1,021

حسین بن منصور حلاج ، شیخ الحدیث، علامہ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

مشہور گمراہ صوفی حسین بن منصور حلاج (م ٣٠٩ھ) زندیق اور حلولی تھا ۔ اس کے کفر والحاد پر علمائے حق کا اجماع واتفا ق ہے ۔اس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز میں حلول کر گئے ہیں ۔ یہ عقیدہئ وحدۃ الوجود کا بانی تھا ۔ اس کے کفروالحاد کی وجہ سے علماء نے اس کا خون جائز قرار دیا تھا اور اسے قتل کردیاگیا تھا ۔
ائمہ اہل سنت میں سے کوئی بھی اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا ، البتہ گمراہ صوفی اس کے پکے حمایتی ہیں ، اس کے باوجود وہ اپنے تئیں اہل سنت کہتے نہیں تھکتے ۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ  (٧٧٣۔٨٥٢ھ) اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
ولا أری یتعصّب للحلّاج إلّا من قال بقولہ الّذی ذکر أنّہ عیّن الجمع ، فھذا ھو قول أھل الوحدۃ المطلقۃ ، ولھذا تری ابن عربیّ صاحب ” الفصوص ” یعظّمہ ویقع فی الجنید ۔۔۔     ”میں حلاج کے حق میں اسی شخص کو تعصب رکھتے دیکھتا ہوں ، جو اسی کے قول کا قائل ہے ، جو اس سے ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے (خالق ومخلوق کے درمیان)جمع کو لازم کیا تھا ۔ یہی وحدت ِ مطلقہ (وحدت الوجود) والوں کا عقیدہ ہے ۔ اسی لیے آپ الفصوص نامی کتاب کے مصنف ابنِ عربی کو دیکھیں گے کہ وہ اس کی تعظیم کرتا ہے اور جنید کی گستاخی کرتا ہے ۔۔۔”
(لسان المیزان لابن حجر : ٢/٣١٥)
حافظ ابن الجوزی  رحمہ اللہ  (٥٠٨۔٥٩٧ھ)لکھتے ہیں :      اتّفق علماء العصر علٰی إباحۃ دم الحلّاج ۔ ”اس کے زمانہ کے تمام علمائے کرام حلاج کے خون کے مباح ہونے پر متفق ہوگئے تھے ۔”(تلبیس ابلیس لابن الجوزی : ١/١٥٤)
حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ  (٧٠١۔٧٧٣ھ)لکھتے ہیں :      وقد اتّفق علماء بغداد علی کفر الحلّاج وزندقتہ ، وأجمعوا علی قتلہ وصلبہ ، وکان علماء بغداد إذ ذاک ھم علماء الدّنیا ۔
”بغداد کے علمائے کرام حلاج کے کافر وزندیق ہونے پر متفق ہوگئے تھے اور انہوں نے اسے قتل کرنے اور سولی پرلٹکانے پر اجماع کرلیا تھا اور اس زمانے میں علمائے بغداد ہی دنیا کے (کبار)علماء شمار ہوتے تھے۔”(البدایۃ والنھایۃ لابن کثیر : ١١/١٤٩)
ابوحامد علامہ غزالی (م٥٠٥ھ) لکھتے ہیں :      وأمّا الشّطح فنعنی بہ صنفین من الکلام أحدثہ بعض الصّوفیۃ ، أحدھما الدّعاوی الطّویلۃ العریضۃ فی العشق مع اللّٰہ تعالیٰ والوصال المغنی عن الأعمال الظّاہرۃ حتّی ینتھی قوم إلی دعوی الاتّحاد وارتفاع الحجاب والمشاھدۃ بالرّؤیۃ والمشافھۃ بالخطاب ، فیقولون : قیل لنا کذا وقلنا کذا ، ویتشبّھون فیہ بالحسین بن منصور الحلّاج الّذی صلب لأجل إطلاقہ کلمات من ھذا الجنس ، ویستشھدون بقولہ : أنا الحقّ ، وبما حکی عن أبی یزید البسطامیّ أنّہ قال : سبحانی ، سبحانی ، وھذا فنّ من الکلام عظیم ضررہ فی العوّام حتّی ترک جماعۃ من أھل الفلاحۃ فلاحتھم وأظہروا مثل ھذہ الدّعاوی ، فإنّ ھذا الکلام یستلذّہ الطّبع إذ فیہ فیہ البطالۃ من الأعمال مع تزکیۃ النّفس بدرک المقامات والأحوال ، فلا تعجز الأغنیاء عن دعوی ذلک لأنفسھم ولا عن تلقف کلمات مخبطۃ مزخرفۃ ، ومھما أنکر علیھم ذلک لم یعجزوا عن أن یقولوا ھذا إنکار مصدرہ العلم والجدال ، والعلم حجاب ، والجدل عمل النّفس ، وھذا الحدیث لا یلوح إلّا من الباطن بمکاشفۃ نور الحقّ ، فھذا ومثلہ ممّا قد استطار فی البلاد شررہ وعظم فی العوّام ضررہ ، حتّی نطق بشیء منہ ، فقتلہ أفضل فی دین اللّٰہ من إحیاء عشرۃ ۔۔۔      ”شطح سے مراد ہم دوطرح کا علم ِ کلام لیتے ہیں ، جسے بعض صوفیوں نے گھڑا ہے ۔ ان میں سے ایک تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ عشق اور اس وصال کے بلند بانگ دعوے ہیں ، جو ظاہری اعمال (نماز ، روزہ ، حج وغیرہ)سے مستغنی کردیتا ہے ، حتی کہ کئی لوگ اتحاد (وحدت الوجود)، (خالق ومخلوق کے درمیان)پردے اٹھ جانے ، اللہ تعالیٰ کے مشاہدے اور بلاواسطہ کلام کے دعاوی تک پہنچ گئے ہیں ۔چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے (اللہ تعالیٰ کی طرف سے )یوں کہا گیا اور ہم نے یوں کہا ۔اس بارے میں وہ حسین بن منصور حلاج سے مشابہت اختیار کرتے ہیں ، جسے اس جیسی باتیں کرنے کی وجہ سے صولی پرلٹکا دیا گیا تھا اور وہ دلیل میں اسی منصور کا أَنَا الْحَقُّ (میں ہی اللہ ہوں)والا قول پیش کرتے ہیں ، اسی طرح ابویزید بسطامی کا وہ قول بھی اپنی دلیل بناتے ہیں کہ اس نے کہا ، سُبحانی ، سُبحانی (میں پاک ہوں ، میں پاک ہوں) ۔ علم ِ کلام کی جو یہ قسم ہے، لوگوں میں اس کا نقصان بہت زیادہ ہوگیا ہے ، یہاں تک کہ فلاح کی راہ پرچلنے والے لوگوں کی ایک بڑی جماعت نے اپنی راہ ِ فلاح چھوڑ دی اور اس طرح کے دعاوی شروع کردئیے ، وجہ یہ ہے کہ علم ِ کلام کی اس قسم کو طبیعت بہت پسند کرتی ہے ، کیونکہ اس میں اعمال کو چھوڑنے کے باوجو دمقامات واحوال کے ساتھ تزکیہ نفس (کا دعویٰ)موجود ہے ۔بددماغ لوگوں کو اپنے لیے اس طرح کے دعاوی کرنے سے اور بے وقوفی پر مبنی چکنے چپڑے کلمات کہنے سے آپ نہیں روک سکتے ۔ جب بھی ان پراس بات کا اعتراض کیا گیا تو وہ یہ کہنے سے باز نہیں آئے کہ اس انکار کا مبدا علم وجدال ہے ، علم پردہ ہے اور جدال عمل نفس ہے اوریہ باتیں اللہ تعالیٰ کے نور کے مکاشفہ کے ذریعے باطن سے نکلتی ہیں ۔
یہ اور اس طرح کی دیگر خرافات کا شر علاقوں میں پھیل گیا ہے اور عوام میں ان کا نقصان بہت بڑھ گیا ہے ، یہاں تک کہ جو شخص اس طرح کی بکواس بکے ، اسے قتل کرنادینِ اسلام میں دَس لوگوں کی زندگی بچانے سے بہتر ہے ۔۔۔”(احیاء العلوم للغزالی : ١/٣٦)
نیز لکھتے ہیں :      ومن ھنا نشأ خیال من ادّعی الحلول والاتّحاد وقال : أنا الحقّ ، وحولہ یدندن کلام النّصاری فی دعوی اتّحاد اللّاھوت والنّاسوت أو تدرّعھا بھا أو حلولھا فیہا علی ما اختلف فیھم عبارتھم ، وھو غلط محض ۔۔۔
”یہاں سے اس شخص کا خیال پیدا ہوا ہے ، جو حلول واتحاد کا دعویٰ کرتا ہے اورکہتا ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ۔لاہوت کے ناسوت میں متحد ہوجانے یا اس میں چھپ جانے یا اس میں حلول کرجانے کے بارے میں نصاریٰ کی کلام بھی اسی کے لگ بھگ ہے ، اگرچہ اس بارے میں ان کی عبارات مختلف ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل غلط ہے ۔۔۔”(احیاء علوم الدین للغزالی : ٢/٢٩٢)
علامہ ذہبی  رحمہ اللہ (٦٢٣۔٧٤٨ھ)لکھتے ہیں : فتدبّر یا عبد اللّٰہ ! نحلۃ الحلّاج الّذی ھو من رؤوس القرامطۃ ، ودعاۃ الزندقۃ ، وأنصف ، وتورّع ، واتّق ذلک ، وحاسب نفسک ، فإن تبرھن لک أنّ شمائل ھذا المرء شمائل عدوّ للإسلام ، محبّ للرّأاسۃ ، حریص علی الظّھور بباطل وبحقّ ، فتبرّأ من نحلتہ ، وإن تبرھن لک ـ والعیاذ باللّٰہ ـ أنّہ کان ـ والحالۃ ھذہ ـ محقّا ، ھادیا ، مھدیّا ، فجدّد إسلامک ، واستغث بربّک أن یوفّقک للحقّ ، وأن یثبّت قلبک علی دینہ ، فإنّما الھدی نور یقذفہ اللّٰہ فی قلب عبدہ المسلم ، ولا قوّۃ إلّا باللّٰہ ۔۔۔
”اے اللہ کے بندے ! آپ اس حلّاج کے مذہب پر غورکریں ، جو کہ کہ قرامطہ(غالی اورخطرناک قسم کے رافضی لوگوں)کا ایک سردار اور الحاد وبے دینی کا زبردست داعی تھا ۔ آپ انصاف وغیرجانبداری سے کام لیں ، اس سے بچ جائیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں ۔اگر آپ کے لیے واضح ہوجائے کہ اس شخص کے خصائل اسلام دشمن ، حکومت پسند اور باطل وحق کے اختلاط کے ساتھ غلبہ حاصل کرنے کے خواہش مندشخص کے خصائل ہیں تو فوراً اس کے مذہب سے دستبردار ہوجائیے ! اور اللہ نہ کرے ،اگر اس صورت ِ حال کے باوجود آپ کو وہ حق بجانب ، ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ نظرآئے تو اپنے اسلام کی تجدید کیجیے اور اپنے ربّ سے مدد مانگیے کہ وہ آپ کو حق کی توفیق دے اور آپ کے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھے ، کیونکہ ہدایت تو ایک نور ہے ، جسے اللہ تعالیٰ اپنے مسلمان بندے کے دل میں جاگزیں کردیتا ہے ۔ گمراہی سے بچنے اور حق کو پانے کی قوت وطاقت صرف اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔۔۔”
(سیر اعلام النبلاء للذھبی : ١٤/٣٤٥)
اس کے باوجود حلاج کی طرف منسوب قول أنا الحقّ (میں ہی اللہ ہوں) کے دفاع میں دیوبندیوں کے ”حکیم الامت” جناب اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں :
”جیسے شجرہئ طور بلا اختیار کلمہ إِنِّیْ أَنَا اللّٰہُ    کا مظہر تصرف ِ حق سے ہوگیا ، اسی طرح منصور بھی بلا اختیار کلمہ أنا الحقّ کا مظہر تصرف ِ حق سے ہوگیا۔”(بوادر النوادر از تھانوی : ٣٩٨)
نیز لکھتے ہیں : ”دوسرے معنیٰ محتمل یہ ہے کہ کہ میں نے یہ راز ظاہر نہیں کیا ، خود محبوب ہی نے ظاہر کیا ، یعنی أنا الحقّ کے ساتھ وہی متکلم ہیں ، جیسا شجرہئ طور سے کلام ِ حق إِنِّیْ أَنَا اللّٰہُ کا ظہور ہوا ۔”(اشعار الغیور بما فی اشعار ابن منصور از تھانوی : ١٤٣)
مزید لکھتے ہیں : ”اسی ظہور کے ایک درجہ کو تجلی بھی کہتے ہیں ، جیسے شجرہئ طور میں بھی تجلی تھی۔ اگر کسی انسانِ کامل میں کلام کی تجلی ہوجائے تو بُعد کیا ہے ؟ ”(ایضًا : ١٤٧)
جناب ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں : ”اور ایک تاویل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وقت ابنِ منصور کی زبان کلام ِ حق کی ترجمان تھی ۔ ان کی زبان سے اسی طرح أنا الحقّ نکلا تھا ، جیسا کہ شجرہئ موسیٰ سے إِنِّیْ أَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْن    کی آواز آئی تھی ۔ ظاہر ہے کہ درخت نے اپنے کو اللہ رب العالمین نہیں کہا تھا ، بلکہ اس وقت وہ کلام ِ الٰہی کا ترجمان تھا ۔ اسی طرح ابنِ منصور کے متعلق بھی خیال کیا جاسکتا ہے اورغلبہ ئ حالات وواردات میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ عارف کی زبان سے اللہ تعالیٰ تکلم فرماتے ہیں ، جس کو سالکین اصحاب ِ حال سمجھ سکتے ہیں ۔ پس یہ تو مسلم ہوسکتا ہے کہ ابنِ منصور کی زبان سے أنا الحقّ نکلا ہو ، مگر یہ مسلم نہیں کہ ابنِ منصور نے خود أنا الحقّ کہا تھا ۔”(سیرت منصور حلاج از ظفر احمد تھانوی : ٥٠)
تبصرہ : یہ انتہائی گمراہ کن اور کفریہ عقیدہ ہے ، جو متکلمین کی باطل تاویلات کا نتیجہ ہے ۔ اہل سنت میں میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ تھانوی صاحب اور ان کے اذناب واحباب پکے عقیدہئ حلول کے قائل تھے ، جو کہ کفر محض ہے ۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صریح گستاخی ہے اورسیدنا موسیٰ علیہ السلام  کی بھی گستاخی ہے ،نیز ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، قرآنِ مقدس کی توہین ہے اورخالص معنوی تحریف ہے ۔ائمہ اہل سنت نے سختی سے اس کا ردّ کیا ہے ، جیساکہ :
1    امام ابوالحسن الاشعری  رحمہ اللہ (م ٣٢٤ھ)لکھتے ہیں :      وزعمت الجھمیّۃ کما زعمت النّصاری أنّ کلمۃ اللّٰہ تعالٰی حواھا بطن مریم رضی اللّٰہ عنھا وزادت الجھمیّۃ علیھم ، فزعمت أنّ کلام اللّٰہ مخلوق حلّ فی شجرۃ ، وکانت الشّجرۃ حاویۃ لہ ، فلزمھم أن تکون الشّجرۃ بذلک الکلام متکلّمۃ ، ووجب علیھم أنّ مخلوقا من المخلوقین کلّم موسیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، وأنّ الشّجرۃ قالت : یا موسٰی إنّی أنا اللّٰہ لا إلہ إلّا أنا فاعبدنی ، فلو کان کلام اللّٰہ مخلوقا فی شجرۃ لکان المخلوق قال : یا موسٰی إنّی أنا اللّٰہ أنا فاعبدنی ، وقد قال تعالیٰ : (وَلٰکنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَأَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ) ، وکلام اللّٰہ من اللّٰہ تعالیٰ ، فلا یجوز أن یکون کلامہ الّذی ہو منہ مخلوقا فی شجرۃ مخلوقۃ ، کما لا یجوز أن یکون علمہ الّذی ھو منہ مخلوقا فی غیرہ ، تعالیٰ اللّٰہ عن ذلک علوّا کبیرًا ۔
”نصاریٰ کی طرح جہمی لوگوں نے بھی خیال کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو مریم r نے اپنے پیٹ میں سمولیا تھا ، جہمی لوگوں نے اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی کلام مخلوق تھی ،جو کہ ایک درخت میں داخل ہوگئی تھی اور اس درخت نے اس کلام کو اپنے اندر سمو لیا تھا ۔اس طرح جہمی لوگوں پر یہ کہنا لازم آتا ہے کہ درخت ہی اس کلام کے ساتھ متکلم تھا اور سیدنا موسیٰ  علیہ السلام  سے ایک مخلوق نے ہی کلام کی تھی اور درخت ہی نے کہا تھا کہ اے موسیٰ میں ہی الٰہ ہوں ،میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ، چنانچہ میری ہی عبادت کرو ۔۔۔
اگر یہ اللہ تعالیٰ کی کلام درخت میں پیدا کردی گئی تھی تو پھر مخلوق نے ہی موسیٰ  علیہ السلام  سے یہ کہا تھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( وَلٰکنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّیْ لَأَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ ) (لیکن میری بات ثابت ہوگئی ہے کہ میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا)، کلام اللہ ، اللہ تعالیٰ ہی سے ہے ، چنانچہ یہ کہنا جائز نہیں کہ وہ کلام جو اللہ کی طرف سے تھی ، وہ ایک مخلوق درخت میں پیدا کردی گئی تھی ، جیسا کہ یہ کہنا جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وہ علم ، جو اسی سے ہے ، وہ کسی غیر میں پیدا کردیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان خرافات سے بہت بلند ہے ۔”
(الابانۃ عن اصول الدیانۃ لابی الحسن الاشعری : ص ٦٨)
نیز لکھتے ہیں : وقد قال اللّٰہ تعالیٰ : ( وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حَجَابٍ أَوْ یُرْسِلِ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَاءُ ) ، فلو کان کلام اللّٰہ لا یوجد إلّا مخلوقا فی شیء مخلوق لم یکن لاشتراط ھذہ الوجوہ معنی ، لأنّ الکلام قد سمعہ جمیع الخلق ووجدوہ ــ بزعم الجھمیّۃ ــ مخلوقا فی غیر اللّٰہ تعالیٰ ، وھذا یوجب إسقاط مرتبۃ النّبیّین صلوات اللّٰہ علیھم أجمعین ۔
ویجب علیھم إذا زعموا أنّ کلام اللّٰہ لموسیٰ خلقہ فی شجرۃ أن یکون من سمع کلام اللّٰہ عزّ وجلّ من ملک أو من نبیّ أتی بہ من عند اللّٰہ أفضل مرتبۃ من سماع الکلام من موسیٰ ، لأنّھم سمعوہ من نبیّ ، ولم یسمعہ موسیٰ من اللّٰہ عزّ وجلّ ، وإنّما سمعہ من شجرۃ ، وأن یزعموا أنّ الیھودی إذا سمع کلام اللّٰہ من النّبیّ علیہ الصّلاۃ والسّلام أفضل مرتبۃ فی ھذا المعنی من موسیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، لأنّ الیھودیّ سمعہ من نبیّ من أنبیاء اللّٰہ ، وموسیٰ سمعہ مخلوقا فی شجرۃ ، ولو کان مخلوقا فی شجرۃ لم یکن مکلّما لموسیٰ من وراء حجاب ، لأنّ من حضر الشّجرۃ من الجنّ والإنس قد سمعوا الکلام من ذلک المکان ، وکان سبیل موسیٰ غیرہ فی ذلک سواء فی أنّہ لیس کلام اللّٰہ لہ من وراء حجاب ۔
ثمّ یقال لھم : إذا زعمتم أنّ معنی أنّ اللّٰہ عزّ وجلّ کلّم موسیٰ : أنّہ خلق کلاما کلّمہ بہ فی الشّجرۃ ، وقد خلق اللّٰہ عندکم فی الذّراع کلاما ، لأنّ الذّراع قالت لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : لا تأکلنی ، فإنّی مسمومۃ ، فیلزمکم أنّ ذلک الکلام الّذی سمعہ النّبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کلام اللّٰہ تعالیٰ ، فإن استحال أن یکون اللّٰہ تکلّم بذلک الکلام المخلوق فما أنکرتم من أنّہ یستحیل أن یخلق اللّٰہ عزّ وجلّ کلامہ فی شجرۃ ، لأنّ الکلام مخلوق ، لا یکون کلاما للّٰہ ، فإن کان کلام اللّٰہ وکان معنی أنّ اللّٰہ تکلّم عندکم أنّہ خلق الکلام ، فیلزمکم أن یکون اللّٰہ متکلّما بالکلام الّذی خلقہ فی الذّراع ، فإن أجابوا إلی ذلک ، قیل لھم : فاللّٰہ تعالیٰ علی قولکم ھو القائل : لا تأکلنی ، فإنّی مسمومۃ ، تعالی اللّٰہ عن قولکم وافترائکم علیہ علوّا کبیرًا ۔
”اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ( وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حَجَابٍ أَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِإِذْنِہٖ مَا یَشَاءُ ) (اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے کلام کرے ،مگر وحی کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا وہ کوئی رسول بھیج دے ، پھر اس کی طرف اپنے اذن سے جو چاہے وحی کرے ) ، اگر اللہ تعالیٰ کی کلام کسی مخلوق میں ہی پیدا کی ہوئی پائی جاتی تو ان قیوط کے ساتھ مشروط کرنے کا کوئی معنیٰ نہیں ، کیونکہ جہمی لوگوں کے بقول اسے بسااوقات ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورذات میں پیدا شدہ حالت میں سن لیتی ہیں ۔ یہ عقیدہ انبیائے کرام کا مقام ومرتبہ کم کرنے کا موجب بنتا ہے ۔
جب وہ جہمی لوگ یہ دعویٰ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو سیدناموسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کی تھی ، اسے ایک درخت میں پیدا کیا تھا ، اس وقت ان پر یہ لازم آتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کلام کو کسی فرشتے یا ایلچی سے سنا ہو ، جواسے اللہ کے پاس سے لے کر آیا تھا ، وہ کلام سننے کے اعتبار سے سیدنا موسیٰ  علیہ السلام  سے افضل ہوں، کیونکہ ان لوگوں نے اسے کسی نبی سے سنا ہو گا ، لیکن موسیٰ  علیہ السلام  نے اسے اللہ عزوجل سے نہیں سنا ، بلکہ ایک درخت سے سنا تھا ، نیز ان جہمی لوگوںپر یہ بھی لازم آتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کردیں کہ ایک یہودی جب اللہ تعالیٰ کی کلام کو اپنے نبی  علیہ السلام  سے سنے تو وہ اس کام میں موسیٰ  علیہ السلام  سے افضل ہو گا ، کیونکہ یہودی نے اسے اللہ کی کسی نبی سے سنا ہوگا اور موسیٰ  علیہ السلام  نے اسے ایک درخت میں مخلوق ہونے کی صورت میں سنا ہوگا ۔اگر اللہ کی کلام درخت میں پیدا کردی گئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے پھر موسیٰ  علیہ السلام  سے پردے کے پیچھے سے کلام نہیں کی ، کیونکہ جو بھی جن یا انسان اس جگہ حاضر ہوگا ، اس نے اسی جگہ سے کلام کو سنا ہوگا ۔ یوں موسیٰ  علیہ السلام  اور ان کے غیر کا ذریعہ ایک ہی ہوگا کہ انہوںنے کلام کو پردے کے پیچھے سے نہیں سنا ۔
پھر ان جہمی لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کلام کو درخت میں پیدا کیا ، پھر اس کے ذریعے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کی تو پھر اللہ تعالیٰ نے شانے کے گوشت میں بھی کلام پیدا کی ہے ، کیونکہ شانے کے گوشت نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ مجھے نہ کھائیں ، کیونکہ میں زہرآلودہ ہوں ۔چنانچہ تمہارے نزدیک یہ لازم آئے گاکہ جو کلام نبی ئ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم  نے سنی تھی ، وہ اللہ تعالیٰ کی کلام تھی ۔۔۔”(الابانۃ للاشعری : ص ١٠٩)
2    امام آجری  رحمہ اللہ  (م ٣٦٠ھ)لکھتے ہیں : فإن قال قائل منھم : خلق اللّٰہ عزّ وجلّ کلاما فی شجرۃ ، وکلّم بہ موسیٰ ، قیل : ھذا ھو الکفر ، لأنّہ یزعم أنّ الکلام مخلوق ، تعالی اللّٰہ عزّ وجلّ عن ذلک ، ویزعم أنّ مخلوقا یدّعی الرّبوبیّۃ ، وھذا من أقبح القول وأسمجہ ، وقیل لہ : یا ملحد ! ھل یجوز لغیر اللّٰہ أن یقول : إنّنی أنا اللّٰہ ؟ نعوذ باللّٰہ أن یقول قائل ھذا مسلما ، ھذا کافر ، یستتاب ، فإن تاب ورجع عن مذھبہ السّوء وإلّا قتلہ الإمام ، فإن لم یقتلہ الإمام ولم یستتبہ وعلم منہ أنّ ھذا مذھبہ ھجر ، ولم یکلّم ، ولم یسلّم علیہ ، ولم یصلّ خلفہ ، ولم تقبل شھادتہ ، ولم یزوّجہ المسلم کریمتہ ۔۔۔     ”اگر ان جہمیوں میں سے کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں کلام کو پیدا کیا تھا اور اس کے ذریعے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کی تھی تو اسے کہا جائے گا ، یہی کفر ہے، کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ کلام ِ الٰہی مخلوق ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے ۔ وہ شخص یہ گمان کرتا ہے کہ مخلوق ربوبیت کا دعویٰ کررہی ہے ۔ یہ سب سے قبیح اور بدترین قول ہے ، اس سے مزید کہا جائے گا ، اے ملحد وبے دین شخص ! کیا غیر اللہ کے لیے یہ کہنا جائز ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ؟ ہم اللہ کی پنا ہ میں آتے ہیں کہ ایسا کہنے والا مسلمان ہو !یہ توکافر ہے ، اس سے توبہ کروائی جائے گی ، اگر وہ توبہ کرلے اور اپنے برے مذہب سے لوٹ آئے تو ٹھیک ورنہ حاکم ِ وقت اسے قتل کردے ۔اگر وقت کا حکمران اسے قتل نہیں کرتا اور اس سے توبہ نہیں کروائی جاتی اور اس کا مذہب معلوم ہوجاتا ہے تو اسے چھوڑ دیا جائے گا ، اس سے کلام نہیں کی جائے گی ، اس پر سلام بھی نہیں کہا جائے گا ، نہ ہی اسے کی اقتدا میں نماز پڑھی جائے گی ، نہ ہی اس کی گواہی قبول کی جائے گی ، نہ ہی اس سے کوئی مسلمان اپنی بیٹی کی شادی کرے گا ۔”
(الشریعۃ للآجری : ٣١٣)
3     حافظ بیہقی  رحمہ اللہ  (م٤٥٨ھ)لکھتے ہیں : فلو کان کلام اللّٰہ لا یوجد إلّا مخلوقا فی شیء مخلوق لم یکن لاشتراط ھذہ الوجوہ معنی ، لاستواء جمیع الخلق فی سماعہ من غیر اللّٰہ ووجودھم ذلک عند الجھمیّۃ مخلوقا فی غیر اللّٰہ ، وھذا یوجب إسقاط مرتبۃ النّبیّین صلوات اللّٰہ علیھم أجمعین ، ویجب علیھم إذا زعموا أنّ کلام اللّٰہ لموسیٰ خلقہ فی شجرۃ ، أن یکون من سمع کلام اللّٰہ من ملک أو من نبیّ أتاہ بہ من عند اللّٰہ أفضل مرتبۃ فی سماع الکلام من موسیٰ ، لأنّھم سمعوہ من نبیّ ، ولم یسمعہ موسیٰ علیہ السّلام من اللّٰہ ، وإنّما سمعہ من شجرۃ ، وأن یزعموا أنّ الیھود إذ سمعت کلام اللّٰہ من موسیٰ نبیّ اللّٰہ أفضل مرتبۃ فی ھذا المعنی من موسی بن عمران صلّی اللّٰہ علیہ وعلی نبیّنا وسلّم ، لأنّ الیھود سمعتہ من من نبیّ من الأنبیاء وموسیٰ صلّی اللّٰہ علیہ وعلی نبیّنا وسلّم سمعہ مخلوقا فی شجرۃ ، ولو کان مخلوقا فی شجرۃ لم یکن اللّٰہ عزّ وجلّ مکلّما لموسٰی من وراء حجاب ، ولأنّ کلام اللّٰہ عزّ وجلّ لموسیٰ علیہ السّلام لوکان مخلوقا فی شجرۃ کما زعموا لزمھم أن تکون الشّجرۃ بذلک الکلام متکلّمۃ ، ووجب علیھم أنّ مخلوقا من المخلوقین کلّم موسیٰ وقال لہ : إنّنی أنا اللّٰہ لا إلہ إلّا أنا فاعبدنی ، وھذا ظاہر الفساد ۔۔۔     ”اگر اللہ تعالیٰ کا کلام صرف کسی مخلوق چیزمیں مخلوق ہوکر ہی پایا جائے تو ان قیود میں سے کسی کی شرط لگانے کا کوئی معنیٰ نہیں ،کیونکہ تمام مخلوق اس کو غیراللہ سے سننے میں برابر ہے اور یہ جہمی لوگوں کے ہاں غیراللہ میں پیدا شدہ ہے ۔یہ چیز انبیاء کے مقام ومرتبہ کو کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔جب وہ یہ دعویٰ کریں کہ اللہ تعالیٰ کی موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام ایک درخت میں پیدا کی گئی تھی تو ان پر لازم آتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کلام کو کسی فرشتے یا نبی سے سنا ہے ، جو اسے اللہ کی طرف سے لے کر آیاتھا ، وہ لوگ اس کلام کوسننے میں موسیٰ  علیہ السلام  سے بہتر وافضل ہیں ، کیونکہ انہوں نے تو اس کلام کو کسی نبی سے سنا ہے ، جبکہ موسیٰ  علیہ السلام  نے اس کلام کو اللہ تعالیٰ سے نہیں سنا ، بلکہ ایک درخت سے سنا ہے ، نیز ان پر لازم آتا ہے کہ وہ یہ دعویٰ کریں کہ یہودی جب اللہ کی کلام کواللہ کے نبی موسیٰ  علیہ السلام  سے سنتے تھے تو وہ اس سننے میں موسیٰ بن عمران  علیہ السلام  سے افضل تھے ، کیونکہ یہودیوں نے اسے اللہ کے نبیوں میں سے ایک نبی موسیٰ  علیہ السلام  سے سنا تھا ، جبکہ موسیٰ  علیہ السلام  نے اسے ایک مخلوق درخت سے سنا تھا ۔
اگر یہ کلام ایک درخت میں پیدا گیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام نہیں کررہاتھا ، بلکہ اس صورت میں تو ان پر یہ کہنا لازم آتا ہے کہ وہ درخت موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کررہا تھا اور یوں لازم آتا ہے کہ مخلوق میں سے ایک مخلوق نے موسیٰ  علیہ السلام  سے کلام کی تھی اور انہیں کہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ، میری عبادت کرو اور یہ واضح طور پر فاسد بات ہے ۔۔۔”(الاعتقاد للبیہقی : ٩٧۔٩٨)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ  رحمہ اللہ  (٦٦١۔٧٢٨ھ)لکھتے ہیں : ومن قال إنّہ بنفسہ لم یناد ، ولکن خلق نداء فی شجرۃ أو غیرھا لزم أن تکون الشّجرۃ ھی القائلۃ : إنّی أنا اللّٰہ ، ولیس ھذا کقول النّاس : نادی الأمیر ، إذ أمر منادیا ، فإنّ المنادی عن الأمیر یقول : أمر الأمیر بکذا ورسم السّلطان بکذا ، لا یقول : أنا أمرتکم ، ولو قال ذلک لأھانہ النّاس ، والمنادی قال لموسیٰ : إنّنی أنا اللّٰہ لا إلہ إلّا أنا فاعبدنی ، إنّی أنا اللّٰہ ربّ العالمین ، وھذا لا یجوز أن یقولہ ملک إلّا إذا بلغہ عن اللّٰہ کما نقرأ نحن القرآن ، والملک إذا أمرہ اللّٰہ بالنّداء قال ، کما ثبت فی الصّحیح عن الّنبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أنّہ قال : (( إذا أحبّ اللّٰہ عبدا نادی جبریل : إنّی أحبّ فلانا فأحبّہ ، ثمّ ینادی جبریل فی السّماء : إنّ اللّٰہ یحبّ فلانا فأحبّوہ ۔۔۔)) فجبریل إذا نادی فی السّماء قال : إنّ اللّٰہ یحبّ فلانا ، فأحبّوہ ، واللّٰہ إذا نادی جبریل یقول : یا جبریل ! إنّی أحبّ فلانا ، ولھذا نادت الملٰئکۃ زکریّا ، قال تعالیٰ : ( فَنَادَتْہُ الْمَلٰئِکَۃُ وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّی فِیْ الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی ۔۔۔) ، وقال : ( وَإِذ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ ) ، ولا یجوز قطّ لمخلوق أن یقول : من یدعونی فأستجیب لہ ، من یسألنی فأعطیہ ، من یستغفرنی فأغفر لہ ، واللّٰہ تعالیٰ إذا خلق صفۃ فی محلّ کان المحلّ متصفا بھا ، فإذا خلق فی محلّ علما أو قدرۃ أو حیاۃ أو حرکۃ أو لونا أو سمعا أو بصرا کان ذلک المحلّ ھو العالم بہ القادر المتحرّک الحیّ المتلوّن السّمیع البصیر ، فإنّ الرّبّ لا یتصف بما یخلقہ فی مخلوقاتہ ، وإنّما یتّصف بصفاتہ القائمۃ بہ ، بل کلّ موصوف لا یوصف إلّا بما یقوم بہ ، لا بما یقوم بغیرہ ولم یقم بہ ، فلو کان النّداء مخلوقا فی شجرۃ لکانت ھی القائلۃ : إنّی أنا اللّٰہ ، وإذا کان ما خلقہ الرّبّ فی غیرہ کلاما لہ ، ولیس لہ کلام إلّا ما خلقہ لزم أن یکون إنطاقہ لأعضاء الإنسان یوم القیامۃ کلاما لہ ، وتسبیح الحصٰی وتسلیم الحجر علی الرّسول کلام لہ ، بل یلزم أن یکون کلّ کلام فی الوجود کلامہ ، لأنّہ قد ثبت أنّہ خالق کلّ شیء ، وھکذا طرد قول الحلولیّۃ الاتّحادیّۃ کابن عربیّ ، فإنّہ قال : وکلّ کلام فی الوجود کلامہ ، سواء علینا نثرہ ونظامہ ۔۔۔
”جو شخص یہ کہے کہ( موسیٰ  علیہ السلام  کو ) خود اللہ تعالیٰ نے نہیں پکارا تھا ، بلکہ درخت وغیرہ میں پکار پیدا کردی تھی ، اس کولازم آئے گا کہ یہ درخت ہی کہنے والا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ یہ اس طرح نہیں جیسے لوگ کہتے کہ امیر نے آواز لگائی ہے ، جب وہ کسی منادی کرنے والے کوبھیجے ، کیونکہ امیر کی طرف سے منادی کرنے والا کہتا ہے کہ امیر نے یہ حکم دیا ہے اور بادشاہ نے یہ قانون لاگو کیا ہے ۔وہ یہ نہیں کہتا کہ میں تمہیں حکم دے رہا ہوں ۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو لوگ اس کی بے عزتی کریں گے ۔پکارنے والے نے موسیٰ  علیہ السلام  سے کہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ، لہٰذا میری ہی عبادت کرو ، میں ہی اللہ ربّ العالمین ہوں ۔ ایسا تو کسی فرشتے کے لیے بھی جائز نہیں ہوتا ، جب وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغام پہنچا رہا ہو ، جیسا کہ ہم قرآنِ کریم میں پڑھتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ فرشتے کونداء کا حکم دیتا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو فرماتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت کر، پھر جبریل آسمانوں میں ندا ء لگاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے ، تم سب اس سے محبت کرو ۔ اب جبریل جب آسمانوں میں نداء لگاتا ہے تو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے ، تم بھی اس سے محبت کرواور اللہ تعالیٰ جب جبریل کو بلا تا ہے تو فرماتا ہے ، اے جبریل ! میں فلاں آدمی سے محبت کرتا ہوں۔ اسی لیے جب فرشتوں نے زکریا  علیہ السلام  کو پکارا تھا تو فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( فَنَادَتْہُ الْمَلٰئِکَۃُ وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّی فِیْ الْمِحْرَابِ أَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی ۔۔۔) (ان کو فرشتوں نے پکارا اس حال میں کہ وہ کھڑے محراب میں نماز ادا کررہے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتے ہیں) ، نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ( وَإِذ قَالَتِ الْمَلٰئِکَۃُ یَا مَرْیَمُ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَاکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ )(اور جب فرشتوں نے کہا ، اے مریم ! بے شک اللہ تعالیٰ نے تجھے چن لیا ہے اور پاک کردیا ہے اور تجھے تمام جہانوں کی عورتوں پر چن لیا ہے ) ۔ کسی مخلو ق کے لیے قطعاً جائز نہیں ہے کہ وہ کہے کہ میں ہی اللہ رب العالمین ہوں ، نہ ہی کوئی مخلوق یہ کہہ سکتی ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کی دُعا کو قبول کروں ، کون ہے جو مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو عطاکروں ، کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے تو میں اس کو معاف کردوں؟ جب اللہ تعالیٰ کسی جگہ میں کسی صفت کو پیدا کرتا ہے تو وہی جگہ اس صفت کے ساتھ موصوف ہوتی ہے ، چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کسی میں علم ، قدرت ، زندگی ، حرکت ، رنگ ، سمع یابصر پیدا کرتا ہے تو وہی (جس میں یہ صفت پیدا کی گئی ہوتی ہے) اس کا عالم ، اس کی قدرت رکھنے والا ، متحرک ، زندہ ، رنگ دار ، سمیع اوربصیر ہوتا ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس چیز کے ساتھ متصف نہیں ہوتا ، جسے وہ اپنی کسی مخلوق میں پیدا کردیتا ہے ، وہ صرف انہی صفات کے ساتھ متصف ہوتا ہے ، جو اسی میں قائم ہوتی ہیں ، کسی دوسرے میں قائم نہیں ہوتیں ،لہٰذا اگر نداء درخت میں پیدا کردی گئی تھی تو وہی درخت یہ کہہ رہا تھا کہ میں ہی اللہ ہوں ۔ اگر وہ کلام جسے اللہ تعالیٰ اپنے غیر میں پیدا کردے ، اسی کی کلام ہوتو لازم آئے گا کہ روز ِ قیامت اللہ تعالیٰ کا انسان کے اعضاء کو بلوانا اللہ ہی کی کلام ہو ، کنکریوں کا تسبیح کرنا بھی اللہ کی کلام ہو اور پتھر کا رسولِ کریم   صلی اللہ علیہ وسلم  پرسلام کرنا بھی اللہ ہی کی کلام ہو ، بلکہ یہ بھی لازم آئے گا کہ کائنات میں ہرکلام اللہ تعالیٰ ہی کی ہو ، کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ہرچیز کو پیدا کیا ہے ۔ حلول واتحاد کے قائلین ، جیسے ابنِ عربی ہے ، ان کا یہی قول ہے ، اس کا کہنا ہے کہ کائنات میں ہرکلام اسی اللہ ہی کی کلام ہے ، خواہ وہ نثر ہویا نظم ۔۔۔”
(منھاج السنۃ لابن تیمیۃ : ٢/٢١٩)
امام ابنِ ابی العز الحنفی (م ٧٩٢ھ)لکھتے ہیں : وما أفسد استدلالھم بقولہ تعالیٰ : ( نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیءِ الْوَادِی الْأَیْمَنِ فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ ۔۔۔) علی أنّ الکلام خلقہ اللّٰہ تعالیٰ فی الشّجرۃ ، فسمعہ موسی منھا ! وعموا عمّا قبل ھذہ الکلمۃ وما بعدھا ، فإنّ اللّٰہ قال : ( فَلَمَّا أَتَاھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیءِ الْوَادِ الْأَیْمَنِ۔۔۔) ، النّداء ھو الکلام من بُعد ، فسمع موسی علیہ السّلام النّداء من حافۃ الوادی ، ثمّ قال : ( فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ ) أی أنّ النّداء کان فی البقعۃ المبارکۃ من عند الشّجرۃ ، کما یقول سمعت کلام زید من البیت ، یکون من البیت لابتداء الغایۃ ، لا أنّ البیت ھو المتکلّم ! ولو کان الکلام مخلوقا فی الشّجرۃ لکانت الشّجرۃ ھی القائلۃ : ( یَا مُوْسٰی إِنِّیْ أَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ) ، وھل قال : إنّی أنا اللّٰہ ربّ العالمین ، غیر ربّ العالمین ؟ ولو کان ھذا الکلام بدا من غیر اللّٰہ لکان قول فرعون : أنا ربّکم الأعلی صدقا إذ کلّ من کلامین عندھم مخلوق قد قالہ غیر اللّٰہ ! وقد فرّقوا بین الکلامین علی أصولھم الفاسدۃ : أنّ ذاک کلام اللّٰہ خلقہ اللّٰہ فی الشّجرۃ ، وھذا کلام خلقہ فرعون ! فحرّفوا وبدّلوا واعتقدوا خالقا غیر اللّٰہ ۔۔۔
”ان (جہمی لوگوں کا)اس فرمانِ باری تعالیٰ 🙁 نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیءِ الْوَادِی الْأَیْمَنِ فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ ۔۔۔) سے اس بات پر استدلال کتنا فاسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کلام کو درخت میں پیدا کیا ، پھر موسیٰ  علیہ السلام  نے اس سے سنا ، وہ اس فرمانِ باری تعالیٰ کے ماقبل اور ما بعد سے اندھے بن گئے ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( فَلَمَّا أَتَاھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیءِ الْوَادِ الْأَیْمَنِ۔۔۔) نداء تو دور سے کلام کرنے کو کہتے ہیں اور موسیٰ  علیہ السلام  نے کلام کو وادی کے اندر سے سنا تھا ، پھر فرمان ہوا : ( فِیْ الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ ) یعنی نداء بقعہئ مبارکہ میں درخت کے پاس سے تھی ، جیسا کہ کوئی آدمی کہتا ہے کہ میں نے زید کی کلام کو گھر سے سنا ، گھر سے کا لفظ ابتدائے غایت کے لیے ہوتا ہے ، یہ نہیں کہ گھر کلام کر رہاتھا ۔اگر یہ کلام مخلوق ہوتی اور درخت میں پیدا کی گئی ہوتی تو درخت ہی یہ کہنے والا ہوتا کہ اے موسیٰ میں ہی رب العالمین ہوں ۔ کیا رب العالمین کے علاوہ کسی اور نے کہا تھا کہ میں رب العالمین ہوں ؟ اگر یہ کلام غیراللہ سے ظاہر ہوئی تھی تو پھر فرعون کا یہ کہنا سچ تھا کہ میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں ! کیونکہ دونوں کلامیں جہمیوں کے ہاں مخلوق ہیں اور دونوں کا قائل غیراللہ ہے ، لیکن انہوں نے اپنے فاسد اصولوں کے مطابق ان دونوں کلاموں میں فرق کیا ہے کہ وہ اللہ کی کلام تھی ، جسے اس نے درخت میں پیدا کیا تھا اور یہ وہ کلام تھی ، جسے فرعون نے پیدا کیا تھا ! انہوں نے تحریف وتبدل سے کام لیا ہے اور یہ اعتقاد رکھا ہے کہ اللہ کے علاوہ بھی کوئی خالق ہے ۔۔۔”
(شرح العقیدۃ الواسطیۃ : ١٧٤۔١٧٥)
تنبیہ :      سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں :
رأیت الشّجرۃ الّتی نودی منھا موسیٰ علیہ السّلام ، سمرۃ خضراء ۔۔۔
”میں نے اس درخت کو دیکھا ہے ، جس سے موسیٰ  علیہ السلام  کو آواز دی گئی تھی ، وہ سرسبز تھا ۔”
(تفسیر ابن جریر : ١٩/٥٧٣)
تبصرہ :      اس قول کی سند سخت ”ضعیف” ہے ، کیونکہ :
1    اس کا راوی سفیان بن وکیع جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے ۔2    امام ابومعاویہ ”مدلس” ہیں ۔3    امام اعمش بھی ”مدلس” ہیں ۔    اور یہ دونوں امام ”عن” سے بیان کررہے ہیں ۔4    ابوعبیدہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا ، جیسا کہ حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فإنّہ عند الأکثر لم یسمع من أبیہ ۔۔۔ ”جمہور کے نزدیک اس (ابو عبیدہ)نے اپنے والد(سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) سے سماع نہیں کیا ۔”(موافقۃ الخبر الخبر لابن حجر : ١/٣٦٤)
لہٰذا حافظ ابنِ کثیر  رحمہ اللہ (تفسیر ابن کثیر : ٥/١٧)کااس کے بارے میں إسنادہ مقارب کہنا صحیح نہیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.