2,008

حکیم فیض عالم صدیقی اور شہادت حسن رضی اللہ عنہ کا انکار…. حافظ ابو یحیٰی نورپوری

حکیم فیض عالم صدیقی اور شہادت حسن کا انکار

حافظ ابو یحیٰی نورپوری

خلیفہ راشد پنجم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا اور اس مقصد کے لیے زہر کا استعمال کیا گیا۔سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت کے حوالے سے دو گروہوں نے بے اعتدالی کی اور حق وانصاف کا خون کیا۔
رافضیوں نے اس واقعہ کا ذمہ دار کبھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور کبھی یزید کو قرار دے کر جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔ یہ ایک انتہا تھی تو دوسری انتہا ان لوگوں نے اپنائی جنہوں نے سرے سے اس واقعہ کو جھوٹا اور وضعی قرار دے کر شہادت ِ حسن رضی اللہ عنہ کا ہی انکار کر دیا۔
حکیم فیض عالم صدیقی بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو شرف ِشہادت نصیبب ہونے سے انکاری ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے صحیح سند سے ثابت واقعہ کا عجیب وغریب انداز میں انکار کیا ہے۔
ان کے اپنے الفاظ ملاحظہ فرمائیں ؛
”زہر خورانی کی داستان سراسر جھوٹ اور کذب ہے۔۔۔”
”زہر خورانی سے متعلق سب سے پہلا الہام مسعودی متوفی 346 ھ کو ہوا۔ گویا چوتھی صدی ہجری کے ربع اول تک حضرت حسن رض کی زہر خورانی کا تصور تک کسی کے ذہن میں نہ تھا۔مسعودی نے زہر خورانی کی داستان وضع کرتے وقت بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے۔۔۔” (حقیقت ِ مذہب ِ شیعہ، ص : 197)

حکیم صاحب کی اس عبارت سے تین باتیں معلوم ہوتی ہیں؛
1ایک تو یہ کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ سرے سے جھوٹ کا پلندا ہے۔
2 دوسری یہ کہ چوتھی صدی ہجری کے آغاز سے پہلے تک کسی نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دئیے جانے کا ذکر کیا ہی نہیں۔
3 تیسری یہ کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی زہرخورانی اور شہادت کی داستان مسعودی نے گھڑی۔
کیا سیدنا حسن کی شہادت کا واقعہ من گھڑت ہے؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ ان کے یہ تینوں دعوے کس حد تک درست ہیں؟
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ متوفی 235 ھ بذریعہ ابواسامہ متوفی 179ھ،ابن عون متوفی 150ھ،عمیر بن اسحاق تابعی سے بیان کرتے ہیں:
أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَرَجُلٌ عَلَى [ص:477] الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ نَعُودُهُ ، فَجَعَلَ يَقُولُ لِذَلِكَ الرَّجُلِ: «سَلْنِي قَبْلَ أَنْ لَا تَسْأَلَنِي» ،قَالَ: مَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ شَيْئًا ، يُعَافِيكَ اللَّهُ ، قَالَ: فَقَامَ فَدَخَلَ الْكَنِيفَ ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا ثُمَّ قَالَ: «مَا خَرَجْتُ إِلَيْكُمْ حَتَّى لَفَظْتُ طَائِفَةً مِنْ كَبِدِي أُقَلِّبُهَا بِهَذَا الْعُودِ , وَلَقَدْ سُقِيتُ السُّمَّ مِرَارًا مَا شَيْءُ أَشَدُّ مِنْ هَذِهِ الْمَرَّةِ»
”میں ایک آدمی کے ساتھ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی عیادت کے لیے گیا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ میرے ساتھی سے فرمانے لگے کہ مجھ سے پوچھ لو ، قبل اس سے کہ پوچھ نہ پاؤ۔اس شخص نے عرض کیا : میں آپ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرمائے۔ پھر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ بیت الخلا میں داخل ہوئے۔واپس آ کر فرمانے لگے کہ بیت الخلا میں میرے جگر کا ٹکڑا کٹ کر (فضلے میں شامل ہو کر)نکل گیا ہے، اس لکڑی کے ساتھ میں اسے ٹٹول کر دیکھ چکا ہوں۔مجھے کئی دفعہ زہر دیا گیا ہے، لیکن اس دفعہ سب سے سخت ہے۔۔۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث : 37359)
یہی روایت مستدرک حاکم، تاریخ ابن عساکر، الاستعاب لابن عبد البر جیسی متداول کتب ِ حدیث وتاریخ میں بھی موجود ہے۔اس کی سند بھی ”حسن” ہے۔
اس روایت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ تیسری وچوتھی صدی ہجری تو کجا پہلی اور دوسری صدی ہجری میں بھی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے کر شہید کیے جانے کا ذکر موجود ہے۔
کیا امام ابن ابی شیبہ متوفی 235ھ تیسری صدی ہجری کے عظیم محدث نہیں؟
کیا امام ابن ابی شیبہ کے استاذ ابو اسامہ حماد بن اسامہ متوفی 179ھ دوسری صدی ہجری کے جلیل القدر محدث نہیں؟
کیا ابو اسامہ کے استاذ، عبد اللہ بن عون متوفی 150ھ بھی دوسری صدی ہجری کے عظیم المرتبت محدث نہیں؟
کیا عبد اللہ بن عون کے استاذ عمیر بن اسحاق ،سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت (جنہیں 49یا 50ہجری)سے قبل اس واقعہ کے مشاہد نہیں اور یہ دور پہلی صدی ہجری کا نہیں؟
حکیم صاحب کا امام طبری رحمہ اللہ پر الزام
لگے ہاتھوں حکیم صاحب نے امام اہل سنت، امام المفسرین، مؤرخِ اسلام، محمد بن جریر،طبری رحمہ اللہ پر بھی الزام دھر دیا، چنانچہ لکھتے ہیں:
”ابن جریر طبری متوفی 310 ہجری نے بے حساب موضوعات کو بڑے وثوق اور یقین سے بیان کیا ہے، اس نے بھی کہیں زہر خورانی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔”(حقیقت ِ مذہب ِ شیعہ، ص : 197)
اہل سنت کے عقیدہ وتفسیر وتاریخ کے امام ،امام طبری رحمہ اللہ سے حکیم صاحب کی عداوت ان کے الفاظ سے واضح ہے، ہم اس پر کوئی بات نہیں کرتے، البتہ یہ کتنا بڑا دھوکا اور الزام ہے کہ امام طبری رحمہ اللہ نے جھوٹی روایات کو وثوق ویقین سے بیان کیا ہے؟ کاش کہ حکیم صاحب امام طبری رحمہ اللہ کی ذات پر ناجائز حملہ کرنے سے پہلے ان کی اسی کتاب کا مقدمہ پڑھ لیتے!
امام طبری رحمہ اللہ مقدمہ کتاب میں بڑی وضاحت وصراحت سے فرماتے ہیں :
وليعلم الناظر في كتابنا ۔۔۔ فما يكن في كتابي هذا من خبر ذكرناه عن بعض الماضين مما يستنكره قارئه، أو يستشنعه سامعه، من أجل أنه لم يعرف له وجها في الصحة، ولا معنى في الحقيقة، فليعلم انه لم يؤت في ذلك من قبلنا، وإنما أتى من قبل بعض ناقليه إلينا، وإنا إنما أدينا ذلك على نحو ما أدي إلينا ۔
” میری اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا خوب جان لے کہ ۔۔۔میری اس کتاب میں گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں جو بھی روایت قاری کو منکر لگے یا سننے والے کو قبیح محسوس ہو کہ اس کے صحیح ہونے کی کوئی وجہ یا معنوی حقیقت اسے معلوم نہ ہو سکے، تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ بات میری طرف سے نہیں، بل کہ ہمیں بیان کرنے والے راویوں کی طرف سے ہے۔ ہم نے تو اسی طرح اسے بیان کر دیا ہے، جیسے ہمیں راویوں نے بیان کی۔”
جھوٹی اور وضعی اور غیر ثابت روایات سے کس قدر واضح اعلانِ برائت امام طبری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں کر دیا کہ قاری مطالعہ کرنے سے پہلے ہی یہ حقیقت ذہن نشین کر لےکہ سند بیان کر کے امام صاحب کسی بھی روایت کے ذمہ دار نہیں رہے، لیکن حکیم صاحب شاید مقدمہ ہی نہ پڑھ سکےاور امام اہل سنت پر اتنا گھناؤنا الزام دھر دیا!
اگر کسی کے بارے میں جھوٹ پر یقین کرنے کا جھوٹا الزام لگانے کے لیے یہی کافی ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں اپنی سند سے جھوٹی باتیں ذکر کی ہیں، تو کبار محدثین کرام بھی اس الزام سے نہیں بچ پائیں گے، بل کہ فی الواقع منکرین حدیث نے ائمہ حدیث پر طعن کرنے کے لیے ایک بڑا بہانہ یہی اپنایا ہے۔
جھوٹی روایات کو باسند بیان کرنا جرم ہے؟
کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب مسند احمد میں اپنی سند سے جھوٹی روایات ذکر نہیں کیں؟ کیا دیگر کتب ِ حدیث میں مصنفین نے جھوٹی روایات نقل نہیں کیں؟ ظاہر ہے کہ جس محدث ومفسر ومؤرخ نے اپنی کتاب میں صرف صحیح روایات ذکر کرنے کی شرط نہیں لگائی، وہ سند ذکر کر کے ساری جھوٹی سچی روایات نقل کرے گا، تا کہ قارئین کو معلوم ہو کہ کون سی بات کس سند سے منقول ہوئی ہے۔ اسی طرز عمل سے تو ہم آج یہ جاننے کے قابل ہیں کہ کون سی روایت کس درجے کی ہے؟اسے کسی سچے نے بیان کیا ہے یا جھوٹے نے؟
محدثین ومفسرین ومؤرخین کے اس طرز عمل پر معترض ہونا سوائے ہٹ دھرمی اور عداوت کے کچھ نہیں۔کیا امام طبری رحمہ اللہ نے کسی مقام پر جھوٹی یا وضعی روایت کو اپنا عقیدہ ونظریہ بھی بتایا ہے؟ اگر ایسا ہوا ہے تو آج تک کوئی پیش کیوں نہیں کر سکا؟
امام طبری نے شہادت حسن رضی اللہ عنہما کی روایت کیوں نقل نہ کی؟
حکیم صاحب دراصل کہنا یہ چاہتے تھے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اتنا زیادہ جھوٹا ہے کہ بڑے بڑے جھوٹوں پر یقین کرنے والے طبری بھی اسے ذکر نہ کر سکے، کیوں کہ یا تو اس کا وجود ہی نہ تھا یا انہوں نے اسے بہت بڑا جھوٹ سمجھ کر چھوڑ دیا۔
لیکن ایک تو ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ زہر خورانی سے شہادت حسن کا واقعہ نہ صرف ثابت ہے، بل کہ پہلی، دوسری اور تیسری صدی میں بھی بیان ہوا، لہذا چوتھی صدی کے مسعودی پر اس کی گھڑنت کا الزام سراسر غلط ہے۔اگر دوسرا احتمال سامنے رکھا جائے تو کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ امام طبری رحمہ اللہ کو یہ روایت پہنچی، پھر انہوں نے اسے جھوٹ سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر چھوڑ دیا ؟

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.