا : ابراہیم کی وفات نے سورج کو بھی بے نور کر دیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے نماز کسوف پڑھا کر خطبہ دیا اور فرمایا : قمرین (سورج اور چاند) کو کسی کی موت یا حیات سے گرہن نہیں لگتا۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٧/٢٥٥)
آپ رحمہ اللہ  ہی لکھتے ہیں:
فِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی مَا ذَکَّرْنَاہُ، وَفِیہِ أَنَّہَا تَکُونُ بَاقِیَۃٌ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فِي کُلِّ سَنَۃٍ بَّعْدَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَا کَمَا زَعَمَہ، بَعْضُ طَوَائِفِ الشِّیعَۃِ مِنْ رَّفْعِہَا بِالْکُلِّیَّۃِ، عَلٰی مَا فَہِمُوہُ مِنَ الْحَدِیثِ الَّذِي سَنُورِدُہ، بَعْدُ مِنْ قَوْلِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ : فَرُفِعَتْ، وَعَسٰی أَنْ یَّکُونَ خَیْرًا لَّکُمْ، لِـأَنَّ الْمُرَادَ رَفْعُ عِلْمِ وَقْتِہَا عَیْنًا، وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی أَنَّہَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِ یَخْتَصُّ وُقُوعُہَا بِشَہْرِ رَمَضَانَ مِنْ بَّیْنِ سَائِرِ الشُّہُورِ .
”اس (سورت القدر) میں اس بات کی دلیل ہے جس کی طرف ہم توجہ دلا چکے ہیں۔ اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ لیلۃ القدر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد بھی تا قیامت ہر سال ہو گی، نہ کہ جیسے شیعہ کے بعض فرقوں کا گمان ہے کہ یہ کلی طور پر ختم کر دی گئی۔ شیعہ یہ مفہوم ایک حدیث نبوی سے اخذ کرتے ہیں کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ‘تو یہ اٹھا لی گئی، یقینا تمہارے لیے اس میں خیر ہے۔’ جب کہ اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ اس کا معین وقت اٹھا لیا گیا۔ نیز اس سورت میں اس بات دلیل بھی ملتی ہے کہ لیلۃ القدر کا وقوع صرف ماہِ رمضان کے ساتھ خاص ہے۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٨/٤٤٦)
5    حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ  ہی لکھتے ہیں:
وَقَدْ ثَبَتَ بِالتَّوَاتُرِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَشْرُوعِیَّۃُ الْمَسْحِ عَلَی الْخُفَّیْنِ قَوْلًا مِّنْہُ وَفِعْلًا کَمَا ہُوَ مُقَرَّرٌ فِي کِتَابِ الْـأَحْکَامِ الْکَبِیرِ، وَمَا یَحْتَاجُ إِلٰی ذِکْرِہٖ ہُنَاکَ، مِنْ تَأْقِیتِ الْمَسْحِ أَوْ عَدَمِہٖ أَوِ التَّفْصِیلِ فِیہِ، کَمَا ہُوَ مَبْسُوطٌ فِي مَوْضِعِہٖ . وَقَدْ خَالَفَتِ الرَّوَافِضُ ذَالِکَ کُلَّہ، بِلَا مُسْتَنَدٍ، بَلْ بِجَہْلٍ وَّضَلَالٍ، مَعَ أَنَّہ، ثَابِتٌ فِي صَحِیحِ مُسْلِمٍ، مِنْ رِّوَایَۃِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، کَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِیحَیْنِ عَنْہُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّہْيُ عَنْ نِکَاحِ الْمُتْعَۃِ وَہُمْ یَسْتَبِیحُونَہَا . وَکَذَالِکَ ہٰذِہِ الْآیَۃُ الْکَرِیمَۃُ دَالَّۃٌ عَلٰی وُجُوبِ غَسْلِ الرِّجْلَیْنِ، مَعَ مَا ثَبَتَ بِالتَّوَاتُرِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی وَفْقِ مَا دَلَّتْ عَلَیْہِ الْـآیَۃُ الْکَرِیمَۃُ، وَہُمْ مُّخَالِفُونَ لِذَالِکَ کُلِّہٖ، وَلَیْسَ لَہُمْ دَلِیلٌ صَحِیحٌ فِي نَفْسِ الْـأَمْرِ، وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ . وَہٰکَذَا خَالَفُوا الْـأَئِمَّۃَ وَالسَّلَفَ فِي الْکَعْبَیْنِ اللَّذَیْنِ فِي الْقَدَمَیْنِ، فَعِنْدَہُمْ أَنَّہُمَا فِي ظَہْرِ الْقَدَمِ، فَعِنْدَہُمْ فِي کُلِّ رِجْلٍ کَعْبٌ، وَعِنْدَ الْجُمْہُورِ أَنَّ الْکَعْبَیْنِ ہُمَا الْعَظْمَانِ النَّاتِئَانِ عِنْدَ مَفْصِلِ السَّاقِ وَالْقَدَمِ، قَالَ الرَّبِیعُ : قَالَ الشَّافِعِيُّ : لَمْ أَعْلَمْ مُّخَالِفًا فِي أَنَّ الْکَعْبَیْنِ اللَّذَیْنِ ذَکَرَہُمَا اللّٰہُ فِي کِتَابِہٖ فِي الْوُضُوءِ ہُمَا النَّاتِئَانِ، وَہُمَا مُجْمَعُ مَفْصِلِ السَّاقِ وَالْقَدَمِ، ہٰذَا لَفْظُہ،، فَعِنْدَ الْـأَئِمَّۃِ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ، أَنَّ فِي کُلِّ قَدَمٍ کَعْبَیْنِ کَمَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ النَّاسِ، وَکَمَا دَلَّتْ عَلَیْہِ السُّنَّۃُ، فَفِي الصَّحِیحَیْنِ مِنْ طَرِیقِ حُمْرَان َعَنْ عُثْمَانَ؛ أَنَّہ، تَوَضَّأَ فَغَسَلَ رِجْلَہُ الْیُمْنٰی إِلَی الْکَعْبَیْنِ، وَالْیُسْرٰی مِثْلَ ذَالِکَ .
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے قولا و فعلا ہر دو طرح موزوں پر مسح کرنا متواتر ثابت ہے جیسا کہ ہماری کتاب ”الاحکام الکبیر” میں مسح، وقت ِمسح، مسح کی انتہا اور ان سے متعلقہ احکامات کی مکمل تفصیل سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ اپنے مقام پر اس پر سیر حاصل گفتگو ہو چکی ہے۔ روافض نے بغیر کسی دلیل کے جہالت و ضلالت کی بنا پر ان تمام احکام کی مخالفت مول لی ہے، حالاں کہ صحیح مسلم میں سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ  سے موزوں پر مسح ثابت ہے، اسی طرح بخاری و مسلم میں سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  سے ہی نکاح متعہ کی ممانعت بھی ثابت ہے، جب کہ شیعہ حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں۔ اسی طرح یہ آیت پاؤں کو دھونے کے وجوب پر دال ہے، اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے تواتر کے ساتھ قرآنی نص کے موافق عمل کرنا ثابت ہے، جب کہ روافض اس سب کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کا دامن دلائل صحیحہ سے خالی ہے۔ اسی طرح روافض ٹخنوں کے متعلق ائمہ اہل سنت کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کعبین (ٹخنے) پاؤں کی اوپر والی ہڈی کو کہتے ہیں، لہٰذا ہر پاؤں میں ایک کعب (ٹخنہ) ہے۔ جب کہ جمہور کے نزدیک کعبین (ٹخنے) پنڈلی اور پاؤں کے ملنے والی جگہ پر ابھری ہوئی دو ہڈیوں کو کہتے ہیں۔ ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ  کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ  نے فرمایا : ‘میرے علم کے مطابق اس کا کوئی بھی مخالف نہیں کہ جن کعبین کو اللہ تعالیٰ نے وضو کے متعلق ذکر کیا ہے ان سے مراد دو ابھری ہوئی ہڈیاں ہیں اور یہ پنڈلی اور پاؤں کے ملنے والی جگہ میں ہو تی ہیں۔’ لہٰذا ائمہ اہل سنت کے نزدیک ہر پاؤں میں دو ‘کعب’ ہوتی ہیں، لوگوں میں بھی یہی معروف ہے، سنت میں بھی یہی ثابت ہے، نیز بخاری و مسلم میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے دورانِ وضو اپنے دائیں پاؤں کو کعبین (ٹخنوں) سمیت دھویا اور اسی طرح بائیں پاؤں کو دھویا۔”
(تفسیر ابن کثیر : ٣/٥٨، ٥٩)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.