1,658

کیا بھینس کو فقہ حنفی نے حلال کیا ؟۔۔۔ علامہ غلام مصطفی ظہیرا من پوری حفظہ اللہ

کیا بھینس کو فقہ حنفی نے حلال کیاہے ؟
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
موجود ہ دور میں بعض لوگ تجاہل عارفانہ کی روش اپناتے ہوئے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں بھینس کی حلت موجود نہیں ، بلکہ ہماری ”فقہ” نے اس کو حلال قرار دیا ہے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تقلیدی فقہ کو حلت و حرمت کا اختیار کس نے دیا ہے ؟ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :
( وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ) (النحل : ١١٦)
”کسی چیز کو اپنی زبانوں سے جھوٹ (میں)حلال یا حرام نہ کہہ دیا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھو ، جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں ، وہ کامیاب نہیں ہوتے ۔”
حافظ ابنِ کثیر   رحمہ اللہ ( م ٧٧٤ھ) اس آیت کی تشریح وتفسیر میں لکھتے ہیں :      ویدخل فی ھذا کلّ مبتدع ، من ابتدع بدعۃ ، لیس فیھا مستند شرعیّ ، أو حلّل شیأا ممّا حرّم اللّٰہ ، أو حرّم شیأا ممّا أباح اللّٰہ بمجرّد رأیہ وتشھیہ ۔     ”ہر وہ بدعتی اس حکم میں داخل ہے ، جس نے بدعت جاری کی ، جبکہ اس کے پاس اس بدعت پر شرعی ثبوت و دلیل نہیں ہے یا جس نے محض اپنی رائے اور نفسانی خواہش سے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا ۔”(تفسیر ابن کثیر : ٤/٧٥)
ثابت ہوا کہ حلال وحرام صرف وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول نے حلال وحرام قرار دیا ہے ۔
واضح رہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کامل دین لے کر آئے ہیں ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال وحرام کے بارے میں جامع اصول بیان کر دئیے ہیں ، جن کی روشنی میں ہم کسی چیز کے حلال وحرام ہونے کا پتا لگا سکتے ہیں ۔
دلیل نمبر 1 :      ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے : (اُحِلَّّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ)(المائدۃ : ١)
”تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کیے گئے ہیں ۔”
جو جانور حرام ہیں ، وہ دوسرے دلائل سے مستثنیٰ ہیں ، جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے ۔
امام قتادہ بن دعامہ تابعی   رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :     الأنعام کلّھا ۔
”سارے کے سارے جانور (حلال کر دئیے گئے ہیں )۔”(تفسیر طبری : ٩/٤٥٥، وسندہ، صحیحٌ)
اہل سنت کے امام ابنِ جریر طبری   رحمہ اللہ کے نزدیک یہی قول مختار ہے ۔
ابنِ عطیہ کہتے ہیں :      ھذا قول حسن ۔     ”یہ قول حسن(اچھا)ہے ۔”(تفسیر الشوکانی : ٢/٤)
اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع دیوبندی لکھتے ہیں :      ”اور لفظ ِ أنعام ، نعمٌ کی جمع ہے ، پالتو جانور ، جیسے اونٹ ، گائے ، بھینس ، بکری وغیرہ ، جن کی آٹھ قسمیں سورہ ئ انعام میں بیان فرمائی گئی ہیں ، ان کو ”انعام ”کہا جاتا ہے ، بھیمۃ کا لفظ عام تھا ، ”انعام ”کے لفظ نے اس کو خاص کر دیا ، مراد آیت کی یہ ہو گئی کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ قسمیں تمہارے لیے حلال کر دی گئیں ، لفظ عقود کے تحت ابھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ تمام معاہدات داخل ہیں ، ان میں سے ایک معاہدہ وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے حلال وحرام کی پابندی کے متعلق لیا ہے ، اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا بیان آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اونٹ ، بکری ، گائے ، بھینس وغیرہ کو حلال کر دیا ہے ، ان کو شرعی قاعدہ کے موافق ذبح کر کے کھا سکتے ہیں ۔”
(معارف القرآن از محمد شفیع دیوبندی : ٣/١٣)
دیکھئے ”مفتی” صاحب تو بھینس کی حلت قرآن سے ثابت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بھینس کو حلال قرار دیا ہے ۔
دلیل نمبر 2 :      بھینس کے بارے میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے اور اس کی حرمت پر نص قائم نہیں کی ، لہٰذا یہ حلال ہے ، کیونکہ :
b ارشادِ باری تعالیٰ ہے :     (قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہ، اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا)(الانعام : ١٤٥)
”کہہ دیجئے کہ مجھ پر نازل کی گئی وحی میں کسی کھانے والے پر مردا راور دمِ مسفوح (جو خون ذبح کے وقت بہتا ہے)کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں ۔”
حافظ ابنِ رجب لکھتے ہیں :      فھذا یدلّ علیٰ ما لم یوجد تحریمہ ، فلیس بمحرّم ۔
”یہ آیت ِ کریمہ اس قانون پر دلیل ہے کہ (شریعت میں کھانے پینے اور پہننے کی)جس چیز کی حرمت نہ پائی جائے ، وہ حرام نہیں ہے ۔”(جامع العلوم والحکم لابن رجب : ص ٣٨١)
سیدنا عبداللہ بن عباس    رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں :      کان أھل الجاھلیّۃ یأکلون أشیاء ویترکون أشیاء تقذّرا ، فبعث اللّٰہ تعالیٰ نبیّہ وأنزل کتابہ ، وأحلّ حلالہ وحرّم حرامہ ، فما أحلّ فھو حلال وما حرّم فھو حرام ، وما سکت عنہ فھو معفوّ ، وتلا : (قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا)الی آخر الآیۃ ۔
”اہل جاہلیت کچھ چیزیں کھا تے تھے اور کچھ کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل کی ، اپنے (نزدیک)حلال کو حلال اور اپنے (نزدیک) حرام کو حرام قرار دیا ، جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دیا ، وہ حلال اور جس کو اس نے حرام قراردیا ، وہ حرام ہے اور جس سے اس نے خاموشی اختیار کی ہے ، وہ معاف (حلال)ہے ، آپ (سیدنا ابنِ عباس   رضی اللہ عنہما  )نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا)(الانعام : ١٤٥)(کہہ دیجئے کہ مجھ پر نازل کی گئی وحی میں کسی کھانے والے پر مردار اور دم ِ مسفوح کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔۔۔)۔”(سنن ابی داو،د : ٣٨٠٠، وسندہ، صحیحٌ ، وقال الحاکم (٤/١١٥): صحیح الاسناد)
حافظ ابنِ کثیر   رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :      والمقصود من سیاق ھذہ الآیۃ الکریمۃ الرّدّ علی المشرکین الّذین ابتدعوا ما ابتدعوہ من تحریم المحرّمات علی أنفسھم بآرائھم الفاسدۃ من البحیرۃ والسّائبۃ والوصیلۃ والحام ونحو ذلک ، فأمر رسولہ أن یخبرھم أنّہ لا یجد فیما أوحاہ اللّٰہ الیہ أنّ ذلک محرّم ، وانّما حرّم ما ذکر فی ھذہ الآیۃ من المیتۃ والدّم المسفوح ولحم الخنزیر وما أھلّ لغیر اللّٰہ بہ ، وما عدا ذلک فلم یحرّم ، وانّما ھو عفو مسکوت عنہ ، فکیف تزعمون أنتم أنّہ حرام ، ومن أین حرّمتموہ ولم یحرّمہ ؟ وعلی ھذا فلا ینفی تحریم أشیاء أخر فیما بعد ھذا ، کما جاء النّھی عن لحوم الحمر الأھلیّۃ ولحوم السّباع وکلّ ذی مخلب من الطّیر علی المشہور من مذاھب العلماء ۔
”اس آیت ِ کریمہ کا مقصد مشرکین کا رد کرنا ہے ، جنہوں نے اپنی فاسد آراء سے اپنے آپ پر بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دینے کی بدعت جاری کی ، اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ وہ مشرکین کو خبر دیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحی میں یہ چیزیں حرام نہیں ہیں ، اس آیت ِ کریمہ میں مذکور مردار ، دم ِ مسفوح، خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جو غیراللہ کی طرف منسوب کی جائے ، کو ہی حرام قرار دیا گیا ہے ، ان کے علاوہ کسی چیز کو حرام نہیں کہا گیا ، باقی جو کچھ بھی ہے ، وہ معاف ہے اور اس سے سکوت اختیار کیا گیا ہے ، (جن چیزوں کی حرمت سے شریعت نے سکوت کیاہے)تم نے یہ کیسے سمجھ لیا ہے کہ یہ چیزیں حرام ہیںاور انہیں کیسے حرام قرار دیتے ہو ؟ یہ قاعدہ ان چیزوں کی نفی نہیں کرتا ، جن کی حرمت اس کے بعد وارد ہو چکی ہے ، جیسا کہ پالتو گدھوں ، درندوں اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں کے گوشت کی حرمت ہے ، علماء کا مشہور مذہب یہی ہے ۔”(تفسیر ابن کثیر : ٣/١٠٣۔١٠٤)
bb نیز ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :      (وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ)(الانعام : ١١٩)
”اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس چیز کو نہیں کھاتے ہو ، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہے ، حالانکہ اس نے تم پر حرام چیزوں کی تفصیل بیان کر دی ہے ، سوائے ان (حرام)چیزوں کے ، جن کے کھانے پر تم مجبور ہو جاؤ۔”
حافظ ابنِ رجب لکھتے ہیں :      فعنفھم علی ترک الأکل ممّا ذکر اسم اللّٰہ علیہ معلّلا بأنّہ قد بیّن لھم الحرام ، وھذا لیس منہ ، فدلّ علی أنّ الأشیاء علی الاباحۃ والّا لما ألحق اللّوم بمن امتنع من الأکل ممّا لم ینصّ علی حلّہ بمجرأد کونہ لم ینصّ علی تحریمہ ۔
”اللہ تعالیٰ نے انہیں ان چیزوں کے نہ کھانے پر ڈانٹا ہے ، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو ، وجہ یہ بیان کی کہ حرام تو تم پر واضح کردیا گیا ہے اور یہ چیز اس میں شامل نہیں ہے ، یہ آیت ِ کریمہ دلیل ہے کہ چیزوں میں اصل اباحت ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو ملامت کیوں کیا ہے ، جو اس چیز کے کھانے سے رک گیا ہے ، جس کی حلت و حرمت پر کوئی نص (دلیل)موجود نہیں ۔”(جامع العلوم والحکم لابن رجب : ص ٣٨١)
bbb سیدنا سعد بن ابی وقاص  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ئ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انّ أعظم المسلمین جرما من سأل عن شیء لم یحرّم ، فحرّم من أجل مسألتہ ۔
”مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے ، جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ، جو حرام نہیں تھی اور وہ اس کے سوال کرنے کی وجہ سے حرام ہو گئی ۔”
(صحیح بخاری : ٢/١٠٨٢، ح : ٧٢٨٩، صحیح مسلم : ٢/٢٦٢، ح : ٢٣٥٨)
مذکورہ بالا دونوں آیات اور حدیث سے یہ قاعدہ اور اصول اخذ ہوا کہ (کھانے ، پینے اور پہننے کی)ہر چیز اصل میں مباح اور حلال ہے ، جب حرمت پر کوئی نص وارد ہو جائے گی ، وہ حرام ٹھہرے گی ، ورنہ حلا ل ہو گی ۔
بھینس کی حرمت پر نص وارد نہیں ہوئی ، لہٰذا وہ شریعت کی رُو سے حلال ہے ۔
دلیل نمبر 3 :      سیدنا ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
کلّ ذی ناب من السّباع ، فأکلہ حرام ۔     ”ہر کچلی (نوک دار دانت جو اگلے دانتوں کے متصل ہوتے ہیں)والے درندے کا کھانا حرام ہے ۔”(صحیح مسلم : ٢/١٤٧، ح : ١٩٣٣)
بھینس شریعت کے اس اصول کے تحت بھی نہیں آتی ، کیونکہ یہ ذی ناب من السبّاع میں سے نہیں ہے ، اس کی حرمت پر بھی کوئی دلیل نہیں ، لہٰذا یہ حلال ہے ۔
دلیل نمبر 4 :      بھینس کے حلال ہونے پر اجماع و اتفاق ہے ، کسی نے اس کو حرام نہیں کہا ، یہ بھی ایک قوی دلیل ہے ، کیونکہ اجماعِ امت شریعت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے ۔
امام ابن المنذر   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر ۔
”تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع واتفاق ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے ۔”(الاجماع لابن المنذر : ٤٧)
حافظ ابنِ قدامہ المقدسی لکھتے ہیں :      لا خلاف فی ھذا نعلمہ ، وقال ابن المنذر : أجمع کلّ من یحفظ عنہ من أھل العلم علی ھذا ، ولأنّ الجوامیس من أنواع البقر ۔۔۔
”ہمیں اس میں اختلاف کا علم نہیں ہے ، ابن المنذر نے اس بات پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے ، نیز بھینس گائے کی ایک نوع ہے ۔”(المغنی لابن قدامۃ : ٢/٥٩٤)
حافظ ابنِ تیمیہ   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      الجوامیس بمنزلۃ البقر ، حکی ابن المنذر فیہ الاجماع ۔        ”بھینس گائے کی طرح ہے ، اس پر ابن المنذر نے اجماع بیان کیا ہے ۔”
(مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ٢٥/٣٧)
امام حسن بصری   رحمہ اللہ کہا کرتے تھے :      الجوامیس بمنزلۃ البقر ۔    ”بھینس ، گائے کی طرح ہی ہے ۔”(مصنف ابن ابی شیبۃ : ٣/٢١٩، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حزم   رحمہ اللہ لکھتے ہیں :      الجوامیس صنف من البقر ۔    ”بھینس ، گائے کی ایک نوع وقسم ہے ۔”(المحلّٰی لابن حزم : ٦/٢)
تنبیہ :      جو لوگ کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث سے بھینس کا حلال ہونا ثابت نہیں ہے ، ان سے درخواست ہے کہ مذکورہ بالا دلائل اور اجماعِ صحیح پر دوبارہ غور کر لیں اور اپنے مزعوم امام سے ، جن کی تقلید کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں ، سے باسند ِ صحیح بھینس کا حلال ہونا ثابت کردیں اور اگر نہ کر سکیں تو ۔۔۔۔۔
الحاصل :      بھینس شریعت کے اصول وقاعدہ کے مطابق حلال ہے ، جو شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے اسے حلال نہیں کیا ، وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم بہتان باندھتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.