1,007

حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے، شمارہ 35 حافظ ابو یحیی نور پوری

جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے ، شریعت کی رُو سے ان کا پیشاب پاک ہے۔ اس حوالے سے دلائل شرعیہ ملاحظہ فرمائیں :
دلیل نمبر 1 : عن أنس قال : قدم أناس من عکل أو عرینۃ ، فاجتووا المدینۃ ، فأمرھم النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بلقاح ، وأن یشربوا من أبوالھا وألبانھا ، فانطلقوا ، فلمّا صحّوا قتلو راعی النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم واستاقوا النعم ، فجاء الخبر فی أوّل النھار ، فبعث فی آثارھم ، فلمّا ارتفع النھار جیء بھم ، فأمر ، فقطع أیدیھم وأرجلھم ، وسمرت أعینھم ، وألقوا فی الحرّۃ یستسقون فلا یسقون ، قال أبو قلابۃ : فھولاء سرقوا ، وقتلوا ، وکفروا بعد أیمانھم ، وحاربوا اللّٰہ و رسولہ ۔
”سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل یا عرینہ کے کچھ لوگ آئے ، ان کو مدینہ کی آب و ہوا موافق نہ آئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیت المال کی اونٹنیوں کے پاس جانے اور ان کاپیشاب اور دودھ پینے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ چلے گئے ، جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ یہ خبر صبح ہی پہنچ گئی، آپ نے ان کے پیچھے صحابہ کو بھیجا ،جب دن چڑھ آیا تو ان کو پکڑ لایا گیا۔ آپ نے حکم دیا اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے گئے ، ان کی آنکھیں نکال دی گئیں اور ان کو پتھریلی زمین میں پھینک دیا گیا۔ وہ پانی مانگتے تھے لیکن ان کو پانی دیا نہ گیا۔ ابو قلابہ تابعی فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کا یہ انجام اس لئے ہوا کہ انہوں نے قتل کیا ، چوری کی ، ایمان لانے کے بعد مرتد ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ کیا ۔
(صحیح بخاری : ٢٣٣ ، صحیح مسلم : ١٦٧١)
فقہائے امت نے اس حدیث سے یہی سمجھا ہے کہ حلال جانوروں کا پیشاب وغیرہ پاک ہوتا ہے۔ آئیے چند مشہور فقہاء کے فرامین ملاحظہ فرمائیں :
1 امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ (١٩٤ ۔ ٢٥٦ ھ)اس حدیث پر تبویب کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
باب أبوال الإبل والدواب والغنم ومرابضھا ۔
”اونٹوں ، چوپائیوں اور بھیڑ بکریوں کے پیشاب اور ان کے باڑوں کا حکم ۔ ”
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : وحدیث العرنیین لیستدل بہ علی طھارۃ ابوال الابل ۔ ”امام بخاری رحمہ اللہ نے قبیلہ عرینہ والے لوگوں کی حدیث اس لئے بیان کی ہے تا کہ اس کے ذریعے اونٹوں کے پیشاب کے پاک ہونے پر استدلال کریں ۔”
(فتح الباری : ١/٣٣٥)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمہ اللہ کی اس تبویب کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
غرضہ إثبات طھارۃ أبوال الدوابّ المأکولۃ لحمھا ۔
”امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب پاک ہیں۔”
(شرح تراجم ابواب صحیح البخاری از شاہ ولی اللّٰہ )
2 امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ (٢٢٣۔ ٣١١ ھ ) اس حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں : باب الدلیل علی أنّ أبوال ما یؤکل لحمہ لیس بنجس ، ولا ینجس الماء إذا خالطہ ، إذ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قد أمر بشرب أبوال الإبل مع ألبانھا ، ولو کان نجسا لم یأمر بشربہ ۔
”اس بات پر دلیل کا بیان کہ ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب ناپاک نہیں، نہ اس کے پانی میں ملنے سے پانی ناپاک ہوتا ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے دودھ کے ساتھ ان کے پیشاب کو بھی پینے کا حکم دیا تھا۔ اگر وہ نجس ہوتا تو آپ اس کو پینے کا حکم نہ دیتے۔”
(صحیح ابن خزیمہ : ١/٦٠۔٦١)
3 امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٠٠ ۔ ٢٧٩ ھ ) تبویب میں یوں رقمطراز ہیں : باب ما جاء فی بول ما یوکل لحمہ ۔ ”ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب کا بیان۔”
نیز لکھتے ہیں : وھو قول أکثر أھل العلم ، قالوا: لا بأس ببول ما یؤکل لحمہ ۔ ”اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماکول اللحم جانوروں کے پیشاب میں کوئی حرج نہیں ۔”(جامع الترمذی، تحت الحدیث : ٧٢)
اس سے بڑھ کر یہ کہ امام ترمذی نے اسی حدیث کو ”کتاب الاطعمہ” (کھانے کا بیان) میں بھی پیش کیا ہے اور باب یوں باندھا ہے : باب ما جاء فی شرب أبوال الإبل ۔
”اونٹ کا پیشاب پینے کے بارے میں باب۔”( جامع الترمذی، تحت الحدیث : ١٨٤٥)
معلوم ہوا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے۔
4 اس حدیث پر امام نسائی رحمہ اللہ (٢١٥ ۔ ٣٠٣ )کی تبویب یوں ہے :
باب بول ما یؤکل لحمہ ۔
”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کا بیان۔” (سنن النسائی، قبل الحدیث : ٣٠٦)
5 امام ابنِ منذر رحمہ اللہ (م ٣١٨ ھ ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وھذا یدلّ علی طھارۃ أبوال الإبل ، ولا فرق بین أبوالھا وأبوال سائر الأنعام ، ومع أنّ الأشیاء علی الطھارۃ ، حتّی تثبت نجاسۃ شیء منھا بکتاب أو سنۃ أو إجماع ۔
”یہ حدیث اونٹوں کے پیشاب کے پاک ہونے پر دلیل ہے ، اونٹوں اور دوسرے مویشیوں کے پیشاب میں کوئی فرق نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمام اشیاء اصلاً پاک ہوتی ہیں یہاں تک کہ قرآن ، حدیث یا اجماع کے ذریعے ان کی نجاست ثابت نہ ہو جائے ۔”
(الاوسط لابن المنذر : ٢/١٩٩)
6 امام ابن حبان (م ٣٥٤ھ) اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ذکر الخبر المصرّح بأنّ أبوال ما یؤکل لحومھا غیر نجسۃ ۔
”اس بات میں صریح حدیث کا بیان کہ ماکول اللحم جانوروں کا پیشاب ناپاک نہیں ہے ۔” (صحیح ابن حبان : ٤/٢٢٣، تحت الحدیث : ١٣٨٦)
7 امام الفقیہ عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ (٥١٠ ۔ ٥٨١) اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں : باب أبوال ما یؤکل لحمہ ورجیعہ ۔
”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب اور فضلے کا بیان ۔”
(الاحکام الشرعیۃ الکبرٰی للاشبیلی : ١/٣٨٩)
8 شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) لکھتے ہیں :
فإذا أطلق ۔۔۔ الإذن فی الشرب لقوم حدیثی العھد بالإسلام جاھلین بأحکامہ ، ولم یأمرھم بغسل أفواھھم وما یصیبھم منھا لأجل صلاۃ ولا لغیرھا، مع اعتیادھم شربھا ، دلّ ذلک علی مذھب القائلین بالطھارۃ ۔
”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کی مطلق اجازت دی ہے جوکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلام کے احکام سے نا واقف تھے ، نیز ان کو منہ اور پیشاب سے ملوث چیزوں کو نماز وغیرہ کے لئے دھونے کا حکم بھی نہیں دیا حالانکہ وہ بار بار اسے پیتے رہے۔اس سے اونٹ کے پیشاب کو پاک کہنے والوں کی دلیل بنتی ہے ۔”
(بحوالہ تحفۃ الاحوذی : ١/٧٨)
9 شیخ الاسلام ثانی ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں :
وفی القصّۃ دلیل علی ۔۔۔۔۔ طہارۃ بول مأکول اللحم ، فإنّ التداوی بالمحرّمات غیر جائز ، ولم یؤمروا مع قرب عہدہم بالإسلام بغسل أفواہہم وما أصابتہ ثیابہم من أبوالہا للصلاۃ ، وتأخیر البیان لا یجوز عن وقت الحاجۃ ۔
”اس واقعے میں حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے کی دلیل موجود ہے کیونکہ حرام چیزوں کو بطور دوائی استعمال کرنا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں ان لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز کے لیے اپنے منہ اور وہ کپڑے دھونے کا حکم نہیں ملا جن کو یہ پیشاب لگتا تھا۔ کسی وضاحت کو وقت ضرورت سے مؤخر کرنا جائز ہی نہیں(اگر یہ پیشاب ناپاک تھا تو اسی وقت ان کو وضاحت کی جانی چاہیے تھی)۔”(زاد المعاد لابن القیم : ٤/٨٤)
قارئین ! آپ نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کے پیشاب کو پینے کا حکم دے رہے ہیں اور محدثین و فقہاء کی ایک جماعت اس حدیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کی طہارت ثابت کر رہی ہے جبکہ اس کو نجس کہنے والوں کے پاس سرے سے کوئی دلیل موجود نہیں ، محض اعتراضات ہیں ، جن کو ہم رفع کر دیں گے ۔ إن شاء اللّٰہ !
دلیل نمبر 2 عن أنس قال : کان النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی قبل أن یبنی المسجد فی مرابض الغنم ۔
”سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بننے سے پہلے بکریوں کے باڑے میں نماز ادا فرماتے تھے ۔” (صحیح البخاری : ٢٣٤ ، صحیح مسلم : ٥٢٤)
اس حدیث سے بھی ائمہ حدیث اور فقہائے امت نے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے کو ثابت کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
1 امام بخاری رحمہ اللہ (١٩٤۔ ٢٥٦ھ) اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں :
باب أبوال الإبل والدوابّ والغنم ومرابضھا ۔
”اونٹوں، مویشوں اور بکریوں کے پیشاب نیز بکریوں کے باڑوں کا بیان۔”
2 امام ترمذی رحمہ اللہ (٢٠٠ ۔ ٢٧٩ھ)کی تبویب یہ ہے :
باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرابض الغنم وأعطان الابل ۔
”بکریوں اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کا بیان۔”(جامع الترمذی، قبل الحدیث : ٣٥٠)
نیز بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت والی حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وعلیہ العمل عند أصحابنا ، وبہ یقول أحمد وإسحاق ۔
”ہمارے اصحاب (محدثین) کے ہاں اسی پر عمل ہے ، نیز امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہHکا یہی فتوی ہے ۔” (جامع الترمذی، تحت الحدیث : ٣٤٩)
3 امام ابن خزیمہ(٢٢٣۔٣١١ھ) فرماتے ہیں :
باب ما جاء الصلاۃ فی مرابض الغنم ۔
”بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کے جواز کا بیان۔”(صحیح ابن خزیمۃ : ٢/٥)
4 امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) اس حدیث پر تبویب فرماتے ہیں :
ذکر جواز الصلاۃ للمرء علی المواضع التی أصابھا أبوال ما یؤکل لحومھا وأرواثھا ۔
”اس بات کا بیان کہ آدمی کا ان جگہوں میں نماز پڑھنا جائز ہے جو حلال جانوروں کے پیشاب اور گوبر میں ملوث ہوں ۔”
نیز بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت والی ایک دوسری حدیث پر یہ تبویب کرتے ہیں : ذکر الخبر المدحض قول من زعم أنّ أبوال ما یؤکل لحومھا نجسۃ ۔ ”اس حدیث کا بیان جو ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کو نجس خیال کرنے والے لوگوں کا رد کرتی ہے۔” (صحیح ابن حبان : ٤/٢٢٤۔ ٢٢٦)
5 علامہ نووی(٦٣١۔٦٧٦ھ)اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وأمّا إباحتہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم الصلاۃ فی مرابض الغنم دون مبارک الإبل ، فھو متّفق علیہ ۔
”رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بکریوں کے باڑوں میں نماز کو مباح قراردینا اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز سے روکنا تو اس پر سب کا اتفاق ہے۔”(شرح صحیح مسلم للنووی : ١/١٥٨)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) احادیث سے حلال جانوروں کے پیشاب کے پاک ہونے پر دلیل لیتے ہوئے فرماتے ہیں :
وصحّ عنہ أنّہ أذن فی الصلاۃ فی مرابض الغنم ، ولم یأمر بحائل ۔۔۔
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ آپ نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے اور کسی قسم کی رکاوٹ وغیرہ رکھنے کا حکم نہیںدیا(تو معلوم ہوا کہ بکریوں کا پیشاب پاک ہے)۔”(شرح العمدۃ فی الفقہ : ١/٦٠)
قارئین ! آپ جان چکے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھی ہے ، نیز سوال کرنے والے صحابی کو آپ نے بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنے کی اجازت بھی دی ہے۔(صحیح مسلم : ٣٦٠) محدثین کرام نے ان احادیث سے بھی ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب کی طہارت ثابت کی ہے جیسا کہ ان کی مذکورہ تبویب سے عیاں ہے۔
دلیل نمبر 3 : عن عبداللّٰہ قال : کان النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یصلّی عند البیت ، وأبو جھل وأصحاب لہ جلوس ، إذ قال بعضھم لبعض : أیّکم یجیء بسلی جزور بنی فلان ، فیضعہ علی ظھر محمّد إذا سجد؟ فانعبث أشقی القوم ، فجاء بہ ، فنظر حتّی إذا سجد النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وضعہ علی ظھرہ بین کتفیہ ، وأنا أنظر ، لا أغنی شیأا ، لو کانت لی منعۃ ، قال : فجعلوا یضحکون و یحیل بعضھم علی بعض ، ورسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ساجد لا یرفع رأسہ ، حتّی جاء تہ فاطمۃ فطرحتہ عن ظھرہ ، فرفع رأسہ ثمّ قال : (( اللّٰھم علیک بقریش )) ، ثلات مرّات ، فشقّ علیھم إذ دعا علیھم ، قال : وکانوا یرون أنّ الدعوۃ فی ذلک البلد مستجابۃ ، ثمّ سمّی : (( اللّٰھم علیک بأبی جھل ، وعلیک بعتبۃ بن ربیعۃ ، وشیبۃ بن ربیعۃ ، والولید بن عتبۃ ، وأمیّۃ ابن خلف ، وعقبۃ بن أبی معیط )) ، وعدّ السابع فلم نحفظہ ، قال : فوالذی نفسی بیدہ ! لقد رأیت الذین عدّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم صرعی فی القلیب قلیب بدر ۔
”سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے قریب نماز ادا کر رہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: تم میں سے کون فلاں قبیلے کے اونٹ کی بچہ دانی لا کر سجدے کی حالت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر رکھے گا ؟ ان میں سے بد بخت ترین شخص اٹھا ، بچہ دانی لایا اور انتظار کرتا رہا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو وہ آپ کی کمر پر دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دی۔ میں یہ منظر دیکھ رہا تھا لیکن کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ کاش مجھ میں طاقت ہوتی۔ وہ کفار ہنسنے لگے اور خوشی سے ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہی تھے ، سر نہیں اٹھا سکتے تھے ،یہاں تک کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس آئیں اور بچہ دانی آپ کی کمر مبارک سے ہٹا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا ، پھر تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ !قریشیوں کو ہلاک کر دے، آپ کی بد دعا ان پر گراں گزری۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کفار سمجھتے تھے کہ اس شہر میں دعا قبول ہو جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نام لے کر فرمایا : اے اللہ ! تو ابو جہل کو ہلاک کر دے ، عتبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر دے ، شیبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر دے ، ولید بن عقبہ کو ہلاک کر دے ، امیہ بن خلف کو ہلاک کر دے ، عقبہ بن ابی معیط کو ہلاک کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے ساتواں نام بھی شمار کیا لیکن ہم اسے یاد نہ رکھ سکے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے! میں نے ان سب لوگوں کو بدر والے دن کنویں میں اوندھے پڑے دیکھا جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار کیا تھا۔”
(صحیح البخاری : ٢٤٠ ، صحیح مسلم : ١٧٩٤)
بعض روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قریش کی طرف سے گوبر اور خون ڈالنے کا صریح ذکر بھیہے۔(سنن النسائی : ٣٠٨، وغیرہ)
b امام نسائی رحمہ اللہ (٢١٥۔٣٠٣ھ)اس حدیث پر یوں باب باندھتے ہیں :
باب فرث ما یؤکل لحمہ یصیب الثوب ۔
”ماکول اللحم جانوروں کا گوبر اگر کپڑوں کو لگ جائے تو اس کا حکم ۔”
(سنن النسائی المجتبی : ٣٠٨)
علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ (م ١١٣٨ھ)لکھتے ہیں :
واستدلّ بالحدیث المصنّف علی طھارۃ فرث ما یؤکل لحمہ ۔
”امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ماکول اللحم جانوروں کے گوبر کے پاک ہونے کا استدلال کیا ہے ۔” (حاشیۃ السندی علی سنن النسائی : ١/١٦٢)
b امام عبدالحق الاشبیلی رحمہ اللہ (٥١٠ ۔ ٥٨١ ھ ) اس کی تبویب میں لکھتے ہیں :
باب أبوال ما یؤکل لحمہ و رجعیہ ۔
”ما کول اللحم جانوروں کے پیشاب اور گوبر کا بیان۔”
(الاحکام الشریعۃ الکبرٰی للاشبیلی : ١/٣٨٩)
b قاضی عیاض رحمہ اللہ (٤٧٦۔٥٤٤ھ)بھی ماکول اللحم جانوروں کے گوبر کو پاک کہتے تھے ۔ (شرح مسلم للنووی : ٢/١٠٨)
جاری ہے ۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.