997

اسم محمد سے تبرک، غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک نام سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں،حالانکہ اسلافِ امت،یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین،سب سے بڑھ کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم و تعظیم کرنے والے تھے،نیز قرآن و حدیث کی نصوص بہ خوبی ان کے مدنظر تھیں۔
بعض الناس کا کہناہے کہ اسم ’’محمد‘‘(صلی اللہ علیہ وسلم)سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے۔اس حوالے سے ان کا دامن دلائل سے تو خالی ہے،البتہ غلو سے بھرپور ہے۔ان کے مزعومہ دلائل کا مختصر اور جامع جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1 :
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’مَنْ وُّلِدَ لَہٗ مَوْلُودٌ، فَسَمَّاہُ مُحَمَّدًا تَبَرُّکًا بِہٖ؛ کَانَ ہُوَ وَمَوْلُودُہٗ فِي الْجَنَّۃِ‘ ۔
’’جس نے اپنے پیدا ہونے والے بچے کا نام تبرکاً محمد رکھا،وہ اور اس کا بچہ دونوں جنتی ہوں گے۔‘‘(فضائل التسمیۃ لابن بکیر : 30، مشیخۃ قاضي المارستان : 453)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے۔اسے تراشنے والا حامد بن حماد بن مبارک عسکری ہے،جیسا کہ :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اَلْمُتَّہِمُ بِوَضْعِہٖ حَامِدُ بْنُ حَمَّادِ الْعَسْکَرِيُّ ۔
’’اس حدیث کو گھڑنے کا الزام حامد بن حماد عسکری کے سر ہے۔‘‘
(تلخیص کتاب الموضوعات،ص:35)
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے الموضوعات(157/1) میں ذکر کیا ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’موضوع‘‘(من گھڑت)کہا ہے۔
(میزان الاعتدال : 447/1)
b حافظ سیوطی(اللآلي المصنوعۃ : 106/1)کا اس جھوٹی روایت کی سند کو ’’حسن‘‘کہنا انتہائی تساہل ہے۔
بعض الناس کو چاہییکہ وہ حامد بن حماد بن مبارک عسکری کی کسی ایک ثقہ امام سے توثیق ثابت کریں،ورنہ تسلیم کریں کہ ان کے حصے میں من گھڑت دلائل آئے ہیں۔
دلیل نمبر 2 :
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمکی طرف ایک منسوب روایت یوں ہے :
’قَالَ اللّٰہُ : وَعِزَّتِي وَجَلالِي، لَا أُعَذِّبُ أَحَدًا سُمِّيَ بِاسْمِکَ بِالنَّارِ، یَا مُحَمَّدُ‘ ۔
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اے محمد!مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم!جس کا نام آپ کے نام پر رکھا جائے گا،میں اسے آگ کا عذاب نہیں دوں گا۔‘‘
(معجم الشیوخ للذہبي : 42/3، 43)
تبصرہ :
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو جھوٹی اور باطل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
وَنُسْخَۃُ نُبَیْطٍ؛ نُسْخَۃٌ مَّوْضُوعَۃٌ بِلاَ رَیْبٍ، فَلَا تَغْتَرُّوا بِعُلُوِّہَا، فَاللُّکِّيُّ تَکَلَّمَ فِیہِ ابْنُ مَاکُولَا وَغَیْرُہٗ، وَشَیْخُہٗ أَحْمَدُ؛ أَحْسِبُہٗ ہُوَ وَاضِعُ النُّسْخَۃِ ۔
’’نبیط کے نسخہ کے من گھڑت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔اس کے عالی ہونے سے دھوکہ مت کھائو،کیونکہ لُکَّیْ کے بارے میں ابن ماکولا وغیرہ نے جرح کر دی ہے۔میرے خیال کے مطابق اس نسخے کو گھڑنے والا اس کا استاذ احمد ہے۔‘‘
(معجم الشیوخ : 43/3)
b علامہ،محمد طاہر پٹنی،حنفی نے اسے تذکرۃ الموضوعات(89)میں ذکر کیا ہے۔
b اسی طرح ابن عراق کنانی نے تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ(226/1)میں ذکر کیا ہے۔
دلیل نمبر 3 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہسے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’یُوقَفُ عَبْدَانِ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ، فَیَأْمُرُ بِہِمَا إِلَی الْجَنَّۃِ، فَیَقُولَانِ : رَبَّنَا بِمَ اسْتَأْہَلْنَا دُخُولَ الْجَنَّۃِ، وَلَمْ نَعْمَلْ عَمَلًا تُجَازِینَا بِہِ الْجَنَّۃَ ؟ فَیَقُولُ اللّٰہُ : أَدْخِلَا عَبْدَيَّ، فَإِنِّي آلَیْتُ عَلٰی نَفْسِي أَلَّا یَدْخُلَ النَّارَ مَنِ اسْمُہٗ أَحْمَدُ وَمُحَمَّدٌ‘ ۔
’’دو آدمی اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کرنے کا حکم فرمائے گا۔اس پر وہ دونوں کہیں گے :ہمارے ربّ!ہم جنت میں داخل ہونے کے حق دار کیسے ہوئے،حالانکہ ہم نے ایسا کوئی عمل نہیں کیا،جس کے بدلے میں تُو ہمیں جنت دیتا؟اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میرے ان دونوں بندوں کو جنت میں داخل کر دو، کیونکہ میں نے اپنے آپ پر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں نہیں جائے گا،جس کا نام محمد یا احمد ہو گا۔‘‘(فضائل التسمیۃ لابن بکیر : 1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ہٰذَا حَدِیْثٌ لاَّ أَصْلَ لَہٗ ۔
’’اس روایت کی کوئی اصل نہیں۔‘‘(الموضوعات : 157/1)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کو باطل قرار دے کر اس کے راوی احمد بن نصر بن عبداللہ ذارع کے بارے میں کہتے ہیں:
ذَاکَ الْکَذَّابُ ۔
’’یہ جھوٹا شخص ہے۔‘‘(میزان الاعتدال : 313/2)
b اس کے راوی صدقہ بن موسیٰ بن تمیم کے بارے میں حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہٰذَا الشَّیْخُ مَجْہُوْلٌ، وَقَدْ رَوٰی عَنْہُ الذَّارِعُ أَحَادِیْثَ مُنْکَرَۃً، وَالْحَمْلُ فِیْہَا عِنْدِي عَلَی الذَّارِعِ ۔
’’یہ مجہول راوی ہے۔ذارع نے اس سے جھوٹی روایات بیان کر رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اس کار روائی کا بوجھ ذارع کے سرپر ہے۔‘‘(تاریخ بغداد : 333/9)
b اس کا باپ موسیٰ بن تمیم بن ربیعہ بھی ’’مجہول‘‘ہے۔
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
سَنَدُہٗ مُظْلِمٌ، وَہُوَ مَوْضُوْعٌ ۔
’’اس کی سند اندھیری ہے جو کہ گھڑی ہوئی ہے۔‘‘
(تلخیص کتاب الموضوعات، ص : 34،ح : 52)
b شیخ الاسلام ثانی،علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (751-691ھ)لکھتے ہیں:
وَہٰذَا مُنَاقِضٌ، لِمَا ہُوَ مَعْلُومٌ مِّنْ دِینِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّارَ لاَ یُجَارُ مِنْہَا بِالْـأَسْمَائِ وَالْـأَلْقَابِ، وَإِنَّمَا النَّجَاۃُ مِنْہَا بِالْإِیمَانِ وَالْـأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ ۔
’’یہ واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکے لائے ہوئے دین کے خلاف ہے،کیونکہ اسما و القاب نارِ جہنم سے بچا نہیں پائیں گے،بلکہ نجات کا دارو مدار صرف ایمان اور اعمالِ صالحہ پر ہے۔‘‘(المنار المنیف في الصحیح والضعیف، ص : 57)
دلیل نمبر 4 :
حافظ سیوطی من گھڑت روایات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی سند سے مرفوعاً ذکر کرتے ہیں:
’إِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؛ نَادٰی مُنَادٍ : یَا مُحَمَّدُ، قُمْ، فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ، فَیَقُومُ کُلُّ مَنِ اسْمُہٗ مُحَمَّدٌ، فَیَتَوَہَّمُ أَنَّ النِّدَائَ لَہٗ، فَلِکَرَامَۃِ مُحَمَّدٍ لَا یُمْنَعُونَ‘ ۔
’’روز ِقیامت ایک منادی یہ پکارے گا:اے محمد!کھڑے ہو جائیں اورجنت میں بغیر حساب داخل ہو جائیں۔اس پر ہر محمد نامی شخص اس توہم میں اٹھ جائے گا کہ اس کا نام بھی محمد ہے۔مگر محمد نام کی برکت کی وجہ سے کسی کو(جنت جانے سے)روکا نہیں جائے گا۔‘‘(اللآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ : 97/1)
تبصرہ:
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
b اسے بیان کرنے کے بعد حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
ہٰذَا مُعْضَلٌ، سَقَطَ مِنْہُ عِدَّۃُ رِجَالٍ ۔
’’یہ سندمعضل(منقطع)ہے،اس کے کئی ایک راوی گر گئے ہیں۔‘‘(أیضًا)
اس میں اور کئی خرابیاں بھی ہیں۔
b ابن عراق کنانی کہتے ہیں:
قَالَ بَعْضُ أَشَیَاخِي : ہٰذَا حَدِیْثٌ مَّوْضُوْعٌ بِلَا شَکٍّ ۔
’’میرے بعض اساتذہ نے فرمایا : یہ حدیث بلاشک و شبہ موضوع (من گھڑت) ہے۔‘‘(تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ : 226/1)
دلیل نمبر 5 :
b امیر المومنین،سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے :
إِذَا سَمَّیْتُمُ الْوَلَدَ مُحَمَّدًا؛ فَأَکْرِمُوہُ وَأَوْسِعُوا لَہُ الْمَجْلِسَ، وَلَا تُقَبِّحُوا لَہٗ وَجْہًا ۔
’’جب تم کسی بچے کا نام محمد رکھو تو اس کی عزت کرو،اس کے لیے مجلس کشادہ رکھو اور اس کے چہرے کے عیوب بیان نہ کرو۔‘‘(فضائل التسمیۃ لابن بکیر : 26)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’منکر المتن‘‘قرار دیا ہے۔
(سیر أعلام النبلاء : 386/9)
نیز فرماتے ہیں:
عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَبِیْہِ، عَنْ عَلِيٍّ الرَّضَا، عَنْ آبَائِہٖ، بِتِلْکَ النُّسْخَۃِ الْمَوْضُوْعَۃِ الْبَاطِلَۃِ، مَا تَنْفَکُّ عَنْ وَّضْعِہٖ أَوْ وَضْعِ أَبِیْہِ ۔
’’عبداللہ بن احمد بن عامر، اپنے باپ،علی رضا اور ان کے آباو اجداد سے یہ من گھڑت اور جھوٹا نسخہ بیان کرتا ہے،جو یا تو اس کی اپنی گھڑنتل ہے یا اس کے باپ کی۔‘‘(میزان الاعتدال : 390/2)
b عبداللہ بن احمد بن عامر کے بارے میں حسن بن علی زہری کہتے ہیں:
کَانَ أُمِّیًّا، لَمْ یَکُنْ بِالْمَرْضِيِّ ۔
’’وہ ایک جاہل اور غیر معتبر شخص تھا۔‘‘
(سؤالات السہمي للدارقطني : 339، تاریخ بغداد للخطیب : 394/9)
b اس روایت کی ایک سند تاریخ بغداد(90/3) میں آتی ہے،لیکن یہ سند بھی جھوٹی ہے،کیونکہ اسے بیان کرنے والے ابواسماعیل علی بن حسین،حسین بن حسن محمد بن قاسم اور اس کے باپ سمیت سب کی توثیق درکار ہے۔
b اس کی تیسری سند مسندبزار(کشف الأستار : 413/2،ح : 1988)میں بھی آتی ہے۔لیکن یہ بھی سخت ترین ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ اس کے راوی غسان بن عبیداللہ راسبی کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔نیز یوسف بن نافع بن عبداللہ بن نافع راوی ــ’’مجہول الحال‘‘ ہے۔سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات : 281/9)کے کسی نے اسے ’’ثقہ‘‘ نہیں کہا۔
دلیل نمبر 6 :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’إِذَا سَمَّیْتُمُوْہُ مُحَمَّدًا؛ فَلاَ تُجَبِّہُوْہُ، وَلاَ تُحَرِّمُوْہُ، وَلَا تُقَبِّحُوْہُ، بُوْرِکَ فِي مُحَمَّدٍ، وَفِي بَیْتٍ فِیْہِ مُحَمَّدٌ، وَمَجْلِسٌ فِیْہِ مُحَمَّدٌ‘ ۔
’’جب تم بچے کا نام محمد رکھو،تو نہ اس کے ساتھ سختی کرو،نہ اس کی تنقیص کرو اور نہ اس کی برائی بیان کرو۔نیز محمد نام ،جس گھر میں محمد نامی بچہ ہو اور جس مجلس میں محمد نامی شخص ہو، اس میں برکت ہو گی۔‘‘
(سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ وأثرھا السيّء في الأمّۃ للألباني : 2574)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
1 سفیان بن وکیع راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
2 سفیان بن ہارون قاضی کی توثیق درکار ہے۔
3 ابو الزبیر ’’مدلس‘‘ہیں اور ان کے سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
دلیل نمبر 7 :
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي مَشُورَۃٍ مَّعَہُمْ رَجُلٌ، اسْمُہٗ مُحَمَّدٌ، وَلَمْ یُدْخِلُوہُ فِي مَشُورَتِہِمْ؛ إِلَّا لَمْ یُبَارَکْ لَہُمْ فِیہَا‘ ۔
’’جو قوم مشورے کے لیے جمع ہوتی ہے اور ان میں کوئی محمد نامی شخص ہو اور وہ اسے مشورے میں شریک نہ کریں تو اس مشورے میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘
(فضائل التسمیۃ لابن بکیر : 9، موضح أوہام الجمع والتفریق للخطیب البغدادي : 446/1)
تبصرہ :
یہ سخت ترین ’’ضعیف‘‘ سند ہے،کیونکہ احمد بن حفص جزری کون ہے؟معلوم نہیں۔
ایک سند میں احمدالشامی کے نام سے مذکور ہے۔اس کے بارے میں :
b امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مُنْکَرُ الْحَدِیِثِ، وَ لَیْسَ بِالْمَعْرُوْفِ ۔
’’یہ منکر الحدیث اور غیر معروف شخص ہے۔‘‘(الکامل في ضعفاء الرجال : 141/1)
b دیلمی کی سند میں احمد بن جعفر حرانی کا ذکر ہے۔
b (اللآّلي المصنوعۃ للسیوطي : 96/1) میں بھی ’’مجہول‘‘راوی موجود ہے۔
b تاریخ ابن النجار میں بھی اس بارے میں ایک موضوع سند مذکور ہے۔اس کے راوی ابوبکر محمد بن احمد بن محمد حفید کے بارے میں :
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَہُوَ مُتَّہَمٌ ۔
’’اس راوی کو روایت ِحدیث میں مورد ِالزام ٹھہرایا گیا ہے۔‘‘
(میزان الاعتدال : 461/3)
نیز فرماتے ہیں:
لَیْسَ بِثِقَۃٍ ۔
’’یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘(سیر أعلام النبلاء : 389/9)
b اسے حافظ سیوطی نے بھی ’’متہم‘‘کہا ہے۔(اللآّلي المصنوعۃ : 96/1)
b فضائل التسمیۃ بأحمد و محمّد لابن بکیر(4)میں بھی اس کا ایک ’’موضوع‘‘(من گھڑت) شاہد آتا ہے۔
عبداللہ بن احمد بن عامر طائی اور اس کے باپ احمد بن عامر طائی دونوں کا حال بیان ہو چکا ہے۔یہ روایت انہی دونوں کی کار روائی ہے۔
یوں یہ روایت ناقابل اعتبار ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ اسے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’غیر محفوظ‘‘کہا ہے۔(الکامل في ضعفاء الرجال : 140/1)
دلیل نمبر 8 :
محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں:
’مَا ضَرَّ أَحَدَکُمْ لَوْ کَانَ فِي بَیْتِہٖ مُحَمَّدٌ وَمُحَمَّدَانِ وَثَلَاثَۃٌ‘ ۔
’’اگر تم میں سے کسی ایک کے گھر میں ایک، دو یا تین محمد نامی شخص ہوں گے تو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘(الطبقات الکبرٰی لابن سعد : 54/5)
تبصرہ :
یہ روایت ’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے،کیونکہ عثمان عمری صحابی نہیں،لیکن نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمسے بغیر کسی واسطے کے بیان کر رہا ہے۔
دلیل نمبر 9 :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما سے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’مَا أُطْعِمَ طَعَامٌ عَلٰی مَائِدَۃٍ، ولاَ جُلِسَ عَلَیْہَا، وَفِیہَا اسْمِي؛ إِلاَّ قُدِّسُوا کُلَّ یَوْمٍ مَّرَّتَیْنِ‘ ۔
’’جس بھی دستر خوان پر کھانا کھایا جائے اور جس بھی مجلس میں بیٹھا جائے،اگر اس میں میرا نام ہو، تو ہر دن انہیں دو مرتبہ پاک کیا جائے گا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 275/1، موضح أوہام الجمع والتفریق للخطیب : 447/1، العلل المتناہیۃ لابن الجوزي : 267)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے۔اسے ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ’’غیر محفوظ‘‘ قرار دیاہے،کیونکہ :
1 اس کے راوی احمد بن کنانہ شامی کے بارے میں امام صاحب فرماتے ہیں:
مُنْکَرُ الْحَدِیِثِ، وَ لَیْسَ بِالْمَعْرُوْفِ ۔
’’یہ منکر الحدیث اور غیر معروف شخص ہے ۔‘‘(الکامل : 274/1)
2 اس روایت کی صحت کے لیے امام ابن عدی رحمہ اللہ کے استاذ یحییٰ بن عبدالرحمن بن ناجیہ حرانی کی توثیق بھی درکار ہے۔
دلیل نمبر 0 :
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنھما ہی سے منسوب ایک مرفوع روایت ہے :
’لَیْسَ أَحَدٌ مِّنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ؛ إِلاَّ یُدْعٰی بِاسْمِہٖ، إِلَّا آدَمَ‘ ۔
’’سیدنا آدمu کے علاوہ ہر جنتی کو نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکے نام سے پکارا جائے گا۔‘‘
(المجروحین لابن حبّان : 76/3، تاریخ بغداد للخطیب : 463/3)
تبصرہ :
یہ بھی جھوٹی روایت ہے،کیونکہ :
b اس کو گھڑنے کا کارنامہ وہب بن حفص حرانی نے سرانجام دیا ہے ۔اس کے بارے میں :
b ابو عروبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
کَذَّابٌ، یَضَعُ الْحَدِیْثَ ۔
’’یہ جھوٹا تھا اور اپنی طرف سے احادیث گھڑا کرتا تھا۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 344/8)
b امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
وَکُلُّ أَحَادِیْثِہٖ مَنَاکِیْرُ، غَیْرُ مَحْفُوْظَۃٍ ۔
’’اس کی ساری کی ساری روایات جھوٹی اور غیر محفوظ ہیں۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال : 347/8)
b اس کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یَضَعُ الْحَدِیْثَ ۔
’’یہ اپنی طرف سے احادیث گھڑا کرتا تھا۔‘‘(تاریخ بغداد للخطیب : 463/13)
b اس روایت کو حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے الموضوعات (257/3)میں ذکر کیا ہے۔
b الکامل لابن عدي(74/5)میں اس کی ایک دوسری سند بھی ہے،مگر یہ بھی جھوٹی سند ہے، کیونکہ اس کاراوی شیخ بن خالد صوفی بصری جھوٹی احادیث گھڑنے والا تھا۔
b امام ابن عدی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:
وَشَیْخُ ابْنُ أَبِي خَالِدٍ ہٰذَا؛ لَیْسَ بِمَعْرُوْفٍ، وَہٰذِہِ الْـأَحَادِیْثُ الَّتِي رَوَاہَا عَنْ حَمَّادٍ بِہٰذَا الْإِسْنَادِ؛ بَوَاطِیْلُ کُلُّہَا ۔
’’ابن ابی خالد کا استاذ غیر معروف ہے۔حماد کے حوالے سے بیان کی جانے والی اس کی یہ ساری روایات جھوٹی ہیں۔‘‘ (أیضاً)
b امام ابن حبان رحمہ اللہ اس روایت کو باطل اور ’’موضوع‘‘(جھوٹی)قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
لَا یَجُوْزُ الِْاحْتِجَاجُ بِہٖ (شَیْخِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ) بِحَالٍ ۔
’’کسی بھی حالت میں ابن ابی خالد کے استاذ کی روایت سے دلیل لینا جائز نہیں۔‘‘
(المجروحین : 364/1)
b اس روایت میں اور بھی خرابیاں ہیں۔
دلیل نمبر ! :
امیرالمومنین،سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
’أَہْلُ الْجَنَّۃِ؛ لَیْسَتْ لَہُمْ کُنًی إِلاَّ آدَمُ، فَإِنَّہٗ یُکَنّٰی بِأَبِي مُحَمَّدٍ تَوْقِیرًا وَّتَعْظِیمًا‘ ۔
’’سیدنا آدمuکے علاوہ کسی جنتی کی کوئی کنیت نہیں ہو گی۔آدمuکی کنیت بہ طور تعظیم و تکریم ابو محمد ہو گی۔‘‘
(الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدي : 566/7، الموضوعات لابن الجوزي : 258/3)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے،کیونکہ اس کے راوی ابوالحسن محمد بن محمد بن الاشعث کوفی نے خود اسے گھڑ کر نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کیا ہے، جیسا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
b اس راوی کے بارے میں امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آیَۃٌ مِّنْ آیَاتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الْکِتَابُ، ہُوَ وَضَعَہٗ، أَعْنِي الْعَلَوِیَاتِ ۔
’’یہ علویات نامی کتاب اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔اسے اسی (ابو الحسن کوفی)نے گھڑا ہے۔‘‘(سؤالات السہمي للدارقطني : 52)
دلیل نمبر @ :
نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکی طرف یہ حدیث بھی منسوب ہے :
’مَنْ کَانَ لَہٗ ذُو بَطْنٍ، فَأَجْمَعَ أَنْ یُّسَمِّیَہٗ مُحَمَّدًا؛ رَزَقَہُ اللّٰہُ غُلَامًا، وَمَا کَانَ اسْمُ مُحَمَّدٍ فِي بَیْتٍ؛ إِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ فِي ذٰلِکَ الْبَیْتِ بَرَکَۃً‘ ۔
’’جو اپنے پیٹ والے بچے کا نام محمد رکھنے کا ارادہ کرے،تو اللہ تعالیٰ اسے بیٹا ہی عطا فرمائے گا اور جس گھر میں محمد نامی شخص ہو،اللہ تعالیٰ اس گھر میں برکت ڈالتا ہے۔‘‘(فضائل التسمیۃ بأحمد ومحمّد لابن بکیر : 11)
تبصرہ :
یہ جھوٹی سند ہے،کیونکہ :
1 محمد بن عبدالرحمن جدعانی راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہے۔
2 ابن جریج کی ’’تدلیس‘‘ بھی موجود ہے۔
3 ابن جریج سے اوپر سند غائب ہے۔
4 اس میں اور بھی کئی خرابیاں ہیں۔
دلیل نمبر # :
سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہکی طرف یہ قول منسوب ہے :
مَنْ کَانَ لَہٗ حَمْلٌ، فَنَوٰی أَنْ یُّسَمِّیَہٗ مُحَمَّدًا؛ حَوَّلَہُ اللّٰہُ ذَکَرًا، وَإِنْ کَانَ أُنْثٰی ۔
’’جس کا کوئی حمل ہو اور وہ اس کے لیے محمد نام کی نیت کرے ،تو اللہ تعالیٰ اسے بیٹے میں بدل دے گا،اگرچہ وہ بیٹی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
(اللآّلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي : 95/1)
تبصرہ :
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ :
1 وہب بن وہب راوی کو محدثین کرام نے کذاب،دجال،اللہ کا دشمن اور اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ کر رسولِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلمکی طرف منسوب کرنے والا قرار دیا ہے۔
(میزان الاعتدال للذہبي : 353/4)
2 زید بن مروان تک اس سند کی تحقیق درکار ہے۔
دلیل نمبر $ :
b ہشام بن عروہ تابعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے :
دَخَلْتُ عَلَی الْمَنْصُورِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، فَقَالَ : کَمْ وَلَدًا لَّکَ یَا ہِشَامُ؟ قُلْتُ : مُحَمَّدٌ، وَفُلَانٌ، وَفُلَانٌ، فَقَالَ لِي : کَیْفَ سَمَّیْتَ وَلَدَکَ مُحَمَّدًا، وَتَرَکْتَ الزُّبَیْرَ وَعُرْوَۃَ ؟ قُلْتُ : تَبَرُّکًا بِاسْمِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : ائْتِ بِمَوْضِعِ الْبَرَکَۃِ وَالتَّکْرِیمِ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي عَلِیًّا، یَقُولُ : سَمِعْتُ أَبِي عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عَبَّاسٍ یَقُولُ : مَنْ کَانَ لَہٗ حَمْلٌ، فَنَوٰی أَنْ یُّسَمِّیَہٗ مُحَمَّدًا؛ أُدْخِلَ إِنْ شَاء َ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ ۔
’’میںامیر المومنین منصور کے پاس آیا،انہوں نے دریافت کیا:ہشام! آپ کے کتنے بچے ہیں؟ میں نے کہا : محمد اور فلاں،فلاں۔انہوں نے کہا:آپ نے زبیر اور عروہ چھوڑ کر محمد نام کیوں رکھا؟میںنے کہا: نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلمکے نام کی برکت کی وجہ سے۔انہوں نے دریافت کیا: اس برکت و تعظیم کی کیا دلیل ہے؟میں نے کہا : مجھے میرے والد محمد بن علی نے بیان کیا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہکو یہ کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کو یہ فرماتے ہوئے سنا:جس کا کوئی حمل ہو اور وہ اس کے لیے محمد نام کی نیت کرے، تو ان شاء اللہ وہ جنت میں داخل کیا جائے گا۔‘‘ (فضائل التسمیۃ لابن بکیر : 13)
تبصرہ :
یہ جھوٹا قول ہے، کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما تک سند کا صحیح ہونا ثابت نہیں۔اس سند میں نصر بن ابو الفتح خراسانی اور محمد بن عبداللہ بن رزیق دونوں نامعلوم اور ’’مجہول‘‘ہیں۔
دلیل نمبر % :
b عطا خراسانی رحمہ اللہ سے منسوب ہے :
مَا سُمِّيَ مَوْلُوْدٌ فِي بَطْنِ أُمِہٖ مُحَمَّدًا؛ إِلاَّ أَذْکَرَ ۔
’’جس بچے کا نام اس کی ماں کے پیٹ میں محمد رکھا گیا وہ بیٹا ہی ہو گا۔‘‘
(الأجوبۃ المرضیّۃ للحافظ السخاوي : 381/1، 989/3)
تبصرہ :
یہ قول بے سند ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ کا قول کہ ’’جس گھر میں محمد نام کا شخص ہو،اس میں پھیل جاتا ہے۔‘‘بے سند ہونے کی وجہ سے ناقابل التفات ہے۔
دلیل نمبر ^ :
وہب بن وہب کہتا ہے:
’’میں نے اپنے سات بچوں کا نام دورانِ حمل ہی محمد رکھنے کی نیت کر لی تھی،جس کی برکت سے سب لڑکے پیدا ہوئے۔‘‘
(اللّآلي المصنوعۃ في الأحادیث الموضوعۃ للسیوطي : 95/1)
تبصرہ :
وہب بن وہب خود بہت بڑا جھوٹا ہے، اس کی بات کا اعتبار کوئی اس جیسا ہی کر سکتا ہے۔
اہل علم کی تصریحات
محمد نام کی فضیلت اور فوائد و برکات کے متعلق جتنی بھی احادیث وارد ہوئی ہیں،وہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں،جیسا کہ :
b حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَقَدْ رُوِيَ فِي ہٰذَا الْبَابِ أَحَادِیْثُ، لَیْسَ فِیْھَا مَا یَصِحُّ ۔
’’اس باب میں بیان کی جانے والی کوئی روایت صحیح نہیں۔‘‘
(الموضوعات : 158/1)
b حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَہٰذِہٖ أَحَادِیْثُ مَکْذُوْبَۃٌ ۔
’’یہ ساری روایتیں جھوٹی ہیں۔‘‘(میزان الاعتدال في نقد الرجال : 129/1)
b حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وَفِي ذٰلِکَ جُزْئٌ، کُلُّہٗ کَذِبٌ ۔
’’اس بارے میں پورا ایک کتابچہ ہے جو کہ سارا جھوٹ کا پلندہ ہے۔‘‘
(المنار المنیف في الصحیح والضعیف، ص : 52)
b علامہ حلبی کہتے ہیں:
قَالَ بَعْضُہُمْ : وَلَمْ یَصِحَّ فِي فَضْلِ التَّسْمِیَۃِ بِمُحَمَّدٍ حَدِیْثٌ، وَکُلُّ مَا وَرَدَ فِیْہِ؛ فَہُوَ مَوْضُوْعٌ ۔
’’بعض علما کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں،بلکہ اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری روایات من گھڑت ہیں۔‘‘
(إنسان العیون في سیرۃ الأمین المأمون، المعروف بہ السیرۃ الحلبیّۃ : 121/1)
b علامہ زرقانی لکھتے ہیں:
وَذَکَرَ بَعْضُ الْحُفَّاظِ أَنَّہٗ لَمْ یَصِحَّ فِي فَضْلِ التَّسْمِیَۃِ بِمُحَمَّدٍ حَدِیْثٌ ۔
’’بعض حفاظ کا کہنا ہے کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔‘‘
(شرح الزرقاني علی المواہب اللدنیۃ : 307/7)
b ابن عراق کنانی لکھتے ہیں:
قَالَ الْـأُبِّيُّ : لَمْ یَصِحَّ فِي فَضْلِ التَّسْمِیَۃِ بِمُحَمَّدٍ حَدِیْثٌ، بَلْ قَالَ الْحَافِظُ أَبُو الْعَبَّاسِ تَقِيُّ الدَّیْنِ الْحِرَّانِيُّ : کُلُّ مَا وَرَدَ فِیْہِ؛ فَہُوَ مَوْضُوْعٌ ۔
’’علامہ اُبّی کہتے ہیں کہ محمد نام کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں،بلکہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بقول اس بارے میں بیان کی جانے والی ساری کی ساری روایات من گھڑت ہیں۔‘‘
(تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ : 174/1)
الحاصل :
اسم محمد سے حصولِ تبرک کے لیے پیش کی جانے والی تمام دلیلیں قیل و قال پر مبنی ہیں،اس بارے میں کوئی ٹھوس دلیل دستیاب نہیں۔لہٰذا یہ کہنا کہ اسم محمد سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، بے دلیل بات ہے،بے دلیل بات کون سنتا ہے؟

تبلیغی جماعت
b جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے شیخ ومحدث،ابو عبد اللطیف،حماد بن محمد انصاری، افریقی رحمہ اللہ (1418-1344ھ)فرماتے ہیں :
جَمَاعَۃُ التَّبْلِیغِ فِیہَا خَیْرٌ وَّشَرٌّ، وَہُمْ مُّبْتَدِعَۃٌ، مَاتُرِیدِیَّۃٌ فِي الْعَقِیدَۃِ، أَحْنَافٌ مُّتَعَصِّبُونَ ۔
’’تبلیغی جماعت خیر و شر کا مجموعہ ہے۔یہ بدعتی لوگ ہیں،جو عقیدے میں ماتریدی اور (فروعات میں)متعصب حنفی ہیں۔‘‘
(المجموع في ترجمۃ العلاّمۃ المحدّث الشیخ حمّاد بن محمّد الأنصاري : 481/2)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.