1,313

خلیفہ بلا فصل کون، غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

بعض لوگ قرآن وحدیث اوراجماعِ امت کی مخالفت کرتے ہوئے سیدنا علی بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ کو پہلا خلیفہ کہتے ہیں ۔ ان کے حدیثی دلائل کاجائزہ پیشِ خدمت ہے:
دلیل نمبر 1 : سیدنا انس بن مالک   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں :
بعث النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ببراء ۃ مع أبی بکر ، ثمّ دعاہ ، فقال : لا ینبغی أن تبلغ ہذا عنّی إلّا رجل من أہلی ، فدعا علیّا ، فأعطاہ إیّاہ ۔
”نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو برائت کے ساتھ بھیجا ، پھر ان کو بلایا اور فرمایا : اس برائت کو میرے گھروالوں میں سے کوئی آدمی پہنچائے تو ہی مناسب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو عطا فرمایا۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ١٢/٨٤۔٨٥، مسند الامام احمد : ٣/٢١٢،٢٨٣، سنن الترمذی : ٣٠٩٠، وقال : حسن غریب ، خصائص علی للنسائی : ٧٥، مشکل الآثار للطحاوی : ٣٥٨٨، ٣٥٨٩، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ”حسن” کہا ہے۔(فتح الباری لابن حجر : ٨/٣٢٠)
تبصرہ : نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہل سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو دو کام سونپے تھے۔ پہلا کام امارت ِ حج اوردوسرا سورہئ توبہ کی تبلیغ ۔ آپ  رضی اللہ عنہ امارت ِ حج پر بدستور قائم رہے، البتہ سورہئ توبہ کی آیات کی تبلیغ خاص سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کے ذمہ لگا دی گئی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ تبلیغِ دین کی اہلیت نہیں رکھتے تھے یا تبلیغِ دین صرف سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کا حق تھا یا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ سے ناخوش تھے ۔ ایسے بالکل نہ تھا ۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ صرف یہ بیان کی کہ میرے گھر والوں میں سے ہی کوئی یہ تبلیغ کرے گا۔کیونکہ امارت ِ حج اس سے بھی بھاری ذمہ داری تھی جوسیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کوسونپی گئی تھی اورآخر تک انہوں نے اسے نبھایا تھا۔
صحیح البخاری (٢/٦٧١، ح : ٤٦٥٧) میں ہے ۔ سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّ أبا بکر رضی اللّٰہ عنہ بعثہ فی الحجّۃ التی أمّرہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علیہا قبل حجّۃ الوداع فی رہط یؤذّن فی الناس أن لا یحجّن بعد العام مشرک ، ولا یطوف بالبیت عریان ۔
”سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو حجۃ الوداع سے قبل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حج میں بھیجا جس میں انہیں لوگوں کے ایک بڑے گروہ میں امیر مقررکیا تھا کہ آپ  رضی اللہ عنہ یہ اعلان کردیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک قطعاً حج نہ کرے اور نہ کوئی ننگا شخص بیت اللہ کا طواف کرے۔”
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ ، امام طحاوی حنفی  رحمہ اللہ کی کتاب شرح مشکل الآثار کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : ہذا مشکل ، لأنّ الأخبار فی ہذہ القصۃ تدلّ علی أنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان بعث أبا بکر بذلک ثم أتبعہ علیا فأمرہ أن یؤذّن فکیف یبعث أبو بکر أبا ہریرۃ ومن معہ بالتأذین مع صرف الأمر عنہ فی ذلک إلی علیّ ، ثم أجاب بما حاصلہ أنّ أبا بکر کان الأمیر علی الناس فی تلک الحجّۃ بلا خلاف ، وکان علیّ ہو المأمور بالتأذین بذلک ، وکأنّ علیّا لم یطق التأذین بذلک وحدہ ، واحتاج إلی من یعینہ علی ذلک ، فأرسل معہ أبو بکر أبا ہریرۃ وغیرہ لیساعدوہ علی ذلک ۔۔۔
”اس میں کچھ اشکال ہے ، کیونکہ اس قصہ کے بارے میں احادیث یہ بتاتی ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو اس حکم کے ساتھ بھیجا تھا، پھر سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا اورحکم فرمایا کہ وہ اعلان کریں ۔ پھر سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کا اعلان کرنے کے لیے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی طرف کیسے بھیج سکتے تھے ، حالانکہ یہ معاملہ ان سے واپس لے لیا گیاتھا؟ پھر امام طحاوی   رحمہ اللہ نے اس کا جواب دیا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ بلاشبہ سیدناابوبکر  رضی اللہ عنہ لوگوں کے امیر تھے۔ سیدنا علی  رضی اللہ عنہ اس اعلان کا حکم دیئے گئے تھے۔شاید یہ اعلان اکیلے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کے بس میں نہ تھا اور آپ  رضی اللہ عنہ معاونت کے لیے لوگوں کے محتاج تھے۔ لہٰذا سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ اوردیگر لوگوں کو ان کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کی معاونت کریں۔”(فتح الباری لابن حجر : ٨/٣١٨)
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ خلافت کے اولین حقدار سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ ہی تھے ، کیونکہ امیر حج آپ تھے ۔ رہا سورہئ توبہ کی تبلیغ کا معاملہ تو حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) حدیث کے الفاظ لا ینبغی أن تبلغ ہذا عنّی کے تحت لکھتے ہیں :
ویعرف منہ أنّ المراد خصوص القصّۃ المذکورۃ ، لا مطلق التبلیغ ۔
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مخصوص مذکورہ واقعہ تھا ، نہ کہ مطلق تبلیغ ۔”
(فتح الباری لابن حجر : ٨/٣١٩)
احمد بن عبداللہ الطبری لکھتے ہیں : وہذا التبلیغ والاداء یختصّ بہذہ الواقعۃ لسبب اقتضاہ ، وذلک أنّ عادۃ العرب فی نقض العہود أن لا یتولّی ذلک إلّا من تولّی عقدہا ، أو رجل من قبیلتہ ، وکان النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ولّی أبا بکر ذلک جریا علی عادتہ فی عدم مراعاۃ العوائد الجاہلیۃ ، فأمرہ اللّٰہ تعالی أن لا یبعث فی نقض عہودہم إلّا رجلا منہ قطعا لحججہم وإزاحۃ لعللہم ، لئلّا یحتجّوا بعوائدہم ، والدلیل علی أنّہ لا یختصّ التبلیغ عنہ بأہل بیتہ أنّہ قد علم بالضرورۃ أنّ رسلہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لم تزل مختلفۃ إلی الآفاق فی التبلیغ عنہ وأداء رسالتہ وتعلیم الأحکام والوقائع یؤدّون عنہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ ”یہ تبلیغ واداء اس واقعے کے ساتھ خاص ہے جس کا ایک سبب متقاضی تھا۔ عرب کادستور عہد کوتوڑنے کا یہ تھا کہ اس کا اعلان وہی کرتا جس نے عہد کیاتھا یا اس کے قبیلے کا کوئی آدمی ۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام پہلے جاہلیت کے دستور کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ اپنے قبیلے کا کوئی آدمی اس کام کے لیے بھیجیں تاکہ ان کی حجت ختم ہوجائے اور ان کے حیلے کٹ جائیںاور وہ اپنے دستور کودلیل نہ بنائے پھریں۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروالوں کے ساتھ تبلیغ خاص نہ تھی ، اس پردلیل ضروری طورپر معلوم بات ہے کہ تبلیغ ، رسالت ،احکام کی تعلیم اور پیغامات کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام رساں مختلف علاقوں کی طرف مختلف رہے ہیں۔”
(ذخائر العقبٰی لاحمد بن عبد اللہ الطبری : ص ١٢٩)
لہٰذا بعض لوگوں کا اس حدیث کو سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے پر دلیل بنانا ، درحقیقت اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ وہ دلائل سے تہی دست ہیں۔
فائدہ نمبر 1 : جس روایت (مسند الامام احمد: ١/٣)میں ہے کہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ چل دئیے تھے ، پیچھے سے جاکر سیدنا علی  رضی اللہ عنہ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچایا۔جب سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ واپس آئے تو روپڑے یاجس روایت میں ہے کہ :
فانصرف أبو بکر ، وہو کئیب ۔ ”سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ رنجیدہ حالت میں واپس آئے ۔”(خصائص علی للنسائی : ٧٦)
یہ دونوں روایات ”ضعیف” ہیں۔ ان میں ابواسحاق راوی کی ”تدلیس” ہے ، جو عن کے لفظ سے بیان کررہے ہیں۔
دلیل نمبر 2 : امام حسن بصری   رحمہ اللہ سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ   رحمہ اللہ نے فرمایا: ما أقول فیمن جمع الخصال الأربع : ائتمانہ علی براء ۃ ، وما قال لہ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی غزاۃ تبوک ، فلو کان غیر النبوّۃ شیء یفوتہ لاستثناہ ، وقول النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم (( الثقلان کتاب اللّٰہ وعترتی )) ، وإنّہ لم یؤمّر علیہ أمیر قطّ ، وقد أمّرت الأمراء علی غیرہ ۔ ”میں اس شخص کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں جس میں چار خصلتیں جمع ہوں۔ ایک برائت کے اعلان کی امانت کی سپردگی ، دوسری غزوہئ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو فرمانا کہ اگر نبوت کے علاوہ کوئی چیز ان سے رہتی ہوتی توآپ ان کوخاص کر دیتے۔ تیسری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت کہ دو بھاری چیزیں (جو نجات کی ضامن ہیں)، وہ کتاب اللہ اورمیرا خاندان ہے۔ چوتھی خصوصیت یہ کہ ان پر کبھی کوئی امیر مقرر نہیں کیاگیا ، جبکہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں پرامیر مقرر کیے گئے تھے۔”
(شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید : ١/٤٨٢، طبع بیروت)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلنداہے۔ اس کاراوی محمدبن عمر الواقدی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف” اور”کذاب”قراردیا ہے۔
محمد بن عمر الواقدی (م٢٠٧ھ)اورامام حسن بصری(م١١٠ھ)کے درمیان صدیوں کا فاصلہ ہے تو واقدی نے امام حسن بصری سے کیسے روایت لے لی؟ واقدی سے نیچے بھی سند غائب ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ کسی شیطان کی کارستانی ہے۔
یہ بین ثبوت ہے کہ بعض لوگوں کا علی   رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلا فصل ہونے کا دعویٰ بے ثبوت اور بے دلیل ہے۔
دلیل نمبر 3 : سیدنا جابر بن عبداللہ  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
ہذا أمیر البررۃ ، قاتل الفجرۃ ، منصور من نصرہ ، مخذول من خذلہ ۔
”یہ علی نیکوکاروںکے امیر اورکافروں کے قاتل ہیں ۔ جوشخص ان کی نصرت کرے گا ، وہ خود منصور ہوگا اور جوان کی نصرت سے دست بردار ہو گا ، وہ ذلیل وخوار ہوگا۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣/١٢٩، ح : ٤٦٤٤، الکامل لابن عدی : ١/١٩٢، تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٢١٩)
تبصرہ : یہ موضوع(من گھڑت) روایت ہے۔ امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں: وہذا حدیث منکر موضوع ۔
”یہ منکراورمن گھڑت حدیث ہے۔”(الکامل لابن عدی : ١/١٩٢)
حافظ ابن الجوزی   رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب ”الموضوعات” (١/٣٥٣) میں ذکر کیا ہے۔
امام حاکم  رحمہ اللہ اُسے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں : وہذا حدیث صحیح الإسناد ۔ ”اس حدیث کی سند صحیح ہے۔”
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ ان کے تعاقب میں لکھتے ہیں : بل ، واللّٰہ ! موضوع ، وأحمد کذّاب ، فما أجہلک علی سعۃ معرفتک !
”بلکہ اللہ کی قسم یہ من گھڑت روایت ہے ۔ احمد راوی کذاب ہے۔ اتنے وسیع علم کے باوجود آپ اس راوی سے کتنے ناواقف رہ گئے ہیں!”(تلخیص المستدرک : ٣/١٢٩)
اس روایت کو گھڑنے والا احمد بن عبداللہ بن یزید المکتب راوی ہے۔ اس کے بارے میں امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یضع الحدیث ۔ ”یہ احادیث گھڑتا ہے۔”(الکامل لابن عدی : ١/١٩٢)
امام دارقطنی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یترک حدیثہ ۔ ”اس کی حدیث چھوڑ دی جائے گی۔”(تاریخ بغداد للخطیب : ٤ل٢٢٠، وسندہ، صحیحٌ)
نیز اس روایت میں امام سفیان ثوری  رحمہ اللہ کی ”تدلیس” ہے۔
اس طرح کی جھوٹی اورمن گھڑت روایات سے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بلا فصل ہونا ثابت کرنے والے کون لوگ ہوسکتے ہیں؟
دلیل نمبر 4 : سیدنا انس بن مالک   رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یا أنس أوّل من یدخل علیک من ہذا الباب أمیر المؤمنین ، وسیّد المسلمین ، وقائد الغرّ المحجّلین ، وخاتم الوصیّین ، قال أنس : قلت : اللّٰہم أجعلہ رجلاً من الأنصار ، وکتمتہ ، إذ جاء علیّ ، فقــال : من ہنا یا أنس ؟ فقلت : علیّ ، فقام مستبشراً فاعتنقہ ، ثمّ جعل یمسح عرق وجہہ بوجہہ ، ویمسح عرق علیّ بوجہہ ، قال علیّ : یارسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ! لقد رأیتک صنعت شیأاً ما صنعت بی من قبل ؟ قال : وما یمنعنی وأنت تؤدّی عنّی ، وتسمعہم صوتی ، وتبیّن لہم ما اختلفوا فیہ بعدی ۔
”اے انس ! جو شخص سب سے پہلے اس دروازے سے داخل ہوگا ، وہ امیرالمومنین ، سیدالمسلمین ، روشن اعضاء والے لوگوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہوگا۔ انس   رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے دل میں دعا کی : الٰہی ! ایسا شخص انصار میں سے قرار دے۔اچانک علی  رضی اللہ عنہ آگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہاںکون ہے اے انس! میں نے عرض کی : علی ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہوئے اٹھے اوران کو گلے سے لگالیا، پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے ساتھ صاف کرنے لگے ۔ علی  رضی اللہ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو ایسا کام کرتے دیکھا ہے ، جو آپ نے پہلے کبھی نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے کون سی چیز مانع ہے ۔ آپ میرا پیغام پہنچاتے ہیں ۔ لوگوں کو میری آواز سناتے ہیں اور میرے بعد جو وہ اختلاف کریں گے ،آپ اس کی وضاحت کریں گے۔”(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٦٣۔٦٤)
تبصرہ : یہ گھڑنتل اورافک ِ بین ہے۔ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اس روایت کو من گھڑت اورخود ساختہ قراردیا ہے۔(میزان الاعتدال للذہبی : ١/٦٤)
حافظ ابن الجوزی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہذا حدیث لا یصحّ ۔
”یہ حدیث ثابت نہیں ہے۔”(الموضوعات لابن الجوزی : ١/٣٥٠)
ابنِ عراق الکنانی نے بھی اُسے من گھڑت قراردیا ہے۔(تنزیہ الشریعۃ : ١/٢٤)
1 اس کے راوی ابراہیم بن محمد بن میمون کے بارے میں حافظ ذہبی  رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
من أجلّاء الشیعۃ ۔ ”یہ کٹڑشیعوں میں سے تھا۔”
(میزان الاعتدال للذہبی : ١/٦٣)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وذکرہ الأسدیّ فی الضعفاء وقال : إنّہ منکر الحدیث ، وذکرہ ابن حبّان فی الثقات ، ونقلت من خطّ شیخنا أبی الفضل الحافظ أنّ ہذا الرجل لیس بثقۃ ۔
”اسدی نے اسے ضعفاء میں ذکر کیا ہے اورکہا ہے : یہ منکر الحدیث راوی ہے۔ ابنِ حبان نے اسے ثقات (٨/٧٤)میں ذکر کیا ہے اور میں نے اپنے شیخ ابوالفضل الحافظ کے خط سے نقل کیا ہے کہ یہ آدمی ثقہ نہیں ہے۔”(لسان المیزان لابن حجر : ١/١٠٧)
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کی سند کو”حسن” قراردیا ہے۔
(زوائد مسند البزار)
حافظ ہیثمی   رحمہ اللہ نے اُسے ”ضعیف” کہا ہے۔(مجمع الزوائد : ٣/٢٧١)
نیز اسے ثقہ بھی کہا ہے۔(مجمع الزوائد : ١٠/٢٥٢)
لہٰذا یہ دونوں قول ساقط ہیں ۔ اس کا ضعف ہی راجح ہے۔
2    القاسم بن جندب کے حالات ِ زندگی نہیں مل سکے۔
3    علی بن عابس ”ضعیف” راوی ہے۔(تقریب التہذیب لابن حجر : ٤٧٥٧)
دلیل نمبر 5 : نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تومسلمانوں میں عقد ِ مواخات قائم کیا۔ صحابہ کرام کو بھائی بھائی بنایا اور خود سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی بنایا۔
تبصرہ : عقد ِ مواخات میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کواپنا بھائی بنانا ثابت نہیں ۔ اس حوالے سے دلائل کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ ہو:
1    نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا۔ خود سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ہم باہم بھائی ہیں۔(سیرۃ ابن ہشام : ٢/١٤٢)
تبصرہ : یہ روایت بے سند ہونے کی وجہ سے مردود وباطل ہے۔
2    سیدنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کان رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم یؤاخی بین أصحابہ ، فقال : علیّ أخی ، وأنا أخوہ ، وأحبّہ ۔۔۔
” رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام] کے درمیان بھائی چارہ کرا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علی میرے بھائی ہیں ۔ میں ان کا بھائی ہوں ۔ میں ان سے محبت کرتاہوں۔”(الکامل فی ضعفاء الرجال : ٧/١٣٢)
تبصرہ : یہ سخت ترین ”ضعیف” ہے ۔ اس کاراوی ہیاج بن بسطام ہروی راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔ اس کو امام یحییٰ بن معین ، امام نسائی ، امام ابوحاتم الرازی ، امام ابنِ حبان ، امام ابنِ عدی وغیرہم   رحمہم اللہ نے ”ضعیف ” قرار دیا ہے۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : ضعیف ، روی عنہ ابنہ خالد منکرات شدیدۃ ۔ ”یہ ضعیف راوی ہے ۔ اس سے اس کے بیٹے خالد نے شدید منکر روایات بیان کی ہیں۔”(تقریب التہذیب لابن حجر : ٧٣٥٥)
3    سیدنا انس بن مالک   رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
علیّ أخی وصاحبی وابن عمّی ، وخیر من أترک بعدی یقضی دینی وینجز موعدی ۔ ”علی میرے بھائی ہیںاوردوست ہیںاورچچا زاد ہیں اور ان لوگوں میں سے سب سے بہتر ہیں ، جن کو میں بعد میں چھوڑ کر جارہا ہوں۔ یہ میرے قرض چکائیں گے اور میرے وعدے پورے کریں گے۔”(الکامل لابن عدی : ٦/٣٩٧)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین ”ضعیف” ہے ۔ اس کاراوی مطر بن میمون الاسکاف باتفاق محدثین سخت ترین ”ضعیف” ہے۔ اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
اسے امام بخاری ، امام ابوحاتم الرازی ، امام نسائی وغیرہم نے ”منکرالحدیث” کہاہے۔ امام یعقوب بن سفیان ، امام ابنِ عدی وغیرہما نے ”ضعیف” کہا ہے۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں : متروک ۔
”یہ متروک راوی ہے۔”(تقریب التہذیب لابن حجر : ٦٧٠٣)
نیز حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اس روایت کو باطل (جھوٹی )قرار دیا ہے۔
(تہذیب التہذیب لابن حجر : ١٠/١٥٤)
ان کے علاوہ جتنی بھی روایات وارد ہوتی ہیں، جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے مواخات کاذکر ہیں۔ وہ ساری کی ساری ”ضعیف” اورناقابل حجت ہیں ۔ اگر کسی کے پاس ایک روایت بھی حسن سند کے ساتھ موجود ہو ، جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو بھائی کہا ہے۔ ہم اس کا جائزہ پیش کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اصولِ محدثین کی روشنی میں اس حوالے سے ایک روایت بھی پایہئ ثبوت تک نہیں پہنچتی ۔ مدعی پر باسند ِ صحیح دلیل لازم ہے۔
البتہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی کہا ہے ، جیسا کہ :
سیدنا ابنِ عباس  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو کنت متّخذا خلیلا لاتّخذت أبا بکر ، ولکن أخی وصاحبی ۔
”اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا ، لیکن وہ میرے بھائی اوردوست ہیں۔”
(صحیح البخاری : ٣٦٥٦، صحیح مسلم : ٢٣٨٣عن عبد اللہ بن مسعود)
سیدنا ابوسعید خدری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنّ أمنّ الناس علیّ فی صحبتہ ومالہ أبو بکر ، ولو کنت متّخذا خلیلا ، غیر ربّی لاتّخذت أبا بکر خلیلا ، ولکن أخوّۃ الإسلام ومودّتہ ۔۔۔
”لوگوں میں سے مجھ پر صحبت اورمال میں سب سے زیادہ احسان کرنے والے شخص ابوبکر ہیں ۔ اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی کو خلیل بناتا تو میں ابوبکر کو خلیل بناتا ۔ لیکن اسلام کا بھائی چارہ اور محبت ومودّت ہے۔”(صحیح البخاری : ٣٦٥٤، صحیح مسلم : ٢٣٨٢)
سیدہ خولہ بنت ِ حکیم نے جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سیدہ عائشہ   رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا توابوبکر  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا : یہ عائشہ تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی ابوبکر کی بیٹی ہے۔ رشتہ کیسے ہوگا؟اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خولہ سے کہا کہ سیدنا ابوبکر کوکہیں:
أنت أخی فی الإسلام ، وأنا أخوک ، وابنتک تصلح لی ۔
”آپ میرے اسلامی بھائی ہیں۔ میں آپ کا بھائی ہوں اور آپ کی بیٹی میرے (نکاح کے) لیے جائز ہے۔”     تب سیدنا ابوبکر   رضی اللہ عنہ نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ عائشہ کا نکاح کردیا۔(المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٣/٢٣، ح : ٥٧، وسندہ، حسنٌ)
حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ورجالہ رجال الصحیح غیر محمّد بن عمرو بن علقمۃ ، وھو حسن الحدیث ۔ ”اس کے سارے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں، سوائے محمد بن عمرو بن علقمہ کے اوروہ حسن الحدیث ہیں۔”
(مجمع الزوائد للہیثمی : ٩/٢٢٥)
دلیل نمبر 7 : روی (ابراہیم بن الحسین [م ٢٨١]) ابن دیزیل قال : حدّثنا یحیی بن زکریّا قال : حدّثنا علیّ بن القاسم عن سعید بن طارق عن عثمان بن القاسم عن زید بن أرقم قال : قال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم : (( ألا أدلّکم علی ما إن تساء لتم علیہ لم تہلکوا ؟ إن ولیّکم اللّٰہ وإنّ إمامکم علیّ بن أبی طالب ، فناصحوہ ، وصدّقوہ ، فإن جبریل أخبرنی بذلک ۔        ”سیدنا زید بن ارقم   رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں کہ اگر تم اس پر اتفاق کرلو تو ہرگز ہلاک نہ ہوگے ۔(وہ امر یہ ہے کہ)تمہارا ولی اللہ تعالیٰ ہے اور تمہارے امام علی بن ابی طالب ہیں۔ تم ان سے خیرخواہی کرو ، ان کی تصدیق کرو ۔ مجھے یہ بات جبریل uنے بتائی ہے۔”
(شرح نہج البلاغۃ لابن ابی الحدید : ١/٥٧٠، طبع بیروت)
تبصرہ : یہ روایت کئی وجوہ سے باطل ہے۔ ابنِ دیزیل کا ”جزئ” اور ”کتاب الصفین” دونوں مفقود ہیں۔ ائمہ اہل سنت میں سے کسی نے یہ روایت ذکر نہیں کی۔ ابن ابی الحدید کی نقل پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
1     اس کے راوی علی بن القاسم کا تعین اور اس کی توثیق مطلوب ہے۔ اگر یہ الکندی ہے تو”ضعیف” ہے ۔
اس کے بارے میں امام ابوحاتم الرازی  رحمہ اللہ کہتے ہیں : لیس بقویّ ۔
”یہ قوی نہیں ہے۔”(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٠١)
امام عقیلی فرماتے ہیں : شیعیّ ، فیہ نظر ، ولا یتابعہ إلّا من ہو دونہ أو نحوہ ۔ ”یہ شیعہ ہے ۔ اس کی روایت محل نظر ہے۔اس کی متابعت اس سے کمزور یا اسی طرح کے کمزور راوی نے کی ہے۔”(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٣/٢٤٨)
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : شیعیّ غال ۔ ”یہ غالی شیعہ ہے۔”
(میزان الاعتدال للذہبی : ٤/١٥٠)
صرف امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے اسے ”الثقات” (٨/٤٨٩) میں ذکر کیا ہے، لہٰذا اس کا ضعف ہی راجح ہے۔
2    اس کے راوی عثمان بن القاسم کی تعیین وتوثیق درکار ہے، نیز اس کا سیدنا زیدبن ارقم  رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت کیا جائے۔
3    ہمارے رجحان کے مطابق راوی یحییٰ بن زکریا دراصل زکریا بن یحییٰ الکسائی ہے ، جو کہ ”متروک” ہے۔ اس کے بارے میں امام ابنِ عدی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أکثر الأحادیث التی یرویہا فی فضائل أہل البیت الذی یقع فیہ النکرۃ ومثالب غیرہم من الصحابۃ التی کلّہا موضوعات ، وہذا الذی قال ابن معین یحدّث بأحادیث سوء ، إنّما یرویہ فی مثالب الصحابۃ ۔
”اس کی بیان کردہ اکثر احادیث اہل بیت کے فضائل میں ہیں ،وہ منکر روایات ہیں۔ دیگر صحابہ کے عیوب ونقائص پر مبنی جوروایات اس نے بیان کی ہیں ، وہ ساری کی ساری جھوٹی ہیں۔ اس راوی کے بارے میں امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بُری روایات بیان کرتا ہے۔ یہ صحابہ کرام کے عیوب پرمبنی روایات بیان کرتا ہے ۔”
(الکامل لابن عدی : ٣/٢١٤، وفی نسخۃ : ٣/١٠٧٠)
امام یحییٰ بن معین  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : رجل سوء یحدّث بأحادیث سوء ۔
”یہ بُرا آدمی ہے اور بُری احادیث بیان کرتا ہے۔”
(الضعفاء الکبیر للعقیلی : ٢/٨٦، وسندہ، صحیحٌ)
خود امام عقیلی  رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کو باطل(جھوٹی) قراردیا ہے۔(ایضاً)
امام نسائی  رحمہ اللہ  (الضعفاء والمتروکون : ص ١٧٩، ت : ٢١١)اورامام دارقطنی  رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکون : ٢٤٠)نے اسے ”متروک” قرار دیا ہے۔
حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے واہٍ (کمزور)قرار دیا ہے۔(میزان الاعتدال : ٤/١٥٠)
اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
دلیل نمبر 8 : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے :
دعا رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم علیّا یوم الطائف فانتجاہ ، فقال الناس : لقد طال نجواہ مع ابن عمّہ ، فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلــم : (( ما انتجیتہ ، ولکنّ اللّٰہ انتجاہ )) ۔ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والے دن سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی ۔ لوگوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے چچازاد کے ساتھ سرگوشی لمبی ہوگئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں نے ان سے سرگوشی نہیں کی ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے سرگوشی کی ہے۔”(سنن الترمذی : ٣٧٢٦، وقال : حسن غریب ، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢/١٨٦، ح : ١٧٥٦، السنۃ لابن ابی عاصم :     ، مسند ابی یعلی : ٢/٥٧٩، اخبار اصبہان : ١/١٤١، تاریخ بغداد للخطیب : ٧/٤٠٢)
تبصرہ : اس کی سند ا بوالزبیر کی ”تدلیس” کی وجہ سے”ضعیف” ہے، کیونکہ سماع کی تصریح نہیں کی۔
فائدہ نمبر 1 : مستدرک ِ حاکم (٣/١٣٩)میں جو روایت کہ وقت ِ وفات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ سے سرگوشی کی تھی۔ وہ بھی ”ضعیف” ہے۔ اس میں مغیرہ ابن مقسم راوی ”مدلس” ہے ، جو کہ عن کے لفظ سے روایت کررہا ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری ومسلم کے علاوہ عن یا قال کے الفاظ سے روایت کرے تو”ضعیف” ہوتی ہے۔تاوقتیکہ وہ سماع کی تصریح کردے۔
فائدہ نمبر 2 : زوائد مسند الامام احمد(١/١٠٥) اورالمختارہ للضیاء (٦١٧)میں جوروایت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ سے سرگوشی کی ۔ وہ سلیمان بن مہران الاعمش کی ”تدلیس” کی وجہ سے ”ضعیف” ہے۔
دلیل نمبر 9 : نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(( أمّا بعد ! فإنّی أمرت بسدّ ہذہ الأبواب ، إلّا باب علیّ ، وقال فیہ قائلکم ، وإنّی واللّٰہ ما سددتّ شیأا ولا فتحتہ ، ولکنّی أمرت بشیء فاتّبعتہ ))
”اما بعد ! میں نے ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا تھا ، سوائے علی کے دروازے کے۔ اس کے بارے میں بعض تمہارے لوگوں نے باتیں کی ہیں۔بلاشبہ اللہ کی قسم میں نے نہ کسی چیز کو بند کیا ہے اورنہ کسی چیز کو کھولا ہے، بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ حکم دیا گیا اور میں نے اس کی پیروی کی۔”(مسند الامام احمد : ٤/٣٦٩، خصائص علی للنسائی : ٣٨، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٣/١٢٥)
تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف” ہے۔ اس کا راوی میمون ابوعبداللہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف” ہے۔
حافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ نے اسے”ضعیف” کہا ہے ۔(تقریب التہذیب : ٧٠٥١)
لہٰذا امام حاکم   رحمہ اللہ کا اس حدیث کو ”صحیح الاسناد” کہنا صحیح نہ ہوا اورحافظ ابنِ حجر  رحمہ اللہ (فتح الباری : ٧/١٣)کا اس راوی کو ثقہ کہنا صحیح نہ ہوا ۔ حافظ ہیثمی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وثّقہ ابن حبّان ، وضعّفہ جماعۃ ۔ ”اسے امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے ، لیکن ایک جماعت نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔”(مجمع الزوائد : ٩/١١٤)
فائدہ : سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : وسدّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم أبواب المسجد غیر باب علیّ ، فکان یدخل المسجد جنبا ، وہو طریقہ لیس لہ طریق غیرہ ۔
”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے تمام دروازے بند کردئیے ، سوائے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کے دروازے کے ۔ آپ   رضی اللہ عنہ جنابت کی حالت میں مسجد میں داخل ہوتے ۔ آپ کا یہی راستہ تھا اورکوئی راستہ نہ تھا۔”(مسند الامام احمد : ١/٢٣٠، ٣٣١، فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل : ١١٦٨، السنۃ لابن ابی عاصم : ١٣٥١، مسند البزار (کشف : ٢٥٣٦) خصائص علی للنسائی : ٢٤،٤٣، المعجم الکبیر للطبرانی : ١٢٥٩٣، المستدرک للحاکم : ٣/١٣٢۔١٣٣، وسندہ، حسنٌ)
اس کے معارض ایک متفق علیہ حدیث بھی ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری   رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا یبقینّ فی المسجد باب إلّا سدّ إلّا باب أبی بکر ۔
”مسجد میں کوئی دروازہ نہ چھوڑا جائے ، مگر بند کردیا جائے ، سوائے ابوبکر کے دروازے کے۔”(صحیح البخاری : ١/٥١٦، ح : ٣٦٥٤، صحیح مسلم : ٢/٢٧٣، ح : ٢٣٨٣)
ان دونوں روایات کی تطبیق یہ ہے کہ مسجد ِ نبوی کے ارد گرد کتنے ہی گھر تھے ۔ ان کے دودروازے تھے ۔ ایک دروازہ باہر کی طرف تھا اورایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسجد کی طرف کھلنے والے سبھی دروازے بند کرنے کاحکم دے دیا، لیکن سیدناابوبکر   رضی اللہ عنہ  کومستثنیٰ قراردیاکہ ان کادروازہ بند نہیں ہوگا۔ رہا سیدناعلی  رضی اللہ عنہ کادروازہ تووہ ایک ہی دروازہ تھا، جو مسجد کی طرف کھلتا تھا۔ باہر کی طرف دروازہ تھا ہی نہیں ، جیسا کہ روایت کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔
سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کا دروازہ جو مسجد کی طرف کھلتا تھا، وہ بند نہیں ہوا ۔ اس کی وجہ اہل علم نے کچھ یوں بیان کی ہے ۔ حافظ سیوطی  رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ)لکھتے ہیں :
قال العلماء : ہذا إشارۃ إلی الخلافۃ ۔ ”علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ خلافت کی طرف اشارہ تھا۔”(تاریخ الخلفاء للسیوطی : ص ٦١)
امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (م ٣٥٤ھ) اس حدیث کو دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں :
فیہ دلیل علی أنّ الخلیفۃ بعد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ و سلم کان أبو بکر إذ المصطفی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حسم عن الناس کلّہم أطماعہم فی أن یکونوا خلفاء بعدہ غیر أبی بکر بقولہ : (( سدّوا عنّی کلّ خوخۃ فی المسجد غیر خوخۃ أبی بکر )) ۔ ”اس حدیث میں دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ تھے ، کیونکہ مصطفٰی  صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے بارے میں سب لوگوں کا طمع یہ کہہ کر ختم کردیا کہ : مجھ سے مسجد میں ہرکھڑکی بند کردو ، سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے۔”
(صحیح ابن حبان ، تحت حدیث : ٦٨٦٠)
ابنِ بطال   رحمہ اللہ (م ٤٤٩ھ) لکھتے ہیں : کما اختصّ ہو أبا بکر بما لم یخصّ بہ غیرہ ، وذلک أنّہ جعل بابہ فی المسجد لیخلفہ فی الإمامۃ لیخرج من بیتہ إلی المسجد کما کان الرسول یخرج ، ومنع الناس کلّہم من ذلک دلیل علی خلافۃ أبی بکر بعد الرسول ۔
”سیدنا ابوبکر   رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ایک دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کو اس چیز کے ساتھ خاص کیا ہے ، جس کے ساتھ ان کے علاوہ کسی کو خاص نہیں کیا۔ وہ اس طرح کہ ان کا دروازہ مسجد میں رکھا تاکہ ان کو امامت میں اپنا خلیفہ بنائیں ۔ اس لیے کہ وہ اپنے گھر سے مسجد میں نکل سکیں ، جس طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نکلتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو اس سے روک دیا ۔ یہ دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ  خلیفہ تھے۔”
(شرح البخاری لابن بطال : ٣/١٤٢)
علامہ ابنِ رجب   رحمہ اللہ (٧٣٦۔ ٧٩٥ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وذکر فی ہذہ الخطبۃ تخصیص أبی بکر من بین الصحابۃ کلّہم بالفضل ، وأومأ إلی خلافتہ بفتح بابہ إلی المسجد ، وسدّ أبواب الناس کلّہم ، نفی ذلک إشــــــــارۃ إلی أنّہ ہو القائم بالإمامۃ بعدہ ، فإنّ الإمام یحتاج إلی استطراق المسجد ، وذلک من مصالح المصلین فیہ ۔
”نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں سب صحابہ کرام میں سیدنا ابوبکر   رضی اللہ عنہ کی خصوصی فضیلت کا ذکر کیا ہے اور مسجد میں ان کے دروازے کے کھلنے سے ان کی خلافت کی طرف اشارہ کیا ہے اور سب لوگوں کے دروازے بند کردئیے ہیں ۔ اس نفی میں اشارہ ہے کہ آپ  رضی اللہ عنہ اکیلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے اہل ہوں گے، کیونکہ امام مسجد میں زیادہ آنے کا ضرورتمند ہوتا ہے۔ اسی میں نمازیوں کی مصلحت ہوتی ہے۔”(فتح الباری لابن رجب : ٢/٥٤٧)
حافظ خطابی  رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨ھ) اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
وفی أمرہ بسدّ الأبواب الشارعۃ إلی المسجد غیر بابہ اختصاص شدید لہ ، وأنّہ أفردہ بأمر لا یشارکہ فیہ أحد ، وأوّل ما یصرف التأویل فیہ الخلافۃ ، وقد أکّد الدلالۃ علیہا بأمرہ إیّاہ بإمامۃ الصلاۃ التی لہا بنی المسجد ، ولأجلہا یدخل إلیہ من أبوابہ ، ولا أعلم دلیلا فی إثبات القیاس والردّ علی نفاتہ أقوی من إجماع الصحابۃ علی استخلاف أبی بکر ، مستدلّین فی ذلک باستخلاف النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم إیّاہ فی أعظم أمور الدین ، وہو الصلاۃ ، وإقامتہ إیّاہ فیہا مقام نفسہ ، فقاسوا علیہا سائر أمور الدین ۔
”آپ  رضی اللہ عنہ کے دروازے کے علاوہ مسجد میں کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرنے کے نبوی حکم میں سیدنا ابوبکر  رضی اللہ عنہ کی بڑی خصوصیت موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسے معاملے میں انفرادی حیثیت دی ہے کہ اس میں کوئی ان کا شریک نہیں ۔ اس کی سب سے پہلی تعبیر خلافت ہی ہے۔ اس کی دلالت کو مزید پختہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کو نماز کی امامت کے حکم نے کردیا ہے۔ نماز کے لیے ہی تو مسجد بنائی گئی تھی ، اسی نماز کے لیے اس کے دروازوں میں سے داخل ہواجاتا ہے۔ میں اس قیاس کے اثبات اور اس کی مخالفت کرنے والوں کے ردّ میں خلافت ِ ابوبکر پرصحابہ کرام کے اجماع سے بڑھ کر کوئی قوی دلیل نہیں جانتا ۔ صحابہ کرام ] اس بات سے دلیل لے رہے تھے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جیسے سب سے بڑے دینی معاملے میں اپنا نائب بنا دیا ہے اور اپنے مصلٰی امامت پرفائز کیاہے ۔انہوں نے اس نماز پر باقی امور ِ دین کو قیاس کرلیا۔”
(فتح الباری لابن رجب : ٢/٥٥٦)
دلیل نمبر 0 : جب سورہئ آلِ عمران کی آیت نمبر ١٦ نازل ہوئی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ عنہ ، سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا اور سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما کوبلا کرفرمایا:
(( اللّٰہمّ ہؤلاء أھلی ))۔”اے اللہ ! یہ میرے گھر والے ہیں۔”(صحیح مسلم : ٢٤٠٤)
تبصرہ : بے شک اس میں سیدناعلی  رضی اللہ عنہ  کی فضیلت ومنقبت ثابت ہوتی ہے، مگر وہ اس فضیلت میں منفرد نہیں ، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس میں شریک ہیں۔
سیدہ امِ سلمہ  رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعلی  رضی اللہ عنہ ، سیدناحسن  رضی اللہ عنہ ، سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ اورسیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا اوراپنے اوپر چادر ڈال کر اللہ تعالیٰ سے تین بار یہ دعا کی :
(( اللّٰہمّ أھلی بیتی ، أذہب عنہم الرجس ، وطہّرہم تطہیرا )) ،
”اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے ناپاکی کو دُور کر اور ان کو خوب پاک کردے۔”
میں نے کہا : ألست من أہلک ؟ قال : بلی ، فادخلی الکساء ، قالت : فدخلت فی الکســـاء بعد ما قضی دعـــــــاء ہ لابن عمّــــــہ علیّ وابنیہ وابنتہ فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہم ۔ ”کیا میں آپ کے اہل میں سے نہیں ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ چادر میں داخل ہوجائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے چچا زاد علی  رضی اللہ عنہ ، ان کے دونوں بیٹوں اور اپنی بیٹی فاطمہ  رضی اللہ عنہا کے لیے دعا کرنے کے بعد میں چادر میں داخل ہوگئی۔”(مسند الامام احمد : ٦/٢٩٨، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث سے” پنجتن”کی بجائے ”چھ تن”ثابت ہورہے ہیں۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ محترمہ امّ المومنین سیدہ امِ سلمہ   رضی اللہ عنہا کو بھی چادر کے نیچے رکھا۔
قارئین کرام ! یہ وہ دلائل ہیں ، جن کی بنیاد پر بعض لوگ اجماعِ صحابہ کی مخالفت میں سیدنا علی  رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلافصل ثابت کرتے ہیں ، نیز ان کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ اصحاب ِ رسول غاصب اورظالم تھے۔    العیاذ باللّٰہ !

اللہ ربّ العالمین کا یہ فضلِ عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کواپنی رحمت ومغفرت کے اسباب مہیا کیے ہیں ۔ ان میں سے ایک سبب سورہئ بقرہ کی آخری آیات ِ بیّنات بھی ہیں۔ ان کی فضیلت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنیے:
1    سیدنا حذیفہ بن یمان  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وأوتیت ہؤلاء الآیات من آخر سورۃ البقرۃ من کنز تحت العرش ، لم یعط مثلہ أحد قبلی ، ولا أحد بعدی ۔ ”مجھے سورہئ بقرہ کی یہ آخری آیات عرش کے نیچے خزانے سے دی گئی ہیں۔ ان جیسی آیات نہ پہلے کسی کو ملی ہیں اورنہ بعد میں کسی کو ملیںگی۔”
(السنن الکبرٰی للنسائی : ٨٠٢٢، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث ِ مبارکہ کوامام ابنِ خزیمہ  رحمہ اللہ (٢٦٤)اورامام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٦٤٠٠) نے ”صحیح” کہا ہے۔
2    سیدنا عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی تو تین چیزیں دی گئیں: ١۔ پانچ نمازیں ٢۔ سورہئ بقرہ کی آخری آیات اور ٣۔ شرک کے سوا ااپ کی امت کے لیے تمام گناہوں کی معافی۔”(صحیح مسلم : ١٧٣)
3    سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنّ اللّٰہ کتب کتابا قبل أن یخلق السماوات والأرض بألفی عام ، فأنزل منہ آیتین ختم بھما ســورۃ البقرۃ ، ولا تقرآن فی دار ثلاث لیال ، فیقرّ بہا شیطان ۔
”اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کی پیدائش سے دو ہزار پہلے ایک کتاب لکھی۔ اس میں سے دوآیات نازل فرمائیں، جن کے ساتھ سورہئ بقرہ کا اختتام فرمایا۔ جس بھی مکان میں یہ آیتیں دن راتیں پڑھ دی جائیں ، شیطان اس میں ٹھہر نہیں سکتا۔”
(مسند الامام احمد : ٤/٢٧٤، سنن الترمذی : ٢٨٨٢، وقال : حسن غریب ، مسند الدارمی : ٢/٤٤٩، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٢،٢/٢٦٠، وسندہ، صحیحٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان  رحمہ اللہ (٧٨٢)اورامام حاکم  رحمہ اللہ نے ”صحیح” کہا ہے ۔ حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
4    ابوالاسودظالم بن عمرو الدؤلی کہتے ہیں : ”میں نے سیدنا معاذ بن جبل  رضی اللہ عنہ سے کہا : آپ مجھے وہ قصہ بیان کریں،جب آپ نے شیطان کوپکڑ لیا تھا۔ انہوں نے بتایا : مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے صدقہ (کی حفاظت)پر متعین کیا۔ کھجوریں کمرے میں پڑی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ کم ہورہی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کھجوریں شیطان لے جاتا ہے۔ایک دن میں کمرے میں داخل ہوا اوردروازہ بند کردیا۔ اندھیرا اس قدر شدید تھا کہ اس نے دروازے کو ڈھانپ لیا۔ شیطان نے ایک صورت اختیار کی ،پھردوسری صورت اختیارکی ۔ وہ دروازے کے شگاف سے اندر گھس آیا۔ میں نے بھی لنگوٹا کس لیا۔ اس نے کھجوریں کھانا شروع کردیں۔ میں نے جھپٹ کر اُسے دبوچ لیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن ! (تو کیاکررہا ہے؟)اس نے کہا: مجھے جانے دو۔ میں بوڑھا ہوں اورکثیرالاولاد ہوں۔ میراتعلق نصیبین (بستی کانام) کے جنوں سے ہے۔ تمہارے صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )کی بعثت سے پہلے ہم بھی اسی بستی کے باسی تھے۔ جب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )مبعوث ہوئے توہمیں یہاں سے نکال دیاگیا۔ (خدارا!) مجھے چھوڑ دیں۔ میں دوبارہ کبھی نہیں آؤں گا۔ میں نے اسے چھوڑدیا۔ جبرئیلuنے آکر سارا معاملہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے صبح کی نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے منادی کرنے والے نے منادی کی کہ معاذ بن جبل کہاں ہے؟ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کے قیدی کا کیامعاملہ ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسارا معاملہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عنقریب دوبارہ ضرور آئے گا۔ آپ بھی دوبارہ جائیں۔ میں نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کردیا۔ شیطان آیا ،دروازے کے شگاف سے اندر گھسا اورکھجوریں کھانا شروع کردیں۔ میں نے اس کے ساتھ وہی پہلے والا معاملہ کیا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے دشمن! تُو نے آئندہ کبھی نہ آنے کا وعدہ کیاتھا ۔ اس نے کہا: میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب کوئی تم میں سے سورہئ بقرہ کی(آخری آیات للّٰہ ما فی السموات والأرض ۔۔۔ )نہیں پڑھے گا تواسی رات ہم میں سے کوئی اس کے گھر میں داخل ہوجائے گا۔”(الہواتف لابن ابی الدنیا : ١٧٥، دلائل النبوۃ لأبی نعیم : ٥٤٧، المعجم الکبیر للطبرانی : ٢٠/١٦١۔١٦٢، المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ١/٥٦٣، دلائل النبوۃ للبیہقی : ٧/١٠٩۔١١٠، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم  رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو”صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی  رحمہ اللہ نے اس حدیث کو”صحیح” قراردیا ہے۔
5    ابومسعود عقبہ بن عمرو انصاری بدری  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (( من قرأ بالآیتین من آخر سورۃ البقرۃ فی لیلۃ کفتاہ )) ”جوشخص رات کو سورہئ بقرہ کی آخری دوآیات پڑھ لے گا ، وہ اس کو کافی ہوجائیں گی۔”(صحیح البخاری : ٥٠٠٩، صحیح مسلم : ٨٠٨)
کافی ہونے کامطلب یہ ہے کہ ١۔ یہ شیطان کہ شرانگیزیوں سے حفاظت دیں گی۔ ٢۔ناگہانی مصائب اورآفات سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔ ٣۔ نماز ِ تہجد سے کفایت کریںگی۔
ذراسوچئے ! ہمارے گھرانے خیروبھلائی سے کس قدر محروم ہیں! اتنے بڑے نافع اور مفید عمل سے خالی اورشر سے لبریز ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ آپ اپنے گھر میں یہ سراسر خیروبرکت والا عمل کب شروع کرنے والے ہیں؟
6    سیدناابنِ عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جبرئیلu،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ناگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اوپر اٹھایا۔ جبرئیلuنے کہا : یہ آسمان کا ایک دروازہ ہے، جسے صرف آج کھولا گیا ہے۔ آج سے پہلے کبھی نہیں کھولاگیا۔ پھر اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا۔ جبرئیلuنے فرمایا: یہ فرشتہ جوآج اُترا ہے، آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا۔ اس فرشتے نے سلام کیا اورکہا: آپ کوان دو نُوروں کی بشارت ہوجوآپ کو دئیے گئے ہیںاورآپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دئیے گئے ۔ ایک سورہئ فاتحہ اوردوسرا سورہئ بقرہ کی آخری آیات ۔ آپ ان میں جو حرف بھی پڑھیں گے ، اس کا مصداق آپ کومل جائے گا۔”(صحیح مسلم : ٨٠٦)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.