1,940

امام محمد بن جریر طبری، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت و صیانت،صداقت و اخلاص کے حامل محدثین اور ائمہ مسلمین کی کفیل رہی ہے۔دشمنانِ اسلام کی من گھڑت اور پر فتن باتیں ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں۔ ظالموں کی تمام خرافات، لب گیری اور طعن و تشنیع ان کے دامن کو داغ دار نہیں کر سکی،بلکہ ان کی رفعت ِشان کو اور زیادہ بلندی نصیب ہوئی۔جب ان معاندین اور ظالمین کو محدثین کرام نے عاق کر دیا تو یہ ان کی عزت کے درپے ہو گئے۔وہ ہمہ وقت ان نفوسِ قدسیہ کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔
ائمہ اسلام میں سے ایک مشہور و معروف نام محمد بن جریر طبری ہے۔آپ کی ولادت باسعادت224 ہجری کو طبرستان میں ہوئی۔آپ رحمہ اللہ جلیل القدر، رفیع الشان، سنی امام، حافظ، ثقہ اور متقن ہیں۔دنیا آپ کو امام المفسرین کے معزز لقب سے یاد کرتی ہے۔آپ محدث، فقیہ، مفسر، مؤرخ، لغوی اور مجتہد مطلق کی بلند شان رکھتے ہیں۔آپ صاحب ِ تصانیف ہیں اور آپ کا شمار کبار ائمہ اسلام میں ہوتا ہے۔ تفسیر قرآن کریم میں آپ کا منفرد نام ہے۔
تعریف و توثیق :
بہت سے اہل علم نے آپ کی تعریف و توثیق کی ہے، چند ایک اقوال ملاحظہ فرمائیں :
n حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اِسْتَوْطَنَ الطَّبْرِيُّ بَغْدَادَ، وَأَقَامَ بِہَا إِلٰی حِیْنَ وَفَاتِہٖ، وَکَانَ أَحَدُ أَئِمَّۃِ الْعُلَمَائِ یُحْکَمُ بِقَوْلِہٖ، وَیُرْجَعُ إِلٰی رَأْیِہٖ لِمَعْرِفَتِہٖ وَفَضْلِہٖ،
وَکَانَ قَدْ جَمَعَ مِنَ الْعُلُوْمِ مَا لَمْ یُشَارِکْہُ فِیْہٖ أَحَدٌ مِّنْ أَہْلِ عَصْرِہٖ، وَکَانَ حَافِظًا لِّکِتَابِ اللّٰہِ، عَارِفًا بِالْقَرَائَ اتِ، بِصِیْرًا بِالْمَعَانِي، فِقِیْہًا فِي أَحْکَامِ الْقُرْآنِ، عَالِمًا بِالسُّنَنِ وَطُرِقِہَا صَحِیْحِہَا وَسَقِیْمِہَا وَناسِخِہَا وَمَنْسُوْخِہَا، عَارِفًا بِأَقْوَالِ الصَّحَابَۃِ وَالتَّابِعِیْنَ، وَمَنْ بَّعْدَہُمْ مِّنَ الْخَالِفِیْنَ فِي الْـأَحْکَامِ، وَمَسَائِلِ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ، عَارِفاً بِأَیَّامِ النَّاسِ وَأَخْبَارِہِمْ، وَلَہُ الْکِتَابُ الْمَشْہُوْرُ فِي تَارِیْخِ الْـأُمَمِ وَالْمُلُوْکِ، وَکِتَابٌ فِي التَّفْسِیْرِ لَمْ یُصَنِّفْ أَحَدٌ مِّثْلَہٗ، وَکِتَابٌ سَمَّاہٗ ’تَہْذِیْبَ الْآثَارِ‘ لَمْ أَرَ سِوَاہٗ فِي مَعْنَاہٗ، إِلَّا أَنَّہٗ لَمْ یُتِمَّہٗ، وَلَہٗ فِي أُصُوْلِ الْفِقْہِ وَفُرُوْعِہٖ کُتُبٌ کَثِیْرَۃٌ، وَاِخْتِیَارٌ مِّنْ أَقَاوِیْلِ الْفُقَہَائِ، وَتَفَرَّدَ بِمَسَائِلَ حُفِظَتْ عَنْہُ ۔
’’امام طبری رحمہ اللہ نے بغداد میں سکونت اختیار کی،پھر وفات تک وہیں قیام پذیر رہے۔آپ رحمہ اللہ ان ائمہ علما میںسے تھے، جن کی رائے کے مطابق فیصلہ دیا جاتا ہے اور لوگ معرفت ِعلمی کی بنا پر ان کی طرف رجوع کرتے ہیں۔آپ بیک وقت کئی علوم کے حامل تھے،جس میں آپ کا کوئی ہم عصر اور شریک و سہیم نہیں تھا۔آپ کتاب اللہ کے حافظ،قراء ات کے عالم،معانی ٔقرآن پر بصیرت رکھنے والے،احکام القرآن میں فقیہ،حدیث کے صحیح و ضعیف اور ناسخ و منسوخ ہونے کے عالم،احکام اور حلال و حرام کے مسائل میں صحابہ کرام، تابعین عظام اور ان کے بعد والوں کے اقوال کی معرفت رکھنے والے اور تاریخ دان ہیں۔آپ کی امم و ملوک کی تاریخ پر مشہور کتاب ہے اور تفسیر قرآن پر ان کی کتاب جیسی کتاب کسی نے نہیں لکھی۔آپ کی ایک اور کتاب کا نام تہذیب الآثار ہے،اس مضمون کی کوئی کتاب نہیں دیکھی گئی،لیکن آپ اسے مکمل نہیں کر پائے۔آپ کی فقہ کے اصول و فروعات پر بے شمار کتابیں ہیں۔آپ نے (اسلاف)فقہا کے اقوال کو اختیار کیا،نیز بہت سے منفرد مسائل بھی آپ سے محفوظ کیے گئے ہیں۔‘‘(تاریخ بغداد : 163/2)
n امام ابو احمدحسین بن علی بن محمد بن یحییٰ بن عبد الرحمن بن الفضل دارمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أَوَّلُ مَا سَأَلَنِيْ أَبُوْ بَکْرٍ مُّحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ لِي : کَتَبْتَ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ الطَّبْرِيِّ ؟ قُلْتُ : لاَ، قَالَ : لِمَ ؟ قُلْتُ : لأَِنَّہٗ کَانَ لاَ یَظْہَرُ، وَکَانَتِ الْحَنَابِلَۃُ تَمْنَعُ عَنِ الدُّخُوْلِ عَلَیْہِ، فَقَالَ بِئْسَ مَا فَعَلْتَ، لَیْتَکَ لَمْ تَکْتُبْ عَنْ کُلِّ مَنْ کَتَبْتَ عَنْہُمْ وَسَمِعْتَ مِنْ أَبِيْ جَعْفَرٍ ۔
’’امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے مجھ سے سب سے پہلا سوال یہ کیا:کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ لکھا ہے؟میں نے کہا:نہیں، انہوں نے کہا: کیوں؟ میں نے کہا:کیونکہ وہ باہر نہیں نکلتے تھے اور حنابلہ ان کے پاس جانے سے روکتے ہیں۔اس پر انہوں نے کہا:آپ نے بہت برا کیا،کاش!جن سے آپ نے لکھا ہے،ان میں سے کسی سے نہ لکھتے اور صرف امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ)
n ایک روایت میں امام حسین بن علی تمیمی رحمہ اللہ کے الفاظ یہ ہیں:
لَمَّا رَجَعْتُ مِنْ بَغْدَادَ إِلٰی نِیْسَابُوْرَ؛ سَأَلَنِيْ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقِ ابْنِ خُزَیْمَۃَ، فَقَالَ لِيْ : مِمَّنْ سَمِعْتَ بِبَغْدَادَ ؟ فَذَکَرْتُ لَہٗ جَمَاعَۃً مِّمَّنْ سَمِعْتُ مِنْہُمْ، فَقَالَ : ہَلْ سَمِعْتَ مِنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ شَیْئًا ؟ فَقُلْتُ لَہٗ : لاَ، إِنَّہٗ بِبَغْدَادَ لَا یُدْخَلُ عَلَیْہِ لِأَجْلِ الْحَنَابِلَۃِ، وَکَانَتْ تَمْنَعُ مِنْہُ، فَقَال : لَوْ سَمِعْتَ مِنْہُ لَکَانَ خَیْرًا لَّکَ مِنْ جَمِیْعِ مَنْ سَمِعْتَ مِنْہُ سِوَاہُ ۔
’’جب میں بغداد سے نیساپور لوٹا تو امام محمد بن اسحاق خزیمہ رحمہ اللہ نے مجھ سے سوال کیا:آپ نے بغداد میں کس کس سے سنا ہے؟میں نے ایک جماعت کا تذکرہ کیا جن سے میں نے سنا تھا۔انہوں نے دریافت کیا:کیا آپ نے امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے کچھ سنا ہے؟میں نے کہا:نہیں،کیونکہ بغداد میں حنابلہ کی وجہ سے ان کے پاس کوئی نہیں جا سکتا،وہ ان کے پاس جانے سے روکتے ہیں۔انہوں نے کہا: اگر آپ امام محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے سماعت کا شرف حاصل کر لیتے تو ان سب کے مقابلے میں آپ کے لیے بہتر ہوتا جن سے آپ نے سنا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب : 164/2، تاریخ دمشق لابن عساکر : 195/52، وسندہٗ صحیحٌ)
n آپ کے شاگرد محمد بن علی بن محمد بن سہل رحمہ اللہ نے آپ کو ’’فقیہ‘‘ کہا ہے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 200/52، وسندہٗ صحیحٌ)
n امام ابن سریج،ابو العباس احمد بن عمر بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أَبُوْ جَعْفَرٍ مُّحَمَّدُ بْنُ جَرِیْرٍ الطَّبْرِيُّ، فَقِیْہُ الْعِلْمِ ۔
’’ابو جعفر محمد بن جریر طبری، شرعی علوم میں فقیہ تھے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 202/52، وسندہٗ صحیحٌ)
n امام ابو سعید بن یونس رحمہ اللہ (م : 347ھ) کہتے ہیں:
کَانَ فِقِیْہًا، قَدِمَ إِلٰی مِصْرَ قَدِیْمًا سَنَۃَ ثَلاَثٍ وَّسِتِّیْنَ وَمِائَتَیْنِ، وَکَتَبَ بِہَا، وَرَجَعَ إِلٰی بَغْدَادَ، وَصَنَّفَ تَصَانِیْفَ حَسَنَۃً، تَدُلُّ عَلٰی سِعَۃِ عِلْمِہٖ ۔
’’آپ رحمہ اللہ فقیہ تھے،شروع میں 263 ہجری میں مصر کی طرف کوچ کیا،وہاں کتابیں لکھیں،پھر بغداد چلے آئے۔آپ رحمہ اللہ نے بہت اچھی کتب لکھیں جو آپ کے وسعت ِعلم کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔‘‘
(تاریخ ابن یونس المصري : 195/2، 196، تاریخ دمشق لابن عساکر : 191/2)
n حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ یَزِیْدَ بْنِ کَثِیْرٍ الطَّبَرِيُّ الإِمَامُ، الْعَلَمُ، الْمُجْتَہِدُ، عَالِمُ الْعَصْرِ، أَبُو جَعْفَرٍ الطَّبَرِيُّ، صَاحِبُ التَّصَانِیْفِ الْبَدِیْعَۃِ، مِنْ أَہْلِ آمُلَ طَبَرِسْتَانَ، مَوْلِدُہٗ سَنَۃَ أَرْبَعٍ وَّعِشْرِیْنَ وَمِائَتَیْنِ، وَطَلَبَ الْعِلْمَ بَعْدَ الْـأَرْبَعِیْنَ وَمِائَتَیْنِ، وَأَکْثَرَ التَّرْحَالَ، وَلَقِيَ نُبَلاَئَ الرِّجَالِ، وَکَانَ مِنْ أَفرَادِ الدَّہْرِ عِلْماً، وَذکَائً، وَکَثْرَۃَ تَصَانِیْفَ، قَلَّ أَنْ تَرَی الْعُیُوْنُ مِثْلَہٗ ۔
’’امام محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری،امام،علامہ،مجتہد،عالم دوراں،ابو جعفر طبری رحمہ اللہ ۔آپ شاہکار کتابوں کے مصنف ہیں۔آپ کا تعلق طبرستان کے مشہور شہر ’’آمل‘‘ سے تھا۔آپ 224ھ کو پیدا ہوئے اور 240 ھ کے بعد تحصیل علم کے لیے روانہ ہوئے۔آپ نے طویل سفر کیے اور بڑے بڑے یکتائے زمانہ علما سے ملاقاتیں کیں۔آپ رحمہ اللہ خود بھی علم اور ذہانت کے لحاظ سے نابغہ ٔ روزگار اور مصنف ِکتب ِکثیرہ تھے۔ ان جیسی ہستیاں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔‘‘
(سیر أعلام النبلاء : 267/14)
n نیز فرماتے ہیں:
کَانَ ثِقَۃً، صَادِقاً، حَافِظاً، رَأْساً فِي التَّفْسِیْر، إِمَاماً فِي الْفِقْہِ وَالْإِجْمَاعِ وَالِاخْتِلاَفِ، عَلاَّمَۃٌ فِي التَّارِیْخ وَأَیَّامِ النَّاسِ، عَارِفاً بِالْقِرَائَ اتِ وَبِاللُّغَۃِ، وَغَیْرِ ذٰلِکَ ۔
’’آپ ثقہ، صادق،حافظ،علم تفسیر کے سرخیل،فقہ، اجماع اور اختلافی مسائل میں امام، تاریخ میں علامہ، سیرت نگار، قراء ت اور لغت وغیرہ پر علمی دسترس رکھنے والے تھے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 270/14)
n شیخ الاسلام ثانی،عالم ربانی،علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
اَلْإِمَامُ فِي الْفِقْہِ، وَالتَّفْسِیْرِ، وَالْحَدِیْثِ، وَالتَّارِیْخِ، وَاللُّغَۃِ، وَالنَّحْوِ، وَالْقُرْآنِ ۔
’’آپ فقہ، تفسیر،حدیث، تاریخ، لغت، نحو اور قرآن کے علوم میں امام ہیں۔‘‘
(اجتماع الجیوش الإسلامیۃ علی غزو المعطّلۃ والجہمیّۃ : 94/2)
n حافظ نووی رحمہ اللہ (676-631ھ)لکھتے ہیں:
ہُوَ الْإِمَامُ الْبَارِعُ فِي أَنْوَاعِ الْعُلُوْمِ ۔
’’آپ رحمہ اللہ علوم کی بہت سی انواع میں ماہر امام تھے۔‘‘
(تہذیب الأسماء واللغات : 78/1)
کیا امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ شیعہ تھے؟
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ باتفاق علمائِ اسلام سنی مفسر اور امام ہیں۔ان کی تفسیر اہل اسلام میں اس قدر مقبول ہے کہ ہر دور کے مسلمان قرآن فہمی کے لیے اس پر اعتماد کرتے رہے ہیں،بعد میں آنے والے مفسرین اپنی اپنی تفاسیر میں اسے بنیادی اور اساسی مصدر اور ماخذ کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’تفسیر القرآن العظیم‘‘میں اس کا خلاصہ پیش کیا ہے۔تفسیر ابن کثیر، ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے ذکر ِخیر سے لبریز ہے۔
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ ابن بالویہ محمد بن احمد الجلاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
قَالَ لِيْ أَبُوْ بَکْرٍ مُّحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، یَعْنِيْ ابْنَ خُزَیْمَۃَ، بَلَغَنِيْ أَنَّکَ کَتَبْتَ التَّفْسِیْرَ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ، قُلْتُ : بَلٰی، کَتَبْتُ التَّفْسِیْرَ عَنْہُ إِمْلَائً، قَالَ : کَلُّہٗ ؟ قُلْتُ : نَعَمْ، قَالَ : فِي أَيِّ سَنَۃٍ؟ قُلْتُ : مِنْ سَنَۃِ ثَلَاثٍ وَّثَمَانِیْنَ إِلٰی سَنَۃِ تِسْعِیْنَ، قَالَ : فَاسْتَعَارَہٗ مِنِّي أَبُوْ بَکْرٍ فَرَدَّہٗ بَعْدَ سِنِیْنَ، ثُمَّ قَالَ : قَدْ نَظَرْتُ فِیْہِ مِنْ أَوَّلِہٖ إِلٰی آخِرِہٖ، وَمَا أَعْلَمُ عَلٰی أَدِیْمِ الْـأَرْضِ أَعْلَمَ مِنْ مُّحَمَّدِ بْنِ جَرِیْرٍ، وَلَقَدْ ظَلَمَتْہُ الْحَنَابِلَۃُ ۔
’’مجھ سے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے کہا:مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نے محمد بن جریر رحمہ اللہ سے کچھ تفسیر لکھی ہے؟میں نے کہا:جی بالکل!میں نے ان سے تفسیر لکھی ہے۔ انہوں نے دریافت کیا: مکمل؟ میں نے کہا:جی ہاں!پوچھا:کس سن میں؟میں نے کہا: 283ھ سے لے کر290 ھ تک۔انہوں نے مجھ سے وہ نسخہ ادھار لیا اور کئی سال بعد واپس کیا۔پھر انہوں نے کہاـ:میں نے شروع سے آخر تک پوری کتاب پڑھی ہے اور میرے علم کے مطابق روئے زمین پر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ سے بڑا کوئی عالم نہیں۔یقینا حنابلہ نے ان پر ظلم ڈھایا ہے۔‘‘
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 163/2، وسندہٗ صحیحٌ)
البتہ اس تفسیر کو منکرین حدیث اور ملحدین و زنادقہ اپنے گلے کا کانٹا سمجھتے ہیں۔اہل باطل قرآن کریم کی مَن پسند تفسیر کرنا چاہتے ہیں اور قرآنِ مجید کو اپنی خواہشات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں،لیکن تفسیر طبری کے ہوتے ہوئے وہ اپنے ناکام اور مذموم مشن میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ان کا بُنا ہوا جال تار تار ہو جاتا ہے اور ان کی بنائی ہوئی خستہ عمارت دھڑام سے منہدم ہو جاتی ہے۔تب منکرین حدیث اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آتے ہیں اور بلا دلیل و ثبوت اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔
مشہور منکر ِحدیث، تمنا عمادی نے ایک مضمون لکھا،جس میں یہ باور کرانے کی ناکام اور مذموم کوشش کی ہے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ شیعہ تھے،تاکہ اہل اسلام کے دلوں میں امام ابن جریر رحمہ اللہ کی تفسیربے نظیر کی حیثیت محو ہو جائے، ’’طلوعِ اسلام‘‘ کو یہ بات اچھی لگی تواس پر یوں تبصرہ کر ڈالا:
’’علامہ تمنا نے اپنے اس مضمون میں یہ ثابت کیا ہے کہ امام ابن جریر طبری در حقیقت شیعہ تھے۔اگر یہ شیعہ تھے تو آپ خود سمجھ لیجیے کہ اہل سنت والجماعت جس تفسیراور جس تاریخ کو اتنا معتبر سمجھتے ہیں،اس کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے اور اس بنیاد پر اٹھی ہوئی عمارتیں کس درجہ قابل اعتماد ہو سکتی ہیں۔‘‘
(طلوعِ اسلام، ص : 11، 7 مئی : 1955ئ)
دشمنانِ حدیث کی انتہائی کوشش ہے کہ اہل اسلام کا اس تفسیر سے اعتماد اٹھ جائے۔ یاد رہے یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ان شاء اللہ!
جب بھی قرآن مجید کی تفسیر کی بات آتی ہے تو مسلمانوں کی پہلی نظر تفسیر ابن جریر پر جا پڑتی ہے۔یہ اہل اسلام اور اہل سنت والجماعت کے پاس معتبر ، مستند و مسند، بنیادی اور اساسی تفسیری اثاثہ ہے، جسے اہل اسلام نے ہمیشہ اپنے ماتھے کا جھومر بنایا ہے۔اہل سنت والجماعت ہر دور میں اس پر نازاں رہے ہیں۔یہ عظیم القدر اور رفیع الشان تفسیر،اہل زیغ و شبہات کے ردّ میں سیف مسلول ہے۔
ایک مغالطہ اور اس کی حقیقت :
دراصل سنی امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ کے دور میں ان کا ایک ہم نام شخص تھا،جس کا نام بھی محمد بن جریر تھا،البتہ اس کے دادا کا نام رستم تھا۔وہ بھی بغداد میں رہتا تھا۔اتفاق سے اس کا سن وفات بھی وہی ہے،جو سنی امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا ہے۔ دونوں کی کنیت بھی ایک ہے،جس کی بنیاد پر ظالموں نے اشتباہ واقع کر دیا۔ محمد بن جریر بن رستم طبری نامی شخص کی صفات سنی امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ پر تھوپ دیں اور اس بنا پر واویلا شروع کر دیا کہ ابن جریر طبری ابو جعفر رحمہ اللہ شیعہ ہیں،حالانکہ محمد بن جریر بن رستم طبری ابو جعفر نامی شخص ناپاک رافضی شیعہ ہے۔شیعہ کی معتبر کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔شیعہ شنیعہ بھی یہ فرق کرتے ہیں کہ محمد بن جریر بن یزید طبری سنی امام اور محمد بن جریر بن رستم طبری دو الگ الگ شخصیتیں ہیں۔امام محمد بن جریر بن یزید طبری رحمہ اللہ مفسر کو کسی نے شیعہ نہیں کہا،جیسا کہ مشہور و معروف سوانح نگار، ناقد ِرجال اور شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
فَقَدْ تَرَجَّمَہٗ أَئِمَّۃُ النَّقْلِ فِي عَصْرِہٖ وَبَعْدِہٖ، فَلَمْ یَصِفُوْہُ بِذٰلِکَ، وَإِنَّمَا ضَرَّہُ الْاِشْتِرَاکُ فِي اِسْمِہٖ وَاِسْمُ أَبِیْہِ وَنَسَبِہٖ وَکُنْیَتِہٖ وَمُعَاصِرَتِہٖ وَکَثْرَۃِ تَصَانِیْفِہٖ ۔
’’ان کے ہم عصر اور ان کے بعد والے علما نے ان کے حالات زندگی قلم بند کیے ہیں، مگر کسی نے ان کو شیعہ قرار نہیں دیا۔یہ اشتباہ ان(محمد بن جریر بن یزید طبری سنی اور محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی)کے نام، باپ کے نام، نسبت،کنیت، ایک زمانے اور کثرت ِتصانیف مشترک ہونے سے واقع ہوا۔‘‘
(لسان المیزان : 100/5، 101)
n مؤرخِ اسلام،مفسر قرآن،امام اہل سنت والجماعت،حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) وضو میں پائوں پر مسح کے بارے میں لکھتے ہیں:
فَمِنَ الْعُلَمَائِ مَنْ یَّزْعُمُ أَنَّ ابْنَ جَرِیرٍ اثْنَانِ؛ أَحَدُہُمَا شِیْعِيٌّ، وَإِلَیْہِ یُنْسَبُ ذٰلِکَ، وَیُنَزِّہُونَ أَبَا جَعْفَرٍ مِّنْ ہٰذِہِ الصِّفَاتِ، وَالَّذِي عُوِّلَ عَلَیْہِ کَلَامُہٗ فِي التَّفْسِیرِ أَنَّہٗ یُوجِبُ غَسْلَ الْقَدَمَیْنِ، وَیُوجِبُ مَعَ الْغَسْلِ دَلْکَہُمَا، وَلٰکِنَّہٗ عَبَّرَ عَنِ الدَّلْکِ بِالْمَسْحِ، فَلَمْ یَفْہَمْ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ مُرَادَہٗ جَیِّدًا، فَنَقَلُوا عَنْہُ أَنَّہٗ یُوجِبُ الْجَمْعَ بَیْنَ الْغَسْلِ وَالْمَسْحِ ۔
’’بعض علمائِ کرام کا دعویٰ ہے کہ ابن جریر نام کے دو شخص ہیں؛ان میں ایک شیعہ ہے،جس کی طرف یہ منسوب ہے۔اہل علم امام ابو جعفر کو ان صفات سے پاک قرار دیتے ہیں۔(شیعہ قرار دینے والوں کی طرف سے)امام صاحب کی جس کلام کو دلیل بنایا گیا ہے ،وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں پائوں دھونے کو واجب قرار دیا ہے،لیکن ساتھ میں وہ پاؤں کے ملنے کو بھی واجب قرار دیتے ہیں۔البتہ ملنے کو انہوں نے ’مسح‘ کے لفظ سے بیان کیا ہے اور اکثر لوگ ان کی مراد کو اچھی طرح سمجھ نہیں سکے۔انہوں نے یہ نقل کر دیا کہ امام صاحب دھونے کے ساتھ پاؤں کا مسح کرنا بھی واجب سمجھتے ہیں(حالانکہ ’مسح‘کا لفظ رگڑنے اور ملنے کے معنیٰ میں بھی آتا ہے اور امام صاحب کی یہی مراد تھی)۔‘‘
(البدایۃ والنھایۃ : 167/11، طبعۃ إحیاء التراث)
معلوم ہوا کہ امام طبری رحمہ اللہ کو شیعہ کہنا یا تو ناواقفیت ہے یا پھر ہٹ دھرمی۔امام ابوجعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری کو اہل علم جانتے ہیں۔آپ کی تفسیر ہر دور میں متداول رہی ہے۔ ہر زمانے کے علما اس سے استفادہ کرتے رہے ہیں،لیکن کسی نے آپ کو شیعہ نہیں کہا۔نہ معلوم منکرین حدیث خواہ مخواہ کیوں ادھار کھائے بیٹھے ہیں؟
n محمد بن علی بن محمد بن سہل المعروف بہ ابن الامام کہتے ہیں:
سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ جِرِیْرٍ الطَّبْرِيَّ الْفَقِیْہَ، وَہُوَ یُکَلِّمُ الْمَعْرُوْفَ بِاِبْنِ صِالِحِ الْـأَعْلَمِ، وَجَرٰی ذِکْرُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، فَجَرٰی خِطَابٌ، فَقَالَ لَہٗ مُحَمَّدُ بْنُ جِرِیْرٍ : مَنْ قَالَ : إِنَّ أَبَا بِکْرٍ وَعُمَرَ لَیْسَا بِإِمِامَيْ ہُدًی، أَیشْ ہُوَ ؟ قَالَ : مُبْتَدِعٌ، فَقَالَ لَہُ الطَّبْرِيُّ إِنْکَارًا عَلَیْہِ : مُبْتَدِعٌ، مُبْتَدِعٌ، ہٰذَا یُقْتَلُ، مَنْ قَالَ : إِنَّ أَبَا بِکْرٍ وَّعُمَرَ لَیْسَا إِمَامَيْ ہُدًی یُّقْتَلُ، یُقْتَلُ ۔
’’میں نے امام ابو جعفر، محمد بن جریر، طبری،فقیہ رحمہ اللہ کو امام ابن صالح اعلم سے سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سنا۔بات جاری رہی،امام محمد بن جریر رحمہ اللہ نے ان سے پوچھا:جو شخص کہے کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ائمہ ہدیٰ نہیں ہیں تو اس کا کیا حکم ہے؟انہوں نے جواب دیا: وہ بدعتی ہے۔اس پر امام طبری رحمہ اللہ نے ان کی بات کا انکار کرتے ہوئے فرمایا: وہ بدعتی توہے ہی، واجب القتل بھی ہے۔پھرفرمایا:جو کہے کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ائمہ ہدیٰ نہیں،اسے قتل کر دیا جائے،اسے قتل کر دیا جائے۔‘‘
(تاریخ دمشق لابن عساکر : 200/52، 201، وسندہٗ صحیحٌ)
n امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں :
فَأَفْضَلُ أَصْحَابِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الصِّدِّیقُ أَبُو بَکْرٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ، ثُمَّ الْفَارُوقُ بَعْدَہٗ عُمَرُ، ثُمَّ ذُو النُّورَیْنِ عُثْمَانُ ابْنُ عَفَّانَ، ثُمَّ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ وَإِمَامُ الْمُتَّقِینَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ أَجْمَعِینَ ۔
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے فضیلت والے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ان کے بعد عمر فاروق کا مرتبہ ہے۔پھر سیدنا عثمان بن عفان ذوالنورین کا اور پھر امیر المومنین اور امام المتقین سیدنا علی بن ابو طالب]کا درجہ ہے۔‘‘
(صریح السنۃ، ص : 23)
مشہور شیعہ عالم،محمد باقر،مجلسی(م : 1111ھ)نے محمد بن جریر بن رستم طبری کے بارے میں لکھا ہے : وَلَیْسَ ھُوَ ابْنُ جَرِیرٍ التَّارِیخِيُّ الْمُخَالِفُ ۔
’’یہ ابن جریر وہ نہیں جو مؤرّخ اور شیعہ کے مخالف ہیں۔‘‘(بحار الأنوار : 40/1)
تنبیہ نمبر 1 :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) لکھتے ہیں:
مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ یَزِیْدَ الطَّبْرِيُّ، الْإِمَامُ الْجَلِیْلُ، الْمُفَسِّرُ، أَبُوْ جَعْفَرٍ، صَاحِبُ التَّصَانِیْفِ الْبَاہِرَۃِ، مَاتَ سَنَۃَ عَشَرَ وَثَلاَثِ مِائَۃٍ، ثِقَۃٌ صَادِقٌ، فِیْہِ تَشَیُّعٌ یَّسِیْرٌ، وَمَوَالاَۃٌ لَّا تَضُرُّ ۔
’’محمد بن جریر بن یزید طبری،امامِ جلیل القدر، مفسر ،ابو جعفر،شاندار کتابوں کے مصنف ہیں۔ 310ھ میں فوت ہوئے۔آپ ثقہ اور صادق تھے،البتہ آپ میں تھوڑا سا غیر مضر تشیع پایا جاتا تھا ۔‘‘(میزان الاعتدال : 498/3، 499)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی اس بات کے ردّ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَإِنَّمَا نُبِزَ بِالتَّشَیُّعِ، لأَِنَّہٗ صَحَّحَ حَدِیْثَ غَدِیْرَ خُمٍّ ۔
’’آپ پر تشیع کا الزام صرف اس بنا پر ہے کہ آپ رحمہ اللہ نے غدیرِ خم والی حدیث کو صحیح کہا ہے۔‘‘ (لسان المیزان : 100/5)
دوسری بات یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’سیر اعلام النبلائ‘‘ میں یہ الفاظ نہیں دہرائے،جو کہ آپ کی آخری تصانیف میں سے ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس بات سے رجوع کر لیا تھا۔علاوہ ازیں حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے ان الفاظ کو کسی اہل علم نے صحیح یا درست بھی نہیں قرار دیا،کیونکہ اس کی کوئی بنیاد نہیں۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ ’فِیْہِ تَشَیُّعٌ یِسِیْرٌ‘ اور متاخر اصطلاحِ شیعہ کے درمیان بہت فرق ہے۔اس سے مراد رافضی اور ہمارے دور کے شیعہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس ’تشیع‘کو علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے غیرمضر قرار دیا اور تب ہی تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام ابو جعفر ابن جریر طبری کو ثقہ، صادق، امام جلیل کہا ہے۔ فافہم و تدبر
تنبیہ نمبر 2 :
در حقیقت جب حافظ احمد بن علی سلیمانی رحمہ اللہ نے محمد بن جریر بن رستم ابو جعفر طبری رافضی پر جرح کی تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ سمجھ بیٹھے کہ شاید یہ جرح انہوں نے سنی امام محمد بن جریر بن یزید ابوجعفر طبری رحمہ اللہ پر کی ہے۔اسی وجہ سے انہوں نے یہ لکھا :
أَقْذَعَ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ السُّلَیْمَانِيِّ الْحَافِظُ، فَقَالَ : کَانَ یَضَعُ لِلرَّوَافِضِ، کَذٰا قَالَ السُّلَیْمَانِیُّ، وَہٰذَا رَجْمٌ بِالظَّنِّ الْکَاذِبِ، بَلِ ابْنُ جَرِیْرِ مِنْ کِبَارِ أَئِمَّۃِ الْإِسْلَامِ الْمُعْتَمِدِیْنِ، وَمَا نَدَّعِي عِصْمَتَہٗ مِنَ الْخَطَإِ، وَلَا یَحِلُّ لَنَا أَنْ نُّؤْذِیَہٗ بِالْبَاطِلِ وَالْہَوٰی، فَإِنَّ کَلَامَ الْعُلَمَائِ بَعْضُہُمْ فِي بَعْضٍ یَّنْبَغِي أَنْ یُّتَأَنّٰی فِیْہٖ، وَلَا سِیَمَا فِي مِثْلِ إِمَامٍ کِبِیْرٍ ۔
’’حافظ احمد بن علی سلیمانی نے زبان درازی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابن جریر روافض کے لیے احادیث گھڑتے تھے۔یہ ان کا جھوٹا گمان ہے،بلکہ ابن جریر تو قابل اعتماد کبار ائمہ اسلام میں سے ہیں۔ہم ان کے معصوم ہونے کے دعوے دار تو نہیں ہیں،لیکن ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم بے بنیاد باتوں اور ذاتی خواہشات کی بنا پر انہیں اذیت دیں۔علمائِ کرام کی ایک دوسرے کے متعلق جروح میں غور وفکر سے کام لینا ضروری ہے، خصوصاً جب ان جیسے بڑے امام کے متعلق بات ہو۔‘‘(میزان الاعتدال : 499/3)
دراصل سلیمانی کی یہ جرح ابن جریر بن رستم رافضی کے بارے میں تھی،علامہ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی اس سلسلے میں کچھ شبہ ہو گیا تھا۔اسی تذبذب کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ :
فَلَعَلَّ السُّلَیْمَانِيَّ أَرَادَ اْلآتِي ۔
’’شاید حافظ سلیمانی رحمہ اللہ اس (ابن جریر طبری رافضی کی تضعیف)کا ارادہ رکھتے تھے،جس کا ذکر ابھی آرہا ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 499/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے رد اور حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کے دفاع میں لکھا:
وَلَوْ حَلَفْتُ أَنَّ السُّلَیْمَانِيَّ مَا أَرَادَ إِلاَّ الْآتِي؛ لَبَرِرْتُ، وَالسُّلَیْمَانِيُّ حَافِظٌ مُّتْقِنٌ، کَانَ یَدْرِي مَا یَخْرُجُ مِنْ رَّأْسِہٖ، فَلاَ أَعْتَقِدُ أَنَّہٗ یَطْعَنُ فِي مِثْلِ ہٰذَا الْإِمَامِ بِہٰذَا الْبَاطِلِ ۔
’’اگر میں قسم بھی اُٹھا لوں کہ حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے بعد میں مذکور(ابن جریربن رستم طبری رافضی)ہی کو مراد لیا تھا، تو میری قسم پوری ہو گی۔ سلیمانی پختہ حافظ ہیں۔وہ اپنے منہ سے نکلنے والی بات کو جانتے تھے۔میں یہ خیال نہیں کر سکتا کہ وہ ابن جریر جیسے امام کے بارے میں جھوٹی تنقید کریں۔‘‘
(لسان المیزان : 100/5)
تنبیہ نمبر 3 :
حافظ ابو الفضل عراقی رحمہ اللہ (806-725ھ) لکھتے ہیں:
مُحَمَّدُ بْنُ جَرِیْرِ بْنِ رُسْتُمَ أَبُوْ جَعْفَرٍ الطَّبَرِيُّ،رَافِضِيٌّ خَبِیْثٌ، ذَکَرَہُ الْحَافِظُ عَبْدُ الْعَزِیْزِ الْکَتَانِيُّ، وَقَالَ : إِنَّہٗ رَافِضِيٌّ، وَلَہٗ مُؤَلَّفَاتٌ مِّنْہَا کِتَابُ الرُّوَاۃِ عَنْ أَہْلِ الْبَیْتِ، وَلَعَلَّ السُّلَیْمَانِيُّ إِنَّمَا أَرَادَ بِالتَّضْعِیْفِ ہٰذَا، فَإِنَّہٗ قَالَ فِیْہِ : إِنَّہٗ کَانَ یَضَعُ لِلَّرَوَافِضِ، فَذَکَرَ الذَّہَبِيُّ فِي الْمِیزَانِ مُحَمَّدَ بْنَ جَرِیْرٍ الطَّبَرِيَّ الْإِمَامَ الْمَشْہُورَ، وَذَکَرَ قَوْلَ السُّلَیْمَانِيِّ وَرَدَّہٗ، وَکَأَنَّہٗ لَمْ یَعْلَمْ بِأَنَّ فِي الرَّافِضَۃِ مَنْ شَارَکَہٗ فِي الْاِسْمِ وَاسْمِ الْـأَبِ وَالْکُنْیَۃِ وَالنِّسْبَۃِ، وَإِنَّمَا یَفْتَرِقَانِ فِي اسْمِ الْجَدِّ فَقَطْ، فَالرَّافِضِيُّ اسْمُ جَدِّہٖ رُسْتُمُ، وَالْإِمَامُ الْمَشْہُورُ اسْمُ جَدِّہٖ یَزِیْدُ، وَلَعَلَّ مَا حُکِيَ عَنْ مُّحَمَّدِ بْنَ جَرِیْرٍ الطَّبَرِيِّ مِنَ الِاکْتِفَائِ فِي الْوُضُوئِ بِمَسْحِ الرِّجْلَیْنِ؛ إِنَّمَا ہُوَ عَنْ ہٰذَا الرَّافِضِيِّ، فَإِنَّہٗ مَذْہَبُ الشِّیْعَۃِ ۔
’’محمد بن جریر بن رستم،ابو جعفر طبری خبیث رافضی ہے۔حافظ عبد العزیز کتانی نے اس کا ذکر کیا اور فرمایا کہ وہ رافضی ہے اور اس کی کچھ کتابیں بھی ہیں، جن میں ایک کتاب اہل بیت کے راویوں سے متعلق ہے۔شاید حافظ سلیمانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کا ارادہ کیا تھا اور اسی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ روافض کے لیے احادیث گھڑتا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان الاعتدال میں محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا جو کہ مشہور امام ہیں اور حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کا قول ذکر کرکے اس کا رد کر دیا۔گویا انہیں علم نہیں تھا کہ ایک رافضی بھی امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ کا ہم نام ہے اور اس کے باپ کے نام،کنیت اور نسب میں بھی اشتراک ہے۔ ان دونوں کا فرق صرف دادا کے نام پر جا کر ہوتا ہے۔رافضی کے دادا کا نام رستم اور مشہور امام کے دادا کا نام یزید ہے۔یوں لگتا ہے کہ محمد بن جریر طبری کے بارے میں جوحکایت نقل کی جاتی ہے کہ وہ وضو میں پائوں کے مسح کو کافی سمجھے تھے،وہ بھی دراصل اسی رافضی سے منقول ہے،کیونکہ یہ شیعہ ہی کا مذہب ہے۔‘‘(ذیل میزان الاعتدال، ص : 178، 179)
حافظ عراقی کو یہ بات لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ شاید ان کے پاس جو میزان الاعتدال کا نسخہ تھا، اس میں حافظ ذہبی کی عبارت فَلَعَلَّ السُّلَیْمَانِيُّ أَرَادَ الْآتِي‘ گر گئی ہو،ورنہ حافظ ذہبی نے تو امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید طبری سنی اور ابو جعفر محمد بن جریر بن رستم طبری رافضی میں خوب فرق کیا ہے۔ نیز دونوں کو الگ الگ ذکر کر کے سنی امام طبری کو امام جلیل اور ثقہ صادق کہا ہے،جبکہ محمد بن جریر بن رستم کو رافضی لکھا ہے۔
تنبیہ نمبر 4 :
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852-773ھ)لکھتے ہیں:
وَقَدِ اغْتَرَّ شَیْخُ شُیُوْخِنَا أَبُوْ حَیَّانَ بِکَلاَمِ السُّلَیْمَانِيِّ، فَقَالَ فِي الْکَلاَمِ عَلَی الصَّرَاطِ فِي أَوَائِلِ تَفْسِیْرِہٖ : وَقَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ الطَّبْرِيُّ، وَہُوَ إِمَامٌ مِّنْ أَئِمَّۃِ الْإِمَامِیَّۃِ، : الصِّرِاطُ بِالصَّادِ لُغَۃُ قُرَیْشٍ ۔۔۔، وَنَبَّہْتُ عَلَیْہِ لِئَلاَّ یُغْتَرَّ بِہٖ ۔
’’ہمارے اساتذہ کے استاذ ابو حیان کو حافظ سلیمانی رحمہ اللہ کی بات سے مغالطہ ہو گیا اور انہوں نے اپنی تفسیر کے شروع میں لفظ ِ’صراط‘کی تفسیر میں کہہ دیا ہے : ابو جعفر طبری،جو کہ امامی شیعہ کے ایک امام ہیں،کا کہنا ہے کہ لفظ ’ِصراط‘ صاد کے ساتھ لغت ِقریش ہے۔۔۔میں نے بطور تنبیہ یہ بات کردی ہے تاکہ کسی کو اس سے مغالطہ نہ ہو جائے۔‘‘(لسان المیزان : 100/5)
ہم کہتے ہیںکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ تفسیر ابو حیان میں ابو جعفر الطوسی کے بارے میں یہ لکھا ہے اور یہی درست ہے۔ہو سکتا ہے کہ تفسیر ابو حیان کا جو نسخہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پاس تھا، اس میں یہ غلطی ہو،یا خود حافظ رحمہ اللہ سے صرف ِنظر ہو گیا ہو،واللہ اعلم،کیونکہ تفسیر ابن جریر طبری میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
شیوخ کرام :
امام طبری رحمہ اللہ نے حصولِ علم کے لیے بہت سارے علاقوں کا سفر کیا۔آپ رحمہ اللہ نے محمد بن عبد الملک بن ابو شوارب ،اسماعیل بن موسیٰ سُدّی، اسحاق بن ابو اسرائیل، احمد بن منیع،ابو کریب محمد بن علا، ہناد بن سریّ، ابو ہمام سکونی، محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی، محمد بن بشار بندار، محمد بن مثنیٰ، حسن بن عرفہ، مہنا بن یحییٰ، علی بن سہل رملی، بشر بن معاذ عقدی، عمرو بن علی فلاس، زبیر بن بکار اور احمد بن سریج رازی رحمہم اللہ وغیرہ سے علم حاصل کیا۔
تلامذہ عظام :
امام طبرانی،احمد بن کامل القاضی،ابو بکر شافعی ،امام ابو احمد بن عدی اور خلق کثیر نے آپ سے اکتساب ِعلم کیا۔
تصانیف :
آپ کی مشہور تصانیف میں سے جامع البیان عن تأویل آي القرآن ہے،جو تفسیر طبری کے نام سے معروف ہے۔اس کے علاوہ تاریخ الأمم والملوک، تہذیب الآثار، التبصیر في معالم الدین، صریح السنّۃ آپ کی جلیل القدر تصانیف ہیں۔
وفات حسرت آیات :
اس دنیا میں کوئی بھی ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں آیا۔امامِ جلیل القدر کی وفات 310ھ میں ہوئی۔رحمہ اللّٰہ رحمۃ واسعۃ !

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.