750

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا؟ ۔ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یقینا سایہ تھا ، بعض لوگ حافظ سیوطی کی کتاب ”خصائصِ کبرٰی” میں ذکر کردہ روایت آپ کے سایہ کی نفی میں پیش کرتے ہیں ، جبکہ ائمہ اہلِ سنت میں سے کوئی بھی اس عقیدہ کا حامل نہیں رہا،” صحیح” احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ ئ مبارک ثابت ہے:
١٭ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے ، سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے اونٹوں میں ایک فالتو اونٹ تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، صفیہ رضی اللہ عنہا کا اونٹ بیمار ہو گیا ہے ، آپ اسے اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹ دے دیں تو بہتر ہے ، زینب رضی اللہ عنہا نے کہا ، میں ایک یہودیہ کو اونٹ دوں ؟ (صفیہ رضی اللہ عنہا ایک یہودی سردار حیی ئ بن اخطب کی بیٹی تھیں ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ زینب کے پاس دو یا تین ماہ تک نہ گئے ، سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں مایوس ہوگئی ، میں نے اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا دی ، کہتی ہیں :
فبینما أنا یوماً بنصف النّھار اذا أنا بظلّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم مقبل ۔
”ایک دن دوپہر کے وقت میں نے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آتے دیکھا۔” (مسند الامام احمد : ٦/١٣٢،٢٦١، طبقات ابن سعد : ٨/١٢٦۔١٢٧، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کی راویہ شمیسہ بنت ِ عزیز کے بارے میں امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ یہ ”ثقہ ” ہے ۔ (تاریخ الدارمی عن ابن معین : ت ٤١٨، الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٤/٣٩١)
نیز امام شعبہ نے اس سے روایت لی ہے ، وہ ”ثقہ ”سے روایت لینے میں مشہور ہیں ، اس پر ”جرح” کا ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں ہے ، لہٰذا بلاشبہ یہ ”ثقہ ”ہے ۔
یہی روایت سید ہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ۔(مسند الامام احمد : ٦/٣٣٨)
یہ حدیث نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ئ مبارک کے ثبوت پر نصِّ صریح ہے ۔
٢٭ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی ، اس دوران آپ نے اپنا ہاتھ مبارک پھیلایا ، پھر پیچھے کھینچ لیا ، جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے دریافت کیا ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس نماز میں ایک ایسا کام کیا ہے ، جو اس سے پہلے کبھی نہیں کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میںنے جنت دیکھی ، وہ مجھ پر پیش کی گئی ، اس میں مَیںنے انگوروں کی بیل دیکھی ، جس کے خوشے (گچھے )قریب قریب تھے ، اس کے دانے کدو کی طرح تھے ، میں نے اس سے کچھ کھانے کا ارادہ کیا تو جنت کی طرف اس بات کا اشارہ کیا گیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائے ، چنانچہ وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی ، اس جگہ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے ، حتّٰی رأیت ظلّی وظلّکم (یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا )، میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ تو میری طرف وحی کی گئی کہ ان کو اپنی جگہ کھڑا رہنے دیں ، بے شک آ پ نے بھی اسلام قبول کیا اور انہوں نے بھی اسلام قبول کیا ، آپ نے ہجرت کی اور انہوںنے بھی ہجرت کی ہے ، آپ نے جہاد کیا اور انہوں نے بھی جہاد کیا ، پھرنبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، میں نے اپنے لیے سوائے نبوّت کے تم پر کوئی فضیلت نہیں دیکھی ۔” (صحیح ابن خزیمۃ : ٢/٥١ ، وسندہ، صحیح)
اس حدیث کوامام ابوعوانہ (کما فی اتّحاف المہرۃ لابن حجر : ٢/١٢، ح : ١٠٩٦)اور حافظ الضّیاء المقدسی(المختارۃ : ٢١٣٦) نے ”صحیح ”کہا ہے ، امام ابوعوانہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ایک ہزار احادیث کے برابر ہے ۔
امام حاکم (٤/٤٥٢) نے اس کو ”صحیح الاسناد” اور حافظ ذہبی نے ” صحیح ” کہا ہے ۔
یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ئ مبارک کے ثبوت پر بیّن دلیل ہے ۔
تنبیہ : بعض الناس نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ئ مبارک کی نفی میں یہ روایت پیش کرتے ہیں:
أخرج الحکیم التّرمذیّ من طریق عبدالرّحمٰن بن قیس الزّعفرانیّ عن عبدالملک بن عبداللّٰہ بن الولید عن ذکوان أنّ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم لم یکن یُرٰی لہ ظلّ فی شمس ولا قمر۔
”نبی ئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ نہ سورج کی روشنی میں نظر آتا تھا نہ چاند کی چاندنی میں ۔ ” (الخصائص الکبرٰی للسّیوطی : ١/٧١)
تبصرہ : یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے ،(١) اس کا راوی عبدالرحمن بن قیس الزعفرانی ”متروک و کذاب” ہے ،(٢) عبد الملک بن عبداللہ کو ملا علی القاری حنفی نے ”مجہول ” کہا ہے ۔(شرح الشفاء : ٣/٢٨٢، طبع مصر)

اپنا تبصرہ بھیجیں

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.