1,374

امام الائمہ ابن خزیمہ، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

اللہ تعالیٰ نے دینِ قویم کی حفاظت کے لیے اپنے مخصوص بندوں کا انتخاب فرمایا، جنہیں محدثین کہا جاتا ہے۔ان کی منقبت و فضیلت میں امام ابن حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ) یوں رطب اللسان ہیں :
وَلَوْ لَمْ یَکُنِ الْإِسْنَادُ وَطَلَبُ ہٰذِہِ الطَّائِفَۃِ لَہ،؛ لَظَہَرَ فِي ہٰذِہِ الْـأُمَّۃِ مِنْ تَبْدِیلِ الدِّینِ مَا ظَہَرَ فِي سَائِرِ الْـأُمَمِ، وَذَاکَ أَنَّہ، لَمْ یَکُنْ أُمَّۃٌ لِّنَبِيٍّ قَطُّ حَفِظَتْ عَلَیْہِ الدِّینَ عَنِ التَّبْدِیلِ مَا حَفِظَتْ ہٰذِہِ الْـأُمَّۃُ، حَتّٰی لَا یَتَہَیَّأَ أَنْ یُزَادَ فِي سُنَّۃٍ مِّنْ سُنَنِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَلِفٌ وَّلَا وَاوٌ، کَمَا لَا یَتَہَیَّأُ زِیَادَۃُ مِثْلِہٖ فِي الْقُرْآنِ، فَحَفِظَتْ ہٰذِہِ الطَّائِفَۃُ السُّنَنَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، وَکَثُرَتْ عِنَایَتُہُمْ بِأَمْرِ الدِّینِ، وَلَوْلَاہُمْ لَقَالَ مِنْ شَاءَ بِمَا شَاءَ .
”اگر سند نہ ہوتی اور محدثین کی یہ جماعت سند کو حاصل نہ کرتی،تو باقی امتوں کی طرح اس امت میں بھی دین تحریف کا شکار ہو جاتا۔کسی بھی نبی کی امت نے تحریف سے اپنے دین کو اس قدر نہیں بچایا،جس قدر اس امت نے بچایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے کسی ایک حدیث میں بھی ‘الف’ اور’ واؤ’ تک بھی زائد نہیں ہو سکی،جیسا کہ قرآنِ کریم میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکا۔چنانچہ اس گروہِ محدثین نے مسلمانوں کے لیے احادیث ِنبویہ کو محفوظ کیا اور دینی امور میں خاص اہتمام سے کام لیا۔اگر محدثین کرام نہ ہوتے،تو ہر کوئی جو بھی کہنا چاہتا،کہتا چلا جاتا۔”(المجروحین : 25/1)
اسی طائفہ کے سرخیل امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ ہیں۔آئیے ان کے مختصر حالاتِ زندگی ملاحظہ فرمائیے۔
نام و نسب اور کنیت :
ابو بکر،محمد بن اسحاق بن خزیمہ بن مغیرہ بن صالح بن بکر،نیشاپوری۔
ولادت : آپ کی ولادت 223 ہجری میں ہوئی۔
رحلت ِعلمی :
محدث ِکبیر،ناقد ِحدیث اور جلیل القدر فقیہ،ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے حصولِ علم کے لیے رَے،بغداد،بصرہ،کوفہ،شام،جزیرہ،مصر اور اوسط کا سفر کیا۔کبار ائمہ حدیث سے اپنی علمی پیاس بجھائی۔
توٖصیف و توثیق :
n امام الوقت،حافظ،ابوعلی،حسین بن علی بن یزید نیشاپوری(349-277ھ) ایک اور محدث کے بارے میں فرماتے ہیں :
کَانَ أَبُو نُعَیْمٍ الْجُرْجَانِيُّ أَحَدُ الْـأَئِمَّۃِ، مَا رَأَیْتُ بِخُرَاسَانَ بَعْدَ أَبِي بَکْرٍ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، یَعْنِي ابْنَ خُزَیْمَۃَ، مِثْلَہ، أَوْ أَفْضَلَ مِنْہُ .
”ابو نعیم جرجانی ایک امام تھے۔میں نے خراسان میں ابوبکرمحمدبن اسحاق بن خزیمہ کے بعد ان جیسا یا ان سے افضل کوئی محدث نہیں دیکھا۔”
(تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 182/12، وسندہ، صحیحٌ)
یعنی خراسان کے علاقے میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سب سے بڑے محدث تھے۔
n حافظ،محمد بن احمد بن عثمان،ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں :
”یہ(ابو علی نیشاپوری)ایسا کہہ رہے ہیں،جنہوں نے امام نسائی رحمہ اللہ کو بھی دیکھا ہوا ہے۔”(سیر أعلام النبلاء : 272/14)
n آپ کے تلمیذ ِارشد،ثقہ امام،محدث وفقیہ،امام،ابو حاتم،محمد بن حبان بن احمد،ابن حبان رحمہ اللہ (م : 354ھ)ان کے بارے میں فرماتے ہیں :
وَمَا رَأَیْتُ عَلٰی أَدِیمِ الْـأَرْضِ مَنْ کَانَ یُحْسِنُ صَنَاعَۃَ السُّنَنِ، وَیَحْفَظُ الصِّحَاحَ بَأَلْفَاظِہَا، وَیَقُومُ بِزِیَادَۃِ کُلِّ لَفْظَۃٍ تُزَادُ فِي الْخَبَرِ ثِقَۃً، حَتّٰی کَأَنَّ السُّنَنَ کُلَّہَا نَصَبَ عَیْنَیْہِ إِلَّا مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَقَطْ .
”میں نے روئے زمین کے اوپر محمد بن اسحاق بن خزیمہ رحمہ اللہ کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا،جو حدیث کے فن میں ماہر ہو،نیزاسے ساری صحیح احادیث الفاظ سمیت یاد ہوں اور حدیث میں ہر اس لفظ کی زیادت کا اسے اہتمام ہو، جسے کسی ثقہ نے بیان کیا ہو۔گویا انہوں نے ساری احادیث کو یاد کرنا اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔”(کتاب المجروحین : 93/1)
امام عبد الرحمن بن ابو حاتم رحمۃ اللہ علیہ (327-240ھ)ان کی توثیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
ثِقَۃٌ، صَدُوقٌ . ”آپ ثقہ و صدوق امام تھے۔”
(الجرح والتعدیل : 196/7)
n امام،ابونضر،محمد بن محمد بن یوسف،طوسی،فقیہ(م : 344ھ) فرماتے ہیں:
إِمَامُ الْمُسْلِمِینَ فِي عَصْرِہٖ .
”آپ اپنے زمانے میں مسلمانوں کے امام تھے۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 425/1)
n امام ابو اسحاق،ابراہیم بن محمد بن یحییٰ،نیشاپوری رحمہ اللہ (م : 352ھ)امام موصوف کے بارے میں فرماتے ہیں:
إِمَامُ الْمُسْلِمِینَ أَبُو بَکْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ t .
”امام المسلمین ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہt۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 219/4)
n حافظ ابو یعلیٰ،خلیل بن عبد اللہ بن احمد،خلیلی رحمہ اللہ (446-367ھ) فرماتے ہیں :
اِتَّفَقَ فِي وَقْتِہٖ أَہْلُ الشَّرْقِ أَنَّہ، إِمَامُ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَلَہ، مِنَ التَّصَانِیفِ مَا لَا یُعَدُّ فِي الْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ .
”آپ کے دور میں اہل علم نے اس بات پر اتفاق کر لیا تھا کہ آپ امام الائمہ ہیں۔۔۔حدیث اور فقہ میں آپ کی بہت سی تصانیف ہیں۔”
(الإرشاد في معرفۃ الحدیث : 831/3، 832)
n ناقد ِرجال،حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں :
اَلْحَافِظُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، شَیْخُ الْإِسْلَامِ، إِمَامُ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَعَنٰی فِي حَدَاثَتِہٖ بِالْحَدِیثِ وَالْفِقْہِ، حَتّٰی صَارَ یُضْرَبُ بِہِ الْمَثَلُ فِي سِعَۃِ الْعِلْمِ وَالْإِتْقَانِ .
”حافظ،حجہ،فقیہ،شیخ الاسلام،امام الائمہ۔۔۔آپ نے نوجوانی ہی میں حدیث اور فقہ میں خصوصی اہتمام کیا،حتی کہ وسعت ِعلمی اور مضبوطی ئ حافظہ میں آپ ضرب المثل بن گئے۔”(سیر أعلام النبلاء : 365/14)
b نیز فرماتے ہیں :
وَقَدْ کَانَ ہٰذَا الْإِمَامُ جِہْبِذًا، بَصِیْراً بِالرِّجَالِ .
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بہت بڑے عالم تھے اور رواۃِ حدیث کے بارے میں اچھی معرفت رکھتے تھے۔”(سیر أعلام النبلاء : 373/14)
n مشہور سنی مفسر اور مؤرّخِ اسلام،حافظ،ابو فدا،اسماعیل بن عمر،ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ)فرماتے ہیں :
اَلْإِمَامُ أَبُو بَکْرِ بْنُ خُزَیْمَۃَ، الْمُلَقَّبُ بِإِمَامِ الْـأَئِمَّۃِ، ۔۔۔، وَہُوَ مِنَ الْمُجْتَہِدِینَ فِي دِینِ الْإِسْلَامِ .
”امام ابو بکر بن خزیمہ،جن کا لقب امام الائمہ ہے۔آپ دین اسلام کے ایک مجتہد تھے۔”(البدایۃ والنہایۃ : 170/11)
n امام،ابو العباس بن سریج کے ہاں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا ذکر ِخیر ہوا، تو آپ یوں گویا ہوئے :
یُخْرِجُ النُّکَتَ مِنْ حَدِیثِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمِنْقَاشِ .
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ بہت محنت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے نکات کا استخراج کرتے تھے۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : 83)
امام ابن جارود( 129)،امام ابن حبان(تقریباً 313 روایات)،امام دارقطنی رحمہ اللہ (204/1)اور امام حاکمS(36/1، ح : 160)وغیرہ نے آپ کی روایات ذکر کی ہیں۔
ناقد ِرجال،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کو اپنی کتاب [ذِکْرُ مَنْ یُّعْتَمَدُ قَوْلُہ، فِي الْجَرْحِ وَالتَّعْدِیلِ](ان لوگوں کا بیان کہ جرح و تعدیل میں جن کے قول پر اعتماد کیا جاتا ہے)میں ذکر کیا ہے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو اجتہاد و فقہ میں خصوصی ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔آپ ایک بلند پایہ فقیہ تھے۔حدیث کی صحت و ضعف میں خصوصی معرفت رکھتے تھے۔علل حدیث اور رواۃِ حدیث میں بہت ماہر تھے۔آپ کا فہم و تبصر بے مثال تھا۔
n امام،ابو عبد اللہ،حاکم رحمہ اللہ (405-321ھ)فرماتے ہیں :
فَضَائِلُ ہٰذَا الْإِمَامِ مَجْمُوعَۃٌ عِنْدِي فِي أَوْرَاقٍ کَثِیرَۃٍ .
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے فضائل میرے پاس بہت سے اوراق میں جمع شدہ موجود ہیں۔”(معرفۃ علوم الحدیث، ص : 83)
n علامہ ذہبی رحمہ اللہ (748-673ھ) فرماتے ہیں :
وَلِابْنِ خُزَیْمَۃَ عَظَمَۃٌ فِي النُّفُوسِ، وَجَلَالَۃٌ فِي الْقُلُوبِ، لِعِلْمِہٖ، وَدِینِہٖ، وَاتِّبَاعِہِ السُّنَّۃَ .
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے علم،ان کی دینداری اور اتباعِ سنت کی بنا پر(مؤمنوں کے)نفوس میں ان کی عظمت اور دلوں میں جلالت ِشان موجود ہے۔”
(سیر أعلام النبلاء : 374/14)
علمی ورثہ :
آپ رحمہ اللہ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔البتہ ان میں سے دو کتابیں ”صحیح ابن خزیمہ”اور ”کتاب التوحید”مطبوع ہیں۔اول الذکر کا مکمل نام یہ ہے :
اَلْمُسْنَدُ الصَّحِیحُ الْمُتَّصِلُ بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ مِنْ غَیْرِ قَطْعٍ فِي السَّنَدِ وَلَا جَرْحٍ فِي النَّقَلَۃِ .
(صحیح ابن خزیمۃ : 3/1، 186/3، النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر : 291/1)
صحیح ابن خزیمہ فقہِ اسلامی کا عظیم شاہکار ہے۔
اس کے بارے میں امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ (463-392ھ)فرماتے ہیں :
شَرَطَ فِیہِ عَلٰی نَفْسِہٖ إِخْرَاجَ مَا اتَّصَلَ سَنَدُہ، بِنَقْلِ الْعَدْلِ عَنِ الْعَدْلِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”امام صاحب نے اپنے اوپر لازم کیا تھا کہ اس کتاب میں صرف وہ احادیث نقل کریں گے،جن کی سند عادل راویوں پر مشتمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہو۔”(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع : 185/2)
”کتاب التوحید”بھی اہل سنت کے عقیدے پر ایک مدلل اور جامع کتاب ہے۔
شیوخ عظام :
آپ رحمہ اللہ کے اساتذہ کرام کی تعداد ہزاروں میں ہے۔چند مشہور شیوخ کے اسماءِ گرامی یہ ہیں :
n احمد بن سنان واسطی n عباس بن عبد العظیم عنبری n ابو زرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم رازی n عمرو بن فلاس n ابو حاتم محمد بن ادریس رازی n ابوبکر محمد بن اسحاق صاغانی n موسیٰ بن خاقان بغدادی n یعقوب بن سفیان فارسی nیعقوب بن ابراہیم دورقی n علی بن خشرم مروزی n علی بن سعید نسوی n علی بن مسلم طوسی n علی بن سہل رملی n علی بن عبد الرحمن بن مغیرہ مصری n محمد بن بشار بندار وغیرہ۔
تلامذہ کرام :
بے شمار انسانوں نے آپ رحمہ اللہ سے دین سیکھا، ان میں سے چند ایک یہ ہیں :
n ابو ولید حسان بن محمد فقیہ n ابو احمد حسین بن علی بن محمد تیمی،المعروف بہ حُسَینک نیشاپوری n ابو علی حسین بن محمد نیشاپوری n ابو احمد عبد اللہ بن احمد جرجانی n ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری n ابو الحسن محمد بن حسین آبری n ابو حاتم محمد بن حبان تمیمی سجستانی n ابو احمد محمد بن محمد حاکم کرابیسی نیشاپوری n مسلم بن حجاج قشیری نیشاپوری n ابو حامد بن شرقی وغیرہ۔
اقوالِ زرّیں :
اب امام موصوف رحمہ اللہ کے کچھ اقوالِ زرّیں ملاحظہ فرمائیں :
b لَیْسَ لِأَحَدٍ مَّعَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلٌ إِذَا صَحَّ الْخَبَرُ عَنْہُ .
”جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ثابت ہو جائے،تو اس کے مقابلے میں کسی کے لیے کچھ بھی کہنا جائز نہیں۔”(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : 84، وفي نسخۃ، ص : 105، الفقیہ والمتفقّہ للخطیب : 536/1، وسندہ، صحیحٌ)
b أَنَا عَبْدٌ لِّأَخْبَارِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا غلام ہوں۔”
(الفقیہ والمتفقّہ للخطیب البغدادي : 289/1، وسندہ، حسنٌ)
عقیدہئ سلف صالحین :
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ سلف صالحین کے عقیدے پر کاربند تھے۔ملاحظہ فرمائیں :
استواء علی العرش :
b امام صاحب فرماتے ہیں :
مَنْ لَّمْ یُقِرَّ بِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی عَلٰی عَرْشِہٖ، قَدِ اسْتَوٰی فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتِہٖ، فَہُوَ کَافِرٌ بِرَبِّہٖ، یُسْتَتَابُ، فَإِنْ تَابَ، وَإِلَّا ضُرِبَتْ عُنُقُہ،، وَأُلْقِيَ عَلٰی بَعْضِ الْمَزَابِلِ، حَیْثُ لَا یَتَأَذَّی الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُعَاہَدُونَ بِنَتَنِ رِیحِ جِیفَتِہٖ، وَکَانَ مَالُہ، فَیْئًا لَّا یَرِثُہ، أَحَدٌ مِّنَ الْمُسْلِمِینَ، إِذِ الْمُسْلِمُ لَا یَرِثُ الْکَافِرَ، کَمَا قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہونے کا اقراری نہ ہو،وہ اپنے ربّ کے ساتھ کفر کرتا ہے۔اسے توبہ کا کہا جائے گا، اگر توبہ کر لے،تو اچھا ہے،ورنہ (اسلامی حکومت کی طرف سے)اسے قتل کر کے اس کی لاش کسی کوڑے والی جگہ پر پھینک دی جائے،جہاں اس کی بدبو سے مسلمان اور ذمی لوگ پریشان نہ ہوں۔اس کا مال فَے بن جائے گا، کوئی مسلمان اس کا وارث نہیں بن سکتا،کیونکہ نبی اکرمtکے فرمانِ گرامی کے مطابق ایک مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔”
(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم، ص : 84، وفي نسخۃ، ص : 105، وسندہ، صحیحٌ)
n اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مَنْ أَقَرَّ بِذٰلِکَ تَصْدِیْقاً لِّکِتَابِ اللّٰہِ، وَلِأَحَادِیْثِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَآمَنَ بِہٖ مُفَوِّضًا مَّعْنَاہُ إِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَلَمْ یَخُضْ فِي التَّأْوِیْلِ وَلاَ عَمَّقَ، فَہُوَ الْمُسْلِمُ الْمُتَّبِعُ، وَمَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ، فَلَمْ یَدْرِ بِثُبُوْتِ ذٰلِکَ فِي الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَہُوَ مُقَصِّرٌ، وَاللّٰہُ یَعْفُو عَنْہُ، إِذْ لَمْ یُوجِبِ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ حِفظَ مَا وَرَدَ فِي ذٰلِکَ، وَمَنْ أَنکَرَ ذٰلِکَ بَعْدَ الْعِلْمِ، وَقَفَا غَیْرَ سَبِیْلِ السَّلَفِ الصَّالِحِ، وَتَمَعْقَلَ عَلَی النَّصِّ، فَأَمْرُہ، إِلَی اللّٰہِ، نَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الضَّلاَلِ وَالْہَوٰی، وَکَلاَمُ ابْنِ خُزَیْمَۃَ ہٰذَا – وَإِنْ کَانَ حَقّاً- فَہُوَ فَجٌّ، لاَ تَحْتَمِلُہ، نُفُوْسُ کَثِیْرٍ مِّنْ مُتَأَخِّرِي الْعُلَمَاءِ .
”جو شخص کتاب اللہ اور سنت ِرسول کی تصدیق کرتے ہوئے استوا علی العرش کے عقیدے کا اقرار کرتا ہے ،اس کے معنیٰ(کیفیت)کو اللہ ورسول کے سپرد کرتے ہوئے اس پر ایمان لاتا ہے اور اس کی تاویل میں زیادہ غور وخوض نہیں کرتا،وہی شخص متبع مسلمان ہے۔جو شخص اس عقیدے کا اس وجہ سے انکاری ہو کہ کتاب وسنت سے اس بارے میں ثبوت اسے معلوم نہ ہو،تو وہ گناہ گار ہے،لیکن اسے اللہ تعالیٰ معاف کر دے گا،کیونکہ اللہ نے ہر مسلمان پر اس بارے میں وارد ہونے والی نصوص کو یاد کرنا فرض نہیں کیا۔البتہ جو شخص علم ہو جانے کے بعد اس کا انکار کرے، سلف صالحین کے علاوہ کسی اور کے نقش قدم پر چلے اور اس بارے میں نص کو اپنی عقل کی بھینٹ چڑھا دے،تو اللہ تعالیٰ اس سے حساب کر لے گا۔ہم گمراہی و نفس پرستی سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا کلام اگرچہ بالکل برحق ہے،لیکن یہ ایک مشکل امر ہے،اکثر متاخرین علماءِ کرام کے نفوس اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔”
(سیر أعلام النبلاء : 373/14، 374)
صفات ِباری تعالیٰ :
b صفات ِباری تعالیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں :
فَنَحْنُ وَجَمِیعُ عُلَمَائِنَا مِنْ أَہْلِ الْحِجَازِ، وَتِہَامَۃَ، وَالْیَمَنِ، وَالْعِرَاقِ، وَالشَّامِ، وَمِصْرَ، مَذْہَبُنَا أَنَّا نُثْبِتُ لِلّٰہِ جَلَّ وَعَلَا مَا أَثْبَتَہ، لِنَفْسِہٖ، نُقِرُّ بِذٰلِکَ بِأَلْسِنَتِنَا وَنُطَبِّقُ بِذٰلِکَ بِقُلُوبِنَا، مِنْ غَیْرِ أَنْ نُّشَبِّہَ وَجْہَ خَالِقِنَا بِوَجْہِ أَحَدٍ مِّنَ الْمَخْلُوقِینَ، وَعَزَّ رَبُّنَا عَنْ أَنْ نُّشَبِہَہ، بِالْمَخْلُوقِینَ، وَجَلَّ رَبُّنَا عَنْ مَّقَالَۃِ الْمُعَطِّلِینَ، وَعَزَّ أَنْ یَّکُونَ عَدَمًا کَمَا قَالَہُ الْمُبْطِلُونَ، لِأَنَّ مَا لَا صِفَۃَ لَہ، عَدَمٌ، تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الْجَہْمِیُّونَ الَّذِینَ یُنْکِرُونَ صِفَاتِ خَالِقِنَا، الَّذِي وَصَفَ بِہَا نَفْسَہ، فِي مُحْکَمِ تَنْزِیلِہٖ، وَعَلٰی لِسَانِ نَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”ہم اور حجاز،تہامہ،یمن،عراق،شام اور مصر کے ہمارے تمام علماء ِکرام کا مذہب یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے وہ تمام صفات ثابت کرتے ہیں،جو اس نے خود اپنے لیے ثابت کی ہیں۔ہم ان صفات کا زبان سے اقرار بھی کرتے ہیں اور دل سے ان کی تصدیق بھی۔ہم اپنے خالق کے چہرے کو مخلوق میں سے کسی کے چہرے سے تشبیہ نہیں دیتے۔ہمارا رب اس سے بہت بلند ہے کہ ہم اسے مخلوق سے تشبیہ دیں۔ہمارا رب معطلہ کی بنائی گئی باتوں سے بھی پاک ہے۔معطلہ نے اللہ تعالیٰ کو معدوم قرار دیا ہے،کیونکہ جس چیز کی کوئی صفت نہیں ہوتی، وہ معدوم ہی تو ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ان جہمیہ کی باتوں سے بھی بلند ہے،جو ہمارے خالق کی صفات کا انکار کرتے ہیں،جس نے اپنی محکم کتاب میں اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنی صفات بیان فرمائی ہیں۔”
(کتاب التوحید وإثبات صفات الربّ : 26/1)
وفات حسرت آیات :
علم و فقہ ،ورع و تقویٰ اور اتباعِ سنت کا یہ پیکر 311 ہجری میں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔ فجزاہ اللّٰہ عن الإسلام خیرًا .

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.